پنجاب ٥٠%
سندھ ٣٠%
بلوچستاں ١١%
کے پی ٩%
عام تاثر کے برعکس خواتین کے خلاف اس جرم کا تناسب دیہی سے زیادہ شہری علاقوں میں پایا جاتا ہے۔
سوال: فرض کیجیے آپ کو ایسی صورتحال کا سامنا ھؤ تو اپ اپنے غیور ھونے کا ثبوت کیسے دییں گے.؟ کیا اپ غیرٹ قتل کے رواج سے متفق ھییں؟
غیرت کے نام پر قتل کی شرح بلحاظِ صوبہ
[FONT=&]
پنجاب[/FONT]
پنجاب کی آبادی باقی تینوں صوبوں کو ملا کر بھی ان سے زیادہ ہے۔ نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے زیادہ تر واقعات مرکزی اور جنوبی پنجاب میں پیش آتے ہیں۔
عام تاثر کے برعکس خواتین کے خلاف اس جرم کا تناسب دیہی سے زیادہ شہری علاقوں میں پایا جاتا ہے۔
انتظامی طور پر تو یہ ایک صوبہ ہے لیکن جغرافیائی اور ثقافتی اعتبار سے اسے تین بڑے حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ شمالی پنجاب اور پوٹھوہار کا علاقہ ان میں سب سے ترقی یافتہ ہے، جو شرحِ خواندگی، صحت کی سہولیات اور معاشی مواقع کے لحاظ سے سرِفہرست ہے۔
نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے زیادہ تر واقعات مرکزی اور جنوبی پنجاب میں پیش آتے ہیں۔
اس کے بعد وسطی پنجاب کا نمبر آتا ہے، جب کہ جنوبی پنجاب ان تینوں درجہ بندیوں میں سب سے نیچے آتا ہے۔
شمالی اور وسطی پنجاب میں بھاری صنعتیں قائم ہیں جو لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہیں، جب کہ جنوبی پنجاب میں جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے۔
سندھ
سندھ، تضادات کی سرزمین: صوفی شاعروں اور ولیوں کے پہلو بہ پہلو وڈیروں، سیٹھوں اور سرمایہ کاروں کی سرزمین جہاں خواتین کے خلاف جرائم کی ایک لمبی تاریخ ہے۔
کاروکاری کی رسم کی جڑیں صدیوں پرانی ہیں اور آج بھی اس نام پر خاص طور پر خواتین کو نشانہ بنانے کا چلن ہے۔
کارو کاری کی جڑیں صدیوں پرانی ہیں اور آج بھی خاص طور پر خواتین کو نشانہ بنانے کا چلن ہے۔
یہاں ایک طرف تو تھر کی عورتیں مٹیالے پانی سے بھرے گھڑے سروں پر اٹھا کر کئی کلومیٹر دور بھٹی کی طرح تپتی زمین پر چلتی دکھائی دیتی ہیں تو دوسری طرف کلفٹن کے بنگلوں کے وسیع و عریض باغیچوں کی شادابی برقرار رکھنے کے لیے پانی پیسے کی طرح بہایا جاتا ہے۔
سندھ کو سمجھنے کے لیے ہم اسے بحیرۂ عرب کی توسیع سمجھ سکتے ہیں جہاں غربت، جہالت اور پسماندگی کے گدلے دیہی پانیوں کے درمیان شہری علاقوں کے جزیرے پائے جاتے ہیں جہاں تعلیم، روزگار، صنعت و حرفت اور ذرائع ابلاغ کی روشنیاں جھلملاتی ہیں۔
جس طرح یہ دو خطے دو مختلف جہانوں کا حصہ لگتے ہیں، ویسے ہی ان پر روایتی طور پر دو مختلف سیاسی قوتوں کا کچھ ایسا غلبہ رہا ہے جس پر پچھلے چھ انتخابات سے مختلف جماعتوں کی جانب سے دراڑ ڈالنے کی ہر کوشش کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔
سندھ وہ صوبہ ہے جس نے ملک کے ہر گوشے سے آنے والوں کو کھلی بانھوں سے بھلی کری آئیو کہا ہے، چنانچہ کراچی میں صرف دنیا کی سب سے بڑی اردو سپیکنگ آبادی مقیم نہیں ہے، بلکہ یہ دنیا کا سب سے بڑا پشتون شہر بھی ہے۔
یہ تضادات کے شکار سندھ کا ایک اور تضاد ہے۔
