منی کی بدنامی سے شیلا کی جوانی تک

QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)
منی کی بدنامی سے شیلا کی جوانی تک
پروفیسر محمد عقی
ل
میرے ایک دوست فرمانے لگے کہ بھئی میرا بیٹا تو منی بدنا م ہوئی کے گانے پر بہت اچھا ڈانس کرتا ہے۔ انہی کے برابر ایک اور صاحب بھی بیٹھے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جناب اب تو یہ گانا پرانا ہوگیا، میرا بیٹا تو شیلا کی جوانی پر تھرکتا ہے اور ہم سب اسے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ میں ان کی باتیں سن کر چپ نہ رہ سکا۔ میں نے کہا جناب اگر کل آپ کے بیٹے جوان ہو کر کسی اصلی شیلا اور حقیقی منی کی محفلوں میں تھرکتے نظر آئیں تو برا مت مانئے گا۔ اس وقت منی اور شیلا کے گانے ہماری اکثریت کے علامتی ٹائٹل سونگز ہیں۔ لوگ ان گانوں پر تھرکتی، ان طوائفوں کی عریانی سے آنکھیں سیکتی، شراب و سرود کے مناظر سے لطف اندوز ہوتے اور فحش کلام سے محظوظ ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔

لیکن جب اس ماحول میں تربیت پا کر ان کی بہنیں منی بنتیں، بیٹیاں شیلا کی جوانی میں ڈھلتیں اور لڑکے آوارہ عورتوں کو آئڈیل بناتے ہیں تو یہی لوگ شور مچاتی، روتی، چلاتی، ماحول کو بر ا کہتے اور مقدر کو کوستے دکھائی دیتے ہیں۔ اس مسئلے کے دو حل نظر آتے ہیں۔ پہلا یہ کہ یا تو سوسائٹی میں اخلاقیات کو ختم کرکے ہر شخص کو عریاں، بے حیا اور بے اخلاق کردیا جائے تاکہ کسی کو اپنے ننگے پن کا احساس ہی نہ ہو۔ ظاہر ہے یہ حل تو مغرب میں بھی ممکن نہیں ہو پایا کیونکہ خدا کی بنائی ہوئی فطرت کو مسخ تو کیا جاسکتا ہے لیکن مٹایا نہیں جاسکتا۔ دوسرا حل یہ اس معاملے کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے اور انفرادی و اجتماعی سطح پر کوششیں کی جائیں۔

اس مسئلے کو اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے تو بے اخلاقی اور بے راہ روی کے اسباب جاننا لازم ہے۔ سوسائٹی میں بے راہ روی کے کئی اسباب ہیں لیکن سب سے اہم پہلو میڈیا بالخصوص ٹی وی چینلز کا ہے۔ آج کی تاریخ تک بیسیوں چینلز پاکستان میں اپنی خبریں، ڈرامی، فلمیں، گانے اور اسپورٹس کے پروگرام نشر کررہے ہیں۔ ان تمام چینلز کا اثر معاشرے پر بہت زیادہ ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس وقت عملی طور پر قوم کی تربیت، ذہن سازی، ثقافت، طرز فکر غرض ہر اہم تربیتی پہلو ان چینلز ہی کے ہاتھ میں ہے۔ چنانچہ ان کی بے راہ روی پوری قوم کو گمراہ کر سکتی ہے۔ ان چینلز کی اخلاقیات کا جائزہ لینے کے لیے چند مثالوں پر غور کرتے ہیں۔

-1 پہلا مسئلہ ایڈورٹزمنٹ یعنی اشتہارات کا ہے۔ منافع کمانے کی تگ و دو میں کمپنیز کسی بھی حد تک جانے پر تلی ہوئی ہیں۔ چنانچہ نوجوان لڑکے اور لڑکی کو ساری رات بات کرنے پر ترغیب، عریانی کا غیر محسوس طریقے سے فروغ، فحش گوئی کی روزمرہ کی گفتگو میں شمولیت، جھوٹ اور لفاظی سے اشیاءکی فروخت اور مادہ پرستانہ سوچ کا ملبوسات اور دیگر ذرائع رواج وہ چند منفی پہلو ہیں جو اخلاق باختہ اشتہار بازی سے جنم لیتے ہیں۔

-2 دوسرا پہلو ٹی وی ڈرامے اور فلمیں ہیں۔ آج پاکستانی ڈرامے کسی طور انڈیا کے غیر اخلاقی پروگراموں سے پیچھے نہیں۔ ان ڈراموں میں طوائفوں کی سرگرمیوں، شادی شدہ افراد کے خفیہ معاشقوں اور نوجوانوں کی ناآسودہ خواہشات کا پرچار کرکے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ہر دوسر ے گھر میں یہی سب کچھ ہورہا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ مادہ پرستی، جھوٹ، بد دیانتی، جرائم اور جنسیات کو ایک مختصر لباس میں پیش کردیا جاتا ہے تاکہ دیکھنے والے خود ہی اس جامے کو چاک کرکے عریانیت سے ملبوس ہوجائیں۔

