نیما کوئی تیس کے اندر ہوگی، اور اسے ایک مسلمان لڑکے سے محبت ہے جس کا نام لینے میں وہ شرماتی ہے- وہ دہلی میں کام کرتی ہے، اور اس میں دو واضح خامیاں ہیں- وہ ایک دلت عورت ہے، انڈیا کی سب سے چھوٹی ذات، دوسرے یہ لنگڑا کر چلتی ہے-
اس کے ابتدائی نوجوانی کے دنوں میں اس کی دادی نے، جو پڑوس میں ایک نوکرانی تھی، ہمارے گھر اسے کام کاج سیکھنے کے لئے رکھوایا تھا، لیکن خلاف توقع جلد ہی، نیما نے بتایا کہ اس کی شادی اس کی برادری کے ایک لڑکے سے اس کے گاؤں پرتاگڑھ میں ہو رہی ہے-
وہ شادی جلد ہی ختم ہو گئی- نیما نے بتایا کہ وہ آدمی ایک شربی اور آوارہ تھا، وہ اسے مارتا پیٹتا اور ظلم کرتا تھا- نیما کی شادی تو ختم ہو گئی لیکن اب الہ آباد کا ایک مسلمان لڑکا ہے جو اسے پسند کرتا ہے اور اس سے روزانہ فون پر بات ہوتی ہے- ان کی ملاقات راۓ بریلی میں ہمارے آبائی گاؤں میں ہوئی جہاں اکثر نیما میری والدہ کے ساتھ جاتی تھی جو اسے اپنی اولاد کی طرح پیار کرتی تھیں-
حال ہی میں میری والدہ کے انتقال نے نیما کو پریشان کردیا، اس کا سب سے بھروسے مند سہارا کھو گیا تھا، اور اس کا اپنا خاندان اسے ایک مسلمان لڑکے سے شادی کرنے کی اجازت کبھی نہیں دیگا-
اگر اس نے حکم عدولی کی تو اسے گاؤں اور برادری سے نکال باہر کیا جاۓ گا- اسے ذات بدر کر دیا جاۓ گا- اور ذرا ستم ظریفی دیکھیں، ایک لڑکی جسے اس کی برادری کے ایک آدمی نے تباہ کر دیا، وہ اگر ایک مسلمان لڑکے سے شادی کر لے تو اسے ذات بدر کر دیا جاۓ گا-
دو حقائق یہاں بالکل عیاں ہیں، ایک تو یہ کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اب انڈین سوسائٹی کی نئی اچھوت ذات بنتی جا رہی ہے، انہیں سماجی ڈھانچے میں دلتوں سے بھی نچلا درجہ دیا جا رہا ہے- مثال کے طور پر، گجرات میں انہیں سماجی طور پر مکمل تنہا کر دیا گیا ہے-
ایک دوسرا نکتہ جو نیما کی کہانی سے ثابت ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ دلت جو بھیم راؤ امبیڈکر کی سرپرستی میں اپنی علیحدہ شناخت کی کوششوں میں لگے ہوے ہیں، انہیں ہندو ازیت رساؤں کی جانب سے ہندو بننے کے لئے جھوٹے لالچ دیے جا رہے ہیں یا حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے-
آج کل انڈیا میں شدھی کرن یا پاک کرنے کا رواج بڑی تیزی سے فروغ پا رہا ہے- اس مہم کو، دلتوں کے اسلام، عیسائیت یا بدھ مت میں تبدیلی کی روایت کے توڑ کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے- جہاں انہیں کم ز کم اچھوت نہ ہونے کا فریب ہی میسر ہو جاتا تھا-
اس کوشش میں ہندو تجدید کو سب سے بڑے چیلنج کا سامنہ عیسائی مشنریوں کی شکل میں ہوا، ہندوستان کے قبائلی لوگوں کے درمیان ان کے کامیاب سماجی کاموں کی وجہ سے ہندو دائیں بازو والے ان سے حسد کرنے لگے-
