تاریخ: 16 ستمبر 2014
نواز شریف حکومت کے خاتمے کا اعلان کریں
تحریر: سید انور محمود
نواز شریف کے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد عام پاکستانی عوام کو اُن کی حکومت سے بہتری کی امید تھی۔ عوام پانچ سال تک پیپلز پارٹی کی جمہوریت کے نام پر لوٹ مار اور بدترین گورننس میں پستے رہے، گیارہ مئی دو ہزار تیرہ کے انتخابات کے موقعہ پر نواز شریف اپنے جلسوں میں معاشی بدحالی،کرپشن، لوڈ شیڈنگ، طرزِ حکمرانی اور بے روز گاری پر پیپلز پارٹی کی قیادت پر شدید تنقید کیا کرتے تھے اور وعدہ کرتے تھے کہ اگر ہماری حکومت آگئی تو لوڈ شیڈنگ ختم کر دینگے، کشکول توڑ دینگے ، بین الاقوامی قرضے لینا بند کر دینگے۔عمران خان کے انتخابی دھاندلیوں کےالزامات سے پہلے ایسا کہا جاتا تھا کہ لوگوں کو لگا شاید نواز شریف کچھ کریں گے، لہذا نواز شریف کو کامیاب کرواکر وزیراعظم بنوادیا، عوام نے نواز شریف کو اُنکے وعدوں پر منتخب کیا، نواز شریف اپنے وعدئے تو کیا پورئے کرتے الٹاعوام کی مشکلات میں اضافہ کرتے چلے گے۔ نواز شریف کا خیال ہے کہ چونکہ اب اُنکی باری تھی اسلیے وہ وزیراعظم بنے ہیں۔ وہ ملکی مسائل کی طرف کم اور غیر ملکی دوروں کی طرف زیادہ راغب رہے، یہ ہی وجہ ہے کہ مختلف لوگوں نے اُنکو "پارٹ ٹائم وزیراعظم " کا خطاب دیا۔ ایک وزیراعظم سےاُسکے عوام یہ اُمید کرتے ہیں کہ مشکل حالات میں وہ اپنے لوگوں کے درمیان موجود ہوگالیکن نوازشریف ہر مشکل وقت میں اپنی قوم سے دور کسی غیر ملکی دورئے پرہوتے تھے، چاہئے وہ پشاور کے ایک چرچ میں ہونے والا دہشت گردی کا حملہ ہو، یا دہشت گردوں کے خلاف آپریشن۔ نوازشریف نے وعدہ کیا تھا کہ وہ پاکستان کو اقتصادی طور آگے بڑھانے کی کوشش کرینگے، لیکن ان کی ترقی کے بارے میں سوچ میٹرو بسوں اور موٹرویز تک ہی محدود ہے۔ اُن کی نظر میں معیشت میں ترقی اسٹاک مارکیٹ میں تیزی، غیرملکی زرمبادلہ اور روپے کی قیمت میں بہتری ہوجانا کافی ہے۔
اس سال گیارہ مئی سے پہلے تک عمران خان نواز شریف سے یہ مطالبہ کرتے رہے کہ انتخابات میں چونکہ دھاندلی ہوئی ہے لہذا صرف چار حلقوں میں دوبارہ چیکنگ کرادو، جواب میں حکومت کی طرف سے کہا جاتا تھا کہ یہ کام حکومت کا نہیں ہے الیکشن کمیشن کا ہے، اور آج وہی حکومت جب دھرنوں کی لپیٹ میں آئی ہوئی ہے تو چار نہیں تیس حلقوں کو دوبارہ چیک کرنے کو تیار ہے۔ انتخابات کے دن ہی پورئے پاکستان سے یہ شور اٹھا تھاکہ انتخاب میں دھاندلی ہوئی ہے لیکن بہت چالاکی کے ساتھ پورئے ملک کو چھوڑکر صرف کراچی کو ٹارگیٹ کیا گیا تاکہ باقی ملک میں دھاندلی کا کاروبار چلتا رہے۔ میڈیا اس کام میں پیش پیش تھا جبکہ "جیو ٹی وی" یہ کام خاص طور پر کررہا تھا، اس کام کےلیے حامد میر کو خاص طور پر کراچی بھیجا گیا تھا۔ ایسا نہیں کہ کراچی میں دھاندلی نہیں ہوئی ، ضرور ہوئی لیکن باقی ملک میں بھی ہوئی، کیا وجہ ہے کہ عمران خان صرف پاکستان مسلم لیگ ن کی جیت کو چیلنج کررہے ہیں، وہ پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم کے خلاف وہ الزامات کیوں نہیں لگارہے جو پاکستان مسلم لیگ ن پر لگارہے ہیں۔ اس کی سیدھی سیدھی وجہ یہ ہے کہ اقتدار میں آنے کےلیے نواز شریف نے سارا کھیل پنجاب میں کھیلا۔ آج جب گذشتہ ایک ماہ سے اسلام آباد دو دھرنوں سے گھرا ہوا ہے اور ملک سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہے، ملک کے وزیراعظم فرماتے ہیں کہ ہمیں تو پتہ ہی نہیں کہ پانی کہاں سے آگیا۔ ایک سوال یہ ہے کہ نواز شریف کی سابقہ دو حکومتوں اور موجودہ حکومت میں کیا فرق ہے تو جواب ملتا ہے دو سابقہ حکومتیں نواز شریف اور اُنکے رفقا کی بری کاکردگی کی وجہ سے ختم ہوئیں لیکن موجودہ تیسری حکومت ایک بدترین حکومت ہے، ماڈل ٹاؤن کا سانحہ اور پولیس کا تشدد طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا نوازشریف کی حکومت کا بڑا کارنامہ ہے۔
پندرہ ماہ میں نواز شریف کی حکومت نے نہ تو کشکول توڑا اور نہ ہی عوام کو کسی قسم کی سہولت دی بلکہ عوام کی مشکلات میں اور اضافہ ہوگیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کےاقتدار میں آنے کا مقصد صرف اور صرف اپنے اثاثے بڑھانا ہوتا ہے، یہ علی بابا چالیس چور ہیں، انکو ملک سے کوئی ہمدردی نہیں ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ نواز حکومت میں اقتدار یا تو اُنکےخاندان میں بٹا ہوا ہے یا صرف چند قریبی دوستوں میں، کوئی وزیر خارجہ نہیں، وزیر خزانہ جو وزیراعظم کے سمدھی بھی ہیں ایک ناکام وزیر خزانہ ہیں، لیکن کشکول کا سائز بڑا کرنے میں ماہر ہیں۔ خارجہ پالیسی کا یہ حال ہے کہ گذشتہ تین ماہ سے اسلام آباد میں سعودی سفیر موجود نہیں ہے جبکہ ریاض میں کوئی پاکستانی سفیر موجود نہیں ہے۔ بھارت بغیر کسی اطلاع کے ہمارئے دریاوں میں پانی چھوڑ دیتا ہے، ملک میں سیلاب آجاتا ہے مگر کیا مجال کہ پاکستانی وزارت خارجہ نے بھارت سے کوئی شکوہ کیا ہو۔ ویسے تو پورئے ملک میں اسٹریٹ کرائم، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان ، دہشت گردی ہورہی ہے لیکن کراچی کے حالات ان جرائم کی وجہ سے بہت خراب ہیں۔ نواز شریف نے کراچی میں ایک سال پہلے رینجرز اور پولیس کےزریعے ان جرائم کے خلاف آپریشن شروع کیا لیکن آج ایک سال بعد بھی کراچی کی وہی صورتحال ہے جو ایک سال پہلے تھی۔ کراچی کے صنعتکار، بزنس کیمونٹی اور عوام وزیر اعظم کی کراچی آمد پر ہر مرتبہ واضح طور پر مطالبہ کر چکے ہیں کہ کراچی کو فوج کے حوالے کر دیا جائے۔ مگر کراچی کی مخدوش صورتحال کے باوجود اُس کو آرٹیکل 245کے تحت فوج کے حوالے نہیں کیا گیا ۔ جبکہ اسلام آباد میں دھرنے شروع بھی نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی کوئی دہشت گردی ہوئی تھی پھربھی وہاں آرٹیکل 245 لاگو کردیاگیاآخر اس کا کیا جواب ہے، کیا کراچی کےعوام لاوارث ہیں؟۔
