بُلندی سے پستی تک۔۔۔
کل ایک دوست کی تحریر میں بندُوخان ہوٹل۔کراچی۔کا نام پڑھ کر ذہن کے کسی تاریک گوشے سے آواز آئی کے یہ نام تو کہیں سُنا یا دیکھا ہے۔ کُچھ دیر غور کرنے پر جب یاد نہ آیا تو غور کرنا چھوڑ دیا۔۔آج صبح بابا جی سے بندُو خان ہوٹل کے بارے میں پُوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ ۔ہاں اس نام کا ہوٹل شاید بندر روڈ کراچی پر واقع تھا یا اب بھی ہواورکافی نامی گرامی تھا۔
اس کے ساتھ ہی جیسے اُن پر یادوں کے دریچے کُھلتے گئے اور مزید کہنے لگے۔۔بندرروڈ ۔۔جس پر کھبی میں نے بس کنڈکٹری کی تھی۔۔وہ بھی کیا دن تھے۔۔
سن ۔60۔ساٹھ میں جب مُجھے ۔کے ۔آر۔ٹی۔سی۔۔ کراچی روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن۔۔ میں بس کنڈکٹری کی جاب کے لیئے جانا پڑا۔۔پہلےتو ویسٹ وہارف کے علاقے میں ایک جگہ پر ۔40۔ چالیس دن ٹریننگ دی گئی۔۔کہ کونسےسٹاپ پر کتنا کرایا لینا ہے۔۔کس طرح کا رویہ رکھنا ہے مُسافروں کے ساتھ ۔۔ روڈ سیفٹی ۔وغیرہ وغیرہ۔
چالیس دن ٹریننگ کے بعد پولیس ہیڈ کوارٹر میں کامیاب ٹیسٹ پر لائیسنس دیا گیا۔۔ کوالیفائیڈ کنڈکٹر پر ڈیوٹی کے دوران یونیفارم پہننا بھی لازمی تھا۔اور مُسافروں سے کرایا وصُولی کے بعد اُنہیں پُورا بقایا دینے کے علاوہ ایک چھوٹا سا ٹکٹ بھی دینا پڑتا تھا۔
جب اُن سے پُوچھا گیا کہ اس جاب میں ایسی کیا بات تھی جو آپ نےخواہ مخواہ چالیس دن کی ٹریننگ کی زحمت اُٹھائی۔۔
تو مُسکرا کر کہنے لگے۔۔بیٹھا۔عام مزدُوری میں مہینے بھر کی تنخواہ چالیس سے پچاس روپے تھی اور ہماری تنخواہ ۔130 سے 160 تک تھی جو کہ شاید ہی کسی عام مزدور کی ہوتی ہوگی۔۔یہاں تک کہ ۔کے۔پی۔ٹی۔۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ۔۔ والوں کی ۔ساٹھ سے ستر روپے تھی۔۔ جن کی تنخواہ آج کل ایک لاکھ کا ہندسہ عبُور کر چُکی ہے۔۔
بابا جی کی باتیں سُن کر عجیب سا احساس ہوا۔۔ کہ ہم کس اُنچھائی سے لُڑھکتے ہوئے پستی میں آ گرے اور ابھی ہمارا یہ سفر آن و شان سے جاری ہے۔۔۔
اُس زمانے کی ایک عام سی بس کمپنی بھی ہماری آج کی پی آئی اے سے بہتر تھی۔جب ہماری پہلی ترجیح کوالٹی ہوا کرتی تھی نہ کہ کوانٹیٹی۔۔٫
۔اس بات کو ثابت کرنے کے لئے چاند پر جانے کی ضرُورت نہیں۔۔بلکہ ہمارے ائیر پورٹ اور ائیرلائنز سٹاف کے روئیے سے ہی اُن کی لیک آف ٹریننگ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔۔اور یہی حال وطن عزیز کے باقی اداروں کا بھی
