بارہ اکتوبر 99ء سے پہلے
-------------------------------
مارشل لاء تو محض نتیجہ تھا ان عوامل واسباب کا جو فروری 97 کے بعد پیدا ہوۓ
نونہالان جمہوریت محض آرٹیکل 6 کی بات کرتے ہیں لیکن ان حالات سے بالکل بےخبر ہیں جو قائد محترم کے دوسرے دور تا مارشل لا کے نفاذ تک رہے- جس میں میاں صاحب گردن میں اتفاق کا سریا ڈالے ہر اس شخص و ادارے کو روندتے جاتے تھے جو غیردانتسہ بھی راستے میں آیا- موصوف آئین وقانون کو پرکاہ کی حثیت نہ دیتے تھے کیونکہ " دوتہائی" اکثریت کا زعم جو تھا
فروری 97 میں جب قائد جمہوریت دو تہائی ووٹ لے کر منتخب ہوۓ تو " عزائم" عظیم وبلند تر تھے- انا کے کوہ ہمالیہ پر براجمان ، بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ " گلیاں ہو جان سنجیاں، وچ مرزا یار پھرے" - اشخاص و اداروں کو " پینڈے " میں رکھنے کا عزم مصمم ظاہر کیا
شروعات سپریم کورٹ سے کی- سجاد علی شاہ چیف جسٹس تھے جو فاروق لغاری کے ہاتھوں غیرآئینی طور پر برطرف بینظر حکومت کو بحال کرچکے تھے لہذا زیر عتاب ہونا فطری تھا- نوازشریف کے خلاف
" contempt "
کا کیس زیرسماعت تھا- ڈرایا دھمکایا، بات نہ بنی تو لاہور وپنڈی کے موالیوں کو حکومتی سرپرستی میں سپریم کورٹ پر لشکر کشی کروائی- ججز کو جان
کے لالے پڑے اور بعد میں استعفیٰ دے کر سجاد علی شاہ نے جان بخشی کروائی- گھناؤنی واردات کی فوٹیج یوٹیوب پر دیکھی جاسکتی ہے
انہونی بھی تو وطن عزیز میں ہی ہوتی ہے- جو غنڈہ گرد عناصر اس واقعہ میں ملوث تھے، وہ بعد میں اسمبلی ممبران بنے اور ایک تو پنڈی کا مئیر بھی بنا جوشاید اب بھی ہو
اس ملک میں آئین وقانون کی بالادستی کیوں نہیں قائم ہوسکی اور کیوں یہ تنزلی کا شکار رہا- ایک وجہ آمرضیا کے اس پروردہ پودے کی ہے جو سپریم کورٹ حملہ میں ملوث ہونے کے باوجود کسی قسم کی سزا جزا سے محفوظ رہا- حتیٰ کہ منصف اعلیٰ اپنے ادارے کی حرمت اس کے شر سے بچانے میں ناکام رہا
خیر، سپریم کورٹ سانحہ کے بعد موصوف کی ہمت بڑھ گئی- یقین ہوچلا چونکہ ملک " مائی جی کا ویڑہ " ہے لہذا دستور وقانون کو روند دو کسی نے نہیں پوچھنا - اعلیٰ عدلیہ کو دبانے کے بعد قائد جمہوریت نے فوجی معاملات کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کی ٹھانی- کئیوں سے جونئیر ایک غیرمعروف جنرل کو آرمی چیف مقرر کیا- وجہ ظاہر تھی کہ چونکہ مہاجر ہے اور جونئیر بھی، تو تابع رہے گا
اس دوران واجپائی کو بلایا، سبھی طبقات نے تحسین وتائید کی- دوسری طرف فوجی قیادت کچھ اور پلان بناۓ ہوئی تھی- کارگل ایڈونچر کیا اور بعد کے واقعات تاریخ ہیں
کارگل واقعہ کے بعد نوازشریف اور جنرل مشرف میں بدمزگی پیدا ہوچکی تھی- دن بدن فاصلے بڑھتے جا رہے تھے- کان بھرنے والے غیرمنتخب مشیر اور ذاتی انا کسی لمحے چین نہ لینے دیتی تھی- قوم کا باشعور طبقہ اس مخاصمت پر دم بخود تھا اور سمجھتا تھا کہ یہ معاملات زیادہ دور تلک نہیں چلیں گے- اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا
بارہ اکتوبر کو نوازشریف کا ملتان میں جلسہ تھا- عوام کو سڑکوں و پلوں کی نوید سنائی- دوسری طرف مشرف کو جو سری لنکا کے دورہ پر تھا، کو حالت جرنلی یعنی یونیفارم میں جہاز میں بیٹھے بیٹھے برطرف کیا اور اپنے ایک منظورنظر بٹ ( میاں خود بھی کشمیری بٹ ہے) کا تقرر کردیا
نوازشریف یہ بھول گیا کہ یہ سپریم کورٹ کے بےبس ججز نہیں بلکہ گولی وٹینک سے لیس فوجی ہیں لہذا انجام کار پہلے قید وبند اور بعد میں منت ترلے کرکے جلاوطنی کی صورت نکلی
خلاصہ: چور چوری سے جاۓ، ہیرا پھیری سے نہ جاۓ- یقین سے کہتا ہوں کہ نوازشریف کو ابھی بھی رہا کردو تو وہ یہی حرکات کرے گا کیونکہ یہ اس کی خصلت ہے - ڈی این اے کا حصہ ہے- میاں صاحب کی شخصیت کا خلاصہ اسی کی پارٹی کے ایک ممبر نے یوں کیا تھا " حالت مجبوری میں ہاتھ دوسروں کے پاؤں پر اور اقتدار ملنے پر گردن پر ہوتے ہیں " -
سوئیلین بالادستی اور ووٹ کو عزت دو کا چورن تبھی تک ہے جب تک زندان میں ہے، اقتدار سے باہر ہے
-------------------------------
مارشل لاء تو محض نتیجہ تھا ان عوامل واسباب کا جو فروری 97 کے بعد پیدا ہوۓ
نونہالان جمہوریت محض آرٹیکل 6 کی بات کرتے ہیں لیکن ان حالات سے بالکل بےخبر ہیں جو قائد محترم کے دوسرے دور تا مارشل لا کے نفاذ تک رہے- جس میں میاں صاحب گردن میں اتفاق کا سریا ڈالے ہر اس شخص و ادارے کو روندتے جاتے تھے جو غیردانتسہ بھی راستے میں آیا- موصوف آئین وقانون کو پرکاہ کی حثیت نہ دیتے تھے کیونکہ " دوتہائی" اکثریت کا زعم جو تھا
فروری 97 میں جب قائد جمہوریت دو تہائی ووٹ لے کر منتخب ہوۓ تو " عزائم" عظیم وبلند تر تھے- انا کے کوہ ہمالیہ پر براجمان ، بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ " گلیاں ہو جان سنجیاں، وچ مرزا یار پھرے" - اشخاص و اداروں کو " پینڈے " میں رکھنے کا عزم مصمم ظاہر کیا
شروعات سپریم کورٹ سے کی- سجاد علی شاہ چیف جسٹس تھے جو فاروق لغاری کے ہاتھوں غیرآئینی طور پر برطرف بینظر حکومت کو بحال کرچکے تھے لہذا زیر عتاب ہونا فطری تھا- نوازشریف کے خلاف
" contempt "
کا کیس زیرسماعت تھا- ڈرایا دھمکایا، بات نہ بنی تو لاہور وپنڈی کے موالیوں کو حکومتی سرپرستی میں سپریم کورٹ پر لشکر کشی کروائی- ججز کو جان
