خلافت اور ملوکیت میں فرق

ibnali

Banned
خلافت اور ملوکیت میں فرق
Khilafat.jpg

ڈاکٹر سید شفیق الرحمٰن
محترم جناب پروفیسرابوالحسن صاحب ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے کہ آپ نے میری کتاب جمہوریت دین جدید کے مطالعے کے لیے وقت نکالا اور اپنے تبصرے سے ہمیں مستفید فرمایا ۔
صفحہ84 پر آپ نے ملوکیت کو غیراسلامی نظام قرار دیا ۔اس سلسلے میں میں اپنے دلائل لکھ کر بھیج رہا ہوں ۔امید ہے ان دلائل کا جواب دیں گے ۔
خلافت اور ملوکیت میں فرق
خلافت وہ بہترین نظام ہے جس میں مسلمانوں کے مشورہ سے وہی شخص خلیفہ بن سکتا ہے جو سب سے بہتر ہو جیسا کہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا : اگر رسول اللہ ﷺ کسی کو خلیفہ بناتے تو کسے بناتے ؟ فرمانے لگیں ابو بکر کو ۔ سوال کیا گیاابو بکر کے بعد پھر کس کو ؟فرمانے لگیں عمر کو ۔پھر سوال کیا گیا پھر کس کو ؟ فرمایا ابو عبیدہ بن جراح کو ۔(مسلم :2385)
گویا ام المومنین نے امت کے بہترین لوگوں کی نشاندہی کر کے بتا دیا کہ امت کا خلیفہ ان میں سے بہترین شخص کو ہونا چاہیے ۔اورامت کے بہترین لوگ آپس میں مشورہ کرنے کے بعدیہ ذمہ داری کسی کے سپرد کریں ۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے آخری سال مسجد نبوی میں طویل خطبہ دیا جس میں ارشاد فرمایا :مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم میں سے کسی نے یوں کہا کہ اگر عمر فوت ہو گیا تو میں فلاںشخص سے بیعت کر لوں گا ۔ دیکھو ابو بکر کی بیعت سے دھوکا نہ کھانا ۔ابو بکر کی بیعت ہنگامی حالات میں ہوئی اور پایہ تکمیل کو پہنچی ۔اللہ تعالیٰ نے اس طرح کی بیعت کے شر سے امت کو بچا لیا پھر تم میں سے آج ابو بکر کی طرح متقی اور پرہیز گار کون ہے ؟جس سے ملنے کے لیے لوگ سفر کرتے ہوں ۔اب جس کسی نے مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر کسی کی بیعت کی تو بیعت کرنے والا اور جس کی بیعت کی گئی دونوں اپنی جانیں گنوا بیٹھیں گے اُس وقت ہمیں ابو بکر (کی خلافت )کے فیصلے کے علاوہ کوئی چیز ضروری معلوم نہیں ہوئی ۔ہمیں یہ خطرہ محسوس ہوا کہ اگر ہم لوگوں سے جدا رہے جب کہ ابھی تک انہوں نے کسی کی بیعت نہیں کی تھی اور وہ کسی اور شخص کی بیعت کر بیٹھے تو پھر دو صورتیں ہوں گی یا تو ہم اس شخص کی بیعت پر مجبور ہوجائیں گے یا مخالفت کرتے ہوئے آپس میں فساد پھوٹ پڑے گا میں پھر یہی کہتا ہوں کہ جو شخص مسلمانوں کے صلاح مشورے کے بغیرکسی کی بیعت کرے گا تو ہو سکتا ہے کہ دوسرے لوگ بیعت کرنے میں اس کی اور جس کی بیعت کی گئی اس کی پیروی نہ کریں اور دونوں اپنی جانیں گنوا بیٹھیں گے ۔(بخاری :۶۸۳۰)
محمد بن حنفیہ بن علی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہوئے اور کہنے لگے عثمان شہید ہوگئے اور امام کے بغیر لوگوں کے لیے کوئی چارہ نہیں اور ہم آج امارت کے لیے آپ سے زیادہ مناسب کوئی نہیں دیکھتے ۔آپ پہلے اسلام لانے والوں میں سے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے رشتہ داروں میں سے ہیں ۔اللہ کی قسم ہم تو آپ ہی کی بیعت کریں گے ۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : میری بیعت مسجد میں ہو گی اور یہ خفیہ طریقے سے اور مسلمانوں کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتی ۔(طبری بحوالہ خلافت وجمہوریت عبدالرحمن کیلانی)
ایک روایت کے مطابق آپ نے یوں جواب دیا :یہ اہل شوریٰ اور اہل بدر کا کام ہے جسے وہ منتخب کریں وہی خلیفہ ہوگا پس ہم جمع ہوں گے اور غور کریں گے ۔(ابن قتیبہ الامامۃ والسیاسۃ بحوالہ خلافت وجمہوریت عبدالرحمن کیلانی)
