پشاور پولیس لائنز دھماکے کیخلاف احتجاج کرنیوالے پولیس اہلکار جمشید خان کو ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ کانسٹیبل جمشید کے خلاف محکمانہ انکوائری کی گئی، پولیس اہلکار نے شو کاز نوٹس کا غیرتسلی بخش جواب دیا۔متعلقہ کانسٹیبل کو ذاتی حیثیت میں بھی بلایا گیا لیکن حاضر ہونے میں ناکام رہا۔
اپنی برخاستگی پر جمشید خان نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پولیس لائنز دھماکے کے خلاف احتجاج کرنے پر مجھے نوکری سے ہٹایا گیا۔میں نے جو بیان دیا تھا جو ٹک ٹاک پر وائرل ہوا، نوکری سے فارغ کرنے سے متعلق قانونی راستہ اختیار کروں گا۔
فوادچوہدری نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی عوام سوچ رہی تھی پشاور دھماکہ کرنے والوں کو سزا ملے گی یہاں پشاور دھماکہ کے خلاف احتجاج کرنیوالوں کو برطرفیوں کے احکامات مل رہے ہیں۔
ایمل ولی خان نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پشاور پولیس لائنز دھماکہ کے بعد توقع تھی کہ پولیس کے مورال کو بلند رکھنے کیلئے انکی حوصلہ افزائی ہوگی لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں سیکھنے کے عمل پر شاید پابندی ہے۔ پولیس اہلکار جمشید نے جرات کا مظاہرہ کیا اور یہاں جرات کا صلہ "ڈسمس" کرنا دیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سابق آئی جی معظم انصاری نے کہا تھا کہ وہاں احتجاج کرنیوالوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ پولیس بھی انسان ہیں اور اپنی حفاظت کیلئے آواز اٹھانا جرم نہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طور پر جمشید کو بحال کیا جائے کیونکہ یہ صرف جمشید نہیں بلکہ پوری پولیس فورس کی عزت کا سوال ہے
عمیز ہ علی کا کہنا تھا کہ پولیس سپاہی جمشید خان نے پشاور پولیس لائنز میں ہونے والے دھماکے میں شہید پولیس جوانوں کے لیے انصاف اور امن کے لئے احتجاج کیا جسکی وجہ سے انکو نوکری سے فارغ کردیا۔ تمام اہلیان وطن جمشید خان کے لئے آواز اٹھائیں اور جمشید خان کا ساتھ دیجئے
دانیال عزیز کا کہنا تھا کہ پشاور پولیس لائنز میں دھماکہ کے بعد احتجاج کرنے والا پولیس اہلکار ملازمت سے فارغ کردیا گیا، کیا پولیس انسان نہیں, انکے جذبات نہیں؟ دھماکے میں 80 سے زیادہ افراد شہید ہوئے تھے، انکو اپنے بھائیوں کی شہادت پر غم اور غصے کا حق بھی نہیں ؟
جنید خان نے تبصرہ کیا کہ اس ریاست میں اپنا حق مانگنا جرم ہے