سوشل میڈیا کی خبریں

گزشتہ روز سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فیصلہ واضح الفاظ سے سنایا جاتا ہے کہ اس عدالت کےجج سمیت کوئی قانون سے بالاتر نہیں۔عدلیہ کا احتساب ضروری ہے لیکن قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے بیوی بچوں کے اثاثوں کے ذمہ دار نہیں۔ نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کا جج اپنے اہل خانہ کے اثاثوں کا جواب دہ نہیں تو کیا یہ معیار دیگر سرکاری ملازمین کے لیے بھی ہوگا؟ وزیر قانون نے مزید کہا کہ اگر جج جواب دہ نہیں تو میں بطور سینیٹر اور وزیراعظم اپنے خاندان کے اثاثوں سے متعلق کیوں جواب دہ ہوں؟ انہوں نے کہا کہ مسز سرینا عیسیٰ نے ایک مرتبہ بھی اپنے اثاثوں کی منی ٹریل نہیں دی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے پر سوشل میڈیا صارفین نے سوال کیا کہ اگر سرکاری ملازم، سیاستدان اپنےبیوی بچوں کے اثاثوں کے ذمہ دار ہیں تو ججز کیوں نہیں ہیں؟ کیاججز قانون سے بالاتر ہیں؟ اینکر عمران خان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے کئی سوالات پیدا ہوگئے ہیں، فروغ نسیم کا یہ سوال جائز ہے کہ اگر جج جوابدہ نہیں تو میں بطور سینیٹر اور وزیراعظم اپنے خاندان کے اثاثوں کا کیوں جوابدہ ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ججز بھی سرکاری ملازم ہیں۔ اگر کسی خاندان میں کوئی طاقتور فرد ہو اور اسکے بیوی بچوں کے پاس اچانک بھاری اثاثے آجائیں تو وہ فرد ذمہ دار ہوتا ہے۔ صحافی عدنان عادل نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج اپنے ساتھی جج کو بچانے کیلیے جو بھی فیصلہ دیں لیکن ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ سرینا فائز عیسی کی بیرون ملک ان ڈکلئیرڈ مہنگی جائداد تھی جو انہوں نے اپنے گوشواروں میں ظاہر نہیں کی۔ جس کی وہ منی ٹریل نہیں دے سکیں۔ عمرانعام نے تبصرہ کیا کہ جن لوگوں کا احتساب سب سے پہلے ہونا چاہیے وہ کہتے ہیں ہمارا احتساب ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ کیسا مذاق ہے نظام کے ساتھ؟؟ معصوم کاشف نے تبصرہ کیا کہ چلو انکی مان لیتے ہیں قاضی فائز عیسی اپنی بیوی بچوں کا ذمہ دار نہیں FIA FBR ہمت کرے جج کے بیگم سے سورس اف انکم اور منی ٹریل کی دستاویزات مانگے اگر موصوفہ رسیدیں نہیں دے پاتی تو ان کے خلاف کاروائی شروع کرے عمران نامی سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کیس کے فیصلے کے بعد وزیراعظم عمران خان سے یہ شکوہ نہیں بنتا کہ کرپشن پر سزائیں کیوں نہیں ملتیں۔ انجینئر نوید نامی سوشل میڈیا صارف نے نوازشریف کا ایک کلپ شئیر کیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ کرپشن یا ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرنیوالے نہ تو اپنے نام پہ کمپنیاں رکھتے ہیں اور نہ ہی اپنے اثاثے اپنے نام پہ رکھتے ہیں ۔ رضوان عثمانی کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کے فیصلہ کا لب لباب یہ ہے کہ جج جتنی مرضی کرپشن کرے لیکن اگر وہ یہ پیسہ اپنے بجائے بیوی بچوں کے نام پر رکھے تو نہ جج سے پوچھا جاسکتا ہے اورنہ ہی اس کے خاندان سے ایک سوشل میڈیا صارف نے تبصرہ کیا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کے بعد اس سسٹم کو جڑوں سے اُکھاڑ کر پھینک دینا ہی پاکستان کے مفاد میں ہے ایک سوشل میڈیا صارف نے سوال کیا کہ یہ ارسلان افتخار کے کیس کا فیصلہ ہے؟
وزیراعظم پاکستان عمران خان کو ان کی سابقہ اہلیہ کی جانب سے ستائے جانے کی ایک واٹس ایپ چیٹ سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہورہی ہے۔ مشہور فوٹو شیئرنگ موبائل ایپلیکیشن انسٹاگرام پر عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما خان نے اپنی اور عمران خان کی 2017 کی واٹس ایپ چیٹ کا سکرین شاٹ شیئر کیا جس میں وہ عمران خان کو ستانے کی کوشش کرتی دکھائی دے رہی تھیں۔ واٹس ایپ چیٹ میں جمائما پہلے اپنے اور عمران خان کے بیٹے "قاسم" کی ایڈیٹ کی ہوئی تصویر شیئر کرتی ہیں جس میں قاسم کو لڑکی بنایا گیا ہے، وزیراعظم عمران خان اس تصویر پر No کا جواب دیتے ہیں۔ جس کے بعد جمائما قاسم کی اسی تصویر کو بڑھاپے میں ڈھال کر ایڈٹ کرکے عمران خان کو بھیجتی ہیں ، اس بار بھی عمران خان کو یہ تصویر نہیں بھاتی اور وہ جمائما سے یہ مذاق بند کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہتے ہیں "اسٹاپ اٹ پلیز"۔ BTw6cv0jY7T جمائما کی جانب سے یہ اسکرین شاٹ شیئر کیے جانے کے بعد انسٹاگرام اوردیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر صارفین کو ایک نیا موضوع مل گیا ہے ، صارفین اس سابقہ جوڑے کو کیوٹ قرار دیتے ہوئے دلچسپ تبصرے کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک صارف نے عمران خان کی جانب سے فوری فوری جواب دینے کا نکتہ پکڑتے ہوئے کہا کہ" لڑکے تیز رفتاری سے ہی جواب دیتے ہیں"۔ ایک صارف نے ان دونوں کی جوڑی کو اپنی پسندیدہ ترین جوڑی قرار دیدیا۔
شہزاداکبر کی جگہ مصدق عباسی کو مشیر احتساب لگانے پر احسن اقبال کی مذمت۔۔ سوشل میڈیا صارفین کا جواب گزشتہ روز سابق ڈی جی نیب بریگیڈئیر (ر)مصدق عباسی کو وزیراعظم عمران خان نے شہزاداکبر کی جگہ اپنا مشیر احساب مقرر کردیا ہے۔ مصدق عباسی مشرف دور میں ڈی جی نیب کراچی رہ چکے ہیں اور کئی ہائی پروفائلز کیسز پر کام کرچکے ہیں۔ مشرف دور میں احتساب کا ادارہ نیب قائم کیا گیا تو بریگیڈئیر ر مصدق عباسی کو کراچی میں ڈائریکٹر ریکوریز تعینات کیا گیا۔ کراچی میں انہوں نے اس وقت کے پیر پگارا کے کسی قریبی ساتھی پر ہاتھ ڈالا تو ان کی شکایت مشرف تک پہنچی جس کے بعد ان کا تبادلہ پشاور میں بطور ڈی جی نیب کردیا گیا احسن اقبال نے بریگیڈئیر (ر)مصدق عباسی کو مشیر احتساب بنانے کے اقدام کو قابل مذمت قرار دیدیا اور دعویٰ کیا کہ انہیں لگانےکا مقصد فوج کے امیج کو متنازعہ بنانا ہے۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں احسن اقبال نے لکھا کہ عمران نیازی کا ایک سینئر ریٹائیرڈ فوجی افسر کو اپنا احتساب کا مشیر لگانے کا مقصد سیکیورٹی ادارے کے امیج کو متنازعہ بنانا اور اس کے نام کو اپنے انتقامی ایجنڈے کے لئے استعمال کرنا ہے- انہوں نے مزید کہا کہ یہ اقدام وہی نتائج دے گا جو سینئر ریٹائیرڈ فوجی افسران TV پہ آ کر دیتے ہیں-نہایت ہی قابل مذمت ہے- اس پر صحافی اطہر کاظمی نے احسن اقبال پر طنز کرتے ہوئے جواب دیا کہ جی بالکل انتہائی قابل مذمت ، حق تو یہ ہے کہ کے تمام اہم عہدوں پر اپنا کوئی سمدھی، بیٹا ، بیٹی، رشتہ دار، وغیرہ لگایا جائے، اور پی ٹی وی، پیمرا میں بھی اپنے قریبی تعینات ہوں۔ باقی آپ کی جماعت نے جن ریٹائرڈ جرنیلوں/فوجیوں کو سیاسی عہدے دیے وہ یوگوسلاویہ کی فوج سے ریٹائرڈ ہوئے؟ دیگر سوشل میڈیا صارفین نے رائے دیتے ہوئے لکھا کہ احسن اقبال کی چیخیں بتارہی ہیں کہ عمران خان نے بالکل صحیح بندے کو اپنا مشیر احتساب بنایا ہے۔ لگتا ہے کہ تھانیدار ٹھیک آیا ہے۔
