Zoq_Elia
Senator (1k+ posts)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک تعارف
اور زمین میں (مختلف قسم کے) قطعات ہیں جو ایک دوسرے کے قریب ہیں اور انگوروں کے باغات ہیں اور کھیتیاں ہیں اور کھجور کے درخت ہیں، جڑے ہوے اور علیحدہ علیحدہ، ان (سب) کو ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے، اور (اس کے باوجود) ہم ذائقہ میں بعض کو بعض پر فضیلت بخشتے ہیں، بیشک اس میں عقل مندوں کے لئے (بڑی) نشانیاں ہیں۔
[TABLE="class: outer_border, width: 720, align: center"]
[TR]
[TD]trees (growing) from a single root صِنْوَانٌ
نخيل صنوان﴿٤ الرعد﴾ نخلات يجمعها أصل واحد [کھجور کے درخت جن کی اصل (تنا یا جڑ) ایک ہو]۔
وَ غَيْرُ صِنْوانٍ﴿٤ الرعد﴾ متفرقات في أصولها [ علیحدہ درخت، اکیلا درخت]۔
وَ نَخيلٌ صِنْوانٌ﴿٤ الرعد﴾ نخلات يجمعها أصل واحد
صنوان ﴿٤ الرعد﴾ صنوان: نخلتان أو أكثر في أصل واحد، غير صنوان: وحدها.۔
[/TR]
[/TABLE]
عن جابر بن عبد اللهؓ ، قال : سمعت رسول الله ( صلى الله عليه و آله وسلم ) يقول لعلي ( عليه السَّلام ) : " يا علي الناس من شجر شتى ، و أنا و أنت من شجرة واحدة " .۔
ثم قرأ رسول الله ( صلى الله عليه و آله ) : ﴿ ... وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ صِنْوَانٌ وَغَيْرُ صِنْوَانٍ يُسْقَى بِمَاء وَاحِدٍ ... ﴾ .۔
قال الحاكم : هذا حديث صحيح الأسناد .۔
ترجمہ
حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے یہ فرماتے سنا کہ اے علی! لوگ مختلف درختوں (شجر) سے ہیں اور میں اور تم ایک ہی درخت (شجرۃ واحدۃ) سے ہیں۔ پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی۔ ﴿ ... وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ صِنْوَانٌ وَغَيْرُ صِنْوَانٍ يُسْقَى بِمَاء وَاحِدٍ ... ﴾۔
المستدرك على الصّحيحين، ج۔2 ص241۔ حدیث نمبر 2903 ۔
تفسیر درمنثور تفسیر سورۃ رعد آیت 4۔
(معجم الاوسط للطبرانی، 5 : 89، ح : 4162)
(2)
وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فَإِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ
ترجمہ
اور (اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) آپ اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو خبردار کیجیے اور مومنین میں سے جو آپ کی پیروی کریں اُن کیلیے اپنے کندھے کو جُھکا دیجیے۔ پس جو آپ کی نافرمانی کرے پس (اُن سے) آپ کہہ دیجیے کہ میں اُس سے بیزار ہوں جو کُچھ تم کرتے ہو اور العزیز الرحیم پر بھروسا رکھتا ہوں۔
قال: ثنا سلمة, قال: ثني محمد بن إسحاق, عن عبد الغفار بن القاسم, عن المنهال بن عمرو, عن عبد الله بن الحارث بن نوفل بن الحارث بن عبد المطلب, عن عبد الله بن عباس, عن عليّ بن أبي طالب: لما نـزلت هذه الآية على رسول الله صلى الله عليه و آلہ وسلم (وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ) دعاني رسول الله صلى الله عليه و آلہ وسلم, فقال لي: " يا عليُّ, إنَّ الله أمَرَنِي أنْ أُنْذِرْ عَشِيرَتِي الأقْرَبِين ", قال: " فضقت بذلك ذرعا, وعرفت أنى متى ما أنادهم بهذا الأمر أَرَ منهم ما أكره, فصمتُّ حتى جاء جبرائيل, فقال: يا محمد, إنك إلا تفعل ما تؤمر به يعذّبك ربك. فاصنع لنا صاعا من طعام, واجعل عليه رجل شاة, واملأ لنا عسا من لبن, ثم اجمع لي بني عبد المطلب, حتى أكلمهم, وأبلغهم ما أمرت به ", ففعلت ما أمرني به, ثم دعوتهم له, وهم يومئذ أربعون رجلا يزيدون رجلا أو ينقصونه, فيهم أعمامه: أبو طالب, وحمزة, والعباس, وأبو لهب; فلما اجتمعوا إليه دعاني بالطعام الذي صنعت لهم, فجئت به. فلما وضعته تناول رسول الله صلى الله عليه و آلہ وسلم حِذْية من اللحم فشقها بأسنانه, ثم ألقاها في نواحي الصحفة, قال: " خذوا باسم الله ", فأكل القوم حتى ما لهم بشيء حاجة, وما أرى إلا مواضع أيديهم; وايم الله الذي نفس علي بيده إن كان الرجل الواحد ليأكل ما قدمت لجميعهم, ثم قال: " اسْقِ النَّاسَ", فجِئْتُهُمْ بذلك العس, فشربوا حتى رووا منه جميعا, وايم الله إن كان الرجل الواحد منهم ليشرب مثله; فلما أراد رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يكلمهم, بدره أبو لهب إلى الكلام, فقال: لَهَدَّ ما سحركم به صاحبكم, فتفرّق القوم ولم يكلمهم رسول الله صلى الله عليه و آلہ وسلم, فقال: " الغد يا عليّ, إن هَذَا الرَّجُل قدْ سَبَقَنِي إلى ما قَدْ سَمِعْتَ مِنَ القَوْلِ, فَتفرّق القوم قبلَ أنْ أُكَلِّمَهُمْ فأعِدَّ لَنا مِنَ الطَّعَامِ مِثْلَ الَّذِي صَنَعْتَ, ثُمَّ اجْمَعْهُمْ لِي", قال: ففعلت ثم جمعتهم, ثم دعاني بالطعام, فقرّبته لهم, ففعل كما فعل بالأمس, فأكلوا حتى ما لهم بشيء حاجة, قال: " اسقهم ", فجئتهم بذلك العس فشربوا حتى رووا منه جميعًا, ثم تكلم رسول الله صلى الله عليه و آلہ وسلم, فقال: " يا بَنِي عَبْدِ المُطَّلِبِ, إنِّي والله ما أعْلَمُ شابا فِي العَرَبِ جَاءَ قَوْمَهُ بأفْضَلَ ممَّا جئْتُكُمْ بِهِ, إنّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِخَيْرِ الدُّنْيَا والآخِرَةِ, وَقَدْ أمَرَنِي الله أنْ أدْعُوكُمْ إلَيْهِ, فَأيُّكُمْ يُؤَازِرُني عَلى هَذَا الأمْرِ, عَلى أنْ يَكُونَ أخِي و وصيي و خليفتي فيكم؟ قال: فأحجم القوم عنها جميعا, وقلت وإني لأحدثهم سنا, وأرمصهم عينا, وأعظمهم بطنا, وأخمشهم ساقا. أنا يا نبيّ الله أكون وزيرك, فأخذ برقبتي, ثم قال: " إن هذا أخي و وصيي و خليفتي فيكم فاسمعوا له وأطيعوا ", قال: فقام القوم يضحكون, ويقولون لأبي طالب: قد أمرك أن تسمع لابنك وتطيع۔!.۔
تاریخ امم والملوک المشہور تاريخ طبری ؛ جلد 2 ص 62،63
تاریخ ابو الفداء، ص ۳۳ تا ص ۳۶ طبع لاہور
تفسیر طبری تفسیر سورۃ الشعرا 26 آیت 214
تفسیر درمنثور تفسیر سورۃ الشعرا 26 آیت 214
ترجمہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت (وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو خبردار کروں پس میرے دل میں مجھے تنگی محسوس ہوئی اور میں پہچان گیا کہ میں جب بھی انھیں اس بات کی دعوت دوں گا تو میں اُن کا ایسا طرز عمل دیکھوں گا جو مجھے ناپسند ہے۔ پس میں خاموش رہا حتٰی کہ جبرائیل امینؑ آئے اور پس فرمایا کہ ائے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اگر آپ نے اس امر کو مکمل نہ کیا جسکا آپ کو حُکم ہوا ہے تو آپ کا رب عذاب کرے گا پس ائے علیؑ ایک پیمانہ کھانے کا میرے واسطے تیار کرو اور ایک بکری کا پیر (بھون کر) اس پر رکھ اور ایک بڑا کانسہ (پیالہ) دودھ کا میرے واسطے لا اورعبدالمطلب کی اولاد کو میرے پاس بلا کر لا تاکہ میں اس سے کلام کروں اور سناؤں ان کو وہ حکم کہ جس پرمیں اپنے رب کی طرف سے مامور ہوا ہوں چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے وہ کھانا ایک پیمانہ بموجب حکم تیار کر کے اولاد عبدالمطلب کو جو قریب چالیس آدمی کے تھے بلایا، ان آدمیوں میں حضرت کے چچا ابوطالب اور حضرت حمزہ اور حضرت عباس اور ابولھب بھی تھے اس وقت جضرت علی کرم اللہ وجہہ نے وہ کھانا جو تیار کیا تھا لا کر حاضر کیا۔ جب میں نے کھانا رکھا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے گوشت کا ایک ٹکڑا لیا اور اُسے دانتوں سے ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھانے کے اطراف میں رکھا اور فرمایا کہ اللہ کا نام لے کر کھاؤ۔ لوگوں نے اسے کھایا یہاں تک کہ اسے اس وقت چھوڑا جب برتن میں ان کی انگلیوں کے نشانات دکھائی دے رہے تھے۔ سب نے سیر ہو کر کھایا۔ جو کھانا ان سب آدمیوں نے کھایا ہے وہ ایک آدمی کی بھوک کے موافق تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ انھیں پلاؤ تو میں وہ دودھ کا برتن لے آیا۔ سب نے اس سے سیر ہو کر پیا۔ حالانکہ اُن میں سے ہر ایک اُس پیالے کے برابر ہی پیتا تھا۔
اس اثناء میں حضرت چاہتے تھے کہ کچھ ارشاد کریں کہ ابولہب پہل کرتے ہوئے بول اٹھا اور یہ کہا کہ دیکھا تمھارے ساتھی نے کیسا جادو کیا؟؟ یہ سنتے ہی تمام آدمی الگ الگ ہوگئے تھے ، چلے گئے پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کچھ کہنے نہ پائے تھے یہ حال دیکھ کر جناب رسالتماب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے ارشاد کیا کہ ائے علیؑ دیکھا تو نے اس شخص نے کیسی سبقت کی مجھے بولنے ہی نہ دیا اب پھر کل کو تیار کر جیسا کہ آج کیا تھا اور پھر ان کو بلا کر جمع کر۔
چنانچہ حضرت علیؑ نے دوسرے روز پھرموافق ارشاد آنحضرت کے وہ کھانا تیار کر کے سب لوگوں کو جمع کیا، جب وہ کھانے سے فراغت پا چکے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد کیا کہ "اے فرزندان عبدالمطلب! خدا کی قسم! میں پورے عرب میں ایسا کوئی جوان نہیں جانتا جو مجھ سے بہتر کوئی چیز اپنی قوم کے لئے لایا ہو؛ میں تمہارے لئے دنیا اور اخرت کی بھلائی لایا ہوں؛ خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں اس کی طرف بلاؤں؛ پس کون ہے جو اس کام میں میری پشت پناہی کرے، تاکہ وہی میرا بھائی، میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا خلیفہ اور جانشین قرار پائے؟ اس وقت سب موجود تھے اور حضرت پر ایک ہجوم تھا اور حضرت علیؑ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں آپ کے دشمنوں کو نیزہ ماروں گا اورآنکھیں ان کی پھوڑوں گا اور آپ کے دشمنوں کے پیٹ چیروں گا اور انکی ٹانگیں کاٹوں گا ائے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں آپ کا وزیر بنوں گا۔ حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس وقت میری گردن پر ہاتھ مبارک رکھ کر ارشاد کیا کہ بے شک یہ میرا بھائی ہے اور میرا وصی ہے اور میرا خلیفہ ہے تمہارے درمیان اس کی سنو اور اطاعت قبول کرو۔ یہ سن کر سب قوم کے لوگ از روئے تمسخر ہنس کر کھڑے ہوگئے اور ابوطالبؑ سے کہنے لگے کہ اپنے بیٹے کی بات سن اور اطاعت کر یہ تجھے حکم ہوا ہے-۔
[TABLE="class: outer_border, width: 720, align: center"]
[TR]
[TD]
ترجمہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ نازل ہوئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے گھر والوں کو جمع ہونے کو کہا۔ پس 30 کے قریب اشخاص اکٹھے ہوئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انھیں کھلایا اور پلایا اور پھر اُن سے فرمایا کہ تم میں سے کون اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ میری ذمہ داری کو پورا کرے گا اور میرا عہد نبھائے گا اور (جو ایسا کرے گا) وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا اور میرے اھل میں سے میرا خلیفہ (جانشین) قرار پائے گا۔ پس اُن میں سے ایک دانا اور زیرک آدمی بولا کہ کہ ائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کی شخصیت تو ایک سمندر ہے۔ تو کون ایسا ہے جو اس (عظیم ذمہ داری) کی طاقت رکھتا ہو اور اسے برداشت کرسکے۔؟؟ پس حضرت علیؑ نے فرمایا یا رسول اللہ میں (اس ذمہ داری کا بوجھ اُٹھاتا ہوں)۔
حدثنا أسود بن عامر ، حدثنا : شريك ، عن الأعمش ، عن المنهال ، عن عباد بن عبد الله الأسدي ، عن علي قال لمَّا نزلَت هذِهِ الآيةُ : وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ قالَ : جمعَ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ من أَهْلِ بيتِه عليَّ بنَ أبي طالبٍ ، فاجتمعَ ثلاثونَ ، فأَكَلوا وشرِبوا ، قالَ : فقالَ لَهُم : مَن يضمنُ عنِّي ديني ومواعيدي ، ويَكونُ معي في الجنَّةِ ، ويَكونُ خَليفتي في أَهْلي ؟ فقالَ : رجلٌ لم يسمِّهِ شريكٌ يا رسولَ اللَّهِ ، أنتَ كُنتَ بحرًا ، من يقومُ بِهَذا ؟ قالَ : ثمَّ قالَ : الآخَرُ قالَ : فعرضَ ذلِكَ على أَهْلِ بيتِهِ ، فقالَ عليٌّ رضي اللَّه عنه أَنا
الراوي : علي بن أبي طالب المحدث : أحمد شاكر
المصدر : مسند أحمد الصفحة أو الرقم: 2/165 خلاصة حكم المحدث : إسناده حسن
Source
ما نزلت هذه الآيةُ وَأَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْأَقْرَبِيْنَ قال جمع رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم من أهلِ بيتِه فاجتمع له ثلاثونَ رجلًا فأكلوا وشرِبوا قال فقال لهم مَن يضمنُ عنِّي دينِي ومواعيدِي ويكونُ معِي في الجنةِ ويكونُ خليفَتي في أهلِي فقال رجلٌ لم يُسمِّه شريكٌ يا رسولَ اللهِ أنت كنتَ بحرًا مَن يقومُ بهذا قال ثم قال لآخرٍ فعرض ذلك على أهلِ بيتِه فقال عليٌّ أنا
الراوي : علي بن أبي طالب المحدث : الهيثمي
المصدر : مجمع الزوائد الصفحة أو الرقم: 9/116 خلاصة حكم المحدث : إسناده جيد [وله] طرق
Source
أخبرنا الفضل بن سهل قال حدثني عفان بن مسلم قال حدثنا أبو عوانة عن عثمان بن المغيرة عن أبي صادق عن ربيعة بن ناجد أن رجلا قال لعلي يا أمير المؤمنين لم ورثت بن عمك دون عمك قال جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم أو قال دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بني عبد المطلب فصنع لهم مدا من طعام قال فأكلوا حتى شبعوا وبقي الطعام كما هو كأنه لم يمس ثم دعا بغمر فشربوا حتى رووا وبقي الشراب كأنه لم يمس أو لم يشرب فقال يا بني عبد المطلب إني بعثت إليكم بخاصة وإلى الناس بعامة وقد رأيتم من هذه الآية ما قد رأيتم فأيكم يبايعني على أن يكون أخي وصاحبي ووارثي فلم يقم إليه أحد فقمت إليه وكنت أصغر القوم فقال اجلس ثم قال ثلاث مرات كل ذلك أقوم إليه فيقول اجلس حتى كان في الثالثة ضرب بيده على يدي ثم قال أنت أخي وصاحبي ووارثي ووزيري فبذلك ورثت بن عمي دون عمي..۔
سنن النسائي الكبرى الجزء 5 صفحة 125[/TD]
[/TR]
[/TABLE]
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
