مجھے اپنے ہائی سکول کے دنوں میں شریف خاندان کے ماڈل ٹاؤن والے آبائی گھر سے ملحقہ پلاٹ اور سامنے والے پارک پر غیر قانونی تجاوزات کی توڑ پھوڑ اچھی طرح یاد ہے۔
یہ نوّے کی دہائی میں پیپلز پارٹی کا دوسرا دورِ حکومت تھا۔ ایک سہ پہر سکول سے واپسی پر جب ہم طالب علموں نے پولیس کی بہت زیادہ نفری کو قطار در قطار ماڈل ٹاؤن ایچ بلاک کی طرف مارچ کرتے دیکھا تو تجسّس کے ہاتھوں مجبور بہت سے طلبأ ان کے پیچھے چل دیے۔ جب پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم کے گھر کے سامنے پہنچے تو وہاں کا منظر ہی عجیب تھا۔ ہر طرف شور شرابہ اور چیخ و پکار تھی۔ گھر کے سامنے سے گزرنے والی سڑک جسے وزارت عظمیٰ کے دور میں آہنی پھاٹک اور جنگلے لگا کر عوام کے لیے بند کر دیا گیا تھا اب کھل چکی تھی۔
سرکاری اہلکار بلڈوزر ایکسکیویٹر اور دیگر ڈیمولیشن مشینری لیے گھر کے صدر دروازے سے ملحقہ تعمیرات کو منہدم کرنے میں مصروف تھے۔ گھر کے اندر سے خواتین وحضرات کے چلّانے کی آوازیں مشینری کی اونچی آوازوں کے باوجود سنی جا سکتی تھیں۔ شاید یہ چلّانے والے سب گھر کے ملازمین ہوں کیونکہ وہ گھر کی بیرونی دیوار کے انتہائی قریب سے توڑ پھوڑ کرنے والے مشین آپریٹرز پر چلّا رہے تھے۔ جتنی تیزی سے دیواریں اور جنگلے گرانے کا کام کیا جا رہا تھا اتنی ہی سرعت سے ملبے سے لدے ڈمپر اس ملبے کو ٹھکانے لگانے میں مصروف تھے۔
اور دیکھتے ہی دیکھتے سابقہ وزیر اعظم پاکستان کے گھر سے ملحقہ ناجائز تجاوزات کو منہدم کر کے اس ملبے کو ماڈل ٹاؤن کے ڈاکخانے سے ملحقہ خالی پلاٹ میں ڈھیر کر دیا گیا جو آنے والے کئی سالوں تک وہاں سے گزرنے والے لوگوں کو عبرت کی داستان سناتا رہا۔
لیکن عبرت کی یہ داستان شاید صرف عوام کے لیے تھی۔ ملک کی اشرافیہ اس قدر ڈھیٹ ہو چکی ہے کہ اس طرح کی کسی بھی بات میں شرمندگی محسوس کرنے کی بجائے ڈھٹائی سے اسے اپنے خلاف سازش قرار دے کر اس وقت کا انتظار شروع کر دیتے ہیں جب اقتدار دوبارہ ان کے ہاتھ آئے اور یہ اپنے خلاف تادیبی کاروائی کرنے والوں سے بدلہ لینے کے ساتھ ساتھ پہلے سے زیادہ بد عنوانی کر سکیں۔
شریف خاندان نے بھی یہی کیا۔ جونہی یہ دوبارہ اقتدار میں آئے انہوں نے اپنے والد کے گھر سے ملحقہ پلاٹ پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ گھر کی عقبی اور سامنے والی سڑک کو دوبارہ جنگلے لگ گئے اور گھر کے سامنے والا کئی کنال کا پلاٹ بھی عوام کی بجائے حکمران خاندان کے گھر تشریف لانے والے مہمانوں کی کار پارکنگ کے لیے استعمال ہونے لگا۔ عوام کو مرعوب کرنے کے لیے شیر کا ایک بہت بڑا مجسمہ بھی صدر دروازے کے قریب آویزاں کر دیا گیا جیسے یہ شیر ان ناجائز تجاوزات کی حفاظت پر مامور ہو۔