خلافت راشدہ اسلام کا اصل نظام ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اس کی تعریف کی ہے ۔ سیدنا سفینہ ابو عبدالرحمن سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
خلافت تیس سال رہے گی اس کے بعد بادشاہت آجائے گی ۔(سلسلہ احادیث الصحیحہ للالبانی :۴۵۹،صحیح ابن حبان:۶۷۸۳)
یہ درست ہے کہ خلافت اسلام کا اصل نظام ہے البتہ اگر بادشاہ اللہ کے قانون کو لوگوں پر نافذ کرے تو اسلام ایسی ملوکیت کو بالکلیہ غلط نہیں کہتا ۔آج مغربی جمہوریت سے متاثر ہو کر لوگ ملوکیت کو برا سمجھتے ہیں حالانکہ ملوکیت فی نفسہ مذموم نہیں۔دلائل ملاحظہ فرمائیں ۔
۱۔ ۔۔رسول اللہ ﷺ نے شاہِ فارس خسر و پرویز کو یہ پیغام بھی بھیجا کہ اگر تم مسلمان ہو جائو تو جو کچھ تمہارے زیر ِاقتدار ہے وہ سب میں تمہیں دے دوں گا اور تمہیں تمہاری قوم کا بادشاہ بنا دوں گا (رحیق المختوم)
۲۔۔رسول اللہ ﷺ نے بادشاہت کو رحمت قرار دیا :عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
اس دین کا ابتدائی حصہ نبوت اور رحمت ہے پھر خلافت اور رحمت ہو گا پھر بادشاہت اور رحمت ہو گی پھر اس بادشاہت پر لوگ گدھو ں کی طرح ایک دوسرے کو کاٹیں گے تب تم پر جہاد لازم ہو گا ۔اور افضل جہا د سرحدوں کی حفاظت ہے ۔(سلسلۃ الصحیحہ للالبانی :3270،المعجم الکبیر للطبرانی رقم:۱۰۹۷۵)
۳۔۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر احسان جتلاتے ہوئے بادشاہت کو انعام قرار دیا:{وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ یَا قَوْمِ اذْکُرُواْ نِعْمَۃَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ أَنبِیَاء وَجَعَلَکُم مُّلُوکاً وَآتَاکُم مَّا لَمْ یُؤْتِ أَحَداً مِّن الْعَالَمِیْن**(المائدہ20)
اورجب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم اللہ کی ان نعمتوں کو یاد کرو جو اس نے تم پر کیں جب تم میں سے انبیاء بنائے اور تمہیں بادشاہ بنایا اور تمہیں وہ کچھ عطا فرمایا جو تم سے پہلے دنیا میں کسی کونہ دیا گیا۔
۴۔۔۔دائود علیہ السلام کے بیٹے سلیمان علیہ السلام نے خود اللہ تعالیٰ سے بادشاہت کے لئے یوں دعا فرمائی۔
{قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَہَبْ لِیْ مُلْکاً لَّا یَنبَغِیْ لِأَحَدٍ مِّنْ بَعْدِیْ إِنَّکَ أَنتَ الْوَہَّاب**
اے میرے رب مجھے معاف فرما اور مجھے ایسی بادشاہت دے جو میرے بعد کسی کو نہ ملے بلاشبہ تو بڑا عطا فرمانے والا ہے (صٓ ۳۵)
۵۔۔داود علیہ السلا م بیک وقت بادشاہ بھی تھے اور خلیفہ بھی {وَآتَاہُ اللّہُ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَۃ** اور اللہ نے (داود کو )بادشاہت اور حکمت عطا فرمائی(البقرہ ۲۵۱))
{یَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیْفَۃً فِیْ الْأَرْضِ فَاحْکُم بَیْْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ** (صٓ۲۶)
اے دائود ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے لہٰذا لوگوں میں انصاف سے فیصلہ کرنا
۶۔۔۔بنی اسرائیل نے اپنے نبی سے عرض کیا کہ ہمارے لئے کوئی بادشاہ مقرر کر دیجئے تو اللہ نے ان پر بادشاہ مقرر کردیا:
وَقَالَ لَہُمْ نَبِیُّہُمْ إِنَّ اللّہَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوتَ مَلِکاً **(البقرہ ۲۴۷)
ان کے نبی نے ان سے کہا اللہ نے تمہارے لئے طالوت کو بودشاہ مقرر کیا ہے
ان حوالہ جات سے واضح ہے کہ بادشاہت فی نفسہ بری چیز نہیں۔ جو بادشاہ اللہ تعالیٰ کو قانون ساز تسلیم کرے پھر اس کے احکام پر خود بھی چلے اور لوگوں پر بھی ان احکام کو نافذ کرے تو یقینا وہ الامیراور خلیفۃ المسلمینہی کے حکم میںہے۔