ائے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ آپ کیلیے کافی ہے اور اُس کیلیے بھی جو مومنین میں سے آپ کی پیروی کرے
(3)
أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَى
سورۃ والضحٰی 93، آیت 6
(4)
هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّن نَّارٍ يُصَبُّ مِن فَوْقِ رُؤُوسِهِمُ الْحَمِيمُ يُصْهَرُ بِهِ مَا فِي بُطُونِهِمْ وَالْجُلُودُ وَلَهُم مَّقَامِعُ مِنْ حَدِيدٍ كُلَّمَا أَرَادُوا أَن يَخْرُجُوا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ أُعِيدُوا فِيهَا وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ وَهُدُوا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَهُدُوا إِلَى صِرَاطِ الْحَمِيدِ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ
سورۃ الحج 22، آیات 19 تا 23۔
ترجمہ
قیس بن عبادہ انصاریؓ فرماتے ہیں کہ انھوں نے حضرت ابوذر غفاریؓ کو قسم کھا کر فرماتے ہوئے سُنا کہ یہ سورۃ الحج کی آیات هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ (الحج آیت نمبر 19) سے لے کر آیت نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ (الحج آیت نمبر 25) تک کی آیات بدر والے دن ان 6 اشخاص کے بارے میں نازل ہوئیں۔ علی ابن ابی طالب بن عبدالمطلب، حمزہ بن عبدالمطلب اور عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب علیھم السلام اور شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ
Source
عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ ، قَالَ : " سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ يُقْسِمُ : هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِنْ نَار إلى قولِهِ الْحَرِيقِ فِي حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، وَعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، وَعُبَيْدَةَ بْنِ الْحَارِثِ ، وَعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ ، وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ ، وَالْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ اخْتَصَمُوا فِي الْحُجَجِ يَوْمَ بَدْرٍ "۔
حکم المحدث (البانی): صحیحسنن ابن ماجه كِتَاب الْجِهَادِ بَاب الْمُبَارَزَةِ وَالسَّلَبِ حدیث نمبر 2829
حدثنا : عمرو بن زرارة ، حدثنا : هشيم ، عن أبي هاشم ، عن أبي مجلز ، عن قيس بن عباد قال : سمعت أبا ذر يقسم قسماً : إن هذان خصمان إختصموا في ربهم ، إنها نزلت في الذين برزوا يوم بدر حمزة وعلي وعبيدة بن الحارث وعتبة وشيبة إبنا ربيعة والوليد بن عتبة ، حدثنا : أبوبكر بن أبي شيبة ، حدثنا : وكيع ح وحدثني : محمد بن المثنى ، حدثنا : عبد الرحمن جميعاًًً ، عن سفيان ، عن أبي هاشم ، عن أبي مجلز ، عن قيس بن عباد قال : سمعت أبا ذر يقسم لنزلت : هذان خصمان ، بمثل حديث هشيم
صحيح مسلم - التفسير - في قوله تعالى هذان خصمان إختصموا في ربهم - رقم الحديث : ( 5362 )۔
Source
Source
Source
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک تعارف
(قرآن و حدیث کی روشنی میں)
(1)
وَفِي الأَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ صِنْوَانٌ وَغَيْرُ صِنْوَانٍ يُسْقَى بِمَاء وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ فِي الأُكُلِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ(قرآن و حدیث کی روشنی میں)
(1)
سورة الرعد ( 13 ) ، الآية : 4
ترجمہ
اور زمین میں (مختلف قسم کے) قطعات ہیں جو ایک دوسرے کے قریب ہیں اور انگوروں کے باغات ہیں اور کھیتیاں ہیں اور کھجور کے درخت ہیں، جڑے ہوے اور علیحدہ علیحدہ، ان (سب) کو ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے، اور (اس کے باوجود) ہم ذائقہ میں بعض کو بعض پر فضیلت بخشتے ہیں، بیشک اس میں عقل مندوں کے لئے (بڑی) نشانیاں ہیں۔
[TABLE="class: outer_border, width: 720, align: center"]
[TR]
[TD]trees (growing) from a single root صِنْوَانٌ
نخيل صنوان﴿٤ الرعد﴾ نخلات يجمعها أصل واحد [کھجور کے درخت جن کی اصل (تنا یا جڑ) ایک ہو]۔
وَ غَيْرُ صِنْوانٍ﴿٤ الرعد﴾ متفرقات في أصولها [ علیحدہ درخت، اکیلا درخت]۔
وَ نَخيلٌ صِنْوانٌ﴿٤ الرعد﴾ نخلات يجمعها أصل واحد
صنوان ﴿٤ الرعد﴾ صنوان: نخلتان أو أكثر في أصل واحد، غير صنوان: وحدها.۔

Two Date Palms from a single Shaft
کھجور کے دو جُڑے درخت ایک تنے سے
Two Date Palms from a single root
کھجور کے دو جُڑے ہوئے درخت ایک جڑ سے
Multiple Date Palms from a single root
کھجور کے کئی جُڑے درخت (جُھنڈ) ایک جڑ سے
نَخِيلٌ صِنْوَانٌ
کھجور کے جُڑے ہوے درخت
Phoenix dactylifera (Date Palm) grows 7075 feet (2123 m) in height,[SUP][6][/SUP] growing singly or forming a clump with several stems from a single root system.
کھجور کے درخت 70-75 کی بلندی تک بڑھتے ہیں اور اکیلے اکیلے نکلتے ہیں یا جُھنڈ، جس میں کئی تنے جن کی جڑ ایک ہوتی ہے، کی صورت میں نکلتے ہیں
[/TD]کھجور کے دو جُڑے درخت ایک تنے سے

Two Date Palms from a single root
کھجور کے دو جُڑے ہوئے درخت ایک جڑ سے

Multiple Date Palms from a single root
کھجور کے کئی جُڑے درخت (جُھنڈ) ایک جڑ سے
نَخِيلٌ صِنْوَانٌ
کھجور کے جُڑے ہوے درخت
Phoenix dactylifera (Date Palm) grows 7075 feet (2123 m) in height,[SUP][6][/SUP] growing singly or forming a clump with several stems from a single root system.
کھجور کے درخت 70-75 کی بلندی تک بڑھتے ہیں اور اکیلے اکیلے نکلتے ہیں یا جُھنڈ، جس میں کئی تنے جن کی جڑ ایک ہوتی ہے، کی صورت میں نکلتے ہیں
[/TR]
[/TABLE]
عن جابر بن عبد اللهؓ ، قال : سمعت رسول الله ( صلى الله عليه و آله وسلم ) يقول لعلي ( عليه السَّلام ) : " يا علي الناس من شجر شتى ، و أنا و أنت من شجرة واحدة " .۔
ثم قرأ رسول الله ( صلى الله عليه و آله ) : ﴿ ... وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ صِنْوَانٌ وَغَيْرُ صِنْوَانٍ يُسْقَى بِمَاء وَاحِدٍ ... ﴾ .۔
قال الحاكم : هذا حديث صحيح الأسناد .۔
ترجمہ
حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے یہ فرماتے سنا کہ اے علی! لوگ مختلف درختوں (شجر) سے ہیں اور میں اور تم ایک ہی درخت (شجرۃ واحدۃ) سے ہیں۔ پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی۔ ﴿ ... وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ صِنْوَانٌ وَغَيْرُ صِنْوَانٍ يُسْقَى بِمَاء وَاحِدٍ ... ﴾۔
المستدرك على الصّحيحين، ج۔2 ص241۔ حدیث نمبر 2903 ۔
تفسیر درمنثور تفسیر سورۃ رعد آیت 4۔
(معجم الاوسط للطبرانی، 5 : 89، ح : 4162)
(2)
وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فَإِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ
سورۃ الشعرا 26، آیات 214، 215، 216 اور 217
ترجمہ
اور (اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) آپ اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو خبردار کیجیے اور مومنین میں سے جو آپ کی پیروی کریں اُن کیلیے اپنے کندھے کو جُھکا دیجیے۔ پس جو آپ کی نافرمانی کرے پس (اُن سے) آپ کہہ دیجیے کہ میں اُس سے بیزار ہوں جو کُچھ تم کرتے ہو اور العزیز الرحیم پر بھروسا رکھتا ہوں۔
قال: ثنا سلمة, قال: ثني محمد بن إسحاق, عن عبد الغفار بن القاسم, عن المنهال بن عمرو, عن عبد الله بن الحارث بن نوفل بن الحارث بن عبد المطلب, عن عبد الله بن عباس, عن عليّ بن أبي طالب: لما نـزلت هذه الآية على رسول الله صلى الله عليه و آلہ وسلم (وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ) دعاني رسول الله صلى الله عليه و آلہ وسلم, فقال لي: " يا عليُّ, إنَّ الله أمَرَنِي أنْ أُنْذِرْ عَشِيرَتِي الأقْرَبِين ", قال: " فضقت بذلك ذرعا, وعرفت أنى متى ما أنادهم بهذا الأمر أَرَ منهم ما أكره, فصمتُّ حتى جاء جبرائيل, فقال: يا محمد, إنك إلا تفعل ما تؤمر به يعذّبك ربك. فاصنع لنا صاعا من طعام, واجعل عليه رجل شاة, واملأ لنا عسا من لبن, ثم اجمع لي بني عبد المطلب, حتى أكلمهم, وأبلغهم ما أمرت به ", ففعلت ما أمرني به, ثم دعوتهم له, وهم يومئذ أربعون رجلا يزيدون رجلا أو ينقصونه, فيهم أعمامه: أبو طالب, وحمزة, والعباس, وأبو لهب; فلما اجتمعوا إليه دعاني بالطعام الذي صنعت لهم, فجئت به. فلما وضعته تناول رسول الله صلى الله عليه و آلہ وسلم حِذْية من اللحم فشقها بأسنانه, ثم ألقاها في نواحي الصحفة, قال: " خذوا باسم الله ", فأكل القوم حتى ما لهم بشيء حاجة, وما أرى إلا مواضع أيديهم; وايم الله الذي نفس علي بيده إن كان الرجل الواحد ليأكل ما قدمت لجميعهم, ثم قال: " اسْقِ النَّاسَ", فجِئْتُهُمْ بذلك العس, فشربوا حتى رووا منه جميعا, وايم الله إن كان الرجل الواحد منهم ليشرب مثله; فلما أراد رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يكلمهم, بدره أبو لهب إلى الكلام, فقال: لَهَدَّ ما سحركم به صاحبكم, فتفرّق القوم ولم يكلمهم رسول الله صلى الله عليه و آلہ وسلم, فقال: " الغد يا عليّ, إن هَذَا الرَّجُل قدْ سَبَقَنِي إلى ما قَدْ سَمِعْتَ مِنَ القَوْلِ, فَتفرّق القوم قبلَ أنْ أُكَلِّمَهُمْ فأعِدَّ لَنا مِنَ الطَّعَامِ مِثْلَ الَّذِي صَنَعْتَ, ثُمَّ اجْمَعْهُمْ لِي", قال: ففعلت ثم جمعتهم, ثم دعاني بالطعام, فقرّبته لهم, ففعل كما فعل بالأمس, فأكلوا حتى ما لهم بشيء حاجة, قال: " اسقهم ", فجئتهم بذلك العس فشربوا حتى رووا منه جميعًا, ثم تكلم رسول الله صلى الله عليه و آلہ وسلم, فقال: " يا بَنِي عَبْدِ المُطَّلِبِ, إنِّي والله ما أعْلَمُ شابا فِي العَرَبِ جَاءَ قَوْمَهُ بأفْضَلَ ممَّا جئْتُكُمْ بِهِ, إنّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِخَيْرِ الدُّنْيَا والآخِرَةِ, وَقَدْ أمَرَنِي الله أنْ أدْعُوكُمْ إلَيْهِ, فَأيُّكُمْ يُؤَازِرُني عَلى هَذَا الأمْرِ, عَلى أنْ يَكُونَ أخِي و وصيي و خليفتي فيكم؟ قال: فأحجم القوم عنها جميعا, وقلت وإني لأحدثهم سنا, وأرمصهم عينا, وأعظمهم بطنا, وأخمشهم ساقا. أنا يا نبيّ الله أكون وزيرك, فأخذ برقبتي, ثم قال: " إن هذا أخي و وصيي و خليفتي فيكم فاسمعوا له وأطيعوا ", قال: فقام القوم يضحكون, ويقولون لأبي طالب: قد أمرك أن تسمع لابنك وتطيع۔!.۔
تاریخ ابو الفداء، ص ۳۳ تا ص ۳۶ طبع لاہور
تفسیر طبری تفسیر سورۃ الشعرا 26 آیت 214
تفسیر درمنثور تفسیر سورۃ الشعرا 26 آیت 214
ترجمہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت (وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو خبردار کروں پس میرے دل میں مجھے تنگی محسوس ہوئی اور میں پہچان گیا کہ میں جب بھی انھیں اس بات کی دعوت دوں گا تو میں اُن کا ایسا طرز عمل دیکھوں گا جو مجھے ناپسند ہے۔ پس میں خاموش رہا حتٰی کہ جبرائیل امینؑ آئے اور پس فرمایا کہ ائے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اگر آپ نے اس امر کو مکمل نہ کیا جسکا آپ کو حُکم ہوا ہے تو آپ کا رب عذاب کرے گا پس ائے علیؑ ایک پیمانہ کھانے کا میرے واسطے تیار کرو اور ایک بکری کا پیر (بھون کر) اس پر رکھ اور ایک بڑا کانسہ (پیالہ) دودھ کا میرے واسطے لا اورعبدالمطلب کی اولاد کو میرے پاس بلا کر لا تاکہ میں اس سے کلام کروں اور سناؤں ان کو وہ حکم کہ جس پرمیں اپنے رب کی طرف سے مامور ہوا ہوں چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے وہ کھانا ایک پیمانہ بموجب حکم تیار کر کے اولاد عبدالمطلب کو جو قریب چالیس آدمی کے تھے بلایا، ان آدمیوں میں حضرت کے چچا ابوطالب اور حضرت حمزہ اور حضرت عباس اور ابولھب بھی تھے اس وقت جضرت علی کرم اللہ وجہہ نے وہ کھانا جو تیار کیا تھا لا کر حاضر کیا۔ جب میں نے کھانا رکھا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے گوشت کا ایک ٹکڑا لیا اور اُسے دانتوں سے ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھانے کے اطراف میں رکھا اور فرمایا کہ اللہ کا نام لے کر کھاؤ۔ لوگوں نے اسے کھایا یہاں تک کہ اسے اس وقت چھوڑا جب برتن میں ان کی انگلیوں کے نشانات دکھائی دے رہے تھے۔ سب نے سیر ہو کر کھایا۔ جو کھانا ان سب آدمیوں نے کھایا ہے وہ ایک آدمی کی بھوک کے موافق تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ انھیں پلاؤ تو میں وہ دودھ کا برتن لے آیا۔ سب نے اس سے سیر ہو کر پیا۔ حالانکہ اُن میں سے ہر ایک اُس پیالے کے برابر ہی پیتا تھا۔
اس اثناء میں حضرت چاہتے تھے کہ کچھ ارشاد کریں کہ ابولہب پہل کرتے ہوئے بول اٹھا اور یہ کہا کہ دیکھا تمھارے ساتھی نے کیسا جادو کیا؟؟ یہ سنتے ہی تمام آدمی الگ الگ ہوگئے تھے ، چلے گئے پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کچھ کہنے نہ پائے تھے یہ حال دیکھ کر جناب رسالتماب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے ارشاد کیا کہ ائے علیؑ دیکھا تو نے اس شخص نے کیسی سبقت کی مجھے بولنے ہی نہ دیا اب پھر کل کو تیار کر جیسا کہ آج کیا تھا اور پھر ان کو بلا کر جمع کر۔