دوسرے صوبوں کے مقابلے میں بلوچستان میں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کا چلن بہت کم ہے
بلوچستان
بلوچستان رقبے اور قدرتی وسائل کی فراوانی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو پسماندگی، غربت اور بےروزگاری کے اعتبار سے بھی پاکستان میں سرِفہرست ہے۔
عام تاثر تو یہی ہے کہ اس صوبے میں خواتین حقوق کی جنگ میں کہیں شامل نہیں ہیں لیکن اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ پنجاب یا کسی بھی دوسرے صوبے کے مقابلے میں یہاں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کا چلن بہت کم ہے۔ سیاہ کاری کی رسم موجود ہے لیکن یہ بعض علاقوں اور بعض قبیلوں تک محدود ہے۔
ماہرین کے مطابق برصغیر میں باقاعدہ آبادی کا آغاز بلوچستان سے ہوا اور یہیں سے ہڑپہ اور موہنجودڑو کی عظیم الشان تہذیب کے سوتے پھوٹے۔ اسی قدیم ثقافت نے اس صوبے کے عوام کو مخصوص طرزِ زندگی بخشا ہے جس کی بنیاد جفاکشی، خودداری اور خودمختاری ہیں۔
بلوچستان جس قدر سنگلاخ پہاڑوں اور بے آب و گیاہ میدانوں میں گھرا ہوا ہے، اسی طرح سے اسے ایک عرصے سے علیحدگی پسندانہ شورش اور فرقہ واریت کے شعلوں نے بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
صرف قدرتی وسائل ہی نہیں، یہ صوبہ جغرافیائی وسائل کی دولت سے بھی مالامال ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی شہ رگ اس کے ایک سرے پر واقع گہری سمندری بندرگاہ گوادر ہے۔ اسی منصوبے کے باعث یہ صوبہ ایک بار پھر تمام تر توجہ کا مرکز بن گیا ہے اور تمام سٹیک ہولڈر اس کے ثمرات میں سے اپنا اپنا حصہ بٹورنے کی کوشش میں مگن ہیں۔
اس رسہ کشی سے جو دھول اٹھی ہے اور اس کے اندر صوبے کے اصل سٹیک ہولڈر یعنی اس کے پسے ہوئے عوام کہیں گم ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
'خیبر پختونخوا میں سیاہ کاری بعض علاقوں اور بعض قبیلوں تک محدود ہے'
خیبرپختونخوا
اس صوبے کی تاریخ، رسم و رواج اور ثقافت دوسرے صوبوں سے مختلف ہے۔ یہاں دوسرے صوبوں کے مقابلے پر روایتی جاگیرداری نظام کبھی بھی بڑے پیمانے پر رائج نہیں رہا، جس کی وجہ سے یہاں کے باسی سیاسی طور پر نسبتاً زیادہ خودمختار ہیں۔
اس کا ایک ثبوت یہاں ہونے والے صوبائی انتخابات کے نتائج کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ پنجاب اور سندھ میں چند مخصوص جماعتوں کا غلبہ رہتا ہے اور ہر بار وہی چہرے اسمبلیوں میں نظر آتے ہیں، لیکن خیبرپختونخوا میں پچھلے تین انتخابات میں تین مختلف جماعتوں کو مینڈیٹ ملا ہے۔
یہ صوبہ جنگلات اور آبی وسائل کی صورت میں خاصا مالامال ہے۔ چین پاک اقتصادی راہداری کا بڑا حصہ بھی یہاں سے گزرتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
دنیا کے عظیم سلسلۂ ہائے کوہ کی قربت کی وجہ سے خیبر پختونخوا قدرتی حسن کے لحاظ سے بھی اپنی مثال آپ ہے، یہ الگ بات کہ یہاں کئی عشروں سے جاری شدت پسندی کی لہر کی وجہ صوبے کے سیاحتی وسائل سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔
http://www.bbc.com/urdu/pakistan-38016353
