سوشل میڈیا کی خبریں

پنجاب پولیس نے خبردار کردیا، ٹوئٹر پر پنجاب پولیس نے لکھا جھوٹی ایف آئی آر درج کروانے پر جرمانہ چھ ماہ قید یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ پنجاب پولیس کے ٹوئٹ پر صارف نے لکھا آج آپ کے آئی جی نے اعتراف کیا ہے کہ ظلِ شاہ کے قتل پر عجلت میں عمران خان پر جھوٹی ایف آئی آر درج کی گئی ایک اور صارف نے لکھا یہ تو موجودہ آئ جی پر سیدھا سیدھا کیس بنتا ہے، عمران خان پر جھوٹا 302 کا کیس بنانے پر. ایک صارف نے لکھا جو تو اب یہ ٹویٹ ڈیلیٹ نہ کر دینا، پی ٹی آئی پر ہیں ہی سب جھوٹے مقدمات۔ احمد رضا نے لکھا جو ایف آئی آر عمران خان کے خلاف علی بلال کے قتل کے متعلق کاٹی گئی وہ جھوٹی ہے تو سیکشن 182 کے مطابق کس کو سزا سنا رہی ہماری معزز پولیس۔ محمد نعیم اختر نے لکھا مطلب آئی جی پنجاب پر 182 لگے گی اور سزا اور جرمانہ دونوں ہوں گے تو کرو بسم اللہ۔ بابر ملک بولے پھر تو آئی جی پنجاب کو چھ ماہ کی قید بنتی ہے ظلے شاہ کی جھوٹی ایف آئی آر درج کرنے پر۔
نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی اور ظل شاہ کے ساتھ پکڑے گئے پی ٹی آئی کارکنوں کے بیانات میں تضادات تفصیلات کے مطابق نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی اور ظل شاہ کے ساتھ گرفتار گئے پی ٹی آئی کارکنوں کے بیانات میں تضادات سامنے آگئے۔ ذرائع کے مطابق پولیس نے ان نوجوانوں کو گرفتار کرکے ان سے اپنی مرضی کے بیانات لئے تھے۔ ایک بیان میں محسن نقوی کہتے ہیں کہ ہماری پلاننگ یہ تھی کہ ان لڑکوں کو پکڑا جائے اور کہیں دور چھوڑا جائے جبکہ گرفتار ایک کارکن کہتا ہے کہ ہمیں واش روم آیا ہوا تھا، ہم نے پولیس والے سے کہا کہ دروازہ کھول دو ہم نے واش روم کرنا ہے،انہوں نے دروازہ کھولا تو ہم واش روم کے بہانے فرار ہوگئے۔ اسی طرح جہانزیب نامی کارکن کو بھی گرفتار کرکے ان سے بیان لیا گیا۔گرفتار کارکن کا کہنا تھا کہ ڈاکٹریاسمین راشد ہمیں خان صاحب کے پاس لیکر گئیں، ہم نے خان صاحب کو ساری بات بتائی تو انہوں نے ہمیں شاباش دی دوسری جانب نگران وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ وہ ڈاکٹریاسمین راشد کے پاس گئے جس پر ڈاکٹر یاسمین راشد اندرجاکر باہر آتی ہیں اور کہتی ہیں کہ میں نے خان صاحب کو سب بتادیا ہے آپ جائیں اور ریسٹ کریں۔ اسی طرح محسن شاہ نامی کارکن کے بیانات میں بھی تضادات ہیں، محسن شاہ نے بیان دیا کہ ضل شاہ کو گاڑی سے اتار دیا گیا جس کی ویڈیو غریدہ اور ن لیگی رہنماؤن نےٹویٹ کی ۔ لیکن کچھ روز قبل ہی محسن شاہ نے رہائی کے بعد اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ گاڑی میں موجود سب لوگ اتار دیے گئےتھےصرف ظب شاہ پولیس وین میں موجود تھا یادرہے کہ محسن شاہ ہی وہ کارکن ہے جس نے گرفتار ورکرز کی ویڈیوز بناکر اپلوڈ کیں۔
