سوشل میڈیا کی خبریں

سینئر صحافی انصار عباسی کو سوشل میڈیا پر بغیر تصدیق کے ویڈیو شیئر کرنا مہنگا پڑ گیا، سوشل میڈیا صارفین نے مقبوضہ کشمیر کی ویڈیو کو تحقیق کے بنا پاکستان سے منسوب کرنے پر آڑے ہاتھوں لے لیا۔ تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی انصار عباسی نے اپنی ٹوئٹر پوسٹ میں ایک ویڈیو پوسٹ شیئر کی، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ 3، سے 4 افراد سڑک پر پھیری والوں کی ریڑھیوں پر سے سامان اٹھا اٹھا کر نیچے زمیں پر پھینک رہے ہیں۔ صحافی کی جانب سے پوسٹ شیئر کی گئی جس کے کیپشن میں انہوں نے لکھا کہ "یہ جو بھی افسر ہے اس کی کم از کم سزا نوکری سے برخاست کرنا ہے"۔ انصار عباسی کی پوسٹ شیئر ہوتے ہی سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ان کے پوسٹ پر کمنٹس آنے لگے جس میں صارفین نے ان کی خوب کلاس لگائی۔ تقویم احسن نام صارف کا کہنا تھا کہ جناب انصار عباسی صاحب خودکو 'انویسٹو - گیٹو' صحافی بتاتے ہیں،انہیں یہ تک نہیں معلوم کےیہ مقبوضہ کشمیرکاواقعہ ہے۔عام آدمی ڈھونڈھ کےنکال سکتا ہےتو یہ خودکوصحافی کہتے ہیں۔ انکا کام تھا جو انہوں نے نہیں کیا۔۔بالکل اسی طرح جیسےیہ آج کل اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہاتھ جھاڑکےکھڑےہوگئے ہیں۔ حماد حسن نام صارف نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ جذباتی قوم، یہ ویڈیو مقبوضہ جموں و کشمیر کی ہے اور وہاں کی حکومت نے پہلے ہی 4 ملازمین کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ ایک اور صارف کا کہنا تھا کہ یہ انڈین سرکار مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر ظلم کر رہی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ اسی تھرڈ کلاس صحافت کی وجہ سے آپ پر توہین کا کیس چلا رہی ہے کہ بغیر تحقیق کے خبر اور ٹویٹ ٹھوک دیتے ہو، براہ مہربانی پہلے تحقیق کریں پھر خبر بریک کریں۔ ایک اور صارف نے تنقید کرتے ہوئے کہا " اور آپ کی اور آپ کے اخبار چینل کی کیا سزا ہونی چاہئے ؟ جو مسلسل جھوٹی خبریں اور پروپیگنڈا کر رہے ہیں؟ حضرت کبھی اپنے گریبان میں بھی جھانک لیا کریں، کب تک اسلام کے پیچھے چھپتے رہے گے ؟" یونس نامی شخص نے لکھا کہ نوکری سے برخاست کرنا کم سزا ہو گی اس کو سردی کی شدت میں یہاں ایک ماہ ریڑھی لگوائی جائے کیسے غریب اس مہنگائی کے طوفان میں اپنے بچوں کیلئے کماتا ہے پھر شائد اس کو احساس ہو حلال کمانا کتنا مشکل ہے۔ ایک اور صارف نے کہا کہ میں پہلے اس کی ذہنی صحت کا جائزہ لینا چاہوں گا۔ ذمہ داریوں کی اس سطح پر یہ لازمی ہونا چاہیے۔ واضح رہے کہ جموں و کشمیر حکومت نے بارہ مولہ کے شمالی ضلع میں سڑک پرپھیری والوں کے سامان کی مبینہ طور پر توڑ پھوڑ کرنے والے چار میونسپل افسران کو معطل کر دیا۔ ڈائریکٹوریٹ آف اربن لوکل باڈیز کشمیر نے ایگزیکٹو آفیسر بارہ مولہ کو ہدایت کی کہ وہ ملوث افراد کو معطل کر کے ان سے دکانداروں کو ہونے والے نقصانات کی وصولی کریں، ان ملازمین میں شیخ سجاد پرویز (خلفوارزی اسسٹنٹ)، فیضان اکبر زونا (ڈیمولیشن گارڈ)، سجاد احمد کھانڈے (سینٹری سپروائزر) اور نذیر احمد بھٹ (کلینر) شامل ہیں۔
کالم نگار اور اینکر پرسن حامد میر نے پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کی ٹوئٹر پوسٹ شیئر کرتے ہوئے میاں نواز شریف سے واپسی کی اپیل کر دی۔ تفصیلات کے مطابق اینکر پرسن حامد میر نے اپنی ٹویٹ میں مریم نواز کی ٹویٹ شیئر کی، ٹویٹ میں ٹرک آرٹ میں نواز شریف کی تصویر بنی ہوئی تھی جس پر لکھا ہوا تھا " پیچھاں مڑ وے ڈھولا، تیری لوڑ پے گئی"، جس کا مطلب ہے کہ لوٹ آ ؤ تمہاری ضرورت پڑگئی ہے۔ اس تصویر کو شیئر کرتے ہوئے سینئر صحافی نے کیپشن میں لکھا ، "میاں صاحب واپس آ ؤ"۔ ان کی اس پوسٹ کے بعد سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آرہا ہے، کچھ صارفین کی جانب سے میاں نواز شریف کو واپس آکر قانون کا سامنا کرنے کامشورہ دیا جارہا ہے جبکہ کچھ ن لیگی صارفین نے میاں صاحب کی واپسی کے لئے امید کا اظہار کیا۔ آمنہ نے حامد میر کے ٹویٹ کو کوٹ کر کے لکھا کہ آپ پہلے شہباز شریف کو سبز باغ دکھا کر بلوا کے جیل کی ہوا کھلوا چکے ۔ اب کون اعتبار کرے۔ عبداللہ نامی صارف نے کہا ، " اور آکے عدالتوں کا سامناکرو"۔ ایک صارف کا کہنا تھا کہ میاں صاحب واپس آ ؤ، ہماری پیمنٹ کلٸیر کرواؤ۔ شفیق کھوکھر نامی صارف نے کہا کہ کاش آپ کے کہنے پر ہی آجائے مگر ایسا ممکن نہیں۔ طالب نے کہا آپ بس اندازہ کریں یہ وہ شخص ہے جو اس چور کی لازم واپسی کی شرطیں لگاتا تھا اور آپ پھر اندازہ کریں کہ یہ سب لوگ بلا کسے رہے ہیں ؟ عدالت سے مفرور چور کو اور کس لیے، گرفتاری دینے کے لئے ؟ ایک اور صارف نے بولا، "لگتا ہے جیسے وہ آپ کے ہی بلوانے کا انتظار کر رہا ہے۔ میرا چہیتا بلائے اور میں بھاگم بھاگ واپس آؤں۔
متاثرہ لڑکے لڑکی کا ملزم عثمان مرزاکو پہچاننے سے انکار۔۔ کیا پیسے کی جیت ہوئی؟ کیا نورمقدم کا قاتل ظاہر جعفر بھی پیسے کے بل بوتے پر بچ جائے گا؟ قانون شاہ رخ جتوئی، ظاہرجعقر اور عثمان مرزا جیسے لوگوں کا کیوں کچھ نہیں بگاڑسکتا؟ سوشل میڈیا صارفین کے تبصرے اسلام آباد کے فلیٹ میں نوجوان لڑکے اور لڑکی کو بلیک میل کرنے کے کیس میں اس وقت نیا موڑ آیا ، جب لڑکے اور لڑکی نے ملزمان کو پہچاننے سے انکار کر دیا، ذرائع کے مطابق لڑکے اور لڑکی کو بھاری رقم کی آفر کی گئی ہے۔ اس پر سوشل میڈیا، صحافیوں نے مختلف تبصرے کئے، کوئی پاکستانی قانون پر لعنت ملامت کرتا رہا، کسی کا خیال تھا کہ یہ پیسے کا کمال ہے، کسی نے دعویٰ کیا کہ نورمقدم کا قاتل ظاہر جعفر بھی بچ جائے گا۔ اس حوالے سے سینئر صحافی رؤف کلاسرا نے تبصرہ کیا کہ عثمان مرزا ریپ کیس میں مدعی لڑکے اور لڑکی اپنے بیان سے مکر گئے ہیں یہ ان کے ملزم ہی نہیں ہیں۔ ان کے مطابق پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ صلح کے لیے ایک کروڑ روپے سے زیادہ کی ڈیل کی گئی ہے۔پولیس کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا گیا ہے۔ رؤف کلاسرا کا مزید کہنا تھا کہ مرزا بہت جلد آپ کے درمیان ہوں گے ٹک ٹاک پر۔ہور کوئی ساڈے لائق؟ ملیحہ ہاشمی نے کہا کہ عثمان مرزا کیس میں اہم پیش رفت: مدعی لڑکی اور ان کے ساتھ پکڑا گیا مدعی لڑکا فرماتے ہیں کہ یہ ایک جھوٹا کیس بنایا گیا تھا اور عثمان مرزا کا کوئی قصور ہی نہیں۔ ملیحہ ہاشمی کے مطابق یہاں پولیس کیا کرے جب Harassment کارڈ استعمال کر کے خواتین پیسے بٹورنے پر لگ جائیں اور قانون کا مذاق بنا دیں۔ افسوس! ملیحہ ہاشمی نے مزید کہا کہ ملک ریاض کے رشتہ دار کےخلاف عظمیٰ نے کیس کیا اور بھاری رقم کی settlement لے کر کیس واپس لےگئی سوشل میڈیا پر عوام عظمیٰ سےہوئی بدسلوکی پر احتجاج کرتی رہ گئی آج عثمان مرزا کیس میں بھی یہی ہوا پولیس/عدالتوں کی ناقص کارکردگی تو تشویشناک ہےہی لیکن یہ پولیس کی محنت پر پانی پھیرنا ہے ماریہ میمن کے ایک ٹویٹ پر صحافی ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ عثمان مرزا کیس میں پہلے دن سے سرکار ہی مدعی ہے متاثرہ لڑکا لڑکی کبھی مدعی نہیں بنے درستگی کر لیں ۔۔ ایک اور بات یہ کہ کیس میں ابھی بھی جان ہے بلاگر وقار ملک نے لکھا کہ اگرشاہ رخ جتوئی اور عثمان مرزا اتنے طاقت ور ہیں سوچیں گاڈ فادر اور زر شر کتنے طاقتور ہونگے؟خان کا مقابلہ شاید تاریخ کے سب سے بڑے اور منظم مافیا سے ہے وہ غلطیاں بھی کرے گا لیکن اسکا انکے سامنے ہتھیار نہ ڈالنا بہت بڑا کارنامہ ہے ہم میں سے کوئی ان کے مقابلے میں آئے توسمجھوتہ کرلے گا بلاگر عمرانعام نے تبصرہ کیا کہ ایک دن شاہ رخ جتوئی کی عیاشیوں کی خبر آئی اور ٹھیک دوسرے دن عثمان مرزا کیس کی۔ ان طاقتور لوگوں کےسامنے ریاست ایک رینگنے والے کیڑےسے بھی کمتر ہے۔ مفاد پرست چور سیاستدان، رشوت خور عدلیہ اور مکار بیوروکریسی نے اس ملک کو تباہی اور بربادی کےدہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اللہ پاک رحم فرمائیں راؤ جی کا کہنا تھا کہ شہازیب کے والدین نے شارخ جتوئی سے پیسے لے لیے ویڈیو بلیک میلنگ کیس میں لڑکی نے عثمان مرزا سے پیسے لے لیے لڑکی نے یاسر شاہ کا نام کیس سے واپس لے لیا کہا غلط بیانی سے نام ڈل گیا تھا یہ نظام اخر میں بااثر کو بچا ہی لیتا ہے۔ اس نظام کو ختم کرنے کے لیے عمران خان کو ووٹ دیا تھا سوشل میڈیا پر متحرک جنید نامی سوشل میڈیا صارف نے تبصرہ کیا کہ عثمان مرزا کا کیس سیدھا سادھا ہے..... وڈیو موجود ہے وڈیو کے سارے کردار موجود ہیں. زبانی گواہیوں کی کیا ضرورت ہے پھر؟ یہ قانون صرف مجرموں کو بچانے کے لیے ہے جدید دنیا میں ایسا کہیں بھی نہیں ہوتا جنید نے مزید لکھا کہ عثمان مرزا، شاہ رخ جتوئی جیسے مجرم ہمارے سامنے قانون کا مذاق بنا رہے ہیں ظاہر جعفر بھی سامنے ہے کیا یہ بھی فوج کا قصور ہے؟ بار ایسوسی ایشنز کدھر ہیں ایسے مقدمات میں؟ ظالم کو تمام شواہد کے باوجود چھوڑ دیا جاتا ہے کیونکہ مدعی کے مکرنے سے مقدمہ ختم ہو جاتا یہ دروازہ بند ہونا چاہیے ایک سوشل میڈیا صارف نے تبصرہ کیا کہ عثمان مرزا کیس میں مدعی لڑکی لڑکے کو برا بھلا کہنے سے پہلے یہ کیوں نہ دیکھتے کہ سب کچھ ویڈیو میں کلئیر ہونے کے باوجود اب تک کیس عدالت میں کیوں گھسیٹا جارہا, جب ہر ہفتے دس دن بعد لڑکی کو بھری عدالت میں ذلیل کیا جائے گا تو یہی ہوگا نا کہ وہ کیس ہی واہس لےلے سرمد کا کہنا تھا کہ عثمان مرزا بھی باعزت بری ہو گا اور ظاہر جعفر بھی۔ شہباز شریف بھی باعزت بری ہو گا اور مریم صفدر بھی۔ نواز شریف کی تاحیات نااہلی بھی ختم ہو گی۔ بس میں اور آپ اپنی اپنی بغلوں میں ہاتھ ڈال کر بازو اوپر نیچے کرتے ہوئے میوزک سنتے رہیں گے علی جعفر نے تبصرہ کیا کہ عثمان مرزا نے ریاست کو ننگا کر دیا۔ وقاص امجد کا کہنا تھا کہ یہ عثمان مرزا والا کیس پہلا کیس ہے؟؟؟؟ اس سے پہلے شاہ زیب قتل کیس یاد ہے؟؟ وہ سیالکوٹ والا؟ ریمنڈ ڈیوس کیس؟؟ عوام سوشل میڈیا پر آواز اُٹھاتی ہے، پولیس گرفتاری کرتی ہے، عدالت میں سب تبدیل ہو جاتا ہے۔۔۔۔ عوام اور ریاست دھرے دیکھتے رہتے ہیں۔۔ اسد چوہدری نے لکھا کہ وڈیو دیکھ کر سارا پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہوا مگر وہی ہوا جس کی امید تھی،اسلام آباد میں لڑکے لڑکی کو برہنہ کرکے وڈیو بنانے والا عثمان مرزا قانون کی گرفت سے بچ نکلے گا۔ٹرائل کورٹ میں متاثرہ لڑکی سندس اور لڑکا اسد اپنے بیان سے مکر گئے اور ملزم عثمان مرزا جو پہچاننے سے انکار کردیا۔ حق پرست نامی صارف نے تبصرہ کیا کہ جیت بہرحال پیسے کی ہی ہے شاہ رُخ جتوئی کیس ہو،مینار پاکستان واقعہ ہو یا پھر عثمان مرزا جیسے درندے ہوں عزت جائے بھاڑ میں پاکستان میں انصاف کا خونی دھندہ ہمیشہ سے ہی عروج پر ہے کبھی زوال پذیر نہیں ہوا فہد کا کہنا تھا کہ عثمان مرزا کے حق میں لڑکا لڑکی کا بیان آنے پہ لوگ کہہ رہے ہیں اب یہاں عدالت کیا کرے عدالت اپنے نظام انصاف پہ ماتم کرے، چونکہ ایسا بیان آنا سراسر عدالتی نااہلی ہے عدالتی نظام مضبوط ہو تو کبھی عزت لٹنے پہ کمزور انسان بااثر کے حق میں بیان نہ دے اور تم پوچھتے ہو عدالت کیا کرے، واہ ایک سوشل میڈیاصارف نے لکھا کہ جو سسٹم شارخ جتوئی اور عثمان مرزا جیسوں کو سزا دینے کی اہلیت و جرات نہیں رکھتا وہ زرداری اور شریف خاندان کو سزا دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا جب تک انصاف نہیں ہوگا یہ ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ احمد کا کہنا تھا کہ جیسا عثمان مرزا کیس میں ہوا ویسا ہی نور مقدم کیس میں ہوگا ! متفق ؟
کچھ روز قبل برفباری میں پھنسنے والے سیاحوں کے ساتھ پیش آئے سانحہ مری کے رونما ہونے تک تو کوئی مدد کو موجود نہ تھا مگر اب ہر کوئی اپنے نمبر بنانے کیلئے ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے میں لگا ہے۔ سانحہ مری کے بعد نہ صرف سرکاری انتظامیہ متحرک ہوئی بلکہ کچھ سرکاری افسران ٹریفک کلئیر کرنے کی ویڈیوز اور تصاویر بناکر سوشل میڈیا پر شئیر کرتے رہے اور اپنے آپکو عوام کی نظروں میں متحرک بناکر پیش کرنیکی کوشش کرتے رہے۔ 7 جنوری کو پیش آنے والے اس سانحے کے بعد خیبرپختونخوا کے ضلع ابیٹ آباد کی پولیس نے ایک ویڈیو شیئر کی جس میں ان کا دعویٰ ہے کہ "نتھیاگلی شدید برف باری کے دوران ایبٹ آباد پولیس کے جوان رات کے پچھلے پہر سیاحوں کی سہولت و آسانی کے لیے روڈ سے برف ہٹانے کےساتھ ساتھ سیاحوں کو سخت سردی میں گرما گرم چائے بھی پیش کر رہے ہیں۔" ہوبہو اسی ویڈیو کو پنجاب پولیس کے آفیشل اکاؤنٹ نے بھی شیئر کیا اور کیپشن میں لکھا کہ مری میں برفانی طوفان کی شدید صورتحال میں پنجاب پولیس کے جوان گاڑیوں میں محصور سیاحوں کو چائے اور دیگر امدادی اشیاء فراہم کرتے ہوئے۔ پنجاب پولیس نے مزید لکھا کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ ساتھ عوام کا تعاون بھی بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا صارفین کا دعویٰ ہے کہ یہ ویڈیو پنجاب پولیس کی ہے ہی نہیں، یہ ایبٹ آباد پولیس کی ہے ، انہوں نے پنجاب پولیس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ کے پی پولیس کی ویڈیو پر کیوں اترا رہے ہیں اور انہیں اس طرح دروگ گوئی کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔ لیکن ایک سوشل میڈیا صارف کا کہنا ہے کہ میں نے پنجاب پولیس کی جیکٹ سے ملا کر دیکھا ہے پنجاب پولیس کا ہی جوان ہے کے پی کے پولیس نے کہیں سے اٹھا کر لگا دی ہے لگتا ہے ایک اور سوشل میڈیا صارف نے بھی اسے پنجاب پولیس کی ویڈیو قراردیتے ہوئے کہا کہ جو زبان بول رہے ہیں وہ مری کی ہے۔
