دوسری بڑی غلطی عمران خان کی سیاسی حیثیت کا ادراک نہ کرنا ہے۔ اپوزیشن لیڈروں نے یہ رٹ لگائی ہے کہ عمران خان صفر ہیں اور وہ محض سلیکٹڈ ہیں، کٹھ پتلی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے وغیرہ وغیرہ۔ اس کا پہلا حصہ تو صریحاً غلط ہے کہ عمران خان قومی سیاست کا بہت اہم حصہ ہے۔ عمران خان نے 2013کے الیکشن میں سترلاکھ ووٹ لئے تھے، جب اس کے پاس مناسب امیدوار تھے نہ الیکشن مشینری اور تب اسٹیبلشمنٹ کی انہیں ہرگز حمایت حاصل نہیں تھی۔ 2018ء کے الیکشن میں عمران خان کو پونے دو کروڑ کے لگ بھگ ووٹ ملے۔ اس میں کچھ حصہ اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر تحریک انصاف میں شامل ہونے والے الیکٹ ایبلز کا ہوگا، ن لیگ کے قائد نواز شریف کی اسیری کا بھی کچھ فائدہ ملا ہوگا۔ اسکے باوجود عمران خان ہر حال میںسوا کروڑ ووٹ لینے کی قوت رکھتے تھے، ممکن ہے اس سے بھی زیادہ۔ عمران خان کے پاس آج بھی سیاسی عصبیت موجود ہے۔ ایک بڑا حلقہ اس کی بیڈ گورننس، ناتجربہ کاری اور سیاسی غلطیوں کے باوجود ساتھ کھڑا ہے۔
عمران خان کو ڈس کریڈٹ کرنے کے لئے انہوں نے اس پر پھبتیاں کسیں، سلیکٹڈ، کٹھ پتلی، زیرو وغیرہ کہا۔ غلطی یہ ہے کہ ان تقریروں پر خود بھی یقین کر لیا۔ عمران خان کو انڈر اسٹیمیٹ کرنا سیاسی بے وقوفی ہے۔ عمران خان توقع کے مطابق پرفارم نہیں کر پایا، یہ ایک سامنے کی حقیقت ہے۔ عمران کی ناتجربہ کاری اور نالائق ٹیم نے اس کی بھد اڑوائی ہے، یہ حق سچ ہے۔ عمران خان زیرو ہوچکا، یہ البتہ سچ نہیں۔ ہمارے ہاں حکومتوں کی بری کارکردگی کے باوجود اس کے حامی اور ووٹر اتنا جلد مایوس نہیں ہوتے۔ عمران خان کی کامیابی یہ ہے کہ اس نے پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو اپنے حامیوں کے سامنے کرپٹ اور سٹیٹس کو کی علمبردار جماعتیں ثابت کر دیا ہے۔
تحریک انصاف کے حامی عمران خان کی ناکامی کے بعد بھی ان دونوں جماعتوں کا رخ نہیں کر سکتے۔ وہ یہی کہتے ہیں کہ چلیں عمران خان ڈیلیور نہیں کر سکا، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ پچھلی پارٹیاں دوبارہ حکومت میں آ جائیں۔ عمران خان کی یہ پوزیشن، اسکی سیاسی عصبیت اور پڑھے لکھے نوجوانوں میں گہرا اثر ونفوذ بھی اسٹیبلشمنٹ کو تحریک انصاف سے دور نہیں ہٹنے دے رہا۔ انہیں اندازہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے جیالے، مسلم لیگ کے متوالے، مولانا کے شیدائی اور بلوچ، پشتون قوم پرست حلقے ان کے مخالف ہیں، اگر انصافین بھی مخالف ہوگئے تو کوئی پاپولر دھڑا ان کا حامی نہ رہے گا۔عمران خان سے مکمل عوامی مایوسی میں ڈیڑھ دو سال مزید لگیں گے۔
Daily 92 Roznama ePaper - کیا پی ڈی ایم ’’ٹریپ ‘‘سے باہر آ چکا؟
آج کل سیاست پر بحث ہو تو پہلا سوال یہی سامنے آتاہے کہ کیا اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم اپنی سیاست میں کامیاب ہو گا اور ایسی صورت میں عمران خان اور ان کی جماعت کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟ میرے نزدیک اس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم نے اپنے مختصر سیاسی سفر میں جو غلطیاںکیں، کیا ان کی تلافی...
roznama92news.com