سنہ انیس سو اٹھانوے میں ایک آسٹریلین مشنری اور اس کے دو بیٹوں کا بہیمانہ قتل اس سلسلے کی کڑی ہے- جنہیں ان کی جیپ میں ویشوا ہندو پرشاد کے ایکٹوسٹوں نے اڑیسہ کے جنگلات میں جلا ڈالا تھا-
*اڑیسہ کے ضلع کندھامل میں عیسائی مخالف قاتلانہ تشدد کے بعد سے انڈیا کے بالغ راۓ دہی والے حصّوں میں ایسے واقعات کی تعداد بڑھتی گئی ہے- *
نیما کی کہانی، ہندوستان میں فرقہ ورانہ ٹکراؤ کے لئے وضاحت کا صرف ایک حصّہ پیش کرتی ہے-
شیکسپیئر سے لے کر وارث شاہ تک، فرقہ وارانہ دشمنیوں کو محبت کی راہ میں حائل رکاوٹ کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے- *وہ معاشرہ جو اپنے آپ کو جدید اور جامع ظاہر کرتا ہے، وہاں بڑی چالاکی کے ساتھ فرقہ وارانہ دشمنیوں کو ہندو تجدید کے لئے بڑھاوا دے کر استعمال کیا جانا اس کے دعووں کے بلکل الٹ ہے- *
ضروری نہیں ہے کہ تمام فرقہ وارانہ تشدد کا تعلق ہندو، مسلم لڑکے اور لڑکیوں کے سماجی ملاپ سے ہو- اس طرح کے جرائم مختلف ہندو ذاتوں کے درمیاں بھی رونما ہوتے ہیں، اور گاؤں کی پنچایت اس کی سزا بڑی بے رحمی سے دیتی ہے، قصوروار کو مار پیٹ کر ہلاک کر دینا بڑے پیمانے پر سزا کے طور پر استعمال کیے جانے پر وہ خود کو حق بجانب سمجھتے ہیں-
مظفرنگر میں جاری فرقہ وارانہ تشدد تھوڑے پیچیدہ ہیں- مغربی اتر پردیش کا یہ خطّہ ذات کی بنیاد پر ووٹوں سے مالامال ہے، مسلمانوں کی بڑی تعداد میں موجودگی کی بنا پر یہاں اکثر فرقہ وارانہ تصادم ہو جاتے ہیں- وہاں دلت مسلم تصادم کی تعداد اتنی ہی زیادہ ہے جتنی دلت-جاٹ فسادات کی-
اس تمام ہنگامہ آرائی میں نیما فیکٹر بڑی آرام کے ساتھ فٹ کیا جاسکتا ہے- وشوا ہندو پرشاد کے لیڈر، مسلم آبادی بڑھانے کے لئے ایک سازش کی بات کرتے ہیں، جس میں لڑکیوں کو مشین کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے-
یہ بات بڑی عجیب لگتی ہے لیکن فسادات کو بڑھاوا دینے میں اس طرح کی افواہیں کافی کارآمد رہتی ہیں- محبت جہاد ایک نئی تکنیک ہے، وشوا ہندو پریشد (بھارتیہ جنتا پارٹی کی ایک ذیلی شاخ) کے میرٹھ ڈویژن کے جوائنٹ سیکرٹری، چندرا موہن شرما کہتے ہیں- یہ نام نہاد محبت جہاد ایک مشکل فن ہے اور صرف مدرسوں میں تربیت حاصل کرنے کے بعد ہی اختیار کیا جا سکتا ہے، شرما نے بدھ کو شائع تبصرے میں دی ہندو کو بتایا-
سب سے پہلے اچھی شکل و صورت کے آدمیوں کو چنا جاتا ہے- پھر انہیں سونو اور راجو جیسے غیر جانبدار نام دے جاتے ہیں- ان لڑکوں کو پھر جینز، ٹی-شرٹس، موبائل فون اور بائیکس دی جاتی ہیں اور تمیز تہذیب سکھائی جاتی ہے، شرما صاحب نے اخبار کو بتایا-
یہ لڑکے سکولوں اور کالجوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں اور نوجوان ہندو لڑکیوں کو پھسلاتے ہیں- ابتداء میں تو ہماری لڑکیاں انہیں نظر انداز کر دیتی ہیں، لیکن پھر وہ مان جاتی ہیں- یہ محبت جہاد کا مطلب پیار سے پھنسانا ہے-