ہے۔۔
کل ایک دوست کی تحریر میں بندُوخان ہوٹل۔کراچی۔کا نام پڑھ کر ذہن کے کسی تاریک گوشے سے آواز آئی کے یہ نام تو کہیں سُنا یا دیکھا ہے۔ کُچھ دیر غور کرنے پر جب یاد نہ آیا تو غور کرنا چھوڑ دیا۔۔آج صبح بابا جی سے بندُو خان ہوٹل کے بارے میں پُوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ ۔ہاں اس نام کا ہوٹل شاید بندر روڈ کراچی پر واقع تھا یا اب بھی ہواورکافی نامی گرامی تھا۔
اس کے ساتھ ہی جیسے اُن پر یادوں کے دریچے کُھلتے گئے اور مزید کہنے لگے۔۔بندرروڈ ۔۔جس پر کھبی میں نے بس کنڈکٹری کی تھی۔۔وہ بھی کیا دن تھے۔۔
سن ۔60۔ساٹھ میں جب مُجھے ۔کے ۔آر۔ٹی۔سی۔۔ کراچی روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن۔۔ میں بس کنڈکٹری کی جاب کے لیئے جانا پڑا۔۔پہلےتو ویسٹ وہارف کے علاقے میں ایک جگہ پر ۔40۔ چالیس دن ٹریننگ دی گئی۔۔کہ کونسےسٹاپ پر کتنا کرایا لینا ہے۔۔کس طرح کا رویہ رکھنا ہے مُسافروں کے ساتھ ۔۔ روڈ سیفٹی ۔وغیرہ وغیرہ۔
چالیس دن ٹریننگ کے بعد پولیس ہیڈ کوارٹر میں کامیاب ٹیسٹ پر لائیسنس دیا گیا۔۔ کوالیفائیڈ کنڈکٹر پر ڈیوٹی کے دوران یونیفارم پہننا بھی لازمی تھا۔اور مُسافروں سے کرایا وصُولی کے بعد اُنہیں پُورا بقایا دینے کے علاوہ ایک چھوٹا سا ٹکٹ بھی دینا پڑتا تھا۔
جب اُن سے پُوچھا گیا کہ اس جاب میں ایسی کیا بات تھی جو آپ نےخواہ مخواہ چالیس دن کی ٹریننگ کی زحمت اُٹھائی۔۔
تو مُسکرا کر کہنے لگے۔۔بیٹھا۔عام مزدُوری میں مہینے بھر کی تنخواہ چالیس سے پچاس روپے تھی اور ہماری تنخواہ ۔130 سے 160 تک تھی جو کہ شاید ہی کسی عام مزدور کی ہوتی ہوگی۔۔یہاں تک کہ ۔کے۔پی۔ٹی۔۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ۔۔ والوں کی ۔ساٹھ سے ستر روپے تھی۔۔ جن کی تنخواہ آج کل ایک لاکھ کا ہندسہ عبُور کر چُکی ہے۔۔
بابا جی کی باتیں سُن کر عجیب سا احساس ہوا۔۔ کہ ہم کس اُنچھائی سے لُڑھکتے ہوئے پستی میں آ گرے اور ابھی ہمارا یہ سفر آن و شان سے جاری ہے۔۔۔
اُس زمانے کی ایک عام سی بس کمپنی بھی ہماری آج کی پی آئی اے سے بہتر تھی۔جب ہماری پہلی ترجیح کوالٹی ہوا کرتی تھی نہ کہ کوانٹیٹی۔۔٫
۔اس بات کو ثابت کرنے کے لئے چاند پر جانے کی ضرُورت نہیں۔۔بلکہ ہمارے ائیر پورٹ اور ائیرلائنز سٹاف کے روئیے سے ہی اُن کی لیک آف ٹریننگ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔۔اور یہی حال وطن عزیز کے باقی اداروں کا بھی
ہے۔۔