جی ہاں بنایا تو اسلام کے نام پر ہی تھا۔جس طرح اس ملک میں پیدا ہونے والے بچوں کے نام عبداللہ، عبدالرحمان اور محمد علی رکھے جاتے ہیں، مگر ضروری تو نہیں یہ سارے مسلمان بچے بڑے ہو کر مسلمانوں والے کام کریں۔آج میرے آگے آگے ایک سرکاری گاڑی رواں تھی۔ پھر ہوا یوں کہ جس گروسری اسٹور میں مجھے جانا تھا، یہ سرکاری گاڑی بھی وہیں رکی۔ اس کا دروازہ کھلا اور ایک جاہل جپٹ انسان گاڑی سے اترا (سرکاری افسر بننے کے لیے یہ اہلیت لازمی ہے)۔ اور محلے کے بڑے گروسری اسٹور کے باہر سے ہی وہ چلایا،
'اپنے مینیجر کو بلاؤ۔' اتنے میں ایک سپاہی جس کی شرٹ کے پیچھے کمانڈو لکھا تھا، وہ اسٹور کے اندر داخل ہوا۔ کل تین یا چار 'سرکاری' افراد اسٹور کے عملے پر ایسے چلا رہے تھے گویا وہ لوگ اسٹور کے نہیں ان سرکاری مشٹنڈوں کے نوکر ہوں۔میں یہ سب ڈرامہ نظر انداز کر کے شاپنگ میں مصروف ہو گیا۔جب میں اپنے سامان سمیت کاؤنٹر پر پہنچا تو اس وقت تک طوفان بدتمیزی گزر کے جا چکا تھا۔
کراچی شہر ظالم طاغوتی نظام اور گورنمنٹ کے علاوہ سنت ابراہیمی کے نام پر سنت سر انجام دینے والے نام نہاد مسلمانوں کے ہاتھوں ایک بھنگی پاڑہ بنا ہوا ہے۔ قربانی کے جانوروں کی آلائشیں اور انسان نظر آنے والے عوام کے ذہنی آلائش سے اٹے اس شہر کا کچرہ جگہ جگہ ابھی تک بکھرا پڑا ہے۔
لوگوں کو پتہ ہے کہ حکومت نام کی چیز نہیں، کراچی اصل میں کچراچی بنا ہوا ہے۔ مگر ہفتوں پہلے قربانی کے جانور لا کر، ان کو گلی گلی نمائش پریڈ کروا کر، گلیوں میں رکاوٹیں لگا کر، ان کو اپنے باپ کی جاگیر میں بدل کر اور ان کو جانوروں کا باڑہ بنا کر یہ لوگ جانے کون سی سنت ادا کرتے ہیں۔
ان جاہل پاکستانیوں کو کوئی یہ بتا دے کہ دنیا کے اور ملکوں میں بھی لوگ مسلمان ہیں اور قربانی کرتے ہیں۔ مگر وہ اپنے گلی محلوں کو گوبر اور پیشاب سے لبریز کرنے کے بعد شہر کی سڑکوں اور چوراہوں پر جانوروں کی آنتیں نہیں پھینکتے۔ تہذیب یافتہ اور انسانیت کی حامل قومیں جانوروں کو مذبح خانوں میں رکھتی ہیں اور وہیں ان کو ذبح کیا جاتا ہے۔
جہاں ہمارے جیسے جاہل اور شیطان صفت نام نہاد مسلمان ہوں گے وہاں ایسی ہی شیطانی حکومت ہو گی۔ جو چھوٹے کاروباری حضرات کو قانون کے نام پر ڈرا دھمکا کر بھتہ وصول کرے گی۔۔۔ رشوت اور بھتہ وصولی میں سرکاری اہل کاروں کو فنڈز اور وسائل کی کمی نہیں ہوتی۔ فنڈز اور وسائل کی کمی صرف تب ہوتی ہے جب شہر کا کچرا اٹھانا ہو اور اس کی صفائی درکار ہو۔۔۔
دوسری طرف مسلمانوں کی کھال کھینچنے والے ملاؤں نے قربانی کے نام پر خوب کمائی کرنے کے بعد سوشل میڈیا پر اس سال بھی وہ حیران کن اعدادو شمار پھیلائے کہ کسانوں نے، بیوپاروں نے، رکشہ والوں نے، قصائیوں نے اور فلاں فلاں نے اتنے ارب کمائے اور آپ لوگوں کے قربانی کرنے سے یہ ہوگیا اور وہ ہوگیا۔ سب نے اربوں کما لیے مگر ان اربوں روپوں میں سے چند پیسے خرچ کر کے صفائی نصف ایمان کو عملاً نافذ نہیں کیا۔
'اپنے مینیجر کو بلاؤ۔' اتنے میں ایک سپاہی جس کی شرٹ کے پیچھے کمانڈو لکھا تھا، وہ اسٹور کے اندر داخل ہوا۔ کل تین یا چار 'سرکاری' افراد اسٹور کے عملے پر ایسے چلا رہے تھے گویا وہ لوگ اسٹور کے نہیں ان سرکاری مشٹنڈوں کے نوکر ہوں۔میں یہ سب ڈرامہ نظر انداز کر کے شاپنگ میں مصروف ہو گیا۔جب میں اپنے سامان سمیت کاؤنٹر پر پہنچا تو اس وقت تک طوفان بدتمیزی گزر کے جا چکا تھا۔
کراچی شہر ظالم طاغوتی نظام اور گورنمنٹ کے علاوہ سنت ابراہیمی کے نام پر سنت سر انجام دینے والے نام نہاد مسلمانوں کے ہاتھوں ایک بھنگی پاڑہ بنا ہوا ہے۔ قربانی کے جانوروں کی آلائشیں اور انسان نظر آنے والے عوام کے ذہنی آلائش سے اٹے اس شہر کا کچرہ جگہ جگہ ابھی تک بکھرا پڑا ہے۔
لوگوں کو پتہ ہے کہ حکومت نام کی چیز نہیں، کراچی اصل میں کچراچی بنا ہوا ہے۔ مگر ہفتوں پہلے قربانی کے جانور لا کر، ان کو گلی گلی نمائش پریڈ کروا کر، گلیوں میں رکاوٹیں لگا کر، ان کو اپنے باپ کی جاگیر میں بدل کر اور ان کو جانوروں کا باڑہ بنا کر یہ لوگ جانے کون سی سنت ادا کرتے ہیں۔
ان جاہل پاکستانیوں کو کوئی یہ بتا دے کہ دنیا کے اور ملکوں میں بھی لوگ مسلمان ہیں اور قربانی کرتے ہیں۔ مگر وہ اپنے گلی محلوں کو گوبر اور پیشاب سے لبریز کرنے کے بعد شہر کی سڑکوں اور چوراہوں پر جانوروں کی آنتیں نہیں پھینکتے۔ تہذیب یافتہ اور انسانیت کی حامل قومیں جانوروں کو مذبح خانوں میں رکھتی ہیں اور وہیں ان کو ذبح کیا جاتا ہے۔
جہاں ہمارے جیسے جاہل اور شیطان صفت نام نہاد مسلمان ہوں گے وہاں ایسی ہی شیطانی حکومت ہو گی۔ جو چھوٹے کاروباری حضرات کو قانون کے نام پر ڈرا دھمکا کر بھتہ وصول کرے گی۔۔۔ رشوت اور بھتہ وصولی میں سرکاری اہل کاروں کو فنڈز اور وسائل کی کمی نہیں ہوتی۔ فنڈز اور وسائل کی کمی صرف تب ہوتی ہے جب شہر کا کچرا اٹھانا ہو اور اس کی صفائی درکار ہو۔۔۔
دوسری طرف مسلمانوں کی کھال کھینچنے والے ملاؤں نے قربانی کے نام پر خوب کمائی کرنے کے بعد سوشل میڈیا پر اس سال بھی وہ حیران کن اعدادو شمار پھیلائے کہ کسانوں نے، بیوپاروں نے، رکشہ والوں نے، قصائیوں نے اور فلاں فلاں نے اتنے ارب کمائے اور آپ لوگوں کے قربانی کرنے سے یہ ہوگیا اور وہ ہوگیا۔ سب نے اربوں کما لیے مگر ان اربوں روپوں میں سے چند پیسے خرچ کر کے صفائی نصف ایمان کو عملاً نافذ نہیں کیا۔
Last edited by a moderator: