ارے یہ تو بڑی حیرت اور خوشی کی بات ہے اگر آپ تپی ہوئی نہیں ہیں تو۔ لیکن ایک زیادتی آپ ضرور کررہی ہیں، کم از کم مد مقابل کا موقف تو جاننا چاہئے ، آپ نے تو پکڑ کر ٹیلی فون کی تار ہی کاٹ دی۔ نادان جی ً! ایک بات آپ سے ضرور کہنا چاہوں گا۔ اس دنیا میں ہر رنگ کے انسان پائے جاتے ہیں، کوئی بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں، کوئی کم حساس ہوتے ہیں اور کوئی بہت زیادہ لا پروا ، اب فرض کریں کہ ایسے دو لوگ آپس میں دوست بن جائیں(ایک بہت حساس، ایک لاپروا) تو جو حساس ہوگا وہ تو دوسرے (لاپروا) دوست سے بھی یہی توقع کرے گا کہ وہ اسی طرح اس کے بارے میں سوچے / خیال کرے جیسا کہ وہ خود کرتا ہے، لیکن اگر آپ چھلانگ لگا کر اس دوست کی فطرت میں گھس جائیں تو آپ کو احساس ہوگا کہ اس کی تو نیچر ہی ایسی ہے، وہ اگر بے نیازی سے پیش آتا ہے یا آپ کے بارے میں ویسے نہیں سوچتا جیسے کہ آپ اس کے بارے میں سوچتے ہیں، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ آپ کی قدر نہیں کرتا، بلکہ یہ اس کی آپ سے متضاد نیچر کی وجہ سے ہے۔
نادان جی! ہمیں دوستوں کو خامیوں اور خوبیوں سمیت ہی قبول کرنا ہوتا ہے، اگر ہم پرفیکٹ انسان ڈھونڈنے نکلیں تو پھر ساری زندگی بغیر دوست کے ہی گزارنی پڑے گی ۔ ذرا اس پہلو پر بھی غور کیجئے۔