بظاہر عمران خان اور طاہر القادری بند گلی میں بند ہوگے ہیں اور اُنکے دھرنے ناکام ہو چکے ہیں لیکن حکومت بھی پوری طرح فلاپ ہوچکی ہے۔ نواز شریف اور اُنکی ٹیم کی نااہلیت کی وجہ سے ملک بدترین سیاسی انتشارکا شکار ہے، اور اس وجہ سے ملک کی معاشی صورتحال روز بروز خراب ہورہی ہے۔ پاکستان کے عوام جو پہلے ہی پریشان تھے مزید پریشان ہوچکے ہیں، اُنکے لیے ضروریات زندگی کا حصول مشکل ہوگیا ہے، بجلی کا بل اُنکے اوپر بجلی بنکرگرتا ہے، امن و امان کی صورتحال مزید خراب ہوچکی ہے، اسٹریٹ کرائم، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان اور دہشت گردی نے لوگوں کو نفسیاتی مریض بنادیا ہے۔ لاہور میں ہر 40 منٹ میں ایک موٹرسائیکل، 80 منٹ بعد کار چوری ہونے لگی ہے۔ ایسے میں عوام کا طیش میں آنا اورنواز حکومت کے خلاف ہونا قدرتی بات ہے۔ "گو نواز گو" کا نعرہ دھرنوں سے نکل کر سیلاب زدگان کی زبان پر بھی آگیا ہے، نواز شریف جس سیلاب زدہ علاقے میں گےاُنکو "گو نواز گو" کا نعرہ سننا پڑا۔نواز شریف حکومت نہ صرف کمزور ہو چکی بلکہ اپنی ہٹ دھرمیوں کی وجہ سے پہلے سے زیادہ بدنام بھی ہوچکی ہے۔ وزراء کی ساری اکڑ پارلیمنٹ میں تقریریوں کی حد تک رہ گئی ہے۔ پاکستان اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزررہا ہے۔ ملک میں سیاسی انتشار ختم ہونے کو نہیں آرہا تو دوسری جانب افراطِ زر، خراب معاشی صورتحال، قدرتی آفات اور بُری گورننس کا سامنا ہے اور پریشان عوام کی اکثریت اس پریشانی میں مبتلا ہے کہ اُسکے مسائل کیسے حل ہونگے۔ان تمام مسائل کا ایک ہی حل ہے کہ نواز شریف اپنی حکومت کے خاتمے اور قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے اعلان کے ساتھ ساتھ سیاست سے بھی علیدگی کا اعلان کریں، کیونکہ اب یہ بات تقریبا ثابت ہوچکی ہے کہ وہ سیاست پاکستان کے عوام کی خوشحالی کےلیے نہیں بلکہ اپنے خاندان کی خوشحالی کےلیے کرتے رہے ہیں۔
نواز شریف کے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد عام پاکستانی عوام کو اُن کی حکومت سے بہتری کی امید تھی۔ عوام پانچ سال تک پیپلز پارٹی کی جمہوریت کے نام پر لوٹ مار اور بدترین گورننس میں پستے رہے، گیارہ مئی دو ہزار تیرہ کے انتخابات کے موقعہ پر نواز شریف اپنے جلسوں میں معاشی بدحالی،کرپشن، لوڈ شیڈنگ، طرزِ حکمرانی اور بے روز گاری پر پیپلز پارٹی کی قیادت پر شدید تنقید کیا کرتے تھے اور وعدہ کرتے تھے کہ اگر ہماری حکومت آگئی تو لوڈ شیڈنگ ختم کر دینگے، کشکول توڑ دینگے ، بین الاقوامی قرضے لینا بند کر دینگے۔عمران خان کے انتخابی دھاندلیوں کےالزامات سے پہلے ایسا کہا جاتا تھا کہ لوگوں کو لگا شاید نواز شریف کچھ کریں گے، لہذا نواز شریف کو کامیاب کرواکر وزیراعظم بنوادیا، عوام نے نواز شریف کو اُنکے وعدوں پر منتخب کیا، نواز شریف اپنے وعدئے تو کیا پورئے کرتے الٹاعوام کی مشکلات میں اضافہ کرتے چلے گے۔ نواز شریف کا خیال ہے کہ چونکہ اب اُنکی باری تھی اسلیے وہ وزیراعظم بنے ہیں۔ وہ ملکی مسائل کی طرف کم اور غیر ملکی دوروں کی طرف زیادہ راغب رہے، یہ ہی وجہ ہے کہ مختلف لوگوں نے اُنکو "پارٹ ٹائم وزیراعظم " کا خطاب دیا۔ ایک وزیراعظم سےاُسکے عوام یہ اُمید کرتے ہیں کہ مشکل حالات میں وہ اپنے لوگوں کے درمیان موجود ہوگالیکن نوازشریف ہر مشکل وقت میں اپنی قوم سے دور کسی غیر ملکی دورئے پرہوتے تھے، چاہئے وہ پشاور کے ایک چرچ میں ہونے والا دہشت گردی کا حملہ ہو، یا دہشت گردوں کے خلاف آپریشن۔ نوازشریف نے وعدہ کیا تھا کہ وہ پاکستان کو اقتصادی طور آگے بڑھانے کی کوشش کرینگے، لیکن ان کی ترقی کے بارے میں سوچ میٹرو بسوں اور موٹرویز تک ہی محدود ہے۔ اُن کی نظر میں معیشت میں ترقی اسٹاک مارکیٹ میں تیزی، غیرملکی زرمبادلہ اور روپے کی قیمت میں بہتری ہوجانا کافی ہے۔
