اقرار الحسن کامکروہ چہرہ بےنقاب،علاج کےنام پرجمع شدہ ایک کروڑکاچندہ کھاگیا

Gujjar1

Minister (2k+ posts)
iss forum per jitne b Iqrar k fan ya supporters hein un se mere 2 simple questions hein.
1st, kya crimes, gunah, sex,bud faili, gareeb, middle class, ya 1 laakh mein aik wadayra,chd,sardar karta hai,? ya 3* hotels se le ker 5* hotels, + guest houses + farm houses mein 24/7 crimes gunah sex,bud failiyaa, sharab wa shabab ke mehfilein nahi hoti? kya kabhi aaj tak iss iqrar ne himmat ke kisi b hotel mein ja k sting operation karne ke?
2nd... kabhi iss ne pakistani showbiz se wabasta actor ya actress ko expose karne k liay kabhi sting operation keeya? koi director, koi producer, koi news media ka anchor k khilaaf aaj tak koi operation keeya?
waseem badami to thaali ka began hai, wo na teen mein hai na tera mein. karachi kharadar ka londa,, mou uthaa k anchor bun gaya,, aur aaj apne aap ko cash kerwa raha hai her terha se,,
I have exactly same point of view about them i never forget Wasim Badaamis clip where he insulted commedians one should ask him whats your acheivement other than sifarish from MQM and came on TV . they never did any programm against MQM when they were in power. Both them have 0 telent or creativity.
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
for example what type of "qanoon saazi"?
جی خالی قانون سازی نہیں، نظام میں اصلاحات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

قانون سازی میں اگر آپ چاہتے ہیں تو پبلک مقامات پر پہلے تو مردانہ اور فیملی اور خواتین کے لیئے حصّے علیحدہ کریں۔ اختلاط سب سے پہلی وجہ ہے اس قسم کے واقعات کی۔ جب کوئی شہ دسترس میں ہو تو ہی دست درازی ممکن ہے۔

جہاں ایسا ممکن نہیں، وہاں سیکیورٹی کے پیشِ نظر ان جگہوں پر متناسب نفری تعینات کی جائے۔ یا پھر مردوں کے انٹری کے اوقات علیحدہ کیئے جایئں۔

حکومت برائے تحفظِ نسواں کے لیئے ایک علیحدہ ہیلپ لائن قائم کرے، جس میں اس قسم کے مسائل سے نپٹنے کے لیئے خاص تربیت یافتہ اہلکار بھرتی کیئے جائیں، تاکہ بروقت اور مناسب اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔

خواتین کو اپنی ذاتی حفاظت کے طریقے اسکول اور کالج کی تعلیم کے ساتھ سکھائے جائیں، جِن میں پیپر اسپرے، کسی چھوٹے چاقو کا استعمال اور اپنے آپکو حملہ آور کی گرفت سے بچنے اور چھڑوانے کے طریقے سکھانے چاہیٗں۔ ساتھ ہی انکو کسی ایسے واقعے کی صورت میں قانونی معلومات فراہم ہونی چاہیئں کیونکہ اکثر ایسے واقعات میں یا تو ثبوت ضائع کردیئے جاتے ہیں یا ناکافی رہتے ہیں اور آخر میں مظلوم ہو ہی حزیمت ہوتی ہے۔ لہٰذا انکو معلوم ہونا چاہیئے کہ ایسے معاملات میں کونسے قانونی نقطے ہیں جنھیں اس قسم کی شکایات درج کروانے سے پہلے مکمّل کرنا لازمی ہے۔

علاقے کے ہر کالج، یونیورسٹی اور دفتر میں پولیس کی طرف ست خواتین کے لیئے محفوظ سفری راستوں کا نقشہ موجود ہونا چاہیئے اور قانونی طور پر خواتین ملازمین کو جن کو دیر تک دفتر میں کام کرنا پڑتا ہے، ان کو یہ حق فراہم ہونا چاہیئے کہ ان کے دفتری مالکان ان کے گھر واپسی کے سفر کو محفوظ بنانے کے اقدامات کریں۔ اگر خدانخواستہ ایسا کوئی کام ہوتا ہے تو پھر دفتر والوں پر بھی قانونی کاروائی اور بھاری جرمانے عائد کریں۔

پھر آتے ہیں دوسری جانب، یعنی خواتین کے لیئے احتیاطی تدابیر پر:

میرا جسم میری مرضی والوں کو معلوم ہونا چاہیئے کہ صرف انکا جسم ہی انکا ہے، سارا پاکستان ان کے والد صاحب کی جاگیر نہیں۔ لہٰذا اپنی ذاتی حدود کے اندر جو مرضی ہے پہنیں یا کریں، لیکن پبلک مقامات پر ایک خاص ڈریس کوڈ اور اخلاقی ذمّہ داری کا مظاہرہ کریں۔ پبلک مقامات پر کھلے عام ناچ گانے وغیرہ سے پرہیز کریں، ورنہ بصورت دیگر ان کے خلاف اخلاقی اشتعال انگیزی کی دفعات شامل کی جائیں۔

