redaxe
Politcal Worker (100+ posts)
پاکستان فوج قدامت پسندی سے گزشتہ چار دہائیوں میں کیسے متاثر ہوئی اور اس نے کیا اتار چڑھاؤ دیکھا اس کے جواب کا انحصار اس بات پر ہے کہ یہ سوال کس سے پوچھا جا رہا ہے اوراس کے نزدیک قدامت پسندی کیا ہے۔
بیشتر لوگ تو اس پر بھی متفق نہیں کہ پاکستان فوج کی ریڈیکلائزیشن کا آغاز کب ہوا۔ چند لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کا سہرا ذوالفقار علی بھٹو کے سر ہے۔ جماعت اسلامی کے خورشید احمد ان رہنماؤں میں شامل ہیں جو تمام تر ذمہ داری ذوالفقار علی بھٹو پر ڈالتے ہیں۔
’ایمان اتحاد اور جہاد کا نعرہ پاکستان فوج نے بھٹو کے دور اقتدار میں اپنایا تھا۔‘
مگر مؤرخ حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ اکہتر کی جنگ کے بعد، علاقائی قوم پرستی کی غیر موجودگی میں، پاکستان کو اسلام کے پرچم تلے متحد کرنا بھٹو کی سیاسی مجبوری تھی۔ اس رجحان کو فروغ دینے والے ضیاءالحق تھے۔
’اس دور میں، آپ کی شناخت اسلام سے ہوا کرتی تھی، نہ کے پاکستان سے۔ یہ سکولوں کے نصاب سے واضح تھا۔ پھر سرکاری میڈیا کا اس کے فروغ میں اہم کردار تھا۔ اور مذہب کی بنیاد پر، سرکاری سطح پر لوگوں کو نوازنے کی وجہ سے، اس رجحان کو فروغ ملا۔ مگر سب سے اہم کردار جماعتِ اسلامی نے ادا کیا تھا جس کو پہلی مرتبہ فوج تک رسائی حاصل ہوئی تھی‘۔
ضیاء الحق کا خیال تھا کہ اسلام کی بات فوج کی سالمیت کے لیے مفید ہوگی اور روسی فوج کے خلاف، افغان اور پاکستانی مزاحمت کاروں کو نہ صرف ترغیب دے گی بلکہ انہیں متحد بھی رکھے گی۔
آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل حمید گل آج بھی اس سوچ کے حامی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قوم کی تشکیل میں اسلام کی اہمیت کی وجہ سے ملت اسلامیہ کا خیال کچھ غلط نہیں۔
’انگریزوں کو بھی احساس تھا کہ مذہب کی بنیاد پر قائم کسی بھی معاشرے میں لوگوں سے وفاداری حاصل کرنے کے لیے انہیں مذہبی آزادی دینا لازمی ہے۔ آپ مذہب اور وفاداری کو علیحدہ نہیں کر سکتے‘۔ تاہم حمیدگل یہ ماننے کو تیار ہیں کہ یہ اسلامائیزیشن مہم خود ضیاء کے اقتدار کا جواز تھا۔نہ ہی وہ اس خیال سے متفق ہیں کہ فوج میں ضرورت سے زیادہ اسلامائزیشن دیکھی گئی۔
لیکن اسی دور کے ایک اور فوجی افسر ریٹائرڈ لفٹینٹ جنرل جاوید اشرف قاضی کہتے ہیں کے اُس دور میں فوج میں بھی کئی اسلامی تبدیلیاں دیکھی گئیں۔
’ضیاء کے دور میں، مولوی کی فوجی یونٹ میں اہمیت بڑھ گئی تھی اور انہوں نے یونٹ کی سماجی زندگی پر فیصلہ صادر کرنے شروع دیے۔ ورزش کے دوران نیکر پہنے پر اعتراض‘ ٹی وی دیکھنے پر اعتراض۔ تبلیغ پر جانے کی اجازت، نماز کے ادائیگی لازمی کرنا، یہ سب ضیاء کے دور میں ہوا تھا‘۔
پھر انیس سو پچانوے میں میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی نے اسلامی نظام کے نام پر بغاوت کی کوشش کی۔ میجر جنرل عباسی پر الزام تھا کہ چند عسکری عہدے داروں کے ہمراہ وہ وزیراعظم بینظیر بھٹو اور فوجی سربراہ وحید کاکڑ کو قتل کر کے، شرعی نظام نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
جب لیفٹینٹ جنرل جہانگیر کرامت کو اس منصوبے کا علم ہوا تو میجر جنرل عباسی اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا اور فوجی عدالت نے عباسی کو سات سال قید کی سزا سنائی۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ بغاوت رجعت پسندی کے خطرات کے حوالے سے اعلی فوجی قیادت کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوئی۔