۷۔۔۔رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے جب ایک نبی فوت ہوتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین بن جاتا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میرے بعد خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ (بخاری۳۴۵۵، مسلم۱۸۴۲)
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ اسلام بارہ خلیفوں تک ہمیشہ قوی رہے گا اور وہ سب قریش میں سے ہیں ۔ (بخاری۷۲۲۲و مسلم۱۸۲۱)
اس حدیث نے وضاحت کردی کہ خلافت صرف چار خلفاء تک محدود نہیں۔ یقینا بنوامیہ اور بنو عباس کے حکمرانوں میں سے بہت سے خلفاء بھی تھے۔
عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ خلافت ہمیشہ قریش میں رہے گی جب تک کہ ان میں دو آدمی باقی رہیں۔ (بخاری۳۵۰۱و مسلم۱۸۲۰)
۸۔۔صحابہ کرام تابعین اور تبع تابعین کے بہترین ادوار میں مسلمانوں نے بنو امیہ اور بنو عباس کے حکمرانوں کی بیعت کی ان کی غلط بات کا انکار کیا لیکن جماعت اور امیر جماعت سے الگ نہ ہوئے۔ کیونکہ رسولﷺ نے ایسا کرنے کا حکم دیا۔
آپ ﷺنے فرمایا تم پر امیر ہوں گے ان کے بعض کام تم اچھے سمجھو گے اور بعض کو برا سمجھو گے جس نے ان کی غلط بات کا انکار کیا وہ بری ہوا اور جس نے ان کی بری بات کو مکروہ جانا وہ سالم رہا اور لیکن جو ان کی بری بات پر راضی ہوا اور ان کی پیروی کی (وہ نقصان میں رہا) صحابہ کرام نے عرض کیا کیا ہم ان سے لڑائی نہ کریں؟ فرمایا نہیں جب تک وہ نماز پڑھیں۔ نہیں جب تک وہ نماز پڑھیں ۔(مسلم۱۸۵۴)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ جو شخص اپنے امیر میں کوئی ایسی چیز دیکھے جس کو وہ مکروہ سمجھتا ہے پس چاہئے کہ وہ صبر کرے کیونکہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھی جدا ہوا اور اس حال میں مرگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا ۔ (بخاری ۷۰۵۳و مسلم۱۸۴۹)
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں:بات دراصل یہ ہے کہ اسلام میں اصل مطاع اور قانون ساز اللہ ہے۔ خلیفہ کا منصب نہ قانون سازی ہے نہ اس کی ہر بات واجب الاطاعت ہے۔ وہ اللہ کے حکم کا پابند اور اس کو نافذ کرنے والا ہے اور اس کی اطاعت بھی اسی شرط کے ساتھ مشروط ہے۔حکمرانی کا یہ اسلامی تصور پہلے چار خلفاء کے دل و دماغ میں جس شدت کے ساتھ جاگزیں تھا بعدمیں یہ تصور بتدریج دھندلاتا چلا گیا۔ اسی کیفیت کو بادشاہت کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے ورنہ فی الواقع بادشاہت اسلام میں مذموم نہیں۔ عمر بن عبدالعزیزرحمہ اللہ اصطلاحی طور پر بادشاہ ہی تھے یعنی طریقہ ولی عہدی ہی سے خلیفہ بنے تھے لیکن اپنے طرزِ حکمرانی کی بناء پر اپنا نیک نام چھوڑ گئے۔ اسی طرح اسلامی تاریخ میں اور بھی متعدد بادشاہ ایسے گزرے ہیں جن کے روشن کارناموں سے تاریخ اسلام کے اوراق مزین اور جن کی شخصیتیں تمام مسلمانوں کی نظروں میں محمود و مستحسن ہیں پھر یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ اسلام میں فی نفسہٖ بادشاہت کوئی مذموم شے نہیں۔ صرف وہ بادشاہت مذموم ہے جو اللہ اور رسول کی بتلائی ہوئی حدود سے ناآشنا ہو جس طرح ہمارے دور کے حکمران ہیں۔ موجودہ حکمرانوں کو اگر کوئی شخص امیرالمومنین کا لقب بھی دیدے تب بھی وہ مشرف بہ اسلام نہیں ہوسکتے۔ اللہ کی نظروں میں وہ مبغوض ہی ہیں تاآنکہ وہ اللہ کو مطاع حقیقی اور قانون ساز تسلیم کرکے اپنے آپ کو اس کے احکامات کا پابند اور ان کو نافذ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ (خلافت و ملوکیت کی شرعی حیثیت صفحہ399
source
 

