سوشل میڈیا کی خبریں

پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماؤں اوروفاقی وزراء نےعمران خان کی جانب سے خاتون مجسٹریٹ سے متعلق بیان پر سخت ردعمل دیدیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنی ایک تقریر کے دوران شہبا زگل کا دوبارہ جسمانی ریمانڈ دینے والی خاتون مجسٹریٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے آپ کو چھوڑنا نہیں ہے۔ عمران خان کے اس بیان پر ن لیگی رہنماؤں کی جانب سےسخت ردعمل آیا ہے،وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے اپنے بیان میں کہا کہ تاریخی حادثات اور قوم کی بدقسمتی کسی چھوٹےشخص کو بڑے عہدے پر فائز کردے تواس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ شخص بڑا ہوگیا ہے، ایسےشخص کی اوقات بہت کم بدلتی ہے، وزیراعظم رہنے والا یہ شخص اپنے محسنوں سے لے کرسرکاری افسران اورخواتین کو گالیاں اور دھمکیاں دیتا ہے۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ محمد آصف نے ٹویٹرپر جاری اپنے بیان میں کہا کہ بد زبان بے لگام فارن فنڈڈ عمران نیازی کی خاتون سیشن جج کو مجمع عام میں دھمکیاں انارکی اورتشدد کی ترغیب ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ملک کے ہرادارے کو تابع فرمان بنانا چاہتے ھیں عمران خود کو ہراحتساب اورقانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ خواجہ آصف نے خاتون جج کو کھلی دھمکیاں دینے پرعدالتی ایکشن کا مطالبہ بھی کیا۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ معاشی بحالی میں خلل ڈالنے کیلئے غیر ملکی فنڈڈ انارکی پھیلانے والوں کو شکست دیں گے اور ریاستی اداروں کے خلاف ہتھکنڈے استعمال کرنےوالوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے انشااللہ۔ احسن اقبال نےمزید کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی یقینی بنانا سپریم کورٹ کا فرض ہے۔
پیمرا نے عمران خان کی تقاریر پر پابندی عائد کردی۔ اپنے نوٹیفکیشن پیمرا کا کہنا تھا کہ کہ عمران خان اپنی تقریروں میں اداروں پر مسلسل بے بنیاد الزام تراشی کر رہے ہیں۔ پیمرا کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان اپنی تقریروں میں نفرت انگیزی پھیلا رہے ہیں، تقریروں میں مسلسل اداروں اور افسران کے خلاف اکسا رہے ہیں۔عمران خان امن عامہ کو خراب کر رہے ہیں۔عمران خان کے خطاب پیمرا قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہیں۔ پیمرا کے اس فیصلے پر مختلف صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کی طرف سے سخت ردعمل آیا۔ صھافی ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ عمران خان کی تقریر دکھانے پر پابندی قابلِ مذمت اور شرمناک،واقعی تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی کہ تاریخ سے کسی نے کچھ سبق نہ سیکھا۔۔ اینکر عمران خان ریاض نے کہا کہ باقیوں کو لوگ سنتے نہیں۔ اور جسے سنتے ہیں اس پر پابندی۔ میڈیا تو فارغ ہے پھر انہوں نے مزید کہا کہ اب کھل کر لڑائی شروع ہوئی ہے۔ افسوس ہے ویسے اپنی ضد اور انا کے چکر میں پاکستان کو کہاں سے کہاں لے آئے ہیں۔ صدیق جان نے عمران خان پر پابندی کی وجہ بتاتے ہوئے لکھا کہ آپ جانتے ہیں کہ عمران خان کے خطاب پر پابندی کیوں لگوائی گئی ہے؟ آج عمران خان نے بنی گالہ میں جو گفتگو کی ہے جوکہ کسی چینل پر نہیں آئی، اصل غصہ اس پر ہے، پانچ منٹ میں ملاقات کا مکمل احوال اور عمران خان کی مکمل گفتگو آپ کے ساتھ شیئر کرتا ہوں، اسی کا بدلہ لیا گیا ہے اے آروائی کے صحافی عبدالقادر نے تبصرہ کیا کہ تازہ حکم نامہ آزادی اظہار رائے کیلئے لڑنے والی آواز بھی خاموش کروانے کی کوشش ہے! عمران خان کو سننے اور دیکھنے والے 90 فیصد سے زائد اور باقیوں کو سننے والے 10 فیصد سے بھی کم ہیں! 35 وزیروں کو کون سنے گا؟ ریٹنگ میٹر گرے گا تو حکومت کے حامی میڈیا چینلز خود اس کے خلاف بولیں گے! سمیع ابراہیم کا کہنا تھا کہ عمران خان کی لائیو تقریر دیکھانے پر پابندی ایک غیر قانونی اور گھٹیا فیصلہ ھے یہ اس بات کا ثبوت ھے کی اب خان کو سیاسی طور پر روکنے کی تمام کوششیں ناکام ھو چکی ھیں دلائل ختم ھو چکے ھیں اب ڈنڈہ گھماتے ھوے آ گیے ھیں طاقت سے چپ کرانے ۔ مگر سن لو ایسا ھوے گا نہیں۔۔ عارف حمید بھٹی نے لکھا کہ عمران خان کی لائیو تقریر پر پابندی سمجھ سے باہر ہے ۔ ریکارڈ تقریر میں کیا دیکھانا ہے کیا نہیں اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ صحافی سید ذیشان حیدر نے تبصرہ کیا کہ ہر وہ پابندی جو نواز شریف پر لگی ہے وہی عمران خان پر لگائی جا رہی ہے اور مزید لگیں گی تا کہ ڈیل برابری کی ہو سکے۔ زین علی کا کہنا تھا کہ جس شخص کی ملک کے 80 فیصد حصے پر حکومت ہے اس پر 20 فیصد حکومت کرنے والوں نے پابندی لگا دی۔۔۔ علی ممتاز نے لکھا کہ گل ود گئی اے پر دیکھنا یہ ہے کہ آخر کب تک؟لوگوں کو ٹی وی پر عمران خان کی تقریر سننے کو نہ ملی تو اس کا بھی پی ٹی آئی کو فائدہ ہے لوگ پھر سب چھوڑ چھاڑ کے اور زیادہ جلسوں میں جائیں گے۔جلسوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گا۔پہلے کی طرح عمران خان کو ہی فائدہ پہچایا جائے گا۔ ثاقب ورک کا کہنا تھا کہ کچھ نادان صحافی بھی پیمرا کی جانب سے عمران خان پر پابندی پر بڑے خوش ہیں، کوئی ان سے پوچھے کہ ٹی وی پر عمران خان کے علاوہ چلتا ہی کیا ہے؟؟ ٹاک شوز، پریس کانفرنسز سب کا محور تو عمران خان ہے، اسکے بغیر صحافیوں کی نوکری اور میڈیا مالکان کا کاروبار ختم ہے !! رضوان غلیزئی نے لکھا کہ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عوام اب ویسےبھی ٹی وی نہیں دیکھتے۔ عمران خان کا راستہ روکنا ہےتو دس کروڑ موبائل فون بند کرنےپڑیں گےکیونکہ خان ڈیجیٹل میڈیا کےذریعےہر گھر میں داخل ہوچکا ہے۔ حکومت کی کسی عمران مخالف مہم کو عوام میں پذیرائی نہیں ملتی۔ یہی حقیقت ہے، یقین نہ آئےتو الیکشن کروا لیں۔ عثمان سعید بسرا نے لکھا کہ پیمرا نے عمران خان کی تقریر دکھانے پہ پابندی لگا دی جیسے پہلے تو سارے چینل جیسے عمران خان کو دکھا رہے تھے انشاللہ قوم کا بہادر لیڈر کل راولپنڈی میں بات کرے گا اور سوشل میڈیا پہ دھوم مچا دے گا آپ TV پہ اپنا جھوٹ بیچیں سچ جینلز کا محتاج نہیں سچ بہادری کا محتاج اور خان بہادر ہے عابدعندلیب کا کہنا تھا کہ عمران خان کی تقریر پر پابندی لگانا گھٹن اور حبس زدہ ماحول میں ایک اور اضافہ کر دیا آپ نے عمران خان کو لوگ فیس بک اور یوٹیوب سے سن لیں گے لیکن آپکا کیا ہوگا ؟ اوریا مقبول جان کا کہنا تھا کہ یہ جھوٹا تصور بھی اب ختم ہونا چاہیے کہ کارپوریٹ سرمائے پر چلنے والے بزدل چینلز کسی لیڈر کو مقبولُ بناتے ہیں ۔ پاپولر لیڈر ناقابل شکست ہوتا ہے ۔ قائدآعظم، شیخ مجیب الرحمان اور ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت کو کوئی پابندی ختم نہ کر سکی ۔ نفرت اور ذلت پابندی لگانے والوں نے سمیٹی بلاگر علی سلمان علوی نے تبصرہ کیا کہ سارا مسئلہ ہی یہ ہے کہ عمران خان نہ ان سے پوچھ کر بولتا ہے نہ ان کی مرضی سے چلتا ہے۔ اور ان کا تو برسوں سے وطیرہ ہی کٹھ پتلیاں نچانے کا، اپنی مرضی کے بول بلوانے کا ہے۔ اکبر نامی صارف نے لکھا کہ اتنی ایف آئی آریں کاٹ لی اتنی پابندیاں لگا دی بلیک آؤٹ کردئے 99 فیصد میڈیا پر مخالف مہم چلا دی توہین کارڈ غداری کارڈ کرپشن کارڈ فنڈنگ کارڈ سب کھیل لیا سپورٹرز کو دھمکا لیا اٹھا لیا ڈرا لیا چلو اب تو الیکشن کروا دو اب تو جیت ہی جاؤ گے ؟ صابر شاکر نے تبصرہ کیا کہ پیمرا کیطرف سے عمران خان کی براہ راست کوریج پر پابندی۔۔۔۔ #ARY پر نہیں تو کسی پر بھی نہیں
اسلام آبادپولیس کی جانب سے شیئر کی گئی مبینہ طور پر شہباز گل کی تازہ ترین ویڈیو اور تصاویر میں نظر آنے والے شخص کے حوالےسے صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے اہم سوالات اٹھادیئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد پولیس نے گرفتار ڈاکٹرشہباز گل کی کچھ تصاویراورویڈیوز جاری کی ہیں اوردعویٰ کیا ہےکہ ان کی تازہ ترین تصاویر اورویڈیوزہیں،ان مناظرمیں ڈاکٹرشہباز گل کی شکل کا ایک شخص ہسپتال کے ایک کمرے میں بالکل تندرست حالت میں بغیر کسی آکسیجن ماسک بیٹھے ، کھڑے اورچلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، ویڈیوزمیں دیکھا جاسکتاہے کہ وہ شخص کسی فائل کاجائزہ لیتے ہوئے اسلام آباد پولیس کے اہلکارسے گفتگو بھی کررہےہیں۔ تاہم سوشل میڈیا پر صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے اس شخص کو شہباز گل ماننے سے انکار کرتے ہوئے باقاعدہ دلائل دینا اور اسے ن لیگ کی چال قرار دینا شروع کردیا ہے۔ سینیٹر عون عباس بپی کا کہنا تھا کہ واہ جی واہ! اسلام آباد پولیس کے کرشمات۔۔ ایک ہی دن میں داڑھی بھی آگئی، سر کے بال بھی دوگنے ہوگئے اور نظر بھی ٹھیک ہوگئی۔ مجھے تو یہ ویڈیو ڈیپ فیک لگتی ہے؛ اگر اتنا ہی اچھا سلوک کیا جا رہا تو کسی سے ملاقات کروانے میں کیا حرج؟ انورلودھی نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات مریم اورنگزیب کومخاطب کیا اور کہا کہ آپ کی تحویل میں رہ کر شہباز گل اتنے صحت مند ہوگئےکہ ان کی نظر کی عینک اتر گئی اور ان کے بال بھی گھنے ہوگئے۔ عدیل حبیب نے تبصرہ کیا کہ ایک وٹس ایپ میسج کی مار یہ معتبر صحافی، جن میں سے کئی اسلام کا بھی سہارا لیتے ہیں، سمجھتے ہیں شاید لوگوں کو پتہ نہیں چلتا صحافی راجہ محسن اعجاز نے تبصرہ کیا کہ اب کیا بولیں گے شہباز گل پر تشدد کا الزام لگانے والے ؟؟ شہباز گل تو گرفتاری کے بعد بغیر عینک کے دیکھنا/پڑھنا بھی شروع ہو گئے ہیں بلاگر وقار ملک نے تبصرہ کیا کہ شہباز گل جو ہمیشہ عینک پہنتے ہیں وہ بغیر عینک کچھ پڑھے بغیر دستخط کر رہے ہیں واہ!! صحافی طارق متین نے انصار عباسی کےسوال کاجواب دیتے ہوئےکہا کہ آپ اپنی آنکھوں پر اعتبار کریں، یہ شخص کہاں سے شہباز گل نظر آرہا ہے؟ مجھے کوئی اور لگ رہا ہےاس لیے میں نے بتادیا۔ صحافی شاہد ثقلین کا کہنا تھا کہ ویسے دیکھنے سے لگتا ہے کہ شہباز گل سے شکل ملتی ہے مگر کوئی بہتر ہمشکل بھی ہو سکتا تھا۔۔ مطلب کیا سمجھ رکھا ہے عوام کو۔۔۔ فیاض شاہ نامی صارف نے کہا کہ شہباز گِل کا قد 6 فٹ سے زیادہ اور جسم بھاری ہے۔ شہباز گِل کی مبینہ وڈیو والے بندے کی ہائیٹ 5 فٹ 7 انچ سے زیادہ نہیں لگ رہی، جسم بھی ہلکا ہے اور سب سے اہم بات کہ اِس کے سر پر گھنے بال ہیں۔ وقار فیض نے تبصرہ کیا کہ جعلی حکومت کا ایک اور جعلی کارنامہ ۔۔ عین اس وقت جب اسلام آباد میں عمران خان نے ریلی کا آغاز کرنا تھا شہباز گل کی فیک ویڈیو جاری کر دے گئی جس میں واضح نظر آ رھا ھے کہ جعلی بال لگا کر ڈیپ فیک ویڈیو ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ کب تک فیک شہباز گل کو پیش کرینگے آپ لوگوں سے قوم حساب کتاب کرینگے ، ظلم کا جواب دینا ہوگا فرزانہ نامی صارف نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ شہباز گل کو نظر کی عینک لگی ہوئی ہے مگر پولیس کی تحویل میں وہ اتنے ٹھیک ہو گئے کہ نظر کی عینک کے بغیر ہاسپٹل کے بل دیکھ کر سائین بھی کر رہے ہیں۔ سعید احمد نے کہا کہ شدید ترین المیہ یہ ہے کہ اس پلانٹڈ ویڈیو میں اسلام آباد پولیس بھی شامل ہے یہ ریاستی ادارہ ریاست کیلئے کام کرتا ہے یا سیاسی محرکات کیلئے؟ ایک اور صارف بولےکہ یہ ثابت کرنے والا کہ یہ تصویر شہباز گل کی ہے آنکھوں اور دل دونوں سے اندھا ہے۔ ارسلان بلوچ نے کہا کہ آپ کو دوبارہ کوشش کرنی ہوگی، ویسےآپ سے نہیں ہوپائے گا۔ ایک صارف نے اسے مریم نواز شریف اور مریم اورنگزیب کی چال قرار دیتے ہوئے دونوں کی ایک تصویر شیئر کرڈالی۔
پاکستان تحریک انصاف نے ڈاکٹر شہباز گل پر تشدد کی تصاویر جاری کردی ہیں ، ذرائع کا کہنا ہے کہ تصاویر سے شہباز گل پر تشدد کےشواہد مل گئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے شہباز گل پر تشدد کی تصاویری ثبوت اسلام آباد پولیس کے حوالےکردیئے ہیں، پی ٹی آئی کے مطابق شہباز گل کےجسم کے حساس اور جنسی اعضاء پر تشدد کیا گیا جس کے ثبوت تصاویر میں واضح طور پر دیکھے جاسکتےہیں۔ صحافیوں نے پی ٹی آئی کی جانب سے شہباز گل پر تشدد کے تصویری شواہد جاری کرنے کی تصدیق کی اور اس پر تبصرہ بھی کیا۔ صحافی عبدالقادرنے کہا کہ شہباز گل پر مبینہ تشدد کی تصاویر جاری کردی گئی ہیں، ایک شخص کیلئے اس سے مشکل وقت اورکیا ہوگا کہ اسے بطور ثبوت اپنی برہنہ تصویریں بنوانی پڑیں، ایسے مناظرہیں کہ جنہیں شائد سوشل میڈیا پر پوسٹ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مغیث کا کہنا تھا کہ شہباز گل پر تشدد کی تصاویر سامنے آگئی ہیں، انہیں شیئر کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ صحافی زبیر کا کہنا تھا کہ اس ملک کا المیہ دیکھیں اپنے اوپر تشدد ثابت کرنے کے لیے اپنی پرائیویٹ پارٹس کی تصاویریں جاری کرنا پڑ رہی ہیں۔
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے صحافی سلیم صافی نے روزنامہ جنگ میں عمران خان کے سینئر صحافی فریحہ ادریس کو دیئے گئے انٹرویو پر ایک کالم میں لکھا کہ: فریحہ ادریس جو عمران خان کی بہت بڑی مداح ہیں کے شو میں مجھے اپنی زبان سے سلیم لفافی قرار دے دیا حالانکہ عمران خان جانتے ہیں کہ انہوں نے جن جن سے لفافے لئے ہیں ، ان کے بارے میں سب سے زیادہ معلومات میرے پاس ہیں ۔ نجی ٹی وی چینل پر سینئر صحافی واینکر فریحہ ادریس کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان کے سلیم صافی کے حوالے سے بیان پر انہوں نے کالم لکھا تو فریحہ ادریس نے انہیں جواب دیتے ہوئے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ: 2014 میں جب جنگ/ جیو گروپ پر پابندی لگائی گئی تو میں نے ان کے حق میں اپنی آواز اٹھائی۔ جنگ/ جیو گروپ نے اس وقت میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے روزنامہ جنگ کے صفحہ اول پر میری تصویر چھاپ دی تھی لیکن آج مجھے انتہائی افسوس ہوا یہ دیکھ کر کہ جنگ/ جیو گروپ نے سلیم صافی کے کالم کو چھپنے کی اجازت دے دی۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ پیغام میں لکھا کہ جب پی ٹی آئی نے ثناء مرزا پر بدنیتی سے حملہ کیا تو جنگ/ جیو گروپ نے خوشی خوشی تحریک انصاف کی مذمت کے لیے میرا بیپر لیا لیکن جنگ/ جیو گروپ نے آج میرے خلاف لکھے الفاظ کو شائع ہونے کی اجازت سے پہلا سوچا بھی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ سلیم صافی کو اگر مجھ سے کوئی مسئلہ تھا تو شریف آدمی کی طرح مجھ سے بات کرتا، اپنے کالم میں میرے خلاف بہتان تراشی نہ کرتا۔ انہوں نے اپنے پیغام میں لکھا کہ: قابل احترام سلیم صافی صاحب! بھول جاتے ہیں کہ ان کا کسی پر الزامات لگانا کتنا معنی خیز ہے! انہوں نے کہا کہ میں نے کبھی کرکٹ نہیں دیکھی اور نہ ہی شائقین کا پیچھا کیا ہے۔ پیغام رساں کو گولی مار دینا بادشاہتوں میں ہے، صحافیوں میں نہیں! انہوں نے اپنے پیغام میں لکھا کہ: جن لوگوں نے میرے ساتھ کام کیا ہے وہ مجھے انتہائی اچھی طرح جانتے ہیں، سلیم صافی ان سے الگ نہیں ہیں۔ آج صحافت میں سخت تقسیم ہے۔ کم از کم میں نے معافی مانگ لی تھی، وجیہہ ثانی گواہ ہیں! کیا صافی صاحب یہ ہمت کر پائیں گے؟ اللہ انہیں ہمت دے!
اسلام آبادپولیس کی جانب سے شیئر کی گئی مبینہ طور پر شہباز گل کی تازہ ترین ویڈیو اور تصاویر میں نظر آنے والے شخص کے حوالےسے صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے اہم سوالات اٹھادیئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد پولیس نے گرفتار ڈاکٹرشہباز گل کی کچھ تصاویراورویڈیوز جاری کی ہیں اوردعویٰ کیا ہےکہ ان کی تازہ ترین تصاویر اورویڈیوزہیں،ان مناظرمیں ڈاکٹرشہباز گل کی شکل کا ایک شخص ہسپتال کے ایک کمرے میں بالکل تندرست حالت میں بغیر کسی آکسیجن ماسک بیٹھے ، کھڑے اورچلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، ویڈیوزمیں دیکھا جاسکتاہے کہ وہ شخص کسی فائل کاجائزہ لیتے ہوئے اسلام آباد پولیس کے اہلکارسے گفتگو بھی کررہےہیں۔ تاہم سوشل میڈیا پر صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے اس شخص کو شہباز گل ماننے سے انکار کرتے ہوئے باقاعدہ دلائل دینا اور اسے ن لیگ کی چال قرار دینا شروع کردیا ہے۔ سینئر صحافی وتجزیہ کار انوار لودھی نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات مریم اورنگزیب کومخاطب کیا اور کہا کہ آپ کی تحویل میں رہ کر شہباز گل اتنے صحت مند ہوگئےکہ ان کی نظر کی عینک اتر گئی اور ان کے بال بھی گھنے ہوگئے۔ صحافی طارق متین نے انصار عباسی کےسوال کاجواب دیتے ہوئےکہا کہ آپ اپنی آنکھوں پر اعتبار کریں، یہ شخص کہاں سے شہباز گل نظر آرہا ہے؟ مجھے کوئی اور لگ رہا ہےاس لیے میں نے بتادیا۔ فیاض شاہ نامی صارف نے کہا کہ شہباز گِل کا قد 6 فٹ سے زیادہ اور جسم بھاری ہے۔ شہباز گِل کی مبینہ وڈیو والے بندے کی ہائیٹ 5 فٹ 7 انچ سے زیادہ نہیں لگ رہی، جسم بھی ہلکا ہے اور سب سے اہم بات کہ اِس کے سر پر گھنے بال ہیں۔ فرزانہ نامی صارف نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ شہباز گل کو نظر کی عینک لگی ہوئی ہے مگر پولیس کی تحویل میں وہ اتنے ٹھیک ہو گئے کہ نظر کی عینک کے بغیر ہاسپٹل کے بل دیکھ کر سائین بھی کر رہے ہیں۔ سعید احمد نے کہا کہ شدید ترین المیہ یہ ہے کہ اس پلانٹڈ ویڈیو میں اسلام آباد پولیس بھی شامل ہے یہ ریاستی ادارہ ریاست کیلئے کام کرتا ہے یا سیاسی محرکات کیلئے؟ ایک اور صارف بولےکہ یہ ثابت کرنے والا کہ یہ تصویر شہباز گل کی ہے آنکھوں اور دل دونوں سے اندھا ہے۔ ارسلان بلوچ نے کہا کہ آپ کو دوبارہ کوشش کرنی ہوگی، ویسےآپ سے نہیں ہوپائے گا۔ ایک صارف نے اسے مریم نواز شریف اور مریم اورنگزیب کی چال قرار دیتے ہوئے دونوں کی ایک تصویر شیئر کرڈالی۔
سینیئر تجزیہ کار اطہر کاظمی نے وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کو چینلج کردیا،جیو نیوز کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مریم اورنگزیب میں جرأت ہے تو بتائیں عمران خان کو لانے والے کون تھے، شہباز شریف اس وقت بغیر کسی کی شفقت کے وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے، ملکی ایجنسیوں نے صرف عمران خان کو نہیں پوری قوم کو جے آئی ٹیز کے ذریعہ بتایا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کتنی کرپٹ ہے۔ اطہر کاظمی نے مزید کہا کہ عمران خان پہلی دفعہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار نہیں بتارہے، شہباز شریف اس چیز کی تصویر ہیں کہ پاکستانی سیاست میں کس کا عمل دخل زیادہ ہے۔ پروگرام میں میزبان علینہ فاروق شیخ نے سوال کیا کہ اپنے دور میں نیب کی کارروائیوں کی تعریف، اب گلہ، کیا عمران خان کا گلہ جائز ہے؟ جس کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا کہ عمران خان کا نیب کی کارروائیوں پر گلہ جائز نہیں ،عمران خان کا گلہ صحیح ہے کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں ن لیگ اور پی پی کیخلاف ثبوت دیتی رہی،عمران خان کا گلہ ایک حد تک جائز ہے۔ محمل سرفراز نے کہا کہ عمران خان کا نیب کی کارروائیوں پر گلہ جائز نہیں ہے، عمران خان اسٹیبلشمنٹ کو نیوٹرل کہنے کا نہیں کہہ رہے بلکہ انہیں اقتدار میں واپس لانے کا کہہ رہے ہیں، عمران خان کو گلہ ہے کہ ایجنسیاں جنہیں کرپشن میں ملوث بتاتی تھیں انہیں کیسے اقتدار دیا گیا، پرویز الٰہی بھی پی ٹی آئی حکومت پر اختلاف کرنے والوں پر دباؤ ڈالنے کیلئے نیب کو استعمال کرنے کی بات کرچکے ہیں۔ ارشاد بھٹی نے کہا کہ عمران خان کا گلہ ایک حد تک جائز ہے، عمران خان کے بحیثیت وزیراعظم بھی نیب کی سست روی پر بیانات ریکارڈ پر ہیں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی پر قائم 90فیصد مقدمے انہوں نے ایک دوسرے کیخلاف کئے، بلاول بھٹو کہتے تھے کہ ہاؤس آف شریف کی تین نسلیں چور ہیں۔حفیظ اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ عمران خان کا گلہ صحیح ہے کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں ن لیگ اور پی پی کیخلاف ثبوت دیتی رہی۔ انہوں نے کہا کہ ایجنسیاں آج سے نہیں 1996ء سے عمران خان کو ان کیخلاف ثبوت دے رہی ہے، نواز شریف کے دور میں آئی ایس آئی چیف نے عمران خان کو سرے محل کی تفصیلات دی تھیں، عمران خان کو بانی متحدہ کیخلاف لندن جاکر مہم چلانے کیلئے کہا گیا تھا، عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ سے گلہ ہے کہ میں نے پوری زندگی آپ لوگوں کی چاپلوسی اور تعاون کیا مجھ سے کون سی گستاخی ہوگئی ہے۔ مظہر عباس بولے عمران خان کا گلہ جائز نہیں ہے کیونکہ وہ پھر کیسے حکمراں تھے، عمران خان اپنے ماتحت آنے والوں سے گلہ کررہے ہیں، عمران خان بااختیار وزیراعظم تھے تو پھر انہیں گلہ نہیں بلکہ اسٹینڈ لینا چاہئے، عمران خان کا گلہ اسی طرح جائز نہیں جیسے 2018ء میں نواز شریف کا گلہ جائز نہیں تھا، آپ کی کیسی پارٹی ہے کہ بلوچستان میں راتوں رات بدل گئی۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی 1999ء میں دو تہائی اکثریت تھی لیکن راتوں رات حکومت اور پارٹی ختم ہوگئی کوئی احتجاج نہیں ہوا، عمران خان بتائیں جن جماعتوں کو آپ کے اتحاد سے نکال کر تحریک عدم اعتماد لائی گئی کیا انہی جماعتوں کو ملا کر ان کی حکومت بنائی گئی تھی، عمران خان بتائیں چیئرمین سینیٹ کیخلاف تحریک عدم اعتماد کیسے ناکام ہوئی تھی، کس طرح ایسا ہوا کہ چیئرمین سینیٹ کیخلاف 64ارکان کھڑے ہوئے لیکن رائے شماری میں 34رہ گئے۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ معاشی و قومی سلامتی کے بعد 4 ارب ڈالر کے لیے قومی اثاثے بھی داؤ پہ لگا دیے گئے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ ملک میں 43 فیصد مہنگائی بڑھ گئی ہے۔ ملک خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ معاشی سلامتی اور قومی سلامتی کے بعد4ارب ڈالر کے لیے قومی اثاثے بھی داؤ پہ لگا دیے ہیں۔ شیخ رشید نے اعلان کیا کہ وہ آج3بجے لیاقت باغ میں پریس کانفرنس کریں گے۔ اس کے بعد شام کو اسلام آباد ریلی میں شامل ہوں گے۔ شیخ رشید نے دعویٰ کیا کہ کل لیاقت باغ میں عمران خان کاتاریخی جلسہ ہوگا۔ سابق وفاقی وزیر نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کی75سالہ تاریخ میں جو کچھ شہباز گل کے ساتھ ہوا اس کی مثال نہیں ملتی۔ شہباز گل کے تشدد پر عمران خان کی ٹویٹ نے ساری دُنیا میں حکمرانوں کی ناک کاٹ دی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کے اس احمقانہ قدم سے پاکستان کا تشخص تباہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ عمران خان کی کال پرشام کو اسلام آباد ریلی اور کل لیاقت باغ پہنچیں۔
فیصل آباد میں خدیجہ نامی طالبہ پر تشدد کے معاملےپر فنکاروں کیجانب سے بھی مذمتی بیانات آنے کا سلسلہ جاری ہے، فنکاروں نے ملزمان کو سخت سزا دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق شادی سے انکار پر فیصل آباد کی میڈیکل کالج کی طالبہ کو بزنس مین شیخ دانش علی،اس کی بیٹی اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ بدترین تشدد کا نشانہ بنائے جانے اور اس کی تضحیک آمیز ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کے معاملے پر سوشل میڈیا سراپا احتجاج بن گیا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین،سول سوسائٹی کے ساتھ ساتھ شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے فنکاروں نے بھی اس معاملےکی پرزور مذمت کی اور ملزمان کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ اداکار منیب بٹ نے واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ ’آئے روز کوئی نہ کوئی نیا واقعہ رونما ہوتا ہے اور ملزمان چھوٹ جاتے ہیں یہ لاقانونیت ان جانوروں کو مزید ایسے کام کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ مشہور اداکار احسن خان نے انسٹاگرام پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ خدیجہ پر تشدد کی ویڈیوز شیئرکرنے کےبجائے ملزمان خصوصا ویڈیوز بنانے والی خاتون کانام لےکر انہیں شرمندہ کرنے کی ضرورت ہے، احسن خان نے شیخ دانش کی ضمانت منظور ہونے پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔ سینئر اداکارہ مشی خان نے شیخ دانش کی ضمانت منظوری پر اپنے غم و غصے کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسا انصاف ہےکہ ملزمان آزاد گھوم رہے ہیں اورمثال قائم کررہےہیں کہ یہاں کچھ بھی کرلو، 50 ہزار کی ضمانت دےکر چھٹ جاؤ،ایسے لوگ دوزخ میں جلیں۔ اداکار و میزبان احمد علی بٹ نے کہا کہ یہ ہمارے ملک کی تلخ حقیقت ہے کہ یہاں امیر کیلئے کوئی قانون نہیں ہے، نور مقدم کیس کی طرح اس معاملے کو بھی دفن کردیا جائے گا، اللہ غرق کرےایسے لوگوں کو۔ سوشل میڈیا سٹاردنانیر نے کہا کہ ملزمان کا نام لیں اور انہیں شرمندہ کریں، میں ان لوگوں کو جانور بھی نہیں کہنا چاہتی ،شیخ دانش اور اس کی بیٹی برابرکی مجرم ہیں۔ اداکارہ فیضان شیخ نے کہا کہ شکر ہےبے حسی اولمپکس کا حصہ نہیں ہوتی ورنہ سارے گولڈ میڈلزہمارے پاس ہوتے، یہاں سب کو خرید لوگے؟ قبر میں کیسےخریدو گے؟قیامت میں کیسے خریدوگے؟
عمران خان کی جانب سےکراچی میں شدید بارشوں کےباعث دورہ کراچی ملتوی کرنے پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کا ردعمل سامنے آگیا ہے۔ تفصیلات کےمطابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنےبیان میں کہا کہ ریاست مدینہ کے نام پر سیاست، کورونا پر سیاست، احتساب پر سیاست ، سیلاب زدگان پر سیاست، فتنہ فساداور انتشار پھیلانے اور جھوٹ بولنے کیلئے ہر جگہ کا دورہ کرسکتے ہیں، مگر سیلاب زدگان کو ملنے نہیں جاسکتے۔ مریم اورنگزیب نے عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کا نام لے کرطنز کرتے ہوئے کہا کہ بشریٰ بی بی نے اسلامی ٹچ کی وجہ سے منع کیا ہے۔ واضح رہےکہ کراچی میں ہونے والی ریکارڈ بارشوں کےباعث عمران خان کا دورہ کراچی ملتوی کردیا گیا تھا، ترجمان پی ٹی آئی نے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا کل دورہ کراچی بارشوں کی وجہ سے ملتوی کیا گیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے کراچی میں ایک جلسے کا اعلان بھی کررکھا تھا جس سے عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے دیگررہنماؤں نے خطاب کرنا تھا، ذرائع پی ٹی آئی کے مطابق شدید بارشوں اور آئندہ دنوں میں مزید بارشوں کی پیش گوئی کی وجہ سے جلسےکے انتظامات کرنے میں بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