سندھ ٣٠%
بلوچستاں ١١%
کے پی ٩%
عام تاثر کے برعکس خواتین کے خلاف اس جرم کا تناسب دیہی سے زیادہ شہری علاقوں میں پایا جاتا ہے۔
سوال: فرض کیجیے آپ کو ایسی صورتحال کا سامنا ھؤ تو اپ اپنے غیور ھونے کا ثبوت کیسے دییں گے.؟ کیا اپ غیرٹ قتل کے رواج سے متفق ھییں؟
غیرت کے نام پر قتل کی شرح بلحاظِ صوبہ
[FONT=&]
پنجاب[/FONT]
پنجاب کی آبادی باقی تینوں صوبوں کو ملا کر بھی ان سے زیادہ ہے۔ نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے زیادہ تر واقعات مرکزی اور جنوبی پنجاب میں پیش آتے ہیں۔
عام تاثر کے برعکس خواتین کے خلاف اس جرم کا تناسب دیہی سے زیادہ شہری علاقوں میں پایا جاتا ہے۔
انتظامی طور پر تو یہ ایک صوبہ ہے لیکن جغرافیائی اور ثقافتی اعتبار سے اسے تین بڑے حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ شمالی پنجاب اور پوٹھوہار کا علاقہ ان میں سب سے ترقی یافتہ ہے، جو شرحِ خواندگی، صحت کی سہولیات اور معاشی مواقع کے لحاظ سے سرِفہرست ہے۔
نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے زیادہ تر واقعات مرکزی اور جنوبی پنجاب میں پیش آتے ہیں۔
اس کے بعد وسطی پنجاب کا نمبر آتا ہے، جب کہ جنوبی پنجاب ان تینوں درجہ بندیوں میں سب سے نیچے آتا ہے۔
شمالی اور وسطی پنجاب میں بھاری صنعتیں قائم ہیں جو لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہیں، جب کہ جنوبی پنجاب میں جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے۔
سندھ
سندھ، تضادات کی سرزمین: صوفی شاعروں اور ولیوں کے پہلو بہ پہلو وڈیروں، سیٹھوں اور سرمایہ کاروں کی سرزمین جہاں خواتین کے خلاف جرائم کی ایک لمبی تاریخ ہے۔
کاروکاری کی رسم کی جڑیں صدیوں پرانی ہیں اور آج بھی اس نام پر خاص طور پر خواتین کو نشانہ بنانے کا چلن ہے۔
کارو کاری کی جڑیں صدیوں پرانی ہیں اور آج بھی خاص طور پر خواتین کو نشانہ بنانے کا چلن ہے۔
یہاں ایک طرف تو تھر کی عورتیں مٹیالے پانی سے بھرے گھڑے سروں پر اٹھا کر کئی کلومیٹر دور بھٹی کی طرح تپتی زمین پر چلتی دکھائی دیتی ہیں تو دوسری طرف کلفٹن کے بنگلوں کے وسیع و عریض باغیچوں کی شادابی برقرار رکھنے کے لیے پانی پیسے کی طرح بہایا جاتا ہے۔
سندھ کو سمجھنے کے لیے ہم اسے بحیرۂ عرب کی توسیع سمجھ سکتے ہیں جہاں غربت، جہالت اور پسماندگی کے گدلے دیہی پانیوں کے درمیان شہری علاقوں کے جزیرے پائے جاتے ہیں جہاں تعلیم، روزگار، صنعت و حرفت اور ذرائع ابلاغ کی روشنیاں جھلملاتی ہیں۔
جس طرح یہ دو خطے دو مختلف جہانوں کا حصہ لگتے ہیں، ویسے ہی ان پر روایتی طور پر دو مختلف سیاسی قوتوں کا کچھ ایسا غلبہ رہا ہے جس پر پچھلے چھ انتخابات سے مختلف جماعتوں کی جانب سے دراڑ ڈالنے کی ہر کوشش کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔
سندھ وہ صوبہ ہے جس نے ملک کے ہر گوشے سے آنے والوں کو کھلی بانھوں سے بھلی کری آئیو کہا ہے، چنانچہ کراچی میں صرف دنیا کی سب سے بڑی اردو سپیکنگ آبادی مقیم نہیں ہے، بلکہ یہ دنیا کا سب سے بڑا پشتون شہر بھی ہے۔
یہ تضادات کے شکار سندھ کا ایک اور تضاد ہے۔