seekers

Minister (2k+ posts)

خلیفہ کو منتخب کرنے والے امت کے بہترین افراد کا انتخاب کون کرے گا؟ ، پھر امت کے بہترین افراد؟
اگر یہ کام امت نے ہی کرنا ہے تو پھر جمہوریت اور خلافت میں کوئی زیادہ فرق نظر نہیں آتا.
 

ibnali

Banned

خلیفہ کو منتخب کرنے والے امت کے بہترین افراد کا انتخاب کون کرے گا؟ ، پھر امت کے بہترین افراد؟
اگر یہ کام امت نے ہی کرنا ہے تو پھر جمہوریت اور خلافت میں کوئی زیادہ فرق نظر نہیں آتا.
موجودہ حکمرانوں کو اگر کوئی شخص ’’امیرالمومنین‘‘ کا لقب بھی دیدے تب بھی وہ مشرف بہ اسلام نہیں ہوسکتے۔ اللہ کی نظروں میں وہ مبغوض ہی ہیں تاآنکہ وہ اللہ کو مطاع حقیقی اور قانون ساز تسلیم کرکے اپنے آپ کو اس کے احکامات کا پابند اور ان کو نافذ کرنے کی کوشش نہ کریں
 

Believer12

Chief Minister (5k+ posts)
khalifa to Allah Tala banata hai lekin hakoomat khawa ksis bhi tarah ki ho aghar woh apney citizens kay haqooq pure karti hai aur unko insaf deti hai to woh jaez hai.
 

seekers

Minister (2k+ posts)
موجودہ حکمرانوں کو اگر کوئی شخص ’’امیرالمومنین‘‘ کا لقب بھی دیدے تب بھی وہ مشرف بہ اسلام نہیں ہوسکتے۔ اللہ کی نظروں میں وہ مبغوض ہی ہیں تاآنکہ وہ اللہ کو مطاع حقیقی اور قانون ساز تسلیم کرکے اپنے آپ کو اس کے احکامات کا پابند اور ان کو نافذ کرنے کی کوشش نہ کریں


​اس بات کا تعین کون کرے گا ؟ . یہاں تو جتنے علما ہیں اتنے فرقے ہیں کوئی بھی آپس میں متفق نہیں
 

moazzamniaz

Chief Minister (5k+ posts)
ابھی خلافت اور خلیفہ جیسے 'فروعی' مسائل کو چھوڑو اور یہ بتاؤ کہ خلیفہ کے حرم میں سینکڑوں لونڈیوں اور 'ہینڈسم' غلمان کی بھرتی کا کیا معیار ہو گا؟؟؟؟ اور اس معیار کا تعین کون کرے گا؟؟؟

کسی متقی مگر 'ماڑے' شخص کو خلیفہ چننے والے صالح افراد کو بخش دیا جائیگا یا پھر صالح افراد کو بھی کعبہ کے ساتھ نذرآتش کر دیا جایئگا؟؟؟؟

خلافت کے دعوے داروں کے درمیان لڑائی کی صورت میں 'ریسٹ' کرنے کیلیے قران نیزوں پر اٹھاے جایئنگے یا پھر صرف سفید جھنڈوں سے کام چل جایئگا؟؟؟؟

ان بدبخت ملوٹوں نے ہمیشہ کی طرح یزید جیسے کسی عیاش بدکار ظالم کنجر کو تخت پر بٹھا کر خود پتلی گلی سے نکل جانا ہے. پھر یزید جانے اور امت!ا
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
بس اب محرم میں کالے جھنڈے نکلنے والے ہیں
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
​اس بات کا تعین کون کرے گا ؟ . یہاں تو جتنے علما ہیں اتنے فرقے ہیں کوئی بھی آپس میں متفق نہیں

صوم و صلات کے تارک، شریعت کے منکر، فرائض کے مرتد شریعت کیا نافذ کریں گے، صرف بہانے بنائیں گے
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
ابھی خلافت اور خلیفہ جیسے 'فروعی' مسائل کو چھوڑو اور یہ بتاؤ کہ خلیفہ کے حرم میں سینکڑوں لونڈیوں اور 'ہینڈسم' غلمان کی بھرتی کا کیا معیار ہو گا؟؟؟؟ اور اس معیار کا تعین کون کرے گا؟؟؟

کسی متقی مگر 'ماڑے' شخص کو خلیفہ چننے والے صالح افراد کو بخش دیا جائیگا یا پھر صالح افراد کو بھی کعبہ کے ساتھ نذرآتش کر دیا جایئگا؟؟؟؟

خلافت کے دعوے داروں کے درمیان لڑائی کی صورت میں 'ریسٹ' کرنے کیلیے قران نیزوں پر اٹھاے جایئنگے یا پھر صرف سفید جھنڈوں سے کام چل جایئگا؟؟؟؟
[HI]
ان بدبخت ملوٹوں نے ہمیشہ کی طرح یزید جیسے کسی عیاش [/HI] [HI]بدکار ظالم کنجر کو تخت پر بٹھا کر خود پتلی گلی سے نکل جانا ہے. پھر یزید جانے اور [/HI]ا[HI]مت!ا [/HI]


ابھی مشرف دود میں اس کا مظہرہ دیکھا تو ہے

ام ام اے ، ملا فضل اینڈ قاضی ہنی مون ، مشرف کے ساتھ

سارے نیٹو کے ٹرک جا رہے ہیں ان کے صوبوں سے ، سارے لوگ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کر دی ، عافیہ سمیت

کیا نہی کیا ان لوگوں نے ،،،، اور پھر اپنے علاقوں میں امریکہ کے پالتو ملا فضل الله جیسے لوگ پالے ...​
 

seekers

Minister (2k+ posts)
کبھی امت نے غور کیا کے اس کو غسل خانے میں داخل ہونے اور نکلنے کی دعا تک مل گی لیکن رسول ص نے اپنے بعد خلیفہ نہیں مقرر کیا اور امت پر چھوڑ گئے؟
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم

خلیفہ کو منتخب کرنے والے امت کے بہترین افراد کا انتخاب کون کرے گا؟ ، پھر امت کے بہترین افراد؟
اگر یہ کام امت نے ہی کرنا ہے تو پھر جمہوریت اور خلافت میں کوئی زیادہ فرق نظر نہیں آتا.

