یادِ ماضی عذاب ہے ، یا رب چھین لے مُجھ سے حافظہ میرا

Mr. A

MPA (400+ posts)
آج کا سورج آج کی صُبح آج کا دن کتنی سسکیوں آہوں چیخوں اورکتنے دُکھوں کو ساتھ لیکر طلوع ہوا۰ کتنی ماؤں کی گودیں اُجڑ گئیں

باپ کا سہارا ٹُوٹ گیا بہنوں سے بھائی چھین لئے اور بھائیوں کی کنڈھ خالی ہو گئی۰ پھر وہی دسمبر اور وہی یادیں سال کا آخری مہینہ ننھے پھُول اور کلیوں کی زندگی کا آخری سانس۰ مُجھے کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ دسمبر کے ساتھ ہی سب کے دل کرب دُکھ ،غم ، رنج و الم کے آنسُو بہانا شروع کر دیتے ہیں۔ پھر دل ہلا دینے والے مناظر آنکھوں کو اشکوں کے نزرانے بخش دیتے ہیں۰تصور کریں بچے صُبح صُبح اُٹھے منگل کا دن خُوشی خُوشی سکول گئے۔ فرسٹ ایڈ ٹریننگ کا پیریڈ تھا سب کی آنکھیں گھڑی کی طرف لگی تھیں کہ کب لیکچر ختم ہو گا مگر یہ گھڑی لیکچر ختم ہونے کی نہ تھی بلکہ اُن معصوم پھولوں کے سانس کی آخری گھڑی تھی۔ شائد میرے الله کو 141 ننھی کلیاں اور پھول پسند تھے جنہیں اپنے پاس بلا لیا اور انہیں شہادت کا وہ بلند مقام عطا کر دیا جو الله کے صرف محبوب لوگوں کو ملتا ہے۔ یہیں سے اندازہ کر لیں کہ یہ مٹی کتنی پاک ہے جس میں دُنیا کا سب سے مُعطر اور پاک خُون شامل ہو گیا اگر کوئی مُجھ سے پوچھے تو میں یہ کہوں گی کہ اس جگہ با وضو ہو کر جائیں اور اس سانحہ پر گرنے والے آنسُو زمین پر نہ گرنے دیں اپنے دامن میں سجا لیں تاکہ روزِ محشر ان آنسوؤں کی مہک تمہاری بخشش کا بہانہ بن جائے کیونکہ وہ شہید زندہ و جاوید ہیں وہ دُنیا میں آئے ہی امر ہونے کے لئے تھے وہ اپنا مقصد پورا کر گئے۔ وہ اپنے لہو سے امن کا چراغ جلانے آئے تھے اور خُونِ جگر سے ایک نئی تاریخ رقم کر گئے ۔۔ایسی داستان چھوڑ گئے جو صدیوں تک ہر عام و خاص کی زبان سے دُہرائی جائے گی جب تک دُنیا قائم ہے اُن معصُوموں کا ذکر بھی قائم رہے گا۔ اس سانحہ کو پانچ سال گُزر گئے مگر شُہداء کا خون آج بھی تازہ ہے۔ زخم آج بھی ہرے ہیں ان سے رسنے والا لہو سب کو اپنی خوشبو سے اپنی طرف مائل کر رہا ہے اور 16 دسمبر 2014 کی چُبھن قوم آج بھی محسوس کر رہی ہے جب سفاک بے رحم دہشتگردوں نے آرمی پبلک سکول پشاور میں گھُس کر اندھا دُھند بلا امتیاز فائرنگ کرکے 141 ننھے طالب علموں کو شہید کر دیا جسکی جتنی بھی مزمت کی جائے کم ہے۰ آخر میں میری دُعا ہے کہ اے میرے رب کسی کو اولاد کا دُکھ نہ دے اور اُس دُکھی ماں کو صبر عطا کردے جو آج بھی اسفند کے انتظار میں دروازے کو تک رہی ہے۔ برتھ ڈے کا کیک ہاتھوں میں تھامے تصور میں اپنے بیٹے کی سالگرہ منا رہی ہے اور ننھی لائبہ کی ماں اپنی معصوم بیٹی کی بکھری پونیاں تلاش کر رہی ہے اور باپ اپنے بازوؤں میں اپنے لختِ جگر کی میت اُٹھائے آج بھی سوچ اور غم کی تصویر بنے بیٹھا ہے۔ بڑی بہن اپنے بھائی کی دُلہن کے لئے شگناں دی مہندی اور چُوڑیاں الماری میں سجائے انتظار کر رہی ہے