دوسرے صوبوں کے مقابلے میں بلوچستان میں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کا چلن بہت کم ہے
بلوچستان
بلوچستان رقبے اور قدرتی وسائل کی فراوانی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو پسماندگی، غربت اور بےروزگاری کے اعتبار سے بھی پاکستان میں سرِفہرست ہے۔
عام تاثر تو یہی ہے کہ اس صوبے میں خواتین حقوق کی جنگ میں کہیں شامل نہیں ہیں لیکن اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ پنجاب یا کسی بھی دوسرے صوبے کے مقابلے میں یہاں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کا چلن بہت کم ہے۔ سیاہ کاری کی رسم موجود ہے لیکن یہ بعض علاقوں اور بعض قبیلوں تک محدود ہے۔
ماہرین کے مطابق برصغیر میں باقاعدہ آبادی کا آغاز بلوچستان سے ہوا اور یہیں سے ہڑپہ اور موہنجودڑو کی عظیم الشان تہذیب کے سوتے پھوٹے۔ اسی قدیم ثقافت نے اس صوبے کے عوام کو مخصوص طرزِ زندگی بخشا ہے جس کی بنیاد جفاکشی، خودداری اور خودمختاری ہیں۔
بلوچستان جس قدر سنگلاخ پہاڑوں اور بے آب و گیاہ میدانوں میں گھرا ہوا ہے، اسی طرح سے اسے ایک عرصے سے علیحدگی پسندانہ شورش اور فرقہ واریت کے شعلوں نے بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
صرف قدرتی وسائل ہی نہیں، یہ صوبہ جغرافیائی وسائل کی دولت سے بھی مالامال ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی شہ رگ اس کے ایک سرے پر واقع گہری سمندری بندرگاہ گوادر ہے۔ اسی منصوبے کے باعث یہ صوبہ ایک بار پھر تمام تر توجہ کا مرکز بن گیا ہے اور تمام سٹیک ہولڈر اس کے ثمرات میں سے اپنا اپنا حصہ بٹورنے کی کوشش میں مگن ہیں۔
اس رسہ کشی سے جو دھول اٹھی ہے اور اس کے اندر صوبے کے اصل سٹیک ہولڈر یعنی اس کے پسے ہوئے عوام کہیں گم ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
'خیبر پختونخوا میں سیاہ کاری بعض علاقوں اور بعض قبیلوں تک محدود ہے'
خیبرپختونخوا
اس صوبے کی تاریخ، رسم و رواج اور ثقافت دوسرے صوبوں سے مختلف ہے۔ یہاں دوسرے صوبوں کے مقابلے پر روایتی جاگیرداری نظام کبھی بھی بڑے پیمانے پر رائج نہیں رہا، جس کی وجہ سے یہاں کے باسی سیاسی طور پر نسبتاً زیادہ خودمختار ہیں۔
اس کا ایک ثبوت یہاں ہونے والے صوبائی انتخابات کے نتائج کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ پنجاب اور سندھ میں چند مخصوص جماعتوں کا غلبہ رہتا ہے اور ہر بار وہی چہرے اسمبلیوں میں نظر آتے ہیں، لیکن خیبرپختونخوا میں پچھلے تین انتخابات میں تین مختلف جماعتوں کو مینڈیٹ ملا ہے۔
یہ صوبہ جنگلات اور آبی وسائل کی صورت میں خاصا مالامال ہے۔ چین پاک اقتصادی راہداری کا بڑا حصہ بھی یہاں سے گزرتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
دنیا کے عظیم سلسلۂ ہائے کوہ کی قربت کی وجہ سے خیبر پختونخوا قدرتی حسن کے لحاظ سے بھی اپنی مثال آپ ہے، یہ الگ بات کہ یہاں کئی عشروں سے جاری شدت پسندی کی لہر کی وجہ صوبے کے سیاحتی وسائل سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔
http://www.bbc.com/urdu/pakistan-38016353