جاوید اشرف قاضی کہتے ہیں کہ اس وقت فوج نے ادارے کے اندر قدامت پسندی کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ ’جنرل مرزا اسلم بیگ کے دور میں، خطبوں کی کتاب شائح ہوئی تھی، جس کا مقصد مولوی کی آزادی کو ختم کرنا تھا۔ یونٹ کا مولوی ہونے کے لیے، نہ صرف آپ کو کم از کم بی اے ہونا تھا بلکہ آپ اپنے آپ کو دیوبندی یا بریلوی نہیں بتا سکتے تھے۔ نماز کی ادائیگی کے لازمی اوقات ختم ہو گئے اور تبلیغ کی حوصلہ شکنی کی گئی‘۔
تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت بہت دیر ہوگئی تھی۔ حسن عسکری رضوی کے مطابق ’پاکستان میں کئی نسلیں اس نظریے کے تحت جوان ہوئی ہیں۔ فوج کی بھرتی سندھ اور بلوچستان میں بڑھی ہے مگر سارا معاشرہ زیادہ قدامت پسند ہوگیا ہے، اور فوج اس کی عکاسی کرتی ہے۔ پینسٹھ سے ستر فیصد فوج پنجاب سے تعلق رکھتی ہے، جو کہ زیادہ کنزرویٹو ہے‘۔
اس حوالے سے فوجی ترجمان میجر جنرل اطہر عباس کہتے ہیں ’فوجیوں کی نبض پر اعلیٰ قیادت کا ہاتھ ہوتا ہے‘۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ فوجی اور سیاسی قیادت کو اب انتہاپسندی کے خلاف پالیسی تبدیل کرنی ہوگی اور اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

بیشتر لوگ تو اس پر بھی متفق نہیں کہ پاکستان فوج کی ریڈیکلائزیشن کا آغاز کب ہوا۔ چند لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کا سہرا ذوالفقار علی بھٹو کے سر ہے۔ جماعت اسلامی کے خورشید احمد ان رہنماؤں میں شامل ہیں جو تمام تر ذمہ داری ذوالفقار علی بھٹو پر ڈالتے ہیں۔
’ایمان اتحاد اور جہاد کا نعرہ پاکستان فوج نے بھٹو کے دور اقتدار میں اپنایا تھا۔‘
مگر مؤرخ حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ اکہتر کی جنگ کے بعد، علاقائی قوم پرستی کی غیر موجودگی میں، پاکستان کو اسلام کے پرچم تلے متحد کرنا بھٹو کی سیاسی مجبوری تھی۔ اس رجحان کو فروغ دینے والے ضیاءالحق تھے۔
ضیاء کے دور میں، مولوی کی فوجی یونٹ میں اہمیت بڑھ گئی تھی اور انہوں نے یونٹ کی سماجی زندگی پر فیصلہ صادر کرنے شروع دیے۔ ورزش کے دوران نیکر پہنے پر اعتراض، ٹی وی دیکھنے پر اعتراض۔ تبلیغ پر جانے کی اجازت، نماز کے ادائیگی لازمی کرنا، یہ سب ضیاء کے دور میں ہوا تھا۔
’اس دور میں، آپ کی شناخت اسلام سے ہوا کرتی تھی، نہ کے پاکستان سے۔ یہ سکولوں کے نصاب سے واضح تھا۔ پھر سرکاری میڈیا کا اس کے فروغ میں اہم کردار تھا۔ اور مذہب کی بنیاد پر، سرکاری سطح پر لوگوں کو نوازنے کی وجہ سے، اس رجحان کو فروغ ملا۔ مگر سب سے اہم کردار جماعتِ اسلامی نے ادا کیا تھا جس کو پہلی مرتبہ فوج تک رسائی حاصل ہوئی تھی‘۔
ضیاء الحق کا خیال تھا کہ اسلام کی بات فوج کی سالمیت کے لیے مفید ہوگی اور روسی فوج کے خلاف، افغان اور پاکستانی مزاحمت کاروں کو نہ صرف ترغیب دے گی بلکہ انہیں متحد بھی رکھے گی۔
آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل حمید گل آج بھی اس سوچ کے حامی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قوم کی تشکیل میں اسلام کی اہمیت کی وجہ سے ملت اسلامیہ کا خیال کچھ غلط نہیں۔
’انگریزوں کو بھی احساس تھا کہ مذہب کی بنیاد پر قائم کسی بھی معاشرے میں لوگوں سے وفاداری حاصل کرنے کے لیے انہیں مذہبی آزادی دینا لازمی ہے۔ آپ مذہب اور وفاداری کو علیحدہ نہیں کر سکتے‘۔ تاہم حمیدگل یہ ماننے کو تیار ہیں کہ یہ اسلامائیزیشن مہم خود ضیاء کے اقتدار کا جواز تھا۔نہ ہی وہ اس خیال سے متفق ہیں کہ فوج میں ضرورت سے زیادہ اسلامائزیشن دیکھی گئی۔

لیکن اسی دور کے ایک اور فوجی افسر ریٹائرڈ لفٹینٹ جنرل جاوید اشرف قاضی کہتے ہیں کے اُس دور میں فوج میں بھی کئی اسلامی تبدیلیاں دیکھی گئیں۔
’ضیاء کے دور میں، مولوی کی فوجی یونٹ میں اہمیت بڑھ گئی تھی اور انہوں نے یونٹ کی سماجی زندگی پر فیصلہ صادر کرنے شروع دیے۔ ورزش کے دوران نیکر پہنے پر اعتراض‘ ٹی وی دیکھنے پر اعتراض۔ تبلیغ پر جانے کی اجازت، نماز کے ادائیگی لازمی کرنا، یہ سب ضیاء کے دور میں ہوا تھا‘۔
پھر انیس سو پچانوے میں میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی نے اسلامی نظام کے نام پر بغاوت کی کوشش کی۔ میجر جنرل عباسی پر الزام تھا کہ چند عسکری عہدے داروں کے ہمراہ وہ وزیراعظم بینظیر بھٹو اور فوجی سربراہ وحید کاکڑ کو قتل کر کے، شرعی نظام نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
جب لیفٹینٹ جنرل جہانگیر کرامت کو اس منصوبے کا علم ہوا تو میجر جنرل عباسی اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا اور فوجی عدالت نے عباسی کو سات سال قید کی سزا سنائی۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ بغاوت رجعت پسندی کے خطرات کے حوالے سے اعلی فوجی قیادت کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوئی۔
جنرل مرزا اسلم بیگ کے دور میں، خطبوں کی کتاب شائح ہوئی تھی، جس کا مقصد مولوی کی آزادی کو ختم کرنا تھا۔ یونٹ کا مولوی ہونے کے لیے، نہ صرف آپ کو کم از کم بی اے ہونا تھا بلکہ آپ اپنے آپ کو دیوبندی یا بریلوی نہیں بتا سکتے تھے۔ نماز کی ادائیگی کے لازمی اوقات ختم ہو گئے اور تبلیغ کی حوصلہ شکنی کی گئی۔
جاوید اشرف قاضی کہتے ہیں کہ اس وقت فوج نے ادارے کے اندر قدامت پسندی کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ ’جنرل مرزا اسلم بیگ کے دور میں، خطبوں کی کتاب شائح ہوئی تھی، جس کا مقصد مولوی کی آزادی کو ختم کرنا تھا۔ یونٹ کا مولوی ہونے کے لیے، نہ صرف آپ کو کم از کم بی اے ہونا تھا بلکہ آپ اپنے آپ کو دیوبندی یا بریلوی نہیں بتا سکتے تھے۔ نماز کی ادائیگی کے لازمی اوقات ختم ہو گئے اور تبلیغ کی حوصلہ شکنی کی گئی‘۔
تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت بہت دیر ہوگئی تھی۔ حسن عسکری رضوی کے مطابق ’پاکستان میں کئی نسلیں اس نظریے کے تحت جوان ہوئی ہیں۔ فوج کی بھرتی سندھ اور بلوچستان میں بڑھی ہے مگر سارا معاشرہ زیادہ قدامت پسند ہوگیا ہے، اور فوج اس کی عکاسی کرتی ہے۔ پینسٹھ سے ستر فیصد فوج پنجاب سے تعلق رکھتی ہے، جو کہ زیادہ کنزرویٹو ہے‘۔
اس حوالے سے فوجی ترجمان میجر جنرل اطہر عباس کہتے ہیں ’فوجیوں کی نبض پر اعلیٰ قیادت کا ہاتھ ہوتا ہے‘۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ فوجی اور سیاسی قیادت کو اب انتہاپسندی کے خلاف پالیسی تبدیل کرنی ہوگی اور اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
source: http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/06/110621_raidical_army_zs.shtml