"باتیں امریکی خانہ خرابوں کی"

ابابیل

Senator (1k+ posts)
11207327_369401809924712_4987530809771982073_n.jpg


امریکی خانہ جنگی (1861-65ء) امریکی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے۔ غلاموں کی آزادی کے سوال پر لڑی جانے والی جنگ اگرچہ 9اپریل 1965ء کو ایپومیٹوکس (Appomattox) کے مقام پر کنفیڈریٹ فوجوں کے سپہ سالار جنرل رابرٹ ای لی کے ہتھیار ڈالنے سے ختم ہو گئی، تاہم دور دراز علاقوں میں دوسرے جرنیل لڑتے رہے، حتیٰ کہ 23جون کو ریڈ انڈین چیرو کی قبیلے کے سردار اور کنفیڈریٹ بریگیڈیئر جنرل سٹینڈواٹی نے ڈوکس ویل (Doaksville) موجودہ اوکلاہوما میں جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کر دیئے۔ امریکہ سے علیحدہ ہونے والی گیارہ جنوبی ریاستیں (کنفیڈریٹس) وسیع زرعی فارموں پر کام کرنے والے کالے غلاموں کی آزادی دینے کے لئے آمادہ نہ تھیں۔

کنفیڈریٹ جنگی بحری جہاز شیناندواہ (Shanandoah) شمالی بحرالکاہل اور بحرہند سے گزر کر 6نومبر 1865ء کو لیور پول (انگلستان) پہنچ گیا جہاں اس کے عملے نے ہتھیار ڈالے اور یہ غلاموں کی آزادی کے علمبردار امریکی صدر ابراہام لنکن کے انتخاب کی پانچویں سالگرہ تھی۔ اس سے پہلے 14اپریل 1865ء کو صدر لنکن کو واشنگٹن کے تھیٹر میں گولی مار دی گئی تھی۔ اس کا تابوت جس ریل گاڑی میں اس کے آبائی شہر سپرنگ فیلڈ (ریاست الی نوائے) لے جایا جا رہا تھا، لاکھوں لوگ اس پر عقیدت سے ٹوٹ پڑے تھے۔ انہیں 4مئی کو دفنایا گیا اور23و 24مئی کو پنسلوینیا ایونیو (واشنگٹن) میں ڈیڑھ لاکھ فوجیوں نے نئے صدر اینڈریو جیکسن اور وفاقی افواج کے فاتح لیفٹیننٹ جنرل یولیسز ایس گرانٹ کو گارڈ آف آنر پیش کیا۔

اگلے سال 1966ء میں امریکی جمہوریہ کی گرینڈ آرمی تشکیل پائی جو جنگ دیدہ فوجی افسروں کی لابی کرنے والی فورس بن گئی۔ اس کے بعد کئی دہائیوں تک نئے صدر کے انتخاب میں امریکی فوج اسی طرح لاکھوں کی تعداد میں طاقت کے مظاہرے سے مدد کرتی رہی۔ 20اگست 1966ء کو صدر اینڈریو جانسن نے اعلان کیا کہ ٹیکساس میں مزاحمت کی آخری پاکٹس کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ اسی لئے بعض مؤرخین اس تاریخ کو امریکی خانہ جنگی (سول وار) کا اختتام قرار دیتے ہیں لیکن 1949ء میں امریکی ادیب رالف ایلیسن نے ہارورڈ یونیورسٹی میں یہ کہہ کر چونکا دیا کہ امریکی سول وارکبھی ختم نہیں ہوئی، بس یہ ہماری خوش فہمی اور کبھی نہ ختم ہونے والی رجائیت پسندی یا پُرامیدی (optimism) ہے جس نے ہمیں یہ فرض کرنے کی راہ دکھائی ہے کہ جنگ کبھی ختم بھی ہوئی تھی۔

