QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)
بسم اللہ الرحمن الرحیم

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حُسن تبسم
ہنسی مزاح کے آداب


۔
1- زبانی یا عملی ہنسی مزاح اور دل لگی کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر قسم کے جھوٹ سے مبر ا ہو، گناہ، اذیت رسانی، قطع رحم، عداوت اور بغض سے پاک ہو۔



حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہم نے عرض کیا: یارسول اللہ ! آپ ہم سے دل لگی اور مزاح فرماتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اِنِّیْ لَآ اَقُوْلُ اِلاَّ حَقًّا۔[ جامع ترمذی، رقم:1990]
میں حق کے سواکچھ نہیں کہتا۔

اس سے معلوم ہوا انسان کو ہنسی مزاح ، سنجیدگی، غصہ اور رضا ہر حال میں حق اور سچ کہنا چاہئے۔

۔
2 مزاح دوسروں پر کیچڑ اچھالنے اور جھوٹ گھڑ کر دوسروں کو ہنسانے کے لئے نہ ہو۔اللہ تعالیٰ کا فرمان
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْہُمْ وَ لاَ نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْہُنَّ ج وَ لاَ تَلْمِزُوْآ اَنْفُسَکُمْ وَ لاَ تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ط بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ ج وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَo [الحجرات: 11]

اے ایمان والو! مَردوں کا کوئی گروہ دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے بعید نہیں کہ وہ اُن (مذاق اڑانے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا (مذاق اڑایا کریں) عجب نہیں کہ وہ اُن سے بہتر ہوں، اور آپس میں طعنہ زنی نہ کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے بلائو، کیا ہی بُرا نام ہے ایمان کے بعد فاسق کہلانا اور جو لوگ توبہ نہ کریںتو وہی ظلم کرنے والے ہیں۔



رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
وَیْل لِّلَّذِیْ یُحَدِّثُ بِالْحَدِیْثِ لِیُضْحِکَ بِہِ الْقَوْمَ فَیَکْذِبُ وَیْل لَّہ وَیْلٌ لَّہ۔[جامع ترمذی،رقم:2315 ]
اس شخص کے لئے ہلاکت اور تباہی ہے جو لوگوں کو ہنسانے کے جھوٹ بولتا ہے، اس کے لئے ہلاکت ہے، اس کے لئے ہلاکت ہے۔

۔
3 کسی کی معذوری، بے کسی اور غربت کا مذاق نہ اڑائے، وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا، ممکن ہے آج جس شخص کی معذوری، بے کسی اور غربت کا مذاق اڑایا جا رہا ہو ، کل کو وہ سب کچھ مذاق اڑانے والے پر لوٹ آئے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ [آل عمران:140 ]
اور ہم ان ایام کو ان کے درمیان ادلتے بدلتے رہا کرتے ہیں۔

۔
4 مزاح معقول حد کے اندر ہو اس سے کسی فرد کے حقوق پر زد نہ پڑتی ہو، ہنسی مزاح کے پردہ میں حرام امور کو حلال نہ بنایا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لَا یَاْخُذَنَّ اَحَدُکُمْ مَتَاعَ اَخِیْہِ لاَعِبًا وَّ لاَ جَآدًّا۔[سنن ابی داؤد، رقم:5003]
تم میں سے کوئی بطور ہنسی اور سنجیدگی کسی بھائی کا مال نہ لے۔

اس ارشاد گرامی میں ہر قسم کی اشیاء مثلاً قلم، گھڑی، لاٹھی ، کتاب، کاپی، انگوٹھی، مسواک، بیگ، وغیرہ سب شامل ہیں، کیونکہ دانستہ اور نا دانستہ ہر حالت میں دوسروں کے حقوق کا احترام لازم ہے۔



۔5 مزاح سے کسی مسلمان کو خوف زدہ کرنا ممنوع ہے۔

سنن ابی داؤد میں حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں: ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نے بیان کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے، ایک صاحب ان میں سے کھڑے ہوئے تو دوسرے صاحب رسی لے کر پیچھے گئے اور اس کو پکڑ لیا وہ گھبرا گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لاَ یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ اَنْ یُّرَوِّعَ مُسْلِمًا۔[سنن ابی داؤد،رقم:5004]

کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ وہ دوسرے مسلمان کو خوف زدہ کرے۔



اس سے معلوم ہوا کہ کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ ہنسی مزاح کی آڑ میں کسی انسان کو خوف زدہ کرے، خواہ وہ جھوٹی خبر سنائے، اندھیرے سے ڈرائے یاکوئی اور ایسی حرکت کرے۔