بیرون ملک مقیم مخصوص لابی سے وابستہ بلاگر وقاص گورائیہ کے خاتون صحافی سمیرا خان پر انتہائی گھٹیا حملوں کے بعد صحافی برادری سمیرا خان کی حمایت میں کھڑی ہوگئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق سمیرا خان نے پی ٹی وی کے پروگرام صبح پاکستان میں افغان طالبان کی جانب سے حکومت میں آنے کے بعد خواتین کے حقوق سے متعلق فیصلوں پر گفتگو کی اور کہا کہ افغانستان سے رپورٹنگ کے دوران جو سب سے بڑی غلط فہمی میں نے دور کرنے کی کوشش کی وہ طالبان کی جانب سے خواتین کے حقوق سے متعلق تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ابھی کچھ روز پہلے کابل میں چند تاجک لڑکیوں نے ایک مظاہرے کے دوران برقع اور چادروں کو آگ لگائی اور پاکستان مخالف نعرے بازی بھی کی، بعد میں ثابت ہوا کہ یہ ایک ایجنڈا کی تحت مظاہرہ کیا گیا جسے بھارت سے اسپانسر کیا گیا تھا۔ انٹرویو کے اس کلپ کو ٹویٹر پر نجی ٹی وی چینل کے ہی صحافی شاہد عباسی کی جانب سے اس سرخی کے ساتھ شیئر کیا گیا کہ " افغانستان میں تاجک النسل لڑکیوں کے احتجاج، برقعہ جلانے کے پیچھے بھارت ہے"۔ اس ٹویٹ کے بعد سمیرا خان پر ایک مخصوص طبقے کی جانب سےزاتی حملے شروع ہوگئے۔ بلاگر احمد وقاص نے انتہائی غلیظ زبان کا استعمال کرتے ہوئے سمیرا خان پر زاتی حملے کیے۔ سمیرا خان نے بلاگر کی گھٹیا تنقید پر ردعمل دیتے ہوئے شاہد عباسی کی ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ" تو اب ہمیں گالیاں پڑوانے کیلئے ہمارے ہی لوگ استعمال ہوں گے، انٹرویو کے 24 گھنٹے بعد اِس سپیشل ٹویٹ میں آدھی ادھوری بات لکھی گئی اور کمنٹس میں مجھے گالیاں دینے والوں کو 'خاموشی' کی خصوصی رعایت بھی دی گئی۔۔۔کیا صرف مخصوص خواتین کے استحصال پر صحافت خطرے میں آتی ہے؟" سمیرا خان پر گھٹیا الزامات کے بعد صحافی برادری نے اپنی ساتھ کی حمایت میں آواز بلند کرنا شروع کردی، جویریہ صدیقی نے احمد وقاص کی ٹویٹس کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ بلاگر ویسے اس جانور کو کتنے غلیظ ماحول میں پروان چڑھایا گیا ہے شکل پر پھٹکار، زبان غلیظ اور کرتوت گندے۔ ملک علی رضا نے کہا کہ "باہر بیٹھ کر پاکستان کی بیٹیوں کیخلاف کُتے بھونکتے ہیں اور نام نہاد آزادی صحافت کے چیمپئین تماشا دیکھتے ہیں۔ صحافی عمران افضل راجہ نے کہا کہ میں نے تین بار یہ کلپ سنا سمیرا خان نے واضح طور پر کہا کہ پاکستان مخالف نعروں کے پیچھے بھارت تھا۔ ارم ضعیم نے کہا کہ یہ خواتین صحافیوں اور ورکنگ ویمن کیلئے وقت ہے کہ وہ ٹویٹر کو چھوڑ دیں، کیونکہ یہ پلیٹ فارم ہراساں کرنے والوں کے خلاف ایکشن لینے میں ناکام رہا ہے۔ یوسف زمان نے کہا کہ تمام انسانی ذہنیت رکھنے والے ٹویٹر صارفین کو سمیرا خان اور جویریہ صدیقی کے خلاف ایجنڈا بیسڈ مہم کو مسترد کردینا چاہیے، اس مہم کی حمایت کرنے والے اور اس معاملے پر خاموش رہنے والوں پر افسوس ہے۔ زریاب راجپوت نے کہا کہ سمیرا خان کو پی ٹی وی کے پروگرام میں بلانا سرحد پار دشمن کو یہ پیغام دینا ہے کہ وطن عزیز کی جانباز بیٹیاں ملک وقوم کیخلاف اٹھنے والے سر کو کچلنا جانتی ہیں۔ فریحہ ادریس نے کہا کہ سمیرا خان نے جو بات کی اس پر اس شخص کو کیوں تکلیف ہوئی ہے، سمیرا خان نے بہترین گفتگو کی، نفرت کرنے والوں کو نفرت کرنے دو۔ صحافیوں نے سمیرا خان کو ڈٹ کر کھڑے ہونے اور اپنی حمایت کا یقین دلایا ۔
وزیراعظم عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ بھی وزیراعظم عمران خان کے شروع کئے گئے ٹرینڈ SAVEAFGHANLIVES# کا حصہ بن گئیں گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے SAVEAFGHANLIVES# کا ٹرینڈ شروع کیا گیا۔ وزیراعظم نے افغان لوگوں بالخصوص بچوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھاتے ہوئے یہ ٹرینڈ بنایا تھا جو دیکھتے ہی دیکھتے ٹاپ ٹرینڈ بن گیا تھا۔ جمائما خان بھی اس ٹرینڈ کا حصہ بن گئیں۔اپنے ٹوئٹر پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ میں نے افغانستان میں غذائی قلت کا سامنا کرنے والے لاکھوں افراد کے لیے فوری کارروائی کا مطالبہ کرنے والی بڑھتی ہوئی تعداد میں اپنی آواز شامل کی ہے۔ جمائما نے گزشتہ روز ایک ویب بیسڈ ورڈ گیم ’’ورڈلی‘‘ کے حوالے سے ٹوئٹ کی تھی جس پر ایک پاکستانی صارف نے انہیں رپلائی کرتے ہوئے بالکل ہی غیر متوقع ٹوئٹ کی اور ان سے پاکستان واپس آنے کی درخواست کی۔ صارف نے مزید لکھا کہ عمران خان آپ کے بغیر کچھ بھی نہیں، انہیں ان کے دوستوں کی جانب سے بیوقوف بنایا جارہا ہے۔ اس پر ٹوئٹر صارف پال نے جمائما اور پاکستانی صارف کے اس ٹوئٹ کا اسکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا میں شرط لگاتا ہوں کہ ’’ورڈلی‘‘ کے بانی نے کبھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ ان کے گیم کے بارے میں کی گئی پوسٹ پر کوئی اس طرح کا ردعمل بھی دے سکتا ہے۔ دوسری جانب جمائما نے ٹوئٹر پر ہونے والی اس دلچسپ بات چیت پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا میری باقی زندگی کے لیے ہر ٹوئٹ اور پھر اپنے اسی ٹوئٹ کے جواب میں انہوں نے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا ٹوئٹ کیا اور اپنی ٹوئٹ میں پاکستان کا جھنڈا اور دل والا ایموجی بھی بنایا۔
نجی چینل دنیا نیوز کے اینکر پرسن کامران شاہد اپنے نامناسب گفتگو اور رویے کی وجہ سے اکثر ہی تنقید کی زد میں رہتے ہیں، سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے کبھی ان کے عجیب وغریب انداز سے بیٹھنے پر ان اعتراض کیا جاتا ہے تو کبھی ان کو یکطرفہ تجزیے پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حال ہی میں صحافی طارق متین نے کامران شاہد کو پروگرام کے دوران غیر مہذب گفتگو کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پیمرا سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ کامران شاہد اس بات کے رنج پر صحافی و اینکر پرسن طارق متین کو ٹویٹر پر بلاک کر دیا۔ صحافی طارق متین نے اپنے ٹوئٹر پر کامران شاہد کے پروگرام کا کلپ شیئر کیاتھا اور کہا تھا کہ یہ ٹی وی ہے ڈرائنگ روم اور گھروں میں خاندان کے دیکھنے کی چیز ہےسوشل میڈیا نہیں، یہ زبان نان سینس ہے اس کا نوٹس لیا جانا چاہیے، اس پر معافی نہیں تعزیر ہونی چاہیئے۔ آج دوبارہ صحافی طارق متین نے اپنے ٹوئٹر پر کامران شاہد کے ٹوئٹر کا سکرین شاٹ شیئر کیا جس میں انہوں نے طارق متین کو تنقید کرنے کی وجہ سے بلاک کر دیا، بلاک کئے جانے پر صحافی نے لکھا کہ ڈنڈا دیا، ڈنڈا چلا گیا ، یہ اینکر محترم کی زبان تھی میں نے اعتراض بھی کیا اور پیمرا کو رپورٹ بھی کیا ،کامران شاہد صاحب مجھے بلاک کر دیں گے پیمرا معافی مانگنے کا ایک اور آرڈر دے گا اس کا کیا کریں گے۔ واضح رہے کہ کامران شاہد کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی یہ ویڈیو گزشتہ سال نومبر کی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ پانچ دن پہلے عمران خان کی سپورٹس مین سپرٹ یہ تھی کہ جب اتحادیوں کو ڈنڈا نہیں گیا تھا تو وہ اس وقت جوائنٹ سیشن تبدیل کرنا پڑا، آگے چل کر کامران شاہد مزید کہتے ہیں کہ اب اتحادیوں کو ڈنڈا جاچکا ہے تو اب اتحادی کہہ رہے ہیں کہ انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے جنہیں چار پانچ دن پہلے مسئلہ تھا۔ کامران شاہد کا مزید کہنا تھا کہ یہ حکومت ایک ڈنڈے پر چل رہی ہے جس کی کوئی اخلاقی حیثیت نہیں ہے۔ وزیراعظم نے کرسی پر کمپرومائز کرلیا ہے۔
الطاف حسین، سندھی قوم پرستوں کے بعد آفاق احمد بھی اپنی سیاست چمکانے کیلئے لسانیت کو ہوا دینے لگے۔ حیدر آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے آفاق احمد نے کہا کہ حیدرآباد کے لوگو! آج یہ وعدہ کرو کہ پٹھانوں کے ہوٹل پہ چائے پی کر اپنی جیبوں سے پیسہ انکی جیبوں میں منتقل نہیں کرو گے۔ آفاق احمد کا مزید کہنا تھا کہ کوئی ایک پٹھان کا ہوٹل بتادو جو ماچس کی ایک تیلی بھی کسی مہاجر کی دکان سے خریدتا ہو۔آپکو احساس ہونا چاہئے کہ جو شخص آپ سے کاروبار نہیں کررہا، آپ اس سے کاروبار نہیں کروگے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایک پٹھان ماچس کی تیلی خریدنے کیلئے دوسرےپٹھان کی دکان پہ جاتا ہے تو تمہاری سوچ میں بھی یہ تبدیلی آنی چاہئے۔تم ماچس خریدو، کپڑا خریدو یا مسور کی دال تم خریدو گے تو اپنی قوم کے بندے کی دکان سے تحریک انصاف کے ایم این اے فہیم خان نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ آفاق احمد کی حیدرآباد میں اپنے خطاب میں لسانیت کی آگ بھڑکانے کی شدید الفاظ میں مزمت کرتا ہوں، اپنے خطاب میں پشتونوں کے کاروبار کے بائیکاٹ کی کال دے کر نسلی نفرت کو ہوا دینے کی کوشش کی، نفرت انگیز تقریر، نفرت انگیز جرائم کی طرف لے جاتی ہے اور آفاق احمد بالکل یہی کام کر رہے ہیں۔ حسن مسرور نے تبصرہ کیا کہ افسوس ہوتا ہے کہ ایک عرصہ ایسے لوگوں نے کراچی پر حکمرانی کی۔ آفاق احمد کہتے ہیں پٹھانوں کے ہوٹل پر چائے نہیں پینا۔ ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ ہم کس کے ہوٹل پر ہیں یہ شہر سب کا ہے لسانیت کی اتنی چھوٹی اور بیہودہ مثال کہیں نہیں ملے گی۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ آفاق احمد تم بھی بہت کم ظرف نکلے۔میسج تو یہ ہونا چاہیئے تھا کہ جس طرح پٹھان محنت کرتا ہے تم بھی محنت کرو۔چائے کے ہوٹل کھولو چوکیداری کرو ڈرائیوری کرو دیگر تمام محنت والے کام کرو۔لیکن تم تو لسانیت کو فروغ دے رہے ہو اپنی گندی سیاہ ست کے لئے صحافی فیض اللہ سواتی نے لکھا کہ آفاق احمد سے صرف ایک سوال ہے کہ جب الطاف حسین کے خوف سے کوئی انکے کارکنوں کو گھر و دفتر دینے پہ تیار نہ تھا تب آدھی پارٹی اعلی قیادت کیساتھ پشتون اکثریتی شیر پاؤ کالونی میں رھتے ہوئے چائے اور ماچس کی تیلی خریدنے کہاں جاتے تھے ؟ ناشناس کا کہنا تھا کہ آفاق احمد اردو بولنے والا "علی وزیر" ہے۔ دونوں نفرت کا نسلی چورن فروخت کرتے ہیں۔ اپنی نسل کو برتر اور دوسروں کو قابل نفرت کہتے ہیں ریحان نے لکھا کہ یہ گھٹیا خود کو مہاجروں کا لیڈر کہنے والا آفاق احمد خود ملیر کینٹ جیسے محفوظ ایریا میں رہتا ہے اور کراچی کے پسماندہ علاقوں میں رہنے والے پٹھان مہاجروں میں نفرت پھیلا رہا ہے. اس آگ سے نقصان غریب کراچی والوں کا ہوگا. اگر کسی پٹھان کا ہوٹل جلا تو زمہ دار اسے آزاد کرنے والے ہونگے. علی رضا نے کہا کہ آفاق احمد کو پہلے ہی اردو بولنے والوں اور پختون کے درمیان حیدرآباد میں فساد کرانا تھا- اب وہ یہی کام ٹنڈوالہیار میں کرانے کی کوشش کرے گا- کچھ ہمارے یوتھ ونگ کے دوست بھی جذبات کے رو میں بہہ گئے ہیں- رہی سہی کسر علی پلھ نے تعزیت پر جانے کے بجائے امن ریلی نکال کر پوری کردی ہے سلطان سالارزئی نے تبصرہ کیا کہ آفاق احمد ایم کیو ایم نے مہاجرقوم کوپشتونوں کےہوٹل کےبائیکاٹ کرنےکااعلان کیاہےجوانتہائی افسوس ناک ہے۔زبان اور قوم کےنام پہ تقسیم یہی نہیں رکےگی۔کل آپکی قوم میں الہ آبادی،دکنی،بہاری تقسیم بھی آئےگی۔منافرت سےکبھی قوم کابھلانہیں ہوا۔سیاسی مقاصدکےلیےعوام کولڑانامکروہ عمل ہے۔ صحافی طارق متین نے اقاق احمد کی باتوں کوبکواس قرار دیا خرم علی کا کہنا تھا کہ آفاق احمد کو پھر نفرت کی دوکان لگانے کا حکم نامہ مل گیا ہے۔ مہاجروں کا استحصال پٹھان کی چائے سے نہیں بلکہ ان اداروں کے کاروباروں سے ہو رہا جو مافیا بن کر کراچی پر راج کر رہے ہیں اور آدھے سے زیادہ شہر کو کنٹونمنٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔
خواجہ آصف نے وزیراعظم عمران خان کی ایک ویڈیو شئیر کی جس میں وہ کہتے ہیں کہ اگر میں حکومت سے باہر نکل گیا تو میں آپکے لئے زیادہ خطرناک ہوں۔اگر میں سڑکوں پر نکل آیا تو آپ کے لئے چھپنے کی جگہ نہیں ہوگی خواجہ آصف نے وزیراعظم عمران خان کے اس بیان کو "سکیاں بھڑکاں"یعنی کھوکھلی دھمکیاں قرار دیا۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ عدلیہ بحالی تحریک میں گھر پولیس آئ تھی تو ننگے پاؤں 8فٹ اونچی دیوار پھلانگ کے بھاگ گیا تھا.آپ کے ارد گرد لوگوں کی بھیڑ چھٹ جاۓگی انکے DNA میں مزاحمت نہیں یہ مہربانوں کی بدولت آپکے حمایتی ھیں. تمھارے ساتھ ہے کون؟‌ آس پاس تو دیکھو اس پر سوشل میڈیا صارفین نے خواجہ آصف کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ جتنے بہادر ہیں سب کو پتہ ہے، کبھی مشرف سے تو کبھی کسی اور سے ڈیل کرکے آپ کے لیڈر باہر بھاگ جاتے ہیں۔آپ وہی ہیں ناں جو رات 2 بجے جنرل باجوہ کو فون کرکے کہہ رہے تھے کہ میں ہاررہا ہوں، مجھے شکست سے بچالو۔ سوشل میڈیا صارفین نے خواجہ آصف کو مزید جوابد ئیے کہ آپ اور احسن اقبال خود فون کرکے کہتے تھے کہ ہمیں گرفتار کرلو، ہم ائیرپورٹ میاں صاحب کو لینے نہیں جاسکتے۔ صحآفی طارق متین نے خواجہ آصف کو جواب دیا کہ حضور والا، ڈکٹیٹر سامنے تھا۔ کرپشن کا معاملہ نہیں تھا ۔ ابھی ڈیڑھ دو سال کی بات ہے ماڈل ٹاؤن میں نیب اور پولیس دو بار گئی ایک بار شہباز شریف صاحب چوبیس گھنٹے بھاگتے پھرے ایک بار حمزہ صاحب۔ اور میاں صاحب کو تو عدالت نے ایبسکونڈر کہہ دیا۔ تینوں کرپشن کے معاملات ہیں ارم زعیم نے جواب دیا کہ مزاحمت کے طعنے تو دیکھو کون ما رہا ۔۔۔ جن کا خود کا مالک ہر بار 8000 میل دور بھاگ جاتا ہے۔ اور مزاحمت ٹھنڈی کر کے یس باس کا نعرہ لگا کر واپس آ جاتا۔ فیاض راجہ نے تبصرہ کیا کہ ظاہر سی بات ہے گرفتاری نہ دیکر تحریک چلانی تھی۔ دوسری طرف نواز نے مشرف دور میں اسلام آباد ایئرپورٹ اترنا تھا۔ ڈرپوک خواجہ آصف نے جیو ٹی وی کے دفتر ہمیں فون کیا کہ ہم گرفتاری دے رہے ہیں پلیز آٗئیں ہماری کوریج کرلیں تاکہ ہم نمبر بناسکیں۔ ہم سے نہیں جایا جاتا ایئرپورٹ نواز کو لینے طاہر اعوان نے تبصرہ کیا کہ یہ کون سی زبان ہے؟لگتا عمران خان نےاشرافیہ کے نسل در نسل اقتدار پر واقعی کاری ضرب لگائی ہے ، اس لئے تو لیڈروں سے لیکر انکے عام نوکروں تک منہ سے جھاگ ہی نکل رہی ہے تہذیب و شائستگی تو اس طبقے میں پہلے بھی نہ تھی اب تو جاہلیت سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں ساجد اکرام کا کہنا تھا کہ وہی مہربان جنکو الیکشن کی رات فون کیا تھا کہ ڈار نے چوک میں تمہاری دھوتی اتار دی ہے اس لئے عزت بچا لیں سلیم احمد نے خواجہ آصف کو جواب دیا کہ عدلیہ بحالی تحریک میں سارا دن اس روز سڑکوں پر جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے ورکر پٹے تھے میاں صاحب کیانی سے گرین سگنل ملنے کے بعد نکلے۔ مزاحمت تو آپ کی جماعت کے ڈی این اے میں نہیں ہے ہوتی تو جدے اور برطانیہ نہ جاتے آپ کے قائد۔ مزاحمت کرکہ مشی کو دلواتے سزا بس کردیو باسط صدیقی نے جواب دیا کہ جو پارٹی 3 بار بے عزت کر کے نکالی گئی مزاحمت کی بجائے معافی مانگ کر جدہ اور ترلے منتیں کر کے لندن بھاگ گئے باقی بوٹ پالش پر لگے ھیں صدر مشرف کے 10 سالہ دور میں عمران خان واحد اپوزیشن لیڈر تھا جو پاکستان میں رہ کر مخالفت کرتا رھا آپ لوگ اقامہ پانامہ میں مصروف عمرالیاس نے خواجہ آصف کو جواب دیا کہ بالکل اسی طرح جیسے تم ۹۹ میں اپنے چور لیڈر کے لئے مزاحمت نہ کرسکے اور ہومیوپتھک احتجاج کرکے گرفتایاں کرواتے رہے؟ اس کو بھی تم سب کی اوقات کا پتہ تھا اسلئے وہ بھگوڑا تب بھی بھاگ گیا تھا اور اس دفعہ بھی۔ ورنہ وہ بزدل مقابلہ کرتا۔ بھڑکیں نہ مارا کریں گلزارخان نے جواب دیا کہ عوام جس کے ساتھ ہو تو وہ کبھی رات کے دو بجے کسی کو روۓ گا نہیں کہ میں تو سیٹ ہار گیا خدا کے لیے کچھ کرو حمادحیدر نے جواب دیا کہ میں رولاں گا انکو مین انکو تکلیف پہنچاوں گا حزب خان داور نے جواب دیا کہ خان کے آس پاس اس پہ جان نثار کرنے والے بہت ہیں میاں صاحب کی فکر کرو۔۔ اس بچارے کو کبھی آپ ایر پورٹ سے ہی واپس ڈی پورٹ کرا دیتے ہو اور کبھی ایر پورٹ والے پل پہ بلا کر چھوٹے میاں حبیب جالب کی نظمیں رٹھنے پرانی انار کلی نکل جاتے ہیں
مریم نواز کے ٹویٹ عمران خان صاحب، اب رونے دھونے اور ڈرامہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ سامان اٹھائیں اور چلتے بنیں پر دلچسپ تبصرے۔۔ سوشل میڈیا صارفین نوازشریف کے مشرف سے ڈیل کے بعد سامان لیکر جانے کی ویڈیو شئیر کرتے رہے وزیراعظم کے لائیو سیشن کے جواب میں مریم نواز نے ردعمل دیا کہ عمران خان صاحب، اب رونے دھونے اور ڈرامہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ سامان اٹھائیں اور چلتے بنیں۔ مریم نواز نے مزید کہا کہ جتنی دیر آپ اقتدار سے چپکے رہیں گے اپنی اور عوام کی مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بنیں گے۔ آپ عبرت ناک شکست کھا چکے ہیں۔ جس پر سوشل میڈیا صارفین نے دلچسپ تبصرے کئے۔ کسی نے کہا کہ آپ نے عمران خان کو بھی نوازشریف سمجھ رکھا ہے تو کسی نے کہا کہ یہ عمران خان کی نہیں آپکی فیملی کی روایت ہے۔ سوشل میڈیا صارفین نے ایک ویڈیو بھی شئیر کی جو 1999 میں نوازشریف سے ڈیل کے بعد جدہ جانے کی ہے۔ اس ویڈیو میں دیکھاجاسکتا ہے کہ بھاری صندوقچے ائیرپورٹ پہنچانے کیلئے ایک گاڑی میں لوڈ کئے جارہے ہیں۔ اس وقت ن لیگ کے مخالفوں نے دعویٰ کیا تھا کہ شریف خاندان جدہ جاتے ہوئے 80 صندوق، باورچی اور دیگر سامان لیکر گیا تھا۔ اینکر عمران خان نے کہا کہ جیسے میاں صاحب چلتے بنےَ؟ شہبازگل نے جواب دیا کہ باجی آپ نے عمران خان کو ابو کی طرح سمجھ رکھا ہے جو کبھی سامان اٹھا کے جدہ تو کبھی لندن چلتے بنے تھے اور کسکنے کی کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہونے دیتے ؟ عنبرین نے نوازشریف کی 1999 میں جدہ جانے کی ویڈیو شئیر کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ یہ کہاں چلتی بن رہی ہے عمران خان کی فیملی تحریک انصاف کی ایم این اے عالیہ حمزہ نے جواب دیا کہ سامان اٹھاکرچلتے بننےکا عمل2001 سے آپ کےخاندان نے شروع کیا جو آج تک جاری ہے ڈاکٹر ارسلان خالد نے جواب دیا کہ اس عورت کا پورا ٹبر حرام کھا کے باہر بھاگا ہوا ہے، یہ خود سو بار کہہ چکی کہ میں سرجری کے لیے باہر جانا چاہتی ہوں لیکن حکومت تو NRO دے گی نہیں۔ بھگوڑے خود ہیں اور باتیں کیا کر رہی۔اپنے باؤ جی کو کہو پاکستان آئے اور اڈیالہ جیل میں اپنی باقی سزا پوری کرے۔ شیربانو کا کہنا تھا کہ بی بی عمران خان نوازشریف نہیں کہ سامان اٹھائے اور دم دبا کر بھاگ جائے بڑی بی نے جواب دیا کہ آپ کا ابا جلدی میں آٹھ بھینسیں چھوڑ گیا تھا دیگر سوشل میڈیا صارفین نے بھی اس پر اپنی رائے دی۔
اپنے پروگرام کو ملک کا سب سے معتبر کرنٹ افیئرز شو کہنے والے اینکر کامران خان نے لوٹ مار کی نشاندہی کیلئے فلمائے گئے سین کو اصل سمجھ کر شیئر کر دیا۔ ان کی ٹوئٹ پر سوشل میڈیا صارفین نے کہا کہ وہ ایک فلم کی شوٹنگ کیلئے ریکارڈ کیے گئے سین کو اصل سمجھ بیٹھے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سینئر اینکر پرسن کامران خان جو کہ دنیا نیوز پر "دنیا کامران خان کے ساتھ" کے نام سے شو کرتے ہیں انہوں نے کراچی میں راہزنی کی وارداتوں کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے ایک ویڈیو شیئر کی جس میں ڈاکو کار سوار افراد کو دن دہاڑے لوٹ رہا ہے، تاہم یہ ویڈیو اصلی نہیں ہے۔ بلکہ ایک فلم کیلئے ریکارڈ کیا گیا ایک سین ہے۔ انہوں نے اس کے کیپشن میں لکھا کہ خدارا کراچی پولیس سندھ رینجرز ہوش میں آئے کراچی میں بندوق کی نوک پر لوٹ مار کے یہ بھیانک مناظر اس سال کے پہلے 22 دنوں میں ڈھائی ہزار بار دیکھے گئے ہر گھنٹہ پانچ سات خاندان دہشت گردی کا شکار ہو رہے ہیں کئی کو موت کے گھاٹ اتار دیا، پولیس رینجرز کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی۔ مگر یہ ویڈیو تو جھوٹی ثابت ہوئی اور اس کی نشاندہی کرنے والے صارفین نے کہا کہ یہ ڈاکے کا اصل واقعہ نہیں، عکس بندی ہے۔ رب نواز بلوچ نے کہا کہ انویسٹی گیٹو جرنلزم کے نااہل بیٹے ملک کے بڑے ٹینکر کو ڈرامے کی شوٹنگ اور حقیقت میں کوئی فرق نظر نہیں آیا نہ تصدیق کی اب سمجھ جائیں ان کے تجزیے، نالائقی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ سادات یونس نے کہا ان صاحب کے پاس 38 سال کا صحافتی تجربہ ہے، ایک ڈرامہ شوٹنگ کی ویڈیو کو ڈکیتی کہہ کر شئیر کر دیا۔ اندازہ لگائیں باقی خبروں کے بارے میں انکی تحقیق کا عالم کیا ہو گا۔ یاسمین کریمی نے لکھا کراچی میں ڈرامہ کی شوٹنگ چل رہی تھی اور اس پر اینکر صاحب تشویشناک صورتحال پر تشویش کرتے ہوئے۔ صحافی شبیر واہگڑا نے لکھا کامران صاحب نے ڈرامے کی شوٹنگ کی وڈیو شیئر کر دی۔ صحافی عمر قریشی کا کہنا تھا کامران صاحب یہ تو کسی ڈرامے یا فلم کی شوٹنگ ہے۔ اظہر خان نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اس کو ڈیلیٹ کر دیں کیونکہ اس سے وہ اپنی کم علمی ظاہر کر رہےہیں اگر وہ یہی چاہتے ہیں تو رہنے دیں۔
گزشتہ دنوں احسن اقبال نے سابق آمر وں پر تنقید کی اور سوال پوچھا کہ جنرل ایوب، یحیٰی خان، جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے اقتدار کا جواب کون دے گا جس پر ضیاء الحق کے صاحبزادے سمیت وفاقی وزیرحماداظہر اور دیگر سوشل میڈیاصارفین احسن اقبال کو جواب دینے کیلئے سامنے آگئے۔ قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ قوم جنرل ایوب خان کے 10 سال کا حساب کس سے لے؟ 4 سال جنرل یحییٰ خان نے حکومت کی اسکا جواب کس سے لے؟ انہوں نے مزید کہا کہ یہ قوم جنرل ضیاء الحق کے 11 سال کا حساب کس سے پوچھے؟ یہ قوم پرویز مشرف کے 9 سال کی صدارت کا حساب کس سے لے؟ حماداظہر نے قومی اسمبلی میں ہی احسن اقبال کو جواب دیا کہ اللہ کی شان ہے کہ آج آپا نثارفاطمہ کا بیٹا کہہ رہا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کاکون جواب دے گا، جن کا وہ باپ تھا وہ جواب دیں گے۔ انہوں نے احسن اقبال کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو جنرل ضیاء کا نام ہی گول کرگئے۔ اب جب نام لیا تو اپنا نام ہی نہیں لیا، جو ضیاء الحق کے فنکشن میں نعتیں پڑھتے رہے وہ آج کہہ رہے ہیں کہ جنرل ضیاء کی حکومت کا کون جواب دے گا، یہ لوگ تاریخ سےا تنے غافل نہیں ہیں۔ احسن اقبال کے اس بیان "یہ قوم جنرل ضیاء الحق کے 11 سال کا حساب کس سے پوچھے؟" پر سوشل میڈیا صارفین نے جواب دیا او رکہا کہ اب ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ میں شامل آپا نثار فاطمہ کا بیٹا جنرل ضیاء سے حساب مانگ رہا ہے۔ وہ جنرل ضیاء جس کو یہ نعتیں سنایا کرتا تھا اور انعام لیا کرتا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ جنرل ضیاء الحق ہی تھا کہ جس نے اسکو اعلیٰ تعلیم دلوائی، اسکی والدہ کو ممبرقومی اسمبلی بنوایا ۔ سوشل میڈیا صارفین نے احسن اقبال کو یاددلایا کہ آپ کے قائد نوازشریف جنرل ضیاء کی حکومت میں پہلے صوبائی وزیرخزانہ اور پھر وزیراعلیٰ پنجاب بنے۔انکی سیاست کو ضیاء الحق نے پروان چڑھایا۔ احسن اقبال کی تقریر پر اظہر مشوانی نے تبصرہ کیا کہ آپا نثار فاطمہ کا بیٹا احسن اقبال آج پارلیمنٹ میں کہ رہا تھا کہ “جنرل ضیأالحق کے دور کا کوئی جواب دینے والا نہیں آج” ساتھ ہی ضیأالحق کی مجلس شورٰی کے چئیرمین خواجہ صفدر کا بیٹا خواجہ آصف بھی بیٹھا تھا سب کہو سبحان اللہ اس پر احسن اقبال نے جواب دیا کہ میری والدہ مجلس شوری کی ممبر نہیں تھیں وہ 1985 میں قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں اور اپوزیشن بینچز پہ بیٹھیں- احسن اقبال کے اس ٹویٹ پر سابق صدر جنرل ضیاء الحق کے صاحبزادے اعجازالحق نے جواب دیتے ہوئے لکھا کہ اجھے بچے ایسے بات نہیں کرتے۔ اپنا نہیں تو اپنی امی کا خیال کیا ہوتا۔ انہوں نے احسن اقبال کو مزید جواب دیا کہ ضیاء الحق شہید آج بھی زندہ ہیں۔ گودر سے کابل اور وسط ایشیا کی مسجدوں کی اذانوں میں۔ روسی ریچھ کی سسکتی آوازوں میں۔ اور چاغی کے دھماکوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ اور انڈیا کی لرزتی ٹانگوں میں۔
کامران شاہد دنیا نیوز کے صحافی ہیں جو حکومت کے بدترین ناقد سمجھے جاتے ہیں،اکثر وہ اپنی لوزٹاک اور روئیے کی وجہ سے تنقید کی زد میں رہتے ہیں، سوشل میڈیا صارفین کبھی انکے کرسی پر عجیب وغریب انداز سے بیٹھنے پر تو کبھی اسکے یکطرفہ تجزئیے پر انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ کامران شاہد کی ایک ویڈیو سوشل جو گزشتہ سال نومبر کی ہے، میڈیا پر وائرل ہورہی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ پانچ دن پہلے عمران خان کی سپورٹس مین سپرٹ یہ تھی کہ جب اتحادیوں کو ڈنڈا نہیں گیا تھا تو وہ اس وقت جوائنٹ سیشن تبدیل کرنا پڑا۔ آگے چل کر کامران شاہد مزید کہتے ہیں کہ اب اتحادیوں کو ڈنڈا جاچکا ہے تو اب اتحادی کہہ رہے ہیں کہ انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے جنہیں چار پانچ دن پہلے مسئلہ تھا۔ کامران شاہد کا مزید کہنا تھا کہ یہ حکومت ایک ڈنڈے پر چل رہی ہے جس کی کوئی اخلاقی حیثیت نہیں ہے۔ وزیراعظم نے کرسی پر کمپرومائز کرلیا ہے۔ صحافی طارق متین نے کامران شاہد کا کلپ شئیر کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ یہ ٹی وی ہے ڈرائنگ روم اور گھروں میں خاندان کے دیکھنے کی چیز سوشل میڈیا نہیں. یہ زبان نان سینس ہے اس کا نوٹس لیا جانا چاہیے۔ اس پر معافی نہیں تعزیر ہو ۔ جہانزیب ورک کا کہنا تھا کہ یہ کونسی زبان کامران شاہد استعمال کر رہا ہے، قوم یہ بیہودہ الفاظ سننے کیلئے بیٹھی ہوتی ہے؟ اتنی فرسٹریشن تھی تو اپنے گھر والوں کو یہ زبان سنا لیتا۔ واضح رہے کہ کچھ روز قبل بھی کامران شاہد نے عمران خان کی گورننس کو گھٹیا کہا توزرتاج گل نےا نہیں خوب آڑے ہاتھوں لیا تھا اور کہا تھا کہ اگر میں آپکے پروگرام کو گھٹیا کہوں تو آپکو کیسا لگے گا جس پر کامران شاہد نے کہا کہ آپ میری بات کا برا مناگئی ہیں، تنقید کرنا میرا حق ہے جس پر زرتاج گل نے کہا کہ ایسے الفاظ اگر اپوزیشن استعمال کرے تو سمجھ آتی ہے لیکن آپ تو صحافی ہیں آپکو نیوٹرل رہنا چاہئے تھا
شہبازشریف بھی سوشل میڈیا کی فیک نیوز کا شکار۔۔صحافی نسیم زہرہ کے بعد شہبازشریف نے بھی مہاتیر محمد کی موت کی جھوٹی شئیر کرکے بعدازاں ٹویٹ ڈیلیٹ کردیا تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز صحافی نسیم زہرہ نے مہاتیر محمد کی وفات کی خبر دی اور عمران خان کو وفد لے کر مہاتیر کے جنازے میں پہنچنےکی تلقین کی۔ تھوڑی دیر بعد ہی نسیم زہرہ نےبتایا کہ ابھی مہاتیر محمد فوت نہیں ہوئے اور اپنی خبر ڈیلیٹ کردی لیکن آج شہبازشریف نے مہاتیر محمد کی جھوٹی موت پر اظہار تعزیت کردیا۔ اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ میں شہباز شریف نے لکھا کہ ہمیں ایک وژنری لیڈر مہاتیر محمد کی موت پر بہت افسوس ہے۔ وہ ایک وژنری لیڈر اور اپنی قوم سے مخلص تھے اور ملائشین عوام کیلئے مثالی ترقی کے کام کئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم مہاتیر محمد کی فیملی سے اظہارتعزیت کرتے ہیں۔ بعدزاں شہبازشریف نے خبر غلط ہونے پر ٹویٹ ڈیلیٹ کردیا۔
کچھ روز قبل ہم نیوز کے اینکر محمد مالک اور شہبازگل کے درمیان لائیو شو میں شدید گرما گرمی ہوئی جس پر یہ بحث زور پکڑرہی ہے کہ ان دونوں میں کون صحیح ہے۔ محمدمالک کے ساتھیوں اور صحافیوں کے خیال میں محمد مالک ٹھیک ہیں، شہبازگل نے زیادتی کی ہے جبکہ سوشل میڈیاصارفین کا خیال ہے کہ محمدمالک نے زیادتی کی ہے۔انہیں کسی کی ڈگری اور تعلیمی قابلیت پر سوال اٹھانے سے پہلے سوچ لینا چاہئے تھا۔ دونوں کے درمیان بحث معیشت کےا ایشو پر چلی ۔ محمد مالک نے کامران شاہد سے کہا کہ آپ کو معیشت کے بارے علم ہی کیا ہے؟ جس پر شہباز گل نے کہا مجھ سے زیادہ کسی کو اکانومی کا پتا نہیں ہے کیونکہ میں نے ڈاکٹریٹ کی ہوئی ہے بزنس اکانومی میں۔ محمد مالک نے سوال کیا کہ آپ نے پی ایچ ڈی کی کہاں سے کی ہے تو شہباز گل نے جواب دیا کہ یونیورسٹی آف ملایا سے ہے۔ اس پر اینکر محمد مالک نے کہا ہے کہ اس یونیورسٹی کا اسٹیٹس مشکوک ہے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یونیورسٹی آف ملایا اس وقت ورلڈ میں 59 نمبر پر رینک کررہی ہے جبکہ ملائیشیا کی نمبر ون یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہے۔ مہاتیر محمد ، عبداللہ باداوی ، سنگاپور کے سابق صدر بھی وہاں سے فارغ التحصیل ہیں۔ اس کلپ کے بعد ن لیگ کے حامی صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے شہبازگل پر تنقید کی جس پر شہباز گل نے لکھا ہے کہ "درسگاہ آپکی ماں ہوتی ہے۔ وہاں سے آپ کی تعلیم تربیت ہوتی ہے۔مجھے اپنے پرائمری سکول اور ماسٹر صدیق صاحب پر, PhD ، university Malaya پر اور Postdoctorate کے لئے University illinois urbana Champaign پر بھی فخر ہے۔ کوئی میری درسگاہ کو مشکوک کہہ کے توہین کرے گا تو سخت ترین جواب ملے گا۔ شہباز گل نے مزید لکھا کہ محمد مالک ملک کے وزیراعظم کا گریبان پکڑنے کی بات کریں تو وہ ٹھیک۔ملائشیا کی No.1 یونیورسٹی جہاں سے وہاں کے 4 وزیراعظم صاحبان نے ڈگریاں لیں، اس کو مشکوک کہیں وہ ٹھیک۔مریم کے کتا کی طرح بھونکنے والی بات پر سائیلنٹ موڈ میں رہیں وہ ٹھیک۔ اور میں nonsense کا لفظ کہہ دوں تو قیامت دوسری جانب محمد مالک نے ٹویٹ کیا کہ انہیں غلط فہمی ہو گئی تھی کیونکہ جس یونیورسٹی کا نام شہباز گل نے لیا تھا وہ اسے کوئی اور یونیورسٹی سمجھ بیٹھے تھے۔ اس پر سوشل میڈیا صارفین نے محمدمالک سے کہا کہ آپ کو چاہئے تھا کہ اپنی تحقیق مکمل کرلیتے، اگر آپکو غلط فہمی تھی تو آپ معذرت کرلیتے یا مزید بحث میں نہ الجھتے۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ نان سینس لفظ کوئی گالی نہیں ہے۔اس کامطلب ہے کہ جسے پتہ نہ ہو۔ آپ کو اگر کسی بات کا پتہ نہیں تھاتو وہ بات کیوں کی۔ سوشل میڈیا صارفین کی اکثریت نے شہبازگل کو حق پر قرار دیتے ہوئے کہا کہ درسگاہ ایک ماں کی طرح ہوتی ہے کسی کی ماں کو گالی نہیں دینی چاہئے اور ویسے بھی ایک شخص اپنی جوانی تعلیم کے حصول میں صرف کردیتا ہے اسکی تعلیم پر بغیر سوچے سمجھے اور بغیر تحقیق کے انگلیاں اٹھانا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اس پر خاورگھمن نے تبصرہ کیا کہ اگر آپ پی ایچ ڈی ہیں اور آپ کو کوئی یہ کہے کی آپ کی ڈگری جعلی ہے یا آپ جعلی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو تو اس پر آپ کا کیا جواب ہوگا؟؟؟یا ہونا چاہیے؟؟؟ صحافی خاورگھمن کا مزید کہنا تھا کہ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں درسگاہ کو ماں کا درجہ دیا گیا ہے۔۔۔۔۔سیاسی اور نظریاتی اختلافات اپنی جگہ آپ ہر گز کسی کی درسگاہ کو متنازعہ وہ بی بغیر ثبوت کے کہیں گے تو اس پر رد عمل تو ضرور آئے گا۔۔میرے خیال میں دونوں حضرات کو اپنے اپنے الفاظ واپس لینے چاہیے۔۔ اینکر طارق متین کا کہنا تھا کہ مجھے شہبازگل کی بات سے اکثر اختلاف ہوتا ہے مگر کسی کی مادر عملی کو ہی متنازع کہہ دینا زیادتی ہے۔ انورلودھی نے شہبازگل کی حمایت کرتے ہوئے لکھا کہ پہلے مالک نے شہباز گل کو کہا کہ آپ نے جہاں سے پی ایچ ڈی کی ہے وہ مشکوک ہے.. حالانکہ وہ ایک بہترین یونیورسٹی ہے. اس پر شہباز گل نے ری ایکشن دیا تو مالک اس کا بھی برا منا گئے شہباز گل کا جواب بالکل مناسب تھا.. اینکرز کو کسی کی پگڑی اچھالنے کا کوئی حق نہیں صحافی میر محمد خان کا کہنا تھا کہ وہ یونیورسٹی جس سے مہاتیر محمد جیسا شخص فارغ التحصیل ہے، محمد مالک اسے ہی متنازعہ کہہ رہاہے۔ دیگر سوشل میڈیا صارفین نے بھی شہبازگل کی حمایت کی
وزیراعظم عمران خان کی ماضی کی ایک ویڈیو کے معاملے پر سینئر صحافی رؤف کلاسرا اور اظہر مشہوانی کے درمیان ٹویٹر پر نوک جھوک جاری ہے۔ تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی و تجزیہ کار روف کلاسرا نے ٹویٹر پر عمران خان کے بھارت میں دیئے گئے ایک انٹرویو کا ویڈیو کلپ شیئر کیا جس میں وہ سیاست کو بطور پیشہ اختیار کرنے کی مخالفت کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ رؤف کلاسرا نے جو ویڈیو کلپ شیئر کیا اس میں عمران خان کہتے ہیں "اگر کوئی مجھے سیاست کو بطور پیشہ اختیار کرنے کا کہے تو میں اپنے آپ کو گولی مارلوں گا، کیونکہ اس سے مشکل کیریئر دنیا میں کوئی نہیں ہوسکتا"۔ تاہم رؤف کلاسرا کی جانب سے ویڈیو کلپ شیئرہونے کے تھوڑی دیر بعد وزیراعلی پنجاب کے فوکل پرسن اظہر مشہوانی نے وزیراعظم عمران خان کے اسی انٹرویو کا تھوڑا بڑا ویڈیو کلپ شیئر کیا جس میں وزیراعظم عمران خان کی بات کا پس منظر واضح ہورہا تھا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ مجھے کرکٹ کی وجہ سے دنیا بھر میں شہرت ملی، لوگوں کیلئے میں نے اپنی ماں کی وجہ سے ایک ہسپتال بنادیا، ایک یونیورسٹی بنائی ، مگر سوال اگر سیاست کو بطور پیشہ اختیار کرکے کیریئر بنانے کا ہے تو میں خود کو گولی مار لوں گا۔ عمران خان نے کہا کہ میں نے سیاست میں قدم کیوں رکھا اس کے پیچھے ارسطو کی ایک کہاوت ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ اگر کسی معاشرے میں ناانصافی ہے تو معاشرےکا ہر فرد سیاست میں جائے گا سوائے 2 کے جن میں ایک خود غرض ہے اور دوسرا بزدل۔ اظہر مشہوانی نے یہ ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ وزیراعظم عمران خان کی یہ گفتگو 2015 کی ہے جب ان کی جماعت پاکستان کے ایک صوبے میں حکومت کررہی تھی۔ اظہر مشہوانی کی جانب سے عمران خان کی بات کا پس منظر واضح کردینے کے بعد رؤف کلاسرا نے کہا کہ میری اصل پریشانی یہ ہے کہ ہمارے وزیراعظم کو کیوں ہر بار اپنی بات کو ثابت کرنے کیلئے خود کشی کرنے کی دھمکی دینے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ رؤف کلاسرا نے کہا کہ وزیراعظم سادہ سے انداز میں کسی بھی بات کو رد کرتے ہوئے کہہ سکتے ہیں میں یہ نہیں کروں گا، اس میں کیا مسئلہ ہے ؟ آپ سے اس معاملے کو سمجھنے میں رہنمائی چاہیے۔
وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے مریم نواز شریف پر الزام عائد کیا ہے کہ لاہور میں دھماکے کے بعد مریم نواز شریف اپنے ڈائٹیشن کے ساتھ میٹنگ میں مصروف رہیں۔ تفصیلات کے مطابق لاہور کے مشہور بازار انارکلی دھماکے کے بعد حسب روایت سیاستدانوں نے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرنا شروع کردی ہے۔ مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف نے اپنے پیغام میں حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ لاہور دھماکے میں تین افراد کی ہلاکت اور درجنوں کے زخمی ہونے کے وقت پتا ہے عمران خان کیا کررہے تھے؟ وہ اپنے پراپیگنڈہ سیل کی میٹنگ میں "شریفوں" سے متعلق گفتگو فرمارہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب آگے کیا ہوگا؟ بم دھماکے میں متاثر ہونےو الوں پر ہی واقعہ کی ذمہ داری ڈال دی جائے گی؟ مریم نواز شریف کی تنقید اور الزام کے جواب میں حکومتی رہنما ڈاکٹر شہباز گل نے جوابی وار کیا اور اپنی ٹویٹ میں مریم نواز شریف کوآڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ حیرت ہے آپکے جھوٹ بولنے کے کانفیڈینس پر۔ کس پر اعتماد طریقے سے آپ جھوٹ بولتی ہیں۔ انہوں نے مریم نواز شریف سے سوال کیا کہ وزیراعظم کو طعنہ دینے سے پہلے آپ بتائیں گی زوم پر آپ کی میٹنگ کس حوالے سے تھی جو دھماکے کے بعد بھی ایک گھنٹہ تک جاری رہی؟ ڈاکٹر شہباز گل نے کہا کہ دھماکے کے بعد بھی آپ کے پاس وقت تھا اپنے ڈائٹیشن سے بات کرنے کا؟ یادرہے کہ آج لاہور کے قدیم انارکلی بازار میں دوپہر پونے 2 بجے کے قریب ایک زوردار دھماکہ ہوا، ابتدائی تحقیقات کے مطابق دھماکہ خیز مواد ایک موٹرسائیکل میں نصب تھا جسے ٹائم ڈیوائس کی مدد سے اڑایا گیا۔ واقعہ میں 9 سالہ بچے سمیت 2 افراد کے جاں بحق جبکہ 28 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
سوشل میڈیا پر اس وقت 2 ٹرینڈز ٹاپ پر ہیں جن میں #ملک_کی_بقا_صدارتی_نظام اور #ملک_کی_بقا_اسلامی_نظام شامل ہیں۔ گزشتہ روز #ملک_کی_بقا_صدارتی_نظام کے نام سے ٹرینڈچلا جس میں سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ پاکستان کا موجودہ پارلیمانی نظام انتہائی فرسودہ ہوگیا ہے جس میں حکومت بنانے کیلئے خریدوفروخت کرنا پڑتی ہے۔نہ عدالتیں کیسز کے فیصلے کرتی ہیں اور نہ انصاف کرتی ہیں، نہ حکومتیں ڈلیور کرتی ہیں اور چھوٹی سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی رہتی ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ سلامی نظامِ حکومت کے قریب تر اگر کوئی نظام ہے تو وہ صدارتی نظام ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ میں اگر ترقی ہے تو صرف صدارتی نظام کی وجہ سے کیونکہ صدر کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں اور وہ فیصلوں میں خودمختار ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ایک سوشل میڈیا صارف نے ڈاکٹر اسرار کا ایک کلپ شئیر کیا جس میں ڈاکٹر اسرار کہتے ہیں کہ بہتر ہے کہ اس پارلیمانی نظام کی لعنت جو انگریزوں سے ہمیں وراثت کے طور پر ملی ہے۔ اسے چھوڑ کر صدارتی نظام نافذ کیا جائے جو نظام خلافت کے قریب تر ہے۔ انہوں نے ہم سے ہی صدارتی نظام لیا ہے۔ ڈاکٹر اسرار مزید کہتے ہیں کہ امریکی صدارتی نظام خلافت سے مستعار لیا تھا جس میں مواخذہ بھی شامل ہے۔ آپ نے دیکھا کہ جیسے ہی مواخذے کی بات ہوئی تو نکسن بھاگ کھڑا ہوا۔ صدارتی نظام کیساتھ ساتھ چھوٹے صوبوں کی ضرورت ہے۔ پھر ہی لوگوں کا احساس محرومی ختم ہوگا۔ دوسری جانب #ملک_کی_بقا_اسلامی_نظام ٹرینڈ چلانے والوں کا کہنا ہے کہ ملک میں صدارتی نظام اور پارلیمانی نظام دونوں نہیں ہونے چاہئیں بلکہ اسلامی نظام ہونا چاہئے۔ یہ ٹرینڈ چلانے والوں کی اکثریت مولانا فضل الرحمان سے تھی جبکہ دیگر مذہبی جماعتوں کے کارکن بھی اس ٹرینڈ میں شریک ہوئے۔ جے یو آئی ف کے حامیوں نے اسلامی نظام کے حق میں دلائل نہیں دئیے، وہ ان کا اکتفا صرف مولانا فضل الرحمان کی شخصیت کی تعریف کرتے رہے، جلسے جلوسوں کی تصاویر شائع کرتے رہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یہ ٹرینڈ #ملک_کی_بقا_صدارتی_نظام کے کاؤنٹر میں شروع کیا گیا ہے اور سارا فوکس اپنے ٹرینڈ کو اسکے مقابلے میں ٹاپ پر پہنچانے پر ہیں۔ مولانا فضل الرحمان صدارتی نظام کے سخت مخالف ہیں، وہ کہتے ہیں کہ صدارتی نظام ملکی آئین اور فیڈریشن کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ وہ آئین کے تحفظ کی قسم کھاچکے ہیں اور آئین کو سبوتاژ کرنیکی اجازت نہیں دیں گے۔ مولانا فضل الرحمان پارلیمانی نظام کے حامی ہیں اور ماضی میں اسی پارلیمانی نظام کے تحت مختلف حکومتوں کا حصہ رہ چکے ہیں۔ وہ آئین کو ختم کرکے نیا اسلامی آئین لانے کے بھی مخالف ہیں تو ایسے میں یہ ٹرینڈ سمجھ سے باہر ہے۔ یہ ٹرینڈ چلانے والے بعض ارکان کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں اسلامی نظام چاہتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاپارہے کہ اس اسلامی نظام کس طرح رائج ہوگا؟ اسلامی نظام کے تحت ملکی سربراہ کیسا ہوگا؟ اسکی کیا ذمہ داریاں ہوں گی؟اسلامی نظام کے تحت گورننس کا ماڈل کیسا ہوگا؟ ایسے کئی سوالات ہیں جن کے جوابات نہیں ہیں، اگر جے یو آئی ف اور دیگر مذہبی جماعتوں کے کارکن اس ٹرینڈ کے تحت دلائل دیں تو دلائل کاانبار لگاسکتے ہیں جیسے اسلام نے سودی نظام سے منع کیا ہے، وہ عدالتی نظام کو حضور ﷺ کے اس واقعے سے جوڑسکتے تھے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اسکا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔ ایک حکمران سے سوال یا اسکے احتساب پر حضرت عمرفاروق اور حضرت علی رضٰ اللہ عنہ کا حوالہ دے سکتے تھے۔کاروبار، معیشت، صحت، تعلیم، دیگر ایشوز پر دلائل کا انبار لگاسکتے تھے، خلفائے راشدین کے مختلف واقعات اور اقدامات کا حوالہ دے سکتے تھے لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ ٹرینڈ کو ٹاپ پرپہنچانے پر ہی تمام فوکس رہا۔ ڈاکٹر عبدالباسط نے سوال اٹھایا کہ اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ کائنات کا نظام چلانے کیلئے خالق کائنات کے بنائے ہوئے قوانین ہی تمام مسائل کا حل ہیں۔ پر سوال یہ ہے کہ موجودہ سیٹ اپ میں کوئی ایسا لیڈر ہو جو اسلامی نظام قائم کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ اور اس پر باقی مذہبی جماعتیں مطمئن ہو جائیں
سوشل میڈیا پر #ملک_کی_بقا_صدارتی_نظام ٹاپ ٹرینڈ ہے، سوشل میڈیا پر صدارتی نظام کے حامی اور مخالف سامنے آگئے ہیں ۔ صدارتی نظام کے حامی اس نظام کے فوائد گنوارہے ہیں جبکہ مخالفین کے نزدیک یہ نظام ایک ڈکٹیٹرشپ کا نظام ہے جو سابق آمروں نے نافذ کررکھا تھا۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ پاکستان کا موجودہ پارلیمانی نظام انتہائی فرسودہ ہوگیا ہے جس میں حکومت بنانے کیلئے خریدوفروخت کرنا پڑتی ہے۔نہ عدالتیں کیسز کے فیصلے کرتی ہیں اور نہ انصاف کرتی ہیں، نہ حکومتیں ڈلیور کرتی ہیں اور چھوٹی سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی رہتی ہیں۔ صدارتی نظام کے حامیوں کا مزید کہنا تھا کہ اسلامی نظامِ حکومت کے قریب تر اگر کوئی نظام ہے تو وہ صدارتی نظام ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ میں اگر ترقی ہے تو صرف صدارتی نظام کی وجہ سے کیونکہ صدر کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں اور وہ فیصلوں میں خودمختار ہوتا ہے۔ بعض سوشل میڈیا صارفین نے دعویٰ کیا کہ قائداعظم اسلامی صدارتی نظام چاہتے تھے، انکا ایک خط بھی تھا جو آج تک چھپایا گیا ہے۔ان کا دعویٰ تھا کہ قائداعظم محمد علی جناح پاکستان میں صدارتی نظام حکومت کے خواہاں تھے اور انہوں نے 10 جولائی 1947 کو کھل کر اظہار بھی کیا ایک سوشل میڈیا صارف کا کہنا تھا کہ پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم پابند ہوتا ہے کہ صرف منتخب افراد کو وزارتیں دے سکتا ہے اور وہ افراد محض سیاستدان ہوتے ہیں، اپنے شعبے کے ماہر نہیں صدارتی نظام میں منتخب افراد کی شرط نہیں ہے اس لیئے کسی بھی ماہر کو وزارت دی جا سکتی ہے۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے ڈاکٹر اسرار کا ایک کلپ شئیر کیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ بہتر ہے کہ اس پارلیمانی نظام کی لعنت جو انگریزوں سے ہمیں وراثت کے طور پر ملی ہے۔ اسے چھوڑ کر صدارتی نظام نافذ کیا جائے جو نظام خلافت کے قریب تر ہے۔ انہوں نے ہم سے ہی صدارتی نظام لیا ہے۔ اس کلپ میں ڈاکٹر اسرار کہتے ہیں کہ امریکی صدارتی نظام خلافت سے مستعار لیا تھا جس میں مواخذہ بھی شامل ہے۔ آپ نے دیکھا کہ جیسے ہی مواخذے کی بات ہوئی تو نکسن بھاگ کھڑا ہوا۔ ڈاکٹر اسرار مزید کہتے ہیں کہ صدارتی نظام کیساتھ ساتھ چھوٹے صوبوں کی ضرورت ہے۔ پھر ہی لوگوں کا احساس محرومی ختم ہوگا۔ دوسری جانب صدارتی نظام کے مخالفوں نے بھی کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ صدارتی نظام آمروں کا پسندیدہ نظام ہے جو انہوں نے نافذ کررکھا تھا، اسکا کیا نتیجہ نکلا؟ یحییٰ خان کے دور میں پاکستان دو لخت ہوا، ضیاء دور میں ہمیں فرقہ پرستی، افغان مہاجرین کا تحفہ ملا اور مشرف دور میں طالبان پاکستان پر نازل ہوئے۔ مخالف رائے دینے والوں نے مزید کہا کہ صدارتی نظام میں پاکستان ٹوٹا، سیاچن الگ ہوا، سوات پر طالبان کا قبضہ ہوا اور پاکستان پر دہشتگردی کا لیبل لگا ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ صرف اور صرف اسلامی نظام صدارتی نظام بھی ایک دھوکا ہے کیونکہ پاکستان میں مشرف اور زرداری صدارتی نظام حکومت میں جو کر کے گئے ہیں سب کے سامنے ہے۔ صدارتی اور پارلیمانی جمہوریت ایک ہی کھوٹے سکے کے دو رخ ہیں. بس یہ ایک اور ٹرک کی بتی ہے جسکے پیچھے کچھ سادہ لوح لوگوں کو لگایا جا رہا ہے. صدارتی نظام کے مخالفوں کی رائے تھی کہ بہتر ہے کہ پارلیمانی نظام کو ہی بہتر کرلیا جائے، الیکشن سسٹم، بلدیاتی نظام، پولیس اصلاحات عدالتی نظام، گورننس ماڈل کو بہتر کرلیں، بیوروکریسی کو لگام ڈال لیں تو ہمیں کسی صدارتی نظام کی ضرورت نہیں۔ ایک سوشل میڈیا صارف کا کہنا تھا کہ خان صاحب آپکے تمام وزراء اپوزیشن کے پیچھے پڑیں ہیں۔۔۔جبکہ انکو اپنی وزارت کی کارکردگی کواجاگر کرنا چاہیے۔۔عوام نے کارکردگی پر ووٹ دینا ہے ۔۔ اپوزیشن پر بولنے پر نہیں۔۔
احسن اقبال نے قوم کو بیوقوف قرار دیکر قوم کے اجتماعی شعور کی توہین کی، سوشل میڈیا صارفین احسن اقبال پر برس پڑے، احسن اقبال سے معافی کا مطالبہ احسن اقبال نے اپنے ٹوئٹر پیغام کے ذریعے عوام کو بیوقوف قرار دیدیا اور تبصرہ کیا کہ جب لوگ بیوقوف ہوجائیں تو خدا انہیں تباہ نہیں کرتا بلکہ عمران نیازی جیسے نااہل حکمران سزا کے طور پر بھیجتا ہے۔ عوام کو بیوقوف کہنے والی بات اگر احسن اقبال کی جگہ کسی تحریک انصاف کے راہنما نے کی ہوتی تو میڈیا پی ٹی آئی کو کم از کم ایک ہفتہ اسی بات پر ٹاک شوز میں رگڑا لگا رہا ہوتا کیا میڈیا کو نون لیگیوں کے ایسے ریمارکس نظر نہیں آتے؟ جس پر احسن قبال نے ردعمل دیا کہ جو عمران خان جیسے اناڑی اور اناپرست کو ایٹمی طاقت کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا کر ملک کا ستیاناس کروا دیں تو انہیں کیا عقلمند کہا جائے؟ احسن اقبال کے اس بیان پر سوشل میڈیا صارفین نے احسن اقبال کو خوب آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ احسن اقبال پاکستانی عوام کو ہی بیوقوف قرار دے رہے تھے، کچھ سوشل میڈیاصارفین نے کہا کہ احسن اقبال قوم کے اجتماعی شعور کی توہین کررہے ہیں اس پر انہیں معافی مانگنی چاہئے۔ بعض نے کہا کہ الیکشن 2018 میں قوم نے مسلم لیگ ن کو مسترد کردیا تھا اسلئے وہ اپنا غصہ عوام پر نکال رہے ہیں، کچھ نے کہا کہ اگر ایک شخص عوام کو ہی بیوقوف کہہ رہا ہے تو پھر یہ عوام کیساتھ ملکر انقلاب کیسے لائیں گے؟ کچھ کا کہنا تھا کہ اگر عوام ن لیگ کو ووٹ دے تو عوام باشعور لیکن اگرکسی اور کو دیدے تو عوام بیوقوف صحافی عبدالمعیز جعفری نے احس اقبال کو جواب دیا کہ کیا یہ اقبال صاحب آپ کی اپنی ناکامیوں کا اعتراف ہے یا آپ کہہ رہے ہیں کہ جولائی 2018 میں پاکستانی اچانک بیوقوف ہو گئے؟ صحافی ارم زعیم نے احسن اقبال کو جواب دیا کہ مسلم لیگ ن کی قیادت، راہنما اور ووٹرز کو چھوڑ کر تمام پاکستانی جاہل، پاگل اور بیکار لوگ ہیں۔ اس لیے اللہ نے اُن پر عمران خان کی حکومت مسلط کر دی۔ واہ احسن صاحب فیاض درانی کا کہنا تھا کہ احسن اقبال صاحب آپ نے سیاسی بوکھلاہٹ میں پورے پاکستانی قوم کی تذلیل کی ہے آپ اور آپ کے لیڈرز نا اہل ہونگے باقی قوم نہیں! فوری طور پر پاکستانی عوام سے معافی مانگیں ایک سوشل میڈیا صارف نے تبصرہ کیا کہ آسان الفاظ میں احسن اقبال یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو لوگ PMLN کو ووٹ نہ دیں وہ بیوقوف ہیں۔ ن لیگ کے ایک سپورٹر نے احسن اقبال کو جوابد یا کہ جب سیلیکٹ کرنے والوں کے خلاف بولنے کی ہمت نہ ہوئی تو پوری عوام کو ہی بیوقوف قرار دے دیا، پی ٹی آئی والے بھی عوام کو ہی جاہل کہتے ہیں دیگر سوشل میڈیا صارفین نے بھی اپنی رائے دی اور تبصرہ کیا کہ احسن اقبال پاکستان کی عوام کو stupid کہتے ہوئے۔ یہ عوام کی تذلیل نہیں تو اور کیا ہے؟ کچھ کا کہناتھا کہ پوری قوم کے بارے میں ایسی بات اگر پی ٹی آئی کا کوئی بندہ کہتا تو عمر چیمہ، ابصار عالم، وسیم عباسی، حامد میر سارے اسکے خلاف شروع ہوجاتے۔ تو کچھ نے کہا کہ اب احسن اقبال اور ن لیگ قوم کو بیوقوف قرار دیکر اور گالی دیکر ووٹ کو عزت دے گی۔
نور مقدم کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی ویڈیو پر سوشل میڈیا صارفین کے تبصرے۔۔ سوشل میڈیا صارفین نے اسے سزا سے بچنے کیلئے پاگل ہونے کی ایکٹنگ قرار دیدیا صحافی فیاض محمود نے نور مقدم کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر ویڈیو شئیر کی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ملزم ظاہر جعفر کو کرسی پر بیٹھا کر عدالت پیش کیا گیا۔۔ ملزم کی حالت ایسی ہے جیسے وہ پاگل ہوگیا ہو اور اسے پاگل پن کے دورے پڑرہے ہوں۔ فیاض محمود کا کہنا تھا کہ ملزم کے وکلاء کے مطابق ظاہر جعفر کی ذہنی حالت خراب ہوچکی ہے۔۔ ظاہر جعفر کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو سوشل میڈیا صارفین نے کہا کہ ملزم ظاہر جعفر نے سزا سے بچنے کیلئے پاگل ہونے کا ڈرامہ شروع کردیا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین نے ظاہر جعفر کو آسکرایوارڈ دینے کا مطالبہ کیا۔ کچھ سوشل میڈیا صارفین نے ظاہرجعفر کی حالت کو منابھائی ایم بی بی ایس کے ایک کردار سے تشبیہہ دی تو کچھ نے ظاہر جعفر کو نوازشریف سے تشبیہہ دی، کچھ نے کہا کہ ظاہر جعفر ایکٹنگ تو کرے گا ہی، نوازشریف کا وکیل بھی خواجہ حارث تھا اور ظاہر جعفر فیملی کا بھی وکیل خواجہ حارث ہے۔ سوشل میڈیا صارفین نے کہا کہ یہ تو ہمیں پہلے سے معلوم تھا کہ ظاہر جعفر کے وکلاء اسے سزا سے بچانے کیلئے یہ حرکت کریں گے کیونکہ ملزم ہ صرف اپنے جرم کا اعتراف کرچکا ہے بلکہ اسکے خلاف شواہد بھی ٹھوس ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین کے مطابق ظاہر جعفر پیسے کے بل بوتے پر بچ نکلے گا، وہ پاگل پن کا ڈرامہ کرکے یا تو ضمانت لینے میں کامیاب ہوجائے گا یا کسی مینٹل ہسپتال میں شاہ رخ جتوئی کی طرح عیاشی کرتا نظر آئے گا۔ خیال رہے کہ کچھ روز قبل ہی صحافی ثاقب بشیر نے بھی انکشاف کیا تھا کہ نورمقدم کے والد شوکت مقدم جب اقبالی بیان دینے کیلئے پیش ہوئے تو مرکزی ملزم کو پیش نہیں کیا گیا، ملزم کے وکلاء کا کہنا تھا کہ ظاہر جعفر کی جیل میں کسی سے لڑائی ہوگئی ہے جس سے یہ تاثر ابھرا کہ ظاہر جعفر کے وکلاء نے اسے پاگل ثابت کرنے کیلئے گراؤنڈ بنانا شروع کردیا ہے۔ صحافی عمرانعام نے اس پر تبصرہ کیا کہ طاقتور قاتل کے ڈرامے روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہماری عدلیہ کا انصاف اتنی دیر سے ملتا ہے کہ لوگ راستے میں ہمت ہار جاتے ہیں۔ اللہ پاک شوکت مقدم اور انکے خاندان کو استقامت عطافرمائے۔ امید ہے کہ کمانڈر احسن یونس کی پولیس اس سلسلے میں مکمل تعاون شوکت مقدم سےکرے گی رافعہ زکریا نے ظاہر جعفر کو آسکر ایوارڈ دینے کا مطالبہ کیا۔ مبشرلقمان کے مطابق ظاہرجعفر کے اہلخانہ نے انہیں اسپیشل ڈرامہ کی ٹریننگ دینا شروع کردی ہے۔ وقار ملک کا کہنا تھا کہ جب نواز شریف کی جھوٹی رپورٹس بنا کے فرار کروائیں گے تو باقی بھی ایسی حرکتیں کرنے کی کوشش کریں گے اس لئے نواز شریف کا واپس آنا اور اپنی سزا پوری کاٹنا ضروری ہے اس سے باقی طاقتور ملزموں کو عبرت ملے گی اور وہ قانون سے کھلواڑ بند کریں گے۔ معروف شاعرہ نوشی گیلانی نے ظاہر جعفر کو عیار قاتل قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ظاہر جعفر کے لئے نُور مقّدم کو قتل کر دینا کتنا آسان تھا اور خود سزائے موت کے خوف سے پاگل پن کے جھوٹے ناٹک ۔۔۔ حسن مسرور کا کہنا تھا کہ ذہنی حالت تو قتل کے وقت بھی خراب ہی تھی تبھی تو ایک زندہ انسان کا سر کاٹا اس کی بے حرمتی کی۔ قتل کوئی عام انسان تو کرتا نہیں اب اس کو بیس بنا کر ضمانت لی جائے گی۔ ناشناس نے تبصرہ کیا کہ یہی اداکاری نوازشریف نے کی تھی۔ اور دونوں ہی کا وکیل خواجہ حارث ۔ رائے مختار کا کہنا تھا کہ اس کو چھوڑ دیا گیا تو آپ اسے نواز شریف کی طرح ہٹا کٹا دیکھیں گے صحرانورد نے تبصرہ کیا کہ س ملک میں شاہ رخ جتوئی،ظاھر جعفر اور شاہ حسین جیسوں کو سزائیں ھو ھی نہیں سکتیں. سعید بلوچ نے تبصرہ کیا کہ سب نوٹنکی اور ڈرامے ہیں، جس دن اس نے امریکی سفارتخانہ سے 25 منٹ بات کی تھی اسی دن سمجھ گئے تھے یہ میڈیکل گراؤنڈ کی طرف جائے گا۔خودکوپاگل ظاہرکرےگااورعدالت سےریلیف کی کوشش کرےگا،ویسے بھی گراؤنڈذہنی معذوری کاہےلیکن یہ جسمانی طورپرلاغرکیوں ہے؟یہ کیس بھی نظام انصاف کےلیے ٹیسٹ ہے

Back
Top