tariisb
Chief Minister (5k+ posts)
درندہ
اس سے پہلی ملاقات دبئی ائیرپورٹ لاؤنج میں چلتے چلتے ہوئی ، میرے لیے دائیں بائیں دیکھنا محال ، اپنے کسی خیال کی گرفت میں آگے بڑھتے ہوے ، اچانک ایک خاتون کی آواز آئ ، دائیں جانب تیز تیز چلتی ، قدم اٹھاتی وہ ساتھ آ لگی ، سنئیے ؟ جی ؟ میں نے مختصر سا جی کہنا ہی مناسب سمجھا ، خاتون نے فوری ایک ایڈریس تھما دیا ، کین یو گائیڈ می ؟ آئ مین ہاؤ ٹو ؟ وہیر ٹو ؟؟؟؟؟ جی ، میرے پھر سے جی نے اسے یکلخت خاموش کر دیا ، ہم تیز تیز چلتے جاتے تھے ، مجھے باہر نکل کر سگریٹ سلگانے کی جلدی تھی ، ساتھ ساتھ اس کا لکھا ہوا پتہ پڑھنے لگا ، لیکن نامکمل سا لگا ، آپ کے مطلوبہ پتہ میں ایک ابہام ہے ، ہوٹل بھی درست ، معروف شاھراہ بھی ٹھیک ، لیکن دونوں ایک جگہ پر نہیں ، سڑک درست ہے یا ہوٹل ٹھیک ؟ آپ فیصلہ کر لیں ، شاہراہ کی طرف جانا ہے یا ہوٹل میں ؟ آف کورس ، مائی ڈسٹینین از دیر ، اس نے تہیہ کر رکھا تھا ، جو کہنا ہے انگریزی میں کہنا ہے ، انگریزی کے سوا کچھ نہیں کہنا ، خیر ہم دونوں میں زبان کا فرق محسوس نا ہوا ، اجنبیوں کی طرح چلتے چلتے مکالمہ جاری رہا ، آپ کا ہوٹل دوسری طرف ہے ، اس کے لیے آپ کو شاہراہ ..... پر جانا ہو گا ، باہر بآسانی ہر طرح کی ٹرانسپورٹ میسر ہے ، ٹیکسی ؟ میٹرو ؟ بسز؟ آپ جس سے جانا چاہیں ہروسیلہ دستیاب ہے ، لیکن شاہراہ اور مقام ذہن نشین کر لیں ، اگر ؟ میرا جملہ "اگر" تک پہنچا ہی تھا ، اس بار اس نے مجھے ٹوک دیا ، شائد بلا ارادہ اس کے منہ سے لفظ "جی" نکل گیا ، اس کی طرف دیکھا ، جھینپ سی گئی ؟ نہیں بلکل نہیں ، میرے دیکھتے ہی اس نے پھر سے "جی؟" کہہ دیا ، اب کی بار سوالیہ انداز تھا ، اگر ؟ پھر بھی کوئی مشکل درپیش ہو تو ، میں راستے میں آپ کو ڈراپ کرتا چلا جاتا ہوں ، اٹز ان مائی روٹ ، اینڈ نتھنگ برڈن فار می ،.................. باہر دوست منتظر تھا ، لیکن زندگی میں پہلی بار ہوائیاں اس کے چہرے پر دیکھیں ، مجھے کوئی حیرانگی نا ہوئی ، ساتھ خاتون ، دیکھ کر ایک دیسی کے تاثرات جانے پہچانے ہوتے ہیں ، میں نے حسب عادت تمہید کو حذف کیا ، ..... مرکز کی طرف سے جانا ہے ، خاتون کو ڈراپ بھی کرنا ہے ، جی رائیٹ ، .....کی خوبی یہی سوال کم کرتا ہے ، کوئی بھی بات سمجھ آنے پر رائٹ کہہ کر تسلی رسید کردیتا ہے ، راستے میں کوئی بات نا ہوئی ، میں کھڑکی سے باہر موسم اور ٹریفک دیکھتا رہا ، وہ پیچھے بیٹھی پتہ نہیں کیا سوچتی رہی ، سفر جلدی ختم ہوا ، اس کی منزل آ چکی تھی ، میں مروتا ، باہر نکل آیا ، جی یہی ہوٹل ہے ، سٹی سنٹر یہاں سے اتنے فاصلے پر ہے ، مرکز ادھر ، اودھر ، یہاں ، وہاں ہے ، ضروری تفصیل ایک سانس میں بتا دی ، ٹیک کیر آف یو ؟ رسمی سا سلام کر کے ہم آگے نکل پڑے