میں پیٹ پھاڑ شگوفے کڈھے سو سو دُکھ اُٹھائے
توڑن والا یار محمد ذرا ترس نہ کھائے۰

اور پھر 16 دسمبر 1971—

ایک دل دو لخت ہو گیا بلکہ میں کہونگی کہ ایک دل کے ہزار ٹُکڑے ہوئے کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا چمن میں آندھی اور جھکڑوں نے بسیرا کر لیا۰
نشیمن میں کوئی بجلی گرا گیا مُلکِ خُدا داد کو کسی کی نظر لگ گئی۰ سقوطِ ڈھاکہ تاریخ کی المناک داستان جس کو دُہراتے ہوئے دل و جگر کی آنکھیں خون کے آنسو بہانا شروع کر دیتی ہیں اور اس سیاہ دن کی یادوں کو الفاظ کا رُوپ دیتے ہوئے ہاتھ شل ہو جاتے ہیں ۰ زبان پہ ذکر لائیں تو زبان گُنگ ہو جاتی ہے ۰ لیکن نئی نسل کو تاریخ کے اوراق سے بھی روشناس کرانا لکھنے والوں کی ذمہ داری ہے اور اولین فرض بھی ۰

سقُوطِ ڈھاکہ (محرکات)

گھونپا تھا خنجر کس نے جگر میں ہمارے
جب چلا سرِ بام تزکرہ تو اپنوں کے نام آئے

بنگلہ دیش جو کبھی ماضی میں مشرقی پاکستان کہلاتا تھا اور آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا بڑا بھائی تصور ہوتا تھا ۰ 1947 میں جب پاکستان معرضِ وجُود میں آیا مسلمانوں کو آزادی تو مل گئی مگر اس آزادی میں ایک بہت بڑا المیہ انگریز اور ہندُو کی چال سے شامل کر دیا گیا پاکستان کو دو ٹُکڑوں میں بانٹ دیا گیا ایک کا نام مشرقی پاکستان اور دوسرا مغربی پاکستان کے نام سے تاریخِ دُنیا میں شامل کر دئیے گئے ۰ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا اور زمینی کوئی راستہ نہ تھا درمیان میں انڈیا کا علاقہ تھامشرقی پاکستان میں کثرت سے بولی جانے والی زبان بنگالی تھی اور مغربی پاکستان کی سرکاری زبان اردو قرار پائی ۰ فروری 1948 میں قائدِ اعظم محمد علی جناح نے مشرقی پاکستان کا دورہ کیا اور مشرقی پاکستان کی بھی سرکاری زبان اردو تجویز کی گئی جس پر بنگالیوں نے کافی حد تک اعتراض کیا اور یہ تجویز ماننے سے انکار کر دیا اور زبان کی تجویز ہی سے بنگالیوں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں اور شیخ مُجیبُ الرحمان جو اس وقت مشرقی پاکستان کے بڑے سیاست دانوں میں شامل تھے انہوں نے اس Issue سے فائدہ اُٹھایا اور وہاں کی آبادی کو مغربی پاکستان کے خلاف اُکسانا اور بھڑکانا شروع کر دیا اور یہ تحریک چلائی گئی کہ مغربی پاکستان مشرقی پاکستان کا بجٹ ہڑپ کرتا جا رہا ہے اور مشرقی پاکستان میں ترقی کا دارو مدار مغربی پاکستان کا مرہونِ منت ہے کیونکہ مرکزی دارالخلافہ مغربی پاکستان میں تھا۰ حتیٰ کہ علیحدگی کی تحریک زور پکڑنے لگی مدبر سیاستدانوں نے مشرقی پاکستان کی عوام کو سمجھانے کے لئے اپنا کافی رول ادا کیامگر کوئی فائدہ نہ ہوا اور سلگتی چنگاری بعد میں بھڑکتی آگ کا رُوپ دھار گئی۰ 1958 میں جب فوجی جرنیل محمد ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرکے ماشل لاء لگا دیا تو مشرقی پاکستان کے لوگوں میں مایوسی اور بے چینی کی لہر دوڑ گئی مگر ایوب خان نے بڑی حکمتِ عملی اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کافی حد تک وہاں کی عوام کے دل جیت لئے اور وہاں امن و سکون کی فضا قائم ہو گئی۰

September 1965 میں بھارت نے مسلئہ کشمیر کی آڑ میں پاکستان کے خلاف اچانک جنگ شروع کر دی لیکن الله کے فضل و کرم اور پاکستانی فوج ۔۔مشرقی پاکستان اور مغربی پکستان کی عوام کے جزبے کےسامنے بھارت کو شکست سے دوچار ہونا پڑا اور انڈیا کا بہت سا علاقہ پاکستان کے قبضہ میں آ گیا ۰