پھر آتے ہیں انتظامی امور کی اصلاحات کے اوپر۔

مینارِ پاکستان پر لگی سیکیورٹی کیمرے میں فوٹیج موجود ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس فوٹیج کا فائدہ کیا جب کام ہو گیا؟
کہاں تھے وہ لوگ جن کو ان کیمروں کی فوٹیج کی نگرانی کے لیئے معمور کیا گیا تھا؟ انھوں نے پہلے اطلاع پولیس کو کیوں فراہم نہ کیں؟

ڈی ایس پی پولیس سے پوچھا جانا چاہیئے کہ چودہ اگست کے دن ایسے کسی عوامی رش کی جگہہ کو پہلے سے ہی سیکیورٹی کے مدّنظر پولیس کی تعیناتی کیوں نہ کی گئی؟ پولیس اڑھائی گھنٹے کے بعد کیوں پہنچی؟ اور جب پہنچی بھی تو کیا کوئی خاتون اہلکار ساتھ تھیں؟ ایسی کسی واقع کے لیئے ایک جامع پروٹوکول اور ایس او پی بنانے کی ضرورت ہے، جس کے پیشِ نظر ذمّہ دار اہلکاروں کی کاروائی کو پرکھا جاسکے۔

کسی بھی مذہبی یا قومی تہوار سے سات دِن قبل، سیکیورٹی کا پلان ہوم منسٹری سے منظور کروانا چاہیئے اور تین دِن قبل تک تمام انتظامات کو یقینی بنا لینا چاہیئے۔ کیونکہ ان دنوں میں صرف اس قسم کے واقعات ہیں نہیں، اور بھی بہت سارے واقعات رونما ہوتے ہیں، جن میں ٹریفک ایکسیڈنٹ، چوری، لوٹ مار اور لڑائی جھگڑے تو ویسے ہی سرِ فہرست ہیں۔

پولیس کو عام دنوں میں بھی، خاص کر رش کے اوقات میں، جن میں صبح دفتری اوقات اور اسکول و کالج کے اوات شامل ہیں اور اس کے بعد چھٹی کے اوقات ہیں، ان پر خاص جگہوں، مثلاً بس اسٹاپ اور غیر محفوظ اکیلی جگہوں پر گشت یا اہلکار کی تعیناتی کو یقینی بنانا چاہیئے۔ یہ اہلکار صرف ڈی ایس پی، اور ایس ایس پی کی رہائش گاہ اور پرسنل پروٹوکال کے لیئے نہیں ہوتے، اور نہ ہی سرکاری ڈیزل اور گاڑیاں اس مقصد کے لیئے ہوتے ہیں کہ ان کے بچوں کو اسکول چھوڑنے اور لینے کے لیئے آیا جایا کریں۔

غرضیکہ کرنے کو بہت کچھ ہے، اگر صرف ہمارے اندر کچھ کرنے کی چاہ ہو۔

لیکن ہم اپنی روائتی پدرسری سے باہر نہیں نکلنا چاہتے۔ نتیجتاً ہماری ہی عزّت، یعنی ہماری ہی مائیں اور بہنیں اس معاشرے میں غیر محفوظ ہوئی جارہی ہیں۔
 
Last edited:

Wadaich

Prime Minister (20k+ posts)
خاتون سے ہمدردی بھلے نہ کیجیئے، لیکن اس کے بعد کتنی ویڈیوز منظر عام پر آچکی ہیں۔ اپنے معاشرے کا اصل چہرہ دیکھیں اور ایسے نامناسب رویّوں کے انسداد کی کوشش کریں، تاکہ معاشرہ اور محفوظ ہوسکے۔ بھلے سے نئے قوانین میں خواتین کے لیئے بھی چیزیں واضع کریں کہ اشتعال کی مرتکب اگر وہ نکلیں تو انھیں سزا دی جائے، جرمانے عائد کریں، لیکن مقصد اگر بہتری ہو تو یہ کریں۔ یہاں مقصد اپنی سیاسی ساکھ کو بچانا رہ گیا ہو یا اپنی کسی خاص پدر سری معاشرے کی اخلاقی کرپشن کا دفاع ہو تو وہاں صرف لڑکی کو دو گالیاں نکالیں اور چپ کرجائیں۔

https://twitter.com/x/status/1427725386876657669
یہ سب بھی ڈرامے ہیں؟
Let us please analyze as to which factor turned the society into the current state? Isn't it the vulgar 24/7 content running on the media which is under total control of Khooni Liberal mindset sponsored by the West and unregulated social media. Once our sisters & daughters were safe in four walls. Once debauchery was confined in red light areas and adult content to cenema houses. When we were kids once a kissing scene appeared in the movie "Knight Rider". It became a big social issue. Now the channels run taboos/incest content as normal cases. What do we expect from the society where majority is illiterate? We abuse the society, but are mum about the real culprits, rather respectful........ shooting the messenger or crying on effect instead of rooting out the cause.
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
Let us please analyze as to which factor turned the society into the current state? Isn't it the vulgar 24/7 content running on the media which is under total control of Khooni Liberal mindset sponsored by the West and unregulated social media. Once our sisters & daughters were safe in four walls. Once debauchery was confined in red light areas and adult content to cenema houses. When we were kids once a kissing scene appeared in the movie "Knight Rider". It became a big social issue. Now the channels run taboos/incest content as normal cases. What do we expect from the society where majority is illiterate? We abuse the society, but are mum about the real culprits, rather respectful........ shooting the messenger or crying on effect instead of rooting out the cause.
بہ صد احترام، آپ گھٹنے کے درد کی وجہ کان میں ڈالے گئے قطروں کو قرار دے رہے ہیں۔

