خلافت اور ملوکیت میں فرق

ڈاکٹر سید شفیق الرحمٰن
محترم جناب پروفیسرابوالحسن صاحب ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے کہ آپ نے میری کتاب جمہوریت دین جدید کے مطالعے کے لیے وقت نکالا اور اپنے تبصرے سے ہمیں مستفید فرمایا ۔
صفحہ84 پر آپ نے ملوکیت کو غیراسلامی نظام قرار دیا ۔اس سلسلے میں میں اپنے دلائل لکھ کر بھیج رہا ہوں ۔امید ہے ان دلائل کا جواب دیں گے ۔
خلافت اور ملوکیت میں فرق
خلافت وہ بہترین نظام ہے جس میں مسلمانوں کے مشورہ سے وہی شخص خلیفہ بن سکتا ہے جو سب سے بہتر ہو جیسا کہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا : اگر رسول اللہ ﷺ کسی کو خلیفہ بناتے تو کسے بناتے ؟ فرمانے لگیں ابو بکر کو ۔ سوال کیا گیاابو بکر کے بعد پھر کس کو ؟فرمانے لگیں عمر کو ۔پھر سوال کیا گیا پھر کس کو ؟ فرمایا ابو عبیدہ بن جراح کو ۔(مسلم :2385)
گویا ام المومنین نے امت کے بہترین لوگوں کی نشاندہی کر کے بتا دیا کہ امت کا خلیفہ ان میں سے بہترین شخص کو ہونا چاہیے ۔اورامت کے بہترین لوگ آپس میں مشورہ کرنے کے بعدیہ ذمہ داری کسی کے سپرد کریں ۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے آخری سال مسجد نبوی میں طویل خطبہ دیا جس میں ارشاد فرمایا :مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم میں سے کسی نے یوں کہا کہ اگر عمر فوت ہو گیا تو میں فلاںشخص سے بیعت کر لوں گا ۔ دیکھو ابو بکر کی بیعت سے دھوکا نہ کھانا ۔ابو بکر کی بیعت ہنگامی حالات میں ہوئی اور پایہ تکمیل کو پہنچی ۔اللہ تعالیٰ نے اس طرح کی بیعت کے شر سے امت کو بچا لیا پھر تم میں سے آج ابو بکر کی طرح متقی اور پرہیز گار کون ہے ؟جس سے ملنے کے لیے لوگ سفر کرتے ہوں ۔اب جس کسی نے مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر کسی کی بیعت کی تو بیعت کرنے والا اور جس کی بیعت کی گئی دونوں اپنی جانیں گنوا بیٹھیں گے اُس وقت ہمیں ابو بکر (کی خلافت )کے فیصلے کے علاوہ کوئی چیز ضروری معلوم نہیں ہوئی ۔ہمیں یہ خطرہ محسوس ہوا کہ اگر ہم لوگوں سے جدا رہے جب کہ ابھی تک انہوں نے کسی کی بیعت نہیں کی تھی اور وہ کسی اور شخص کی بیعت کر بیٹھے تو پھر دو صورتیں ہوں گی یا تو ہم اس شخص کی بیعت پر مجبور ہوجائیں گے یا مخالفت کرتے ہوئے آپس میں فساد پھوٹ پڑے گا میں پھر یہی کہتا ہوں کہ جو شخص مسلمانوں کے صلاح مشورے کے بغیرکسی کی بیعت کرے گا تو ہو سکتا ہے کہ دوسرے لوگ بیعت کرنے میں اس کی اور جس کی بیعت کی گئی اس کی پیروی نہ کریں اور دونوں اپنی جانیں گنوا بیٹھیں گے ۔(بخاری :۶۸۳۰)
محمد بن حنفیہ بن علی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہوئے اور کہنے لگے عثمان شہید ہوگئے اور امام کے بغیر لوگوں کے لیے کوئی چارہ نہیں اور ہم آج امارت کے لیے آپ سے زیادہ مناسب کوئی نہیں دیکھتے ۔آپ پہلے اسلام لانے والوں میں سے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے رشتہ داروں میں سے ہیں ۔اللہ کی قسم ہم تو آپ ہی کی بیعت کریں گے ۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : میری بیعت مسجد میں ہو گی اور یہ خفیہ طریقے سے اور مسلمانوں کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتی ۔(طبری بحوالہ خلافت وجمہوریت عبدالرحمن کیلانی)
ایک روایت کے مطابق آپ نے یوں جواب دیا :یہ اہل شوریٰ اور اہل بدر کا کام ہے جسے وہ منتخب کریں وہی خلیفہ ہوگا پس ہم جمع ہوں گے اور غور کریں گے ۔(ابن قتیبہ الامامۃ والسیاسۃ بحوالہ خلافت وجمہوریت عبدالرحمن کیلانی)