مغربی جمہوریت میں قانون سازی ٥١ فیصد کی رائے کی بجائے قرآن و سنت کا تابع کر دیا جائے تو زیادہ فرق نہیں رہتا
 

ibnali

Banned
اسلام میں خلافت کا تصور
خلافت کا تصور جس سے کفر خائف ہے یہ ہے کہ حاکم اعلیٰ اللہ ہے اور انسان جو حقیقت میں ایک صحیح مسلمان ہی ہو سکتا ہے روئے زمین پر اس کا خلیفہ ہے۔سب انسان اپنی خلقت کے اعتبار سے برابر ہیں۔کیونکہ سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔کسی کو کسی پر فوقیت نہیں۔فوقیت صرف نیکی اور تقویٰ سے ہے۔ جیسے اللہ کی حاکمیت وسیع ہے اسی طرح اس کے خلیفے کی خلافت بھی روئے زمین پر وسیع ہے۔اسلام کے لیے کوئی ملکی حدود نہیں۔روئے زمین پر اسلام پھیلانا خلیفہ کا فرض ہے۔خلافت کے اس تصور سے مسلمانوں میں وحدت اور ایک مرکز کا احساس پیدا ہوتا ہے۔جہاد کا جذبہ ابھرتا ہے ۔جب سب مسلمان برابر ہیں تو قومی اور علاقائی عصبیتوں کا خاتمہ ہوتا ہے۔خلافت کا یہ تصور کفر کے لیے الٹی میٹم ہے اور اسلام کے لیے توسیع کا پروگرام جس کے لیے جہاد کی ضرورت ہے اور جہاد کا حکم یہ ہے کہ جب تک کفر مٹ نہ جائے جہاد جاری رکھو:
وَ قٰتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ يَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلّٰهِ١ؕ (البقرۃ:۱۹۳)
‘‘ان سے لڑو جب تک کہ فتنہ نہ مٹ جائے اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب نہ آجائے۔ ’’
کفر جانتا ہے کہ خلافت الٰہیہ اور جہاد ایسے لفظ ہیں کہ ان سے مسلمانوں کی وہ دینی حس بیدار ہوتی ہے جو سب عصبیتوں کو ختم کر دیتی ہے اور مسلمان جہاد کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔اس لیے کفر خلافت کے تصور کو برداشت نہیں کرتا وہ اسے ہر صورت میں مٹانا چاہتا ہے،وہ جمہوریت کا سبق پڑھاتا ہے تاکہ مسلمان اللہ کو بھول کر اپنی حکمرانی کی دوڑ میں لگ جائیں۔مختلف عصبیتیں پیدا کر کے الیکشن لڑیں اور انتشار کا شکار ہوں۔اسلام کی توسیع اور جہاد کا جذبہ ان کے دلوں سے نکل جائے چھوٹی چھوٹی اپنی جمہوریتیں بنا کر دست و گریباں رہیں۔جب کمزور ہو جائیں تو کفر کے دست نگر رہیں۔
جمہوریت
جمہوریت مستقل ایک علیحدہ نظام ہے اسلام ایک علیحدہ نظام ہے ۔جمہوریت کو کافروں نے ایجاد کیا ہے اسلام اللہ کا نظام ہے جو ساری کائنات میں جاری ہے ۔جمہوریت میں عوام ہی سب کچھ ہوتے ہیں جو چاہتے ہیں کرتے ہیں اللہ کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔جمہوریت میں عوام ہی طاقت کا سر چشمہ سمجھے جاتے ہیں ،ان کی حکمرانی ہوتی ہے،وہ اپنے معاشرے کا خود ہی دستور بناتے ہیں،خود ہی قانون۔جو پارٹی اکثریت میں ہو حکومت کرتی ہے جو اقلیت میں ہو محکوم ہوتی ہے ،اس طرح انسان انسان پر حکومت کرتا ہے ۔اسلام میں حاکمیت اعلیٰ اللہ کی ہوتی ہے،سب انسان اس کے حکم کے تابع ہوتے ہیں راعی اور رعایا سب اللہ کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔اسلام میں قانون اللہ کاہوتا ہے کوئی انسان کسی انسان پر اپنے قانون کے ذریعے حکم نہیں کر سکتا ۔حکومت سب پر اللہ کی ہوتی ہے ۔جمہوریت میں اکثریت جو چاہتی ہے کرتی ہے۔جمہوریت میں حق نا حق جائز نا جائز اچھا برا فی نفسہ کوئی چیز نہیں۔ جو اکثریت منظور کر دے وہی حق اور جائز حتیٰ کہ اگر اکثریت فعل قوم لوط (sodomy)کو جائز قرار دے دے تو معاشرے میں وہ بھی جائز سمجھا جائے گا۔جمہوریت میں اکثریت کو بالا دستی ہوتی ہے۔اکثریت اپنی اکثریت کے بل بوتے پر جو چاہے کرے ،حلال کو حرام کر دے حرام کو حلال،جمہوری نظام میں سب کچھ روا ہے ۔اسلام میں اقلیت اور اکثریت کوئی چیز نہیں۔ اسلام میں طاقت حق کو حاصل ہوتی ہے جو اللہ کا قانون ہے۔حق اقلیت میں ہو یا اکثریت میں۔بالا دستی حق کی ہوتی ہے ۔جو حق نہیں خواہ وہ اکثریت میں ہو اسلام میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ۔
قرآن مجید میں ہے: وَلَوْ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتْ السَّمَوَاتُ وَالأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ بَلْ أَتَيْنَاهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُعْرِضُونَ (المومنون:۷۱)
‘‘ اگر حق ہی ان کی خواہشوں کا پیرو ہو جائے تو زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی ہر چیز درہم برہم ہو جائے۔