بھارت نے جنگ بندی کے لئے امریکہ اور روس کے سامنے ترلے لینے شروع کر دئیے المُختصر امریکہ اور روس کی مداخلت سے جنگ بندی ہو گئی اب مسئلہ پیدا ہو گیا مقبوضہ علاقوں کی واپسی کا جس کے لئے روس نے بھارت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری اور پاکستان کے صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے درمیان روابط قائم کرنے کے لئے اپنی کوشش شروع کر دی اور 4 جنوری 1966 سے لیکر 10 جنوری 1966 تک روس کی ریاست اُزبکستان میں میٹنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا اور بلا آخر دونوں ممالک بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک معاعدہ طے پا گیا جس کی بہت ساری شقوں میں ایک شق یہ بھی تھی کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کےمقبُوضہ علاقے خالی کر دیں گے اور جنگ سے پہلے والی حالت میں آ جائیں گےاس معاعدے کے دوران ہی بھارت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری اپنی شکست اور شرمندگی برداشت نہ کر سکے اور حرکتِ قلب بند ہونے سے تاشقند میں ہی فوت ہو گئے۔ بعد میں اس معاعدے کو معاعدہ تاشقند کا نام دیا گیا جس کی رُو سے بھارت اور پاکستان نے ایک دوسرے کے علاقے خالی کر دئیے ۰ یہ فیصلہ اس وقت کے پاکستان کے وزیرِ خاجہ جناب ذُوالفقار علی بُھٹو کو ناگوار گزرا اور اُس نے صدر ِ پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے خلاف تحریک کو ہوا دی اور عوام کو جزباتی تقاریر کے باعث ایوب خان کے خلاف کر دیا اور اس تحریک نے جس میں خاص کر سٹوڈنٹ طبقہ سب سے آگے تھا اتنا زور پکڑا کہ آخرکار ایوب خان کو سرنڈر کرنا پڑا اور اس نے اقتدار 1969 میں جنرل یحیٰ خان کے سپرد کر دیا۰ جنرل یحیٰ خان ایک عیاش اور شباب و کباب کا رسیہ جرنیل تھا جسے صرف اپنی عیاشی سے غرض تھی۔ ملک کے معاملات سے اسے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ یہاں مُجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا اسے لطیفہ سمجھیں یا روائتی کہانی۔ کہتے ہیں کہ پرانے وقتوں میں کسی ملک کا بادشاہ مر گیا اور نئے بادشاہ کے چناؤ کا عجیب طریقِ کار تھا وہ یہ کہ جب چناؤ کا دن مقرر کر لیا جاتا تو اس دن سب سے پہلے جو شخص آ کر دربار کی گھنٹی بجاتا اسے بادشاہ مان لیا جاتا۰

اس دفعہ بادشاہ کے مرنے پر سب سے پہلے ایک قلندر نے جس کے پاس تین ریچھ تھے آ کر گھنٹی بجا دی اور اسے بادشاہ تسلیم کر لیا گیا اب دربار میں رعایا نے جو بھی عرض کرنی کوئی کام کہنا تو اس نے کہنا چھوڑو سب کام ریچھوں کے لئے حلوہ بناؤ۔ ایک دفعہ ساتھ والے ملک کے بادشاہ نے اسکی نا اہلی کی خبریں سن کر اس کے ملک پر چڑھائی کر دی وزیر کبیر سب نے بتایا کہ بادشاہ سلامت فلاں ملک کے بادشاہ نے ہماری سرحدوں پر یلغار کر دی ہے مگر اس نے کہا چھوڑو ریچھوں کے لئے حلوہ بناؤ اور ریچھ حلوہ کھا کھا کر خُوب موٹے تازے ہو گئے حتیَ کہ ایک روز دشمن کی فوجوں نے شہر پر قبضہ کر لیا اور دربایوں کو قید کر لیا تو اس قلندر نے اپنے ریچھ پکڑے اور دربار سے جانے لگا تو لوگوں نے پوچھا بادشاہ سلامت آپ کدھر جا رہے ہیں تو اس نے کہا کہ بھئی میں قلندر بادشاہت کے کہاں تھا قابل میں تو اپنے ریچھ پالنے آیا تھا سو میں نے پال لئے مجھے آپ لوگوں سے کیا غرض یہی حال ہمارے صدر یحیٰ خان کا تھا اسے اپنی عیاشیوں سے غرض تھی ملک کے معاملات سے کیا لینا دینا۔ یحیٰ خان کے دورِ حکومت میں مشرقی پاکستان میں دوبارہ سازشوں نے جنم لینا شروع کر دیا اور حکومت کی رٹ کمزور ہوتی گئی۰ 1970 میں عام انتخابات کرائے گئے اور ملک کی دو پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی جس کے چئیرمین ذُالفقار علی بُھٹو اُن کو مغربی پاکستان میں واضع اکثریت حاصل ہوئی یعنی 138 قومی اسمبلی کی سیٹ سے 81 نشستیں اُنہوں نے حاصل کیں اور اُدھر مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مُجیب الرحمَن کو 162 نشستوں میں سے 160 حاصل ہوئیں۔ یہاں میں یحیَ خان صاحب کی اعلیَ کارکردگی کا ایک ذکر کرنا ضروری سمجھتی ہوں وہ یہ کہ 1970 کے الیکشن کا انعقاد اس قدر پر امن ماحول میں ہوا جس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں کم ملتی ہے۰