مسلم لیگ ن کی مرکزی نائب صدر مریم نواز سے معروف کار مینوفیکچرر ٹویوٹا (انڈس موٹر کمپنی) پاکستان کے سی ای او علی اصغر جمالی اور کمپنی کے وائس چیئرمین شن جی یاناگی کی ملاقات نے سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ اس ملاقات کی جو تصویر سامنے آئی ہے اس میں ٹویوٹا پاکستان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر علی اصغر جمالی کو ایک مہنگے اور غیر ملکی فیشن برانڈ لوئی ووٹان کا ہینڈ بیگ پکڑے دیکھا جا سکتا ہے جس میں مبینہ طور پر خواتین کے استعمال کا پرس ہے۔ سوشل میڈیا پر جب یہ تصویر وائرل ہوئی تو صارفین نے سوال اٹھایا کہ کیا لوئی ووٹان کا ایک تحفہ کسی بھی ڈیل کو حتمی شکل دینے کیلئے کافی ہے؟ یقیناً آپ کو پاکستانی سیاست کا اندازہ ہو گیا ہوگا۔ ارسلان یعقوب نامی صارف نے کہا کہ مریم نواز عدالت عظمیٰ کی مجرمہ ہیں جو کہ ضمانت پر ہیں، تو ٹویوٹا کا سی ای او اور وائس چیئرمین کس حیثیت سے اس سے ملاقاتیں کر رہے ہیں؟ سعد سعید نے ابرارالحق کا گانا یاد کرا دیا جو انہوں نے حالیہ جلسے میں گایا تھا ایک صارف نے کہا کہ انڈس موٹر کا ہیڈ آفس تو کراچی میں ہے اگر اس کمپنی کے عہدیداروں کو کوئی مسئلہ تھا تو سندھ حکومت سے ملتے مریم نواز سے ملنے کی کیا ضرورت تھی۔ احسان ڈوگر نے لکھا کہ جب انڈس موٹر پاکستان کا CEO مریم نواز کو ملے اور ساتھ تحائف وہ بھی کوئی کمپنی کا یادگار کوئی گاڑی کا ماڈل بھی نا ہو بلکہ “Louis Vuitton” کا قیمتی تحفہ ہو تو اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ تو نہیں کہ ہمارا خیال رکھیں اور ہمیں عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے دیں۔ عاصمہ نے کہا کہ یہ مسلم لیگ ن کے سوشل میڈیا ونگ کیلئے باعث ہزیمت ہے، انہیں اس پر کچھ تو کہنا چاہیے چاہے یہی کہہ دیں کہ صرف بیگ لوئی ووٹان کا تھا اندر فضل سویٹس کی برفی تھی۔ عبداللہ وڑائچ نے کہا کہ اب پتہ چلا ہے کہ ٹویوٹا کی قیمتیں اتنی زیادہ کیوں ہیں، لوئی ووٹان کا شکریہ اور اس رشوت خور لیڈرشپ کو شرم آنی چاہیے۔ وجاہت اللہ صفی نے کہا پھر کوئی کمیشن وغیرہ کا چکر ہے کیا؟ ان بدمعاشوں، نو سربازوں اور اٹھائی گیروں کو بتائیں کہ گاڑیوں کی قیمتیں کم کریں اور معیاری گاڑیاں صارفین تک پہنچائیں، یہ بی بی آپ سب کے گٹوں میں بیٹھے گی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آپ سب ٹھگوں کا متبادل آپ سب سے بھی بڑا ٹھگ ہے۔
وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ فواد چودھری چالاک سیاستدان ہیں، لیکن وہ عمران خان کی کرپشن گھما نہیں سکتے،190 ملین پاؤنڈ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی کرپشن ہے، میڈیا کو بتانا چاہیے کہ عمران خان نے زمین کے بدلے پیسے کیوں واپس کیے؟ مفتاح اسماعیل نے ٹویٹ میں لکھا کہ فواد چوہدری عمران خان اور شہزاد اکبر کی واضح کرپشن کو نہیں گھما سکتے، 190 ملین پاؤنڈ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی کرپشن ہے۔ اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ کس مائی کے لعل میں جرات ہے کہ عمران خان کو نااہل کرے؟ 13 اکاؤنٹس میں2 کروڑ روپے ٹرانسفرہوئے ہیں، پارٹی عہدیداروں کوآفس آپریشنز کی مد میں یہ رقم جاری کی گئی تھی، ایف آئی اے کس حیثیت میں پارٹی رہنماؤں کونوٹس جاری کررہی ہے؟ فواد چوہدری نے کہا تھا کہ پیپلزپارٹی کے اکاؤنٹس آڈیٹرز موجود ہی نہیں ، پیپلزپارٹی نے نہیں بلکہ پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین نے الیکشن لڑا ، پارٹی لیڈر کے بجائے جنرل سیکرٹری نے سرٹیفکیٹ جمع کرایا، پیپلز پارٹی نے الیکشن پر 232 ملین کے اخراجات ظاہر کیے ، امریکاسے آنے والے پیسے براہ راست زرداری کے اکاؤنٹ میں آئے ، پیپلز پارٹی نے جو ایل ایل سی بنائی اس کا کوئی ثبوت پاکستان میں نہیں، فواد چوہدری نے سوال اٹھایا کہ مسلم لیگ ن کے فنڈزکےذرائع پتا ہی نہیں کہاں سے آئے۔
غریدہ فاروقی شہبازگل کی مخالفت میں تمام حدیں کراس کرگئیں۔۔ شہبازگل کی تکلیف کا مذاق اڑاتی رہیں اور اسے ڈرامہ بازی قرار دیتی رہیں۔ تفصیلات کے مطابق نجی چینل کی اینکر پرسن غریدہ فاروقی شہبازگل کی مخالفت میں تمام حدیں کراس کرگئیں اور شہبازگل کی سانس لینے میں مشکل کو ڈرامے بازی قرار دیتی رہیں۔ غریدہ فاروقی شہبازگل کو جھوٹا اور دھوکے باز بھی قرار دیتی رہیں۔ اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں غریدہ فاروقی نے کہا کہ اللہ معاف کرے انسان جھوٹا بھی ہو اور دھوکے باز بھی۔۔۔ آکسیجن ماسک پر اتنے زور سے سانس کے جھٹکے نئی سائنس ہے؛ کسی نے شہبازگل کو بتایا نہیں کہ یہ وہ والا ہسپتال نہیں جہاں خان صاحب نے منتقل کرنا تھا؛ سانس کی تکلیف یہاں بنا کر نہیں دکھانی۔۔۔ چند گھنٹوں میں میڈیکل رپورٹ بھی آ جائیگی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پمز ہسپتال میں شہبازگِل خیریت سے ہیں ڈاکٹرز کیمطابق کوئی سانس کا مسئلہ کوئی تکلیف نہیں؛ فی الحال عارضی ڈرپ لگی ہے؛ لیکن شور مچا رہے ہیں ہائے میری سانس، ہائے میرا بازو، ہائے میری نبض؛ صاف پتہ چل رہا ہیکہ ہسپتال میں رہنے کا بہانہ تلاش رہے ہیں تاکہ ریمانڈ پر نہ بھیجا جائے۔ غریدہ فاروقی کا مزید کہنا تھا کہ کیمرے دیکھتے ہی شہباز گِل ہاتھ مار کر اپنے اوپر ڈالا گیا کپڑا ہٹا دیتے ہیں تاکہ میڈیا کے کیمرے اُن کا جھٹکے لے کر سانس لینا ضرور ریکارڈ کر لے۔ پولیس والا کپڑا اوپر ڈالتا ہے مگر وہ پھر زور سے ہاتھ مار کر کپڑا ہٹا دیتے ہیں۔ شہبازگل کی ایک ویڈیو شئیر کرتے ہوئے غریدہ فاروقی نے کہا کہ س ویڈیو سے دھوکہ نہ کھائیں؛ شہبازگل بالکل خیریت سے ہیں۔