چنانچہ حضرت علیؑ نے دوسرے روز پھرموافق ارشاد آنحضرت کے وہ کھانا تیار کر کے سب لوگوں کو جمع کیا، جب وہ کھانے سے فراغت پا چکے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد کیا کہ "اے فرزندان عبدالمطلب! خدا کی قسم! میں پورے عرب میں ایسا کوئی جوان نہیں جانتا جو مجھ سے بہتر کوئی چیز اپنی قوم کے لئے لایا ہو؛ میں تمہارے لئے دنیا اور اخرت کی بھلائی لایا ہوں؛ خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں اس کی طرف بلاؤں؛ پس کون ہے جو اس کام میں میری پشت پناہی کرے، تاکہ وہی میرا بھائی، میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا خلیفہ اور جانشین قرار پائے؟ اس وقت سب موجود تھے اور حضرت پر ایک ہجوم تھا اور حضرت علیؑ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں آپ کے دشمنوں کو نیزہ ماروں گا اورآنکھیں ان کی پھوڑوں گا اور آپ کے دشمنوں کے پیٹ چیروں گا اور انکی ٹانگیں کاٹوں گا ائے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں آپ کا وزیر بنوں گا۔ حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس وقت میری گردن پر ہاتھ مبارک رکھ کر ارشاد کیا کہ بے شک یہ میرا بھائی ہے اور میرا وصی ہے اور میرا خلیفہ ہے تمہارے درمیان اس کی سنو اور اطاعت قبول کرو۔ یہ سن کر سب قوم کے لوگ از روئے تمسخر ہنس کر کھڑے ہوگئے اور ابوطالبؑ سے کہنے لگے کہ اپنے بیٹے کی بات سن اور اطاعت کر یہ تجھے حکم ہوا ہے-۔
[TR]
[TD]
شواھد حدیث
وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الأَسْدِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ قال لما نزلت هذه الآيةُ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ قال جمع رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ أهلَ بيتِه فاجتمعوا ثلاثين رجلًا فأكلوا وشربوا وقال لهم مَنْ يضمنُ عني ذمَّتي ومواعيدي وهو معي في الجنةِ ويكونُ خليفتي في أهلي قال فعرض ذاك عليهم فقال رجلٌ أنت يا رسولَ اللهِ كنتَ بحرًا منْ يُطيقُ هذا حتى عرض على واحدٍ واحدٍ فقال عليٌّ أنا
الراوي : علي بن أبي طالب المحدث : ابن جرير الطبري
المصدر : مسند علي الصفحة أو الرقم: 60 خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
Sourceالراوي : علي بن أبي طالب المحدث : ابن جرير الطبري
المصدر : مسند علي الصفحة أو الرقم: 60 خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
ترجمہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ نازل ہوئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے گھر والوں کو جمع ہونے کو کہا۔ پس 30 کے قریب اشخاص اکٹھے ہوئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انھیں کھلایا اور پلایا اور پھر اُن سے فرمایا کہ تم میں سے کون اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ میری ذمہ داری کو پورا کرے گا اور میرا عہد نبھائے گا اور (جو ایسا کرے گا) وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا اور میرے اھل میں سے میرا خلیفہ (جانشین) قرار پائے گا۔ پس اُن میں سے ایک دانا اور زیرک آدمی بولا کہ کہ ائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کی شخصیت تو ایک سمندر ہے۔ تو کون ایسا ہے جو اس (عظیم ذمہ داری) کی طاقت رکھتا ہو اور اسے برداشت کرسکے۔؟؟ پس حضرت علیؑ نے فرمایا یا رسول اللہ میں (اس ذمہ داری کا بوجھ اُٹھاتا ہوں)۔
حدثنا أسود بن عامر ، حدثنا : شريك ، عن الأعمش ، عن المنهال ، عن عباد بن عبد الله الأسدي ، عن علي قال لمَّا نزلَت هذِهِ الآيةُ : وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ قالَ : جمعَ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ من أَهْلِ بيتِه عليَّ بنَ أبي طالبٍ ، فاجتمعَ ثلاثونَ ، فأَكَلوا وشرِبوا ، قالَ : فقالَ لَهُم : مَن يضمنُ عنِّي ديني ومواعيدي ، ويَكونُ معي في الجنَّةِ ، ويَكونُ خَليفتي في أَهْلي ؟ فقالَ : رجلٌ لم يسمِّهِ شريكٌ يا رسولَ اللَّهِ ، أنتَ كُنتَ بحرًا ، من يقومُ بِهَذا ؟ قالَ : ثمَّ قالَ : الآخَرُ قالَ : فعرضَ ذلِكَ على أَهْلِ بيتِهِ ، فقالَ عليٌّ رضي اللَّه عنه أَنا
الراوي : علي بن أبي طالب المحدث : أحمد شاكر
المصدر : مسند أحمد الصفحة أو الرقم: 2/165 خلاصة حكم المحدث : إسناده حسن
ما نزلت هذه الآيةُ وَأَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْأَقْرَبِيْنَ قال جمع رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم من أهلِ بيتِه فاجتمع له ثلاثونَ رجلًا فأكلوا وشرِبوا قال فقال لهم مَن يضمنُ عنِّي دينِي ومواعيدِي ويكونُ معِي في الجنةِ ويكونُ خليفَتي في أهلِي فقال رجلٌ لم يُسمِّه شريكٌ يا رسولَ اللهِ أنت كنتَ بحرًا مَن يقومُ بهذا قال ثم قال لآخرٍ فعرض ذلك على أهلِ بيتِه فقال عليٌّ أنا
الراوي : علي بن أبي طالب المحدث : الهيثمي
المصدر : مجمع الزوائد الصفحة أو الرقم: 9/116 خلاصة حكم المحدث : إسناده جيد [وله] طرق
لما نزلتْ **وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ** جمعَ قرابتَهُ فاجتمعَ لهُ ثلاثونَ رجلًا فأكلوا وشرِبوا فقال لَهم من يضمَنُ عنِّي دَيني ومواعيدي ويكونُ معي في الجنَّةِ ويكونُ خليفَتي في أهلي قال عليٌّ فقلتُ أنا
الراوي : علي بن أبي طالب المحدث : الشوكاني
المصدر : در السحابة الصفحة أو الرقم: 149 خلاصة حكم المحدث : إسناده جيد
Sourceالراوي : علي بن أبي طالب المحدث : الشوكاني
المصدر : در السحابة الصفحة أو الرقم: 149 خلاصة حكم المحدث : إسناده جيد
أخبرنا الفضل بن سهل قال حدثني عفان بن مسلم قال حدثنا أبو عوانة عن عثمان بن المغيرة عن أبي صادق عن ربيعة بن ناجد أن رجلا قال لعلي يا أمير المؤمنين لم ورثت بن عمك دون عمك قال جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم أو قال دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بني عبد المطلب فصنع لهم مدا من طعام قال فأكلوا حتى شبعوا وبقي الطعام كما هو كأنه لم يمس ثم دعا بغمر فشربوا حتى رووا وبقي الشراب كأنه لم يمس أو لم يشرب فقال يا بني عبد المطلب إني بعثت إليكم بخاصة وإلى الناس بعامة وقد رأيتم من هذه الآية ما قد رأيتم فأيكم يبايعني على أن يكون أخي وصاحبي ووارثي فلم يقم إليه أحد فقمت إليه وكنت أصغر القوم فقال اجلس ثم قال ثلاث مرات كل ذلك أقوم إليه فيقول اجلس حتى كان في الثالثة ضرب بيده على يدي ثم قال أنت أخي وصاحبي ووارثي ووزيري فبذلك ورثت بن عمي دون عمي..۔
[/TR]
[/TABLE]
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
ائے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ آپ کیلیے کافی ہے اور اُس کیلیے بھی جو مومنین میں سے آپ کی پیروی کرے
(3)
أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَى
ترجمہ
کیا اس (اللہ) نے آپ کو یتیم نہیں پایا تھا پھر جگہ دی
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم"مَا زَالَتْ قُرَیْشٌ كَاعَّةً (اَو قَاعِدَةً) عَنِّی حَتَّی تُوُفِّیَ اَبُو طَالِبٍ"۔
ترجمہ: جب تک ابوطالبؑ بقید حیات تھے قریش مجھ سے خائف رہتے تھے۔
تاریخ مدینه دمشق، ج 66، ص 339۔
ابن کثیر، البدایة و النهایة، ج3، ص164۔
مستدرك الحاكم - كتاب الهجرة الأولى الى الحبشة - رقم الحديث : ( 4302 )۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللَّهُ الَّذي يُحيي ويميتُ وَهوَ حيٌّ لا يموتُ اللَّهمَّ اغفِر لأمِّي فاطمةَ بنتِ أسدٍ ولقِّنها حجَّتَها ووسِّع عليها مُدخلَها بحقِّ نبيِّكَ والأنبياءِ الَّذينَ من قبلي فإنَّكَ أرحمُ الرَّاحمينَ ۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ائے اللہ جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور وہ خود زندہ ہے اور اسے کوئی زوال نہیں۔ ائے اللہ میری ماں فاطمہ بنت اسد کی مغفرت فرما اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اُس سے پہلے گزرے ہوئے انبیا کے صدقے اُس کے ٹھکانے کو کشادہ کردے۔ پس بے شک توں ہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مستدرک علی الصحیحین حدیث نمبر 4632
Sourceکیا اس (اللہ) نے آپ کو یتیم نہیں پایا تھا پھر جگہ دی
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم"مَا زَالَتْ قُرَیْشٌ كَاعَّةً (اَو قَاعِدَةً) عَنِّی حَتَّی تُوُفِّیَ اَبُو طَالِبٍ"۔
ترجمہ: جب تک ابوطالبؑ بقید حیات تھے قریش مجھ سے خائف رہتے تھے۔
تاریخ مدینه دمشق، ج 66، ص 339۔
ابن کثیر، البدایة و النهایة، ج3، ص164۔
مستدرك الحاكم - كتاب الهجرة الأولى الى الحبشة - رقم الحديث : ( 4302 )۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللَّهُ الَّذي يُحيي ويميتُ وَهوَ حيٌّ لا يموتُ اللَّهمَّ اغفِر لأمِّي فاطمةَ بنتِ أسدٍ ولقِّنها حجَّتَها ووسِّع عليها مُدخلَها بحقِّ نبيِّكَ والأنبياءِ الَّذينَ من قبلي فإنَّكَ أرحمُ الرَّاحمينَ ۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ائے اللہ جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور وہ خود زندہ ہے اور اسے کوئی زوال نہیں۔ ائے اللہ میری ماں فاطمہ بنت اسد کی مغفرت فرما اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اُس سے پہلے گزرے ہوئے انبیا کے صدقے اُس کے ٹھکانے کو کشادہ کردے۔ پس بے شک توں ہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مستدرک علی الصحیحین حدیث نمبر 4632
(4)
هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّن نَّارٍ يُصَبُّ مِن فَوْقِ رُؤُوسِهِمُ الْحَمِيمُ يُصْهَرُ بِهِ مَا فِي بُطُونِهِمْ وَالْجُلُودُ وَلَهُم مَّقَامِعُ مِنْ حَدِيدٍ كُلَّمَا أَرَادُوا أَن يَخْرُجُوا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ أُعِيدُوا فِيهَا وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ وَهُدُوا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَهُدُوا إِلَى صِرَاطِ الْحَمِيدِ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ
ترجمہ
یہ دو فریق ہیں جو اپنے رب کے معاملہ میں جھگڑتے ہیں پھر جو منکر ہیں ان کے لیے آگ کے کپڑے قطع کیے گئے ہیں اور ان کےسروں پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا جس سے جو کچھ ان کے پیٹ میں ہے اور کھالیں جھلس دی جائیں گی اور ان پر لوہے کے گرز پڑیں گے جب گھبرا کر وہاں سے نکلنا چاہیں گے اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے اور دوزخ کا عذاب چکھتے رہو بے شک الله ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی وہاں انہیں سونے کے کنگن اور موتی پہنائیں جائیں گے اور وہاں ان کا لباس ریشمی ہوگا۔ اور انہوں نے عمدہ بات کی راہ پائی اور تعریف والے الله کی راہ پائی۔ بے شک جو منکر ہوئے اور لوگوں کو الله کے راستہ اور مسجد حرام سے روکتے ہیں جسے ہم نے سب لوگو ں کے لیے بنایا ہے وہاں اس جگہ کا رہنے والا اورباہروالادونوں برابر ہیں اور جو وہاں ظلم سے کجروی کرنا چاہے تو ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے۔
كَمَا حَدَّثَنَاهُ أَبُو زَكَرِيَّا الْعَنْبَرِيُّ ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ السَّلامِ ، ثنا ، أَنْبَأَ وَكِيعٌ ، ثنا ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ الرُّمَّانِيِّ يَحْيَى بْنِ دِينَارٍ الْوَاسِطِيِّ ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ لاحِقِ بْنِ حُمَيْدٍ السَّدُوسِيِّ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ ، " يُقْسِمُ لَنَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ فِي هَؤُلاءِ الرَّهْطِ السِّتَّةِ يَوْمَ بَدْرٍ : عَلِيٌّ وَحَمْزَةُ وَعُبَيْدَةُ وَشَيْبَةُ وَعُتْبَةُ ابْنَا رَبِيعَةَ وَالْوَلِيدُ بْنُ عُتْبَةَ ، هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ سورة الحج آية 19 إِلَى قَوْلِهِ تَعَالَى : نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ سورة الحج آية 25 ، وَقَدْ تَابَعَ سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ أَبَا هَاشِمٍ عَلَى رِوَايَتِهِ ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ ، عَنْ قَيْسٍ ، عَنْ عَلِيٍّ مِثْلَ الأَوَّلِ
المستدرك على الصحيحين كِتَابُ التَّفْسِيرِ تَفْسِيرُ سُورَةِ الْحَجِّ حدیث نمبر 3383یہ دو فریق ہیں جو اپنے رب کے معاملہ میں جھگڑتے ہیں پھر جو منکر ہیں ان کے لیے آگ کے کپڑے قطع کیے گئے ہیں اور ان کےسروں پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا جس سے جو کچھ ان کے پیٹ میں ہے اور کھالیں جھلس دی جائیں گی اور ان پر لوہے کے گرز پڑیں گے جب گھبرا کر وہاں سے نکلنا چاہیں گے اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے اور دوزخ کا عذاب چکھتے رہو بے شک الله ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی وہاں انہیں سونے کے کنگن اور موتی پہنائیں جائیں گے اور وہاں ان کا لباس ریشمی ہوگا۔ اور انہوں نے عمدہ بات کی راہ پائی اور تعریف والے الله کی راہ پائی۔ بے شک جو منکر ہوئے اور لوگوں کو الله کے راستہ اور مسجد حرام سے روکتے ہیں جسے ہم نے سب لوگو ں کے لیے بنایا ہے وہاں اس جگہ کا رہنے والا اورباہروالادونوں برابر ہیں اور جو وہاں ظلم سے کجروی کرنا چاہے تو ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے۔
كَمَا حَدَّثَنَاهُ أَبُو زَكَرِيَّا الْعَنْبَرِيُّ ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ السَّلامِ ، ثنا ، أَنْبَأَ وَكِيعٌ ، ثنا ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ الرُّمَّانِيِّ يَحْيَى بْنِ دِينَارٍ الْوَاسِطِيِّ ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ لاحِقِ بْنِ حُمَيْدٍ السَّدُوسِيِّ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ ، " يُقْسِمُ لَنَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ فِي هَؤُلاءِ الرَّهْطِ السِّتَّةِ يَوْمَ بَدْرٍ : عَلِيٌّ وَحَمْزَةُ وَعُبَيْدَةُ وَشَيْبَةُ وَعُتْبَةُ ابْنَا رَبِيعَةَ وَالْوَلِيدُ بْنُ عُتْبَةَ ، هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ سورة الحج آية 19 إِلَى قَوْلِهِ تَعَالَى : نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ سورة الحج آية 25 ، وَقَدْ تَابَعَ سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ أَبَا هَاشِمٍ عَلَى رِوَايَتِهِ ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ ، عَنْ قَيْسٍ ، عَنْ عَلِيٍّ مِثْلَ الأَوَّلِ