اب سیٹس کے لحاظ سے انتقالِ اقتدار کا مسئلہ پیدا ہو گیا اصولاً تو اقتدار زیادہ حاصل کردہ نشستوں کو ملنا چائھیے تھا یعنی شیخ مجیب کو مگر اس سے پہلے شیخ مجیب الرحمن پہ ملک سے غداری کا داغ لگ چکا تھا ۰ مغربی پاکستان کی عوام نہی چاہتی تھی کہ اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کیا جائے اور یہ جھگڑا زور پکڑتا گیا اور مشرقی پاکستان کے طُول و عرض میں ہنگامے شروع ہو گئے ان کو کچلنے کے لئے مغربی پاکستان سے فوج بھیجی گئی اور اسی دوران مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب نے مُکتی باہنی کے نام سے اپنی فورس تیار کی جس میں اکثریت بھارتی فوج کے جوانوں کی تھی جنہوں نے مغربی پاکستان کی افواج کی وردیاں پہن کر مشرقی پاکستان میں ظلم و ستم کی انتہا کر دی عورتوں کی عصمت دری کی گئی تاکہ مغربی پاکستان کی افواج کے خلاف نفرت و حقارت لوگوں میں بھری جائے انہی حالات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہمارے ازلی دُشمن بھارت نے مغربی پاکستان پر دسمبر 1971 میں فوج کشی کردی دُشمن کا ڈھٹ کر مقابلہ کیا گیا مگر مشرقی پاکستان میں باغی لوگوں اور فوج نے ساتھ نہ دیا اور جنگ کا خاتمہ پاکستان کی شکست پہ ہوا اور مشرقی پاکستان میں ہمارے 90000 فوجی دُشمن بھارت کی قید میں آ گئے . شیخ مجیب نے کُلھے عام بغاوت کا نعرہ بلند کر دیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے نام سے 16 دسمبر 1971 کو معرضِ وجود میں آیا ادھر یحیَ خان نے اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کے سر براہ جناب ذُالفقار علی بُھٹو کے حوالے کر دیا لوگ عموماً کہتے ہیں کہ چونکہ شیخ مجیب کی نشستیں زیادہ تھیں اقتدار اُس کے حوالے کر دیتے تو شائد مشرقی پاکستان ہم سے الگ نہ ہوتا ۰ اس وقت کے تجزیہ نگار بُھٹو صاحب پہ تنقید کرتے نظر آ رہے ہیں کہ بُھٹو صاحب نے یہ کیوں کہا “ ادھر ہم اُدھر تم” یہ نعرہ بھی مشرقی پاکستان کی جدائی کا سبب بنا لیکن میں نے تاریخ کے اوراق پلٹ پلٹ کر دیکھے ہیں اور اس نتیجہ پر پہنچی ہوں کہ اُنہوں نے یہ درست کہا تھا وگرنہ ایک غدار کے ہاتھوں سارا مُلک ہی ہمارے ہاتھ سے جاتا۰

اب یہاں میں واضع کردوں کہ تاریخ کسی غدار کو معاف نہیں کرتی اس کا انجام بڑا بھیانک ہوتا ہے شیخ مُجیب الرحمن کو 15 اگست 1975 کو اس کے فوجیوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا اور دوسرے کردار اندرا گاندھی وزیرِ اعظم ہندوستان کو اس کے فوجی جتھے نے 31 اکتُوبر 1984 میں انجام کو پہنچا دیا

اے تاریخِ ادوار تیری دُنیا بھی نرالی ہے تیرے غم کو بھُلانا بھی محالی

اب کُچھ نہ پُوچھ اے ہمنشیں میرا نشیمن
تھا کہاں
اب تو یہ کہنا بھی مُشکل ہے وہ گُلشن
تھا کہاں

عائشہ سعید
 
Last edited by a moderator:

miangan

MPA (400+ posts)
Bohat achi tahrir hay. Likn hamri qoom ni es se kuch sabaq hasel nahe keya jab taak aik soba punjab dosri provinces ki wasayel used kari ga badli mi kuch nahe mili ga tue esay Bangla deish bani gey