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کی جج زیبا چوہدری نے شہباز گل کی جسمانی ریمانڈ کی نظرثانی اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے شہباز گل کو مزید 48 گھنٹے کیلئے پولیس کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا۔ اس عدالتی فیصلے پر سوشل میڈیا صارفین اور صحافیوں کی جانب سے سخت ردعمل دیکھنے کو ملا ، انہوں نے اس فیصلے کو انصاف کا قتل قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ فیصلہ پولیس کومزید تشدد کا لائسنس دینے کے مترادف ہے۔ فوادچوہدری نے تبصرہ کیا کہ وہ جج صاحبان جو جانتے بوجھتے تشدد کیلئے کہ پولیس سیاسی ورکروں کو تشدد کیلئے ریمانڈ مانگ رہی ہے ریمانڈُ پر بھیجتے ہیں وہ قومی مجرم ہیں انسانی حقوق کی جو دھجیاں پاکستان میں اڑائ جارہی ہیں اس کی مثال نہیں ملتی شہباز گل کو تفتیش کیلئے نہیں تشدد کیلئے پولیس کے حوالے کیا جا رہا ہے صحافی مبشرزیدی نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ جج نے بجائے شہباز گل پر تشدد کے الزامات کی تحقیقات کے دوبارہ اسلام آباد پولیس کے حوالے کر کے نا انصافی کا نیا باب رقم کر دیا اینکر عمران ریاض کا کہنا تھا کہ یہ اپنی بے وقوفیوں سے عمران خان کی مقبولیت اور عوامی ہمدردی میں مزید اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔ کہا تھا یہ پنگا مت لینا مصیبت پڑ جائے گی گلے۔ رحیق عباسی کا کہنا تھا کہ عدل کا قتل عام ۔۔ انصاف کی ساتھ اجتماعی ذیادتی ۔ شہباز گل کو دوبارہ پولیس کے حوالے کر دیا ۔ اب مزید تشدد کیا جائے گا ۔ پاکستان میں عملا مارشل لاء نافذ ہو چکا ہے۔ شہریوں کے بنیادی حقوق معطل کر دئے گئے ہیں۔ عدالتیں فیصلوں میں آزاد نہیں۔ یہ فیصلے کہیں اور کوئی اور کر رہا ہے۔ اینکر منیب فاروق نے اسےانتہائی تشویشناک فیصلہ قرار دیا صحافی اور بلاگر نجم الحسن باجوہ نے تبصرہ کیا کہ اور انصاف کا قتل کسے کہتے ہیں؟ ڈاکٹر ارسلان خالد کا کہنا تھا کہ تشدد کی تحقیقات کے بجائے مزید تشدد کے لیے پولیس کے حوالے کردیا۔ ناانصافی کی کوئی تو حد رکھیں، ایسا ظلم کا نظام نہیں چل سکتا صحافی علی ممتاز نے تبصرہ کیا کہ وہی ہوا جس کا سب کو خدشہ تھا۔پولیس بار بار کہتی رہی شہباز گل ہمارے حوالے کرو ہم نے پھینٹا لگانا ہے۔ادویات پلا کر بیان لکھوانا ہے اور ادویات کے اثر میں اعترافی ویڈیو بھی بنانی ہے۔اسلام آباد پولیس اور ن لیگ حکومت نے فیصلہ مینج کر لیا اور دو دن کا جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا بلاگر احمدابوبکر کا کہنا تھا کہ شہباز گل کا دو روز کے لیے جسمانی ریمانڈ منظور، عدالت جے نا انصا فی کا نیا باب رقم کیا ہے، شہباز گل پر بر ہنہ تشدد کی باز گشت ہے، تحقیقات کا حکم دینے کی بجا ئے اسے دوبارہ اسلام آباد پولیس کی تحویل میں دینا مزید تشدد کے رحم و کرم پر چھو ڑ نا ہے سادات یونس کا کہنا تھا کہ 48 گھنٹوں میں شہبازگل پر تشدد کی انتہاء کی جائے گی، تاریخ میں جسمانی ریمانڈ کی دوبارہ سے حاصل کرنے کی مثال نہیں، سب بدمعاشی ہے! ایک سوشل میڈیا صارف کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم وقتی طور پر ظلم و جبر سے کسی کی خوشنودی کیلئے شہباز گل کو زیر عتاب تو رکھ سکتی ہے. لیکن یاد رکھیں غداری اور بغاوت کا جو پنڈرورا بکس انہوں نے کھولا ہے کل ان سے بند نہیں ہونا. شہباز گل کی وضاحت کے باوجود یہ ایک ایسا precedent سیٹ کر رہے جس کے نشانہ کل یہ خود بھی بنیں گے. صحافی فخرالرحمان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کا مطلب ہے کہ شہبازگل پر مزید ٹارچر کرو۔ علی ملک کا کہنا تھا کہ یہ کیسا عجیب فیصلہ ہے، کس قانون کے تحت شہباز گل کا مزید دو روزہ جسمانی ریمانڈ دیا گیا ہے؟ یہ ہم سب دیکھ رہے ہیں اور ہمیں یہ سب ہمیشہ یاد رہے گا۔ اللہ شہباز گل کی حفاظت فرمائے اور اس مشکل سے انہیں جلد از جلد نکالے اور اللہ ان ظالموں کو غارت کرے۔ آمین شہباز گل پر پھر سے تشدد کروایا جائے گا، جب سب کچھ سامنے ہے کہ شہباز گل پر تشدد ہوا ہے اسکے باوجود دوبارہ تشدد کے لیے جسمانی ریمانڈ دینا سمجھ سے باہر ہے
پاکستان بمقابلہ نیدرلینڈ ون ڈے میچ میں پاکستانی شائقین تحریک انصاف کے جھنڈے لے کر روٹرڈیم سٹیڈیم پہنچ گئے۔ شائقین نے سٹیڈیم میں موجودہ حکومت کے خلاف نعرے بازی کی اور سابق وزیراعظم عمران خان کے حق میں نعرے لگاتے رہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان بمقابلہ نیدرلینڈ ون ڈے میچ میں پاکستانی شائقین تحریک انصاف کے جھنڈے لے کر روٹرڈیم سٹیڈیم پہنچ گئے۔ شائقین نے سٹیڈیم میں موجودہ حکومت کے خلاف نعرے بازی کی اور سابق وزیراعظم عمران خان کے حق میں نعرے لگاتے رہے۔ پاکستانی شائقین نے "کون بچائے گا پاکستان عمران خان عمران خان" اور امپورٹڈ حکومت نامنظور کے علاوہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور حمزہ شہباز شریف کے خلاف بھی نعرے لگائے۔ نجی ٹی وی چینل اے آر وائے نیوز کے سینئر صحافی زاہد نور نے پاکستان تحریک انصاف کے پرجوش حامیوں کی ویڈیو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ: روٹرڈیم سٹیڈیم میں پاک نیدرلینڈز میچ کے موقع پر سابق وزیراعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے حق میں اور حکومت کے خلاف شائقین کرکٹ نے نعرے بازی کی۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ روٹرڈیم سٹیڈیم میں پاکستانی شائقین "مریم کا پاپا چور ہے" ، "سارا ٹبر چور ہے"، "کون بچائے گا پاکستان عمران خان، عمران خان"، "آئی آئی پی ٹی آئی"کے نعرے لگا رہے ہیں۔ پاکستان 19 سال بعد ہالینڈز کی کرکٹ ٹیم کے خلاف ون ڈے میچ کھیل رہے گا، پاکستان اور نیدرلینڈز میں تین ون ڈے انٹرنیشنل میچز کی سیریز کا پہلا میچ روٹر ڈیم میں کھیلا جا رہا ہے، اس سے پہلے پاکستان اور نیدرلینڈز کے درمیان تین ون ڈے میچز کھیلے جاچکے ہیں جن میں تمام میچز میں پاکستان فاتح رہا ہے۔ خیال رہے کہ قذافی سٹیڈیم میں 2017ء میں پی ایس ایل فائنل جو کوئٹہ اور اسلام آباد کے درمیان میچ ہوا اس میں بھی پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی طرف سے "گو نواز گو" اور "مجھے کیوں نکالا" کے نعرے لگائے گئے تھے۔
