جعلی ڈگریاں

patriot

Minister (2k+ posts)
کسی نے کہا کہ اسمبلیوں میں آدھے لوگ جعلی ڈگریوں والے ہیں، بڑا اعتراض ہوا ممبران نے توہین پارلیمنٹ کا الزام لگایا جبکہ اپنی پارلیمنٹ کی سب سے زیادہ توہین وہ خود کرتے ہیں۔ اس آدمی نے کہا اسمبلیوں کے آدھے لوگ جعلی ڈگریوں والے نہیں جن ممبران نے اپنی جیت کا جشن پارلیمنٹ میں نعرے مار کے اور تالیاں بجا کے منایا انہیں اس جملے کی سمجھ ہی نہیں آئی وہ کچھ بھی ایسا سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ یہ بات اس طرح کہی گئی تھی کہ پارلیمنٹ کے آدھے ممبران گدھے ہیں پھر کہا گیا کہ آدھے ممبران گدھے نہیں ہیں۔ گریجویٹ اسمبلی کا کریڈٹ صدر جنرل مشرف اور اس کے غلام سیاستدانوں نے لیا تھا۔ تب عدالت آزاد نہ تھی اس لئے جعلی ڈگریوں والوں نے بھی اپنی مدت پوری کی۔ یہ شعر میرا نہیں ہے بہت پہلے اکبر الہ آبادی نے کہا تھا صرف ایک لفظ کی تبدیلی کے ساتھ پیش خدمت ہے، علمی کی جگہ سیاسی لکھا گیا ہے کہ سیاستدانوں کا علم کے ساتھ کیا کام ہے....
تو بھی گریجویٹ ہے میں بھی گریجویٹ
سیاسی مباحثے ہوں ذرا پاس آ کے لیٹ
حافظ آباد کے مستقل ممبر اسمبلی مہدی بھٹی نے بہت پہلے ایک جلسہ عام میں کہا تھا کہ میں میٹرک فیل ہوں اور میرے ووٹرز بھی انڈر میٹرک ہیں یہ جو گریجویٹ سیاستدان ہیں وہ کسی کام کے نہیں اور مہدی بھٹی ممبر بن گئے اس کے بعد جب گریجوایشن کی شرط ممبر اسمبلی کے لئے لگائی گئی تو اسی جگہ جلسہ عام میں مہدی بھٹی نے کہا کہ میں اللہ کے فضل سے گریجویٹ ہوں میرے مدمقابل کے پاس جعلی ڈگری ہے جبکہ اس آدمی کو پچھلی دفعہ گریجویٹ ہونے کا طعنہ دیا گیا تھا۔ مہدی بھٹی پھر جیت گئے۔ عدالتوں پر الزام بازی کرنے والے عوام کی عدالت میں سرخرو ہوتے ہیں تو پھر صرف اللہ کی عدالت رہ جاتی ہے اور وہاں اصل فیصلے مرنے کے بعد ہوں گے۔ میٹرک اور بی اے کے لئے انعام الحق جاوید نے کہا ہے کہ....ع
کر لیا ہے جو تم نے بی اے تو
ساتھ ہی میٹرک بھی کر ڈالو
پنجاب اسمبلی میں ایک ممبر کے خلاف پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار نے عدالت میں پیش ہوکے بیان دیا کہ ممبر اسمبلی کے نام کے کسی آدمی کی رجسٹریشن بھی یونیورسٹی میں نہیں ہے۔ اس کے باوجود عدالت نے ممبر اسمبلی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ چنانچہ 2002 ءکے بعد 2008 ءکے الیکشن میں بھی لوگوں نے جعلی ڈگریوں پر الیکشن لڑے اور جیتے اب عدالتیں آزاد ہیں چنانچہ ایسے جھوٹے دھوکے باز کرپٹ اور جعلی ممبران کے خلاف عدالتوں نے فیصلے دیئے بہت سے ممبران نے عدالتوں میں مقدمات جانے سے پہلے ہی استعفے دے دیئے ہیں۔
عدالت میں جعلی ڈگری والے ممبر جمشید دستی کے مقدمے کی دلچسپ سماعت کی ایک جھلک اخبارات میں چھپی ہے۔ ممبر صاحب کو ایک بھی پورا کلمہ صحیح طرح سے یاد نہیں تھا اور اس نے ایک مذہبی درسگاہ سے ڈگری لے کے الیکشن لڑا اور جیتا۔ لوگ بھی کمال کرتے ہیں کیسے کیسے لوگوں کو اسمبلی میں بھجواتے ہیں اور پھر روتے ہیں۔
عدالت: آپ نے قرآن کی کوئی تفسیر پڑھی ہے؟
ممبر صاحب: جی ہاں وہ تفسیر جو حضرت موسیٰؑ نے لکھی ہے۔
