صديق جان کے سر پر ایجنسیوں نے ہاتھ کیا رکھ دیا وہ خود کو شیر سمجھنے لگا . لیکن اس کی اوقات ایک کتے سے کم نہیں تھی . دو افراد نے اسے بازو اور ٹانگوں سے پکڑا اور اس کا پچھواڑا سیک دیا بالکل اسی طرح جیسے تھانے میں چوری کے ملزم کو بازو اور ٹانگوں سے پکڑ کر لتر یشن کی جاتی ہے . صديق جان بهت رویا ہو گا . اتنا درد اسے اپنی گا ..... پر محسوس نہیں ہوا ہوگا جتنا اپنی اوقات جان ہوا ہو گا . یہ تھی اس کی حیثیت اور یہ تھا اس کا لیول . ہاں جسٹس عیسی کے خلاف جہاد کرنا اس کی روزی روٹی کا حصہ تھا لیکن اس لیول پر جا کر سپریم کورٹ کے جج کو للکارنا آسان کام نہیں . یہ جانتے ہوئے کہ مستقبل میں وہ چیف جسٹس بن سکتا ہے اپنی جان داو پر لگانے والا صدیق ننھی سی جان ہی تھا . وہ یہ سب ایک طاقتور ایجنسی کے چیف کی محبت میں کر رہا تھا . لیکن یہ محبت یکطرفہ تھی . اسے اپنی اوقات میں رہنا چاہیے تھا . چنگڑ کدی چوهدری نہیں بنتے . اور کوا کبھی عقاب نہیں بنتا . اسی طرح صدیق جان بچاره کمی کمینوں کی طرح رگڑا گیا . ایسے ہی جیسے امریکہ کے جانے کے بعد افغان حکومت رگڑی جا رہی ہے . صديق جان جیسے کرائے کے قاتل تاریک راہوں میں رگڑے جاتے ہیں اور ادارہ کی طرف سے کوئی تمغہ نہیں دیا جاتا الٹا اس شودر کی مدد کو کوئی نہیں آتا . صدیق جان آج تجھے اپنی اوقات پتا چلی جن لوگوں کی خاطر تو اپنی جان داو پر لگا کر جسٹس عيسى کے خلاف جہاد کر رہا تھا ان کی نظر میں تو ایک باتھ روم کا ٹشو پیپر ہے جس سے وہ اپنا گند صاف کر کے کوڑے دان میں پھینک دیں گے . صديق جان تمام یوتھیوں کے لیے ایک مثال بن چکا ہے جیسے ہی نیازی راج ختم ہو گا یو تھیوں کی تشريفيں سلامت نہیں رہیں گی . برے کاموں کے برے نتیجے