
وہ 14 اگست 2013 کی صبح تھی جب آرمی بیس میں فوجی اپنے روایتی بندوقوں کی سلامی کی تیاری کر رہے تھے-
پاکستان میں ہر طرف پول پر پاکستان کا پرچم لہرا رہا تھا- اس دن تعطیل تھی اور چولہوں پر چاۓ کا پانی ابل رہا تھا، تنخواہ یافتہ حضرات اور اسکولوں کے بچے بستروں پر پڑے کروٹیں بدل رہے تھے اور اٹھنے میں دیر لگا رہے تھے- وہ پاکستان کی سرسٹھویں سالگرہ تھی، اور ساٹھ کی دہائی میں ہونے والی قتل و غارتگری کے بیچ لوگوں کیامیدیں کم تھیں-پاکستان کے صبح آزادی سے چند گھنٹوں کی فلائٹ کی دوری پر، ایسی ہی ایک یادگار صبح، بحرین کے دارلحکومت منامہ میں بھی طلوع ہوئی-
پاکستان کی طرح، بحرین نے بھی برٹش حکمرانی سے 14 اگست کو آزادی حاصل کی تھی- 1971 میں اس دن اقوام متحدہ نے اس جزیرے پر ایرانی دعویٰ مسترد کرتے ہوۓ بحرین کی بادشاہت کو اپنی ریاست تشکیل دینے کی اجازت دی- اس ماضی کے ساتھ، یوم آزادی کی صبح، حالات خصوصی طور پر کشیدہ تھے-یوم آزادی سے پہلے، یہ سننے میں آرہا تھا کہ حزب مخالف جو اب خود کو تمررود یا باغی کہلاتی ہے، مظاہرہ کرے گی-
جواب میں، بحرین حکومت کے بیانات بھی بلکل واضح تھے- گزشتہ چھ ماہ میں 1200 افراد کو گرفتار کرنے کے بعد بھی حکومت مطمئن نہیں تھی- انہوں نے یوم آزادی کو اس سے بھی بڑے کریک ڈاؤن کا منصوبہ بنایا- اور یہ وہ جگہ ہے جہاں پاکستان بحرین میں ہونے والے جبر کی تصویر کا حصّہ بنتا ہے-تقریباً دو سال قبل جب بغاوت شروع ہی ہوئی تھی، یہ خبر سننے میں آئی تھی کہ پاکستانی فوجیوں کو بحرین بھیجا گیا ہے-
جولائی 2011 ، کی نیوز رپورٹ کے مطابق، پاکستانی فوجی جمہوریت نواز مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کے ہر اول دستے میں تھے- رپورٹ کے مطابق، قریب قریب 2500 پاکستانی فوجی، جن میں سابقہ فوجی ڈرل انسٹرکٹر، ملٹری پولیس، فساد پولیس شامل تھی، اسلام آباد میں کئی سعودی اور بحرین کے افسران کی ملاقاتوں کے بعد مہیا کیے گۓ- بحرینی نیشنل گارڈز کے اسپیشل یونٹ میں بھرتی کیے جانے والے پاکستانی فوجیوں کو ملک کی اقلیتی بادشاہت کے خلاف احتجاج کرنے والے اکثریتی شیعہ مظاہرین کو کچلنے کے لئے انچارج بنایا گیا-2011 کے بعد آنے والے سالوں میں، پاکستان میں خود اسکی شیعہ آبادی کے خلاف تشدد میں ڈرامائی اضافہ دیکھا گیا ہے-
فائرنگ اسکواڈ کا بسوں کو روکنا، مسجدوں کے باہر بم دھماکے، ایک پوری اپارٹمنٹ بلڈنگ کو بم سے اڑا دینا، پروفیسر کو گولی مار دینا یہ سب پاکستان کے اپنے شیعہ مخالف واقعات کی بگڑی ہوئی تصویر ہیں- تشدد کے واقعات کے تناظر میں شیعہ اور ان کے مذہبی عقائد کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد کو فروغ دینے میں ریاستی سازش سے پوری طرح انکار کر دیا گیا ہے-یہ درست ہے کہ ریاستی افسران نے تحریک طالبان پاکستان سے لے کر لشکر طیبہ اور بہت سے دیگر دہشتگرد گروہوں کو اس قتل عام کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے-
اور یہ بھی درست ہے کہ ان گروہوں کے منشور میں اس بات کی کھلی تبلیغ کی جاتی ہے کہ ان کے اسلامی نظریات کے مطابق ملک کو پاک کرنے کے لئے شیعہ برادری کو جڑ سے ختم کر دینا ضروری ہے- کم ز کم سرکاری بیان تو یہی ہے-پاکستانی ریاست، تشدد کے لئے ذمہ دار نہیں ہے، اسے نظر انداز نہیں کرتی ہے اور اسے روکنے کے لئے کوشش کرتی ہے- پاکستان ملٹری نے ملک کی شیعہ برادری کے خلاف قتل عام برپا کرنے والی تحریک طالبان سے جنگ میں اپنے ہزاروں فوجی قربان کر دیے ہیں-
اس 14 اگست 2013 کو بحرین کے مقامی ذارئع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایک بار پھر پاکستانی فوجیوں سمیت غیر ملکی دستے، متوقع جمہوریت نواز شیعہ مظاہرین کو کچلنے کے لئے منامہ میں تعینات کیے گۓ تھے- اس خبر کے مطلب یہ ہے، حالانکہ پاکستان میں شیعہ مخالف تشدد میں اضافہ ہو گیا ہے اور ریاست بار بار اسکی مخالفت پر زور دے رہی ہے، لیکن دوسرے ممالک کو شیعہ برادری کو دبانے اور جمہوریت نواز بغاوتوں کو کچلنے کے لئے اپنی فوجوں کی فراہمی کی پالیسی پر نظر ثانی نہیں کی گئی-
ملٹری فورسز کی یہ مسلسل فراہمی، اول درجے کی منافقت کی غماز ہے- یا تو یہ یقین کر لیا جاۓ کہ پاکستانی فوجی فقط کراۓ کے قاتل ہیں جو کسی بھی عرب قوم کے لئے ایسی معاونت کی درخواست پر قتل کر سکتے ہیں یا معاملات سے نمٹ سکتے ہیں- یا پھر یہ سمجھا جاۓ کہ شیعہ مسلمانوں کا قتل عام کو، چاہے وہ پاکستان میں ہو یا بحرین میں، جتنا کھل کر اعتراف کیا جاتا ہے اس کے مقابلے میں وسیح پیمانے پر حمایت حاصل ہے-ایک ایسی جمہوریت کے طور پر جس کے آئین میں مذہبی اعتقاد سے قطع نظر تمام شہریوں کو مساوی حقوق کی توثیق کی گئی ہے، ایک سیاسی نظام جس کے اپنے لوگ ایک نمائندہ انتظامیہ کے قیام کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں، اور ایک ملٹری جو کہ اصل میں شیعہ قتل کو فروغ دینے والوں سے لڑ رہی ہے، ان کے لئے کوئی جواز نہیں بنتا کہ وہ دوسروں کی شیعہ مخالف اور جمہوریت مخالف مہم کے لئے اپنے فوجی فراہم کریں-بحرین اور باقی عرب دنیا کے پاس لڑنے کے لئے اپنی جنگ ہے، جمہوریت کی راہ ہموار کرنے کے لئے انکا اپنا راستہ ہے- پاکستان ان کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتا اور نا ہی اسے بننا چاہیے-
http://urdu.dawn.com/2013/08/21/no-soldiers-for-sale/
پاکستان میں ہر طرف پول پر پاکستان کا پرچم لہرا رہا تھا- اس دن تعطیل تھی اور چولہوں پر چاۓ کا پانی ابل رہا تھا، تنخواہ یافتہ حضرات اور اسکولوں کے بچے بستروں پر پڑے کروٹیں بدل رہے تھے اور اٹھنے میں دیر لگا رہے تھے- وہ پاکستان کی سرسٹھویں سالگرہ تھی، اور ساٹھ کی دہائی میں ہونے والی قتل و غارتگری کے بیچ لوگوں کیامیدیں کم تھیں-پاکستان کے صبح آزادی سے چند گھنٹوں کی فلائٹ کی دوری پر، ایسی ہی ایک یادگار صبح، بحرین کے دارلحکومت منامہ میں بھی طلوع ہوئی-
پاکستان کی طرح، بحرین نے بھی برٹش حکمرانی سے 14 اگست کو آزادی حاصل کی تھی- 1971 میں اس دن اقوام متحدہ نے اس جزیرے پر ایرانی دعویٰ مسترد کرتے ہوۓ بحرین کی بادشاہت کو اپنی ریاست تشکیل دینے کی اجازت دی- اس ماضی کے ساتھ، یوم آزادی کی صبح، حالات خصوصی طور پر کشیدہ تھے-یوم آزادی سے پہلے، یہ سننے میں آرہا تھا کہ حزب مخالف جو اب خود کو تمررود یا باغی کہلاتی ہے، مظاہرہ کرے گی-
جواب میں، بحرین حکومت کے بیانات بھی بلکل واضح تھے- گزشتہ چھ ماہ میں 1200 افراد کو گرفتار کرنے کے بعد بھی حکومت مطمئن نہیں تھی- انہوں نے یوم آزادی کو اس سے بھی بڑے کریک ڈاؤن کا منصوبہ بنایا- اور یہ وہ جگہ ہے جہاں پاکستان بحرین میں ہونے والے جبر کی تصویر کا حصّہ بنتا ہے-تقریباً دو سال قبل جب بغاوت شروع ہی ہوئی تھی، یہ خبر سننے میں آئی تھی کہ پاکستانی فوجیوں کو بحرین بھیجا گیا ہے-