گزشتہ روز نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی اور آئی جی پنجاب نے ظل شاہ کے قتل پر پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے ظل شاہ کے قتل کو حادثہ پیش کرنیکی کوشش کی اور تمام ملبہ تحریک انصاف پر ڈال دیا۔ نگراں وزیرِ اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کہا ہے کہ گھر چلا جاؤں گا لیکن کسی کے دباؤ میں نہیں آؤں گا، اس منصب پر نہ بیٹھا ہوتا تو کسی اور طریقے سے جواب دیتا۔ انہوں نےمزید کہا کہ یاسمین راشد نے زیادتی کی، انہیں پتہ تھا کہ ایکسیڈنٹ ہے، ان کا معاملہ پولیس ٹیم پر چھوڑتا ہوں۔پہلے سازش اب قتل کا الزام لگایا گیا، دھمکی، گالم گلوچ اور ٹوئٹ سے گھبرانے والا نہیں ہوں۔ دوران پریس کانفرنس آئی جی پنجاب اور نگران وزیراعلیٰ صحافیوں کے سخت سوالوں کا تسلی بخش جواب نہ دے پائے اور انکے بیانات میں بے تحاشہ تضادات سامنے آئے جس پر سوشل میڈیا صارفین نے کہا کہ یہ پریس کانفرنس محسن نقوی کے خلاف چارج شیٹ بن سکتی ہے، سوشل میڈیا صارفین کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے یہ پریس کانفرنس کرکے خود کو پھنسالیا ہے، جلد یا بدیر انہیں جواب دینا پڑے گا۔۔ معصوم ظل شاہ کا خون انکے گلے پڑگیا ہے۔ ارشادبھٹی کا کہنا تھا کہ پوچھنا یہ کہ بقول پولیس جب ظلےشاہ جاں بحق ہوا حادثے میں تو قتل کا مقدمہ کیوں درج کیا گیا ؟ اور پوچھنا یہ بھی کہ بقول پولیس جب مقدمہ درج کرتےوقت انہیں یہ علم ہی نہیں تھا کہ ظلےشاہ حادثےمیں جاں بحق ہوا یا قتل ہوا تو پھر قتل کامقدمہ کیوں ہوا اور قتل کامقدمہ عمران خان پر کیوں ہوا ؟ ملیحہ ہاشمی نے اس پر تبصرہ کیا کہ ارشد شریف کے بیہمانہ قتل کو بھی بلکل اسی طرح کار ایکسیڈنٹ کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ اور اب ظل شاہ کو اذیت دے کر کیے گئے قتل کو اسی بےحسی سے کار ایکسیڈنٹ کا رنگ دے کر جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ اللّه غارت کرے ان بےشرم لوگوں کو۔ دونوں جہانوں کی ذلت انکا مقدر بنے۔ آمین سعید بلوچ نے کہا کہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب اور آئی جی پنجاب یہ بوجھ نہیں اٹھا پائیں گے پریس کانفرنس شروع ہونے سےقبل احتشام نامی سوشل میڈیاصارف نے دعویٰ کیا کہ یہ پریس کانفرنس محسن نقوی کے گلے پڑے گی ۔ یہ ٹویٹ سنبھال کر رکھیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ میں نے 3 گھنٹے پہلے بتادیا تھا لالہ مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ یہ دونوں اس پریس کانفرنس کی وجہ سے مقدمات میں پھنس جائیں گے کیونکہ انہوں نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ہم نے پروگرام بنایا تھا کہ ورکروں کو گرفتار کر کے دور چھوڑ دینگے ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ یہ پریس کانفرنس کر کے خود پھنس گے۔حادثہ بول کر ۔اگر حادثہ تھا تو 302 کی جعلی ایف آئی آر کرانا بھی بہت بڑا جرم ہے۔ اور حادثے سے زخم کیسے آے۔ نازک اعضا پر زخموں کا حادثہ سے کیا کام صحافی عمران میر کا کہنا تھا کہ ظل شاہ کی موت حادثہ مان لیا جائے تو سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی قیادت پر قتل اور انسداد دہشت گردی کی 11 دفعات کے تحت مقدمہ درج کیوں کیا گیا ؟ وزیراعلی اور آئی جی کی پریس کانفرنس سیاسی قیادت کے خلاف مقدمہ جھوٹا ہونے کا اعتراف بھی ہے سمیع ابراہیم نے تبصرہ کیا کہ محسن نقوی اور ائی جی پنجاب کی پریس کانفرنس ۔۔۔۔دامن پے کوئی چھینٹ نہ خنجر پر کوی داغ تم قتل کرو ھو یا کرامات کرو ھو انورلودھی کا کہنا تھا کہ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کی پریس کانفرنس جھوٹ کا پلندہ ہے.. ضلے شاہ کی موت ٹریفک حادثے میں نہیں پولیس تشدد سے ہوئی ہے.. کیا یہ لوگ عوام کو احمق سمجھتے ہیں؟ اظہر مشوانی کا کہنا تھا کہ محسن نقوی اور آئی جی پولیس پریس کانفرنس میں آئیں بائیں شائیں کر رہے۔۔ لیکن اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ #ظلِ_شاہ کے جسم کے 26 حصوں پر تشدد کیسے ہوا؟ اگر یہ حادثہ ہے تو اس کے نازک اعضأ پر کیسے تشدد ہوا؟ حادثہ ہے تو وزیرصحت نے پوسٹمارٹم بدوالنے کی کوشش کیوں کی؟ عمران بھٹی نے تبصرہ کیا کہ نگران وزیراعلی پنجاب اور آئی جی کی پریس کانفرنس میں شرکت کی ظل شاہ کی موت کو حادثہ ثابت کرنے کے لیے حکومت کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے آئی جی صاحب کے پاس کوئی لاجک نہیں تھی کسی قسم کی وڈیو،سی سی ٹی وی ،تصاویر کوئی چیز حادثہ کے ثبوت کے طور پر مجود نہیں ہے ایڈوکیٹ عبدالغفار نے تبصرہ کیا کہ پوری پریس کانفرنس میں زرداری کے بچے نے یہ نہیں بتایا کہ جب ظل شاہ پولیس حراست میں پریزن وین میں تھا تو اس کو رہا کب کیا گیا رہائی کی ہی کوئی ویڈیو دکھا دیں جھوٹے ایکسیڈنٹ کی تو آپ کے پاس ویڈیو ہے نہیں۔
اسلام آباد پولیس نے صحافیوں پر تشدد کے معاملے پر 12 روز بعد پولیس نے 200 صفحات پر مشتمل رپورٹ عدالت میں جمع کروادی ہے، حیران کن طور پر رپورٹ کے 150 صفحات اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کی ٹویٹس پر مشتمل تھے۔ جن صحافیوں پر تشدد ہوا ان کی ٹویٹس کو عدالت میں پیش کیا گیا، انہیں صحافیوں نےعدالت میں پیش کی گئیں اپنی اپنی ٹویٹس کی تصاویر ٹویٹر پر بھی شیئر کیں۔ ایکسپریس نیوز سے منسلک صحافی ثاقب بشیر پولیس کی جانب سے ان کی پانچ مارچ کی ایک ٹویٹ کو اپنی رپورٹ میں شامل کرنے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پولیس نے اپنی رپورٹ میں توقعات کے عین مطابق صحافیوں کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی۔ پولیس نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ پورے پاکستان کے صحافیوں کی 150 صفحات پر شائع کردہ ٹویٹس بھی ساتھ شامل کردیں ، پولیس کے اس اقدام کا مطلب یہ پیغام دینا ہے کہ صحافی ہم پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ ثاقب بشیرنے اپنی دوسری ٹویٹ میں کہا کہ اسلام آباد کی عدالت میں جسٹس آف پیس نےدونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد اندراج مقدمہ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے، جو تھوڑی دیر بعد سنایا جائے گا۔ سماء ٹی وی کے کورٹ رپورٹر سہیل رشید نے بھی اپنی ٹویٹ پر مبنی صفحے کی تصویر شیئر کی اور کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ جو کچھ ہم لکھ رہے تھے اسے راوی سن بھی رہاہے، لکھ بھی رہا ہے اور خود ہی ریکارڈ پر بھی رکھ رہا ہے تاکہ بوقت ضرورت استعمال کیا جاسکے۔ مبشر زیدی نے بھی اپنی 4 مارچ کی ایک ٹویٹ کی تصویر شیئر کی اور کہا کہ پولیس نے جو رپورٹ جمع کروائی اس میں سے150 صفحات پر تو صحافیوں کے ٹویٹس ہیں۔ صحافی و رپورٹر فیض محمود نے کہا کہ"اس شہر کا وہی مدعی وہی منصف۔۔۔ہمیں یقین تھا کہ قصور ہمارا نکلے گا"۔ صالح مغل نے کہا کہ پولیس نے آج صحافیوں پر تشدد کیس کی رپورٹ عدالت میں جمع کروئی، تاہم حیران کن طور پر اس رپورٹ میں 150 صفحات پر صحافیوں کے ٹویٹس ہیں۔ صبیح الحسن نے کہا کہ اسلام آباد کی صورتحال کراچی جیسی ہوتی جارہی ہے مگر پولیس کو ٹویٹر ٹویٹر کھیلنے کا چسکا پڑگیا ہے، پولیس نے یہ نہیں بتایا کہ صحافیوں کی درخواست پر اب تک حملہ کی ایف آئی آر کیوں نہیں کاٹی گئی؟ عابد علی آرائی بھی ان صحافیوں میں شامل تھے جن کی ٹویٹ کو پولیس نے عدالت میں اپنی رپورٹ کا حصہ بناکر پیش کیا۔
سی پی او ملتان کے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ سے مظالم سے متعلق قرآنی آیت کی ٹویٹ ڈیلیٹ کردی گئی ہیں جس سے اس معاملے پر مختف سوالات جنم لے رہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ملتان پولیس آفیشل کے ویری فائیڈ ٹویٹر اکاؤنٹ سے آج صبح 6 بج کر 55 منٹ سورہ ابراہیم کی ایک آیت کا ترجمہ بیان کیا گیا، قرآن پاک کی یہ آیت مظالم سے متعلق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ" اور ہرگز یہ نا سمجھنا کہ جو کچھ یہ ظالم لوگ کررہے اللہ اس سے غافل ہے ، وہ تو انہیں اس دن کیلئے مہلت دے رہا ہے جس دن آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہی جائیں گی"۔ تاہم بعد میں یہ ٹویٹ ڈیلیٹ کردی گئی جس سے اس معاملے میں مختلف سوالات جنم لینا شروع ہوگئے ہیں، سینئر صحافی و اینکر پرسن اقرار الحسن نے بھی ٹویٹ ڈیلیٹ ہونے کا سکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے کہا کہ"ملتان پولیس کا یہ آفیشل ٹویٹ کس کیلئے ہے؟" صحافی احتشام الحق نے ٹویٹ ڈیلیٹ کرنے سے متعلق قیاس کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ آئی جی صاحب کی کال آگئی ہے۔ نجی ٹی وی چینل سےمنسلک صحافی نے سوال اٹھایا کہ اس ٹویٹ کو ڈیلیٹ کرنے کی نوبت کیوں آئی ہوگی؟ صحافی و یوٹیوبر سلمان درانی نے کہا کہ ملتان پولیس نے یہ ٹویٹ ڈیلیٹ کردیا، کس کا فون آیا ہوگا؟ مبشر حسین نے کہا کہ ٹویٹ ڈیلیٹ کروادیں مگر قرآن مجید لاریب کتاب ہے، اس میں لکھا ہر ایک لفظ حق اور اٹل ہے، اللہ کا وعدہ سچا ہے ، آج نہیں تو کل ظالم اپنے انجام کو ضروری پہنچیں گے۔