۔6 ہنسی مزاح اپنے درست وقت پر ہو تاکہ تھکاوٹ دور ہو، انسان تازہ دم ہو جائے، ہر وقت اور ہر کسی سے ہنسی مذاق اخلاق اور شرافت سے گری ہوئی حرکت ہے، بعض احمق نماز، روزہ، حج وغیرہ جیسی دیگر عبادات میں بھی ہنسی مذاق سے باز نہیں آتے۔ مجلس کے آداب کا خیال نہیں کرتے اور اہل مجلس کی عزت و وقار کو خاطر میں نہیں لاتے۔


۔7 ہنسی مزاح کے لئے جس طرح صحیح وقت کا خیال رکھنا ضروری ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ مجلس اور مقام کا بھی خیال رکھا جائے، مساجد، مکاتب،مجالسِ ذکر و فکر، دروسِ قرآن، تعلیم و تعلّم اور اعتکاف کی حالت میں ہنسی مزاح ناپسندیدہ ہے۔ اس سے نہ صرف مزاح کرنے والے کی شخصیت مجروح ہوتی ہے، محفل اور مقام کا وقار بھی مجروح ہوتا ہے۔



۔8 ہنسی مزاح کی بات کے لئے مخاطَب شخصیت کا لحاظ بھی ضروری ہے، بے وقوف اور احمق کے ساتھ ہنسی مزاح میں انسان کو ناپسندیدہ باتیں سننا پڑتی ہیں، ہمیشہ حد اعتدال میں رہتے ہوئے دانش مندوں سے ہنسی مزاح کی باتیں کی جا سکتی ہیں، اور اپنے عزت و وقار کو بچایا جا سکتا ہے۔ عورتوں اور بچوں سے کبھی کبھار ہلکا پھلکا مزاح مسنون ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو یَا ذَا الْاُذُنَیْنِ (اے دو کانوں والے) کہہ کر بلایا[جامع ترمذی، رقم:1992 ]۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے بھائی سے فرمایا یَا اَبَا عُمَیْر!مَا فَعَلَ النُّغَیْراے ابو عمیر!تیرے بلبل نے کیا کیا۔[جامع ترمذی، رقم:1989 ] ، بوڑھی خاتون سے فرمایا:بوڑھی عورتیں جنت میں نہ جائیں گی۔ (جوان ہو کر جائیں گی) ۔[ شمائل ترمذی، رقم:231]، سواری کے لئے اونٹ مانگنے والے کے لئے فرمایا: اسے اونٹ کا بچہ دے دو، پھر اس کے سوال پر فرمایا: ہر اونٹ اونٹ ہی کا بچہ ہوتا ہے۔[جامع ترمذی، کتاب البر و الصلۃ، رقم:1991]



۔9 ذکر الٰہی، آیات قرآنی، شعائر اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو ہنسی مزاح کا موضوع نہ بنائے،طبری نے کہا ہے غزوۂ تبوک میں بعض لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قراء کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا: یہ قراء بڑے پیٹو، بڑے لباڑ اور مقابلہ کے وقت بڑے بزدل ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوئیں:
وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّماَ کُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُ ط قُلْ اَبِاللہِ وَ اٰیٰتِہ وَ رَسُوْلِہ کُنْتُمْ تَسْتَہْزِؤنَ o لاَ تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ ط اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَآئِفَۃٍ مِّنْکُمْ نُعَذِّبْ طَآئِفَۃًبِاَنَّہُمْ کاَنُوْا مُجْرِمِیْنَ o [التوبہ:65، 66 ]
اور اگر آپ ان سے (ان کے مذاق اڑانے کے متعلق) سوال کریں تو وہ ضرور یہ کہیں گے کہ ہم تو محض خوش طبعی اور دل لگی کرتے تھے، آپ کہیے کہ کیاتم اللہ کااور اس کی آیتوں کا اور اس کے رسول کا مذاق اڑاتے تھے۔ اب عذر نہ پیش کرو ، بے شک تم اپنے ایمان کے اظہار کے بعد کفر کر چکے ہو، اگر ہم تمہاری ایک جماعت سے (اس کی توبہ کی وجہ سے )درگزر کر لیں تو بے شک ہم دوسرے فریق کو عذاب دیں گے، کیونکہ وہ مجرم تھے (وہ کفر اور مذاق اڑانے پر اصرار کرتے تھے)۔

ربوبیت،رسالت، وحی اور دین واجب الاحترام ہیں، ان کی ہنسی اڑانا، مزاح کرنا نا جائز اور حرام ہے بلکہ کفر ہے۔

دین اسلام ہر معاملہ میں اعتدال کی تعلیم دیتا ہے، ہنسی مزاح میں بھی اعتدال ضروری ہے، ہر وقت ہنستے رہنا دل کو مردہ کر دیتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
اِیَّاکَ وَالضِّحْکَ فَاِنَّ کَثْرَۃَ الضِّحْکِ تُمِیْتُ الْقَلْبَ [جامع ترمذی، کتاب الزھد، رقم:2305]
ہنسی سے بچو کیونکہ ہنسی کی کثرت دل کو مردہ کر دیتی ہے۔