عریانی و فحاشی ایک علیحدہ موضوع ہے اور اس کے مسائل علیحدہ ہیں، جن میں آجکل بڑھتی ہوئی محبّت شامل ہے، لوگوں کی جنسی بے راہ روی ہے اور اس سے پیدا ہونے والے معاشرتی مسائل ہیں۔

لیکن یہ واقع اور اس کے ساتھ بڑھتی ہوئی جنسی ہراسگی کے محرّکات، میری ناقص رائے کے حساب سے بہت مختلف ہیں۔
اگر سچ پوچھتے ہیں، تو یہ مسائل سب سے پہلے ہمارے گھروں کی تربیت سے شروع ہوتے ہیں، جہاں لڑکی کو تو سکھایا جاتا ہے کہ ایسے نہیں بیٹھنا ویسے نہیں بیٹھنا ، یہاں نہیں آنا اور یہ نہیں پہننا وغیرہ شامل ہیں،

لیکن دوسری جانب، لڑکا اگر بچپن سے لڑکیوں سے مستی کرتا ہے تو اسے اسکی اپنی ماں ’’شرارتی‘‘ کہہ کر ایک ہنسی میں اڑا جاتی ہے۔ اگر کہیں راستے میں تیّار ہوا کھڑا ہوتا ہے تو والد صاحب بھی خود گھر آکر اپنے جوان کی طرف اٹھنے والی ہر خاتون کی نظر کو اپنی تربیت کا کمال سمجھتے ہیں اور چھاتی پانچ انچ چوڑی کرتے ہیں۔

یہ مسئلہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں اگر کسی لڑکی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہوجائے تو اس کے والدین کو سمجھایا جاتا ہے کہ زیادہ بات نہیں کرنا ورنہ تمھاری اپنی لڑکی کی بدنامی ہوگی۔ مسئلہ وہاں سے پیدا ہوتا ہے جہاں ایسے کسی واقع میں ملوّث لڑکے کے گھر والے اسے آرام سے گھر لے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کسی لڑکی کا نام اگر برخوردار کے ماتھے پر لکھا بھی گیا تو کوئی مسئلہ نہیں، وہ لڑکا ہے۔۔۔۔ پھر سب سے بڑی حرکت ان ماں باپ کی ہوتی ہے جو کسی ایسے لڑکے کو بعد میں اپنی بچی کا رشتہ بھی دے دیتے ہیں، کہ بس لڑکے کی کمائی دیکھنی ہے، ورنہ لڑکے پر کسی معاشقے کا کیا اثرپڑتا ہے یا کیا ہوا اگر وہ سارا دن محلے کی لڑکیوں کو چھیڑتا ہے؟

صاحب، برا نہ مانیئے گا، لیکن جب ایک مرد کے ذہن میں یہ ڈال دیا جاتا ہے کہ وہ چاہے جو مرضی کر لے، وہ کسی عورت سے برتر ہے، اور عورت ہی کمتر ہے، تب ہی ایسے جاہلانہ رویئے بڑھتے ہیں اور یہ روایات ہمارے یہاں ہندو معاشروں سے زیادہ آئی ہیں۔ جہاں کہا جاتا ہے کہ غریب کی جورو سب کی بھابھی

اب یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ پہلے ایسے واقعات کیوں کم تھے؟ اسکی وجہ پردہ اور اختلاط کی پاپندی ضرور تھی، لیکن اس کے علاوہ ماں باپ کے رویّے بھی تھے، جہاں محلّے کا کوئی بزرگ بھی کہیں کوئی ایسی حرکت دیکھتا تھا تو پورا محلّہ اس لڑکے کی درگت بنا ڈالتا تھا اور والدین گھر سے ہی لڑکے کو سکھاتے تھے کہ کسی ایسے کام میں ملوّث پایا گیا تو کل کو تیری اپنی بہنیں اور مائیں ایسی حرکتوں کا شکار ہونگی۔ پھر دو چار کو اپنے سامنے درگت بنواتے ہوئے دیکھ کر یہ بچے ہمّت ہی نہیں کرتے تھے کسی شریف زادی کو تنگ کرنے کی۔

فحاشی کے مسائل یہی ہوسکتے ہیں کہ معاشرے میں زناء بڑھ جائے، لیکن دست درازی ایک اور مسئلہ ہے۔ وہ بھی اس جنگلی طور کی دست درازی، یہ بہت ہی سنگین مسئلہ ہے کہ جیسے کسی کو کسی قانون، کسی سزا کا کوئی خوف ہی باقی نہ رہ گیا ہو۔
 

Back
Top