شاہزیب خان قتل کیس کا مرکزی مجرم شاہ رخ جتوئی سینٹرل جیل کراچی کے بجائے گزری میں واقع ایک نجی اسپتال کی بالائی منزل پر کئی ماہ سے شاہانہ زندگی بسر کرتا رہا ۔ ملزم کئی ماہ سے جیل کے بجائے کراچی کے ایک نجی اسپتال میں رہ رہا تھا اور اسپتال شاہ رخ جتوئی کے خاندان نے کرائے پر حاصل کر رکھا تھا۔ ملزم کو محکمہ داخلہ سندھ کےحکم پر جیل سے نجی اسپتال میں منتقل کیا گیا تھا۔ میڈیا رپورٹس میں کہا جا رہا ہے کہ شاہ رخ جتوئی کی جیل سے نجی اسپتال منتقلی کے پیچھے سندھ کی اعلیٰ شخصیات کا ہاتھ ہے۔ عدالت سے سزا ملنے کے بعد شاہ رخ جتوئی سزا یافتہ مجرم ہے وہ قیدی کے بجائے شاہانہ انداز سے زندگی گزار رہا تھا۔ جب میڈیا پر خبر چلی تو جیل حکام حرکت میں آگئے اور جلدازجلد شاہ رخ جتوئی کو ہسپتال سے جیل منتقل کردیا۔ صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے اس پر مختلف تبصرے کئے، ان کا کہنا تھا کہ میڈیا اس پر ٹاک شوز نہیں کررہا، اگر سندھ میں تحریک انصاف کی حکومت ہوتی تو میڈیا لازمی اس پہ بات کرتا۔ اس واقعے کو کسی نے عدلیہ اور قانون کے منہ پر تھپڑ کہا تو کسی نے سندھ حکومت کی ملی بھگت۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ بلاول وفاقی حکومت پر تو بہت تنقید کرتے ہیں لیکن کیا سندھ حکومت کی ناک کے نیچے انہیں یہ کھلی لا قانونیت نظر نہیں آتی؟ شاہ رخ جتوئی سے متعلق انکشاف پر مبشرزیدی نے تبصرہ کیا کہ عدلیہ اور سندھ حکومت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے صحافی خاورگھمن نے تبصرہ کیا کہ ہم سا ہو تو سامنے آئے،،،،،،،،،،کونسا قانون۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیسی جیل،،،، عامر لیاقت کا کہنا تھا کہ سندھ میں چوراورنامرادحکومت نے قمر الاسلام اسپتال میں ۸ماہ تک شاہ رخ جتوئی المعروف قاتل شاہ زیب، کوعلاج کی غرض سے یا تو چپ چاپ بھیجا یا پھر چپکے سے آنکھیں بند کرلیں مگر ثابت ہوگیا جیسے حکمران ویسی انتظامیہ کراچی کے نئے بیٹے مرتضی وہاب کم از کم اپنی والدہ کا چہرہ بنیں اور مذمت کریں صحافی فیض اللہ خان نے تبصرہ کیا کہ پاکستانی نظام شکستگی کے آخری مراحل میں ہے شاہ زیب کے قتل میں ملوث شاہ رخ جتوئی محض پیسوں کی بنیاد پہ بجائے جیل کے کراچی کے اسپتال میں رنگ رلیاں منارہا ہے پیپلز پارٹی کو صرف مال چاھیئے اسے ان باتوں سے فرق نہیں پڑتا ، اجتماعی نوحہ ہے نظام انصاف بدترین گڑھے میں اوندھے منہ پڑاہے فیاض راجہ نے لکھا کہ وڈیرے کا بیٹا،قتل کا مجرم، عمر قید کیا قیدی، شاہ رخ جتوئی گزشتہ8ماہ سے جیل کی بجائے ایک پرائیویٹ اسپتال میں عیش کر رہا ہے،وڈیرے باپ نے جیل انٹظامیہ،سندھ انتظامیہ،نجی اسپتال سب کو خرید لیا،ہائی کورٹ،سپریم کورٹ کے منہ پر تھپڑ، پھر پوچھتے ہیں عمران خان تبدیلی کیوں نہیں لایا انورلودھی کا کہنا تھا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق شاہ رخ جتوئی سنٹرل جیل کراچی کی بجائے کئی ماہ سے نجی ہسپتال میں رہ رہا ہے بلاول صاحب وفاقی حکومت پر تو بہت تنقید کرتے ہیں لیکن کیا سندھ حکومت کی ناک کے نیچے انہیں یہ کھلی لا قانونیت نظر نہیں آتی؟ علی رضا نے تبصرہ کیا کہ کہنے کو تو شاہ رخ جتوئی جیل میں ہے لیکن وہ کئی ماہ سے جیل سے باہر عیاشی کررہا ہے اور یہ بات سندھ حکومت اور اس کی عسکری ونگ سندھ پولیس کو بھی پتا ہے- آئی جی سندھ میں ہمت ہے تو سندھ پولیس کی اس حرکت پر ایسے ہی چھٹیوں پر چلے جائیں جیسے کیپٹن صفدر کے معاملے میں جارہے تھے- بلال ناصر کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کی سرپرستی میں عام شہری کا بااثر قاتل شاہ رخ جتوئی اسپتال میں تمام تر سہولیات کیساتھ عیش کررہا تھا ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ آج ہر پروگرام میں عوامی جماعت کہنے والی پی پی اور اسکے نمائندوں کے بخیے ادھیڑ دیئے جاتے تمام چینلز لگا کر دیکھ لیے کہیں اس پر بات تک نہیں ہورہی ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ شاہ رخ جتوئی کیس. قاتل کی جیل سے نجی ہسپتال منتقلی. ثابت ہوا سب سے بڑا روپیہ اور قانون بااثر افراد کی رکھیل. کوئی غریب اس سہولت بارے سوچ سکتا ہے؟ ایک اور سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ شاہ رخ جتوئی کا ڈیتھ سیل کی بجائے پر تعیش کمرہ میں پولیس سیکورٹی میں شاہانہ انداز دیکھ کر پاکستان میں قانون و انصاف کی بے بسی پر ترس آ تا ہے۔ ملک شہزاد نے لکھا کہ وڈیرے کا بیٹا،قتل کا مجرم، عمر قید کیا قیدی، شاہ رخ جتوئی گزشتہ8ماہ سے جیل کی بجائے ایک پرائیویٹ اسپتال میں عیش کر رہا ہے،وڈیرے باپ نے جیل انٹظامیہ،سندھ انتظامیہ،نجی اسپتال سب کو خرید لیا،ہائی کورٹ،سپریم کورٹ کے منہ پر تھپڑ، پھر پوچھتے ہیں عمران خان تبدیلی کیوں نہیں لا سکے
سلیم صافی کا حکومت پر اومی کرون جان بوجھ کر پھیلنے کا الزام، سوشل میڈیا صارفین نے سلیم صافی کو چھوٹی سوچ کا مالک قراردیدیا اپنے ٹوئٹر پیغام میں سلیم صافی کا کہنا تھا کہ کوروناکا نیاویرئینٹ اومی کرون جنگل کی آگ کی طرح تیزی سےپھیلتاہے۔کراچی میں یکدم کیسزکابڑھ جاناثبوت ہےلیکن افسوس کہ حکومتی شخصیات بھی ماسک استعمال نہیں کرتے۔حکومت روک تھام کےلئےکوئی قدم نہیں اٹھارہی۔ سلیم صافی کا مزید کہنا تھا کہ کہیں ایساتونہیں کہ مارچ میں ہونےوالےمارچزکوروکنے کےلئےجان بوجھ کرپھیلنےدیاجارہا ہے۔ سلیم صافی کے اس ٹویٹ پر سوشل میڈیا صارفین نے سلیم صافی کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ مارچ تو ہونا ہی نہیں تھا، چلو شکر ہے کہ آپ جیسے صحافی پی ڈی ایم کو باعزت راستہ دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین نے مزید کہا کہ جب کورونا وائرس تھا تب پی ڈی ایم نے بھرپور جلسے کئے، اب پی ڈی ایم کو کیا مسئلہ ہے؟ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ اگر کورونا کیسز کراچی میں پھیلے ہیں تو کراچی میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے۔
سانحہ مری میں 23 سے زائد اموات کی وجہ سے پورا پاکستان سوگ کی حالت میں ہے۔میڈیا حکومت اور مری انتظامیہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنارہا ہے اور یہ کہہ رہا ہے کہ اگر حکومت بروقت انتطامات کرتی تو اس سانحہ کو روکا جاسکتا تھا۔ اپوزیشن نے بھی اس سانحہ پر خوب سیاست چمکائی لیکن کچھ اپوزیشن رہنماؤں اور صحافیوں کو سوگ کی حالت میں بھی جگتیں سوجھتی رہیں اور طنز کے نشتر چلاتے رہے۔ کوئی طنز کرتا کہ کاش عمران خان اپوزیشن لیڈر ہوتے تو وزیراعظم کا استعفیٰ مانگتاتو کسی نے طنز کیا کہ شکر ہے کہ عمران خان نے ذمہ داری پچھلی حکومت پر نہیں ڈالی۔ کسی نے عثمان بزدار پر جگت بازی کرکے ہاتھ صاف کئے تو کسی نے کوریا کے وزیراعظم کا حوالہ دیا۔ ان میں زیادہ تر صحافی وہ ہیں جو مریم نواز کے کیمپ کے سمجھے جاتے ہیں جبکہ خواجہ آصف سمیت لیگی رہنما بھی طنزیہ جملے بازی میں پیش پیش رہے۔ خواجہ آصف نے وزیراعظم سے ایک بیان منسوب کرکے طنز کیا کہ وزیراعظم کہتے ہیں کہ یہ برف باری پچھلی حکومت کے وقت سے جاری تھی اس لیے ہم لوگوں کو بچانے میں کامیاب نہیں ہوۓ ۔ سلیم صافی نے طنزیہ ٹویٹ کی سانحہ مری پہلا سانحہ ہےجسکی ذمہ داری ابھی تک عمران خان نےنوازشریف اورزرداری پرنہیں ڈالی لیکن جلدانکی طرف سےیہ بیان آسکتا ہےکہ: شاہدخاقان عباسی مری کے ہیں۔انہوں نےشہبازشریف کےساتھ مل کربرف کو(نعوذباللہ) مصنوعی طورپرپانچ سال روکے رکھااور اب یکدم پانچ سال کی برفباری ایک ساتھ ہوگئی۔ عارف حمید بھٹی نے حکومت پر طنز کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ حکومت کی مہربانی ! ابھی تک سانحہ مری میں ہلاک ہونے والوں کی ذمہ داری سابق حکمرانوں پر نہیں ڈالی۔ بینش سلیم نے تبصرہ کیا کہ جس شخص نے ساری عمر چندہ مانگنے میں گزار دی ہو اسے حکومت بھی مل جائے تب بھی مانگنے کی عادت سے چھٹکارہ نہیں ملتا .. اندازہ یہ لگائیں کہ اس قدرتی آفت میں بھی اس کے وزیر عوام سے مدد مانگ رہے ہیں کہ سیاحوں کی مدد کرو ... نااہلو خدا کا واسطہ ہے گرم کمروں سے نکلو اور ان کی مدد کرو صحافی عمرچیمہ نے طنز کیا کہ کاش آج عمران خان اپوزیشن لیڈر ہوتا اور سانحہ مری کے بعد وزیراعظم سے استغفی مانگتا عمرچیمہ نے مزید کہا کہ سیاح جب اتنی تعداد میں مری گئے تو حکومت نے اسے خوشحالی کی علامت قرار دیکر کریڈٹ لیا اب اموات واقع ہوئی ہیں تو حکومت سیاحوں کو مورد الزام ٹھہرا رہی ہے رضوان رضی کا کہنا تھا کہ اس وقت بھی صاحب لوگوں کا سارا زور ریسکیو کی بجائے اپنے ایجنٹوں کی ذریعے اپنی تصاویر ٹویٹ اور ری ٹویٹ کروانے پر ہے۔ اوہ میرے خدایا، آف میرے خدایا، آف میرے خدایا جیو کی صحافی نوشین یوسف نے دعویٰ کیا کہ آج بہت لوگوں کو شہباز شریف کو یاد کرتے دیکھا ۔ شہباز شریف کے لانگ بوٹ کا مزاق اڑانے والے، خود برفباری اور بارش سے نمٹنے میں بھی ناکام ۔ صحافی عبدالقیوم صدیقی نے وزیراعظم عمران خان کے ٹویٹس شئیر کرتے ہوئے طنز کیا جس میں وزیراعظم عمران خان نے مختلف مواقعوں پر Shockلفظ استعمال کیا تھا۔ صحافی افتخاراحمد نے سوال اٹھایا کہ کیا سپریم کورٹ آف پاکستان سانحہ مری پر از خود نوٹس لے گی کوریا کا وزیراعظم غیرت مند تھا جو کشتی ڈوبنے پر استعفیٰ دے دیا تھا، مجھ سے ایسی کوئی امید نہیں رکھی جائے۔ وزیراعظم عمران خان شمع جونیجو اور نادیہ مرزا بھی عثمان بزدار پر طنز کرتی رہیں۔ شہبازگل کے ایک ٹویٹ پر حامد میر نے طنزیہ جواب دیا کہ کیا فرمایا؟ 10 فٹ برف؟ اتنی برف میں ٹانکیں نہیں گردن بھی دھنس جاتی ہے یہ مبالغہ آرائی کا موقع نہیں ہے تھوڑا کم کر لیں 3 یا 4 فٹ کہنا مناسب ہے ورنہ کل کو آپ یہ بھی کہیں گے کہ یہ برف باری پچھلی حکومتوں کے دور سے جاری تھی اس لئے آپکی حکومت برف ہٹانے میں کامیاب نہ ہو سکی
سانحہ مری میں 23 افراد شدید برفباری ، ٹریفک جام اور دیگر وجوہات کی بناء پر جان کی بازی ہارگئے جس کی وجہ سے وفاقی اور صوبائی حکومت شدید تنقید کی زد میں ہے، ن لیگ اور دیگر جماعتوں کے رہنما، سپورٹرز اور ان جماعتوں کے حامی صحافی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ ان کی جانب سے نہ صرف بزدارحکومت اور وفاقی حکومت پرسوالات اٹھائے جارہے ہیں بلکہ عمران خان کے پرانے بیانات کے کلپس شئیر کرکے طنز وطعن میں مصروف ہے۔ لیکن دوسری جانب پاکستان میں اکثریت نہ صرف حکومت کو بلکہ مری کی ہوٹل انتظامیہ کو بھی تنقید کا نشانہ بنارہی ہے اور مری والوں کو انسانیت سے عاری قراردے رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دھندے کے چکر میں مری والوں کی انسانیت مرچکی ہے، پیسے کے لالچ میں نہ صرف عوام کی جیبیں صاف کرتے ہیں بلکہ بدتمیزی اور مارکٹائی پر بھی اترآتے ہیں۔ سوشل میڈیاصارفین کا یہ بھی کہنا تھا کہ خداکی پناہ 10، 20 ہزار والے کمرے کا 50 سے 70 ہزار مانگ رہے ہیں، انڈا 500 روپے، کیا انہوں نے پیسہ قبر میں لیکر جانا ہے؟ ان سوشل میڈیا صارفین کا یہ بھی کہنا تھا کہ برف میں پھنسی گاڑیوں کو نکالانا ہو یا بند گاڑی کو دھکا لگانا ہو مری والوں نے اس کے بھی پیسے چارج کئیے چھوٹی گاڑی ہزار روپے بڑی گاڑی تین ہزار تک لئیے... صرف دھکا لگانے کے ان کا کہنا تھا کہ مری کے مقامیوں نے برف میں پھنسے مجبور لوگوں کو بالکل اس ہی طرح لوٹا جس طرح میدان جنگ میں مال غنیمت لوٹا جا تا ہے سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ اگر پاکستانی قوم سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ عملی غیرت اور یکجہتی کا مظاہرہ کرے تو مری مافیہ تو چھوٹی سی چیز ہے بڑے بڑے مسائل حل ہوسکتے ہیں ایک خاتون نے تبصرہ کیا کہ رف کی چادر میں انسانیت پگلتی رہی تڑپتی رہی سسکتی رہی مرتی رہی اور مری والے زیادہ سے زیادہ منافع کما کر لوٹتے رہے یہ سرمائے کی ہوس تھی وہ مدد کے متلاشی رھے اور یہ لوٹتے رہے تاکہ ھم بھی بڑے سے بڑا سرمایہ دار بن سکیں۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ آپ جتنے مرضی #بائیکاٹ_مری کے ٹرینڈ چلاتے رھیں،اگلے ھفتے کے آغاز پر جو محکمہ موسمیات نے بارشوں اور برفباری کی پیشینگوئی کی ھے لوگ وہ دیکھنے مری پہنچ جائیں گے۔ آج حکومت سڑکیں کھول دے یہی مری ھوگا جس کی سڑکوں پر تل دھرنے کی جگہ نہیں ھوگی۔ کچھ سوشل میڈیا صارفین نے اس ٹرینڈ کی مذمت بھی کی اور کہا کہ اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں، مری کے لوگوں میں انسانیت ابھی مری نہیں، وہاں موجود لوگوں کو ریسکیو کرنے مری کے لوگ بھی آگے آگے تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہوٹل مالکان زیادہ کرایہ وصول کررہے ہیں، لوگوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاکر مہنگی اشیاء بیچ رہے ہیں تو اس میں نہ صرف یہ لوگ بلکہ حکومت بھی قصوروار ہے۔ حکومت نے کیوں چیک اینڈبیلنس نہیں رکھاان پر؟ ایسے لوگوں کو قانون کا ڈنڈا ہی انسان بناتا ہے۔ انصار عباسی کا کہنا تھا کہ کچھ کالی بھیڑوں کی وجہ سے پورے مری کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ کسی کی مجبوری کا فائدہ اُٹھانا غیر انسانی اور غیر اسلامی رویہ ہے۔ میرا تعلق مری سے ہےاور میں اُن تمام افراد کی پرزور مزمت کرتا ہوں جنہوں نے برف باری کے دوران سیاحوں کی مجبوری کو اپنے لیے پیسہ بنانے کا ذریعہ بنایا ایک اور سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ لاہور موٹر وے پر عورت کے ساتھ ریپ ہوا تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سب لاہور والے زانی ہیں؟؟ کیا کراچی میں بوری بند لاشیں ملنے پر کہہ دیا جائے کہ سب کراچی والے قاتل ہییں
کمشنر راولپنڈی کی جانب سے میری میں پھنسے سیاحوں کو مدد کیلئے آرمی کنٹرول سے رابطے کی ہدایت دینا مہنگا پڑگیا ہے، ٹویٹر صارفین نے کمشنر کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔ مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر کمشنر راولپنڈی ڈویژ ن کے اکاونٹ سے آج ایک ٹویٹ کی گئی جس میں کہا گیا کہ اگر کوئی بھی سیاح اس وقت مری یا اس کے اطراف میں کسی جگہ پھنسا ہوا ہے تو آرمی کنٹرول اور کرائسس مینجمنٹ سیل مری سے رابطہ کرے۔ انہوں نے اپنی اس ٹویٹ میں ایک رابطہ نمبر بھی شیئر کیا اور ساتھ ہی چیف سیکرٹری پنجاب اور پنجاب حکومت کے ٹویٹر اکاؤنٹس کو ٹیگ بھی کیا۔ صارفین نے کمشنر کی جانب سے اس ٹویٹ پر شدید ردعمل دیا اور کہا کہ مشکل میں آرمی کو مدد کیلئے ہی کیوں پکارا جاتا ہے سول انتظامیہ اور ادارے ہر بار اپنی ذمہ داریوں سے کیوں مبرا ہوجاتے ہیں۔ سعد نامی صارف نے کہا کہ اگر ہمیں تمام ایمرجنسی کی صورتحال میں آرمی کی ہی ضرورت ہے تو ہم کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز، اسسٹنٹ کمشنرز اور باقی سول افسران کو ہائر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ مری ہر بار ایسے ہی مناظر پیش کررہا ہوتا ہے یہاں تک کہ گرمیوں میں بھی آپ پارکنگ کے مناسب انتظامات نہیں کرپاتے۔ فرحان نامی صارف نے کہا کہ اب تک حکومت نے مری کے ہوٹلوں کی انتظامیہ کے خلاف کریک ڈاؤن کیوں نہیں شروع کیا ، کیا سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں آپ نے کمروں کے زائد کرایوں سے متعلق نہیں سنا؟ مرنے والے لوگ گاڑیوں کے بجائے ہوٹلوں کے کمروں میں رات گزار سکتے تھے اگر مقامی انتظامیہ لٹیروں کو کنٹرول کرلیتی ۔ ایک اور صارف نے شدید غصہ میں کمشنر راولپنڈی کے ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مری کی سول انتظامیہ سارا سال سرکاری نوکری کے مزے کرتے ہیں اور مشکل کے وقت میں آرمی کو طلب کرلیا جاتا ہے، مری کی انتظامیہ ہمیشہ سے مافیا کو سپورٹ کرتی ہے۔ سوشل میڈیا پر کچھ صارفین نے آرمی کو بھی مدد کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ صارفین کا کہنا تھا کہ پاکستان آرمی کے پاس ایک تو فنڈز سب سے زیادہ ہوتے ہیں اور دوسرا یہ لوگ کسی اور ادارے کو اس قابل رہنے ہی نہیں دیتے کہ وہ عوام کی مدد کر سکیں۔ نعمان نامی صارف نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ راستے بیلچوں سے نہیں مشینوں سے کھلتے ہیں، البتہ بیلچوں کیساتھ تصاویر اچھی آتی ہیں۔ پاکستان آرمی پر تنقید کرنے پر وسیم اعجاز نے نعمان کو جواب میں پاگل قرار دیتے ہوئے کہا کہ فوج ساری مشینری ایک دم سے روڈ پر نہیں لا سکتی۔انہوں تنقید کرنے والوں کو ایف ڈبلیو او کی قراقرم ہائی وے پر بنائی گئی ڈاکیو منٹری دیکھنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ کس طرح فوج کے جوانوں نے بیلچوں اور بنیادی اوزاروں کی مدد سے پہاڑوں پر سڑک بنائی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان بہادر جوانوں کے سامنے یہ برف تو کچھ بھی نہیں۔
نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس کے انسپکٹر جنرل انعام غنی کو برف باری دیکھنے جانےو الے لوگوں پر تنقید کرنا مہنگا پڑگیا، امریکی و پاکستانی صحافیوں نے آڑے ہاتھوں لے لیا۔ تفصیلات کے مطابق انعام غنی نے مری سانحے سے متعلق اپنے آفیشل ٹویٹر ہینڈل سے ایک ٹویٹ کیا اور کہا کہ یورپ اور امریکہ میں لوگ برفباری دیکھنے کیلئے پہاڑوں کی طرف نہیں جاتے، وہ گھروں میں رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ گھروں سے باہر بھی نہیں نکلتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہاں برفباری کے دنوں میں اسکول اور دفاتر بھی بند کردیئے جاتے ہیں، مگر ہمارے یہاں صورتحال یکسر مختلف ہے، جیسے ہی لوگوں کو برفباری کا پتا چلتا ہے وہ برفباری دیکھنے کیلئے بھاگتے ہیں۔ انعام غنی کے اس ٹویٹ پر امریکہ کے ہی صحافی سیتھ اولڈ مکسن نے ردعمل دیا اور انعام غنی کو یورپ و امریکہ کے زمینی حقائق سے آگاہ کرنے کیلئے چند روز پہلے کی ایک اخباری خبر کا لنک بھی شیئر کیا۔ امریکہ صحافی نے کہا کہ" امریکہ میں بھی لوگ پہاڑوں پر برفباری دیکھنے جاتے ہیں ، کچھ دن پہلے ہی ایسا ہوا ہے "۔ صحافی نے جو خبر شیئر کی وہ امریکی ریاست ورجینیا میں برفباری کے دوران پھنسنے والی گاڑیوں سے متعلق تھی۔ پاکستانی صحافی طلعت حسین نے امریکی صحافی کی ٹویٹ کو ری شیئر کرتے ہوئے کہا کہ کیا پنجاب پولیس خود اپنے لیے ہی شرمندگی کا باعث نہیں بن رہی ، وہ اس گھڑی میں بھی سڑک کنارے مرنے والوں کی توہین کررہی ہے، بیوقوف نظر آنے کی کیا ضرورت ہے؟ تنقید کے بعد آئی جی انعام غنی نے اپنا ٹویٹ ڈیلیٹ کر دیا۔
پنجاب حکومت کی اتحادی مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور وفاقی وزیر مونس الہٰی نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انتظامیہ کو سارے واقعے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت میں جو سیاحوں کو آج کے المناک سانحہ کا قصور وار ٹھہرا رہے ہیں وہ خدارا ہوش کریں۔ وفاقی وزیر مونس الہٰی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری ایک ٹوئٹ میں کہا کہ مری میں کیا اتنی برف پہلی دفعہ پڑی تھی؟ حکومت میں جو سیاحوں کو آج کے المناک سانحہ کا قصور وار ٹھہرا رہے ہیں وہ خدارا ہوش کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ متاثرین کی امداد میں فوجی جوانوں، مقامی شہریوں اور ہوٹلوں کا کردار قابل تعریف مگر انتظامیہ کی کارکردگی قابل مذمت ہے۔ جبکہ دوسری جانب ان کے اس ٹوئٹ پر سوشل میڈیا صارفین بھڑک اٹھے ہیں اور انہیں غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت سے الگ ہونے کا مشورہ دے دیا ہے۔ مہتشم ترین نے لکھا کہ حکومت کا حصہ ہیں آپ، حکومت غلط کام کر رہی ہے تو تنقید کرنے سے بہتر ہے کہ اس سے الگ ہو جائیں۔ اتنی غیرت کا مظاہرہ تو کریں۔ عمران افضل راجہ نے لکھا کہ اتنی غیرت جاگ ہی گئی ہے تو پرویز الہٰی سے کہو حکومتی اتحاد چھوڑ کر حکومت گرا دیں۔ انہوں نے بھی مشورہ دیا کہ انہیں احتجاجاً استعفیٰ دے دینا چاہیے اس صارف نے مزید کہا کہ بے شک ان کی صرف تربیت ہی شریف خاندان کے زیر اثر نہیں ہوئی بلکہ خون میں بھی اثرات دکھتے ہیں۔ بیٹھے بھی حکومت میں اور تنقید بھی اسی پر۔ افضال خان نے کہا کہ تم لوگ بھی اس نااہل کوسپورٹ کرکے اتنے ہی مجرم ہو جتنا عمران خان۔ احمد ندیم نے لکھا کہ چلو تو پھر اس بار غیرت کھا کر استعفیٰ ہی دے دو؟ یہ کیا کہ رند کے رند ہی رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔ انعام نے کہا کہ استعفی دے کے لعنت بھیجو ایسی حکومت پہ۔ جنید نے کہا کہ جناب کوئی موقع چھوڑتے نہیں تنقید کرنے کا اور وزارت کے مزے بھی لیتے ہیں اور اربوں روپے کے فنڈ بھی۔ آپ کی وزارت کے نیچے واپڈا آتا ہے جس کے بے شمار ریسٹ ہاؤس موجود ہیں ان علاقوں میں، ان کو اب تک مسافروں کے لئے کھلوانا چاہئے تھا جناب کو۔ شرافت علی نامی صارف نے بھی کہا کہ وہ خود بھی تو حکومت کا حصہ ہیں۔
معروف کامیڈین اور گلوکار علی گل پیر جو کہ اپنی نت نئی مزاحیہ ویڈیوز کی وجہ سے خبروں کی زینت بنے رہتے ہیں انہوں نے اب ایک نئی ویڈیو بنائی ہے جس میں جیو انٹرٹینمنٹ کے ڈرامہ سیریل "اے مشت خاک" کے ایک حصے کو اپنے مزاحیہ انداز میں ڈب کیا گیا ہے۔ مذکورہ مزاحیہ ویڈیو میں علی گل پیر نے ڈرامے کے مرکزی کردار مستجاب احمد اور اس کی اہلیہ دعا کے ڈائیلاگ پر ڈبنگ کی ہے جس میں وہ اپنے ہنی مون سے متعلق پلان بنا رہے ہیں۔ اس میں دعا اپنے شوہر کو بتاتی ہے کہ اس کی یونیورسٹی شروع ہو چکی اور کچھ دنوں میں رمضان المبارک شروع ہونے والا ہے اس لیے وہ ہنی مون پر نہیں جا سکتی۔ جس پر مستجاب احمد حیران ہو کر پوچھتا ہے کہ وہ رمضان میں کیا کرے گی۔ اس پر دعا کہتی ہے کہ اس نے روزے رکھنے ہیں۔ علی گل پیر نے اس کے کیپشن میں لکھا کہ ایسا تب ہوتا ہے جب آپ اپنے محبوب سے پیار بڑھانے کی کوشش کریں اور وہ نت نئے بہانے تلاش کرتا رہے۔ انہوں نے اس کے ساتھ ڈرامے کا وہ حصہ بھی شیئر کیا جس میں دعا اپنے شوہر مستجاب کے ساتھ یہ مکالمہ کر رہی ہے جب کہ دیگر اہلخانہ خاموش بیٹھے یہ سب دیکھ رہے ہیں۔