شرما صاحب مبینہ پولیس ریکارڈ کا حوالہ دیتے ہیں- گھر سے بھاگنے والی سو لڑکیوں میں سے پچانوے ایسی ہیں جو مسلم مردوں کے ساتھ بھاگتی ہیں- ہندو لڑکوں کو مسلم لڑکیاں شاذ و نادر ہی ملتی ہیں-
ہندتوا لیڈر کا کہنا ہے کہ یہ مسلم آبادی کو بڑھانے کے لئے ہندو لڑکیوں کو بطور مشین استعمال کرنے کا ایک حتمی ثبوت ہے- ہمیں اپنی بہو بیٹیوں کی عزت کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے-
دی ہندو رپورٹ میں، شرما صاحب کو غیر سنجیدگی سے لینے کے خلاف خبردار کیا ہے- وہ ہفتے کے دن مہا پنچایت میں موجود تھے- ہماری عورتوں کا تحفظ بہت سی تقریروں کا مشترکہ موضوع تھا، جیسا کہ دی ہندو کو دکھائی گئی اس موقع کی ویڈیو ریکارڈنگ سےظاہر ہوا ہے-
اس بات کی توثیق ہو گئی ہے کہ اس ایونٹ نے اشتعال انگیزی کو ہوا دی ہے- جس سے عدم تحفظ میں اضافہ ہوا اور بلآخر تصادم اور تشدد کی وجہ بنا، رپورٹ میں بتایا گیا-
ستائیس اگست کو ایک مسلم لڑکے نے ایک ہندو لڑکی کو چھیڑا، شرما صاحب نے دعویٰ کیا- اور یہی تمام مصیبت کی جڑ ہے، مجھے بتائیں کون سا بھائی یہ برداشت کرے گا؟
یہ ایونٹ ممکن ہے مظفرنگر کے متشدد واقعات کے آغاز کی اصل وجہ ہو- ساتھ یہ بھی بالکل واضح ہے کہ عام محبت کرنے والے ہندوستان کے ذات اور مذہبی تعصبات کے شیطانی جال میں پھنسے رہیں گے- نیما کو اس سے نکلنے کا کوئی راستہ ڈھونڈنا چاہیے-
Source
اس کے ابتدائی نوجوانی کے دنوں میں اس کی دادی نے، جو پڑوس میں ایک نوکرانی تھی، ہمارے گھر اسے کام کاج سیکھنے کے لئے رکھوایا تھا، لیکن خلاف توقع جلد ہی، نیما نے بتایا کہ اس کی شادی اس کی برادری کے ایک لڑکے سے اس کے گاؤں پرتاگڑھ میں ہو رہی ہے-
وہ شادی جلد ہی ختم ہو گئی- نیما نے بتایا کہ وہ آدمی ایک شربی اور آوارہ تھا، وہ اسے مارتا پیٹتا اور ظلم کرتا تھا- نیما کی شادی تو ختم ہو گئی لیکن اب الہ آباد کا ایک مسلمان لڑکا ہے جو اسے پسند کرتا ہے اور اس سے روزانہ فون پر بات ہوتی ہے- ان کی ملاقات راۓ بریلی میں ہمارے آبائی گاؤں میں ہوئی جہاں اکثر نیما میری والدہ کے ساتھ جاتی تھی جو اسے اپنی اولاد کی طرح پیار کرتی تھیں-
حال ہی میں میری والدہ کے انتقال نے نیما کو پریشان کردیا، اس کا سب سے بھروسے مند سہارا کھو گیا تھا، اور اس کا اپنا خاندان اسے ایک مسلمان لڑکے سے شادی کرنے کی اجازت کبھی نہیں دیگا-
اگر اس نے حکم عدولی کی تو اسے گاؤں اور برادری سے نکال باہر کیا جاۓ گا- اسے ذات بدر کر دیا جاۓ گا- اور ذرا ستم ظریفی دیکھیں، ایک لڑکی جسے اس کی برادری کے ایک آدمی نے تباہ کر دیا، وہ اگر ایک مسلمان لڑکے سے شادی کر لے تو اسے ذات بدر کر دیا جاۓ گا-