خلافت راشدہ اسلام کا اصل نظام ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اس کی تعریف کی ہے ۔ سیدنا سفینہ ابو عبدالرحمن سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
خلافت تیس سال رہے گی اس کے بعد بادشاہت آجائے گی ۔(سلسلہ احادیث الصحیحہ للالبانی :۴۵۹،صحیح ابن حبان:۶۷۸۳)
یہ درست ہے کہ خلافت اسلام کا اصل نظام ہے البتہ اگر بادشاہ اللہ کے قانون کو لوگوں پر نافذ کرے تو اسلام ایسی ملوکیت کو بالکلیہ غلط نہیں کہتا ۔آج مغربی جمہوریت سے متاثر ہو کر لوگ ملوکیت کو برا سمجھتے ہیں حالانکہ ملوکیت فی نفسہ مذموم نہیں۔دلائل ملاحظہ فرمائیں ۔
۱۔ ۔۔رسول اللہ ﷺ نے شاہِ فارس خسر و پرویز کو یہ پیغام بھی بھیجا کہ اگر تم مسلمان ہو جائو تو جو کچھ تمہارے زیر ِاقتدار ہے وہ سب میں تمہیں دے دوں گا اور تمہیں تمہاری قوم کا بادشاہ بنا دوں گا (رحیق المختوم)
۲۔۔رسول اللہ ﷺ نے بادشاہت کو رحمت قرار دیا :عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
اس دین کا ابتدائی حصہ نبوت اور رحمت ہے پھر خلافت اور رحمت ہو گا پھر بادشاہت اور رحمت ہو گی پھر اس بادشاہت پر لوگ گدھو ں کی طرح ایک دوسرے کو کاٹیں گے تب تم پر جہاد لازم ہو گا ۔اور افضل جہا د سرحدوں کی حفاظت ہے ۔(سلسلۃ الصحیحہ للالبانی :3270،المعجم الکبیر للطبرانی رقم:۱۰۹۷۵)
۳۔۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر احسان جتلاتے ہوئے بادشاہت کو انعام قرار دیا:{وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ یَا قَوْمِ اذْکُرُواْ نِعْمَۃَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ أَنبِیَاء وَجَعَلَکُم مُّلُوکاً وَآتَاکُم مَّا لَمْ یُؤْتِ أَحَداً مِّن الْعَالَمِیْن**(المائدہ20)
اورجب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم اللہ کی ان نعمتوں کو یاد کرو جو اس نے تم پر کیں جب تم میں سے انبیاء بنائے اور تمہیں بادشاہ بنایا اور تمہیں وہ کچھ عطا فرمایا جو تم سے پہلے دنیا میں کسی کونہ دیا گیا۔
۴۔۔۔دائود علیہ السلام کے بیٹے سلیمان علیہ السلام نے خود اللہ تعالیٰ سے بادشاہت کے لئے یوں دعا فرمائی۔
{قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَہَبْ لِیْ مُلْکاً لَّا یَنبَغِیْ لِأَحَدٍ مِّنْ بَعْدِیْ إِنَّکَ أَنتَ الْوَہَّاب**
اے میرے رب مجھے معاف فرما اور مجھے ایسی بادشاہت دے جو میرے بعد کسی کو نہ ملے بلاشبہ تو بڑا عطا فرمانے والا ہے (صٓ ۳۵)
۵۔۔داود علیہ السلا م بیک وقت بادشاہ بھی تھے اور خلیفہ بھی {وَآتَاہُ اللّہُ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَۃ** اور اللہ نے (داود کو )بادشاہت اور حکمت عطا فرمائی(البقرہ ۲۵۱))
{یَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیْفَۃً فِیْ الْأَرْضِ فَاحْکُم بَیْْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ** (صٓ۲۶)
اے دائود ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے لہٰذا لوگوں میں انصاف سے فیصلہ کرنا
۶۔۔۔بنی اسرائیل نے اپنے نبی سے عرض کیا کہ ہمارے لئے کوئی بادشاہ مقرر کر دیجئے تو اللہ نے ان پر بادشاہ مقرر کردیا:
وَقَالَ لَہُمْ نَبِیُّہُمْ إِنَّ اللّہَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوتَ مَلِکاً **(البقرہ ۲۴۷)
ان کے نبی نے ان سے کہا اللہ نے تمہارے لئے طالوت کو بودشاہ مقرر کیا ہے
ان حوالہ جات سے واضح ہے کہ بادشاہت فی نفسہ بری چیز نہیں۔ جو بادشاہ اللہ تعالیٰ کو قانون ساز تسلیم کرے پھر اس کے احکام پر خود بھی چلے اور لوگوں پر بھی ان احکام کو نافذ کرے تو یقینا وہ الامیراور خلیفۃ المسلمینہی کے حکم میںہے۔
