
سپریم جوڈیشل کونسل میں لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا کے خلاف ایک ریفرنس دائر کیا گیا ہے، جو اسسٹنٹ اٹارنی جنرل شیراز ذکا کی جانب سے پیش کیا گیا۔ ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ نجی کمپنی بنام وزارت پٹرولیم کا مقدمہ سات سال سے جسٹس شمس محمود مرزا کی عدالت میں زیر التوا ہے۔ ہر سماعت پر وہ درخواست گزار کمپنی کے حق میں حکم امتناع میں توسیع کرتے آ رہے ہیں۔
ریفرنس کے مطابق، گزشتہ ڈیڑھ سال میں اس کیس کی تین سماعتیں مقرر ہوئیں، لیکن جسٹس شمس نے مبینہ طور پر درخواست گزار کو فائدہ پہنچانے کے لیے فیصلہ نہیں دیا۔ کیس 40.1 کروڑ روپے کی پیٹرولیم لیوی سے متعلق ہے، جس کی وجہ سے حکومت پاکستان کو نقصان اٹھانا پڑا۔ ایف آئی اے کی انکوائری کے مطابق، جسٹس شمس کے حکم امتناع کی وجہ سے اس معاملے پر ہونے والی تفتیش معطل ہو چکی ہے۔
ریفرنس میں مزید الزام لگایا گیا ہے کہ جسٹس شمس محمود مرزا نے جان بوجھ کر کیس کا فیصلہ محفوظ کیا اور 20 روز تک کیس فائل اپنے پاس رکھی۔ اس تاخیر کو ان کی نااہلیت اور مبینہ بددیانتی قرار دیا گیا ہے۔
ریفرنس میں درخواست کی گئی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت جسٹس شمس محمود مرزا کو عہدے سے ہٹایا جائے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد کسی بھی جج کو نااہلی ثابت ہونے پر عہدے سے برطرف کیا جا سکتا ہے۔