حالات نے ایک بار پھر پلٹا کھایا اور اس بار سارا خاندان سعودی مہمان بنا۔ ماڈل ٹاؤن والے گھر کو ایک بار پھر تجاوزات سے پاک کیا گیا اور ایک بار پھر اس گھر پر ویرانی چھا گئی۔ اگرچہ اس وقت یہ گھر شریف خاندان کی رہائش گاہ کی بجائے پارٹی کے دفتر کے طور پر استعمال ہو رہا تھا۔
قدرت نے ایک اور موقع دیا اور یہ خاندان ایک بار پھر پنجاب کی خدمت پر مامور ہوا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ماضی کے تلخ تجربات سے کچھ سبق سیکھا جاتا لیکن جس چیز کے خمیر میں ہی سیدھا ہونا نہ ہو وہ پورے سو سال کے بعد بھی ٹیڑھی ہی رہتی ہے۔ جلا وطنی کے سالوں میں نئی نسل جوان ہو گئی اور اس بار ماڈل ٹاؤن ایچ بلاک ہی کا ایک گھر حمزہ شہباز کی ملکیت بنا۔ جب باپ صوبے کا وزیر اعلیٰ ہو تو گھر کے آگے پیچھے کی سڑکیں بلاک کرنے سے کون روک سکتا ہے؟ چنانچہ چھوٹے نے بھی وہی کیا جس کی اسے اپنے بڑوں سے تربیت ملی۔
یہ صرف شریف خاندان ہی کا نہیں بلکہ ہماری ساری اشرافیہ کا مسئلہ ہے۔ بلکہ اگر اسے مشغلہ کہا جائے تو بہتر ہے کہ یہ خاندان اپنے مشغلے کے طور پر عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ انہیں عوام پر اپنی طاقت کی دھونس جما کر ذہنی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ ماڈل ٹاؤن کے ڈاکخانے سے ملحقہ پلاٹ میں اپنے آبائی گھر کا ملبہ بکھرا دیکھ کر انہیں کیا عبرت حاصل ہو؟ انہیں تو شاید بار بار قدرت سے سبق لینے کی عادت ہو گئی ہے۔ ایسا سبق جو ہر بار ان کے سروں کے اوپر سے گزر جاتا ہے۔
یہ نوّے کی دہائی میں پیپلز پارٹی کا دوسرا دورِ حکومت تھا۔ ایک سہ پہر سکول سے واپسی پر جب ہم طالب علموں نے پولیس کی بہت زیادہ نفری کو قطار در قطار ماڈل ٹاؤن ایچ بلاک کی طرف مارچ کرتے دیکھا تو تجسّس کے ہاتھوں مجبور بہت سے طلبأ ان کے پیچھے چل دیے۔ جب پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم کے گھر کے سامنے پہنچے تو وہاں کا منظر ہی عجیب تھا۔ ہر طرف شور شرابہ اور چیخ و پکار تھی۔ گھر کے سامنے سے گزرنے والی سڑک جسے وزارت عظمیٰ کے دور میں آہنی پھاٹک اور جنگلے لگا کر عوام کے لیے بند کر دیا گیا تھا اب کھل چکی تھی۔
سرکاری اہلکار بلڈوزر ایکسکیویٹر اور دیگر ڈیمولیشن مشینری لیے گھر کے صدر دروازے سے ملحقہ تعمیرات کو منہدم کرنے میں مصروف تھے۔ گھر کے اندر سے خواتین وحضرات کے چلّانے کی آوازیں مشینری کی اونچی آوازوں کے باوجود سنی جا سکتی تھیں۔ شاید یہ چلّانے والے سب گھر کے ملازمین ہوں کیونکہ وہ گھر کی بیرونی دیوار کے انتہائی قریب سے توڑ پھوڑ کرنے والے مشین آپریٹرز پر چلّا رہے تھے۔ جتنی تیزی سے دیواریں اور جنگلے گرانے کا کام کیا جا رہا تھا اتنی ہی سرعت سے ملبے سے لدے ڈمپر اس ملبے کو ٹھکانے لگانے میں مصروف تھے۔