ترجمہ
قیس بن عبادہ انصاریؓ فرماتے ہیں کہ انھوں نے حضرت ابوذر غفاریؓ کو قسم کھا کر فرماتے ہوئے سُنا کہ یہ سورۃ الحج کی آیات هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ (الحج آیت نمبر 19) سے لے کر آیت نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ (الحج آیت نمبر 25) تک کی آیات بدر والے دن ان 6 اشخاص کے بارے میں نازل ہوئیں۔ علی ابن ابی طالب بن عبدالمطلب، حمزہ بن عبدالمطلب اور عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب علیھم السلام اور شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ
عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ ، قَالَ : " سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ يُقْسِمُ : هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِنْ نَار إلى قولِهِ الْحَرِيقِ فِي حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، وَعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، وَعُبَيْدَةَ بْنِ الْحَارِثِ ، وَعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ ، وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ ، وَالْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ اخْتَصَمُوا فِي الْحُجَجِ يَوْمَ بَدْرٍ "۔
حکم المحدث (البانی): صحیح
ترجمہ
قیس بن عبادہ انصاریؓ فرماتے ہیں کہ انھوں نے حضرت ابوذر غفاریؓ کو قسم کھا کر فرماتے ہوئے سُنا کہ یہ سورۃ الحج کی آیات هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ (الحج آیت نمبر 19) سے لے کر آیت الْحَرِيقِ (الحج آیت نمبر 22) تک کی آیات بدر والے دن ان 6 اشخاص کے بارے میں نازل ہوئیں۔ علی ابن ابی طالب بن عبدالمطلب، حمزہ بن عبدالمطلب اور عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب علیھم السلام اور شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ۔ جنھوں نے بدر والے دن ایک دوسرے سے جھگڑا کیا
Sourceقیس بن عبادہ انصاریؓ فرماتے ہیں کہ انھوں نے حضرت ابوذر غفاریؓ کو قسم کھا کر فرماتے ہوئے سُنا کہ یہ سورۃ الحج کی آیات هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ (الحج آیت نمبر 19) سے لے کر آیت الْحَرِيقِ (الحج آیت نمبر 22) تک کی آیات بدر والے دن ان 6 اشخاص کے بارے میں نازل ہوئیں۔ علی ابن ابی طالب بن عبدالمطلب، حمزہ بن عبدالمطلب اور عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب علیھم السلام اور شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ۔ جنھوں نے بدر والے دن ایک دوسرے سے جھگڑا کیا
حدثنا : عمرو بن زرارة ، حدثنا : هشيم ، عن أبي هاشم ، عن أبي مجلز ، عن قيس بن عباد قال : سمعت أبا ذر يقسم قسماً : إن هذان خصمان إختصموا في ربهم ، إنها نزلت في الذين برزوا يوم بدر حمزة وعلي وعبيدة بن الحارث وعتبة وشيبة إبنا ربيعة والوليد بن عتبة ، حدثنا : أبوبكر بن أبي شيبة ، حدثنا : وكيع ح وحدثني : محمد بن المثنى ، حدثنا : عبد الرحمن جميعاًًً ، عن سفيان ، عن أبي هاشم ، عن أبي مجلز ، عن قيس بن عباد قال : سمعت أبا ذر يقسم لنزلت : هذان خصمان ، بمثل حديث هشيم
Source
ترجمہ
قیس بن عبادہ انصاریؓ فرماتے ہیں کہ انھوں نے حضرت ابوذر غفاریؓ کو قسم کھا کر فرماتے ہوئے سُنا کہ یہ سورۃ الحج کی آیت هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ (الحج آیت نمبر 19) بدر والے دن علی ابن ابی طالب بن عبدالمطلب، حمزہ بن عبدالمطلب اور عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب علیھم السلام اور شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ کے بارے میں نازل ہوئیں۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الصَّوَّافُ ، حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ ، كَانَ يَنْزِلُ فِي بَنِي ضُبَيْعَةَ وَهُوَ مَوْلًى لِبَنِي سَدُوسَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ ، قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : " فِينَا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ سورة الحج آية 19۔ "۔
صحيح البخاري كِتَاب الْمَغَازِي بَاب قَتْلِ أَبِي جَهْلٍ حدیث نمبر 3696قیس بن عبادہ انصاریؓ فرماتے ہیں کہ انھوں نے حضرت ابوذر غفاریؓ کو قسم کھا کر فرماتے ہوئے سُنا کہ یہ سورۃ الحج کی آیت هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ (الحج آیت نمبر 19) بدر والے دن علی ابن ابی طالب بن عبدالمطلب، حمزہ بن عبدالمطلب اور عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب علیھم السلام اور شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ کے بارے میں نازل ہوئیں۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الصَّوَّافُ ، حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ ، كَانَ يَنْزِلُ فِي بَنِي ضُبَيْعَةَ وَهُوَ مَوْلًى لِبَنِي سَدُوسَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ ، قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : " فِينَا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ سورة الحج آية 19۔ "۔
Source
ترجمہ
حضرت قیس بن سعدہ انصاریؓ سے روایت ہے کہ مولا علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد فرمایا کہ یہ آیت هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ ہمارے (بنی ہاشم) بارے میں نازل ھوئی۔
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : " نَزَلَتْ هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ سورة الحج آية 19 فِي سِتَّةٍ مِنْ قُرَيْشٍ , عَلِيٍّ , وَحَمْزَةَ , وَعُبَيْدَةَ بْنِ الْحَارِثِ , وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ , وَعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ , وَالْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ " . ۔
صحيح البخاري كِتَاب الْمَغَازِي بَاب قَتْلِ أَبِي جَهْلٍ حدیث نمبر 3695حضرت قیس بن سعدہ انصاریؓ سے روایت ہے کہ مولا علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد فرمایا کہ یہ آیت هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ ہمارے (بنی ہاشم) بارے میں نازل ھوئی۔
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : " نَزَلَتْ هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ سورة الحج آية 19 فِي سِتَّةٍ مِنْ قُرَيْشٍ , عَلِيٍّ , وَحَمْزَةَ , وَعُبَيْدَةَ بْنِ الْحَارِثِ , وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ , وَعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ , وَالْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ " . ۔
Source
ترجمہ
حضرت قیس بن سعدہ انصاریؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوذر غفاریؓ نے فرمایا کہ یہ آیت هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ قریش کے 6 آدمیوں کے متعلق نازل ہوئی۔ علی ابن ابی طالب بن عبدالمطلب، حمزہ بن عبدالمطلب اور عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب علیھم السلام اور شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيُّ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبِي ، يَقُولُ : حَدَّثَنَا أَبُو مِجْلَزٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ : " أَنَا أَوَّلُ مَنْ يَجْثُو بَيْنَ يَدَيِ الرَّحْمَنِ لِلْخُصُومَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ " ، وَقَالَ قَيْسُ بْنُ عُبَادٍ : وَفِيهِمْ أُنْزِلَتْ هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ سورة الحج آية 19 ، قَالَ : هُمُ الَّذِينَ تَبَارَزُوا يَوْمَ بَدْرٍ حَمْزَةُ , وَعَلِيٌّ , وَعُبَيْدَةُ , أَوْ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْحَارِثِ , وَشَيْبَةُ بْنُ رَبِيعَةَ , وَعُتْبَةُ بْنُ رَبِيعَةَ , وَالْوَلِيدُ بْنُ عُتْبَةَ
الراوي : قيس بن عباد أو عبادة المحدث : البخاري
المصدر : صحيح البخاري الصفحة أو الرقم: 4744 خلاصة حكم المحدث : [صحيح]۔
ترجمہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں: میں پہلا شخص ہوں گا جو روز قیامت فیصلے کے لیے خداے رحمن کے روبرو دوزانو ہوں گا۔ حدیث کے راوی قیس بن عباد کہتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیت هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ، (الحج ۲۲: ۱۹) ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنھوں نے جنگ بدرمیں مبارزت کی، یعنی حضرت حمزہ، حضرت علی، حضرت عبیدہ بن حارث، اور شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ
[TABLE="class: outer_border, width: 720, align: center"]
[TR]
[TD]
اس کے بعد لشکر کفار سے ربیعہ کے دونوں بیٹے عُتبہ ، شیبہ اور عتبہ کا بیٹا ولید تینوں شاہسواروں نے مبارزت کااعلان کیا۔ ان کے مقابلہ کیلئے انصار کے تین جوان عوف بن حارث اور معوذ بن حارث یہ دونوں بھائی تھے۔ اور ان کی ماں کا نام عفراء تھا اور تیسرے عبداللہ بن رواحہ نکلے۔ لیکن عتبہ نے آواز لگائی: محمد، ہماری قوم قریش میں سے، ہمارے چچیروں، عبدالمطلب کی اولاد سے برابر کے جوڑ بھیجو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پکارے: اے بنی ہاشم، اٹھ کر مقابلہ کرو، اٹھو، اے عبیدہ بن حارثؑ اٹھو، اے حمزہؑ، ائے علیؑ اٹھیے، تینوں نکل کر آئے تو اُس نے ان کے نام پوچھے، کیونکہ جنگی لباس پہننے کی وجہ سے وہ پہچانے نہ جاتے تھے۔ حضرت حمزہؑ نے کہا: میں شیر خدا اور شیر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حمزہ بن عبدالمطلب ہوں۔ حضرت علیؑ نے کہا: میں بندۂ خدا اور برادر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم علی بن ابو طالبؑ ہوں۔ حضرت عبیدہ نے کہا: میں حلیف رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عبیدہ بن حارث ہوں۔ عتبہ بولا: اب برابر کے، صاحب شرف لوگوں سے جوڑ پڑا ہے۔
اولاً، اس نے اپنے بیٹے ولید کو بھیجا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس کے مقابلے پرآئے۔ دونوں نے ایک دوسرے پرتلوار سے وار کیا۔ ولید کا وار خالی گیا، جبکہ حضرت علیؑ نے ایک ہی ضرب میں اس کا کام تمام کر دیا۔ پھر عتبہ خود آگے بڑھا اور حضرت حمزہؑ اس کا سامنا کرنے نکلے ۔ان دونوں میں بھی دو ضربوں کا تبادلہ ہوااور عتبہ جہنم رسید ہوا۔ اب شیبہ کی باری تھی، حضرت عبیدہ بن حارث سے اس کا دوبدو مقابلہ ہوا، دونوں نے ایک دوسرے پر کاری ضربیں لگائیں۔ حضرت عبیدہ کی پنڈلی پر تلوار لگی اور ان کا پاؤں کٹ گیا۔ جنگی روایت کے مطابق حضرت حمزہ اور حضرت علی فاتح ہونے کی وجہ سے اپنے ساتھی کی مدد کر سکتے تھے۔ دونوں پلٹ کر شیبہ پر پل پڑے ،اسے جہنم رسید کیا اور زخمی حضرت عبیدہ کو اس حال میں اٹھا کر لے آئے کہ ان کی ٹانگ کی ہڈی سے گودہ بہ رہا تھا۔ انھیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس لے جایا گیا۔ آپ نے انھیں لٹا دینے کو کہا، حضرت عبیدہ نے آپ کے پاؤں پر سر رکھ کر پوچھا: یا رسول اﷲ، کیا میں نے شہادت نہیں پائی؟ فرمایا: کیوں نہیں۔ حضرت عبیدہ نے کہا: یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، مجھے اگر ابو طالب علیہ السلام دیکھ لیتے توجان لیتے کہ میں ان کے کہے اس شعر کا صحیح مصداق ہوں:۔۔(اصل میں لا نسلمہ ہے۔ چونکہ لائے نفی حذف نہیں ہوتا اس لیے نسلمہ کا جملہ کسی سابق منفی پر عطف ہو گا اور لا مقدر ماننے کی ضرورت نہ رہے گی۔ شعر کا مفہوم ہو گا) ہم اپنے سالار کو ( حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ) دشمنوں کے نرغہ میں نہیں آنے دیتے، یہاں تک کہ اس کے گردا گرد لڑ کر جان دے دیتے ہیں اوراس جد وجہد میں اپنے بیٹوں اور بیویوں کی حفاظت سے غافل ہو جاتے ہیں۔
مورخین کی اکثریت نے جن میں ابن اسحاق، طبری، ابن اثیر اور ابن کثیر شامل ہیں، بیان کیا ہے کہ حضرت حمزہ کا مقابلہ شیبہ سے ہوا اور حضرت حمزہ نے شیبہ کو جہنم رسید کیا۔اس طرح عتبہ اور حضرت عبیدہ میں دوبدو جنگ ہوئی، دونوں زخمی ہوئے۔ پھر حضرت علی اور حضرت حمزہ نے مل کر عتبہ کو انجام تک پہنچایا۔ ابن سعد کی روایت اس کے برعکس ہے، ان کا کہنا ہے کہ روبرو مقابلے کے بعد حضرت حمزہ نے عتبہ کو قتل کیا، جبکہ شیبہ نے حضرت عبیدہ کا سامنا کیا۔ یہ روایت منفرد ہونے کے باوجود اس لیے لائق ترجیح ہے کہ اسی جنگ میں ابو سفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ نے حضرت حمزہ سے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کی قسم کھائی، کیونکہ وہ انھی کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ اگلے برس جنگ احد میں جب سیدنا حمزہ حبشی غلام وحشی کا نیزہ لگنے کے بعد شہادت سے سرفراز ہوئے تواسی انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے اس نے ان کا پیٹ چاک کر کے کلیجہ نکالا اور چبا کر اگل دیا۔ سنن ابوداؤد کی روایت ۲۶۶۵ میں ایک تیسری ترتیب مذکور ہوئی ہے۔ سیدنا علی خود روایت کرتے ہیں کہ حمزہ عتبہ کی طرف بڑھے اورمیں (علی) نے شیبہ کا سامنا کیا۔ عبیدہ اور ولید میں دوضربوں کا تبادلہ ہوا، دونوں نے ایک دوسرے کو شدید زخمی کر کے گرا دیا ۔پھر حمزہ نے اور میں نے ولید کو قتل کیا اور عبیدہ کو اٹھا لائے۔ مسند احمد، مسند علی بن ابی طالب (رقم ۹۴۸) میں حضرت علی کے الفاظ میں جنگ بدر کی تفصیل بیان ہوئی ہے، تاہم مبارزت کے ضمن میں اختصار سے کام لیاگیا ہے۔