عدالت نے کچھ اور سوال بھی کئے جن کا جواب دے کے خود دستی صاحب لاجواب ہو گئے۔ عدالت نے کہا کہ آپ استعفیٰ دے دیں ورنہ عدالت نے فیصلہ کیا تو آپ کو جیل جانا ہو گا۔ اس نے جیل سے بچنے کے لئے استعفیٰ دے دیا۔ میرے خیال میں عدالت نے یہ ریلیف دے کے ہمیں تکلیف دی ہے۔ جمشید دستی کو پیپلز پارٹی نے پھر ٹکٹ دے دیا ہے وہ جیت کے پھر اسمبلی میں پہنچ جائے گا۔ کیا یہ توہین عدالت نہیں ہے؟ عدالت کو اس حوالے سے سوموٹو ایکشن لے کے جمشید دستی کی اہلیت ختم کر دینا چاہیے آئینی طور پر بھی اب جمشید دستی اسمبلی میں جانے کا حق نہیں رکھتا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر نے کہا ہے کہ اسمبلیوں میں سارے سمگلر بیٹھے ہوئے ہیں۔ جھوٹ سے بڑی سمگلنگ کوئی نہیں ہے جعلی ڈگری بھی سمگلنگ ہے۔ وزیراعظم مخدوم گیلانی نے اپنے بھائی کو ٹکٹ دیا جسے لوگ جانتے بھی نہیں، جانتے تو لوگ ان کے بیٹے کو بھی نہیں مگر وہ ممبر پنجاب اسمبلی بن گیا ہے وہ اور اس کی والدہ نیب کے کئی الزامات میں ملوث ہیں۔
پچھلی عدالت سے آصف زرداری نے ممبر اسمبلی ہونے کے لئے بی اے کی شرط ہٹوا لی تھی کہتے ہیںکہ یہ انہوں نے اپنے لئے کیا کہ صدر مملکت ہونے کے لئے ممبر اسمبلی ہونے کی اہلیت کا ہونا ضروری ہے۔ زرداری صاحب شاید ایف اے ہیں چنانچہ ممبران اسمبلی سے پہلے جج صاحبان نے ان کے انتخاب کو ممکن بنایا مگر اب پتہ چلا ہے یہ رعایت جمشید دستی اور ایسے کئی لوگوں کے لئے تھی کہ عدالت انہیں نااہل کرے گی اور پارٹی ٹکٹ دے کے انہیں پھر اہل کر دیا جائے گا۔ پارلیمنٹ نااہل خانہ ہے۔ عدالت نے تو درگزر سے کام لیا مگر انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ درگزر کے قابل نہیں۔ عدالت نے اس سزا کے قابل بھی نہیں سمجھا۔
صدر زرداری نے جمشید دستی کو ٹکٹ دے کے ایک ٹکٹ میں دو دو مزے والی ضرب المثل سچ ثابت کر دی ہے۔ وزیراعظم مخدوم گیلانی نے فیصلے کو بدل دیا کہ اصل اختیارات میرے پاس ہی رہیں گے یہ معرکہ اٹھارویں ترمیم کے اسمبلی میں پاس ہونے کے بعد ہوا ہے اور دوسری بات یہ کہ ایوان صدر کی طرف سے عدالت کے ہر فیصلے کے خلاف اقدام کیا جائے گا۔ عدالت نے پٹرول پانچ روپے سستا کیا تو صدر زرداری نے دس روپے پٹرول مہنگا کرنے کا آرڈیننس آدھی رات کو نافذ کر دیا۔ این آر او کے فیصلے کا مذاق اب تک اڑایا جا رہا ہے۔ جمشید دستی نے استعفیٰ عدالت میں پیشی کے بعد دیا اسے ضمنی الیکشن کے لئے ٹکٹ دے دیا گیا ہے۔ جمشید دستی شرم کرتے اور ٹکٹ نہ لیتے۔ مگر جاہ پرست سیاستدان عزت بے عزتی سے آگے نکل گئے ہیں۔ جو بھی ممبر اسمبلی اب عدالتی فیصلے کے خوف سے استعفیٰ دے گا اسے بہتر ٹکٹ مل جائے گا۔ عدالت کے ہر فیصلے کے برعکس عمل کیا جائے گا اب عدالت سوچے کہ اس بلاجواز رعایت سے ناانصافی تو نہیں کر دی گئی۔
عدالت اب ایسے کسی ممبر اسمبلی کو رعایت نہ دے اب بھی کئی ایسے مقدمات عدالت میں موجود ہیں۔ عدالت جعلی ڈگریوں والے کے خلاف فیصلے دے اور انہیں نااہل قرار دے تاکہ وہ اپنے کئے کی سزا پائیں اور پھر کبھی اسمبلی میں نہ پہنچ سکیں۔ حیرت ہے کہ یہ لوگ ہمارے نمائندے ہیں جھوٹ بولنا سارے جرائم کی ماں ہے۔ میرے آقا و مولا رسول کریم سے کسی نے پوچھا کہ مجھے کوئی آسان سی ترکیب بتائیں کہ میں ساری برائیوں سے بچ پاوں ۔ آپ نے فرمایا کہ جھوٹ بولنا چھوڑ دو۔ اب وہ جوگناہ کرنے لگتا تو سوچتا کہ میں نے حضور سے جھوٹ نہ بولنے کا وعدہ کیا ہے انہوں نے پوچھ لیا تو میں کیا کروں گا۔ ہماری ان عظیم روایات کو یورپ امریکہ نے اپنی حکایات بنا لیا ہے ۔ صدر کلنٹن جب مونیکا کے ساتھ سکینڈل میں پھنسا تو لوگوں کو اس سے کوئی غرض نہ تھی انہیں صرف یہ غم و غصہ تھا کہ ہمارے صدر نے جھوٹ کیوں بولا ہے۔ ہمارے صدر زرداری نے ایک جھوٹے اور جعلی آدمی کو عدالت سے نااہل ہونے کے بعد ٹکٹ دے دیا ہے۔!