معروف صحافی واینکر پرسن سمیع ابراہیم کے ویڈیو بیان میں چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کے حوالے سے بیان پر پاکستان پیپلزپارٹی کے حامی شدید مشتعل ہو گئے ہیں اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اپنے غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق معروف صحافی واینکرپرسن سمیع ابراہیم کی ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کو نااہل ثابت کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا فضل الرحمن کو مولانا ثابت کرنا، نوازشریف کو ایماندار ثابت کرنا اور بلاول بھٹو کو مرد ثابت کرنا۔ سمیع ابراہیم کے ویڈیو بیان میں چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کے حوالے سے بیان پر پاکستان پیپلزپارٹی کے حامی شدید مشتعل ہو گئے ہیں اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے غصے کا اظہار کر رہے ہیں، ٹویٹر پر "سمیع ابراہیم معافی مانگو" کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی |پیپلز یوتھ آرگنائزیشن سندھ کے صوبائی صدر جاوید نایاب لغاری نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ: سمیع ابراہیم اپنے لیڈر عمران نیازی کی طرح قابل رحم ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت کے خلاف ان کا بیان انتہائی ہتک آمیز، مکروہ اور قابل مذمت ہے۔ سمیع ابراہیم پر پابندی لگائی جائے ورنہ احتجاج کرینگے۔ ڈپٹی انفارمیشن سکرٹری پاکستان پیپلزپارٹی سندھ، رکن سندھ اسمبلی اور پارلیمانی سیکریٹری برائے صنعت و تجارت ندا کھوہرو نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ: سمیع ابراہیم اپنے لیڈر عمران خان کی طرح ایک گھٹیا انسان ہے، یہ گھٹیا لوگ صحافت کی آڑ میں اپنی گندگی پھیلانے کے لیے چینلز کا استعمال کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی قیادت کے خلاف ان کا بیان انتہائی قابل مذمت ہے۔ ایک پی پی کارکن اعجاز مہیسر نے سینئر صحافی سمیع ابراہیم کو فواد چوہدری کے تھپڑ مارنے پر بلاول بھٹو کی مذمت کی خبر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ: امید ہے آپ کو یہ بات یاد ہوگی جب آپ کو پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے تھپڑ مارا تھا اور بلاول بھٹو نے مذمت کی تھی، کوئی شرم حیا، صحافی برادری میں کالی بھیڑ نہ بنو، پاکستان میں صحافیوں کی ساکھ خراب نہ کرو! ایک سوشل میڈیا صارف ڈاکٹر آمنہ جمال نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ: سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھیں، اس طرح کا مذاق باعث شرم ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے خلاف سمیع ابراہیم کے ریمارکس کی شدید مذمت کرتی ہوں۔ یہ بلاول ہی تھے جنہوں نے امریکی سرزمین پر بیٹھ کر عمران خان کے دورہ روس کا کھل کر دفاع کیا۔ صدر پی پی پی ویمن ونگ ڈسٹرکٹ سینٹرل کراچی، سابق انفارمیشن سیکریٹری پی پی پی ویمن ونگ کراچی ڈویژن شاہینہ سعیدہ صدیقی نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ: پاکستان پیپلز پارٹی بول نیوز کا بائیکاٹ کرے۔بد اخلاق اور پروپیگنڈہ چینل! ایک اور پیپلزپارٹی کارکن رب نواز بلوچ نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ: اگر آج صحافی حضرات سمیع ابراہیم کی مذمت نہیں کرتے تو میں حلفیہ کہتا ہوں کہمجھے کہیں سمیع ابراہیم ملا تو میں اسے چھٹی کا دودھ یاد کراؤں گا۔ پھر اگر کسی صحافی نے میرے اس عمل کی مذمت کی تو اس صحافی کی مرمت کرنا بھی میرا فرض ہوگا۔ انج تے فیر انج ہی سہی۔ ایک اور پیپلزپارٹی کارکن شیراز کٹیار نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ: آپ اور آپ کی سوچ پر شرمندگی ہے، کاش! آپ صحافی ہیں لیکن صحافت کو آپ کی ضرورت نہیں ہے۔ صدر پی پی پی خواتین ونگ آزاد جموں و کشمیر، ممبر قانون ساز اسمبلی آزاد کشمیر نبیلہ ایوب خان نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ: سمیع ابراہیم کے مضحکہ خیز ریمارکس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی حامی ایک خاتون عائشہ عباس کا ٹویٹ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ: اگر آپ بلاول بھٹو زرداری کے خلاف اپنے فضول ریمارکس پر معذرت نہیں کرتےتو پیپلزپارٹی کے جیالے بھرپور احتجاج کریں گے۔ سابق انفارمیشن سیکرٹری پیپلز کلچرل ونگ نادر علی نادر نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ: صحافی سمیع ابراہیم کو بلاول بھٹو زرداری کے خلاف ایسے الفاظ استعمال کرنے کا کوئی حق نہیں اور اسے کسی کی کردار کشی کرنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے، اسے معافی مانگنی چاہیے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے ایک کارکن جی ایم بریرو نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ: سمیع ابراہیم بیمار دماغ کاآدمی ہے، @BOLNETWORK صحافت پر سیاہ داغ ہے۔ اس شخص کی طرف سے بلاول بھٹو زرداری کے لیے کہے گئے الفاظ کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور اگر معافی نہ مانگی گئی تو احتجاج کا دائرہ کار وسیع کریں گے اور اسے جیالوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انچارج میڈیا سیل بلاول ہاؤس ایم پی اے (سندھ) اور وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے انسانی حقوق سریندر ولاسائی نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ : صحافی برادری کو سمیع ابراہیم جیسے بدتمیز لوگوں کی مذمت کرنی چاہیے جو اس عظیم پیشے کو بدنام کر رہے ہیں۔ سچے صحافیوں کو ایسے غلیظ کرداروں کو نکال باہر کرنا چاہیے۔
نہ نہ کرتے بھی حکومت نے پٹرول مہنگا کر ہی دیا اور عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے مریم نواز بھی پہنچ گئیں، عوام کو اعتماد میں لینے کیلئے کہا کہ نوازشریف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی مذمت کر رہے ہیں۔ اپنے سوشل میڈیا پیغام میں کہا کہ "میاں صاحب نے اس فیصلے کی سخت مخالفت کی اور یہاں تک کہہ دیا کہ میں مزید ایک پیسے کا بوجھ عوام پر نہیں ڈال سکتا اور اگر حکومت کی کوئی مجبوری ہے تو میں اس فیصلے میں شامل نہیں ہوں اور میٹنگ چھوڑ کر چلے گئے"۔ مریم نواز کے اس ٹوئٹ سے صارفین بگڑ گئے اور اس پر بڑی مخالف سیاسی جماعت تحریک انصاف بھی پیچھے نہ رہی اور کہا کہ ایک بھائی وزیراعظم ہے، جس کے اپنے دونوں بیٹے تو خیر مفرور ہیں۔ وہ اپنے بھائی نوازشریف کو ہر قیمت پر واپس بھی لانا چاہتا ہے، تاکہ لمبا اقتدار بھی مل سکے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے مزید کہا گیا کہ لیکن وہ اسی بھائی کی بات مان نہیں رہا؟ کیا عوام کو واقعی اتنا بھولا سمجھتے ہو؟ رہنما تحریک انصاف فرخ حبیب نے کہا کہ پٹرول کی قیمتیں مزید 7 روپے بڑھا کر پٹرول 234 روپے لیٹر کردیا ہے، یہ good cop اور bad cop کھیل رہے ہیں، سب اندر سے ملے ہوئے ہو اور عوام پر بوجھ ڈال کر خود عیاشیاں کررہے ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ چیلینج کرتا ہوں اتنا ہی درد ہے عوام کا تو حکومت چھوڑ دو کیوں نہیں چھوڑتے؟ صحافی عمر فیضان نے لکھا کہ ایک منٹ رکو، آفیشل میٹنگ میں ایک بھگوڑا ملزم کر کیا رہا تھا اور ایک مفرور اس طرح کا حکم دے کیسے سکتا ہے؟ سینیٹر اعجاز چودھری نے کہا عوام آئندہ مریم بی بی کی یہ ٹویٹ دیکھا کر مارچ 2022 کی قیمتوں پر پٹرول خرید سکتی ہے۔ خاتون اینکر پرسن کرن ناز نے کہا ایسی ہی کوئی مجبوری پچھلی حکومت کی بھی رہی ہوگی۔ تب تو آپ مہنگائی مکاؤ مارچ لیکر نکلیں اور حکومت کو ہی چلتا کردیا۔ آپ کے حساب سے دیکھا جائے تو پھر تو موجودہ حکومت کو بھی چلتا کرنا چاہئیے۔ میٹنگ چھوڑنے سے کیا فرق پڑجانا ہے؟ صحافی ارسلان جٹ نے کہا پھرحکومت کسی کی ہے ووٹ کی یا؟؟ علینہ شگری نے کہا کہ کیا ہم گُڈ کاپ بیڈ کاپ نہیں کھل رہے؟ اکبر باجوہ نے کہا خدا کی قسم میں جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کون لوگ ہیں جو ایسی باتوں کو سیریرس لیتے ہیں اور انکا ہاسا نہیں نکلتا ایسی اداکاری پڑھ کہ؟ رضوان غلزئی نے کہا چھا گئے میاں صاحب، یہ ہوتا ہے لیڈر، قوم میاں صاحب کا یہ احسان کبھی نہیں بھولے گی۔