دو حقائق یہاں بالکل عیاں ہیں، ایک تو یہ کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اب انڈین سوسائٹی کی نئی اچھوت ذات بنتی جا رہی ہے، انہیں سماجی ڈھانچے میں دلتوں سے بھی نچلا درجہ دیا جا رہا ہے- مثال کے طور پر، گجرات میں انہیں سماجی طور پر مکمل تنہا کر دیا گیا ہے-
ایک دوسرا نکتہ جو نیما کی کہانی سے ثابت ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ دلت جو بھیم راؤ امبیڈکر کی سرپرستی میں اپنی علیحدہ شناخت کی کوششوں میں لگے ہوے ہیں، انہیں ہندو ازیت رساؤں کی جانب سے ہندو بننے کے لئے جھوٹے لالچ دیے جا رہے ہیں یا حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے-
آج کل انڈیا میں شدھی کرن یا پاک کرنے کا رواج بڑی تیزی سے فروغ پا رہا ہے- اس مہم کو، دلتوں کے اسلام، عیسائیت یا بدھ مت میں تبدیلی کی روایت کے توڑ کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے- جہاں انہیں کم ز کم اچھوت نہ ہونے کا فریب ہی میسر ہو جاتا تھا-
اس کوشش میں ہندو تجدید کو سب سے بڑے چیلنج کا سامنہ عیسائی مشنریوں کی شکل میں ہوا، ہندوستان کے قبائلی لوگوں کے درمیان ان کے کامیاب سماجی کاموں کی وجہ سے ہندو دائیں بازو والے ان سے حسد کرنے لگے-
سنہ انیس سو اٹھانوے میں ایک آسٹریلین مشنری اور اس کے دو بیٹوں کا بہیمانہ قتل اس سلسلے کی کڑی ہے- جنہیں ان کی جیپ میں ویشوا ہندو پرشاد کے ایکٹوسٹوں نے اڑیسہ کے جنگلات میں جلا ڈالا تھا-
*اڑیسہ کے ضلع کندھامل میں عیسائی مخالف قاتلانہ تشدد کے بعد سے انڈیا کے بالغ راۓ دہی والے حصّوں میں ایسے واقعات کی تعداد بڑھتی گئی ہے- *
نیما کی کہانی، ہندوستان میں فرقہ ورانہ ٹکراؤ کے لئے وضاحت کا صرف ایک حصّہ پیش کرتی ہے-
شیکسپیئر سے لے کر وارث شاہ تک، فرقہ وارانہ دشمنیوں کو محبت کی راہ میں حائل رکاوٹ کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے- *وہ معاشرہ جو اپنے آپ کو جدید اور جامع ظاہر کرتا ہے، وہاں بڑی چالاکی کے ساتھ فرقہ وارانہ دشمنیوں کو ہندو تجدید کے لئے بڑھاوا دے کر استعمال کیا جانا اس کے دعووں کے بلکل الٹ ہے- *
ضروری نہیں ہے کہ تمام فرقہ وارانہ تشدد کا تعلق ہندو، مسلم لڑکے اور لڑکیوں کے سماجی ملاپ سے ہو- اس طرح کے جرائم مختلف ہندو ذاتوں کے درمیاں بھی رونما ہوتے ہیں، اور گاؤں کی پنچایت اس کی سزا بڑی بے رحمی سے دیتی ہے، قصوروار کو مار پیٹ کر ہلاک کر دینا بڑے پیمانے پر سزا کے طور پر استعمال کیے جانے پر وہ خود کو حق بجانب سمجھتے ہیں-
مظفرنگر میں جاری فرقہ وارانہ تشدد تھوڑے پیچیدہ ہیں- مغربی اتر پردیش کا یہ خطّہ ذات کی بنیاد پر ووٹوں سے مالامال ہے، مسلمانوں کی بڑی تعداد میں موجودگی کی بنا پر یہاں اکثر فرقہ وارانہ تصادم ہو جاتے ہیں- وہاں دلت مسلم تصادم کی تعداد اتنی ہی زیادہ ہے جتنی دلت-جاٹ فسادات کی-