یعنی اگر حق عوام کے تابع ہو جائے 58خواہ وہ اکثریت میں ہی ہوں تو سارا نظام درہم برہم ہو جائے اس کاصاف مطلب ہے کہ اسلامی نظام میں جمہوریت چل ہی نہیں سکتی ۔ اسلام میں جوں ہی جمہوریت آئی اسلامی نظام درہم برہم ہوا۔اسلام حق کی برتری چاہتا ہے۔جمہوریت میں مذہب (دین) کوئی چیز نہیں مذہب (دین) ہر آدمی کا اپنا ذاتی مسئلہ ہے اور پرائیویٹ مسئلہ ہے ۔ہر کوئی جو مرضی مذہب (دین) رکھے کوئی پابندی نہیں۔جمہوریت کی نظر میں اسلام اور کفر دونوں برابر ہیں۔جمہوریت لادینیت کا دوسرا نام ہے۔جمہوریت کا ذہنوں پر یہ اثر ضرور ہوتا ہے کہ آدمی سیکولر سا ہو جاتا ہے اور نہیں تو دینی غیرت تو ضرور ختم ہو جاتی ہے۔اسلام ایک مستقل مذہب (دین) ہے جسکی بنیاد اللہ ہی کے تصور پر ہے۔اسلام کی نگاہ میں مذہب (دین) صرف اسلام ہے،باقی سب باطل ہے :
فَذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَمَا ذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَ (یونس:۳۲)
‘‘ پھر حق کے بعد اور کیا رہ گیا بجز گمراہی کے۔’’
اسلامی نظام میں باطل کے لیے کوئی جگہ نہیں ۔باطل کو مٹانا اسلام کا فرض ہے اور یہی جہاد ہے جو قیامت تک جاری ہے۔جب جمہوریت اور اسلام میں اتنا تضاد ہے تو جمہوریت اسلامی کیسے ہو سکتی ہے۔؟
نظام اسلام چلانے والوں کا انتخاب عوام کے ہاتھ میں دینا جمہوریت میں تو جائز ہو سکتا ہے ،اسلام میں جائز نہیں،کیونکہ عوام تو کالانعام ہوتے ہیں۔ان کو دھونس ،دھاندلی اور دھوکے سے ہر وقت ورغلایا جا سکتا ہے وہ کبھی صحیح انتخاب نہیں کر سکتے۔یہ کام تو وہی لوگ کر سکتے ہیں جو صاحب کردار ہوں اور خود اسلام میں اجتہادی بصیرت رکھتے ہوں ۔عوام کے سپر دیہ کام کر دینا ایسی ہی حماقت ہے جیسے کسی بڑے کارخانے کی تنصیب کا کام دیہاتیوں کے سپرد کر دینا۔عوام کو یہ حق دینا گویا اسلام کو عوام کے تابع کرنا ہے کہ وہ جیسا اسلام چاہتے ہیں لائیں گے مزدوروں کا اسلام لائیں گے۔ عوام کا اسلام لائیں گے۔انھیں یہ معلوم نہیں کہ اسلام ایک ہے۔اصل میں یہ لوگ اپنی ذہن کی کجی کو بھی اسلام سمجھتے ہیں۔ کیونکہ آج کل کے مسلمانوں کا اسلام کے بارے میں نظریہ بڑا عجیب ہے وہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ مسلمانوں میں چل جائے سب کچھ اسلام ہے۔ان کے نزدیک مسلمان اسلام سے نہیں بلکہ اسلام مسلمانوں سے بنتا ہے ۔جو کچھ مسلمان کرتے جائیں وہ اسلام بنتا جاتا ہے۔وہ یہ نہیں جانتے کہ اسلام اللہ کا دین ہے مسلمانوں کا بنایا ہوا نہیں ہے۔اگر وہ خالص رہے ،ملاوٹ بالکل بھی نہ ہو تو اسلام ہے ذرا بھی ملاوٹ یا رد و بدل ہو جائے تو وہ کفر ہو جاتا ہے۔لوگ اسلام کے تابع رہیں تو مسلمان ہیں اسلام کو اپنا تابع بنائیں تو کافر ہیں۔
اسلام کا تو یہ حکم ہے کہ عوام کے کسی حق پر خلیفہ کو ہٹایا نہیں جا سکتا کیونکہ وہ اللہ کا نائب ہے۔لیکن جمہوریت کہتی ہے کہ ہر پانچ سال بعد ضرور الیکشن ہو گا تاکہ خلیفہ کو بدلاجا سکے اس کا کوئی قصور ہو یا نہ ہو۔لہٰذا ہر پانچ سال بعد والے الیکشن کروانے میں اسلام کے اس حکم کی صریح مخالفت ہے۔اللہ کی حاکمیت کا ابطال ہے۔نظریہ خلافت الٰہیہ کا استیصال ہے ۔آپ احادیث کو دیکھیں پھر اندازہ کریں کہ اس الیکشن بازی میں اسلام کی کتنی مخالفت ہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے اسلام میں الیکشن بازی کی کوئی گنجائش نہیں۔اسلام میں الیکشن نہ پہلی بار جائز ہے نہ پانچ سال بعد۔جب اسلام عوام کی حکومت کے حق کو ہی تسلیم نہیں کرتا تو الیکشنوں کی اجازت کیسے دے سکتا ہے ؟عوام کو الیکشنوں کی اجازت دینے کے معانی یہ ہیں کہ حکومت عوام کا حق ہے۔عوام کو حکومت کا حق دینے کے معانی یہ ہیں کہ اللہ علی الاطلاق حاکم نہیں۔زمین پر حکومت عوام کی ہے۔ جب زمین پراللہ کی حاکمیت نہ رہی تو اللہ کے احکام ماننے کا سوال کہاں رہا۔تو پھر اسلام کہاں رہا اور یہی کفر چاہتا ہے کہ جمہوریت کے ذریعے مسلمانوں کو ملحد اور لا دین بنائے۔
الیکشنوں میں صریحا اسلام کی مخالفت ہے۔
-1 الیکشن جمہوری نظام کا ایک عمل ہے تو الیکشن کروانے میں جمہوری نظام کی ترویج ہے۔ چونکہ جمہوری نظام کفر کا نظام ہے لہٰذا الیکشن کروانا گویا کفر کے نظام کو رواج دینا ہے۔
-2 الیکشن جمہوری عمل ہے اور جمہوریت کفر کا نظام ہے اس نظام کی بنیاد اس عقیدے پر ہے کہ اللہ اور اسکی حاکمیت کوئی چیز نہیں۔ خلافت الٰہیہ کا تصور ملوکیت کا استبدادی تصور ہے۔حکومت عوام کا حق ہے عوام ہی سب کچھ ہیں ۔عوام کو چاہیے کہ الیکشن کے ذریعے اپنے اس حکومت کے حق کو استعمال کریں ۔لہٰذا الیکشن کروانا گویا اس کفریہ عقیدے کو تسلیم کرنا ہے۔