کے لالے پڑے اور بعد میں استعفیٰ دے کر سجاد علی شاہ نے جان بخشی کروائی- گھناؤنی واردات کی فوٹیج یوٹیوب پر دیکھی جاسکتی ہے
انہونی بھی تو وطن عزیز میں ہی ہوتی ہے- جو غنڈہ گرد عناصر اس واقعہ میں ملوث تھے، وہ بعد میں اسمبلی ممبران بنے اور ایک تو پنڈی کا مئیر بھی بنا جوشاید اب بھی ہو
اس ملک میں آئین وقانون کی بالادستی کیوں نہیں قائم ہوسکی اور کیوں یہ تنزلی کا شکار رہا- ایک وجہ آمرضیا کے اس پروردہ پودے کی ہے جو سپریم کورٹ حملہ میں ملوث ہونے کے باوجود کسی قسم کی سزا جزا سے محفوظ رہا- حتیٰ کہ منصف اعلیٰ اپنے ادارے کی حرمت اس کے شر سے بچانے میں ناکام رہا
خیر، سپریم کورٹ سانحہ کے بعد موصوف کی ہمت بڑھ گئی- یقین ہوچلا چونکہ ملک " مائی جی کا ویڑہ " ہے لہذا دستور وقانون کو روند دو کسی نے نہیں پوچھنا - اعلیٰ عدلیہ کو دبانے کے بعد قائد جمہوریت نے فوجی معاملات کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کی ٹھانی- کئیوں سے جونئیر ایک غیرمعروف جنرل کو آرمی چیف مقرر کیا- وجہ ظاہر تھی کہ چونکہ مہاجر ہے اور جونئیر بھی، تو تابع رہے گا
اس دوران واجپائی کو بلایا، سبھی طبقات نے تحسین وتائید کی- دوسری طرف فوجی قیادت کچھ اور پلان بناۓ ہوئی تھی- کارگل ایڈونچر کیا اور بعد کے واقعات تاریخ ہیں
کارگل واقعہ کے بعد نوازشریف اور جنرل مشرف میں بدمزگی پیدا ہوچکی تھی- دن بدن فاصلے بڑھتے جا رہے تھے- کان بھرنے والے غیرمنتخب مشیر اور ذاتی انا کسی لمحے چین نہ لینے دیتی تھی- قوم کا باشعور طبقہ اس مخاصمت پر دم بخود تھا اور سمجھتا تھا کہ یہ معاملات زیادہ دور تلک نہیں چلیں گے- اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا
بارہ اکتوبر کو نوازشریف کا ملتان میں جلسہ تھا- عوام کو سڑکوں و پلوں کی نوید سنائی- دوسری طرف مشرف کو جو سری لنکا کے دورہ پر تھا، کو حالت جرنلی یعنی یونیفارم میں جہاز میں بیٹھے بیٹھے برطرف کیا اور اپنے ایک منظورنظر بٹ ( میاں خود بھی کشمیری بٹ ہے) کا تقرر کردیا
نوازشریف یہ بھول گیا کہ یہ سپریم کورٹ کے بےبس ججز نہیں بلکہ گولی وٹینک سے لیس فوجی ہیں لہذا انجام کار پہلے قید وبند اور بعد میں منت ترلے کرکے جلاوطنی کی صورت نکلی
خلاصہ: چور چوری سے جاۓ، ہیرا پھیری سے نہ جاۓ- یقین سے کہتا ہوں کہ نوازشریف کو ابھی بھی رہا کردو تو وہ یہی حرکات کرے گا کیونکہ یہ اس کی خصلت ہے - ڈی این اے کا حصہ ہے- میاں صاحب کی شخصیت کا خلاصہ اسی کی پارٹی کے ایک ممبر نے یوں کیا تھا " حالت مجبوری میں ہاتھ دوسروں کے پاؤں پر اور اقتدار ملنے پر گردن پر ہوتے ہیں " -
سوئیلین بالادستی اور ووٹ کو عزت دو کا چورن تبھی تک ہے جب تک زندان میں ہے، اقتدار سے باہر ہے