زخمی ہونے کے بعد حضرت عبیدہ نے خود بھی شعر کہے۔ ان میں سے چند پیش خدمت ہیں:۔
جلد ہی مکہ والوں کو ہماری طرف سے ایک زبردست معرکے کی خبر ملے گی جسے سننے کے لیے واقعہ سے دور بیٹھا ہوا شخص بھی بیدار ہو جائے گا ۔
عتبہ کے انجام کے بارے میں جب اس نے شکست کھائی ، اس کے بعد شیبہ کے ساتھ بھی یہی ہوااوراس معرکہ میں عتبہ کے پہلوٹھی ولید کے ساتھ وہ ہواجو وہ نہ چاہتا تھا۔
ہم نے ان کا شیروں کی طرح سامنا کیا خداے رحمن کی راہ میں ان لوگوں سے لڑتے ہوئے جو اس کے نافرمان تھے۔
اگر تم مشرکوں نے میرا پاؤں کاٹ ڈالا ہے تو کیا؟میں نے اسلام قبول کرکے اس زندگی کی ا مید میں سر تسلیم خم کر دیا ہے جو اﷲ کی طرف سے جلد ملنے والی ہے۔
مجسموں کی مانند ا ن حوروں کی معیت میں جواعلیٰ جنت میں خاص اس شخص کو ملیں گی جو مقام بلند پر فائز ہوگا ۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں: میں پہلا شخص ہوں گا جو روز قیامت فیصلے کے لیے خداے رحمن کے روبرو دوزانو ہو گا۔ حدیث کے راوی قیس بن عباد کہتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیت هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ، (الحج ۲۲: ۱۹) ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنھوں نے جنگ بدرمیں مبارزت کی، یعنی حضرت حمزہ، حضرت علی، حضرت عبیدہ بن حارث علیھم السلام ، اور شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ (بخاری، رقم ۳۹۶۵۔ مسلم، رقم ۷۶۶۵)۔ حضرت عبیدہ بن حارثؑ کا علاج معالجہ کیاجاتارہا لیکن چوتھے یا پانچویں دن بدر سے واپسی پر وادی صفراء پہنچ کر یہ شہادت پاگئے۔
[/TR]
[/TABLE]
(5)
وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّهُ بِبَدْرٍ وَأَنتُمْ أَذِلَّةٌ فَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ أَلَن يَكْفِيَكُمْ أَن يُمِدَّكُمْ رَبُّكُم بِثَلاَثَةِ آلاَفٍ مِّنَ الْمَلآئِكَةِ مُـنْـزَلِينَ بَلَى إِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ وَيَأْتُوكُم مِّن فَوْرِهِمْ هَـذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُم بِخَمْسَةِ آلاَفٍ مِّنَ الْمَلآئِكَةِ مُسَوِّمِينَ وَمَا جَعَلَهُ اللّهُ إِلاَّ بُشْرَى لَكُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُكُم بِهِ وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِندِ اللّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ
ترجمہ
اور اللہ نے بدر میں تمہاری مدد فرمائی حالانکہ تم (اس وقت) بالکل بے سرو سامان تھے پس اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مومنین سے فرما رہے تھے کہ کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تین ہزار اتارے ہوئے فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد فرمائے۔ ہاں اگر تم صبر کرتے رہو اور پرہیزگاری قائم رکھو اور وہ (کفّار) تم پر اسی وقت (پورے) جوش سے حملہ آور ہو جائیں تو تمہارا رب پانچ ہزار نشان والے فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد فرمائے گا۔ اور اللہ نے اس (مدد) کو محض تمہارے لئے خوشخبری بنایا اور اس لئے کہ اس سے تمہارے دل مطمئن ہو جائیں، اور مدد تو صرف اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے جو بڑا غالب حکمت والا ہے
حدثنا وكيع ، عن شريك ، عن أبي إسحاق ، عن هبيرة خطبنا الحسن بن علي علیھما السلام فقال : لقد فارقكم رجل بالأمس لم يسبقه الأولون بعلم ولا يدركه الآخرون كان رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم يبعثه بالراية، جبريل عن يمينه و ميكائيل عن شماله لا ينصرف حتى يفتح له۔
المحدث : أحمد شاكر خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
حضرت ھبیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسن علیھ السلام نے ہمیں خطاب کیا اور فرمایا اے لوگو! آج وہ شخص فوت ہوا ہے کہ اُسکے علم کو نہ پہلے پہنچے ہیں اور نہ بعد کو آنیوالے پہنچیں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے (جنگ کے لئے) جھنڈا دے کر بھیجتے تھے تو جبرائیل علیہ السلام اسکے داہنے طرف ہو جاتے تھے اور میکائیل علیہ السلام بائیں طرف۔ پس وہ بغیر فتح حاصل کئے واپس نہیں ہوتے تھے
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حَبَشِيٍّ ، قَالَ : خَطَبَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ عَلَيْهِمَا السَّلامُ بَعْدَ قَتْلِ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلامُ ، فَقَالَ : " لَقَدْ فَارَقَكُمْ رَجُلٌ أَمِينٌ مَا سَبَقَهُ الأَوَّلُونَ بِعِلْمٍ وَلا أَدْرَكَهُ الآخِرُونَ ، إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَبْعَثُهُ وَيُعْطِيهِ الرَّايَةَ فَلا يَنْصَرِفُ حَتَّى يُفْتَحَ لَهُ وَمَا تَرَكَ مِنْ صَفْرَاءَ وَلا بَيْضَاءَ إِلا سَبْعَ مِائَةِ دِرْهَمٍ مِنْ عَطَائِهِ كَانَ يَرُدُّهُ لا خَادِمَ لأَهْلِهِ " .۔
الراوي : عمرو بن حبشي المحدث : أحمد شاكر
المصدر : مسند أحمد الصفحة أو الرقم: 3/168 خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
الراوي : الحسن بن عليؑ المحدث : ابن حبان
المصدر : صحيح ابن حبان الصفحة أو الرقم: 6936 خلاصة حكم المحدث : أخرجه في صحيحه
حضرت ھبیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسن علیھ السلام نے ہمیں خطاب کیا اور فرمایا اے لوگو! آج وہ شخص فوت ہوا ہے کہ اُسکے علم کو نہ پہلے پہنچے ہیں اور نہ بعد کو آنیوالے پہنچیں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے جنگ کے لئے جھنڈا دے کر بھیجتے تھے تو وہ واپس نہیں لوٹتے تھے جب تک اللہ اُنھیں فتح نہ عطا فرماتا۔ جبرائیل علیہ السلام انکے داہنے طرف ہو جاتے تھے اور میکائیل علیہ السلام بائیں طرف۔ اُنھوں نے اپنے پیچھے کوئی کوئی مال و دولت نہیں چھوڑا سوائے 700 درہم کے جس سے اُن کا ارادہ ایک خادم کو خریدنے کا تھا۔۔۔۔
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا يُونُسُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ هُبَيْرَةَ بْنِ يَرِيمَ ، قَالَ : " خَرَجَ إِلَيْنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ ، وَعَلَيْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ ، فَقَالَ : لَقَدْ كَانَ فِيكُمْ بِالأَمْسِ رَجُلٌ مَا سَبَقَهُ الأَوَّلُونَ ، وَلا يُدْرِكُهُ الآخِرُونَ ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ، وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ، فَقَاتَلَ جِبْرِيلُ عَنْ يَمِينِهِ ، وَمِيكَائِيلُ عَنْ يَسَارِهِ ، ثُمَّ لا تُرَدُّ يَعْنِي رَايَتَهُ ، حَتَّى يَفْتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ ، مَا تَرَكَ دِينَارًا ، وَلا دِرْهَمًا ، إِلا سَبْعَ مِائَةِ دِرْهَمٍ أَخَذَهَا مِنْ عَطَائِهِ ، كَانَ أَرَادَ أَنْ يَبْتَاعَ بِهَا خَادِمًا لأَهْلِهِ "۔
السنن الكبرى للنسائي كِتَابُ : الْخَصَائِصِ ذِكْرُ خَبَرِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنِ النَّبِيّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم.. رقم الحديث: 8091 ھبیرہ بن مریم سے روایت ہے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام تشریف لائے اور انھوں نے سیاہ عمامہ پہن رکھا تھا۔ پس انھوں نے ارشاد فرمایا، کل تک تمھارے درمیان وہ شخص تھا جس سے نہ پہلے والے سبقت لے سکے اور نہ بعد میں آنے والے اُس کا ادراک کر پائیں گے۔ اور بے شک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اُسکے بارے میں فرمایا کہ کل میں یہ جھنڈا اُس کو دوں گا جو اللہ اور اُسکے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اُسکا رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اُس سے محبت کرتے ہیں۔ پس جبرائیلؑ اُسکے داہنی طرف اور میکائیلؑ اُسکے بائیں طرف لڑتے ہیں۔ اور پھر وہ واپس نہیں لوٹتا حتٰی کہ اللہ رب العزت اُسے فتح عنایت فرماتا ہے۔ اُس نے اپنے پیچھے کوئی دینار اور درھم نہیں چھوڑے سوائے سات سو درھم کے۔ جو مجھے انھوں نے دیے۔ اس سے اُن کا اپنے گھر والوں کیلیے ایک خادم خریدنے کا ارداہ تھا۔
لَمَّا قُتِلَ عليُّ بنُ أبِي طالِبٍ رضِيَ اللهُ عنهُ قامَ الحسَنُ بنُ عليٍّ خَطيبًا ، فقال : قدْ قَتلْتُمْ واللهِ الليلَةَ رَجلًا في الليلَةِ التي أُنْزِلَ فيها القُرآنُ ، وفِيها رُفِعَ عِيسَى بنُ مَريمَ ، وفِيها قُتِلَ يُوشَعُ بنُ نُونٍ فتَى مُوسَى ، قال سُكَيْنٌ : حدَّثَنِي رجلٌ قدْ سمّاهُ قال : وفِيها تِيبَ على بَنِي إِسرائِيلَ - ثُمَّ رَجعَ إلى حدِيثِ حَفْصِ بنِ خالِدٍ ، فقال : واللهِ ما سَبَقهُ أحدٌ كان قبْلَهُ ولا يُدْرِكُهُ أحدٌ كان بَعدَهُ ، واللهِ إنْ كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ لَيَبْعَثُهُ في السَّرِيَّةِ جِبريلُ عن يَمينِه ومِيكائيِلُ عن يَسارِهِ ، واللهِ ما تَركَ من صفْراءَ ولا بَيضاءَ إلَّا ثَمانِمِائَةَ دِرْهَمٍ أو سَبعَمِائةِ دِرْهَمٍ كان أعَدَّها لِخادِمٍ
الراوي : الحسن بن علي بن أبي طالب المحدث : البزار
المصدر : البحر الزخار الصفحة أو الرقم: 4/179 خلاصة حكم المحدث : إسناده صالح
ترجمہ
حضرت ھبیرہ سے روایت ہے جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ شھید ہو گئے تو حضرت امام حسنؑ نے کھڑے ہو کر ایک خطبہ دیا۔ پس فرمایا کہ لوگوں نے حضرت علی کو شھید کر دیا اُس رات جس رات اللہ نے قرآن نازل کیا۔ جس رات حضرت عیسٰی کو اُٹھا لیا گیا، جس رات حضرت موسٰیؑ کے جوان حضرت یوشع بن نونؑ شھید ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔ پھر فرمایا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے گزر جانے والے بڑھ نہیں سکے اور نہ ہے بعد میں آنے والے اُن کی گرد کو پا سکیں گے۔ اللہ کی قسم جب بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اُنھیں لڑائی کیلیے بھیجا تو جبرائیلؑ اُن کے دائیں طرف ہو لیے اور میکائیلؑ اُن کے بائیں جانب ہولیے۔ انھوں نے اپنے پیچھے کوئی مال و دولت نہیں چھوڑا سوائے 700 (بعض روایات میں 800) درہم کے علاوہ۔ جس سے ایک خادم خریدنے کا ارادہ تھا
۔[ پس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلہ نے انھیں جب بھی کسی مہم پر سردار بنا کر بھیجتے تو پس اُنھیں جھنڈا عطا فرماتے اور وہ واپس نہ لوٹتے جب تک اللہ انھیں فتح سے سرفراز نہ فرما دیتا اور جرائیل اپن کے داہنی جانب اور میکائیل اُن کے بائیں طرف ہو لیتے یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ] حضرت ھبیرہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت امام حسنؑ کو کھڑے ہو کر لوگوں کو خطاب کرتے سنا۔ پس آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ائے لوگو آج تم نے اُس شخص کو کھو دیا جسے گزرے ہوئے لوگ پہنچ نہیں سکے اور نہ ہی آنے والے لوگ اُسکا ادراک کرسکیں گے۔ اُنھیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب بھی جھنڈا دے کر بھیجا۔۔۔۔۔ (تا آخر حدیث) اُس نے اپنے پیچھے کوئی کوئی مال و دولت نہیں چھوڑا سوائے 700 درہم کے جس سے اُن کا ارادہ ایک خادم کو خریدنے کا تھا۔۔۔۔
سمعتُ الحسنَ بنَ عليٍّ قام فخطب الناسَ فقال يا أيها الناسُ لقد فارقَكم أمسُ رجلٌ ما سبقَه الأولون ولا يدركِه الآخِرونَ لقد كان يبعثُه البعثُ فيعطيه الرايةَ فما يرجعُ حتى يفتحَ اللهُ عليه جبريلُ عن يمينِه وميكائيلُ عن يسارِه يعني عليًّا رضيَ اللهُ عنهُ ما ترك بيضاءَ ولا صفراءَ إلا سبعمائةِ دِرهمٍ فضلتْ من عطائهِ أراد أن يشتريَ بها خادمًا
الراوي : الحسن بن علي بن أبي طالب المحدث : الألباني
المصدر : السلسلة الصحيحة الصفحة أو الرقم: 5/660 خلاصة حكم المحدث : رجاله ثقات رجال الشيخين غير هبيرة فقد اختلفوا فيه
ترجمہ
حضرت ھبیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسین علیھ السلام کھڑے ہو گئے اور لوگوں کو خطاب کیا اور فرمایا اے لوگو! تم نے آج اُس شخص کو کھو دیا ہے کہ اُس سے گزر جانے والے سبقت نہ لے جاسکے اور نہ ہی بعد میں آنیوالے اُس کی گِرد کو پا سکیں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے جنگ کے لئے جھنڈا دے کر بھیجتے تھے تو وہ واپس نہیں لوٹتے تھے جب تک اللہ اُنھیں فتح نہ عطا فرماتا۔ جبرائیل علیہ السلام اسکے داہنی طرف ہو جاتے تھے اور میکائیل علیہ السلام بائیں طرف۔ یعنی علی کرم اللہ وجہہ۔ اُنھوں نے اپنے پیچھے کوئی کوئی مال و دولت نہیں چھوڑا سوائے 700 درہم کے جس سے اُن کا ارادہ ایک خادم کو خریدنے کا تھا۔۔۔۔
حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ ، قَالَ : خَطَبَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ حِينَ قُتِلَ عَلِيٌّ ، فَقَالَ : " يَا أَهْلَ الْكُوفَةِ ، أَوْ يَأَهْلَ الْعِرَاقِ ، لَقَدْ كَانَ بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ رَجُلٌ قُتِلَ اللَّيْلَةَ أَوْ أُصِيبَ الْيَوْمَ لَمْ يَسْبِقْهُ الْأَوَّلُونَ بِعِلْمٍ وَلَا يُدْرِكُهُ الْآخِرُونَ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إذَا بَعَثَهُ فِي سَرِيَّةٍ كَانَ جِبْرِيلُ عَنْ يَمِينِهِ وَمِيكَائِيلُ عَنْ يَسَارِهِ , فَلَا يَرْجِعُ حَتَّى يَفْتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ " .۔