نیویارک ٹائمز کے قلمکار ٹیڈوِڈمر کے بقول اتنی بڑی تعداد میں جنگ دیدہ آدمیوں کی موجودگی نے عشروں تک جنگ کوزندہ اور سلگائے رکھا۔ اس دوران میں امریکی فوجیوں کے لئے پنشن کا آغاز ہوا۔ فوجی ہسپتال بنے۔ ان کے سروس ریکارڈ رکھے گئے اور ان کی ذہنی و جسمانی صحت کی ذمہ داری حکومت نے لی۔ وال سٹریٹ جرنل کی ایک خبر کے مطابق نارتھ کیرولینا کی آئرین ٹرپلٹ نامی کھوسٹ بڑھیا آج بھی اپنے باپ کی پنشن سے 73.13 ڈالر ماہانہ وصول کرتی ہے جس نے کہ سول وار کے دوران میں کنفیڈریٹ اور یونین دونوں فوجوں میں خدمات انجام دی تھیں۔ اس تضاد کے باعث اس کی لوحِ مزار پر لکھا ہے: وہ ایک سول وار فوجی تھا۔
امریکی خانہ جنگی پربہترین ناول 1890ء کی دہائی میں سٹیفن کریں اور ایمبروز بیئرس نے لکھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1885ء کو کوکاکولا کے نام سے منظرعام پر آنے والا مشروب کوکاکولا ایک سابق کنفیڈریٹ افسر جان پیمبرٹن نے متعارف کرایا۔ خانہ جنگی کے آخری دنوں میں اسے تلوار کے زخم لگے تھے۔ ان زخموں کا درد کم کرنے کے لئے وہ نشہ آور مارفین کا عادی ہو گیا۔ وہ بنیادی طور پر فارماسسٹ (ادویہ ساز) تھا۔ اس نے کوکا کے پتوں اور کولا کی گری (nut) سے ایک دافعِ درد فارمولا آزمایا۔

اس اکسیر مشروب کی اوّلین مارکیٹنگ میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس سے اعصابی کمزوری (Neurasthenia)، سردرد اور نامردی کے علاج میں مدد ملتی ہے۔ آج وہی کوکا کولا عالمی مشروبات کی منڈی پر چھایا ہوا ہے۔
امریکی سول وار نے اسلحے کی صنعت کو بہت فروغ دیا۔ ونچسٹر رائفل (ماڈل 1866ء) اس صنعت کی شہزادی تھی جسے ری لوڈ کرنا بہت آسان تھا اور یہ یورپ میں بہت مقبول ہوئی۔ 1870ء کی جرمنی فرانس جنگ اور روس کی سمرقند و بخارا پر یلغار میں یہ رائفل بہت بکی۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ (USA) کی افواج نے مغرب کی طرف ریڈ انڈین باشندوں کے خلاف نئی فوجوں مہمات میں ونچسٹر رائفل سے ان نہتے انسانوں کا خوب شکار کیا۔ گویا اب سول وارکا رخ شمال سے جنوب کے بجائے مشرق سے مغرب کو ہو گیا تھا۔ یورپ سے آئے گورے اچکّے ٹام، بش وغیرہ امریکی سرزمین کے سرخی مائل اصلی باشندوں (Red Indians) کا نسلی صفایا کرتے رہے۔ ان ستم رسیدوں پر پہلا ظلم کرسٹافر کولمبس نے انہیں سرخ ہندی (ریڈ انڈین) کا نام دے کر کیا تھا، وہ 1492ء میں جزائرغرب الہند (West Indies) پہنچ کر یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ وہ ہندوستان (Indies یا India)

کے مغربی جزیرے دریافت کر چکا ہے، لہٰذا اس نے ان جزیروں کو ویسٹ انڈیز اور مقامی باشندوں کو ریڈ انڈین کہہ دیا۔

امریکی خانہ جنگی کے بعد مقامی باشندوں سے جو زمینیں ہتھیائی گئیں وہاں گورے جنگ دیدہ فوجیوں War Veterans کو میلوں لمبے چوڑے قطعات عطا کر دیئے گئے جہاں ان کی نسلیں آج عیش کرتی ہیں۔ یہ سب ونچسٹر رائفلوں کا کمال تھا جنہیں نہتے ریڈ انڈین بھوت بندوقیں (Spirit Guns) کہتے تھے۔ اسلحے کے بل بوتے پر گوروں نے ان مظلوموں کو سینکڑوں میل دور جنگلوں میں Reservations میں جھونک دیا۔ ہٹلر نے امریکیوں کی پیروی کرتے ہوئے نازی کنسنٹریشن کیمپ قائم کئے۔ امریکی کی جانب مغرب فتوحات نے امریکی ریلوں کا جال بحرالکاہل کے ساحل تک پہنچا دیا۔ 1865ء سے 1873ء تک 35ہزار میل لمبی نئی ریلوے لائنیں مع ٹیلیگراف لائنز بچھائی جا چکی تھیں۔ 1870ء تک مجموعی امریکی دولت 30ارب ڈالر یعنی 1860ء کی نسبت تقریباً دوگنا ہو چکی تھی اور اس دہائی میں یورپی تارکین وطن کی آمد سے آبادی میں اضافہ22.6 فیصد ہوا اور کل آبادی 3کروڑ50لاکھ ہو گئی۔

1859ء میں مغربی پنسلوینیا میں تیل کی دریافت سے جنگی مشینری کو چکنانے کے لئے لبریکیٹنگ آئل تیار کر لیا گیا۔ اس وقت تک ٹیلی فون، موٹرکار، ہوائی جہاز اور ریڈیو جیسی ایجادات ابھی وجود میں نہیں آئی تھیں۔ امریکن ایکسپریس نامی فرم اسی زمانے میں تیز رفتار ریل گاڑیوں سے فوجی سامان محاذ جنگ پر پہنچانے کے لئے قائم ہوئی تھی جبکہ1863ء میں جان ڈی روکی فیلر نے سٹینڈرڈ آئل کمپنی قائم کر کے اس میدان میں اولیت حاصل کی، پھر 1866ء میں ریاست ٹیکساس میں تیل نکل آیا اور بیسویں صدی کی ابلیسی صلیبی جنگ کے بانی جارج بش کے پردادا اور دادا وہاں تیل کی دولت میں کھیلنے لگے۔ امریکی خانہ جنگی کے نتیجے میں نو دولتیوں کا جو ٹولہ ابھرا، اس کے اَخلاف کے ہاتھوں میں آج زمانے بھرکی طنابیں ہیں۔ سول وار سے لاکھوں کروڑوں افریقی نژاد غلاموں کوفائدہ پہنچا اور وہ گوروں کی بدترین جسمانی غلامی سے نجات پا سکے اگرچہ وہ آج تک گورے صلیبیوں اور یہودیوں کی ثقافتی، سماجی اور سیاسی غلامی میں گرفتار ہیں۔ مرتد مسیحی اوباما (بارک حسین) کو ان میں شمار مت کیجئے کہ وہ تو کینیا (افریقہ) کے ایک آزاد مسلمان حسین اوباما کا نطفہ ہے۔

امریکی سول وار ختم ہونے پر6دسمبر 1865ء کی 13ویں آئینی ترمیم سے امریکہ میں کالے غلام آزاد ہو گئے مگر ریاست مسسپی نے اس کی توثیق سب سے آخر میں 1895ء میں کی، تاہم سیاہ فام افریقیوں کو امریکہ میں مکمل شہریت اور ووٹ کا حق 1965ء میں ملا۔ امریکی شہروں فرگوسن (مونٹانا)، کلیولینڈ اور بالٹی مور میں حالیہ دنوں میں بدمست گورے پولیس والوں نے سیاہ فام نوجوان جس سفاکی سے قتل کئے ہیں، اس پر نیویارک ٹائمز یہ لکھنے پر مجبور ہے کہ افریقی امریکیوں کی بڑی تعداد سول وار کے اختتامی جشن سے خود کو کس قدر الگ تھلگ محسوس کرتی ہے!