-3 موسیقی کے چینلز تو آرٹ کے نام پر کسی بھی حد سے گزرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ چنانچہ بے ہنگم طور پر تھرکتے ہوئے لڑکے اور لڑکیاں ایک طرف تو مایوسی، افسردگی اور بے ترتیبی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب وہ اس سے چھٹکارہ پانے کے لیے کپڑوں کو مختصر کرتی، اچھل کود سے مصنوعی ولولہ پیدا کرتے اور شہوانی جذبات جو برانگیختہ کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ موسیقی اور بے ہودہ شاعری کے ذریعے ہر شہوانی جذبے کو محبت کے نام سے منسوب کیا جاتا اور غلاظت پر پردہ ڈالنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔

-4 سب سے اہم پہلو رول ماڈل کی پیروی کرنا ہے۔ میڈیا گلوکاروں، اداکاروں، کھلاڑیوں اور اینکرز کو غیر ضروری طور پر فرش سے عرش تک پہنچاتا ہے۔ چنانچہ لوگوں کے آئڈیل مختصر لباس والی اداکارائیں، وجیہہ شکل کے فنکار، مادیت میں لتھڑے ہوئے گلوکار اور تعلیم و تربیت سے عاری کھلاڑی ہوتے ہیں۔

ان سب لوگوں کی حیثیت ماضی میں بندر کا ناچ دکھا کر محظوظ کرنے والے مداری سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ لیکن آج پوسٹ ماڈرنزم کی بنا پر یہ لوگوں کے رول ماڈل بن جاتے ہیں۔ اس طرح سائنس دان، فلسفی، اساتذہ، مفکرین اور دیگر سنجیدہ اور تعمیری طبقے پس پشت چلے جاتے اور سرخی پاوڈر سے مزین جدید بھانڈ نوجوانوں کی منزل بن جاتے ہیں۔ اس بحث سے یہ نتیجہ نکلا کہ یہ چینلز قوم کی اخلاقی تربیت میں ناکام دکھائی دیتے بلکہ مزید اخلاقی انحطاط کا سبب بنتے نظر آتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب ایک تو یہ ہے کہ ان چینلز کے مالکان کا بنیاد مقصد منافع میں اضافہ کرنا ہے نا کہ اخلاقیات کا درس دینا دوسری وجہ ٹی وی کے ذمہ داروں کی اپنی تربیت نہ ہونا شامل ہیں۔

ان مسائل کے حل پر اگر غور کیا جائے تو درج ذیل ہدایات پر عمل کرنا لازمی نظر آتا ہے۔

-1 انفرادی طور پر ہم سب کو چاہیے کہ برائی کو برائی سمجھیں۔ دقیانوسیت اور اخلاقی اقدار میں تفریق کریں۔ گناہ کا سبب بننے والے گانوں، مناظر، فلموں اور گفتگو سے اسی طرح نفرت کریں جیسے بدن پر لگنے والی کیچڑ سے کرتے ہیں۔

-2 ٹی وی اور انٹرنیٹ کے استعمال میں احتیاط اور کمی کریں۔ نیز خود کو اور اپنی اولاد کو برائی سے محفوظ رکھنے کے لیے ٹی وی یا کمپیوٹر کو بیڈ روم سے نکال کر لاونج یا کسی مناسب جگہ پر رکھا جائے تاکہ ہر آنے جانے والا دیکھتا رہے کہ کیا دیکھا جارہا ہے۔

-3 اجتماعی سطح پر حکومت کے ذریعے سنسر بورڈ بنایا جائے جس کے ممبران کم علم دینی علماءکے بجائے پڑھے لکھے مذہبی اور سوشل اسکالرز ہوں۔

-4 اجتماعی سطح پر ٹی وی کے حکام یہ فیصلہ کریں کہ وہ کوئی ایسا اشتہار یا پروگرام نشر نہیں کریں گے جو اخلاقی بگاڑ کا باعث بنے۔ -5 انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر تہیہ کرلیں کہ آج سے کسی بھی ایسے پروگرام، گفتگو، تفریح یا محفل کا حصہ نہیں بننا جو غیر اخلاقی ہو اور جس سے اللہ کی ناراضگی کا خدشہ ہو۔
 

alibaba222

Minister (2k+ posts)
@QaiserMirza bahi sab say asan or mushkal nuskha ye he key TB ke beymari ko apni zindgi say door kerny ke koshsih kery,haqeeqat tu ye he jab say ye TB ke beymari hamri zindgeoo may aye he, amal may ham zero ho gey he,ab hamary Amal Sahaba (R A) jesy nahee rahye
 

samar

Minister (2k+ posts)
Qaiser Mirza sahab baat aapki theek he lakin Saudion k mundey b to jawan ho gaee hain unka kia kia jaey jinkey paisooon se Europe k Casino chaltey hain.