پاکستان تحریک انصاف کے سب سے قریب سمجھے جانے والے ٹی وی چینل اےآروائی نیوز کی 'نیوٹرل' ہونے کی قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے ہم خیال اورموجودہ اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے شدید مخالف سمجھے جانے والے خبررساں ادارے اے آروائی نیوز کے'نیوٹرل' ہونے کی قیاس آرائیاں ہونے لگی ہیں۔ یہ قیاس آرائیاں ایسے وقت میں شروع ہوئیں جب موجودہ حکومت نے فاشسٹ رویے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اے آروائی نیوز کے این او سی کو منسوخ کرتے ہوئے ملک بھر میں چینل کی نشریات بند کردی تھی، اس وقت چینل کی بحالی کیلئے صرف ایک سیاسی جماعت نے آواز اٹھائی،یہ جماعت پی ٹی آئی تھی۔ تاہم نشریات اور این او سی بحالی کےبعد اے آروائی نیوز کے اہم رکن اور سینئر اینکر پرسن اقرار الحسن کی ایک ٹویٹ نے سیاسی و صحافی حلقوں میں اس چینل کے بھی "نیوٹرل" ہونے کی قیاس آرائیوں کو جنم دیدیا ہے۔ اقرار الحسن نے اپنی ٹویٹ 9مارچ کی ایک ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم نےعدم اعتماد کامیاب ہونے سے پہلے بتایا تھا کہ پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کےخلاف ہونے جارہی ہے۔ اقرار الحسن نے مزید کہا کہ آج ایک اور پیش گوئی کررہے ہیں اسے بھی نوٹ فرمالیجیے، بہت جلد انصافی دوست اپنے حق میں اٹھنے والی سب سے توانا آواز کےخلاف ہوں گے، آج جوسب سے اچھا ہے کل انصافی دوستوں کی نظر میں سب سے برا ہوگا۔ سیاسی و صحافتی حلقوں میں اس ٹویٹ کومختلف پہلوؤں سے دیکھا جارہاہے، سیاست وصحافت پر گہری نظر رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ اقرار الحسن کا اشارہ ان کے ادارے اے آروائی نیوز کی طرف ہے کہ بہت جلد تحریک انصاف کے لوگ اے آروائی نیوز کے خلاف ہوجائیں گے اور یہ چینل ان کی نظر میں سب سے برا ہوجائے گا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں رہنما تحریک انصاف کی جانب سے اے آروائی نیوز پر بیٹھ کر اداروں کے خلاف گفتگو کی پاداش میں چینل کو سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا، جس میں سیکیورٹی ایجنسیز کے کلیئرنس نا دینے، اعلی عہدیدار کی گرفتاری اور لائسنس منسوخ ہونے جیسے اقدامات شامل ہیں، ایسے سخت ردعمل کے بعد چینل انتظامیہ نے یقینا اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنا شروع کردی ہوگی جس کا اشارہ آج اقرار الحسن نے اپنی ٹویٹ میں دیا ہے۔
نجی ٹی وی چینل سے منسلک دو بڑے اینکرپرسنز نے اتحادی حکومت کی جانب سے جشن آزادی پر اپنائے گئے طرز عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ کامران شاہد نے کہا کہ ان تقریبات پر کتنا خرچہ آیا ہوگا پھر بعد میں وزیراعظم کشکول لے کر پاکستان کیلئے مانگنے نکل پڑیں گے۔ کامران شاہد نے ٹوئٹر پر کہا کہ اربوں ڈالرز کے قرضوں تلے دبے ملک کے یوم آزادی پر یہ ڈانسرز جس طرح ناچ رہے ہیں یہ اس قوم کی توہین ہے۔ اس پر کتنے اخراجات آئے ہوں گے پھر بعد میں شہبازشریف کشکول لے کر ملک کیلئے مانگنے نکل پڑیں گے۔ ساتھی اینکر نے تنقید کی تو کامران خان سے بھی نہ رہا گیا اور کہا کہ کامران بھائی شہباز حکومت نے کچھ ہی روز قبل 61 رکنی کابینہ کے ساتھ ایک ریکارڈ بھی بنایا ہے۔ ان میں 14 لوگ ایسے تھے جن کیلئے کوئی وزارت یا محکمہ بھی دستیاب نہیں تھا۔ یا عیاشی تیرا ہی آسرا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز چودہ اگست کو ملک میں 75واں یوم آزادی منایا گیا اس موقع پر سرکاری سطح پر جو تقریب وفاقی حکومت نے منعقد کی اس میں نغموں اور گانوں پر رقص کیا گیا جسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی #Mujraa کے نام سے ٹرینڈ بھی ٹاپ میں دیکھا گیا۔
پاکستان کے75ویں یوم آزادی کے موقع پر اسلام آباد میں منعقد کردہ مرکزی تقریب میں رقص کی محفل شامل کرنے پر حکومت کو سوشل میڈیا پرشدید تنقید کا سامنا ہے۔ تفصیلات کےمطابق وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سےجناح کنونشن سینٹر اسلام آباد میں پرچم کشائی کی مرکزی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں وزیراعظم شہباز شریف سمیت اعلی حکومتی شخصیات نےشرکت کی،اس تقریب میں ایک موقع پر ڈانس پرفارمنس بھی شامل کی گئی تھی جس میں مرد وخواتین ڈانسرز نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ تاہم اس سیگمنٹ کی ویڈیو ٹویٹر پروائرل ہوئی اور حکومت کیلئے شدید تنقید کی وجہ بن گئی، پی ٹی آئی کے رہنماؤں سمیت ٹویٹر صارفین نے حکومت کو آڑےہاتھوں لیتے ہوئے یوم آزادی کے موقع پر ڈانس کی محفل منعقد کرنے پر خوب تنقید کی جس پر پی ٹی وی انتظامیہ کو بھی ردعمل دینا پڑا۔ پی ٹی وی انتظامیہ نے اپنے آفیشل ٹوئٹر پیغام سے کہا کہ براہ کرم 14 اگست 2022 کو روایتی اقدار اور جذبات کے مطابق منعقد ہونے والی قومی تقریب کو نقصان پہنچانے کے لیے مذموم عناصر کی جانب سے جعلی ویڈیوز اور گھناؤنے پروپیگنڈے کے استعمال سے آگاہ رہیں۔ اس موقع پر پی ٹی وی انتظامیہ نے کچھ ویڈیوز بھی شئیر کیں۔ پی ٹی وی کا مزید کہنا تھا کہ 14 اگست کو منعقد قومی سلامتی، یکجحتی اور حب الوطنی کو اُجاگر کی گئی قومی تقریب پر جھوٹ، بہتان اور بے بنیاد اِلزام لگانا ایک جرم سے کم نہیں ۔۔۔ دیکھیے تقریبات کی اصل فوٹیج۔۔۔ لیکن سوشل میڈیا صارفین نے پی ٹی وی کی اس وضاحت کو قبول نہ کیا اور کہا کہ یہ وہی ویڈیوز ہیں جو آپ نے اپنے آفیشل یوٹیوب چینل پہ شئیر کی ہیں، اپنی غلطی مان لیں اورغلطی پر اصرار نہ کریں۔

Back
Top