-3 الیکشنوں کی بنیاد یہ عقیدہ ہے کہ حکومت عوام کا حق ہے اللہ کا حق نہیں،الیکشن کروانا گویا عوام کے اس حق کو تسلیم کرنا ہے۔جس سے اللہ کی حاکمیت کی نفی ہوتی ہے۔
-4 اسلام کہتا ہے حکومت اللہ کا حق ہے کیونکہ ہر چیز کا خالق و مالک وہی ہے ۔زمین پر بھی حکومت اللہ ہی کی ہے ۔زمین پر اللہ کا نائب خلیفہ ہوتا ہے۔ اس نائب کا کام اللہ کے احکام کو نافذ کرنا ہوتا ہے ۔اس نائب کے لیے عوام کا نمائندہ ہونا ضروری نہیں ،وہ چند ایک کا مقرر کردہ بھی ہو سکتا ہے،وہ غیر ملکی بھی ہو سکتا ہے ،وہ خود قابض بھی ہو سکتا ہے۔جو اللہ کے دین کو نافذ کرے وہ نائب ہے۔عوام اسے منتخب کر سکتے ہیں نہ معزول ۔الا یہ کہ وہ اللہ کا باغی ہو جائے ،عوام اپنے کسی حق کی وجہ سے اسے نہیں ہٹا سکتے۔
اسلامی سیاست
اسلامی سیاست کی راہ اسلامی جمہوریت کی طرح عافیت کی راہ نہیں ،بہت کھٹن ہے ،پر خطر ہے جان لیوا ہے صبر آزما ہے لیکن ہے یقینی کیونکہ جہاد کی راہ ہے، جب پہنچائے گی خواہ دیر سے پہنچائے، پہنچائے گی ٹھکانے پر۔جمہوریت کی طرح لٹکائے ٹرخائے گی نہیں۔ اسلامی تاریخ دیکھ لیں۔ اسلام جب آتا ہے کفر کو پچھاڑ کر آتا ہے ۔یہ نہیں کہ کفر کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر کفر کے ساتھ آئے۔اس کے آنے کا انداز قرآن بیان کرتا ہے۔ (وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ ‘‘ حق آچکا اور ناحق نابود ہوگیا۔) اسی لیے جمہوریت خواہ اسلامی ہو اسلام نہیں لا سکتی۔اگر جمہوریت اپنی بے بسی میں کبھی اسلام لائے بھی تو کفر کے ہاتھوں سمجھوتہ کر کے لائے گی۔تاکہ کفر کے لیے کاروائی کا موقعہ رہے۔
جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا (بنی اسرائیل:۸۱)
‘‘اور اعلان کردے کہ حق آچکا اور باطل نابود ہوگیا، یقیناًباطل تھا بھی نابود ہونے والا۔’’ والی بات نہ بنے اور جو اسلام اسکے انداز سے نہیں آتا وہ نہیں رہتا۔پاکستان کب سے اسلامی بنا ہے؟قرار داد مقاصد کو پاس ہوئے کتنا عرصہ گزر گیا ہے؟لیکن چونکہ درمیان میں جمہوریت کا ہاتھ رہا ہے اس لیے آج تک پاکستان کو اسلام کے پاوں نہیں لگ سکے۔اسلام کبھی نہیں آتا جب تک کفر کو پچھاڑ نہ دے کفر پر چڑھ نہ جائے کفر کو مسل نہ دے کہ وہ پھر اٹھنے کے قابل نہ رہے اور یہ جمہوریت کے تحت کبھی نہیں ہو سکتا۔اسلامی سیاست ہی ایسا کر سکتی ہے۔اسلامی سیاست کیا چیز ہے؟اسلام لانے کی اسلامی کوشش جو بھٹو اور ایوب جیسے کفر کے آئینوں سے آزاد ہو کر اسلام لانے کی نیت سے کی جائے اور اسلام پر منتج ہو۔یہ ذہن کا بگاڑ ہے ،یہ جمہوریت کا اثر ہے کہ آئین بھٹو اور ایوب بنائیں اور ہم اسلامی بن کر ان آئینوں کی پابندی کرتے رہیں ۔اسلام کفر کے آئینوں کے دماغ توڑنے سکھاتا ہے نہ کہ ان کی پابندی کرنا۔قرآن کہتا ہے
بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ وَ لَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ ۔ (الانبیاء:۱۸)
‘‘ بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر پھینک مارتے ہیں پس سچ جھوٹ کا سر توڑ دیتا ہے اور اسی وقت نابود ہو جاتاہے، تم جو باتیں بناتے ہووہ تمہارے لئے باعث خرابی ہیں۔’’
ہمیں اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھنا ہوگا ۔جمہوریت کو چھوڑ کر انکی سیاست اور تدابیر کو اپنانا ہو گا ۔ان جیسے کارنامے انجام دینے ہوں گے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہمیں ان شاء اللہ کامیابی ہو گی اور اگر ہم اپنے اسلاف کو چھوڑ کر کفر کے نظام جمہوریت کے پیچھے پڑے رہے تو خسر الدنیا و الآخرۃ والا ہمارا انجام ہو گا۔
اَلَمْ يَاْنِ لِلَّذِيْنَ اٰاَنُوْۤ اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَ لَا يَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ كَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ ۔ (الحدید:۱۶)
’’ کیا اب تک ایمان والوں کیلئے وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر الٰہی سے اور جو حق اتر چکا ہے اس سے نرم ہو جائیں، اور انکی طرح نہ ہوجائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی، پھرجب ان پر ایک زمانہ دراز گزر گیا تو ان کے دل سخت ہوگئے ،اور ان میں بہت سےفاسق ہیں ۔ ‘‘