معروف میزبان اور پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین کی بات اور کام نرالے ہوتے ہیں، جب چاہیں خبروں کی زینت بن جاتے ہیں، اس بار طبیعت ناسازی میں ان کا بالی ووڈ گانے پر رقص بھارت میں بھی توجہ کا مرکز بن گیا،لیکن حقیقت ہے اس کے کچھ برعکس۔ ہوا کچھ یوں کہ تیس دسمبر کو عامر لیاقت کی طبیعت ناساز ہونے پر انہیں اسپتال منتقل کردیا گیا، اور 5 جنوری 2022 کو انہیں اسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا،اس دوران بھارتی سوشل میڈیا صارفین نے ایک ویڈیو شیئر کی جس کے کیپشن میں لکھا پاکستانی پارلیمنٹرین عامر لیاقت حسین ٹپ ٹپ برسا پانی پر ڈانس کرتے ہوئے۔ کئی بھارتی میڈیا نے یہ خبر نشر کی کہ پاکستانی رکن قومی اسمبلی بالی ووڈ فلم سوریا ونشی کے مشہور گانے ٹپ ٹپ برسا پانی پر ڈانس کر رہے ہیں اور یہ ویڈیو انٹرنیٹ وائرل ہورہی ہے،ویڈیو وائرل ہونے اور سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر ہونے کے بعد کچھ لوگوں نے نشاندہی کی کہ اس میں موجود شخص عامر لیاقت نہیں ہیں۔ اس کے بعد بھارت کی ایک نیوز ویب سائٹ این ڈی ٹی وی نے اس حوالے سے فیکٹ چیک جاری کیا جس میں بتایا گیا کہ ویڈیو میں موجود شخص عامر لیاقت نہیں بلکہ کوئی اور ہے،انہوں نے ویڈیو میں موجود شخص کا انسٹاگرام پروفائل بھی شیئر کیا،ویڈیو میں موجود شخص کا نام شعیب شکور ہے جو ایک کوریوگرافر ہے،نجی ٹی وی سما سے گفتگو میں شعیب شکور نے بتایا کہ وہ پاکستان کے شہر لاہور کے رہائشی ہیں اور پیشہ کے لحاظ سے کوریوگرافر اور گلوکار ہیں۔ گزشتہ ہفتے ٹی وی میزبان اور رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین نے ٹویٹ پر بتایا تھا کہ کراچی کے ایک نجی اسپتال میں منتقل کیا جا رہا ہے، بیماری کیا ہے اس کی تفصیل نہیں دی گئی،پھر انہوں نے بتایا کہ وہ اب بہتر ہیں، انہوں نے اپنے مداحوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ان کی صحت یابی کے لیے دعا کی تھی۔
مری میں سیاحتوں کی اموات : اپوزیشن رہنماؤں کی حکومت پر کڑی تنقید مری میں 20 سے زائد سیاح اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ شیخ رشید کے مطابق رات سے 1 ہزار گاڑیاں مری میں پھنسی ہوئی ہیں،ان پھنسی ہوئی گاڑیوں میں 20 افراد کی اموات ہوئی ہیں تاہم ریسکیو ذرائع نے 22 اموات کی تصدیق کی ہے۔ پولیس کے مطابق مری میں ہونے والی اموات میں اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے پولیس کے اے ایس آئی سمیت ایک ہی خاندان کے 8 افراد بھی شامل ہیں، جبکہ نتھیا گلی میں بھی 3 اموات ہوئی ہیں۔ مریم میں آنیوالے افسوسناک سانحہ پر اپوزیشن کو سیاست کرنے کا موقع مل گیا اور حکومت کو خوب آڑے ہاتھوں لیا۔اپوزیشن رہنماؤں نے اس سانحے کو حکومتی غفلت قرار دیا اور وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے استعفیٰ کا بھی مطالبہ کیا۔ مریم نواز نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ حکومتوں کا کام صرف سیاح گننا نہیں بلکہ ان کے لیے پیشگی انتظامات اور حفاظتی اقدامات کرنا ہے۔ شہباز شریف کے بوٹوں اور خدمت کا مذاق اُڑانے والا اپنے محل میں بیٹھا اپنی گرتی ہوئی حکومت بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ یہ اموات برفباری سے نہیں، حکومتی غفلت سے ہوئی ہیں۔ مریم نواز نے وزیراعظم عمران خآن کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے لکھا کہ تھوڑا سا بھی احساس ہے عوام کا یا رحم سے بالکل دل عاری ہے؟ اللّہ سے ڈر نہیں لگتا ؟ ان کا کہنا تھا کہ مری میں بے یارو مددگار برف میں دھنسے رہنے والے پورے کے پورے خاندانوں کی موت کے دردناک واقعہ نے دل ہلا کے رکھ دیا ہے۔حکومت کو کوسنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ مردہ ضمیر حکومت بہت پہلے مر چکی ہے خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ بےحِس وفاقی وزرأ کی لاھورمیں پریس کانفرنس ۔۔۔ندامت شرمندگی یاافسوس کی بجاۓ مسکراتے چہرے ۔۔سانحۂِ مری کوئی ذمہ داری قبول کرنے یاتدبیرکی بجاۓ شاھدخاقان عباسی کوریسکیو کام کرنیکامشورہ ۔۔شھبازشریف کو پھرجیل بھیجنے کے دعوے ۔۔الیکشن سے پہلےمخالفین کوٹھکانے لگانےکے دعوے ۔۔بےشرمی کی انتہا عابد شیر علی نے لکھا کہ مری میں سیاحت کے لیے جانے والے متعدد شہریوں کی اموات ایک دلدوز سانحہ ہے۔اس المیے کی ساری ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے جس نے لاکھ سے زیادہ گاڑیاں مری میں داخل ہوتے دیکھ کر تالیاں بجانے پر اکتفا کیا۔یہ اموات حکومتی نااہلی پر مہر ہیں۔ اسے خوش حالی قرار دینے والے کو شرم آ نی چاہیے۔ نازبلوچ نے تنقید کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ اسلام آباد سے صرف دو گھنٹے کی مسافت پہ مری کی سڑکوں پر برف میں پھنسے ہوئے سیاحوں کی قیمتی جانوں کا نقصان انتہائی افسوسناک ہے۔ کل وزراء لاکھوں سیاحوں کے جوق در جوق مری سیر کرنے کا جشن منا نے کے بجائے ان قیمتی جانوں کو بچانے کے لئیے حکمت عملی کرتے تو یہ نقصان نہ ہوتا احسن اقبال نے حکومت پر تنقید کی اور لکھا کہ مری کے واقعات انتہائی اندوہناک ہیں- ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ کے لئے دعا ہے کہ اللہ تعالی انہیں صبر عطا فرمائیں آمین! حکومت کی بے حسی انتہائی قابل مذمت ہے- کہیں حکومت، انتظامیہ نظر نہیں آئی اور لوگ ٹھٹھرتے ٹھٹھرتے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے- سعید غنی نے فوادچوہدری پر طنز کیا کہ ایک لاکھ گاڑیوں کے مری جانے پر خوشیاں منانے والے بے حس لوگ جواب دیں کہ وہاں جاں بحق ہونے والوں کی ذمہ داری کس کے کا ندھوں پر ہے مریم اورنگزیب نے وزیراعظم عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے لکھا کہ یہ بیان بے حسی، ظلم، نالائقی، نااہلی کی انتہا ہے۔ کرپشن اور نالائقی ایک طرف، موت کے منہ میں جانے والوں کو ہی موردالزام ٹھہرانے پہ استعفیٰ دیں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب آپ خود ہیں انکوائری کا حکم نہیں مجرمانہ غفلت کا جواب آپ کو دینا ہے۔ یہ ریاست مدینہ کے دعویدار کا بیان ہے۔ عظمیٰٰ بخاری کا کہنا تھا کہ ان بیشرموں کی حالت دیکھیں جو پہلے کاروں کی تعداد پہ دھمال ڈال رہے تھے،اب انکے وزیراعظم سمیت انکے مطابق جو مرگئے وہی ذمہ دار ہیں،ان منحوس کو صرف دانت نکالنے کیلئے رکھا گیا ہے،آج بھی لوگ مصیبت میں ہیں اور انکی جگتیں ختم نہیں ہورہیں
مری میں شدید عوامی رش،وزیر داخلہ کی عوام سے غیر ضروری سفر سے گریز کی اپیل مری میں سیاحوں کے شدید رش کے باعث سڑکوں پر ٹریفک جام ہوگئی ہے، اس حوالے سے وزیر داخلہ شیخ رشید نے سیاحوں سے اپیل کی ہے کہ مری کا رخ نہ کریں۔ برفباری کے شروع ہوتے ہی سیاحوں کی بڑی تعداد موسم کا مزہ لینے مری پہنچ گئی ہےجس کے سڑکیں اور شاہراہیں بدترین ٹریفک جام کا منظر پیش کررہی ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے اس حوالے سے مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر مفاد عامہ کا ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ برفباری کی وجہ سے اسوقت مری اور گلیات میں سیاحوں کا بے پناہ رش ہے، تقریباً ایک لاکھ سے زائد گاڑیاں اسلام آباد کے راستے مری اور گلیات کی طرف جا چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بڑھتے ہوئے عوامی رش کی وجہ سے مری کی جانب ٹریفک کی روانی انتہائ سست ہے،لہذا سیاحوں بلخصوص فیملیز سے اپیل ہے کہ وہ مری اور گلیات کی طرف سفر کرنے سے فی الحال گریز کریں۔ شیخ رشید نے مزید کہا کہ اسلام آباد اور مری کی انتظامیہ عوامی سہولت کے لئے 24 کھنٹے سرگرم عمل ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے بھی ٹویٹر پر مری کے گردونواح کا نقشہ شیئر کرتے ہوئے ٹریفک جام کی نشاندہی کی اور کہا کہ ایک لاکھ سے زائد گاڑیاں مری اور گلیات ایریا میں داخل ہو چکی ہیں۔ ڈاکٹر شہباز گل نے عوام سے اپیل کی کہ براہ مہربانی غیر ضروری سفر سے گریز کریں اور اگر سیرو تفریح کے کئے جانا ہے تو آنے والے ویک اینڈ پر ملتوی کر لیں۔ نیچے نقشے میں لال رنگ میں ٹریفک فلُو دیکھا جا سکتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے بھی عوام سے مری کا غیر ضروری سفر کرنے سے گریز کی اپیل کی اور کہا کہ ٹریفک جام اور فلو متاثر ہونیکی شکایات کی وجہ سے اسلام آباد سے مری کی جانب انٹری اتوار تک بند کردی گئی ہے۔
گزشتہ روز مریم نواز اور پرویز رشید کی ایک آڈیو ٹیپ منظرعام پر آئی ۔ آڈیوٹیپ میں مبینہ طور پر پرویز رشید کو کہتے سنا جاسکتا ہے کہ ان کا ایک پروگرام ’اسکور کارڈ‘ ہے جس کا وہ حوالہ دے رے ہیں جو کہ نجی چینل ’جیو نیوز‘ کا معروف شو ہے۔ پر پرویز رشید مریم کواز کو کہتے ہیں کہ صحافی حسن نثار، جو کہ (ن) لیگ کو بہت گالیاں دیتے ہیں ۔جس پر مبینہ طور پر مریم نواز کہتی ہیں کہ ایک اور اینکر ارشاد بھٹی بھی آگیا ہے جس پر پرویز رشید کہتے ہیں کہ ارشاد بھٹی کتے کی طرح بھونکتے ہیں۔ لیگ کے لیے بہت گندی زبان استعمال کرتے ہیں۔ مبینہ طور پرویز رشید کہتے ہیں کہ اس شو میں کوئی بھی ہمارا ترجمان نہیں ہے، ستار بابر آزادانہ رائے رکھتے ہیں اور کم از کم گالم گلوچ نہیں کرتے، تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی ہمارا نقطہ نظر نہیں بتاتے تھے لیکن وہ جیسا ہمارے ساتھ سلوک کرتے تھے عمران خان کے ساتھ بھی اسی طرح سلوک کرتے تھے، انہوں نے ان کو پروگرام سے ہٹادیا ہے اور ان کا کالم بھی روک دیا گیا ہے۔ جس پر مریم نواز کہتی ہیں کہ معاملہ جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمٰن کے ساتھ اٹھائیں گی۔ اس پر پر ویز رشید کہتے ہیں کہ ہمارے اوپر بھونکنے کے لیے کتے چھوڑ رکھے ہوں۔ جس کے جواب میں مبینہ طور پر مریم نواز کہتی ہیں کہ ابوجان جو 2 باسکٹس آذربائیجان سے لائے تھے، ایک نصرت جاوید اور رانا جواد کو بھیج دیں۔ اس کلپ کے منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہوگیا، سوشل میڈیا صارفین نے دلچسپ میمز بنائیں اور تبصرے کئے اور ٹوئٹر پر "باسکٹ کو عزت دو"ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ اس کلپ پر صدیق جان کا کہنا تھا کہ نالائق اعظم نے اتنی مہنگائی کردی ہے کہ پہلے صرف لفافے سے کام چل جاتا تھا، اب اگلوں کی ڈیمانڈ اتنی بڑھ گئی ہے کہ پوری ٹوکری بھر کے بھیجنی پڑتی ہے صحافی عمرانعام نے اس پر دلچسپ شاعری کی جس کا عنوان تھا کہ میں نواں کٹا کھول دیاں گی ابے چاچے رول دیاں گی احتشام الحق نے عمرچیمہ کو جواب دیا کہ آپ چینل کی بجاۓ باسکٹ پر بات کریں۔ وہ بعد کی باتیں ہیں۔ حفیظ نعیم کا کہنا تھا کہ کوڑا کرکٹ ہمیشہ باسکٹ میں ہی جاتا اچھا لگتا ہے ادھر ادھر بکھر جاۓ تو تعفن پھیل جاتا ہے۔ علی عمران فاروقی نے تبصرہ کیا کہ دیپیکا کہتی تھی "ایک چٹکی سندور کی قیمت تم کیا جانو رامیش بابو صحافی اب کہیں گے "آذربائیجان سے آئی باسکٹ کی قیمت تم کیا جانو پی ٹی آئی والوں! فہد نے طنز کیا کہ ایک نہتی عورت باپ کی پارٹی کا بیڑا غرق کرنے کے بعد میر شکیل کا بیڑہ غرق کرنے کی راہ پہ گامزن ہے اپنا اس کا کچھ بننا نہیں اور کسی کا کچھ رہنے نہیں دینا۔ جی این این کے صحافی محمد عمران نے تبصرہ کیا کہ الحمدللّٰہ یہ آڈیو بھی ہماری ہے ۔۔۔ یہ مافیہ کی اصل شکل ہے۔۔ دیکھیں کیسے پولیٹیکل ایلیٹ میڈیا گنز کو مینج کرکے عوام کی اپنے حق میں زہن سازی کرتی ہے ۔۔۔ دیگر سوشل میڈیا صارفین نے بھی اس پر دلچسپ تبصرے کئے اور دلچسپ میمز بناکر شئیر کیں۔
صحافی صدیق جان اور احمد نورانی کے درمیان ٹویٹر پر لفظی جنگ چھڑ گئی ہے جس میں دونوں جانب سے سخت الفاظ کا تبادلہ کیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق خبررساں ادارے جنگ ، جیو گروپ کیلئے کام کرنے والے صحافی احمد نورانی نے مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک ٹویٹ کیا جس میں انہوں نے انٹرسروسز انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر جنرل فیض حمید کو شدید الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا۔ احمد نورانی نے جنرل فیض حمید پر طنز کے نشتر برساتے ہوئے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی نے 2017 سے 2021 کے درمیان بہت سے کامیاب آپریشنز کیے اور جمہوری اداروں، گورننس ، ملک کا بیڑہ غرق کردیا مگر اپنے ادارے کی ناک نہیں کٹنے دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مگر اس وقت وہ انتہائی مضحکہ خیز آپریشنز کررہے ہیں جنہیں دیکھ کر ہنسی آتی ہے۔ جنرل ندیم انجم کو آئی ایس آئی کا عہدہ مکمل طور پر سنبھالنا چاہیے یا پھر چھوڑ دینا چاہیے۔ احمد نورانی نے کچھ دیر بعدخود ہی اپنی اس ٹویٹ کو ڈیلیٹ بھی کردیا۔ احمد نورانی کو اس ٹویٹ پر صحافی و یوٹیوبر صدیق جان کی جانب سے سخت زبان میں جواب دیا گیا جس میں انہوں نے احمد نورانی کو ان کی نجی زندگی کے مسائل پر توجہ دینے اور دیگر معاملات سے دور رہنے کا مشورہ دیا۔ صدیق جان نے احمد نورانی کی ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ " گھٹیا آدمی تم ہر ایک کے پیچھے لگے رہتے ہو، پہلے اپنی بیٹی کے تو وارث بنو، پہلی بیوی کے کریکٹر پر الزام لگا کر دوسری شادی کی اور پھر دوسری کے بارے میں بھی وہی گھٹیا باتیں کرتے پھرتے ہو"۔ انہوں نے مزید کہا کہ "تم پہلے اپنے بچوں کے ساتھ تو انصاف کرو، پھر باقیوں پر تنقید کرنا"۔
مشہور پاکستانی اداکار عدنان صدیقی نئے سال کی پہلی پاکستانی میم کے طور پر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئے ہیں۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2021 کے آخر میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں عدنان صدیقی کسٹم حکام کی جانب سے ضبط کی گئی شراب کی بوتلوں کو توڑتے دکھائی دے رہے تھے۔ بعد ازاں ضبط کی گئی شراب کو آگ لگائی گئی جس کے آسمان سے بات کرتے شعلوں اور اٹھتے ہوئے دھوئیں کے بادلوں کے سامنے عدنان صدیقی نے ایک سیلفی کھینچ کر سوشل میڈیا پر شیئر کی جسے سوشل میڈیا صارفین نے سال 2022 کی پہلی میم کے طور پر وائرل کرنا شروع کردیا ہے۔ کسٹمز حکام کے ہمراہ شراب کی بوتلیں توڑتے ہوئے عدنان صدیقی نے کسٹمز کی کارروائی کو سراہا اور بتایا کہ یہ تمام سامان بیرون ملک سے اسمگل ہوکرپاکستان پہنچا جسے محکمہ کسٹمز نے ضبط کرلیا تھا۔ سوشل میڈیا صارفین نے عدنان صدیقی کے اس اقدام کو سراہا تاہم کچھ صارفین نے اس اقدام پر خوب دلچسپ تبصرے بھی کیے کیوں کہ ماضی میں عدان صدیقی بھی ایسی پارٹیوں کا حصہ رہے ہیں جہاں الکوحل استعمال کی جارہی تھی اور کسی نے تو اسے میمز کیلنڈر کے جنوری کے خانے میں فٹ کرکے سال کی پہلی میم کا درجہ بھی دیدیا ہے۔ ضویا ناصر نامی ایک صارف نے عدنان صدیقی کی تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ میرا خیال میں یہ شراب غیر مسلمانوں کو فروخت کرکے پیسے کمائے جاسکتے تھے اور اس ماحولیاتی آلودگی سے بھی بچا جاسکتا تھا جو آگ کی وجہ سے پھیلی، ہم نے پیسے بھی ضائع کیے اور ماحول کو بھی آلودہ کیا مگر کیوں؟ صارفین نے پس منظر میں آسمان سے بات کرتے آگ کے شعلوں اور دھوئیں کے بادلوں کے آگے کھڑے عدنان صدیقی کی تصویر کو مختلف قسم کی دلچسپ صورتحال سے تشبیہ بھی دی۔
پیمرا نے سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم کو 25 کروڑ 3 لاکھ 66 ہزار روپے پیمرا کے اکاؤنٹ میں جمع کروانے کی ہدایت کی،پیمرا نے سابق چیئرمین ابصار عالم کو پوری تنخواہ واپس کرنے کی ہدایت کردی تھی، لاہور ہائیکورٹ نے ابصار عالم کی چیئرمین پیمرا تقرری غیرقانونی قرار دی تھی۔ انہوں نے بطور چیئرمین پیمرا 5 کروڑ 3 لاکھ سے زائد رقم تنخواہ کی مد میں لی تھی، پیمرا نے ہدایت کی ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ابصار عالم تنخواہ وابس پریں۔پیمرا کا کہنا ہے کہ ابصار عالم تقرری سے عدالتی فیصلے تک تنخواہ کا حق رکھنے کا قانونی جواز نہیں رکھتے۔ پیمرا کی جانب سے ابصارعالم سے متعلق فیصلوں پر مختلف صحافیوں کا ملاجلاردعمل سامنے آیا، کچھ نے ابصارعالم کی حمایت کی تو کچھ نے پیمرا کے فیصلے کو درست قراردیا۔ ملیحہ ہاشمی نے ٹویٹ کیا کہ ابصار عالم سے وہ 5 کروڑ 30 لاکھ واپس قومی خزانے میں جمع کروانے کا کہا گیا جو انہوں نےاپنی غیرقانونی تقرری سے اینٹھے تو "صحافت"کو خطرہ،پرویز رشید سے پنجاب ہاؤس میں سالوں رہنےکا کرایہ قومی خزانےمیں جمع کروانےکا کہا گیا تو "جمہوریت" کو خطرہ،لیکن تبدیلی عمران خان نہیں لا رہے۔ واہ! ملیحہ ہاشمی نے مزید لکھا کہ حکومت کا یہ مطالبہ %100 درست ہے کہ ابصار عالم بطور چیئرمین پیمرا تنخواہ و مراعات کی مد میں لیے گئے کروڑوں روپے واپس کریں۔ عدالت بھی جناب کی تقرری ناجائز قرار دےچکی ہے،میاں صاحب نے میرٹ سے ہٹ کر ابصار عالم کو وزیراعظم یا صدر سےزائد تنخواہ پر پیمرا سربراہ لگا کر میڈیا کو کنٹرول کیا۔ میمبر آرگنائزیشن کمیٹی آزاد کشمیر مشتاق منہاس نے لکھا کہ ابصار عالم کے خلاف انتقامی کاروائیوں کے لیے سول سوسائٹی اور جمہوری سیاسی جماعتوں کو اپنا کرا دار ادا کرنا چاہیے صحافی اور میزبان ارشد شریف نے لکھا کہ صحافت کو سیڑھی بنا کر سرکاری عہدہ لینے والے بہروپیے نے پانچ کڑوڑ تیس لاکھ روپے اپنی غیر قانونی تعیناتی کے عوض وصول کئے اور پیمرا کو اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لئے میڈیا کے خلاف استعمال کیا- انصار عباسی نے سوال کیا کہ کیا اُن ججوں کی تنخواہیں واپس لی گئیں جنہوں نے PCO کے تحت حلف اُٹھایا اور جن کی تعیناتی کو سپریم کورٹ نے خود غیر قانونی قرار سے کر ختم کیا؟؟ پیمرا کے اس فیصلے پر معروف صحافی رضارومی ابصار عالم کی حمایت میں میدان میں آئے اور انہوں ںے کہا کہ یہ تو زیادتی کی انتہا ہوگئی۔ نوکری سے نکلوا یا، بدنام کیا اور اب جرمانے ٹھوک دیے،ہر چیز کی حد ہوتی ہے۔ امید ہے کہ ہمارے جمہوریت پسند وکلاُ انصار عباسی کی قانونی معاونت کریں گے، میڈیا والے ساتھ دینگے اور عملاً معطل پارلیمنٹ اس کا نوٹس لے گی۔ رضارومی کے اس ٹویٹ پر اینکر عمران خان نے جوابی ٹویٹ کیا جس میں کہا کہ بھائی وہ تعلیمی قابلیت کے معیار پر پورا اترے بغیر سیاسی وابستگی کی بنیاد پر عہدے پر براجمان رہے۔ رضا رومی نے جوابی ٹویٹ میں کہا کہ عمران بھائی کسی ملازمت کے رولز ریلیکس کر دیے جائیں اور ایک شخص نئے قوانین کے تحت معیار پر پورا اترتا ہو، تو اس کا قصور نہیں۔ ان حکومتی عہدیداران سے عدالت لے پیسے، ابصار عالم نے کام کیا، اور اس کی اجرت لی۔ یہ واپس لینا خلافِ دین بھی ہے، اور اخلاقیات بھی اس کی اجازت نہیں دیتیں۔ رضا رومی کی جانب سے ابصارعالم سے پیسے واپس لینے کو دین کے خلاف قراردینے کے بیان پر دیگر صارفین کی جانب سے بھی دلچسپ تبصرے جاری ہیں، ایک صارف نے طنزیہ لکھا کہ یہی رولز اگر کسی فوجی کے لئے ریلیکس کئے جاتے تو آپ یہی بیانیہ رکھتے۔ صحافی عمر انعام کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے عطاء الحق قاسمی کو پی ٹی وی میں لگاکر قومی خزانےکو 20 کروڑ روپےکا چونا لگایا۔ ابصارعالم کو پیمرا میں لگا کر قومی خزانےسے 5 کروڑ اس پر نچھاور کیے۔ ابھی صرف یہ 2 کیسز ہیں۔ ان جیسےسینکڑوں لوگوں کو قومی خزانے سے بے دریغ نوازا گیا۔ ان کے پیٹ سے عوامی رقوم نکلوانا ضروری ہے
پیمرا کے فیصلے پر رضارومی ابصارعالم کی حمایت میں آگئے۔ ان سے پیسے واپس لینے کو خلاف شریعت قرار دیدیا پیمرا نے سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم کو 25 کروڑ 3 لاکھ 66 ہزار روپے پیمرا کے اکاؤنٹ میں جمع کروانے کی ہدایت کی ہے۔ تفصیلات کے مطابق کے مطابق پیمرا نے سابق چیئرمین ابصار عالم کو پوری تنخواہ واپس کرنے کی ہدایت کردی تھی، لاہور ہائیکورٹ نے ابصار عالم کی چیئرمین پیمرا تقرری غیرقانونی قرار دی تھی۔ انہوں نے بطور چیئرمین پیمرا 5 کروڑ 3 لاکھ سے زائد رقم تنخواہ کی مد میں لی تھی، پیمرا نے ہدایت کی ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ابصار عالم تنخواہ وابس پریں۔پیمرا کا کہنا ہے کہ ابصار عالم تقرری سے عدالتی فیصلے تک تنخواہ کا حق رکھنے کا قانونی جواز نہیں رکھتے۔ پیمرا کے اس فیصلے پر معروف صحافی رضارومی میدان میں آگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تو زیادتی کی انتہا ہوگئی۔ نوکری سے نکلوا یا، بدنام کیا اور اب جرمانے ٹھوک دیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر چیز کی حد ہوتی ہے۔ امید ہے کہ ہمارے جمہوریت پسند وکلاُ انصار عباسی کی قانونی معاونت کریں گے، میڈیا والے ساتھ دینگے اور عملاً معطل پارلیمنٹ اس کا نوٹس لے گی رضارومی کے اس ٹویٹ پر اینکر عمران خان نے جواب دیا کہ بھائی وہ تعلیمی قابلیت کے معیار پر پورا اترے بغیر سیاسی وابستگی کی بنیاد پر عہدے پر براجمان رہے۔ اینکر عمران خان کو جواب دیتے ہوئے رضارومی کا کہنا تھا کہ عمران بھائی کسی ملازمت کے رولز ریلیکس کر دیے جائیں اور ایک شخص نئے قوانین کے تحت معیار پر پورا اترتا ہو، تو اس کا قصور نہیں۔ ان حکومتی عہدیداران سے عدالت لے پیسے۔ رضارومی کا مزید کہنا تھا کہ ابصار عالم نے کام کیا، اور اس کی اجرت لی۔ یہ واپس لینا خلافِ دین بھی ہے، اور اخلاقیات بھی اس کی اجازت نہیں دیتیں۔ رضارومی کے دین کو استعمال کرنے پر سوشل میڈیا صارفین نے دلچسپ تبصرے کئے انکا کہنا تھا کہ چلو شکر ہے کہ کسی بہانے دین تو یاد آیا۔کسی نے کہا کہ یہی رولز اگر کسی فوجی کے لئے ریلیکس کئے جاتے توکیا آپ یہی بیانیہ رکھتے؟

Back
Top