اس تمام ہنگامہ آرائی میں نیما فیکٹر بڑی آرام کے ساتھ فٹ کیا جاسکتا ہے- وشوا ہندو پرشاد کے لیڈر، مسلم آبادی بڑھانے کے لئے ایک سازش کی بات کرتے ہیں، جس میں لڑکیوں کو مشین کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے-
یہ بات بڑی عجیب لگتی ہے لیکن فسادات کو بڑھاوا دینے میں اس طرح کی افواہیں کافی کارآمد رہتی ہیں- محبت جہاد ایک نئی تکنیک ہے، وشوا ہندو پریشد (بھارتیہ جنتا پارٹی کی ایک ذیلی شاخ) کے میرٹھ ڈویژن کے جوائنٹ سیکرٹری، چندرا موہن شرما کہتے ہیں- یہ نام نہاد محبت جہاد ایک مشکل فن ہے اور صرف مدرسوں میں تربیت حاصل کرنے کے بعد ہی اختیار کیا جا سکتا ہے، شرما نے بدھ کو شائع تبصرے میں دی ہندو کو بتایا-
سب سے پہلے اچھی شکل و صورت کے آدمیوں کو چنا جاتا ہے- پھر انہیں سونو اور راجو جیسے غیر جانبدار نام دے جاتے ہیں- ان لڑکوں کو پھر جینز، ٹی-شرٹس، موبائل فون اور بائیکس دی جاتی ہیں اور تمیز تہذیب سکھائی جاتی ہے، شرما صاحب نے اخبار کو بتایا-
یہ لڑکے سکولوں اور کالجوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں اور نوجوان ہندو لڑکیوں کو پھسلاتے ہیں- ابتداء میں تو ہماری لڑکیاں انہیں نظر انداز کر دیتی ہیں، لیکن پھر وہ مان جاتی ہیں- یہ محبت جہاد کا مطلب پیار سے پھنسانا ہے-
شرما صاحب مبینہ پولیس ریکارڈ کا حوالہ دیتے ہیں- گھر سے بھاگنے والی سو لڑکیوں میں سے پچانوے ایسی ہیں جو مسلم مردوں کے ساتھ بھاگتی ہیں- ہندو لڑکوں کو مسلم لڑکیاں شاذ و نادر ہی ملتی ہیں-
ہندتوا لیڈر کا کہنا ہے کہ یہ مسلم آبادی کو بڑھانے کے لئے ہندو لڑکیوں کو بطور مشین استعمال کرنے کا ایک حتمی ثبوت ہے- ہمیں اپنی بہو بیٹیوں کی عزت کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے-
دی ہندو رپورٹ میں، شرما صاحب کو غیر سنجیدگی سے لینے کے خلاف خبردار کیا ہے- وہ ہفتے کے دن مہا پنچایت میں موجود تھے- ہماری عورتوں کا تحفظ بہت سی تقریروں کا مشترکہ موضوع تھا، جیسا کہ دی ہندو کو دکھائی گئی اس موقع کی ویڈیو ریکارڈنگ سےظاہر ہوا ہے-
اس بات کی توثیق ہو گئی ہے کہ اس ایونٹ نے اشتعال انگیزی کو ہوا دی ہے- جس سے عدم تحفظ میں اضافہ ہوا اور بلآخر تصادم اور تشدد کی وجہ بنا، رپورٹ میں بتایا گیا-
ستائیس اگست کو ایک مسلم لڑکے نے ایک ہندو لڑکی کو چھیڑا، شرما صاحب نے دعویٰ کیا- اور یہی تمام مصیبت کی جڑ ہے، مجھے بتائیں کون سا بھائی یہ برداشت کرے گا؟
یہ ایونٹ ممکن ہے مظفرنگر کے متشدد واقعات کے آغاز کی اصل وجہ ہو- ساتھ یہ بھی بالکل واضح ہے کہ عام محبت کرنے والے ہندوستان کے ذات اور مذہبی تعصبات کے شیطانی جال میں پھنسے رہیں گے- نیما کو اس سے نکلنے کا کوئی راستہ ڈھونڈنا چاہیے-
Source