محسن فارانی
 
Last edited by a moderator:

moazzamniaz

Chief Minister (5k+ posts)
۔ لگتا ہے محسن فارابی کسی امریکی کنویں میں بند ہے ، اسکو دائشی ریاست ، شہابی صومالیہ ، بوکو حرامی نائیجریا یا پھر طالبانی افغانستان کی سیر کرواؤ، اسکے چودہ طبق روشن ہوں. اسکو سمجھ آے کہ سفاکی کیا ہوتی ہے؟؟ غلامی ، غلام اور لونڈیاں کیا ہوتی ہیں؟؟ گندگی میں سرتاپا ڈبکی لگا کر ،غلاظت کے ڈھیر پر بیٹھ کر دوسروں کے دامن پر لگے ہوے مٹی کے ایک چھینٹے پر تنقید کرنا کیسے لگتا ہو گا؟؟

طالبانوں کی اپنی ہی دنیا ہے، اغیار سے چھترول کرواتے جاؤ اور مسلمان ماری جاؤ

 

Shanzeh

Minister (2k+ posts)

شانزے خان ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميں نے يہ بات بارہا کہی ہے کہ نا تو ہم عقل کل ہيں اور نا ہی ہماری تاريخ غلطيوں سے پاک ہے۔ تاہم ايک تعميری تجزيہ اسی وقت ممکن ہے جب آپ رپورٹ کی جانے والی خبروں اور تاريخی واقعات کو ان کے درست تناظر ميں پيش کريں۔ مثال کے طور پر اگر کوئ امريکی معاشرے ميں نسل پرستی جيسے معاملے کی نشاندہی کرتا ہے اور اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ کلو کليس کلين امريکی تاريخ کا حصہ رہا ہے تو پھر ايک تعميری اور معنی خيز بحث کے ليے اس حقيقت کا ادارک کرنا بھی ضروری ہے کہ اسی امريکہ ميں آج
باراک اوبامہ صدر ہيں۔

يہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ امريکہ کے ناقدين جو امريکہ کو زوال پذير معاشرہ ثابت کرنے کے ليے کسی
بھی موقع کو ہاتھ سے جانے نہيں ديتے اور اپنے دلائل کو تقويت دينے کے ليے کسی بھی ايسی خبر کو اجاگر کرنے سے نہيں چوکتے ، وہ انتہائ سہل طريقے سے امريکہ کے مبينہ معاشی مسائل اور عدم استحکام سے متعلق خبروں کو اس وقت فراموش کر ديتے ہيں جب پوری دنيا پر امريکی اثر و رسوخ اور مبينہ سازشی منصوبوں کی تشہير مقصود ہوتی ہے۔

يقینی طور پر اگر مختلف فورمز پر امريکی ناقدين کے الزامات کے مطابق امريکہ کے پاس کوئ ايسی جادو کی چھڑی ہوتی جس کی بدولت ہم ہزاروں ميل دور ايسے معاشروں ميں مذہبی اور فرقہ وارانہ کشيدگی کو ہوا دينے کی صلاحيت رکھتے جن کی ثقافت اور معاشرت بھی ہم سے ميل نہيں کھاتی، تو پھر ہم اسی صلاحيت اور بے پناہ طاقت کو خود اپنے ہی معاشرے ميں واقعات کے تسلسل اور نظريات پر قدغن اور پھيلاؤ کے ليے بھی استعمال کرتے۔

يہ دعوی انتہائ غير منطقی ہے کہ ايک جانب تو امريکہ کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور زوال پذير ملک کے طور پر پيش کيا جاۓ اور پھر اسی ملک کو "طاقت کے نشے ميں سرشار" ايک ايسی منہ زور عالمی طاقت کا طعنہ ديا جاۓ جو پوری دنيا ميں کسی بھی ملک کے سياسی، معاشرتی اور معاشی نظام ميں ردوبدل کرنے کے علاوہ اسے مکمل طور پر کنٹرول کرنے کی صلاحيت بھی رکھتا ہو۔

يہ دونوں دعوے بيک وقت درست نہيں ہو سکتے ہيں۔


شانزے خان ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

[email protected]

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

USDOTURDU_banner.jpg
 

feeqa

Senator (1k+ posts)
I am not here to advocate America but reality is that i learn humanity here. I learn how to smile back even though you don't know the person. I learn that truth always win although at first you face some difficulties.
I am doing a good job & my boss is always gora & never had issue because of my race, colour & religion beliefs. I think if we as Pakistani & Muslim just follow our Prophet's (PBUH) last sermon to Haj, we'll find solutions to our problems.
 

Back
Top