مصنف ابن أبي شيبة كِتَابُ الْفَضَائِلِ فَضَائِلُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ ...۔
عاصم بن ضمرہؒ سے روایت ہے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت کے بعد خطبہ دیا پس آپ نے ارشاد فرمایا، اے کوفہ والو یا (یوں فرمایا) اے عراق والو، کہ آج کی رات تمھارے درمیان وہ شخص شھید ہوا جس سے پہلے گزر جانے والے علم میں سبقت نہیں لے جا سکے اور نہ ہی بعد میں آنے والے اُس کا ادراک کر سکیں گے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب بھی انھیں کسی مہم پر بھیجا تو جبرائیل علیہ السلام اُسکے دائیں جانب اور میکائیل علیہ السلام اُس کے بائیں جانب ہو لیتے تھے۔ پس وہ اُسوقت تک واپس نہیں آتا تھا جبتک اللہ اُسے فتح سے نہیں نوازتا تھا۔
اس حدیث کے مزید مصادر دیکھنے کیلیے یہاں کلک کریں۔
(6)
وَإِن نَّكَثُوا أَيْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنتَهُونَ أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُم بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ أَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَوْهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
اگر یہ لوگ عہدوپیمان کے بعد بھی اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم بھی ان کفر کے اماموں کو قتل کرو۔ ان کی قسمیں کوئی چیز نہیں، ممکن ہے کہ اس طرح وه بھی باز آجائیں تم ان لوگوں کی سرکوبی کے لئے کیوں تیار نہیں ہوتے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ دیا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جلا وطن کرنے کی فکر میں ہیں اور خود ہی اول بار انہوں نے تم سے چھیڑ کی ہے، کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اللہ ہی زیاده مستحق ہے کہ تم اس کا ڈر رکھو بشرطیکہ تم ایمان والے ہو
حضرت قیس بن سعدہ انصاریؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوذر غفاریؓ نے فرمایا کہ یہ آیت هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ قریش کے 6 آدمیوں کے متعلق نازل ہوئی۔ علی ابن ابی طالب بن عبدالمطلب، حمزہ بن عبدالمطلب اور عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب علیھم السلام اور شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيُّ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبِي ، يَقُولُ : حَدَّثَنَا أَبُو مِجْلَزٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ : " أَنَا أَوَّلُ مَنْ يَجْثُو بَيْنَ يَدَيِ الرَّحْمَنِ لِلْخُصُومَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ " ، وَقَالَ قَيْسُ بْنُ عُبَادٍ : وَفِيهِمْ أُنْزِلَتْ هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ سورة الحج آية 19 ، قَالَ : هُمُ الَّذِينَ تَبَارَزُوا يَوْمَ بَدْرٍ حَمْزَةُ , وَعَلِيٌّ , وَعُبَيْدَةُ , أَوْ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْحَارِثِ , وَشَيْبَةُ بْنُ رَبِيعَةَ , وَعُتْبَةُ بْنُ رَبِيعَةَ , وَالْوَلِيدُ بْنُ عُتْبَةَ
الراوي : قيس بن عباد أو عبادة المحدث : البخاري
المصدر : صحيح البخاري الصفحة أو الرقم: 4744 خلاصة حكم المحدث : [صحيح]۔
Source
ترجمہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں: میں پہلا شخص ہوں گا جو روز قیامت فیصلے کے لیے خداے رحمن کے روبرو دوزانو ہوں گا۔ حدیث کے راوی قیس بن عباد کہتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیت هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ، (الحج ۲۲: ۱۹) ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنھوں نے جنگ بدرمیں مبارزت کی، یعنی حضرت حمزہ، حضرت علی، حضرت عبیدہ بن حارث، اور شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ
[TABLE="class: outer_border, width: 720, align: center"]
[TR]
[TD]
غزوہ بدر کا آغاز (پہلی مبارزت)۔
ایں سعادت بزور بازو نیست عرب کا طریق جنگ اہل عرب کا عام قاعدہ تھا کہ فوجوں کی عام لڑائی سے پہلے بڑے بڑے جغادری ایک دوسرے کے مقابلے میں دعوت مبارزت دیتے ۔ اور جب مقابلہ جاری ہوتا تو عام فوجی مداخلت نہیں کیا کرتے تھے۔ اور بالعموم اسی مبارزت کے نتیجے میں جنگ جیتی یا ہاری جاتی تھی ۔ چنانچہ میدان بدر میںسب سے پہلے کافروں میں سے اسود بن عبدالاسد مخزومی کام آیا ۔ یہ شخص بڑا بد خلق اور اڑیل تھا ۔ للکارتا ہوا میدان میں نکلا کہ واللہ میں مسلمانوں کے حوض کا پانی پی کر رہوں گا ۔اس کو روکنے کیلئے حضرت حمزہؑ آگے بڑھے ۔ دونوں کی پانی کے حوض پر مڈ بھیڑ ہوئی ۔حمزہ نے ایسی تلوار ماری کہ اس کا پاؤں نصف پنڈلی سے کٹ کر اُڑ گیا ۔ اور وہ پیٹھ کے بَل گرا ۔ لیکن باز نہیں آیا ۔ گھٹنوں کے بل گھسٹ کر حوض کی طرف بڑھا اور اس میں داخل ہی ہوا چاہتا تھا تاکہ اپنی قسم پوری کرلے ، اتنے میں حضرت حمزہ نے دوسری بھرپور ضرب لگائی اور اسے ڈھیر کردیا۔ یہ اس معرکے کا پہلا قتل تھا۔
اس کے بعد لشکر کفار سے ربیعہ کے دونوں بیٹے عُتبہ ، شیبہ اور عتبہ کا بیٹا ولید تینوں شاہسواروں نے مبارزت کااعلان کیا۔ ان کے مقابلہ کیلئے انصار کے تین جوان عوف بن حارث اور معوذ بن حارث یہ دونوں بھائی تھے۔ اور ان کی ماں کا نام عفراء تھا اور تیسرے عبداللہ بن رواحہ نکلے۔ لیکن عتبہ نے آواز لگائی: محمد، ہماری قوم قریش میں سے، ہمارے چچیروں، عبدالمطلب کی اولاد سے برابر کے جوڑ بھیجو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پکارے: اے بنی ہاشم، اٹھ کر مقابلہ کرو، اٹھو، اے عبیدہ بن حارثؑ اٹھو، اے حمزہؑ، ائے علیؑ اٹھیے، تینوں نکل کر آئے تو اُس نے ان کے نام پوچھے، کیونکہ جنگی لباس پہننے کی وجہ سے وہ پہچانے نہ جاتے تھے۔ حضرت حمزہؑ نے کہا: میں شیر خدا اور شیر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حمزہ بن عبدالمطلب ہوں۔ حضرت علیؑ نے کہا: میں بندۂ خدا اور برادر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم علی بن ابو طالبؑ ہوں۔ حضرت عبیدہ نے کہا: میں حلیف رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عبیدہ بن حارث ہوں۔ عتبہ بولا: اب برابر کے، صاحب شرف لوگوں سے جوڑ پڑا ہے۔
اولاً، اس نے اپنے بیٹے ولید کو بھیجا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس کے مقابلے پرآئے۔ دونوں نے ایک دوسرے پرتلوار سے وار کیا۔ ولید کا وار خالی گیا، جبکہ حضرت علیؑ نے ایک ہی ضرب میں اس کا کام تمام کر دیا۔ پھر عتبہ خود آگے بڑھا اور حضرت حمزہؑ اس کا سامنا کرنے نکلے ۔ان دونوں میں بھی دو ضربوں کا تبادلہ ہوااور عتبہ جہنم رسید ہوا۔ اب شیبہ کی باری تھی، حضرت عبیدہ بن حارث سے اس کا دوبدو مقابلہ ہوا، دونوں نے ایک دوسرے پر کاری ضربیں لگائیں۔ حضرت عبیدہ کی پنڈلی پر تلوار لگی اور ان کا پاؤں کٹ گیا۔ جنگی روایت کے مطابق حضرت حمزہ اور حضرت علی فاتح ہونے کی وجہ سے اپنے ساتھی کی مدد کر سکتے تھے۔ دونوں پلٹ کر شیبہ پر پل پڑے ،اسے جہنم رسید کیا اور زخمی حضرت عبیدہ کو اس حال میں اٹھا کر لے آئے کہ ان کی ٹانگ کی ہڈی سے گودہ بہ رہا تھا۔ انھیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس لے جایا گیا۔ آپ نے انھیں لٹا دینے کو کہا، حضرت عبیدہ نے آپ کے پاؤں پر سر رکھ کر پوچھا: یا رسول اﷲ، کیا میں نے شہادت نہیں پائی؟ فرمایا: کیوں نہیں۔ حضرت عبیدہ نے کہا: یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، مجھے اگر ابو طالب علیہ السلام دیکھ لیتے توجان لیتے کہ میں ان کے کہے اس شعر کا صحیح مصداق ہوں:۔
ونسلمہ حتی نصرع حولہ
ونذہل عن ابنائنا والحلائل
مورخین کی اکثریت نے جن میں ابن اسحاق، طبری، ابن اثیر اور ابن کثیر شامل ہیں، بیان کیا ہے کہ حضرت حمزہ کا مقابلہ شیبہ سے ہوا اور حضرت حمزہ نے شیبہ کو جہنم رسید کیا۔اس طرح عتبہ اور حضرت عبیدہ میں دوبدو جنگ ہوئی، دونوں زخمی ہوئے۔ پھر حضرت علی اور حضرت حمزہ نے مل کر عتبہ کو انجام تک پہنچایا۔ ابن سعد کی روایت اس کے برعکس ہے، ان کا کہنا ہے کہ روبرو مقابلے کے بعد حضرت حمزہ نے عتبہ کو قتل کیا، جبکہ شیبہ نے حضرت عبیدہ کا سامنا کیا۔ یہ روایت منفرد ہونے کے باوجود اس لیے لائق ترجیح ہے کہ اسی جنگ میں ابو سفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ نے حضرت حمزہ سے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کی قسم کھائی، کیونکہ وہ انھی کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ اگلے برس جنگ احد میں جب سیدنا حمزہ حبشی غلام وحشی کا نیزہ لگنے کے بعد شہادت سے سرفراز ہوئے تواسی انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے اس نے ان کا پیٹ چاک کر کے کلیجہ نکالا اور چبا کر اگل دیا۔ سنن ابوداؤد کی روایت ۲۶۶۵ میں ایک تیسری ترتیب مذکور ہوئی ہے۔ سیدنا علی خود روایت کرتے ہیں کہ حمزہ عتبہ کی طرف بڑھے اورمیں (علی) نے شیبہ کا سامنا کیا۔ عبیدہ اور ولید میں دوضربوں کا تبادلہ ہوا، دونوں نے ایک دوسرے کو شدید زخمی کر کے گرا دیا ۔پھر حمزہ نے اور میں نے ولید کو قتل کیا اور عبیدہ کو اٹھا لائے۔ مسند احمد، مسند علی بن ابی طالب (رقم ۹۴۸) میں حضرت علی کے الفاظ میں جنگ بدر کی تفصیل بیان ہوئی ہے، تاہم مبارزت کے ضمن میں اختصار سے کام لیاگیا ہے۔
زخمی ہونے کے بعد حضرت عبیدہ نے خود بھی شعر کہے۔ ان میں سے چند پیش خدمت ہیں:۔
ستبلغ عنا أہل مکۃ وقعۃ
یہب لہا من کان عن ذاک نائیا
یہب لہا من کان عن ذاک نائیا
بعتبۃ إذ ولی وشیبۃ بعدہ
و ما کان فیہا بکر عتبۃ راضیا
و ما کان فیہا بکر عتبۃ راضیا
لقیناہم کالأسد نخطربالقنا
نقاتل فی الرحمٰن من کان عاصیا
نقاتل فی الرحمٰن من کان عاصیا
فإن تقطعوا رجلی فإنی مسلم
أرجی بہاعیشًا من اﷲ دانیا
أرجی بہاعیشًا من اﷲ دانیا
مع الحور أمثال التماثیل أخلصت
مع الجنۃ العلیا لمن کان عالیا
مع الجنۃ العلیا لمن کان عالیا
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں: میں پہلا شخص ہوں گا جو روز قیامت فیصلے کے لیے خداے رحمن کے روبرو دوزانو ہو گا۔ حدیث کے راوی قیس بن عباد کہتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیت هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ، (الحج ۲۲: ۱۹) ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنھوں نے جنگ بدرمیں مبارزت کی، یعنی حضرت حمزہ، حضرت علی، حضرت عبیدہ بن حارث علیھم السلام ، اور شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ (بخاری، رقم ۳۹۶۵۔ مسلم، رقم ۷۶۶۵)۔ حضرت عبیدہ بن حارثؑ کا علاج معالجہ کیاجاتارہا لیکن چوتھے یا پانچویں دن بدر سے واپسی پر وادی صفراء پہنچ کر یہ شہادت پاگئے۔
Sources:
http://www.geourdu.co/columns-and-a...-first-battle-of-badr-conquest-great-example/
http://www.javedahmadghamidi.com/ishraq/view/hazrat-ubaida-bin-haris-razi-allah-anho
[/TD]http://www.geourdu.co/columns-and-a...-first-battle-of-badr-conquest-great-example/
http://www.javedahmadghamidi.com/ishraq/view/hazrat-ubaida-bin-haris-razi-allah-anho
[/TR]
[/TABLE]
(5)
وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّهُ بِبَدْرٍ وَأَنتُمْ أَذِلَّةٌ فَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ أَلَن يَكْفِيَكُمْ أَن يُمِدَّكُمْ رَبُّكُم بِثَلاَثَةِ آلاَفٍ مِّنَ الْمَلآئِكَةِ مُـنْـزَلِينَ بَلَى إِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ وَيَأْتُوكُم مِّن فَوْرِهِمْ هَـذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُم بِخَمْسَةِ آلاَفٍ مِّنَ الْمَلآئِكَةِ مُسَوِّمِينَ وَمَا جَعَلَهُ اللّهُ إِلاَّ بُشْرَى لَكُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُكُم بِهِ وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِندِ اللّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ
سورۃ التوبہ 03، آیات 123 تا 126۔
ترجمہ
اور اللہ نے بدر میں تمہاری مدد فرمائی حالانکہ تم (اس وقت) بالکل بے سرو سامان تھے پس اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مومنین سے فرما رہے تھے کہ کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تین ہزار اتارے ہوئے فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد فرمائے۔ ہاں اگر تم صبر کرتے رہو اور پرہیزگاری قائم رکھو اور وہ (کفّار) تم پر اسی وقت (پورے) جوش سے حملہ آور ہو جائیں تو تمہارا رب پانچ ہزار نشان والے فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد فرمائے گا۔ اور اللہ نے اس (مدد) کو محض تمہارے لئے خوشخبری بنایا اور اس لئے کہ اس سے تمہارے دل مطمئن ہو جائیں، اور مدد تو صرف اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے جو بڑا غالب حکمت والا ہے
حدثنا وكيع ، عن شريك ، عن أبي إسحاق ، عن هبيرة خطبنا الحسن بن علي علیھما السلام فقال : لقد فارقكم رجل بالأمس لم يسبقه الأولون بعلم ولا يدركه الآخرون كان رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم يبعثه بالراية، جبريل عن يمينه و ميكائيل عن شماله لا ينصرف حتى يفتح له۔
المحدث : أحمد شاكر خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
[FONT=Arial (Arabic)] مسند أحمد - مسند أهل البيت - حديث الحسن بن علي - رقم الحديث : ( 1626 )۔
[/FONT]Source
Source
ترجمہ[/FONT]Source
Source
حضرت ھبیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسن علیھ السلام نے ہمیں خطاب کیا اور فرمایا اے لوگو! آج وہ شخص فوت ہوا ہے کہ اُسکے علم کو نہ پہلے پہنچے ہیں اور نہ بعد کو آنیوالے پہنچیں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے (جنگ کے لئے) جھنڈا دے کر بھیجتے تھے تو جبرائیل علیہ السلام اسکے داہنے طرف ہو جاتے تھے اور میکائیل علیہ السلام بائیں طرف۔ پس وہ بغیر فتح حاصل کئے واپس نہیں ہوتے تھے
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حَبَشِيٍّ ، قَالَ : خَطَبَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ عَلَيْهِمَا السَّلامُ بَعْدَ قَتْلِ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلامُ ، فَقَالَ : " لَقَدْ فَارَقَكُمْ رَجُلٌ أَمِينٌ مَا سَبَقَهُ الأَوَّلُونَ بِعِلْمٍ وَلا أَدْرَكَهُ الآخِرُونَ ، إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَبْعَثُهُ وَيُعْطِيهِ الرَّايَةَ فَلا يَنْصَرِفُ حَتَّى يُفْتَحَ لَهُ وَمَا تَرَكَ مِنْ صَفْرَاءَ وَلا بَيْضَاءَ إِلا سَبْعَ مِائَةِ دِرْهَمٍ مِنْ عَطَائِهِ كَانَ يَرُدُّهُ لا خَادِمَ لأَهْلِهِ " .۔
الراوي : عمرو بن حبشي المحدث : أحمد شاكر
المصدر : مسند أحمد الصفحة أو الرقم: 3/168 خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
Source
أخبرنا : الحسن بن سفيان ، حدثنا : أبوبكر بن أبي شيبة ، حدثنا : عبد الله بن نمير ، عن إسماعيل بن أبي خالد ، عن أبي إسحاق ، عن هبيرة بن يريم قال : سمعت الحسن بن علي قام فخطب الناس فقال : يا أيها الناس لقد فارقكم أمس رجل ما سبقه ولا يدركه الآخرون لقد كان رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم يبعثه المبعث فيعطيه الراية فما يرجع حتى يفتح الله عليه جبريل ، عن يمينه وميكائيل ، عن شماله : ما ترك بيضاء ولا صفراء إلاّ سبع مائة درهم فضلت من عطائه أراد أن يشتري بها خادماً.۔
الراوي : الحسن بن عليؑ المحدث : ابن حبان
المصدر : صحيح ابن حبان الصفحة أو الرقم: 6936 خلاصة حكم المحدث : أخرجه في صحيحه
Source
ترجمہ
حضرت ھبیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسن علیھ السلام نے ہمیں خطاب کیا اور فرمایا اے لوگو! آج وہ شخص فوت ہوا ہے کہ اُسکے علم کو نہ پہلے پہنچے ہیں اور نہ بعد کو آنیوالے پہنچیں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے جنگ کے لئے جھنڈا دے کر بھیجتے تھے تو وہ واپس نہیں لوٹتے تھے جب تک اللہ اُنھیں فتح نہ عطا فرماتا۔ جبرائیل علیہ السلام انکے داہنے طرف ہو جاتے تھے اور میکائیل علیہ السلام بائیں طرف۔ اُنھوں نے اپنے پیچھے کوئی کوئی مال و دولت نہیں چھوڑا سوائے 700 درہم کے جس سے اُن کا ارادہ ایک خادم کو خریدنے کا تھا۔۔۔۔
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا يُونُسُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ هُبَيْرَةَ بْنِ يَرِيمَ ، قَالَ : " خَرَجَ إِلَيْنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ ، وَعَلَيْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ ، فَقَالَ : لَقَدْ كَانَ فِيكُمْ بِالأَمْسِ رَجُلٌ مَا سَبَقَهُ الأَوَّلُونَ ، وَلا يُدْرِكُهُ الآخِرُونَ ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ، وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ، فَقَاتَلَ جِبْرِيلُ عَنْ يَمِينِهِ ، وَمِيكَائِيلُ عَنْ يَسَارِهِ ، ثُمَّ لا تُرَدُّ يَعْنِي رَايَتَهُ ، حَتَّى يَفْتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ ، مَا تَرَكَ دِينَارًا ، وَلا دِرْهَمًا ، إِلا سَبْعَ مِائَةِ دِرْهَمٍ أَخَذَهَا مِنْ عَطَائِهِ ، كَانَ أَرَادَ أَنْ يَبْتَاعَ بِهَا خَادِمًا لأَهْلِهِ "۔
السنن الكبرى للنسائي كِتَابُ : الْخَصَائِصِ ذِكْرُ خَبَرِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنِ النَّبِيّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم.. رقم الحديث: 8091 ھبیرہ بن مریم سے روایت ہے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام تشریف لائے اور انھوں نے سیاہ عمامہ پہن رکھا تھا۔ پس انھوں نے ارشاد فرمایا، کل تک تمھارے درمیان وہ شخص تھا جس سے نہ پہلے والے سبقت لے سکے اور نہ بعد میں آنے والے اُس کا ادراک کر پائیں گے۔ اور بے شک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اُسکے بارے میں فرمایا کہ کل میں یہ جھنڈا اُس کو دوں گا جو اللہ اور اُسکے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اُسکا رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اُس سے محبت کرتے ہیں۔ پس جبرائیلؑ اُسکے داہنی طرف اور میکائیلؑ اُسکے بائیں طرف لڑتے ہیں۔ اور پھر وہ واپس نہیں لوٹتا حتٰی کہ اللہ رب العزت اُسے فتح عنایت فرماتا ہے۔ اُس نے اپنے پیچھے کوئی دینار اور درھم نہیں چھوڑے سوائے سات سو درھم کے۔ جو مجھے انھوں نے دیے۔ اس سے اُن کا اپنے گھر والوں کیلیے ایک خادم خریدنے کا ارداہ تھا۔
لَمَّا قُتِلَ عليُّ بنُ أبِي طالِبٍ رضِيَ اللهُ عنهُ قامَ الحسَنُ بنُ عليٍّ خَطيبًا ، فقال : قدْ قَتلْتُمْ واللهِ الليلَةَ رَجلًا في الليلَةِ التي أُنْزِلَ فيها القُرآنُ ، وفِيها رُفِعَ عِيسَى بنُ مَريمَ ، وفِيها قُتِلَ يُوشَعُ بنُ نُونٍ فتَى مُوسَى ، قال سُكَيْنٌ : حدَّثَنِي رجلٌ قدْ سمّاهُ قال : وفِيها تِيبَ على بَنِي إِسرائِيلَ - ثُمَّ رَجعَ إلى حدِيثِ حَفْصِ بنِ خالِدٍ ، فقال : واللهِ ما سَبَقهُ أحدٌ كان قبْلَهُ ولا يُدْرِكُهُ أحدٌ كان بَعدَهُ ، واللهِ إنْ كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ لَيَبْعَثُهُ في السَّرِيَّةِ جِبريلُ عن يَمينِه ومِيكائيِلُ عن يَسارِهِ ، واللهِ ما تَركَ من صفْراءَ ولا بَيضاءَ إلَّا ثَمانِمِائَةَ دِرْهَمٍ أو سَبعَمِائةِ دِرْهَمٍ كان أعَدَّها لِخادِمٍ
الراوي : الحسن بن علي بن أبي طالب المحدث : البزار
المصدر : البحر الزخار الصفحة أو الرقم: 4/179 خلاصة حكم المحدث : إسناده صالح
ترجمہ
حضرت ھبیرہ سے روایت ہے جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ شھید ہو گئے تو حضرت امام حسنؑ نے کھڑے ہو کر ایک خطبہ دیا۔ پس فرمایا کہ لوگوں نے حضرت علی کو شھید کر دیا اُس رات جس رات اللہ نے قرآن نازل کیا۔ جس رات حضرت عیسٰی کو اُٹھا لیا گیا، جس رات حضرت موسٰیؑ کے جوان حضرت یوشع بن نونؑ شھید ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔ پھر فرمایا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے گزر جانے والے بڑھ نہیں سکے اور نہ ہے بعد میں آنے والے اُن کی گرد کو پا سکیں گے۔ اللہ کی قسم جب بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اُنھیں لڑائی کیلیے بھیجا تو جبرائیلؑ اُن کے دائیں طرف ہو لیے اور میکائیلؑ اُن کے بائیں جانب ہولیے۔ انھوں نے اپنے پیچھے کوئی مال و دولت نہیں چھوڑا سوائے 700 (بعض روایات میں 800) درہم کے علاوہ۔ جس سے ایک خادم خریدنے کا ارادہ تھا
قال البانی حسن الحدیث
۔2496 - ( حسن )۔
۔[ كان يبعثه البعث فيعطيه الراية فما يرجع حتى يفتح الله عليه جبريل عن يمينه وميكائيل عن يساره . يعني عليا رضي الله عنه ] . عن ابي هبيرة بن يريم قال : سمعت الحسن بن علي قام فخطب الناس فقال : يا أيها الناس ! لقد فارقكم أمس رجل ما سبقه الأولون ولا يدركه الآخرون . لقد كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يبعثه ( الحديث ) ما ترك بيضاء ولا صفراء إلا سبعمائة درهم فضلت من عطائه أراد أن يشتري بها خادما . ( حسن بطريقيه )۔
۔[ كان يبعثه البعث فيعطيه الراية فما يرجع حتى يفتح الله عليه جبريل عن يمينه وميكائيل عن يساره . يعني عليا رضي الله عنه ] . عن ابي هبيرة بن يريم قال : سمعت الحسن بن علي قام فخطب الناس فقال : يا أيها الناس ! لقد فارقكم أمس رجل ما سبقه الأولون ولا يدركه الآخرون . لقد كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يبعثه ( الحديث ) ما ترك بيضاء ولا صفراء إلا سبعمائة درهم فضلت من عطائه أراد أن يشتري بها خادما . ( حسن بطريقيه )۔
الكتاب : السلسلة الصحيحة محمد ناصر الدين الألباني رقم الحديث : ( 2496 )۔
الألباني - كتب تخريج الحديث النبوي الشريف - رقم الصفحة : ( 660 ) - رقم الحديث : ( 2496 )۔
Source
ترجمہالألباني - كتب تخريج الحديث النبوي الشريف - رقم الصفحة : ( 660 ) - رقم الحديث : ( 2496 )۔
Source
۔[ پس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلہ نے انھیں جب بھی کسی مہم پر سردار بنا کر بھیجتے تو پس اُنھیں جھنڈا عطا فرماتے اور وہ واپس نہ لوٹتے جب تک اللہ انھیں فتح سے سرفراز نہ فرما دیتا اور جرائیل اپن کے داہنی جانب اور میکائیل اُن کے بائیں طرف ہو لیتے یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ] حضرت ھبیرہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت امام حسنؑ کو کھڑے ہو کر لوگوں کو خطاب کرتے سنا۔ پس آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ائے لوگو آج تم نے اُس شخص کو کھو دیا جسے گزرے ہوئے لوگ پہنچ نہیں سکے اور نہ ہی آنے والے لوگ اُسکا ادراک کرسکیں گے۔ اُنھیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب بھی جھنڈا دے کر بھیجا۔۔۔۔۔ (تا آخر حدیث) اُس نے اپنے پیچھے کوئی کوئی مال و دولت نہیں چھوڑا سوائے 700 درہم کے جس سے اُن کا ارادہ ایک خادم کو خریدنے کا تھا۔۔۔۔
سمعتُ الحسنَ بنَ عليٍّ قام فخطب الناسَ فقال يا أيها الناسُ لقد فارقَكم أمسُ رجلٌ ما سبقَه الأولون ولا يدركِه الآخِرونَ لقد كان يبعثُه البعثُ فيعطيه الرايةَ فما يرجعُ حتى يفتحَ اللهُ عليه جبريلُ عن يمينِه وميكائيلُ عن يسارِه يعني عليًّا رضيَ اللهُ عنهُ ما ترك بيضاءَ ولا صفراءَ إلا سبعمائةِ دِرهمٍ فضلتْ من عطائهِ أراد أن يشتريَ بها خادمًا
الراوي : الحسن بن علي بن أبي طالب المحدث : الألباني
المصدر : السلسلة الصحيحة الصفحة أو الرقم: 5/660 خلاصة حكم المحدث : رجاله ثقات رجال الشيخين غير هبيرة فقد اختلفوا فيه
ترجمہ
حضرت ھبیرہ فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسین علیھ السلام کھڑے ہو گئے اور لوگوں کو خطاب کیا اور فرمایا اے لوگو! تم نے آج اُس شخص کو کھو دیا ہے کہ اُس سے گزر جانے والے سبقت نہ لے جاسکے اور نہ ہی بعد میں آنیوالے اُس کی گِرد کو پا سکیں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے جنگ کے لئے جھنڈا دے کر بھیجتے تھے تو وہ واپس نہیں لوٹتے تھے جب تک اللہ اُنھیں فتح نہ عطا فرماتا۔ جبرائیل علیہ السلام اسکے داہنی طرف ہو جاتے تھے اور میکائیل علیہ السلام بائیں طرف۔ یعنی علی کرم اللہ وجہہ۔ اُنھوں نے اپنے پیچھے کوئی کوئی مال و دولت نہیں چھوڑا سوائے 700 درہم کے جس سے اُن کا ارادہ ایک خادم کو خریدنے کا تھا۔۔۔۔
حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ ، قَالَ : خَطَبَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ حِينَ قُتِلَ عَلِيٌّ ، فَقَالَ : " يَا أَهْلَ الْكُوفَةِ ، أَوْ يَأَهْلَ الْعِرَاقِ ، لَقَدْ كَانَ بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ رَجُلٌ قُتِلَ اللَّيْلَةَ أَوْ أُصِيبَ الْيَوْمَ لَمْ يَسْبِقْهُ الْأَوَّلُونَ بِعِلْمٍ وَلَا يُدْرِكُهُ الْآخِرُونَ : كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إذَا بَعَثَهُ فِي سَرِيَّةٍ كَانَ جِبْرِيلُ عَنْ يَمِينِهِ وَمِيكَائِيلُ عَنْ يَسَارِهِ , فَلَا يَرْجِعُ حَتَّى يَفْتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ " .۔
مصنف ابن أبي شيبة كِتَابُ الْفَضَائِلِ فَضَائِلُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ ...۔
عاصم بن ضمرہؒ سے روایت ہے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت کے بعد خطبہ دیا پس آپ نے ارشاد فرمایا، اے کوفہ والو یا (یوں فرمایا) اے عراق والو، کہ آج کی رات تمھارے درمیان وہ شخص شھید ہوا جس سے پہلے گزر جانے والے علم میں سبقت نہیں لے جا سکے اور نہ ہی بعد میں آنے والے اُس کا ادراک کر سکیں گے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب بھی انھیں کسی مہم پر بھیجا تو جبرائیل علیہ السلام اُسکے دائیں جانب اور میکائیل علیہ السلام اُس کے بائیں جانب ہو لیتے تھے۔ پس وہ اُسوقت تک واپس نہیں آتا تھا جبتک اللہ اُسے فتح سے نہیں نوازتا تھا۔
اس حدیث کے مزید مصادر دیکھنے کیلیے یہاں کلک کریں۔
(6)
وَإِن نَّكَثُوا أَيْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنتَهُونَ أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُم بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ أَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَوْهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
سورۃ التوبہ 09، آیات 12 و 13۔
ترجمہ
اگر یہ لوگ عہدوپیمان کے بعد بھی اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم بھی ان کفر کے اماموں کو قتل کرو۔ ان کی قسمیں کوئی چیز نہیں، ممکن ہے کہ اس طرح وه بھی باز آجائیں تم ان لوگوں کی سرکوبی کے لئے کیوں تیار نہیں ہوتے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ دیا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جلا وطن کرنے کی فکر میں ہیں اور خود ہی اول بار انہوں نے تم سے چھیڑ کی ہے، کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اللہ ہی زیاده مستحق ہے کہ تم اس کا ڈر رکھو بشرطیکہ تم ایمان والے ہو
بدر میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھوں قتل ہونے والے سرداران قریش (آئمہ کفر)۔