اور دیکھتے ہی دیکھتے سابقہ وزیر اعظم پاکستان کے گھر سے ملحقہ ناجائز تجاوزات کو منہدم کر کے اس ملبے کو ماڈل ٹاؤن کے ڈاکخانے سے ملحقہ خالی پلاٹ میں ڈھیر کر دیا گیا جو آنے والے کئی سالوں تک وہاں سے گزرنے والے لوگوں کو عبرت کی داستان سناتا رہا۔
لیکن عبرت کی یہ داستان شاید صرف عوام کے لیے تھی۔ ملک کی اشرافیہ اس قدر ڈھیٹ ہو چکی ہے کہ اس طرح کی کسی بھی بات میں شرمندگی محسوس کرنے کی بجائے ڈھٹائی سے اسے اپنے خلاف سازش قرار دے کر اس وقت کا انتظار شروع کر دیتے ہیں جب اقتدار دوبارہ ان کے ہاتھ آئے اور یہ اپنے خلاف تادیبی کاروائی کرنے والوں سے بدلہ لینے کے ساتھ ساتھ پہلے سے زیادہ بد عنوانی کر سکیں۔
شریف خاندان نے بھی یہی کیا۔ جونہی یہ دوبارہ اقتدار میں آئے انہوں نے اپنے والد کے گھر سے ملحقہ پلاٹ پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ گھر کی عقبی اور سامنے والی سڑک کو دوبارہ جنگلے لگ گئے اور گھر کے سامنے والا کئی کنال کا پلاٹ بھی عوام کی بجائے حکمران خاندان کے گھر تشریف لانے والے مہمانوں کی کار پارکنگ کے لیے استعمال ہونے لگا۔ عوام کو مرعوب کرنے کے لیے شیر کا ایک بہت بڑا مجسمہ بھی صدر دروازے کے قریب آویزاں کر دیا گیا جیسے یہ شیر ان ناجائز تجاوزات کی حفاظت پر مامور ہو۔
حالات نے ایک بار پھر پلٹا کھایا اور اس بار سارا خاندان سعودی مہمان بنا۔ ماڈل ٹاؤن والے گھر کو ایک بار پھر تجاوزات سے پاک کیا گیا اور ایک بار پھر اس گھر پر ویرانی چھا گئی۔ اگرچہ اس وقت یہ گھر شریف خاندان کی رہائش گاہ کی بجائے پارٹی کے دفتر کے طور پر استعمال ہو رہا تھا۔
قدرت نے ایک اور موقع دیا اور یہ خاندان ایک بار پھر پنجاب کی خدمت پر مامور ہوا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ماضی کے تلخ تجربات سے کچھ سبق سیکھا جاتا لیکن جس چیز کے خمیر میں ہی سیدھا ہونا نہ ہو وہ پورے سو سال کے بعد بھی ٹیڑھی ہی رہتی ہے۔ جلا وطنی کے سالوں میں نئی نسل جوان ہو گئی اور اس بار ماڈل ٹاؤن ایچ بلاک ہی کا ایک گھر حمزہ شہباز کی ملکیت بنا۔ جب باپ صوبے کا وزیر اعلیٰ ہو تو گھر کے آگے پیچھے کی سڑکیں بلاک کرنے سے کون روک سکتا ہے؟ چنانچہ چھوٹے نے بھی وہی کیا جس کی اسے اپنے بڑوں سے تربیت ملی۔
یہ صرف شریف خاندان ہی کا نہیں بلکہ ہماری ساری اشرافیہ کا مسئلہ ہے۔ بلکہ اگر اسے مشغلہ کہا جائے تو بہتر ہے کہ یہ خاندان اپنے مشغلے کے طور پر عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ انہیں عوام پر اپنی طاقت کی دھونس جما کر ذہنی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ ماڈل ٹاؤن کے ڈاکخانے سے ملحقہ پلاٹ میں اپنے آبائی گھر کا ملبہ بکھرا دیکھ کر انہیں کیا عبرت حاصل ہو؟ انہیں تو شاید بار بار قدرت سے سبق لینے کی عادت ہو گئی ہے۔ ایسا سبق جو ہر بار ان کے سروں کے اوپر سے گزر جاتا ہے۔
Last edited: