پاکستانی جعلی دیسی لبرلز اور جھوٹے سیکولرز بنگلہ دیش میں پاکستانی فوجیوں کے مبینہ مظالم پر تو چاؤن چاؤن کرتے نہیں تھکتے اور ان کو پاکستان میں کبھی کوئی شے اچھی نہیں لگی
یہ جعلی دیسی لبرلز یوں تو اس بات کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ ان کو تمام حقائق تک رسائی ہے اور وہ ہر چیز کی حقیقت جانتے ہیں
تو اس حقیقت کے بارے میں کیوں پینسٹھ سال سے آنکھیں بند کر رکھی تھی ، صرف اس وجہ سے کہ مرنے والے مسلمان تھے
حمود الرحمٰن کمشن رپورٹ کو شایع کرنے کا واویلا کرنے والے جھوٹے سیکولرز اس رپورٹ بارے کیوں خاموش رہے ہیں
" سنہ 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے دوران پاکستان اور بھارت کی سرحد کے قریب فسادات میں پانچ لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔ لیکن ایک سال بعد ہی وسط بھارت میں ایک اور قتلِ عام ہوا جس کی تفصیلات کو اب تک راز میں رکھا گیا ہے۔
سنہ 1948 کے ستمبر اور اکتوبر میں ہزاروں افراد کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ کچھ کو صفوں میں کھڑا کر کے بھارتی فوجیوں نے فائرنگ کر کے مار ڈالا۔
تاہم حکومت کی جانب سے اس واقعے کی تحقیقات کی رپورٹ کبھی منظرِ عام پر نہیں لائی گئی اور بہت ہی کم لوگ اس قتلِ عام کے بارے میں جانتے ہیں۔
ناقدین بھارتی حکومتوں پر اس بارے میں رپورٹ کو شائع نہ کرنے پر تنقید کرتے ہیں۔
یہ قتلِ عام بھارت کے وسط میں واقع ریاست حیدر آباد میں ہوا۔ حیدر آباد ان پانچ سو ریاستوں میں سے ایک تھی جن کو برطانوی راج میں خودمختار ریاست کا درجہ حاصل تھا۔
تقسیم ہند پر تمام ریاستیں بھارت کا حصہ بننے پر تیار تھیں لیکن حیدر آباد کے نظام یا پرنس کا کہنا تھا کہ وہ خودمختار ہی رہیں گے۔ ہندو اکثریت کی بھارتی حکومت کو یہ بات پسند نہ آئی۔
حیدر آباد اور حکومت کے درمیان یہ معاملہ افہام و تفہیم سے طے نہ ہو سکا اور حکومت کی برداشت کی طاقت ختم ہوگئی۔ حکومت یہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ وسط بھارت میں ایک مسلمان ریاست کو خودمختار رہنے دیا جائے۔
ستمبر 1948 میں اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے فوج کو حیدر آباد میں داخل ہونے کے احکامات جاری کیے۔
اس کارروائی کو پولیس ایکشن کہا گیا لیکن اصل میں یہ فوج کی کارروائی تھی۔ حیدر آباد کے نظام کی فوج کو چند ہی روز میں شکست ہو گئی۔ اس کے بعد دہلی میں آگ لگانے، لوٹ مار، قتلِ عام اور جنسی زیادتیوں کی خبریں آنا شروع ہوئیں۔
وزیر اعظم نے ایک ٹیم تشکیل دی جس میں مختلف مذاہب کے افراد شامل تھے کہ وہ حیدر آباد جائیں اور تحقیقات کریں۔ اس ٹیم کی قیادت کانگریس کے رکن پنڈت سندر لال نے کی۔ اس ٹیم نے ریاست میں واقع کئی دیہات کا دورہ کیا، لیکن ان کی تشکیل کردہ رپورٹ کبھی منظرِ عام پر نہیں آئی۔
انھوں نے ہر گاؤں میں بچ جانے والوں مسلمانوں پر کی گئی زیادتی کے احوال ریکارڈ کیے: ہمارے پاس ٹھوس ثبوت تھے کہ کئی موقعوں پر بھارتی فوج اور پولیس اہلکاروں نے بھی مسلمانوں کے خلاف کی گئی زیادتی میں حصہ لیا۔
ان دوروں میں ہمیں معلوم ہوا کہ کئی جگہوں پر فوجیوں نے مسلمانوں کی دکانیں اور مکانوں کو لوٹنے اور تباہ کرنے کے لیے ہندوؤں کی حوصلہ افزائی کی۔
اس ٹیم کے مطابق ایک طرف جہاں مسلمانوں کو بھارتی فوج نے غیر مسلح کردیا تھا تو دوسری طرف ہندو برادری کو غیر مسلح نہیں کیا گیا۔
کئی موقعوں پر فوج نے خود مسلمانوں کو قتل کیا: کئی دیہات اور قصبوں میں بھارتی سکیورٹی فورسز نے مسلمان مردوں کو مکانوں سے نکالا اور اور ان کو قتل کیا۔
اس خفیہ سندر لال رپورٹ میں ہندوؤں کی جانب سے کی گئی بہیمانہ کارروائیوں کا احوال بھی درج کیا گیا ہے۔
کئی علاقوں میں ہمیں کنویں دکھائے گئے جو اس وقت بھی لاشوں سے بھرے پڑے تھے۔ ایک جگہ ہم نے گیارہ لاشیں گنیں جن میں ایک بچہ ایک عورت کی چھاتی کے ساتھ چمٹا ہوا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے ہم نے کھڈوں میں لاشیں پڑی دیکھیں۔ کئی جگہوں پر مسلمانوں کی لاشوں کو آگ لگائی گئی تھی اور ہم جلی ہوئی لاشیں اور کھوپڑیاں دیکھ سکتے تھے۔
سندر لال رپورٹ کے مطابق اس دوران 27 سے 40 ہزار افراد کو قتل کیا گیا۔
اس رپورٹ کے شائع نہ کرنے کے حوالے سے کوئی سرکاری موقف نہیں دیا گیا ہے۔ بہت سے لوگوں کو یہ نہیں معلوم کہ اب یہ رپورٹ دہلی کے نہرو میموریئل میوزیئم اور لائبریری میں رکھی گئی ہے۔
حال ہی میں میڈیا اس بات پر زور دے رہا ہے کہ اس رپورٹ کو عام کیا جائے تاکہ لوگ اس کو پڑھ کر اس واقعے کے بارے میں مزید جان سکیں۔"
http://www.bbc.co.uk/urdu/india/2013/09/130924_hyderabad_massacre_rh.shtml
ف ج