۷۔۔۔رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے جب ایک نبی فوت ہوتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین بن جاتا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میرے بعد خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ (بخاری۳۴۵۵، مسلم۱۸۴۲)
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ اسلام بارہ خلیفوں تک ہمیشہ قوی رہے گا اور وہ سب قریش میں سے ہیں ۔ (بخاری۷۲۲۲و مسلم۱۸۲۱)
اس حدیث نے وضاحت کردی کہ خلافت صرف چار خلفاء تک محدود نہیں۔ یقینا بنوامیہ اور بنو عباس کے حکمرانوں میں سے بہت سے خلفاء بھی تھے۔
عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ خلافت ہمیشہ قریش میں رہے گی جب تک کہ ان میں دو آدمی باقی رہیں۔ (بخاری۳۵۰۱و مسلم۱۸۲۰)
۸۔۔صحابہ کرام تابعین اور تبع تابعین کے بہترین ادوار میں مسلمانوں نے بنو امیہ اور بنو عباس کے حکمرانوں کی بیعت کی ان کی غلط بات کا انکار کیا لیکن جماعت اور امیر جماعت سے الگ نہ ہوئے۔ کیونکہ رسولﷺ نے ایسا کرنے کا حکم دیا۔
آپ ﷺنے فرمایا تم پر امیر ہوں گے ان کے بعض کام تم اچھے سمجھو گے اور بعض کو برا سمجھو گے جس نے ان کی غلط بات کا انکار کیا وہ بری ہوا اور جس نے ان کی بری بات کو مکروہ جانا وہ سالم رہا اور لیکن جو ان کی بری بات پر راضی ہوا اور ان کی پیروی کی (وہ نقصان میں رہا) صحابہ کرام نے عرض کیا کیا ہم ان سے لڑائی نہ کریں؟ فرمایا نہیں جب تک وہ نماز پڑھیں۔ نہیں جب تک وہ نماز پڑھیں ۔(مسلم۱۸۵۴)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ جو شخص اپنے امیر میں کوئی ایسی چیز دیکھے جس کو وہ مکروہ سمجھتا ہے پس چاہئے کہ وہ صبر کرے کیونکہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھی جدا ہوا اور اس حال میں مرگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا ۔ (بخاری ۷۰۵۳و مسلم۱۸۴۹)
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں:بات دراصل یہ ہے کہ اسلام میں اصل مطاع اور قانون ساز اللہ ہے۔ خلیفہ کا منصب نہ قانون سازی ہے نہ اس کی ہر بات واجب الاطاعت ہے۔ وہ اللہ کے حکم کا پابند اور اس کو نافذ کرنے والا ہے اور اس کی اطاعت بھی اسی شرط کے ساتھ مشروط ہے۔حکمرانی کا یہ اسلامی تصور پہلے چار خلفاء کے دل و دماغ میں جس شدت کے ساتھ جاگزیں تھا بعدمیں یہ تصور بتدریج دھندلاتا چلا گیا۔ اسی کیفیت کو بادشاہت کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے ورنہ فی الواقع بادشاہت اسلام میں مذموم نہیں۔ عمر بن عبدالعزیزرحمہ اللہ اصطلاحی طور پر بادشاہ ہی تھے یعنی طریقہ ولی عہدی ہی سے خلیفہ بنے تھے لیکن اپنے طرزِ حکمرانی کی بناء پر اپنا نیک نام چھوڑ گئے۔ اسی طرح اسلامی تاریخ میں اور بھی متعدد بادشاہ ایسے گزرے ہیں جن کے روشن کارناموں سے تاریخ اسلام کے اوراق مزین اور جن کی شخصیتیں تمام مسلمانوں کی نظروں میں محمود و مستحسن ہیں پھر یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ اسلام میں فی نفسہٖ بادشاہت کوئی مذموم شے نہیں۔ صرف وہ بادشاہت مذموم ہے جو اللہ اور رسول کی بتلائی ہوئی حدود سے ناآشنا ہو جس طرح ہمارے دور کے حکمران ہیں۔ موجودہ حکمرانوں کو اگر کوئی شخص امیرالمومنین کا لقب بھی دیدے تب بھی وہ مشرف بہ اسلام نہیں ہوسکتے۔ اللہ کی نظروں میں وہ مبغوض ہی ہیں تاآنکہ وہ اللہ کو مطاع حقیقی اور قانون ساز تسلیم کرکے اپنے آپ کو اس کے احکامات کا پابند اور ان کو نافذ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ (خلافت و ملوکیت کی شرعی حیثیت صفحہ399