مورخین اور اھل سیر کی اکثریت نے بیان کیا ہے کہ بدر میں کفار کے کُل مقتولین 70 سے کُچھ اوپر تھے جن میں سے نصف حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھوں واصل جہنم ہوئے۔ ذیل میں اُن مقتولین کے نام دیے گئے ہیں جنھیں بدر میں یا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اکیلے قتل کیا یا پھر کسی دوسرے صحابیؓ کے ساتھ مل کر قتل کیا۔ زیادہ تعداد اُن کی ہے جنھیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے تنہا قتل کیا۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)مورخین اور اھل سیر کی اکثریت نے بیان کیا ہے کہ بدر میں کفار کے کُل مقتولین 70 سے کُچھ اوپر تھے جن میں سے نصف حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھوں واصل جہنم ہوئے۔ ذیل میں اُن مقتولین کے نام دیے گئے ہیں جنھیں بدر میں یا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اکیلے قتل کیا یا پھر کسی دوسرے صحابیؓ کے ساتھ مل کر قتل کیا۔ زیادہ تعداد اُن کی ہے جنھیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے تنہا قتل کیا۔۔۔۔۔۔
وليد بن عتبة
العاص بن سعيد
طعيمة بن عديّ بن نوفل
نوفل بن خويلد
زمعة بن الاسود
الحارث بن زمعة
النظر بن الحارث بن عبد الدار
عمير بن عثمان بن كعب بن تيم عم طلحة بن عبد الله
عثمان ابن عبيد الله اخی طلحة بن عبید الله
عثمان ابن عبيد الله اخی طلحة بن عبید الله
مالك ابن عبيد الله
مسعود بن ابي امية بن المغيرة
قيس بن الفاكه بن المغيرة
حذيفة بن ابي حذيفة بن المغيرة
أبا قيس بن الوليد بن المغيرة
حنظلة بن ابي سفيان
عمرو بن مخزوم
ابا منذر بن ابي رفاعة
منبّه بن الحجاج السهمي
علقمة بن كلدة
العاص بن منبه
ابا العاص بن قيس بن عديّ
معاوية بن المغيرة بن ابي العاص
لوذان بن ربيع
مسعود بن امية بن المغيرة
حاجب بن السائب بن عويمر
أوس بن المغيرة بن لوذان
زيد بن مليص
عاصم بن ابي عوف
سعيد بن وهب حليف بني عامر
معاوية بن [یا عامر بن] عبد القيس
السائب بن مالك
ابا الحكم بن الاخنس
هشام بن ابي امية بن المغيرة
عبد الله بن المنذر بن ابي رفاعة
عبد الله بن جميل بن زهير بن الحارث بن اسد
شیبہ بن ربیعہ
سیرت ابن ھشام جلد 3 صفحہ 263 تا 270 غزوہ بدر باب من قتل ببدر من المشركين
حدثنا عبد الله ، حدثني عثمان بن أبي شيبة ، حدثنا مطلب بن زياد ، عن السدي ، عن عبد خير ، عن علي في قوله إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ قالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ و آلہ وسلَّمَ المُنذرُ والهادِ رجلٌ من بَني هاشمٍ
الراوي :عبد خير الهمداني المحدث : أحمد شاكر
المصدر : مسند أحمد الصفحة أو الرقم: 2/227 خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
اس کی روایت عبداللہ بن احمد اور طبرانی نے کی، اور مسند کے راوی ثقہ ہیں (الهيثمي)۔
الراوي : علي بن أبي طالب المحدث : الهيثمي
المصدر : مجمع الزوائد الصفحة أو الرقم: 7/44 خلاصة حكم المحدث : رجاله ثقات
Source
ترجمہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اس آیت إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم المنذر ہیں اور الھاد بنی ہاشم میں سے ایک شخص ہے۔
اسم الكتاب: المعجم الأوسط للطبراني
اسم المصنف: سليمان بن أحمد الطبراني
سنة الوفاة: 360
عدد الأجزاء: 10
دار النشر: دار الحرمين
بلد النشر: القاهرة
سنة النشر: 1415
رقم الطبعة: الأولى
المحقق: طارق بن عوض الله بن محمد، عبد المحسن بن إبراهيم
۔(1384)- [1361] حَدَّثَنَا أَحْمَدُ , قَالَ : نا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , قَالَ : نا مُطَّلِبُ بْنُ زِيَادٍ ، عَنِ السُّرِّيِّ ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ ، عَنْ عَلِيٍّ، فِي قَوْلِهِ إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ، قَالَ، "رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم الْمُنْذِرُ وَالْهَادِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ "، لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ السّرِّيِّ إِلا الْمُطَّلِبُ، تَفَرَّدَ بِهِ: عُثْمَانُ
نوٹ: یہ حدیث سنداً حسن ہے
العاص بن سعيد
طعيمة بن عديّ بن نوفل
نوفل بن خويلد
زمعة بن الاسود
الحارث بن زمعة
النظر بن الحارث بن عبد الدار
عمير بن عثمان بن كعب بن تيم عم طلحة بن عبد الله
عثمان ابن عبيد الله اخی طلحة بن عبید الله
عثمان ابن عبيد الله اخی طلحة بن عبید الله
مالك ابن عبيد الله
مسعود بن ابي امية بن المغيرة
قيس بن الفاكه بن المغيرة
حذيفة بن ابي حذيفة بن المغيرة
أبا قيس بن الوليد بن المغيرة
حنظلة بن ابي سفيان
عمرو بن مخزوم
ابا منذر بن ابي رفاعة
منبّه بن الحجاج السهمي
علقمة بن كلدة
العاص بن منبه
ابا العاص بن قيس بن عديّ
معاوية بن المغيرة بن ابي العاص
لوذان بن ربيع
مسعود بن امية بن المغيرة
حاجب بن السائب بن عويمر
أوس بن المغيرة بن لوذان
زيد بن مليص
عاصم بن ابي عوف
سعيد بن وهب حليف بني عامر
معاوية بن [یا عامر بن] عبد القيس
السائب بن مالك
ابا الحكم بن الاخنس
هشام بن ابي امية بن المغيرة
عبد الله بن المنذر بن ابي رفاعة
عبد الله بن جميل بن زهير بن الحارث بن اسد
شیبہ بن ربیعہ
سیرت ابن ھشام جلد 3 صفحہ 263 تا 270 غزوہ بدر باب من قتل ببدر من المشركين
(7)
وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ ۗ إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ ۖ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ
سورة الرعد ( 13 ) ، الآية : 7
ترجمہ:۔
اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی (معجزه) کیوں نہیں اتاری گئی۔ سوائے اس کے نہیں کہ آپ تو صرف خبردار کرنے والے ہیں۔ اور ہر قوم کے لئے (ایک) ہادی ہے۔
ما أخرجه الطبري بإسناد حسن من طريق سعيد بن جبير ، عن بن عباس قال : لما نـزلت (إنما أنت منذر ولكل قوم هاد) ، وضع صلى الله عليه وسلم يده على صدره فقال: أنا المنذر(ولكل قوم هاد), وأومأ بيده إلى منكب عليّ, فقال: أنت الهادي يا عليّ, بك يهتدي المهتدون بَعْدي
الراوي : سعيد بن جبير المحدث : ابن حجر العسقلاني
المصدر : فتح الباري لابن حجر الصفحة أو الرقم: 8/226 خلاصة حكم المحدث : إسناده حسن
ترجمہ
اور طبری نے حسن سند کے ساتھ سعید بن جبیر کے طرق سے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ إنما أنت منذر ولكل قوم هاد تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا ہاتھ اپنے سینہ پر رکھا اور کہا کہ میں منذر (ڈرانے والا) ہوں، اور آیت کے اس حصے ولكل قوم هاد پر اپنا ہاتھ علی کرم اللہ وجہہ کے کندھے پر رکھ کر کہا کہ اے علیؑ! تم ہادی ہو۔ تمہارے ذریعے ہدایت حاصل کرنے والے میرے بعد ہدایت حاصل کریں گے
اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی (معجزه) کیوں نہیں اتاری گئی۔ سوائے اس کے نہیں کہ آپ تو صرف خبردار کرنے والے ہیں۔ اور ہر قوم کے لئے (ایک) ہادی ہے۔
ما أخرجه الطبري بإسناد حسن من طريق سعيد بن جبير ، عن بن عباس قال : لما نـزلت (إنما أنت منذر ولكل قوم هاد) ، وضع صلى الله عليه وسلم يده على صدره فقال: أنا المنذر(ولكل قوم هاد), وأومأ بيده إلى منكب عليّ, فقال: أنت الهادي يا عليّ, بك يهتدي المهتدون بَعْدي
الراوي : سعيد بن جبير المحدث : ابن حجر العسقلاني
المصدر : فتح الباري لابن حجر الصفحة أو الرقم: 8/226 خلاصة حكم المحدث : إسناده حسن
ترجمہ
اور طبری نے حسن سند کے ساتھ سعید بن جبیر کے طرق سے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ إنما أنت منذر ولكل قوم هاد تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا ہاتھ اپنے سینہ پر رکھا اور کہا کہ میں منذر (ڈرانے والا) ہوں، اور آیت کے اس حصے ولكل قوم هاد پر اپنا ہاتھ علی کرم اللہ وجہہ کے کندھے پر رکھ کر کہا کہ اے علیؑ! تم ہادی ہو۔ تمہارے ذریعے ہدایت حاصل کرنے والے میرے بعد ہدایت حاصل کریں گے
حدثنا عبد الله ، حدثني عثمان بن أبي شيبة ، حدثنا مطلب بن زياد ، عن السدي ، عن عبد خير ، عن علي في قوله إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ قالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ و آلہ وسلَّمَ المُنذرُ والهادِ رجلٌ من بَني هاشمٍ
الراوي :عبد خير الهمداني المحدث : أحمد شاكر
المصدر : مسند أحمد الصفحة أو الرقم: 2/227 خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
Source
رَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الصَّغِيرِ وَالْأَوْسَطِ، وَرِجَالُ الْمُسْنَدِ ثِقَاتٌ (الهيثمي)۔
اس کی روایت عبداللہ بن احمد اور طبرانی نے کی، اور مسند کے راوی ثقہ ہیں (الهيثمي)۔
الراوي : علي بن أبي طالب المحدث : الهيثمي
المصدر : مجمع الزوائد الصفحة أو الرقم: 7/44 خلاصة حكم المحدث : رجاله ثقات
Source
ترجمہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اس آیت إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم المنذر ہیں اور الھاد بنی ہاشم میں سے ایک شخص ہے۔
اسم الكتاب: المعجم الأوسط للطبراني
اسم المصنف: سليمان بن أحمد الطبراني
سنة الوفاة: 360
عدد الأجزاء: 10
دار النشر: دار الحرمين
بلد النشر: القاهرة
سنة النشر: 1415
رقم الطبعة: الأولى
المحقق: طارق بن عوض الله بن محمد، عبد المحسن بن إبراهيم
۔(1384)- [1361] حَدَّثَنَا أَحْمَدُ , قَالَ : نا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , قَالَ : نا مُطَّلِبُ بْنُ زِيَادٍ ، عَنِ السُّرِّيِّ ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ ، عَنْ عَلِيٍّ، فِي قَوْلِهِ إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ، قَالَ، "رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم الْمُنْذِرُ وَالْهَادِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ "، لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ السّرِّيِّ إِلا الْمُطَّلِبُ، تَفَرَّدَ بِهِ: عُثْمَانُ
وأخبرنا أبو بكر محمد بن محمد بن أبي شكر المؤدب بأصبهان أن محمد بن رجاء بن إبراهيم بن عمر بن الحسن بن يونس أخبرهم قراءة عليه أنا أحمد بن عبدالرحمن الذكواني أنا أبو بكر أحمد بن موسى بن مردويه الحافظ قثنا محمد بن علي بن دحيم قثنا أحمد بن حازم قال ثنا عثمان بن محمد عن مطلب بن زياد عن السدي عن عبد خير عن علي في قول الله عز وجل إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ قال المنذر رسول الله صلى الله عليه وسلم والهاد رجل من بني هاشم ( إسناده حسن)۔
الأحاديث المختارة للضياء المقدسي حدیث نمبر 668، 669
Source
ترجمہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اس آیت إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ المنذر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں اور الھاد بنی ھاشم میں سے ایک شخص ہے۔
أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو عُثْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ السَّمَّاكِ، ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَنْصُورٍ الْحَارِثِيُّ، ثَنَا حُسَيْنُ بْنُ حَسَنٍ الْأَشْقَرُ، ثَنَا مَنْصُورُ بْنُ أَبِي الْأَسْوَدِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَسَدِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ: (إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ) قَالَ عَلِيٌّ: رَسُولُ اللَّهِ- صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ- الْمُنْذِرُ، وَأَنَا الْهَادِي.
مستدرک علی الصحیحین حدیث نمبر 4702۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اس آیت إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ المنذر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں اور الھاد بنی ھاشم میں سے ایک شخص ہے۔
أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرٍو عُثْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ السَّمَّاكِ، ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَنْصُورٍ الْحَارِثِيُّ، ثَنَا حُسَيْنُ بْنُ حَسَنٍ الْأَشْقَرُ، ثَنَا مَنْصُورُ بْنُ أَبِي الْأَسْوَدِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَسَدِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ: (إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ) قَالَ عَلِيٌّ: رَسُولُ اللَّهِ- صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ- الْمُنْذِرُ، وَأَنَا الْهَادِي.
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ.
ترجمہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اس آیت إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم المنذر ہیں اور میں الھادی ہوں
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اس آیت إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم المنذر ہیں اور میں الھادی ہوں
أَفَمَن يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَن يُتَّبَعَ أَمَّن لَّا يَهِدِّي إِلَّا أَن يُهْدَىٰ ۖ فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ
آیا جو حق کے راستہ کی طرف ھدایت کرتا ہو وه زیاده اتباع کے ﻻئق ہے یا وه جس کو بغیر بتائے خود ہی راستہ نہ سوجھے؟ پس تم کو کیا ہوگیا ہے تم کیسے فیصلے کرتے ہو۔
آیا جو حق کے راستہ کی طرف ھدایت کرتا ہو وه زیاده اتباع کے ﻻئق ہے یا وه جس کو بغیر بتائے خود ہی راستہ نہ سوجھے؟ پس تم کو کیا ہوگیا ہے تم کیسے فیصلے کرتے ہو۔
- Featured Thumbs
- http://www.islamtimes.org/images/docs/000289/n00289675-b.jpg
Last edited: