https://twitter.com/x/status/1864004949392429142
سانحہ ای پی ایس کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنا، آپریشن ضرب عضب کا آغاز ہوا اور دہشتگردوں کو سزائیں دینے کے نام پر فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دی گئی۔ ضربِ عضب کے بعد آپریشن رد الفساد کی آڑ میں پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں انتظامیہ کی جانب سے پختون دکانداروں اور مزدوروں کے لیے متعلقہ تھانوں میں اپنی رجسٹریشن کا حکم نامہ جاری ہوا، جو کہ ایک خطرناک کھیل کا آغاز تھا۔ انہی دنوں وزیر داخلہ پنجاب رانا ثناءاللہ نے یہ بیان بھی داغ دیا کہ پنجاب میں موجود پختون پاکٹس میں آپریشن کیا جائیگا۔ تب وفاق میں بھی ن لیگ کی حکومت ہونا اس بیان کو اور بھی خطرناک بناتا تھا۔ (ن لیگ کے سربراہ نواز شریف ان دنوں ڈان لیکس کی تحقیقات کی وجہ سے بھی زیر بحث تھے۔)
اسی اثناء میں راولپنڈی میں پولیس نے گھر میں گھس کر ایک بچے کو ماں کے سامنے تشدد کرکے ماردیا جب کہ لاہور میں دو پختون مزدوروں کو پولیس نے گولیاں مار کر قتل کردیا۔
بطور ممبر قومی اسمبلی میں نے وفاقی حکومت کو خط لکھ کر اپیل کی کہ ایسے بیانات اور اقدامات سے گریز کریں کہ جن سے ملک میں لسانیت کی آگ بھڑک اٹھے اور قومی اتحاد تقسیم کی شعلوں کے نذر ہوجائے، مجھ سمیت اپوزیشن کے دیگر ارکان نے قومی اسمبلی میں بھی اس موضوع پر بات کی مگر بجائے مسئلے کی سنگینی کا ادراک کرنے کے وفاقی حکومت کےنمائندگان نے ہم سب کو دہشت گردوں کا سہولتکار قرار دے دیا اور ملٹری کورٹس میں لے جانے کے دبنگ بیانات دیے۔ اجلاس میں شامل پختون ممبران اسمبلی نے ان تقاریر پر احتجاج کیا اور اجلاس ملتوی ہوگیا۔
(قومی اسمبلی میں ہونے والی ہنگامہ آرائی اور وفاقی حکومت کے پختونوں کےحوالے سے عزائم کے اظہار اور ان کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ملٹری کورٹس میں لے کر جانے کے بیانات کے متعلق مجھ سے سوال ہوا تو میں نے صحافی سے کہا کہ اپنے ملک کے شہریوں کے لیے آواز اٹھانے پر فوجی عدالتوں کی دھمکیاں دینے والو نے اگر فوجی عدالتوں میں کسی کے کیسز چلانے ہیں تو ڈان لیکس والوں کے چلائیں۔ کچھ عرصہ سے سیاق و سباق سے ہٹا کر وہی کلپ فوجی عدالتوں کا جواز دینے کے لئے چلائی جارہی ہے)۔
کچھ عرصہ بعد ہی آصف زرداری کے بغل بچے راؤ انوار کے ہاتھوں نقیب اللہ محسود کی شہادت نے ان تمام اندیشوں کو درست ثابت کیا جو اپنے خط میں بیان کیے تھے۔ آپ نے غور کیا کہ صفحۂ قرطاس پر کردار آج بھی وہی ہیں۔ اور چونکہ ملک پر مسلط مافیہ کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں کہ انہوں نے نہتے شہریوں پر #گولی_کیوں_چلائ تو دوبارہ وہی کھیل گرم کیا جارہا ہے کیونکہ ہمیشہ سے ان کی طاقت کا جواز تقسیم میں پنہاں ہے۔ چاہے وہ سیاسی حکومت ہو یا ان کے غیر سیاسی ہینڈلرز۔ ہمارے سامنے ہمارے اجڑے گھروں کی راکھ پر بیٹھ کر یہ نئی چنگاری بھڑکائی جارہی ہے۔ مگر جو بات یہ بھول رہے ہیں وہ یہ کہ یہ بنگال نہیں ہے کہ جہاں کل اِدھر تم اُدھر ہم کا نعرہ لگا کر راہِ فرار نکالا جاسکے گا۔
آج ڈی جی خان سے جنازہ اٹھا ہے تو اسلام آباد سے بھی۔ پشین میں بھی قبر پر انصاف کا پرچم پڑا ہے تو پختونخواہ میں بھی۔وہ جس کے آزاد ہونے کا زعم تھا اس مظفر آباد میں بھی۔ جہاں سے جنازہ نہیں اٹھا وہاں کا مکین لاپتہ ہے، جہاں لوٹ آیا اتنا ٹوٹا بکھرا اجڑا آیا کہ وہاں بھی سوگ کا سماں ہے، ملک بھر میں غم و غصہ پھیلا ہے اور ایسے میں ظلم کا یہ نیا بازار جو پختونوں کی اتھنک پروفائلنگ کی بنیاد پر گرم کیا جارہا ہے اس کا مقصد تحریک انصاف کو کچلنے سے کہیں بڑا ہے۔ مگر اس کی وجہ ایک ہی ہے،یہ کانپ گئے ہیں آپ کو پاکستانی بنتا دیکھ کر۔ انہیں خوف ہے اس بات کا کہ اگر آپ ایسے ہی متحد رہے تو ان کی سیاستوں کی دکانیں تو بند ہونی ہی ہیں ان کے سہولتکاروں کے خونی کاروبار جو ملک میں مستقل سیکیوریٹی صورتحال سرگرم کرکے ہی ڈھکے رہتے ہیں ان کا مستقبل بھی تاریک ہوجانا ہے۔
میرے پاکستانیو!
آپ نے بہرطور صرف پاکستانی رہنا ہے۔ یہ آپ کو آپ کے مسلک اور فرقے یاد دلائیں گے۔ نسل اور اصل میں الجھائیں گے۔ لہجے اور زبان کو بنیاد بنائیں گے مگر جب تک آپ ایک جھنڈے تلے متحد رہیں گے یہ اپنے ناجائز قبضے کے لیے بھونڈی دلیلیں ہی گڑ سکیں گے اور بہت جلد اپنے گناہوں کے بوجھ سے غرقاب ہوجائیں گے کیونکہ جو ایک بات یہ بھول رہے ہیں وہ یہ کہ یہ بنگال نہیں ہے ادھر سے راہِ فرار ممکن نہیں ہے اور یہ کہ اس بار ان کا تسلط بچانے کے لیے ملک نہیں ٹوٹے گا، ان خون آشام دردندوں کا غرور خاکستر ہوگا۔
سانحہ ای پی ایس کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنا، آپریشن ضرب عضب کا آغاز ہوا اور دہشتگردوں کو سزائیں دینے کے نام پر فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دی گئی۔ ضربِ عضب کے بعد آپریشن رد الفساد کی آڑ میں پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں انتظامیہ کی جانب سے پختون دکانداروں اور مزدوروں کے لیے متعلقہ تھانوں میں اپنی رجسٹریشن کا حکم نامہ جاری ہوا، جو کہ ایک خطرناک کھیل کا آغاز تھا۔ انہی دنوں وزیر داخلہ پنجاب رانا ثناءاللہ نے یہ بیان بھی داغ دیا کہ پنجاب میں موجود پختون پاکٹس میں آپریشن کیا جائیگا۔ تب وفاق میں بھی ن لیگ کی حکومت ہونا اس بیان کو اور بھی خطرناک بناتا تھا۔ (ن لیگ کے سربراہ نواز شریف ان دنوں ڈان لیکس کی تحقیقات کی وجہ سے بھی زیر بحث تھے۔)
اسی اثناء میں راولپنڈی میں پولیس نے گھر میں گھس کر ایک بچے کو ماں کے سامنے تشدد کرکے ماردیا جب کہ لاہور میں دو پختون مزدوروں کو پولیس نے گولیاں مار کر قتل کردیا۔
بطور ممبر قومی اسمبلی میں نے وفاقی حکومت کو خط لکھ کر اپیل کی کہ ایسے بیانات اور اقدامات سے گریز کریں کہ جن سے ملک میں لسانیت کی آگ بھڑک اٹھے اور قومی اتحاد تقسیم کی شعلوں کے نذر ہوجائے، مجھ سمیت اپوزیشن کے دیگر ارکان نے قومی اسمبلی میں بھی اس موضوع پر بات کی مگر بجائے مسئلے کی سنگینی کا ادراک کرنے کے وفاقی حکومت کےنمائندگان نے ہم سب کو دہشت گردوں کا سہولتکار قرار دے دیا اور ملٹری کورٹس میں لے جانے کے دبنگ بیانات دیے۔ اجلاس میں شامل پختون ممبران اسمبلی نے ان تقاریر پر احتجاج کیا اور اجلاس ملتوی ہوگیا۔
(قومی اسمبلی میں ہونے والی ہنگامہ آرائی اور وفاقی حکومت کے پختونوں کےحوالے سے عزائم کے اظہار اور ان کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ملٹری کورٹس میں لے کر جانے کے بیانات کے متعلق مجھ سے سوال ہوا تو میں نے صحافی سے کہا کہ اپنے ملک کے شہریوں کے لیے آواز اٹھانے پر فوجی عدالتوں کی دھمکیاں دینے والو نے اگر فوجی عدالتوں میں کسی کے کیسز چلانے ہیں تو ڈان لیکس والوں کے چلائیں۔ کچھ عرصہ سے سیاق و سباق سے ہٹا کر وہی کلپ فوجی عدالتوں کا جواز دینے کے لئے چلائی جارہی ہے)۔
کچھ عرصہ بعد ہی آصف زرداری کے بغل بچے راؤ انوار کے ہاتھوں نقیب اللہ محسود کی شہادت نے ان تمام اندیشوں کو درست ثابت کیا جو اپنے خط میں بیان کیے تھے۔ آپ نے غور کیا کہ صفحۂ قرطاس پر کردار آج بھی وہی ہیں۔ اور چونکہ ملک پر مسلط مافیہ کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں کہ انہوں نے نہتے شہریوں پر #گولی_کیوں_چلائ تو دوبارہ وہی کھیل گرم کیا جارہا ہے کیونکہ ہمیشہ سے ان کی طاقت کا جواز تقسیم میں پنہاں ہے۔ چاہے وہ سیاسی حکومت ہو یا ان کے غیر سیاسی ہینڈلرز۔ ہمارے سامنے ہمارے اجڑے گھروں کی راکھ پر بیٹھ کر یہ نئی چنگاری بھڑکائی جارہی ہے۔ مگر جو بات یہ بھول رہے ہیں وہ یہ کہ یہ بنگال نہیں ہے کہ جہاں کل اِدھر تم اُدھر ہم کا نعرہ لگا کر راہِ فرار نکالا جاسکے گا۔
آج ڈی جی خان سے جنازہ اٹھا ہے تو اسلام آباد سے بھی۔ پشین میں بھی قبر پر انصاف کا پرچم پڑا ہے تو پختونخواہ میں بھی۔وہ جس کے آزاد ہونے کا زعم تھا اس مظفر آباد میں بھی۔ جہاں سے جنازہ نہیں اٹھا وہاں کا مکین لاپتہ ہے، جہاں لوٹ آیا اتنا ٹوٹا بکھرا اجڑا آیا کہ وہاں بھی سوگ کا سماں ہے، ملک بھر میں غم و غصہ پھیلا ہے اور ایسے میں ظلم کا یہ نیا بازار جو پختونوں کی اتھنک پروفائلنگ کی بنیاد پر گرم کیا جارہا ہے اس کا مقصد تحریک انصاف کو کچلنے سے کہیں بڑا ہے۔ مگر اس کی وجہ ایک ہی ہے،یہ کانپ گئے ہیں آپ کو پاکستانی بنتا دیکھ کر۔ انہیں خوف ہے اس بات کا کہ اگر آپ ایسے ہی متحد رہے تو ان کی سیاستوں کی دکانیں تو بند ہونی ہی ہیں ان کے سہولتکاروں کے خونی کاروبار جو ملک میں مستقل سیکیوریٹی صورتحال سرگرم کرکے ہی ڈھکے رہتے ہیں ان کا مستقبل بھی تاریک ہوجانا ہے۔
میرے پاکستانیو!
آپ نے بہرطور صرف پاکستانی رہنا ہے۔ یہ آپ کو آپ کے مسلک اور فرقے یاد دلائیں گے۔ نسل اور اصل میں الجھائیں گے۔ لہجے اور زبان کو بنیاد بنائیں گے مگر جب تک آپ ایک جھنڈے تلے متحد رہیں گے یہ اپنے ناجائز قبضے کے لیے بھونڈی دلیلیں ہی گڑ سکیں گے اور بہت جلد اپنے گناہوں کے بوجھ سے غرقاب ہوجائیں گے کیونکہ جو ایک بات یہ بھول رہے ہیں وہ یہ کہ یہ بنگال نہیں ہے ادھر سے راہِ فرار ممکن نہیں ہے اور یہ کہ اس بار ان کا تسلط بچانے کے لیے ملک نہیں ٹوٹے گا، ان خون آشام دردندوں کا غرور خاکستر ہوگا۔
- Featured Thumbs
- https://i.ibb.co/SJC3J8k/10.png