گزشتہ روز سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فیصلہ واضح الفاظ سے سنایا جاتا ہے کہ اس عدالت کےجج سمیت کوئی قانون سے بالاتر نہیں۔عدلیہ کا احتساب ضروری ہے لیکن قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے بیوی بچوں کے اثاثوں کے ذمہ دار نہیں۔
نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کا جج اپنے اہل خانہ کے اثاثوں کا جواب دہ نہیں تو کیا یہ معیار دیگر سرکاری ملازمین کے لیے بھی ہوگا؟
وزیر قانون نے مزید کہا کہ اگر جج جواب دہ نہیں تو میں بطور سینیٹر اور وزیراعظم اپنے خاندان کے اثاثوں سے متعلق کیوں جواب دہ ہوں؟
انہوں نے کہا کہ مسز سرینا عیسیٰ نے ایک مرتبہ بھی اپنے اثاثوں کی منی ٹریل نہیں دی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے پر سوشل میڈیا صارفین نے سوال کیا کہ اگر سرکاری ملازم، سیاستدان اپنےبیوی بچوں کے اثاثوں کے ذمہ دار ہیں تو ججز کیوں نہیں ہیں؟ کیاججز قانون سے بالاتر ہیں؟
اینکر عمران خان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے کئی سوالات پیدا ہوگئے ہیں، فروغ نسیم کا یہ سوال جائز ہے کہ اگر جج جوابدہ نہیں تو میں بطور سینیٹر اور وزیراعظم اپنے خاندان کے اثاثوں کا کیوں جوابدہ ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ ججز بھی سرکاری ملازم ہیں۔ اگر کسی خاندان میں کوئی طاقتور فرد ہو اور اسکے بیوی بچوں کے پاس اچانک بھاری اثاثے آجائیں تو وہ فرد ذمہ دار ہوتا ہے۔
صحافی عدنان عادل نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج اپنے ساتھی جج کو بچانے کیلیے جو بھی فیصلہ دیں لیکن ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ سرینا فائز عیسی کی بیرون ملک ان ڈکلئیرڈ مہنگی جائداد تھی جو انہوں نے اپنے گوشواروں میں ظاہر نہیں کی۔ جس کی وہ منی ٹریل نہیں دے سکیں۔
عمرانعام نے تبصرہ کیا کہ جن لوگوں کا احتساب سب سے پہلے ہونا چاہیے وہ کہتے ہیں ہمارا احتساب ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ کیسا مذاق ہے نظام کے ساتھ؟؟
معصوم کاشف نے تبصرہ کیا کہ چلو انکی مان لیتے ہیں قاضی فائز عیسی اپنی بیوی بچوں کا ذمہ دار نہیں FIA FBR ہمت کرے جج کے بیگم سے سورس اف انکم اور منی ٹریل کی دستاویزات مانگے اگر موصوفہ رسیدیں نہیں دے پاتی تو ان کے خلاف کاروائی شروع کرے
عمران نامی سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کیس کے فیصلے کے بعد وزیراعظم عمران خان سے یہ شکوہ نہیں بنتا کہ کرپشن پر سزائیں کیوں نہیں ملتیں۔
انجینئر نوید نامی سوشل میڈیا صارف نے نوازشریف کا ایک کلپ شئیر کیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ کرپشن یا ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرنیوالے نہ تو اپنے نام پہ کمپنیاں رکھتے ہیں اور نہ ہی اپنے اثاثے اپنے نام پہ رکھتے ہیں ۔
رضوان عثمانی کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کے فیصلہ کا لب لباب یہ ہے کہ جج جتنی مرضی کرپشن کرے لیکن اگر وہ یہ پیسہ اپنے بجائے بیوی بچوں کے نام پر رکھے تو نہ جج سے پوچھا جاسکتا ہے اورنہ ہی اس کے خاندان سے
ایک سوشل میڈیا صارف نے تبصرہ کیا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کے بعد اس سسٹم کو جڑوں سے اُکھاڑ کر پھینک دینا ہی پاکستان کے مفاد میں ہے
ایک سوشل میڈیا صارف نے سوال کیا کہ یہ ارسلان افتخار کے کیس کا فیصلہ ہے؟