ابو ظہبی رئیل سٹیٹ ایکسپو کا پہلا دن ، توقع مطابق مصروف تھا ، سب ہی مٹی بیچنے آے تھے ، بہت سے مانوس اور جانے پہچانے چہرے نظر آے ، سب اپنے پروجیکٹس سجاۓ اپنے اپنے حجروں میں بیٹھے تھے ، کوئی خریدار نا بھی ہو ، میزبان ایک دوسرے سے معلومات کے تبادلے میں زیادہ مصروف رہے ، دوسرا دن ؟ لنچ کے بعد ، کرسی پر ہی سستانے کو غنیمت سمجھا ، نیند کا خوشگوار سا جھونکا ، ذرا دیر نا گزری تھی ، نسوانی آواز ؟ سنئیے ، میں سننے کو تیار نا تھا ، دھیان نا دیا ، غنودگی نے دماغ کو جلدی بوجھل کر دیا تھا ، پھر سے ؟ سنئیے ؟ وہ مرے سامنے کھڑی تھی ، سمجھ نا آیا "فرنٹ آفس" پھلانگ کر یہاں پچھواڑہ تک کون آ سکتی ہے ؟ لیکن وہ کھڑی تھی ، لباس ، حلیہ ، سب کافی بدلا بدلا تھا ، تازگی ، خوشبو کا جھونکا سا تھا............. میں اٹھ کھڑا ہوا ، آپ ؟ یہاں ؟ میرے کہے بغیر کرسی کھینچتے ہوے وہ بیٹھ گئی ، جی میں یہاں ؟ یہ نا سوچیے گا ، آپ کا تعاقب کر رہی ہوں ، انگریزی لہجہ میں اردو سن کر اچھا لگا ، یہ میرا "سبجیکٹ" نہیں تھا لیکن اٹینڈ کرنا ضروری بھی تھا ، اسی لیے آگئی ، اٹز نائیس گیدرنگ ، وہاٹ یو ڈوئنگ ہیر ؟ میں کچھ نہیں ؟ بس آپ کا انتظار تھا ؟............ ہم دونوں ہنس پڑے ، ڈونٹ بہییو دیسی ، اب کی بار صرف میں ہنسا ، آئیں آپ کو ایکسپو دکھاتا ہوں ، دیر تک چہل قدمی جاری رہی ، سوال بھی ہوے ، جواب بھی ، لیکن ؟............ اس کی باتوں میں ایک بے رحم سا اعتماد جھلکتا رہا ، کسی بھی چیز پر اس کی آنکھوں کی گرفت بہت گہری ، لیکن اس کا چہرہ کہیں بھی تاثر دینے سے عاری ، رویہ ؟ رویے میں بے اعتنائی ، گفتگو میں کہیں کہیں تضحیک ، کسی کو بھی بات مکمل کرنے نا دیتی ، اس طرح بات کاٹ دیتی ، جیسے سامنے کوئی ہیولہ نہیں ، روبوٹ کھڑا ہے ، اور یہ کوئی "مسٹریس" ، چند ایک جگہوں پر میں ذرا جھینپ سا گیا ، اس کا رویہ اکثر تلخ سا رہا ، دوسرے میری طرف ایک بار ضرور دیکھتے ، میں اپنی توجہ کسی نا کسی اور طرف کر کے نظریں چرا لیتا ، خدا خدا کر کے چہل قدمی ختم ہوئی ، آپ کو پاکستان سے گارمنٹس ایکسپورٹ کا نالج ہے ؟ نالج ؟ آپ کو کیا معلومات درکار ہیں ؟ میں نے جوابی سوال داغ دیا ، یہی ٹیکسیشن ، لاز ، فراڈز ، اور احتیاط وغیرہ ؟ ؟ ؟ ، جی کسی حد تک گائیڈ کر سکتا ہوں ، کمی ہوئی تو مزید معلومات مستعار لے سکتے ہیں ، نو اشو ، کوئی مسلۂ نہیں ، آج شام آپ ڈنر میرے ساتھ کر سکتے ہیں ؟ اس کا کہنے کا حاکمانہ انداز مجھے ناگوار گزرا ، جی ؟ میں نے جان بوجھ کر جی کو ذرا طویل کر لیا ؟ آپ شام کو کھانا میرے ساتھ کھا سکتے ہیں ؟ ، کچھ ڈسکشن اینڈ انفرمیشن چاہیے ، جی ٹھیک ؟ لیکن ؟ آپ ڈنر میرے ساتھ کر سکتی ہیں ، اس نے اپنے ڈنر اور میرے ڈنر میں چھپی تلخی اور فرق کو سمجھے بغیر ، ہاں کہہ دیا ، اسے احساس ہی نا ہوا ، مجھے کیا بات بری لگی ، میں نے بھی تاثرات کو مزید تلخ نا ہونے دیا
مرد ؟ مرد مت کہیں ، درندہ کہیں ، ہر مرد میں ایک درندہ چھپا ہوتا ہے ، جو کسی نا کسی عورت پر بری طرح نازل ہوتا ہے ، اور تمام عمر عورت اس درندے کی اذیت جھیلتی رہتی ہے ، یہ سب کہتے ہوے اس کی گہری آنکھوں میں سے ٹپکتی وحشت صاف دیکھی جا سکتی تھی ، ایک ہفتہ قیام میں ہم پانچویں بار کھانا اکٹھا کھا رہے تھے ، اس کے علاوہ ملاقات کا کوئی امکان نہیں ہوتا تھا ، وہ ایک فیشن ڈیزائنر اور آرٹ کی دلدادہ تھی ، لیکن مرد ؟ مردوں سے اسے شدید نفرت تھی ، تیسرے ڈنر پر اس نے مجھے "تم" کہا ، میں نے صرف ایک بار غور سے دیکھا ، ایک دم سنبھل گئی ، آپ ؟ آپ ؟ آپ جڑ کر فقرہ مکمل کر دیا ، سوری ؟ معزرت ؟ نہیں میں نے کسی سے بھی ، کہیں بھی ، اسے لفظ "سوری" استعمال کرتے نہیں دیکھا ، مجھ سے بھی نہیں ، لیکن ایک بات یقینی تھی ، وہ مجھے "روبوٹ" نا سمجھتی تھی ، فوری گفتگو بدل لیتی تھی ، شائد پردیس کا اثر تھا ، یا میری خشک مزاجی کو بھانپ چکی تھی ، وہ پھر سے گویا ہوئی ، مرد ؟ مرد مت کہیں ، درندہ کہیں ، مجھے گھر والوں نے ، سجا کر ، اس کی بیوی بنا کر امریکہ دھکیل دیا ، میری خوشی ، سب کی خوشی امریکہ اور خاوند دونوں ایک ساتھ ملے تھے ، امریکہ پہنچ کر امریکہ تو ملا ، لیکن خاوند نا ملا ، ایک درندہ دکھا ، تمہیں معلوم ہے ؟ اس کا مشغلہ کیا تھا ؟ مرے کچھ کہے بغیر ، وہ فی البدیہہ کہتی رہی ، وہ اکثر مجھے برہنہ کر کے ، مارتا پیٹتا تھا ، سب سے مرغوب ضرب ؟ مجھے بالوں سے پکڑ کر فرش پر گھسیٹنا ، دیواروں سے میرے وجود کو مارنا ، ٹکرانا ، یہ اس کی درندگی کی طلب ، اور میں اس کے رحم و کرم پر تھی ، میری زندگی کے دس سال اس جانور کی قید میں صرف ہوے ، بیٹے کی پیدایش نے بھی اسے تبدیل نا کیا ، البتہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی مشق ستم میں نت نئی جہتیں آتی رہتیں ، ساری رات کھڑی رہو ، میں کھڑی رہتی ، وہ خراٹے بھرتا رہتا ، کسی نا کسی پہر آنکھ کھول کر دیکھ لیتا ، کھڑی ہے یا جا مری ہے ؟ ، درندہ ، ایک وحشی درندہ تھا وہ ، ایک وقت ایسا آیا ، میں اس کے ظلم و ستم کی عادی ہو چکی تھی ، میرا جسم بے حس ، سوچ مفلوج ہو چکی تھی ، اسے تسکین ملتی نا ملتی ، مجھے اذیت محسوس نا ہوتی ، مجھے اس ایک مرد نہیں ، سب مردوں سے شدید نفرت ہے ، تم مرد نہیں ، درندے ہوتے ہو ، خوداری ، اعتماد ، وقار و وجاہت سب ایک ڈھونگ ہوتا ہے ، تم بیڈ روم میں جا کر اپنی اصلیت ظاہر کردیتے ہو ، جانور ، بلکل جانور ، سڑکوں پر کیا لگتے ہو ، گھروں کے قید خانوں میں کیا کیا کرتے ہو ؟ وہ ایک درندہ تھا ، ایک اصلی درندہ ، مردوں سے وہ پھر سے اسی مرد تک آپہنچی ، میں نے اس کی آنکھوں میں کوئی آنسو نا دیکھا ، لیکن آنکھوں سے نکلتی آگ کی حدت صاف محسوس کر رہا تھا
میں آج سٹیلڈ ہوں ، فیشن ڈیزائنر ہوں ، دولت ہے ، سہولت ہے ، سب کچھ ہے ، اور ہاں بیٹا بھی ہے ؟ نہیں بیٹا نہیں ، وہ بھی ایک مرد ہے ، اس کے اندر بھی ایک درندہ چھپا بیٹھا ہو گا ، آپ کو پتہ ہے ، میں اس کی ہر ضرورت پوری کرتی ہوں ، لیکن کبھی اس کو پیار نہیں دے سکی ، نا دے سکوں گی ، کیوں کہ ، میں جب بھی اسے دیکھتی ہوں ، مجھے درندہ نظر آتا ہے ، نظریں چرا چرا کر میں نے اسے پالا ہے ، بیٹا نہیں ، آخر ہے تو مرد ، دیوار ، ٹکریں ، چیخیں ، مرے لمبے بال جنھیں ماں پیار سے کنگھی کیا کرتی تھی ، وہ بالوں سے پکڑ کر مجھے فرش پر گھسیٹتا تھا ، جانور ، درندہ ، قید خانہ ، قید خانہ ، بیٹا ؟ نہیں مرد ، مرد نہیں ، درندہ ، ایک مرد ؟ نہیں ہر مرد ، درندہ و وحشی ، بیٹا ہی کیوں نہیں ، خاوند ہی کیوں نہیں ، وہ مسلسل بولے جا رہی تھی ، اور مجھے سردی سی لگنے لگی ، جھرجھری سے محسوس ہوئی ، مجھ سے کوئی جواب نہیں بن پا رہا تھا ، موضوع کیا بدلتا ، میرے کہنے پر ہی یہ سب وہ سناتی جاتی تھی ، وہ داستان کے اختتام پر ایک طاقتور وجود لگ رہی تھی ، مجھے اپنا آپ نڈھال سا محسوس ہونے لگا ، میں نے اپنا بوجھل سا ہاتھ اٹھایا اس کے سر پر رکھ دیا ، وہ خاموش ہو گئی ، میری طرف دیکھا ، دیکھتی چلی گئی اور پھر ؟ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ، میں نے زندگی میں پہلی بار ، ہاں پہلی بار ، کسی کو بلکتے ہوے روتے دیکھا ، وہ جو آہنی اعصاب ، خود سر و خود مختار خاتون تھی ، مگر آخر "پگھل" چکی تھی .................... دو دن بعد اس کی روانگی تھی ، ائرپورٹ پر صرف شکریہ کا تبادلۂ ہوا ، مجھے اس کی آنکھوں میں غصہ نا نظر آیا ، لیکن خاموشی ، گہری خاموشی ، اس نے جاتے ہوے مسکراتے ہوے خدا حافظ کہا ، لیکن میں مسکرا نا سکا ، سوچ رہا تھا ؟ ایک پتھر کو پگھلنا نہیں چاہیے تھا ، اسی میں بقا ہے ، تحفظ ہے ، اس عورت کی کامیابی پنہاں ہے ، اسے پتھر کی طرح رہنا ہو گا ، موم بن کر پگھلتی رہی تو بقا نہیں ؟ آخر فنا ہے ، بلاخر فنا ہے
______________________________________