 

ibnali

Banned
ابھی خلافت اور خلیفہ جیسے 'فروعی' مسائل کو چھوڑو اور یہ بتاؤ کہ خلیفہ کے حرم میں سینکڑوں لونڈیوں اور 'ہینڈسم' غلمان کی بھرتی کا کیا معیار ہو گا؟؟؟؟ اور اس معیار کا تعین کون کرے گا؟؟؟

کسی متقی مگر 'ماڑے' شخص کو خلیفہ چننے والے صالح افراد کو بخش دیا جائیگا یا پھر صالح افراد کو بھی کعبہ کے ساتھ نذرآتش کر دیا جایئگا؟؟؟؟

خلافت کے دعوے داروں کے درمیان لڑائی کی صورت میں 'ریسٹ' کرنے کیلیے قران نیزوں پر اٹھاے جایئنگے یا پھر صرف سفید جھنڈوں سے کام چل جایئگا؟؟؟؟

ان بدبخت ملوٹوں نے ہمیشہ کی طرح یزید جیسے کسی عیاش بدکار ظالم کنجر کو تخت پر بٹھا کر خود پتلی گلی سے نکل جانا ہے. پھر یزید جانے اور امت!ا

;) (یزید رحمتہ اللہ علیہ (ڈاکٹر ذاکر نائیک ;);)
 

moazzamniaz

Chief Minister (5k+ posts)
;) (یزید رحمتہ اللہ علیہ (ڈاکٹر ذاکر نائیک ;);)

اچھا میں ڈر رہا تھا کہ یزید پلید کی شان میں کہیں پورا قران ہی نہ چھا پ دو(bigsmile). یہ ٹھیک ہے. میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کی راۓ کا دلی احترام کرتا ہوں

جانوروں کی طرح ایک دوسرے کو مارنے کی بجاۓ اس طرح ایک دوسرے کی راۓ کا احترام کرنا سیکھو
 

Back
Top