
ادیب یوسفزے
پی ٹی آئی کا آزادی مارچ اسلام آباد کی جانب گامزن تھا. ملک بھر میں پولیس نے مارچ کے شرکاء کے خلاف کریک ڈاؤن کر رکھا تھا. ملک میں انتشار کا ماحول تھا. شرکاء پر لاٹھی چارج کیا جا رہا تھا اور بچوں عورتوں سمیت تمام شرکاء پر آنسو گیس کے ایکسپائرڈ شیلز برسائے جا رہے تھے۔ اسلام آباد میں رانا ثنا ء اللہ کے احکامات پر لوگوں پر حکومت نے اپنی مرضی کے مطابق تشدد کیا اور ماحول کو اِس حد تک آلودہ کیا کہ آخر میں فوج کو طلب کرنا پڑا۔
حکومت تو ہر صورت میں اپنی فاشزم کا مظاہرہ کر رہی تھی لیکن اِس تمام معاملے میں میڈیا اور چند صحافی بھی پیچھے نہ رہے۔ جب اسلام آباد میں پی ٹی آئی کارکنان پر تشدد نے زور پکڑا تو اِس دوران یہ افواہ پھیلائی گئی کہ مارچ کے شرکاء نے چائنہ چوک میں میٹرو سٹیشن کو آگ لگا دی ہے.۔
دنیا نیوز، سماء نیوز، چوبیس نیوز اور نیا دور سمیت کچھ صحافیوں نے بھی یہ جھوٹی خبر لگائی. جھوٹی خبر پھیلانے والوں میں اسد طور، ایلیہ زہرہ، طلعت حسین، عمبر شمسی، عمار علی جان، مرتضیٰ علی شاہ، سدرہ ڈار، انیق ناجی، مہتاب حیدر ،مرتضی سولنگی، مریم صفدر رانا ثناء اللہ، مائزہ حمید؛ دیگر صحافی اور سیاستدان شامل تھے۔ یہ صحافی اور میڈیا چینلز نون لیگ کے پراپیگنڈہ کیٹلسٹ تصور کیے جاتے ہیں.
صحافیوں میں ذیادہ تر کا تعلق جیو اور جنگ گروپ سے تھا۔ کچھ صحافیوں نے اِسی جھوٹی خبر کو باربار شیئر کرتے ہوئے یہ تاثر دینا چاہا کہ عمران خان کے کارکنان مشتعل ہوگئے ہیں اور ملکی املاک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ اسد طور باقاعدہ اس خبر کی آڑ میں طنز کرتے رہے اور دیگر صحافی حضرات بھی جھوٹی خبر کی آڑ میں براہ راست عمران خان کو نشانہ بناتے رہے۔
جب ہم نے اس حوالے سے اِن تمام صحافیوں کے ٹویٹس کا جائزہ لیا تو ہماری تحقیق کے دوران یہ انکشاف بھی ہوا کہ میٹرو سٹیشن آگ کے حوالے سے جھوٹی خبر پھیلانے میں ہندوستانی میڈیا سمیت کئی ہندوستانی صارفین نے بھی حصہ لیا۔ مرتضیٰ علی شاہ کے ٹویٹ پر تقریباً تمام ری ٹویٹس ہندوستانیوں کے تھے.
اِس مخصوص خبر کے حوالے سے ہندوستان نے کافی ذیادہ زور دیا. ہندوستانی میڈیا نے اِس خبر کو باقاعدہ زور دے کر شائع کیا اور ٹویٹر پر ہندوستانی صارفین نے بھی اِس حوالے سے لکھا۔ ہمیں تعجب ہوا کہ آخر ہندوستانی میڈیا کیوں اس جھوٹی خبر کو ہوا دے رہی ہے؟ اس سوال کا جواب ہوتے ہوئے بھی موجود نہیں۔ .
فاشسسٹ حکومت نے میٹرو سٹیشن کو آگ لگانے کی پاداش میں ایف آئی آر بھی درج کرائی جس میں میٹرو سٹیشن کے حوالے سے ذکر کیا تھا۔ ڈان نیوز کے صحافی مبشر زیدی صاحب نے پولیس کو چیلنج کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اُن کی ٹیم نے اسلام آباد جناح ایوینیو کے تمام میٹرو سٹیشن چھان مارے ہیں لیکن کہیں بھی آگ کے شواہد نہیں ملے. مبشر ذیدی نے پولیس کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ جس سٹیشن کو آگ لگی ہے اُس کے تصاویر دکھائے جائیں جو بظاہر موجودہ حکومت اور پولیس کے لئے نامملکن ہے۔
بعد ازاں ڈان اخبار نے تحقیق کر کے ایک 'فیکٹ چیک' بھی شائع کیا. ڈان نیوز کے مطابق کسی بھی میٹرو سٹیشن کو آگ نہیں لگائی گئی۔ ڈان نیوز نے لکھا کہ اِس جھوٹی خبر کے حوالے سے ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں میٹرو سٹیشن کو آگ لگائے جانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے لیکن درحقیقت یہ آگ پریڈ گراؤنڈ کے قریب ایک درخت کو لگی تھی جسے میٹرو سٹیشن قرار دے کر جھوٹی خبر پھیلائی گئی۔.
صحافیوں اور میڈیا چینلز نے یہ جھوٹی خبر خوب پھیلائی اور مارچ کے شرکاء پر الزام لگایا لیکن اب یہ خبر جھوٹی ثابت ہوچکی ہے. ان صحافیوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور مارچ کے شرکاء سے معافی مانگنی چاہیے ۔ اِن صحافیوں اور میڈیا چینلز کو اپنی جھوٹی خبر کے حوالے سے عوام کو آگاہ کرنا چاہیے کیونکہ کسی ایک سیاسی طبقے کو جھوٹی خبر کی آڑ میں بدنام نہیں کیا جاسکتا۔
https://twitter.com/x/status/1529843747621523457
.. اِن صحافیوں کے ٹویٹس اب بھی موجود ہیں. اِس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ چند صحافی ایک خاص پارٹی کے لئے پراپیگنڈہ گروپ کے فرائض انجام دے رہے ہیں. صحافت اِسی طرح گندی ہوتی ہے. جھوٹی خبر پھیلا کر ایک خاص طبقے کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی جبکہ سچ سامنے آنے پر ذرا برابر نادم نہیں۔
جب تک سیاسی وابستگی کا چادر اوڑ کر ایک صحافی پراپیگنڈہ گروہ کا حصہ رہے گا تب تک اُس کی درست خبر بھی جھوٹ اور منگھڑت معلوم ہوگی۔ صحافت کسی سیاستدان کے گھر کی لونڈی نہیں کہ جب چاہا خرید لیا اور جب چاہا پھینک دیا۔ یہ ایک مقدس پیشہ ہے۔ یہاں بولنے سے قبل تحقیق کی جاتی ہے لیکن افسوس کہ یہاں صحافی حضرات اپنی وفاداریاں نبھا کردیگر صحافیوں سمیت صحافت کو بھی بدنام کر رہے ہیں۔ !!.
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/isb-metro111.jpg