جولائی 2011 ، کی نیوز رپورٹ کے مطابق، پاکستانی فوجی جمہوریت نواز مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کے ہر اول دستے میں تھے- رپورٹ کے مطابق، قریب قریب 2500 پاکستانی فوجی، جن میں سابقہ فوجی ڈرل انسٹرکٹر، ملٹری پولیس، فساد پولیس شامل تھی، اسلام آباد میں کئی سعودی اور بحرین کے افسران کی ملاقاتوں کے بعد مہیا کیے گۓ- بحرینی نیشنل گارڈز کے اسپیشل یونٹ میں بھرتی کیے جانے والے پاکستانی فوجیوں کو ملک کی اقلیتی بادشاہت کے خلاف احتجاج کرنے والے اکثریتی شیعہ مظاہرین کو کچلنے کے لئے انچارج بنایا گیا-2011 کے بعد آنے والے سالوں میں، پاکستان میں خود اسکی شیعہ آبادی کے خلاف تشدد میں ڈرامائی اضافہ دیکھا گیا ہے-
فائرنگ اسکواڈ کا بسوں کو روکنا، مسجدوں کے باہر بم دھماکے، ایک پوری اپارٹمنٹ بلڈنگ کو بم سے اڑا دینا، پروفیسر کو گولی مار دینا یہ سب پاکستان کے اپنے شیعہ مخالف واقعات کی بگڑی ہوئی تصویر ہیں- تشدد کے واقعات کے تناظر میں شیعہ اور ان کے مذہبی عقائد کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد کو فروغ دینے میں ریاستی سازش سے پوری طرح انکار کر دیا گیا ہے-یہ درست ہے کہ ریاستی افسران نے تحریک طالبان پاکستان سے لے کر لشکر طیبہ اور بہت سے دیگر دہشتگرد گروہوں کو اس قتل عام کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے-
اور یہ بھی درست ہے کہ ان گروہوں کے منشور میں اس بات کی کھلی تبلیغ کی جاتی ہے کہ ان کے اسلامی نظریات کے مطابق ملک کو پاک کرنے کے لئے شیعہ برادری کو جڑ سے ختم کر دینا ضروری ہے- کم ز کم سرکاری بیان تو یہی ہے-پاکستانی ریاست، تشدد کے لئے ذمہ دار نہیں ہے، اسے نظر انداز نہیں کرتی ہے اور اسے روکنے کے لئے کوشش کرتی ہے- پاکستان ملٹری نے ملک کی شیعہ برادری کے خلاف قتل عام برپا کرنے والی تحریک طالبان سے جنگ میں اپنے ہزاروں فوجی قربان کر دیے ہیں-
اس 14 اگست 2013 کو بحرین کے مقامی ذارئع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایک بار پھر پاکستانی فوجیوں سمیت غیر ملکی دستے، متوقع جمہوریت نواز شیعہ مظاہرین کو کچلنے کے لئے منامہ میں تعینات کیے گۓ تھے- اس خبر کے مطلب یہ ہے، حالانکہ پاکستان میں شیعہ مخالف تشدد میں اضافہ ہو گیا ہے اور ریاست بار بار اسکی مخالفت پر زور دے رہی ہے، لیکن دوسرے ممالک کو شیعہ برادری کو دبانے اور جمہوریت نواز بغاوتوں کو کچلنے کے لئے اپنی فوجوں کی فراہمی کی پالیسی پر نظر ثانی نہیں کی گئی-
ملٹری فورسز کی یہ مسلسل فراہمی، اول درجے کی منافقت کی غماز ہے- یا تو یہ یقین کر لیا جاۓ کہ پاکستانی فوجی فقط کراۓ کے قاتل ہیں جو کسی بھی عرب قوم کے لئے ایسی معاونت کی درخواست پر قتل کر سکتے ہیں یا معاملات سے نمٹ سکتے ہیں- یا پھر یہ سمجھا جاۓ کہ شیعہ مسلمانوں کا قتل عام کو، چاہے وہ پاکستان میں ہو یا بحرین میں، جتنا کھل کر اعتراف کیا جاتا ہے اس کے مقابلے میں وسیح پیمانے پر حمایت حاصل ہے-ایک ایسی جمہوریت کے طور پر جس کے آئین میں مذہبی اعتقاد سے قطع نظر تمام شہریوں کو مساوی حقوق کی توثیق کی گئی ہے، ایک سیاسی نظام جس کے اپنے لوگ ایک نمائندہ انتظامیہ کے قیام کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں، اور ایک ملٹری جو کہ اصل میں شیعہ قتل کو فروغ دینے والوں سے لڑ رہی ہے، ان کے لئے کوئی جواز نہیں بنتا کہ وہ دوسروں کی شیعہ مخالف اور جمہوریت مخالف مہم کے لئے اپنے فوجی فراہم کریں-بحرین اور باقی عرب دنیا کے پاس لڑنے کے لئے اپنی جنگ ہے، جمہوریت کی راہ ہموار کرنے کے لئے انکا اپنا راستہ ہے- پاکستان ان کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتا اور نا ہی اسے بننا چاہیے-
http://urdu.dawn.com/2013/08/21/no-soldiers-for-sale/
Last edited by a moderator: