اس حمام میں کالم نگاربھی

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)

logo.jpg
اس حمام میں کالم نگاربھی…



مظفر اعجاز

-ابھی توپاکستانی صحافی اینکرپرسن اورابلاغ کے جنات یعنی میڈیاجائنٹس کے نام آرہے تھے اورصحافی اینکرپرسن اورمیڈیا جنات خودہی بے نقاب ہورہے تھے کہ پہلے سے بے نقاب امریکی صحافی کرسٹینالیمب نے ایک اور نقاب الٹ دی اس نے صاف کہہ دیاکہ پاکستان کے چیف جسٹس افتخارمحمدچودھری کے بارے میں مجھ سے منسوب تمام باتیں من گھڑت ہیں۔ میں جوکچھ جانتی ہوں وہ میڈیا میں پڑھا مجھ سے منسوب باتیں محض قیاس آرائیاں ہیں۔ ملک ریاض نے مجھ سے رابطہ نہیںکیا رپورٹیں بالاہی بالا ہیں۔ کرسٹینالیمب نے ٹوئٹر پر سارے پردے اٹھادیے اورپاکستان کے نام نہاد بڑے اور معززکالم نگاروں اوراینکروں کے دعوے بھی بے نقاب کردیے۔ ارسلان افتخار چودھری کیس میں ابھی تک جوکارروائی ہوئی ہے اس میں ہرطرح افتخار چودھری کا پلہ ہی بھاری رہاہے۔یہ بات کہ افتخارچودھری کہاں سے آگئے ۔ کیسں تو ان کے بیٹے کے خلاف ہے۔اب بالکل بے معنی ہوگئی ہے کیونکہ ملک کا بچہ بچہ جانتاہے کہ یہ ساراکھڑاگ جسٹس افتخارچوہدری کے گردگھیرا تنگ کرنے کے لیے کھیلاگیاہے۔ وہ جو ملک ریاض فرمارہے ہیں کہ بحریہ ٹائون میں ہرخرچ کا حساب کتاب رکھاجاتاہے تو ہماری دلچسپی تو اینکرپرسنزاورمیڈیا کے جنات پر خرچ کے حساب میں ہے ہم بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ کس حق گو اورحق کے دعویدار اینکرکی کیا قیمت ہے۔ امیدہے بحریہ ٹائون ایسے سارے معاملات جن میں اینکر پرسنزکالم نگاروں اورمیڈیاآئی کونزکو رقوم دی گئی ہیں منظرعام پر لے آئے گا ورنہ عدالت میں تویہ سارا چٹھہ آناہی چاہیے یہاں ہم نے کچّا اس لیے نہیں لکھاکہ بحریہ ٹائون کا چٹھہ پکا ہی ہوا۔ہم جانناچاہتے ہیںکہ اسلام آبادکے زیروپوائنٹ کی کیاقیمت ہے۔ اور’’سرمایہ کی بات‘‘ یا کیپٹل ٹاک کتنے کاہوتاہے۔ ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اگرایک کالم لکھنے پر ملک ریاض ایک لاکھ روپے لے کر کالم نگارکے گھرآسکتے ہیں تو آج کل ملک ریاض کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے پرکتنے روپے گھرآسکتے ہیں۔ یا یہ کہ جو وصول کرچکے اس کا حق اداکررہے ہیں۔ یہ کسی کالم کا جواب نہیں ہے لیکن ایک منفی بے معنی اور غلط سوچ کو فروغ دینے کی کوشش کو روکنے کی کوشش ضرور ہے اور وہ یہ کہ اگرملک ریاض کو کچھ ہوگیا تو اس ملک کے ہزاروں بے روزگار‘ضرورتمند‘ محتاج ‘سیاسی ننگے وغیرہ بے سہارا ہوجائیں گے فاضل کالم نگار زیروپوائنٹ پر ہی چلے گئے ہیں ان کا خیال ہے کہ ملک ریاض کی وجہ سے ہزاروں چولہے جل رہے ہیں انہیں بھی نہیں پتا اورشاید ملک ریاض کو بھی نہیں پتاکہ چولہے جس ذات کی وجہ سے جل رہے ہیں اس کے قبضہ قدرت میں کروڑہا ملک ریاض اور ان جیسوںکی ساری دولتیں اور ان سے کہیں زیادہ بڑے خزانے ہیں ہم یہاں ایک شخصیت کا ذکرکررہے ہیں زیروپوائنٹ والے اس کے بارے میں شاید نہ جانتے ہوں اس جیسی بہت سی شخصیتیں اب بھی زندہ اور مصروف کارہیں۔ ’’مزیدارچھالیہ‘‘ خوب کھاتے ہوںگے یہ چھالیہ کاکاروبارکرنے والے شخص کی کہانی ہے جب اس نے اپنا بزنس دبئی سے سمیٹا تو ساری آمدنی خداکی راہ میں خرچ کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر مال تیارہوتو2 فیصد انفاق فی سبیل اللہ کے اکائونٹ میں اورمال کی رقم وصول ہوتو 2 فیصد انفاق فی سبیل اللہ کے اکائونٹ میں جاتے تھے انکم ٹیکس سیلزٹیکس‘ ایکسائزڈیوٹی تمام بل وغیرہ اپنی جگہ اورزکوٰۃ صدقات اپنی جگہ لینے والا آئے تو ایسا اکرام کرتے کہ لگتا وہ دینے آیاہے۔ اپنے ہاتھ سے شربت چائے وغیرہ پیش کرتے اس کی زندگی میں یہ سطورلکھی جاتیں تولڑنے پرآمادہ ہوجاتا لیکن وہ شخص ایسا تھا کہ مسجد‘مدرسہ‘ شادی بیاہ‘ روزگار‘بیوائیں ‘جیل میں قیدی‘ بے گناہ لوگوں کی گردن چھڑانا‘مصیبت میں پھنسے لوگوں کی مددکرنا اس کاکام تھا اسے سرراہ گولیاں مارکرشہیدکیاگیاتو لوگوں کو پتا چلاکہ صف ماتم صرف پاکستان میں نہیں کراچی سے بوسنیا تک بچھی ہوئی ہے لیکن یہ اس کی سمجھ میں آچکاتھاکہ یہ مال اللہ کا ہے اور اس میں اس کی مخلوق کا حصہ ہے۔ جتناخرچ کرتااللہ اتناہی اضافہ کرتا جاتا۔ وہ یہ بھی جانتاتھا کہ یہ جوکچھ وہ کررہاہے اللہ کے حکم سے کررہاہے۔ اور وہ نہیں رہے گا توبھی ان ہزاروں بلکہ لاکھوں چولہوں کو جلانے کا نظام وہی ذات کرے گی جس نے اس کے ذریعے سے یہ سب کرایاہے۔ ملک ریاض کی تعریف میں زیروپوائنٹ میں زمین وآسمان کے جوقلابے ملائے گئے ہیں وہی یہ بات بتانے کے لیے کافی ہیں کہ ملک ریاض کوئی مسئلہ ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہوسکتاہے کہ جنرل پرویزسے بھی ملک صاحب کی دوستی ہو نوازشریف سے بھی بے نظیرسے بھی زرداری صاحب سے بھی‘ شوکت عزیز سے بھی اورعمران خان سے بھی ۔آئی ایس آئی کے ہر ڈی جی سے بھی اور ریمنڈڈیوس کیس میں بھی وہ مرکزی کردارہوں ‘ناٹو سپلائی کا معاملہ ہوتوبھی وہ مرکزی کردارمیں ہوں تو پھر سوچ لیں موجودہ نظام جوگل سڑچکا ہے جس کی پشت پر امریکا ہے بلکہ وہ بھی اب پشت سے ہٹ چکاہے اس کو چلانے والے امریکا کے پیچھے دوڑرہے ہیںاورامریکا …اپنے آپ کو بچانا چاہ رہاہے اس نظام کے روح رواں جناب ملک ریاض صاحب ہیں۔ کم ازکم زیروپوائنٹ سے تویہی لگا۔ ایک وفدعجوہ کھجورکے عنوان سے27 دسمبر 2010ء کو کالم لکھنے والے نے تین پیراگراف ملک ریاض کی تعریف میں لکھے ایک پیرا مختصرساعجوہ کی تعریف میں اورآخری دو اپنے اسلم بیگ اور ملک صاحب کے لیے دعاکی درخواست میں صرف کیا۔ اب پھرملک ریاض کو حمام کا مالک قراردیاہے اس حمام میں سارے سیاستدان توننگے ہوگئے ہیں۔ اس قسم کے حماموں کے کئی مالکان پاکستان میں مرزا یارکی طرح گلیوں میں گھوم رہے ہیں۔
 
Last edited: