سوشل میڈیا کی خبریں

بول نیوز کے صحافی نذیرلغاری نے فیک نیوز پر مبنی اپنے ہی چینل کا جعلی سکرین شاٹ شئیر کردیا۔۔ بول ٹی وی کے صحافی نے مولانا طارق جمیل سے منسوب ایک جعلی سکرین شاٹ شئیر کیا جس میں مولانا طارق جمیل سے منسوب ایک بیان تھا کہ مولانا طارق جمیل کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کے ترجمان ہیں اور عمران خان نے مجھ سمیت پوری قوم کو مایوس کیا۔ اس جعلی خبر میں مولانا سے منسوب یہ بیان بھی تھا کہ مفتی محمود کے آنگن میں پلے پھول کی خوشبو سے عالم اسلام معطر ہے۔ نذیر لغاری نے یہ جعلی خبر شئیر کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ اپ بھی کسی کا یہ خیال ہوسکتا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوگی۔ دراصل کچھ عرصہ قبل مولانا طارق جمیل کو دل کا دورہ پڑا تھا اور یہ خبر بول ٹی وی نے چلائی تھی۔ اسی سکرین شاٹ کو کسی نے فوٹوشاپڈ کرکے سوشل میڈیا پر شئیر کردیا تھا جسے نذیر لغاری نے شئیر کردیا۔ خیال رہے کہ نذیر لغاری بول نیوز کے ایڈیٹر ان چیف اور ایک سینئر صحافی ہیں جو کئی جنگ اخبارات میں لکھ چکے ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف رہ چکے ہیں۔ انکی پیپلزپارٹی سے جذباتی وابستگی ہے اور عمران خان کے سخت مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین نے نذیر لغاری کا خوب مذاق اڑایا اور کہا کہ ایک سینئر صحافی کا یہ حال ہے تو سوچیں باقیوں کا کیا حال ہوگا۔
وفاقی وزیر شیخ رشید کا کہنا ہے کہ ان میں سے نہیں جو 5 سیٹوں پر وزارت اعلیٰ کیلئے بلیک میل کروں شیخ رشید کا اشارہ مسلم لیگ ق کی طرف تھا جس کے بارے میں خبریں آرہی ہیں کہ وہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا مطالبہ کررہی ہے اور کبھی اپوزیشن رہنماؤں سے اور کبھی حکومتی رہنماؤں سے مل رہی ہے۔ صحافی کی جانب سے سوال پوچھا گیا کہ آپ نے 5 ووٹوں کا اشارہ جام کمال کی طرف کیا ہے؟ جس پر شیخ رشید نے کہا کہ میں نے پنجاب کی سیاست کی بات کی ہے، بلوچستان عوامی پارٹی تو عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے۔ شیخ رشید کے ان ریمارکس پر مونس الٰہی کی طرف سے سخت ردعمل دیکھنے کو ملا۔ مونس الٰہی نے شیخ رشید کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں شیخ رشید کی بہت عزت کرتا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شیخ رشید بھول رہے ہیں کہ اسی جماعت کے لیڈران کے بزرگوں سے جناب اپنی سٹوڈنٹ لائف میں پیسے لیا کرتے تھے مونس الٰہی کو سوشل میڈیا صارفین نے بھی جواب دیا اور کہا کہ بھائ جان پی ٹی آئی کی سپورٹ کے بغیر آپ گجرات کی سیٹ نہی جیت سکتے تھے ۔ براہ مہربانی اس بات کاُاقرار بھی کریں اور خاندانی لوگ پرانی باتیں نہی بتاتے
علیم خان ن لیگ میں شامل ہوئے تو پچھتائیں گے، ہارون رشید نے علیم خان کو خبردار کردیا اور شریف خاندان کی وعدہ خلافی کی تاریخ بتادی مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین اور علیم خان کا مسلم لیگ ن کی فیصلہ سازی میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔ن لیگ کی فیصلہ سازی میں بنیادی کردار انہیں لوگوں کا ہوگا جنہوں نے پارٹی کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ احسن اقبال کے اس بیان پر ہارون رشید نے کہا کہ سبحان اللہ کیا وفاداری ہے پارٹی سے۔ اپنی ہی جماعت کو سبوتاژ کرنے کی کاوش۔ ہارون رشید نے مزید کہا کہ خان نے بھی ان سے اچھا سلوک نہ کیا۔ جہانگیر ترین اور علیم خاں مگر نون لیگ میں شامل ہوئےتو پچھتائیں گے۔ ہارون رشید نے حامد ناصر چٹھہ اور ہمایوں اختر خان سے معاہدے کا حوالہ دیا اور کہا کہ 2013 میں نواز شریف نےحامد ناصر چٹھہ سے معاہدہ کیا۔ مکر گئے اوردھوکہ دیا۔ ہارون رشید کا کہنا تھا کہ وعدہ شکنی اس خاندان کا دستور ہے ۔ اس موقع پر ہارون رشید نے ایک شعر بھی لکھا کہ کس سے پیمانِ وفا باندھ رہی ہے بلبل کل نہ پہچان سکے گی گل تر کی صورت صدیق جان نے اس پر تبصرہ کیا کہ احسن اقبال نے علیم خان کا نام لیے بغیر کہا ہے کہ جب وہ ن لیگ میں آئیں گے تو ان کی اتنی اوقات نہیں ہوگی کہ فیصلہ سازی کریں، فیصلہ نواز شریف اور پرانے ن لیگی ہی کریں گے، علیم خان جیسے پچھلی سیٹ پر بیٹھیں گے۔ واضح رہے کہ سابق وزیر علیم خان نے گزشتہ روز سابق وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کی ۔ملاقات نواز شریف کے گھر پر مقامی وقت کے مطابق ساڑھے 6 بجےہوئی، نوازشریف سے ملنے کیلئےعلیم خان عقبی دروازے سے داخل ہوئے۔ علیم خان نے سابق وزیراعظم کو بتایا کہ ان کے ساتھ تین سال میں کیا ہوتا رہا اوران کی اپنی جماعت پی ٹی آئی نے ان کو کس طرح نشانہ بنایا۔ذرائع کا دعویٰ ہے کہ عبدالعلیم خان کی مسلم لیگ ن میں شمولیت کا امکان ہے۔
تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی کنول شوزب کا خاتون صحافی کی جانب سے یرغمال بنانے کا الزام پر ردعمل سامنے آگیا۔ تفصیلات کے مطابق ایم این اے کنول شوزب نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ مختلف نیوز چینلر پر بریکنگ چل رہی ہے کہ انہوں نے خاتون صحافی بتول راجپوت کو گھر میں بند کر رکھا ہے، اس کے بعد سے مختلف صحافیوں کی جانب سے میرے خلاف ٹوئٹس آنی شروع ہو گئیں۔ کنول شوزب نے کہا کہ آپ سب دیکھ سکتے ہیں کہ ان خاتون صحافی کی تواضع کے لئے یہ سب لوازمات رکھے ہوئے ہیں، وہ آئیں میرا انٹرویو لینے لیکن انہوں نے بجائے میرے ایشو پر بات کرنے کے مختلف دیگر ایشوز پر بات شروع کر دی۔ کنول شوزب نے کہا کہ خاتون نے صحافت کے ایشوز، لبرل بریگیڈ ، جو پورا مافیا ہے اس کے ایشوز اٹھانے شروع کر دیئے، میری پارٹی کے لوگوں پر لیبلنگ شروع کر دی، ایم این اے اور وفاقی وزیروں کے نام لینے شروع کر دیئے تو میں نے ان کو بولا کہ آپ میرا انٹرویو لینے آئی ہیں بیچ میں یہ ایشوز کہاں سے آگئے، براہ مہربانی آپ یہ انٹرویو ڈیلیٹ کر دیں میں یہ نہیں چلوانا چاہتی، آپ دوبارہ انٹرویو لے لیں۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہم تو یہی انٹرویو چلائیں گے، آپ اس پر مزاحمت نہیں کر سکتیں تو میں نے ان سے درخواست کی کہ انٹرویو تو دونوں کی باہمی رضامندی سے ہوتا ہے، کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کسی سے زبردستی انٹرویو دلوائیں، تو ان خاتون نے اپنے پروڈیوسر کو فون کیا جن کا نام غالبا محسن تھا، ان کو کہا کہ کنول صاحبہ انٹرویو نہیں دے رہیں ہمارے ساتھ زیادتی اور بدتمیزی کی ہے، اور کہتی ہیں کہ انٹرویو ڈیلیٹ کریں تو آپ ان سے بات کریں۔ کنول شوزب کا کہنا تھا انہوں نے میری بات کروائی تو وہ حضرت مجھے کہنے لگے کہ آپ ایم این اے ہیں تو آپ کا دماغ کیوں اتنا گرم ہو گیا ہے اپنے دماغ کو ٹھنڈا رکھیں، تو میں نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں کہا میں نے انہوں نے انٹرویو لیا جو میں چلوانا نہیں چاہتی، ہمارا ایک باہمی معاہدہ ہونا چاہیئے آپ زبردستی یو انٹرویو لے کے نہیں چلا سکتے تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ کر کے تو دیکھیں میں آپ پر ایف آئی آر کرواوں گا۔ پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ میں نے ایک بار پھر خاتون صحافی سے درخواست کی معاملے کو نہ بڑھائیں اورانٹرویو ڈیلیٹ کر دیں تو انہوں نے کہا کہ یہ تو اب میری ہو گئی، ان محترمہ نے اپنی صحافت میں واپسی کے لئے اس کو خواہ مخواہ کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ انہوں نے حامد میر کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ آپ نے بغیر تحقیق کئے یہ الزام لگا دیا کہ آپ کے گینگ کی رکن بتول راجپوت جن کو گھٹیا صحافت کی وجہ سے پہلے بھی چینلز نے نکال دیا تھا، انھیں میں نے حبس بے جا میں رکھا اس کو آزادی صحافت کہیں گے؟ نوبت یہ ہے کہ اب آپ لوگوں کو گھروں میں گھس کر بلیک میل کریں گے، اغوا کا الزام لگا دیں گے؟ انہوں نے لکھا کہ کل کی پیشی کے بعد مجھے پورا یقین تھا کہ ایسا حملہ مجھ پر ہوگا پر میں اس کا بھرپور جواب دونگی۔ میڈیا کو بلیک میلنگ کیلئے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ آپ گھروں میں گھس کر حملے کریں یہ نہیں ہو سکتا۔ اس موقع پر کنول شوذب نے بتول راجپوت کے وٹس ایپ میسیجز کے سکرین شاٹس بھی شئیر کئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنے میڈیا گینگ کے زریعے میرے خلاف صحافتی ٹیمیں اکٹھی کر رہی ہیں تاکہ کل ہائیکورٹ میں جو اس لبرل برگیڈ کے آزادئ صحافت کی قلعئ کھلی ہے اس کو دوبارہ لا سکیں اسی لئے یہ پلانٹڈ انٹرویو کا ڈرامہ کیا اور جھوٹے پروپیگنڈا میں اب سب شامل ہیں ان کا مزید کہنا تھا کہ محترمہ آپ اور آپکی ٹیم۔خود آئی اور بتائے ہوئے ٹاپک سے ہٹ کر جان بوجھ کر سوالات شروع کیا جن پر میں نے مزید جواب دینے سے انکار کیا اور ساتھ میں آپکے ساتھ انٹرویو آن ائیر کرنے پر بھی،اصل میں تو ٹارگٹ کچھ اور تھا پر آزادئ صحافت والے ڈرامے میں آپکو اپنا استعمال کرنے نہیں دونگی واضح رہے کہ خاتون صحافی بتول راجپوت نے پی ٹی آئی کی رکن اسمبلی کنول شوزب پر انھیں یرغمال بنانے کا الزام لگایا اور کہا کہ کنول شوزب نے خاتون صحافی کو گھر میں بند کر دیا۔ کنول شوزب نے کہا کہ اگر رہائی چاہتی ہو تو پہلے انٹرویو کی ریکارڈنگ ہمارے حوالے کرو۔ سینئر صحافی حامد میر نے اپنے تازہ ترین ٹویٹ میں بتایا کہ انہیں خاتون صحافی کا میسج موصول ہوا ہے جس میں بتول راجپوت لکھتی ہیں کہ تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی کنول شوزب نے انہیں گھر میں نظر بند کر دیا اور کہا کہ چند منٹ پہلے اس کے ساتھ کیا گیا انٹرویو ڈیلیٹ کر دو۔
ٹویٹر پر اس وقت پاکستان میں امریکی سفیر کے ملک بدری کا مطالبہ زور پکڑ چکا ہے اور اس حوالےسے "ایکسپل امریکن ایمبیسڈر" کا ہیش ٹیگ بھی ٹرینڈنگ میں موجود ہے۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہونے کے دعوے کے بعد ٹویٹر پر صارفین نے پاکستانی سیاست میں بیرونی ہاتھ کے خلاف آواز اٹھانا شروع کردی تھی۔ تاہم آج پاکستان میں امریکی سفیر کی مبینہ طور پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور جمیعت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے بعد ٹویٹر پر امریکی سفیر کو ملک بدر کرنے کے حوالے سے ایک مہم شروع ہوگئی۔ ایک صارف کا کہنا تھا کہ ہم آزاد ملک ہیں، امریکی سفیر کی اپوزیشن اور ججوں سے ملاقات ہماری خودمختاری پر حملہ ہے۔ ایک صارف نے امریکی سفیر سے ملنے والے سیاستدانوں پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کے کرپٹ لوگوں کو حکومت کے خلاف سازشیں کرنے کی اجازت کیوں؟ صارفین نے امریکی سفیر کی سیاستدانوں سے ملاقات پر انہیں ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیااور کہا کہ اس مہم کو مزید بڑھائیں۔ کچھ صارفین نے حال ہی میں تعینات کیے جانے والے امریکی سفیر کو حکومت کی جانب سے ناپسندیدہ شخصیت قرار دیئے جانے کا مطالبہ بھی کیا۔ واضح رہے کہ رواں ماہ چار مارچ کو امریکی سینیٹ نے ڈونلڈ بلوم کی پاکستان میں بطور سفیر تعیناتی کی منظوری دی تھی جنہوں نے رواں ماہ ہی پاکستان میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں۔
آج صبح جے یو آئی ف کے کارکنوں کو شخصی ضمانت پر رہا کردیاگیا ہے جس پر وفاقی وزیرطلاعات فوادچوہدری نے دعویٰ کیا ہے کہ جمیعت کے غنڈوں نے کان پکڑ کر معافی مانگ لی جس پر انہیں چھوڑدیا گیا۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں وفاقی وزیراطلاعات نے کہا کہ جمیعت کے غنڈوں نے کان پکڑ کر معافی مانگ لی اورنکل گئے(نہیں چھوڑنے چاہئیں تھے) ۔ فواد چوہدری نے مزید کہا کہ اس واقعے سے جعلی دانشور ایک بار پھر ظاہر ہو گئےجو بغض عمران میں جتھوں کی بھی حمائیت سے باز نہیں آئے، اپوزیشن اور میڈیا میں ان کے حمائیتی ایک مخصوص مافیا کا حصہ ہیں جو اپنے مفادات کے کیلئے اکٹھے ہیں شہباز گل کا کہنا تھا کہ فضل الرحمن صاحب رات بھر ادھر ادھر فون کرتے رہے معافیاں مانگتے رہے کہ میرے بندے چھڑوا دیں میری کچھ عزت رہ جائے گی۔ پھر اپنے بندوں سے معافی منگوائی۔ شہباز گل کا مزید کہنا تھا کہ ایک ہی رات میں سارا بخار اتر گیا۔ اصلولاً انہیں چھوڑنا نہیں چاہئے تھا لیکن ہم انہیں اس بہانے سیاسی میدان سے بھاگنے نہیں دینا چاہتے
گزشتہ روز بلاول بھٹو زرداری نے اسلام آباد ڈی چوک پر لانگ مارچ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں اسلام آباد کو ہلارہا ہوں۔ خطاب کرتے ہوئے بلاول کی زبان پھسل گئی اور بلاول نے نے " اسلام آباد میں ٹانگیں کانپ رہی ہیں " کی بجائے "اسلام آباد میں کانپیں ٹانگ رہی ہیں "کہہ دیا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی ۔ اس ویڈیو پر سوشل میڈیا صارفین نے دلچسپ تبصرے کئے جس کے بعد #کانپیں_ٹانگ_رہی_ہیں ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ بلاول کے اس بیان کا سوشل میڈیا صارفین نے خوب مذاق اڑایا اور کہا کہ بلاول نے بارش آتا ہے تو پانی آتا ہے کے بعد نیا شاہکار پیش کردیا کہ اسلام آباد میں کانپیں ٹانگ رہی ہیں۔ شہزاد مقصود نے تبصرہ کیا کہ بارش آتا ہے تو پانی آتا ہے کے بعد بلاول زرداری کی جانب سے پیش خدمت ہے "اسلام آباد میں کانپیں ٹانگ رہی ہیں"۔ فرزانہ نے تبصرہ کیا کہ 10 دنوں سے چلتاہوا مارچ جب Dچوک پہنچا تو 5ہزار لوگ جمع نہیں ہوسکے، سندھ سرکار نےکروڑوں روپے بلاول کی 585ویں لانچنگ پر ضائع کردئے۔ اسلام آباد میں معمول کی ٹریفک اور معاملات زندگی چل رہےہیں۔ ان حالات میں پیپلزپارٹی کی واقعی کانپیں ٹانگ رہی ہوں گی۔ سوشل میڈیا صارف کا کہنا تھا کہ ایک ٹانگ مارکر حکومت گرانے کا دعویٰ کرنیوالے بلاول کی اپنی کانپیں ٹانگ رہی ہیں۔ بلاول نے اس پر شاعرانہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ تمھارا نام لکھنے کی اجازت چھن گئی جب سے ۔ بلاول لفظ لکھتا ھوں تو "کانپیں ٹانگ" جاتی ہیں ۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے بھولا ڈھول والا کا ایک کلپ شئیر کیا اور کہا کہ بلاول۔کانپیں ٹانگ رہی ہیں"نے سخاوت ناز کے آلے آنڈو کو سکست سے دوچار کر دیا ملیحہ ہاشمی نے اسے خطرناک اعلان قرار دیا دیگر سوشل میڈیا صارفین نے بھی اس پر دلچسپ تبصرے کئے
میانوالی کے محلہ نورپورہ میں شاہزیب نامی سفاک باپ نے غصے میں آکر اپنی 7 دن کی معصوم بچی کو فائرنگ کرکے صرف اسلئے قتل کردیا کیونکہ اسکی خواہش تھی کہ بیٹا ہو ظالم باپ شاہزیب بیٹے کا خواہشمند تھا اور اس نے اپنی بیٹی کو اس موقع پر قتل کیا جب اسکے گھر رشتہ دار بیٹی کی پیدائش کی مبارکباد دینے آئے تھے۔ ملزم نے اپنی معصوم بچی کو 5 گولیاں ماریں اور فرار ہوگیا۔ اس واقعہ پر معروف صحافی حامد میر نے ٹویٹ کیا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں عورتوں کو اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر مارچ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں وہ بتائیں کہ اس سات دن کی بچی کو اسکے اپنے ہی باپ نے میانوالی میں تین گولیاں مار کر کیوں قتل کر دیا؟ حامد میر کا مزید کہنا تھا کہ بیٹوں کے شوقین مردوں کے اس معاشرے میں عورتیں مارچ نہ کریں تو پھر کیا کریں؟ حامد میر اس واقعہ پر بھی سیاست چمکاتے رہے اورانہوں نے حامد میر کے ٹویٹ کو قوٹ کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ ریاست مدینہ میں اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں بیٹیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا ۔ خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ آج ریاست مدینہ کی باتیں کرنے والے کے اپنے گھر میانوالی میں نو مولود بیٹی کو گولی مار دی جاتی ھے. بیٹی کے رشتے کے تقدس کے لئیے ریاست مدینہ کی بات کرنے والے مثال تو قائم کریں۔ خواجہ آصف کے اس ٹویٹ پر سوشل میڈیا صارفین نے انہیں کھری کھری سنادیں اور کہا کہ آپکے ٹویٹ سے آپکی ذہنیت واضح ہورہی ہے۔ اگر میانوالی میں ہونیوالے اس واقعے کا ذمہ دار عمران خان ہے تو کیا کیا سیالکوٹ موٹروے، 2 بھائیوں کا قتل، سری لنکن منیجر کا قتل بھی آپکے کھاتے میں ڈال دیں؟ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ انسان کو کسی کی مخالفت اور اپنی سیاست چمکانے کیلئے اتنا بھی گرنا نہیں چاہئے۔ سید افتخار نے خواجہ آصف کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ آپکے شہر سیالکوٹ میں کیا کیا واقعات ھوئے کیا اسکے زمہ دار آپ ھیں؟ سری لنکن مینجر کے قاتل آپ ہیں۔ شاہد بلال نے کہا کہ اسکا مطلب ہے جس بندے نے سیالکوٹ موٹر وے پر ریپ کیا تھا اسکا گناہ بھی آپکے کھاتے ڈال دیا جائے؟؟ عمران دشمنی میں اپ جیسے زیرک بندے سے اس طرح کی گھٹیا اور سستی ٹویٹ کی ھرگز امید نہی تھی ایک خاتون نے خواجہ آصف کو جواب دیا کہ افسوس آپ کی سوچ پر۔ غلیظ ذہنیت پر۔ احسن نے خواجہ آصف کو جواب دیا کہ سیالکوٹ میں دو ایسے واقعات ہوئے ہیں جن سے انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا۔ ایک حافظ قران بھائیوں اور دوسرا سری لنکن شہری کی موت۔ لیکن کسی نے آپ کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا کہ آپ نے اپنے ووٹر کی کیسی تربیت کی۔ تنقید کرنا بہت آسان ہے لیکن مثبت تنقید بہت مشکل۔
وزیراعظم عمران خان کی اپنی تقریر میں امریکہ اور یورپی یونین پر تنقید ۔۔مختلف صحافیوں کا ردعمل۔۔بعض صحافیوں کو وزیراعظم عمران خان کو ایسی باتیں نہ کرنے کامشورہ۔۔ وزیراعظم عمران خان کو امریکہ اور یورپی یونین سے تعلقات کے فوائد گنواتے رہے۔ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز میلسی میں جلسہ عام سے خطاب کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کے سفیر نے پاکستان کو خط لکھا کہ روس کے خلاف بیان دیں، میں یورپی یونین کے سفیروں سے پوچھتا ہوں کہ وہ بتائیں کہ کیا آپ نے جو خط ہمیں لکھا ہے کیا آپ نے وہ بھارت کو بھی لکھا؟ ان کا کہنا تھا کہ کیا ہم غلام ہیں کہ جو آپ کہیں ہم وہ کریں، نیٹو کا ساتھ دینے پر ہم نے 80 ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دی، یورپی یونین کے سفیر بتائیں کہ ہم نے آپ کی مدد کی کیا آپ نے ہمارا شکریہ ادا کیا؟ عمران خان نے کہا کہ تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی ملک کسی کے لیے جنگ لڑے اور اس پر وہی ملک ڈرون بمباری شروع کردے جس میں بے گناہ اور معصوم جانیں ضائع ہوں، اس وقت کے حکمرانوں کو شرم نہیں آئی کہ پاکستانی مررہے ہیں وہ کیوں خاموش رہے؟ وہ دو ڈاکو اس لیے نہیں بول رہے تھے کہ ان کا پیسہ باہر کے ملکوں میں موجود تھا۔ انہوں ںے کہا کہ ہمارے چین، امریکا، روس سمیت سب سے اچھے تعلقات ہیں اور ہم کسی بھی ملک کے کیمپ میں نہیں، ہم جنگ میں کسی کا ساتھ نہیں دیں گے اور امن میں سب کے ساتھ ہیں اور کوشش کریں گے کہ یوکرین جنگ بند ہوجائے۔ وزیراعظم عمران خان کے اس بیان پر عادل شاہزیب نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ وزیراعظم صاحب امور خارجہ کو جلسوں سے دوررکھیں، اپوزیشن کو لتاڑتے رہیں لیکن ممالک کو پبلک جلسوں میں لتاڑنے سے پاکستان کو دلدل میں مزید نہ دھنسائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بطور وزیراعظم آپکی ایسی تقاریر ناقابل تلافی نقصان پہنچائیں گی۔اسوقت ہمیں تحمل سے خارجہ پالیسی کو آگے بڑھانا ہے نہ کہ جلسوں میں لتاڑ کر اس پر ڈاکٹر ارسلان خالد نے جواب دیا کہ یورپی یونین نے اپنی ڈیمانڈ پریس ریلیز میں جاری کی ،صرف سفارت خانے کو نہیں دیی۔ اب اگر عوام کے سامنے جواب دیا ہے تو صحیح کیا ہے ڈاکٹر ارسلان خالد کا کہنا تھا کہ آپ اپنی فہم وفراست یورپی یونین کو سکھائیں کہ اپنے خدشات وزارت خارجہ سے ملاقاتوں میں کیا کریں نہ کہ پریس ریلیز میں ورنہ جواب عوام کے سامنے ہی آئے گا مظہر عباس نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ مجھے معلوم نہیں ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے آج اپنی تقریر کے دوران یورپی یونین اور نیٹو پر حملے کے بعد ممکنہ نتائج کیا ہوں گے لیکن یہ جرات مندانہ اور جارحانہ ضرور تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ اب وہ امریکہ اور یورپی یونین مخالف کارڈ کھیلیں گے۔ ایکسپریس کے صحافی کامران یوسف کا کہنا تھا کہ امریکی پالیسیوں کے خلاف عمران خان کی کھلے عام تنقید میرٹ پر ہو سکتی ہے لیکن یورپی یونین کا مقابلہ کرنا بالکل بھی مناسب حکمت عملی نہیں ہے۔ کامران یوسف کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ کے برعکس، یورپی یونین نے کبھی زبردستی کا رویہ استعمال نہیں کیا بلکہ وہ اکثر پاکستان کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمیں یورپی یونین کی طرف سے جی ایس پی پلس سٹیٹس دیا گیا ہے۔ صحافی مبشرزیدی نے تبصرہ کیا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب کے خلاف وزیر اعظم خان کا بیان ان پاکستانیوں کو حوصلہ بخشے گا جو مغرب کے پاکستان کے بارے میں بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ جس طرح کرپشن سے تنگ پاکستانی انکی کرپشن مخالف گفتگو سے پرجوش ہیں۔لیکن انکے دونوں بیانیوں میں کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ جیو کے صحافی فخردرانی نے تبصرہ کیا کہ آج خان نے مغربی ممالک بارےکہاکہ ہم آپکوجوابدہ نہیں۔اچھی بات۔ایک آزاد ملک کےحکمران کو ایسا ہی ہوناچاہیے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہےکہ حکمراں جماعت کوسب سےزیادہ چندہ انہی مغربی ممالک سےآتا۔اورانہی چندہ دینےوالےاوورسیزپاکستانیوں یعنی(امریکی، برطانوی شہریوں)کو ووٹ کاحق بھی دےدیا۔دوہرامعیار؟ مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ پہلے آئی ایم ایف سے معاہدے والے منی بجٹ کے برخلاف ٹیکس چھوٹ اور پیٹرول و بجلی کی کم قیمتوں والے بجٹ کا اعلان کیا اور اب آئی ایم ایف بورڈ کے اراکین امریکی اور یورپی ممالک کو للکار دیا، لگتا ہے خان صاحب بنٹوں (marbles)کے کھیل میں ہارنے پر “کھتی” (Ditch) میں کچھ کر کے بھاگ جائینگے۔ معید پیرزادہ کا کہنا تھا کہ اگرچہ عمران خان نے صرف ایک اصولی نکتہ اٹھایا ہے اور یورپی یونین کے سفیروں کو سفارتی آداب کی یاد دہانی کرائی ہے (جس کی انہوں نے خلاف ورزی کی ہے) اس سے امریکہ/مغرب کو نواز کی قیادت والی "حکومت کا تختہ الٹنے" مہم کی حمایت دوگنا کرنے پر مزید زور دیا جائے گا! معید پیرزادہ نے مزید کہا کہ کہ مولانافضل الرحمان اس پر بہت خوش ہوں گے! بعض صحافیوں کی جانب سے تنقید پر خاور گھمن نے تبصرہ کیا کہ عمران خان کہتا یے ہم نے کسی جنگ کا حصہ نہیں بننا کیونکہ اس سے لوگ مرتے ہیں اور تباہی آتی ہے۔ سستے دانشور کہتے ہیں۔ایسی باتیں بھلا جلسوں میں کرنے والی ہوتی ہیں۔ صحافی ارشد شریف کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے جلسے میں یورپی یونین کے بیان سے ان تمام صحافیوں، سیاستدانوں، جرنیلوں، بزنس مین ے تن بدن میں آگ لگادی جن کے بچے، جائدادیں، کاروبار یا اثاثے امریکہ، برطانیہ یا یورپی ممالک میں ہیں! صحافی اطہر کاظمی نے تبصرہ کیا کہ سفارتی اداب کی خلاف ورزی وہ کریں،پریس ریلیز جاری کرکےعوامی دباؤ ڈالیں،مغربی عوام کو یہ تاثر دیں کہ پاکستان ظالم کےساتھ ہے،لیکن ہم حقیقت بھی بیان نہ کریں یہ کونسی سائنس ہےجو دانشور ہمیں سمجھا رہےہیں۔وزیراعظم کی تنقیدوہ تو براشت کرلیں گےلیکن مغرب کی شان میں گستاخی ان کو برداشت نہیں فہیم اختر نے تبصرہ کیا کہ وزیر اعظم کی تقریر سے تاثر ابھرا ہے کہ روس کی یوکرائن کے خلاف مخالفت نہ کرنے پر غیر ملکی قوتیں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا رہی ہیں جن کو 2008 سے 2018 تک ڈرون حملوں کو کھلی چھٹی حاصل تھی جمیل فاروقی کا کہنا تھا کہ اسے کہتے ہیں کہ سیدھی سادی فارن پالیسی صحافی عمر جٹ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کی تقریر نے سارے بزدل ایک پیج پر کر دیے۔۔
سلیم صافی نے ایک ٹویٹ کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ عمران خان باربارصحافیوں پرپیسے لینےکا الزام لگاتے ہیں۔آج قوم سےخطاب کےدوران ایک بارپھر دھرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ سب ایجنسیاں انکےماتحت ہیں توہمت کرکےآج ہی تفصیل جاری کردیں کہ کس صحافی نےکس پارٹی'کس ایجنسی'کس حکومت یاکس سفارتخانےسےکیالیا؟۔ سلیم صافی نے آفر کی کہ بیشک آغاز مجھ سےکرلیں یاپھرپوری میڈیا کو بدنام کرناچھوڑ دیں۔ سلیم صافی کے اس ٹویٹ پر شہباز گل نےسلیم صافی کی ماضی ایک ویڈیو شئیر کی جس کا کیپشن تھا کہ بلاتبصرہ۔۔ اس کلپ میں سلیم صافی نے نوازشریف پر لفافہ کلچر، صحافیوں کو نوازنے، صحافت کو آلودہ کرنے کے الزامات لگائے تھے۔ اس کلپ میں سلیم صافی کہتے ہیں کہ صحافت کو ن لیگ نے آلودہ کیا ہے، صحافیوں کو رشوتیں دینے کا، صحافیوں کو عہدے دینے کے کلچر میں نوازشریف نے بہت کنٹریبیوٹ کیا ہے، سلیم صافی کے مطابق صحافت سب سے زیادہ نوازشریف دور میں بدنام ہوئی ہے۔ نوازشریف اسلئے بھی ذمہ دار ہیں کیونکہ اسکی حکومت میں یہ سب ہوتا رہا۔ایک دوسرے سے لڑاتے رہے، صحافیوں کو عہدے دئے، انہیں نوازا، کسی کو کیا بنادیا، کسی کو کیا بنادیا۔ وہ اس گناہ میں سب سے زیادہ حصے دار ہیں۔ ڈاکٹر شہبازگل کے کلپ شئیر کرنے پر سلیم صافی نے سخت ردعمل دیا اور شہباز گل کو بدزبان ترجمان قرار دیدیا۔ سلیم صافی کا کہنا تھا کہ عمران خان کےایک بدزبان ترجمان نےمیری ایک آڈیوکلپ ٹویٹ کی ہےجس میں میں نےماضی میں نوازشریف کےمیڈیاسےمتعلق غلط رویےکا ذکر کیا ہے ۔انہوں ںے اسے خان کی بات کےلئےبطورثبوت پیش کیاہےحالانکہ اس سےانکی بات کی نفی ہوتی ہے۔ سلیم صافی نے دعویٰ کیا کہ میڈیا کودبانےاورخریدنےہرحوالےسے خان،نوازشریف سےسوگنا آگےنکل گئے ہیں۔
پیٹرول سستا ہونے سے مہنگائی اور بڑھے گی۔ نجم سیٹھی کے دعوے پر سوشل میڈیا صارفین کےد لچسپ تبصرے۔ سوشل میڈیا پر نجی چینل کے صحافی نجم سیٹھی کا ایک کلپ وائرل ہورہا ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان نے عوام کو جو ریلیف دیا ہے، اس سے لوگوں کی بچت ہو گی اور وہ زیادہ پیسہ خرچ کریں گے، جس سے مہنگائی ہو جاۓ گی۔ نجم سیٹھی نے مزید کہا کہ اس سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھے گا اور روپیہ اور کمزور ہوگا۔ اس پر سوشل میڈیا صارفین نےدلچسپ تبصرے کئے کسی نے کہا کہ نجم سیٹھی کو دونوں ہاتھوں سے سلام ہے ایسی منطق ڈھونڈ لائے ہیں تو کسی نے کہا کہ نجم سیٹھی کا ذہنی توازن خراب ہوگیا ہے سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ نجم سیٹھی عمران خان کےاعلان سے بہت بوکھلاگیا ہے، بعض کا کہنا تھا کہ نجم سیٹھی جیسے صحافیوں نے مسخرہ پن کرکے باقی صحافیوں کو بھی مذاق بنادیا ہے تو کسی نے کہا کہ نجم سیٹھی کی مت ماری گئی ہے کہ اس نے کیسے مخالفت کرنی ہے۔ ڈاکٹر شہبازگل نے تبصرہ کیا کہ سستی ہے تو موصوف کی دانشوری شریف مافیاز ایسے انوسٹ کرتاہے کسی کو چئیرمینPCB، پیمرا،PTV لگایا قوم کامال کھلایا اور پھر ان سے حلال کروایا پٹرول کی قیمت میں کمی نے مزیدایکسپوز کیا انہیں وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے جواب دیا کہ ان کو سن کو ایسا لگا جیسے پاکستانیوں کو ہمیشہ غلام دیکھنا چاہتے ہیں۰ ڈاکٹرارسلان خالد نے ویڈیو شئیر کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ پیٹرول اور بجلی سستی کرنے سے لوگوں کی قوت خرید بڑھے گی جس سے مہنگائی ہوگی ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دو روز قبل وزیراعظم کے خطاب نے ان سب کی ایسی حالت کر دی ہے کہ اس دفعہ تو بیانیہ بھی ایک نہیں رکھ سکے اینکر عمران خان نے اس پر تبصرہ کیا کہ ریلیف سے بچت۔۔بچت سے خرچہ۔۔خرچے سے مہنگائی۔۔ کوئی چج دی چول تے مارو جناب "اچھے خاصے لوگ تھے دیوانے ہو گئے" صدیق جان نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ہاہاہاہا ہاہا کمال یار کمال..قسم سے نجم سیٹھی سے سنیئے، عمران خان نے جو ریلیف دیا، اس سے لوگوں کی بچت ہوگی، جب بچت ہوگی تو وہ وہ پیسہ خرچ کریں گے اور مہنگائی ہوگی۔ سماء کی صحافی ارم زعیم کا کہنا تھا کہ نجم سیٹھی کے اس ریسرچ تھیسیس پر بلوم برگ اور IMF کی ٹیمیں سر جوڑ کر بیٹھ گئی ہیں کہ سیٹھی صاحب کو صدر IMF بنایا جائے میر محمد علی خان نے طنز کیا کہ پیوٹن آپ کا نیا وزیرِ خزانہ حاظر ہے۔ انجینئر نوید نے تبصرہ کیا کہ مُفکرِ اعظم ، عظیم صحافی ، نابغۂ روزگار تجزیہ نگار نجم سیٹھی جہانگیراسلم کا کہنا تھا کہ ان صاحبان کو سلام جو سامنے بیٹھ کر نجم سیٹھی 'جاوید چوہدری 'مبشر لقمان جیسے اینکر سنتے ہیں دیگر سوشل میڈیا صارفین نے بھی نجم سیٹھی کے اس بیان پر دلچسپ تبصرے کئے اور نجم سیٹھی کو بغض عمران کا شکار قرار دیا۔بعض کا کہنا تھا کہ نجم سیٹھی ذہنی طور پر مفلوج ہوچکا ہے، کیا حالت کردی ہے عمران خان نے ان بیچاروں کی۔
دو روز قبل وزیراعظم عمران خان نے اپنے قوم سے خطاب میں پٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں 10 روپے فی لیٹر کمی اور بجلی کی قیمتوں میں 5 روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کیا جس پر پاکستان کے ایک بڑے طبقے نے وزیراعظم عمران خان کے ان اعلانات کو سراہا لیکن اس اپوزیشن اور حکومت مخالف تجزیہ کار جو کچھ دن پہلے عمران خان کو پٹرول ، ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے پر کوس رہی تھی ، وزیراعظم کے اس اعلان کو غلط قرار دیا اور کہا کہ وزیراعظم کے اس اعلان سے تجارتی خسارہ، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھے گا۔ جب عالمی سطح پر پٹرول کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں تو حکومت کیوں کم کررہی ہے؟ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے اس اعلان سے آنیوالی حکومت کیلئے مشکلات پیدا ہوں گی جبکہ محمد زبیر نے سوال کیا کہ اس سے جو خسارہ ہوگا وہ حکومت کیسے پورا کرے گی؟ طلال چوہدری اور دیگر لیگی رہنماؤں نے بھی وزیراعظم کو عوام کو ریلیف دینے پر تنقید کی اس پر تجزیہ کاروں نے سوال کیا کہ کچھ دن پہلے تو یہ رہنما اس بات پر تنقید کررہے تھے کہ عمران خان نے پٹرول بم گرادیا، پٹرول مہنگا کرنے سے مہنگائی ہوگی، اب کہہ رہے ہیں کہ عمران خان نے پٹرول سستا کیوں کیا۔ وزیراعظم عمران خان کے خطاب کے بعد عدیل وڑائچ نے تبصرہ کیا کہ اب کئی دانشور پریشان ہیں کہ عمران خان پیٹرول اور بجلی کی قیمتیں نہ بڑھا کر یہ خسارہ کہاں سے پورا کریں گے انکا مزید کہنا تھا کہ اندازہ کریں جب یہ بات حکومت سمجھاتی تھی تو تجزیہ کاروں کو سمجھ نہیں آتی تھی ، اب قیمتیں کم کرنے پر بھی پریشانی شروع ہو گئی ہے عدیل وڑائچ نے مزید کہا کہ عوامی ریلیف سے متعلق وزیر اعظم کے کل کے اعلان کے بعد کئی تجزیہ کار بہت پریشان ہیں، کیونکہ اگر اب تنقید کرینگے تو ماضی کی تنقید پر یو ٹرن لینا پڑے گا صدیق جان نے اس پر تبصرہ کیا کہ پاکستان کی 74 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اپوزیشن اور میڈیا یک زبان ہوکر پیٹرول سستا ہونے کی نہ صرف مخالفت کررہے ہیں بلکہ پیٹرول کی قیمتیں بڑھانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ صدیق جان کا مزید کہنا تھا کہ واہ عمران خان واہ ،کس مقام پر لے آئے ہیں آپ ان سب کو...... یہ صرف آپ ہی کر سکتے تھے. ہارون رشید نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب عمران خان بجلی، تیل مہنگا کرتے تھے تو کہتے تھے کیوں مہنگا کیا؟ اب کہہ رہے ہیں کہ اس سے آنیوالی حکومت کیلئے مشکلات پیدا ہوں گی۔ ہارون رشید نے مزید کہا کہ انکی دلیل کیسی ہے کہ پہلے 12 روپےبڑھا دیا، او خداکے بندو! پہلے 80 ڈالر فی بیرل پٹرول تھا۔ پٹرول 90 ڈالر سے اوپر تھا اسکے باوجود کم کردیا ہے، یہ ایک جرات مندانہ فیصلہ ہے۔ راناعظیم کا کہنا تھا کہ مجھے شاہد خاقان عباسی کی یہ بات سن کر مزا آیا کہ جو 10 روپے آپ کم کررہے ہیں اسکے پیسے کہاں سے پورے کریں گے۔ رانا عظیم نے مزید کہا کہ پہلے جب پٹرول مہنگا ہوتا تھا تو کہتے تھے کیوں مہنگا کیا؟ اب سستا کررہے ہیں تو کہتے ہیں کہ کیوں سستا کیا؟ صحافی محمد عمران نے تبصرہ کیا کہ وزیراعظم نے ریلیف پیکیج کا اعلان کرکے وڈے اینکروں کو سچ بتانے پر مجبور کردیا ۔ پہلے مہنگائی مہنگائی کا شور مچانے والے اب آئی ایم ایف کی شرائط اور عالمی مارکیٹ کے ریٹ گنوا رہے ہیں ۔۔ عاصم خان کا کہنا تھا کہ کل تک حکمران، ان کے پسندیدہ ٹیلیویژن چینلز اور اخبار نویس ملک میں بڑھتی افراط زر کی شرح، پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے فضائل بیان کر رہے تھے، گذشتہ رات سے حزب اختلاف اور ہمنوا قیمتوں میں کمی کے نقصانات پر نقصانات گنوائے جا رہے ہیں ذیشان اعوان نے تبصرہ کیا کہ جو اپوزیشن ابھی سے کہنا شروع ہوگئی ہے کہ مہنگائی ایک عالمی مسئلہ ہے تو سوچیں وہ حکومت میں آکر عوام کے ساتھ کیا کرے گی؟
ہتک عزت کیس، برطانوی عدالت میں صحافی ڈیوڈ روز نے ڈیلی میل اور اپنے متعلق جواب داخل کر دیا شہباز شریف اور ان کے داماد علی عمران پر برطانوی اخبار ڈیلی میل میں منی لانڈرنگ سے متعلق لگنے والے الزامات پر انہوں نے صحافی ڈیوڈ روز کے خلاف ہتک عزت کا کیس کیا تھا۔ اس کیس میں اب صحافی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس نے عدالت میں اپنے دفاع کیلئے جواب داخل کر دیا ہے۔ برطانوی صحافی ڈیوڈ روز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری ایک پیغام میں کہا کہ لگتا ہے ان پر جو شہباز شریف اور علی عمران کی جانب سے ہتک عزت کا کیس دائر کیا گیا ہے اس سے متعلق کچھ کنفیوژن ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں تمام شکوک و شبہات دور کرنے کیلئے بتادوں کہ اب ہم یہ کیس لڑ رہے ہیں اور اس کیلئے اپنے دفاع میں جواب داخل کر دیا ہے۔ ڈیوڈ روز نے مزید کہا کہ یہ سب کرنے میں ہمیں وقت لگا جس کی کچھ وجوہات تھیں جن میں سے ایک کورونا وبا تھی اور پھر ویسے بھی ان پر لگنے والے الزامات کی تفصیل بہت لمبی ہے اس کیلئے ہمیں بہت سے ثبوتوں اور دستاویز کو کھنگالنا اور ترتیب دینا تھا۔ برطانوی صحافی نے یہ بھی کہا کہ اب ان کی طرف سے لگائے گئے الزامات کو شہباز شریف اور علی عمران کی جانب سے غلط ثابت کرنے کی باری ہے اس لیے اب گیند ان کے کورٹ میں ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال میں مذکورہ کیس سے متعلق ہونے والی ایک سماعت کے دوران برطانوی عدالت نے ریمارکس دیئے تھے کہ ڈیلی میل میں چھپنے والے مضمون میں استعمال ہونے والے الفاظ شہباز شریف کی ہتک عزت کا باعث بنے۔ برطانوی عدالت کے جج جسٹس میتھیو نکلین نے کہا کہ مضمون میں کہا گیا منی لانڈرنگ ہوئی ہے، مضمون میں کہا گیا کہ متاثرین میں برطانوی ٹیکس دہندگان بھی شامل ہیں، مضمون میں کہا گیا کہ شہبازشریف اورعلی عمران کرپشن سے مستفید ہوئے، مضمون میں کہا گیا کہ شہبازشریف منی لانڈرنگ سے بھی مستفید ہوئے، مضمون میں شہبازشریف کو یوکے ڈیفڈ کا پوسٹربوائے کہا گیا۔ جبکہ اسی سماعت کے دوران ڈیلی میل کے وکلا نے کہا کہ شہباز شریف کے خلاف کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات بہت محدود اور مفروضوں پر مبنی تھے، شہبازشریف لاہور میں محل جیسے گھرمیں رہتے ہیں۔ وکلا نے تسلیم کیا کہ شہباز شریف پر منی لانڈرنگ کا کوئی الزام نہیں۔ ڈیلی میل کے وکلا نے سابق مشیر احتساب شہزاد اکبر کے بیان کا حوالہ بھی دیا تھا کہ منی لانڈرنگ کی تحقیقات کا آغاز ہو چکا ہے، شہزاد اکبر کے مطابق فنڈز سے غبن کی گئی رقم برآمد بھی کی گئی، غبن کے پیچھے کون ہے، پاکستان میں تفتیش اگلے مرحلے میں پہنچ چکی ہے، ہماری معلومات محدود ہیں۔
خبر کے جھوٹا ثابت ہونے پر اینکر کی وضاحت دینے اور تحقیقات کرنے کی یقین دہانی نجی ٹی وی چینل ہم نیوز سے منسلک اینکر پرسن سید ثمر عباس نے اپنے پروگرام میں ایک خبر دی جس میں دعویٰ کیا کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کی باہمی ناراضگی کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وزیراعظم نے جہانگیر ترین کی اہلیہ کی گرفتاری اور تحقیقات کا بھی حکم دیا تھا۔ پروگرام کا مذکورہ کلپ شیئر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے انہیں تحریک انصاف کی ایک سینئر شخصیت نے کہا تھا کہ دونوں یعنی وزیراعظم اور جہانگیر ترین کے مابین تعلقات کی خرابی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ عمران خان نے اداروں کو حکم دیا تھا کہ جہانگیر ترین کی اہلیہ کو بھی گرفتار کر کے تحقیقات مکمل کی جائیں۔ تاہم اس خبر سے متعلق وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے وضاحت آئی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ایسی کو ہدایات یا احکامات نہیں دیئے گئے تھے۔ سید ثمر عباس نے جب پروگرام میں اس متعلق دعویٰ کیا تو تجزیہ کار نذیر لغاری نے بھی اس بات پر مثبت جواب دیا اور کہا کہ مجھے علم ہے۔ تاہم اب وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے وضاحت آنے پر اینکر پرسن نے ٹوئٹ کیا ہے کہ جہاں خبر دینا ہماری ذمہ داری ہے وہاں اس پر وضاحت دینا بھی میں اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ وزیراعظم کی جانب سے تردید کے بعد میں اس کی مزید تحقیقات کروں گا تاکہ مکمل سچ سامنے آ سکے۔ لیکن اس یقین دہانی پر اینکر پرسن کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور صارفین کا کہنا ہے کہ اگر وہ پہلے ہی تھوڑی تحقیق کر کے اور تصدیق کرنے کے بعد ایسی خبر دیتے تو اب اس شرمندگی سے بچ سکتے تھے۔
معاون خصوصی شہباز گل نے ڈان نیوز سے منسلک صحافی عباس ناصر کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے بغض، نفرت اور ظرف کا علاج کرائیں۔ تفصیلات کے مطابق بھارتی فوج کے سابق کرنل پروین سواہنی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ کیا جس میں انہوں نے پاکستان کی قسمت پر رشک کرتے ہوئے کہا کہ "پاکستان اس حوالے سے خوش قمست ہے کہ ان کے پاس ایک تعلیم یافتہ، متوازن اور پُرجوش وزیراعظم ہے"۔ اس ٹوئٹ پر پروین سواہنی کے اس خیال کا مذاق اڑاتے ہوئے عباس ناصر نے Lol لکھا جو کہ سوشل میڈیا کی زبان میں کسی ہنسی والی بات کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی وہ پروین سوہنی کی بات کا مذاق اڑاتے ہوئے اس سے غیر متفق ہیں اس لیے ان کی ہنسی چھوٹ رہی ہے۔ عباس ناصر کے اس رویے پر معاون خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہبازگل نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا کہ پاکستان کے وزیراعظم کی بات ہو رہی ہے، پاکستان کے وزیراعظم کی، آپ کے میرے ہم سب کے پاکستان کے وزیراعظم کی۔ انہوں نے سوال اٹھا کہ پاکستان کی تعریف آپ سے برداشت نہ ہونا کچھ سمجھ سے باہر نہیں؟ اس کے ساتھ ہی شہباز گل نے عباس ناصر کو مشورہ دیا کہ کوئی علاج کروا لیں اس بغض نفرت اور ظرف کا۔
گزشتہ روز ماسکو میں وزیراعظم عمران خان نے دوسری جنگ عظیم کے فوجیوں کی یادگار پرحاضری دی اورگلدستہ رکھا۔ اس موقع پرپاکستان کا قومی ترانہ بھی بجایاگیا۔وزیراعظم کے ہمراہ کابینہ کے اراکین بھی تھے۔روسی فوج کی جانب سے سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ فوجی دستے نے مارچ پاسٹ کرتے ہوئے وزیراعظم کو گارڈ آف آنر بھی دیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان کی جنگ عظیم دوم کے فوجیوں کی یادگار پرحاضری کی ویڈیو شئیر کرتے وہئے کامران خان نے دعویٰ کیا کہ عمران خان جن فوجیوں کی یادگار پر پھول چڑھارہے ہیں انکے ہاتھ افغانوں کے خون سے رنگے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ یہ روس افغان جنگ سے بہت پہلے دوسری جنگ عظیم میں لڑتے ہوئے جان گنوابیٹھے تھے اور ان کا روس افغان جنگ سے کوئی واسطہ ہی نہیں تھا۔ کامران خان نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں وزیراعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ دنیا حیرت زدہ! عین اس وقت جب روسی افواج آزاد خود مختار ملک یوکرین پر دھاوا بول چکی تھیں معصومین کا بے دریغ قتل کررہی تھیں کامران خان نے مزید کہا کہ ہمارے وزیر اعظم بمعہ کابینہ روسی فوج کو غیر معمولی خراج عقیدت میں انکی یادگار پر پھول چڑھا رہے تھے وہی فوج جس کے ہاتھ ہزاروں افغانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اس پر سوشل میڈیا صارفین نے کامران خان کو جواب دیا کہ یہ دوسری جنگ عظیم کے گمنام سپاہیوں کی یادگار ہے، افغان جنگ کے نہیں۔سوشل میڈیا صارفین نے مزید کہا کہ ایک صحافی جو اپنے آپکو بڑا صحافی کہتا ہے اس نے دو تاریخی واقعات کو ملاکر عجیب وغریب نتیجہ برآمد کرنیکی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان صاحب کوبھی ہمارے ہاں انویسٹی گیٹیو جرنلسٹ کہا جاتاہے۔ ان کو یہ تک نہیں پتہ،کہ یہ یادگار دوسری جنگ عظیم کی ہے یا افغان وار کی۔ عدیل راجہ نے کامران خان کو جواب دیا کہ یہ دوسری جنگ عظیم کے گمنام سپاہیوں کی یادگار ہے۔۔ افغان جنگ کی نہیں۔۔ اے عظیم دانشور! صبغت اللہ ورک نے کامران خان کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ حضور!دنیایوں حیران ہےکہ کیسےایک سینئرصاحبِ پروگرام محض اپنے”حسنِ کرشمہ ساز“سےتاریخ کےدو یکسرالگ واقعات کو باہم ملاکرنہایت عجیب وغریب نتیجہ برآمدکرنے کےخواہاں ہیں! انہون نے مزید کہا کہ جنابِ من!جن گمنام فوجیوں کی یادگارپر پھول رکھےگئےانکی نسبت دوسری عالمی جنگ سےہےجبکہ افغان جنگ اس سے40برس بعدکاواقعہ ہے عثمان بسرا نے کامران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ جناب کامران صاحب جب امریکہ بہادر ہمارے برادر اسلامی ملک افغانستان پہ حملہ آور تھا لاکھوں معصوم دیزی کٹر بمبوں کی کار پٹ حملوں سے شہید ہو رہے تھے ماوں کی کوکھ اجڑرہی تھی سہاگنوں کے سہاگ آپ تب تو کبھی حیرت زدہ نہ ہوئے نہ آپ نے کسی امریکی دورے پہ سوالُ اٹھایا نہ خون نظر آیا ؟اب کیوں منیر احمد نے تبصرہ کیا کہ خان بابا کو کیا ہوا؟ یہ اپنی زبان بول رہے ہیں یا ""انکی"" سیدفیاض علی کا کہنا تھا کہ اِس بندے نے 20 سال صحافت کے نام پر صرف جھک ہی ماری ہے۔ دوسری جنگ عظیم کی یادگار کا افغان وار سے کیا تعلق؟ اس امریکی ٹٹو کو بتاؤ کہ دوسری جنگ عظیم اور افغان وار میں 32 سال کا وقفہ ہے نعیم ضرار نے تبصرہ کیا کہ یہ حیرت ھے یا فراڈ؟ پچھلے 10 برسوں میں لاکھوں معصوموں کو روزانہ قتل کرنے والے امریکہ اور اُس کے بدمعاش اتحادی یورپی ممالک کے دورے تب بھی جائز تھے، آج بھی جائز ہیں؟ یہ کون سی دنیا ھے جو تب حیران نہیں تھی، مگر آج ھے؟ عرفان ڈوگر کا کہنا تھا کہ ویسے زیادتی ہے خان صاحب کو کسی حال میں تو جینے دیں ، مودی سرکار کو مناظرے کا بولے تو بھی مسئلہ ریڈ کارپٹ پر چلے تو بھی مسئلہ فون نہ اٹھانے کا شکوہ کرے تو بھی مسئلہ کسی کو ہاتھ ڈالے تو بھی مسئلہ اگر ہاتھ نہ ڈالے تو بھی مسئلہ،کسی کے ساتھ اتحاد کرے یا مخالفت کرے تو بھی مسئلہ نورآفریدی نے تبصرہ کیا کہ ان صاحب کوبھی ہمارے ہاں انویسٹی گیٹیو جرنلسٹ کہا جاتاہے۔ جن کو یہ تک نہیں پتہ،کہ یہ یادگار دوسری جنگ عظیم کی ہے یا افغان وار کی۔ امریکی نیویاک ٹائمز کیلئےلکھنے والوں سے روس سے پاکستان کی قربت کہاں ہضم ہوتی ہے؟ دیگر سوشل میڈیا صارفین نے بھی کامران خان کو نتقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جب امریکہ افغانستان میں بمباری کرکے بے گناہوں کو ماررہا تھا تب آپ کہاں تھے؟ آپ وہیں ہیں ناں جس نے اسرائیل کو تسلیم کرنیکی مہم چلائی تھی؟
روس کے صدر اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان ملاقات اس وقت دنیا بھر کے میڈیا کیلئے توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے ایسے میں مغرب کے کچھ خبررساں اداروں نے پراپیگنڈے کیلئے غیر اہم چیز کو موضوع بحث بنادیا ہے۔ تفصیلات کےمطابق جب سے دنیا بھر میں کورونا نے سر اٹھایا ہے تب سے روسی صدر نے دنیا بھر کی متعدد اہم شخصیات اور مختلف ملکوں کے حکمرانوں سے ملاقات کی جن میں مغربی ممالک کے حکمران بھی شامل تھے مگر ان ملاقاتوں میں سماجی فاصلے کو یقینی بنایا گیا۔ ان ملاقاتوں میں روسی صدر نے اپنے اور مہمان کے درمیان ایک بڑی سی میز حائل کردی اور مہمان کو خود سے کافی فاصلے پر بٹھایا، ان ملاقاتوں میں اتنے فاصلے سے متعلق روسی صدر وضاحت دیتا رہا کہ یہ فاصلہ کورونا وائرس کی ایس او پیز کے تحت رکھا گیا ہے۔ تاہم پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات کے دوران جو تصاویر میڈیا کو جاری کی گئی ہیں ان میں روسی صدر بغیر کسی فاصلے کی احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھے عمران خان مصافحہ کرتے اور قریب بیٹھ کر گفتگو کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ روسی صدر کی یہ قربت مغرب کے کچھ خبررساں اداروں کو بالکل نہیں بھائی اور انہوں نے اس معاملے پر منفی پراپیگنڈہ کرنا شروع کردیا ہے۔ ،سوشل میڈیا صارفین نے اس اقدام کو روس کی جانب سے پاکستان کو دی گئی غیرمعمولی اہمیت قرار دیدیا اور سوال کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پیوٹن نے عمران خان کیلئے سماجی فاصلہ تک کم کردیا۔ امریکی تجزیہ کار مائیکل کنگلیمن کا اس پر کہنا تھا کہ عمران خان پیر سے ہونیوالی ڈویلپمنٹ کے بعد پیوٹن سے ملنے والے پہلے عالمی رہنما نہیں ہوں گے۔آج آذربائیجان کے صدر بہت بڑے سائز کے ٹیبل پر بیٹھنے کے لیے ماسکو میں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یوکرین کے بارے میں پبلک میں کچھ نہیں کہا اور دو طرفہ تعلقات پر توجہ مرکوز کی۔ عمران خان سے بھی یہی توقع رکھی جاسکتی ہے۔ مختلف حلقوں کی جانب سے کورونا وائرس کے دوران ہونے والی روس کے صدر کی فرانسیس صدر ، ایرانی سپریم لیڈر اور دیگر سے ہونے والی ملاقاتوں کے تصاویر اور عمران خان کے ساتھ ملاقات کی تصاویر کو نشر کرکے موازنہ کیا جارہا ہے اور سوال اٹھایا جارہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات میں ایسی قربت کیوں؟ یہ بات بھی سوشل میڈیا اور مختلف سرکلز میں زبربحث ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور روسی صدر کے درمیان ایک گھنٹے کی ملاقات طے تھی لیکن اس ملاقات کا دورانیہ بڑھا دیا گیا اور یہ ملاقات تین گھنٹے میں ہوئی۔
وزیراعظم کے دورہ روس سے متعلق اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے سوشل میڈیا پر تنقید کے نشتر چلائے جا رہے ہیں۔اپوزیشن رہنماؤں اور مخصوص صحافیوں نے وزیراعظم کے دورہ روس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور وزیراعظم کے دورہ روس کو احمقانہ فیصلہ قرار دیا۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں کامران خان نے سوال اٹھایا کہ کیا روس پاکستان سے کئی دہائیوں پرانا حساب چکا رہا ہے؟لگتا ہے پیوٹن نے دانستہ عمران خان سے ملاقات کے لئے اس تاریخ دن کا انتخاب کیا جب انہیں یوکرین پر فوجی یلغار کر نی تھی اس قیامت خیز دن وزیر اعظم پاکستان پیوٹن کے شانہ بشانہ کھڑا تھا نیچے تصویر میں انگلی پیوٹن کو دکھانی چاہئیے کامران خان نے وزیراعظم عمران خان کو دورہ روس ادھورا چھوڑ کر واپس آنے کا مشورہ بھی دیا۔ اس پر معاون خصوصی شہباز گل، وفاقی وزیر فواد چوہدری اور اسد عمر نے ان کی تنقید کا بھرپور جواب دیتے ہوئے انہیں مغرب میں پیسہ چھپانے اور خارجہ پالیسی کو ماضی میں گروی رکھنے کے طعنے دیئے ہیں۔ معاون خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گل نے لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق کے ایک ٹوئٹ پر انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ لگتا ہے کہ آپکے پیسے بھی مغرب میں پڑے ہیں۔ جو آپکی جان ہی نکل گئی ہے۔ فکر نہ کریں اس وقت وزیراعظم عمران خان ہے جو فیصلے قومی مفاد میں کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپ کی طرح اپنے پیسے بچانے کی خاطر پاکستان کی خارجہ پالیسی کو گروی نہیں رکھے گا۔ آزاد خارجہ پالیسی ہوتی ہی اپنے ملک کے مفاد کے لئے ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ن لیگ پیپلز پارٹی اور کچھ میڈیا والے وزیراعظم کے روس کے دورے سے ایسے خوفزدہ ہیں کہ کسی نے ان کے جسم سے خون نکال لیا ہو مسئلہ صرف اتنا ہے کہ بھائیوں کا اتنا پیسہ مغرب میں ہے کہ سانس رکی ہوئی ہے فکر نہ کریں پاکستان کا مفاد تحریک انصاف کی سپریم پالیسی ہے اور رہے گا۔ جب کہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسدعمر نے کہا کہ پاکستان دہائیوں بعد ایک آزاد خارجہ پالیسی پر عملدرآمد کر رہا ہے، جس میں فیصلے پاکستان کی عوام کی بہتری کے لئے ہو رہے ہیں، حکمرانوں کے مفاد کے لئے نہیں. ایسے فیصلے وہی لیڈر کر سکتا ہے جس کو خوف صرف خدا سے ہو اور اس کی طاقت عوام کی سپورٹ ہو. یاد رہے کہ مسلم لیگ ن اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے روس کے یوکرین پر حملے کی مخالفت کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا ایسے وقت میں دورہ روس کے مؤقف کی حمایت کے مترادف ہے۔
کیا روس پاکستان سے کئی دہائیوں پرانا حساب چکا رہا ہے؟روسی صدر کے یوکرائن پر حملے کے اعلان اور وزیراعظم کےدورہ روس پر کامران خان کا تبصرہ اپنے ٹوئٹر پیغام میں کامران خان نے سوال اٹھایا کہ کیا روس پاکستان سے کئی دہائیوں پرانا حساب چکا رہا ہے؟ سینئر تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ لگتا ہے پیوٹن نے دانستہ عمران خان سے ملاقات کے لئے اس تاریخ دن کا انتخاب کیا جب انہیں یوکرین پر فوجی یلغار کر نی تھی اس قیامت خیز دن وزیر اعظم پاکستان پیوٹن کے شانہ بشانہ کھڑا تھا نیچے تصویر میں انگلی پیوٹن کو دکھانی چاہئیے کامران خان نے مزید کہا کہ نہ جانے اس حماقت آمیز دورے کے معمار کون تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ بہر حال اب وزیر اعظم کابینہ اراکین بھول جائیں ان بناوٹی/حقیقی تجارتی پاک روس معاہدوں کو آج دستخط ہونے تھے روس پر خطرناک عالمی پاببندیاں لگ چکی ہیں مزید لگنے جا رہی ہیں نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائین کو بھی بھول جائیں جلد گھر لوٹ آئیں۔ کامران خان کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کیلئےسبکی کا موقع ہوگا جب پاکستانی وزیراعظم اور روسی صدر مسکراہٹوں کا تبادلہ کررہے ہوں گے۔ انہوں نےو زیراعظم عمران خان کو مشورہ دیا کہ وہ فوری طور پر روس سے نکل جائیں
وزیراعظم عمران خان نے دورہ روس سے قبل آر ٹی کو دیئے جانے والے انٹرویو میں بھارتی ہم منصب نریندر مودی کے ساتھ براہ راست مباحثے کی خواہش کا اظہار کیا جس پر ابھی تک بھارت کی جانب سے تو کوئی باقاعدہ جواب نہیں بن پایا البتہ سوشل میڈیا صارفین نے بھی اس خواہش کا اظہار کرتے ہوئے اپنی اپنی رائے دے دی ہے۔ تفصیلات کے مطابق روسی نشریاتی ادارے کی میزبان کو انٹرویو کے دوران بھارت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے زور دیا کہ بھارت کو ہندوتوا کے بجائے انسانيت پر توجہ دينی چاہيے، پاکستان کی موجودہ حکومت اقتدارمیں آئی تو سب سے پہلےبھارت سےرابطہ کیا، وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ بھارت گاندھی اورنہرو کا نہیں بلکہ مودی کا ہے۔ اس بات پر میزبان کا کہنا تھا کہ نریندر مودی ان باتوں سے اتفاق نہیں کریں گے اور لیکن اگر وہ بھی اس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہیں تو ہم انہیں بھی نشرکریں گے۔ اس پر وزیراعظم نے ٹی وی پر بھارتی ہم منصب نریندرمودی کے ساتھ مباحثہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس پر عبدالباسط نامی صارف نے کہا کہ بھارتی جانتے ہیں ان کا وزیراعظم بات نہیں کرسکتا، جب سے وزیراعظم بنا ہے کوئی پریس کانفرنس نہیں کی، کانفیڈنس نہیں بیچارے کے پاس اور انگلش بھی خراب ہے۔ صارفین کی جانب سے سن 1971 کی جنگ یاد دلانے والوں کیلئے بھی تگڑا جواب دیا گیا ہے۔ بھارتی وزیراعظم کی جانب سے "ٹیلی پرامپٹر" سے تقاریرپڑھنا بھی زیربحث آیا۔ فیصل کھوکھر نے کہا کہ یقینا مودی میں وہ ہمت اور حوصلہ نہیں کہ عمران خان جیسے لیڈر کا سامنا کر سکے۔ اس پر معروف ٹی وی میزبان وقار ذکا نے بھی بات کی اور اس خیال کو بہترین قرار دیتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی کو اس مطالبے کیلئے ٹیگ کیا جانا چاہیے۔ ایک صارف نے اس موقع پر کہا کہ ایسا کوئی سربراہ مملکت تبھی کہہ سکتا ہے جب اس کا بھارت میں کوئی کاروبار نہ ہو۔

Back
Top