اس سال گیارہ مئی سے پہلے تک عمران خان نواز شریف سے یہ مطالبہ کرتے رہے کہ انتخابات میں چونکہ دھاندلی ہوئی ہے لہذا صرف چار حلقوں میں دوبارہ چیکنگ کرادو، جواب میں حکومت کی طرف سے کہا جاتا تھا کہ یہ کام حکومت کا نہیں ہے الیکشن کمیشن کا ہے، اور آج وہی حکومت جب دھرنوں کی لپیٹ میں آئی ہوئی ہے تو چار نہیں تیس حلقوں کو دوبارہ چیک کرنے کو تیار ہے۔ انتخابات کے دن ہی پورئے پاکستان سے یہ شور اٹھا تھاکہ انتخاب میں دھاندلی ہوئی ہے لیکن بہت چالاکی کے ساتھ پورئے ملک کو چھوڑکر صرف کراچی کو ٹارگیٹ کیا گیا تاکہ باقی ملک میں دھاندلی کا کاروبار چلتا رہے۔ میڈیا اس کام میں پیش پیش تھا جبکہ "جیو ٹی وی" یہ کام خاص طور پر کررہا تھا، اس کام کےلیے حامد میر کو خاص طور پر کراچی بھیجا گیا تھا۔ ایسا نہیں کہ کراچی میں دھاندلی نہیں ہوئی ، ضرور ہوئی لیکن باقی ملک میں بھی ہوئی، کیا وجہ ہے کہ عمران خان صرف پاکستان مسلم لیگ ن کی جیت کو چیلنج کررہے ہیں، وہ پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم کے خلاف وہ الزامات کیوں نہیں لگارہے جو پاکستان مسلم لیگ ن پر لگارہے ہیں۔ اس کی سیدھی سیدھی وجہ یہ ہے کہ اقتدار میں آنے کےلیے نواز شریف نے سارا کھیل پنجاب میں کھیلا۔ آج جب گذشتہ ایک ماہ سے اسلام آباد دو دھرنوں سے گھرا ہوا ہے اور ملک سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہے، ملک کے وزیراعظم فرماتے ہیں کہ ہمیں تو پتہ ہی نہیں کہ پانی کہاں سے آگیا۔ ایک سوال یہ ہے کہ نواز شریف کی سابقہ دو حکومتوں اور موجودہ حکومت میں کیا فرق ہے تو جواب ملتا ہے دو سابقہ حکومتیں نواز شریف اور اُنکے رفقا کی بری کاکردگی کی وجہ سے ختم ہوئیں لیکن موجودہ تیسری حکومت ایک بدترین حکومت ہے، ماڈل ٹاؤن کا سانحہ اور پولیس کا تشدد طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا نوازشریف کی حکومت کا بڑا کارنامہ ہے۔
پندرہ ماہ میں نواز شریف کی حکومت نے نہ تو کشکول توڑا اور نہ ہی عوام کو کسی قسم کی سہولت دی بلکہ عوام کی مشکلات میں اور اضافہ ہوگیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کےاقتدار میں آنے کا مقصد صرف اور صرف اپنے اثاثے بڑھانا ہوتا ہے، یہ علی بابا چالیس چور ہیں، انکو ملک سے کوئی ہمدردی نہیں ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ نواز حکومت میں اقتدار یا تو اُنکےخاندان میں بٹا ہوا ہے یا صرف چند قریبی دوستوں میں، کوئی وزیر خارجہ نہیں، وزیر خزانہ جو وزیراعظم کے سمدھی بھی ہیں ایک ناکام وزیر خزانہ ہیں، لیکن کشکول کا سائز بڑا کرنے میں ماہر ہیں۔ خارجہ پالیسی کا یہ حال ہے کہ گذشتہ تین ماہ سے اسلام آباد میں سعودی سفیر موجود نہیں ہے جبکہ ریاض میں کوئی پاکستانی سفیر موجود نہیں ہے۔ بھارت بغیر کسی اطلاع کے ہمارئے دریاوں میں پانی چھوڑ دیتا ہے، ملک میں سیلاب آجاتا ہے مگر کیا مجال کہ پاکستانی وزارت خارجہ نے بھارت سے کوئی شکوہ کیا ہو۔ ویسے تو پورئے ملک میں اسٹریٹ کرائم، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان ، دہشت گردی ہورہی ہے لیکن کراچی کے حالات ان جرائم کی وجہ سے بہت خراب ہیں۔ نواز شریف نے کراچی میں ایک سال پہلے رینجرز اور پولیس کےزریعے ان جرائم کے خلاف آپریشن شروع کیا لیکن آج ایک سال بعد بھی کراچی کی وہی صورتحال ہے جو ایک سال پہلے تھی۔ کراچی کے صنعتکار، بزنس کیمونٹی اور عوام وزیر اعظم کی کراچی آمد پر ہر مرتبہ واضح طور پر مطالبہ کر چکے ہیں کہ کراچی کو فوج کے حوالے کر دیا جائے۔ مگر کراچی کی مخدوش صورتحال کے باوجود اُس کو آرٹیکل 245کے تحت فوج کے حوالے نہیں کیا گیا ۔ جبکہ اسلام آباد میں دھرنے شروع بھی نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی کوئی دہشت گردی ہوئی تھی پھربھی وہاں آرٹیکل 245 لاگو کردیاگیاآخر اس کا کیا جواب ہے، کیا کراچی کےعوام لاوارث ہیں؟۔
بظاہر عمران خان اور طاہر القادری بند گلی میں بند ہوگے ہیں اور اُنکے دھرنے ناکام ہو چکے ہیں لیکن حکومت بھی پوری طرح فلاپ ہوچکی ہے۔ نواز شریف اور اُنکی ٹیم کی نااہلیت کی وجہ سے ملک بدترین سیاسی انتشارکا شکار ہے، اور اس وجہ سے ملک کی معاشی صورتحال روز بروز خراب ہورہی ہے۔ پاکستان کے عوام جو پہلے ہی پریشان تھے مزید پریشان ہوچکے ہیں، اُنکے لیے ضروریات زندگی کا حصول مشکل ہوگیا ہے، بجلی کا بل اُنکے اوپر بجلی بنکرگرتا ہے، امن و امان کی صورتحال مزید خراب ہوچکی ہے، اسٹریٹ کرائم، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان اور دہشت گردی نے لوگوں کو نفسیاتی مریض بنادیا ہے۔ لاہور میں ہر 40 منٹ میں ایک موٹرسائیکل، 80 منٹ بعد کار چوری ہونے لگی ہے۔ ایسے میں عوام کا طیش میں آنا اورنواز حکومت کے خلاف ہونا قدرتی بات ہے۔ "گو نواز گو" کا نعرہ دھرنوں سے نکل کر سیلاب زدگان کی زبان پر بھی آگیا ہے، نواز شریف جس سیلاب زدہ علاقے میں گےاُنکو "گو نواز گو" کا نعرہ سننا پڑا۔نواز شریف حکومت نہ صرف کمزور ہو چکی بلکہ اپنی ہٹ دھرمیوں کی وجہ سے پہلے سے زیادہ بدنام بھی ہوچکی ہے۔ وزراء کی ساری اکڑ پارلیمنٹ میں تقریریوں کی حد تک رہ گئی ہے۔ پاکستان اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزررہا ہے۔ ملک میں سیاسی انتشار ختم ہونے کو نہیں آرہا تو دوسری جانب افراطِ زر، خراب معاشی صورتحال، قدرتی آفات اور بُری گورننس کا سامنا ہے اور پریشان عوام کی اکثریت اس پریشانی میں مبتلا ہے کہ اُسکے مسائل کیسے حل ہونگے۔ان تمام مسائل کا ایک ہی حل ہے کہ نواز شریف اپنی حکومت کے خاتمے اور قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے اعلان کے ساتھ ساتھ سیاست سے بھی علیدگی کا اعلان کریں، کیونکہ اب یہ بات تقریبا ثابت ہوچکی ہے کہ وہ سیاست پاکستان کے عوام کی خوشحالی کےلیے نہیں بلکہ اپنے خاندان کی خوشحالی کےلیے کرتے رہے ہیں۔