جنرل (ر) فیض حمید کے بیان پر نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع ورہنما مسلم لیگ ن خواجہ آصف نے کہا کہ کسی بھی فوجی پر پابندی نہیں ہے کہ وہ غیرقانونی احکامات کو مانے! غیر قانونی احکامات ماننے سے جنرل (ر) فیض حمید با آسانی انکار کرسکتے تھے!مگر جنرل (ر) فیض حمید نے ایسا نہیں کیا ، جس کا مطلب ہے کہ وہ جان بوجھ کر حصے دار بنے، تو انہیں ذمہ داری بھی لینا پڑے گی۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر خواجہ آصف کے بیان کے بعد بہت سے سوشل میڈیا صارفین نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا! سینئر صحافی وتجزیہ نگار عمران ریاض خان نے وزیر دفاع کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے ٹویٹر پیغام میں لکھا کہ: خواجہ آصف نے بالکل شہباز گل والا بیان دے دیا! اب دیکھتے ہیں غم و غصہ ، مقدمات، تشدد اور گرفتاریاں! سینئر صحافی وتجزیہ نگار عامر متین نے اپنے ٹویٹر پیغام میں سوال اٹھایا کہ: میں ہی نہیں ہر پاکستانی جاننا چاہتا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر صاحب شہباز گل اور خواجہ آصف جو کہ وزیر دفاع بھی ہیں دونوں کے بیان میں کیا فرق ہے؟ پی ٹی آئی کارکن عنبرین نے ردعمل میں لکھا کہ: سو فیصد یہی باتیں شہباز گل نے کہی تھیں تو اس پر کہا گیا کہ فوج میں بغاوت کی سازش اور یہی جیو والے اس موقف کے ساتھ تھے اور شہباز گل کو غلط کہہ رہے تھے! سینئر صحافی عمر انعام نے خواجہ آصف کے بیان پر ردعمل میں لکھا کہ: خواجہ آصف کے بیان پر کوئی غم و غصہ نہیں آیا بے غیرتو؟؟ سینئر صحافی فیاض راجہ نے ٹویٹر پیغام میں لکھا کہ: کیونکہ شہباز گل اور اس کا باپ اپنی محنت کے بل بوتے پر کامیابی حاصل کرنے والا ایک "مڈل کلاسیا" ہے اس لئے ریاست حرکت میں آگئی! مگر خواجہ آصف چونکہ ایک آمر فوجی جرنیل کے "تابعدار لونڈے" خواجہ صفدر کی اولاد ہے اس لئے ریاست چپ سادھ لے گی! ایک سوشل میڈیا صارف عثمان فرحت نے لکھا کہ: خواجہ آصف نے جیو کے پروگرام میں لفظ بہ لفظ وہی بیان دے دیا جس کی بنیاد پر شہباز گل پر غداری کا مقدمہ درج کیا گیا تھا، الٹا لٹکا کر تشدد کیا گیا، عماد یوسف کو آدھی رات کو گھر سے اٹھایا گیا اور ARY کو بند کر دیا گیا تھا۔ سینئر صحافی عبید بھٹی نے لکھا کہ: قانون تو یہ ہے کہ خواجہ آصف، شاہ زیب، میر ابراہیم، رانا جواد اور جیو کے خلاف نائی درزی سبزی فروش اور مجسٹریٹ سیکٹر کمانڈرز کی ہدایت پر بغاوت کے پرچے دیں جیو جنگ بند کیا جائے، گاڑی توڑ کر خواجہ گرفتار ہوں، رات گئے نقاب پوش میر ابراہیم اور رانا جواد کو فیملی کے سامنے مارتے ہوئے اغواء کریں ننگا کرکے تشدد ہو کرنٹ لگے تھانہ تھانہ کچہری کچہری گھمایا جائے، شاہ زیب ملک چھوڑنے پر مجبور ہو پھر hunt کرکے مارا جائے اسکو حادثہ بتایا جائے۔ پھر اس قتل کا پرچہ بھی میر شکیل اور نوازشریف پر دینے کی کوشش ہو۔ شاہ زیب کے جنازے کے وقت DGs پریس کانفرنس کریں سمگلنگ کا اینگل اٹھائیں صحافی مزید مصالحہ لگائیں صافی لفافہ ہونے کی تصدیق مانگے کامران شاہد ٹارچر والی تصویروں پر پروگرام کرے شاہ زیب کے باتھ روم سے کسی خاتون کے انڈرگارمنٹس برآمدگی کی خبریں چلیں اس کے فیس بک پیج ہیک کرکے پورن مواد لائیک کیا جائے اسکی بیوی کی عدت میں شادی کی خبریں اور ٹرینڈ چلائے جائیں، لیول پلیئنگ فیلڈ اور انصاف تو یہی ہے! رہنما پی ٹی آئی ڈاکٹر ارسلان خالد نے لکھا کہ: کیا آج خواجہ آصف کے بیان کو کسی دکان پر بیٹھے نائی ، حلوائی ، درزی ، باورچی نے اپنے موبائل یا ٹی وی پر نہیں سنا! یا یہ سب کے سب اپنی دکانوں پر صرف پی ٹی آئی والوں کے بیان ہی سنتے ہیں؟ طاہر ملک نے لکھا کہ: زیادہ گہرائی میں جانے کی ضرورت ہی نہیں! بس فرق اتنا ہے ڈاکٹر شہباز گل مڈل کلاس ہیں اور خواجہ آصف اشرافیہ ! اور اشرافیہ پہ کسی ادارے یا کورٹ کی غیرت نہیں جاگتی! یاد رہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید نے خود پر الزامات سے متعلق مؤقف دیتے ہوئے کہا تھا کہ فوج میں فیصلہ چیف کا ہوتا ہے، جس دور سے متعلق الزامات لگے اس وقت میجر جنرل کے عہدے پر تھا، کیا تنہا حکومت ختم کرنا ممکن تھا؟ سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید نے یہ بھی کہا کہ تمام فیصلے عدالتوں نےکیے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے تازہ ترین گیلپ سروے میں عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دھاندلی قرار دیدیا ہے، سوشل میڈیا صارفین نے احسن اقبال کے اس بیان پر دلچسپ جوابات دے دیئے ۔ تفصیلات کے مطابق احسن اقبال نے گیلپ کے تازہ ترین سروے میں سامنے آنے والی عمران خان کی مقبولیت پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے مقابلے میں اکیلے نواز شریف کو گنا جاتا تو سروے درست ہوتا، نواز شریف، مریم نواز اور شہبازشریف میں ووٹ تقسیم کرکے عمران نیازی اکیلے کیلئے ووٹ شمار کرنا تکنیکی دھاندلی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین نے احسن اقبال کے اس بیان پر کرارے جوابات دیے اور احسن اقبال کو آئینہ دکھایا، ایک صارف نے کہا کہ موجودہ دور کے سب سےبڑے فلسفی فرمارہے ہیں کہ نواز شریف کے سامنے لوگوں نے شہباز اور مریم کو فوقیت دی اس لیے ہمارے امام شریف کو کم ووٹ ملے۔ اسریٰ نے کہا کہ اس سائنس کے حساب سے پی ڈی ایم کے تمام لیڈران کی مقبولیت 196 فیصد بنتی ہے، اس کا مطلب یہ تو عمران خان سے واقعی زیادہ مقبول ہوئے۔ علی نامی صارف نے کہا کہ ایسے تو آپ کے ووٹ 100 فیصد سے بھی بڑھ جائیں گے، آپ(احسن اقبال) واقعی اتنے ڈفر ہیں یا ایکٹنگ کرتے ہیں۔ مغیث غور ی نے کہا کہ اگر کسی دوسرے ملک کا وزیر منصوبہ بندی ایسا بیان دیتا تو وہاں کے لوگ اسے کوڑے دان میں پھینک دیتے۔ عدیل احمد نے کہا کہ ان کی پوری پارٹی جاہلوں کا ٹولہ ہے، پی ٹی آئی سے اگر تین لوگ سروے کیلئے لیے جاتے تو ان کی پوری ریٹنگ برباد ہوجانی تھی۔ بابادرویش نے کہا کہ یہ ن لیگ کے ذہین انسانوں میں سے ایک ہے، سوچیں باقیوں کا کیا ہوگا؟ ایک اورصارف نے کہا کہ یہ ہیں مسلم لیگ ناکام کے پروفیسر جو ایک سادہ سے سروے کو سمجھنے میں ناکام ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو کابینہ ارکان اور سرکاری افسران کے فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام نا کرنے کا بیان مہنگا پڑگیا ہے،ٹویٹر پر سخت ردعمل سامنے آگیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ کابینہ ارکان اور سرکاری افسران فائیو اسٹار ہوٹلز میں قیام نہیں کریں گے۔ اسحاق ڈار کے اس بیان پر سوشل میڈیا پر سخت ردعمل سامنے آیا، صارفین نے اسے حکومت کی ڈرامہ بازیاں قرار دیتے ہوئے معیشت کی بہتری کیلئے موثر اور ٹھوس اقدامات اور پالیسی اپنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ موجودہ حکومت کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے صحافی سلیم صافی نے بھی اس بیان پر وفاقی وزیر خزانہ کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ ان ڈراموں کے بجائے فیصلہ کریں کہ جن کی اولادیں اور کاروبارباہر ہیں وہ پاکستان میں اہم عہدوں پر فائز نہیں ہوسکتے، ایک ارب سے زائد اثاثے رکھنے والوں کیلئے ون ٹائم خصوصی ٹیکس کا قانون بنائیں، سرکاری عمارتیں نیلام کردیں۔ رہنما پی ٹی آئی اور وزارت خزانہ کے سابق ترجمان مزمل اسلم نے کہا کہ کابینہ اور سرکاری افسران فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام نہیں کرسکتی تاہم سرکاری سیمینار فائیو اسٹار میں ہورہا ہے۔ واہ واہ زندگی۔ نعمان پٹیل نے اسحاق ڈار سے ڈرامہ بازیاں بند کرنے اور لوٹی دولت واپس لانے کا مطالبہ کیا۔ ایس حیات نے بھی اس اقدام کو ڈرامہ بازی قرار دیا اور کہا کہ جو کرنا چاہیے حکومت میں اس کی ہمت نہیں ہے، آپ بس قوم کو نچوڑ نچوڑ کر اپنی عیاشیاں جاری رکھیں۔ ایک اورصارف نے کہا فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام نا کرنے کے اقدام کا اعلان فائیو اسٹار ہوٹل میں منعقد کیے گئے سیمینار میں کیا گیا۔ ایک اور ٹویٹر اکاؤنٹ سے فائیو اسٹار ہوٹل میں سرکاری خرچے میں منعقد اس سیمنیار کی جانب ہی نشاندہی کی گئی۔
گزشتہ روز جاں بحق ہونے والے پی ٹی آئی کارکن ظل شاہ کیس کی تحقیقات کےدوران پولیس اور قانون نافذ کرنےو الے اداروں نے ہارون جاوید فاروقی کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر خرم سلام نامی صارف نے کچھ ویڈیوز شیئر کیں اور کہا کہ بحریہ ٹاؤن لاہور کے رہائشی پی ٹی آئی کے کارکن ہارون جاوید فاروقی کل اپنی اہلیہ کے ہمراہ زمان پارک میں پی ٹی آئی کی ریلی میں شریک تھے، انہیں انتظامیہ نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ خرم سلام کی شیئر کردہ ویڈیوز میں ایک ویڈیو ہارون جاوید فاروقی اور ان کی اہلیہ کی تھی، مسز ہارون نے اپنے ویڈیو بیان میں مریم نواز شریف پر طنز کے تیر برساتے ہوئے کہا تھا کہ ہم رات کے 2 بجے یہاں عمران خان کیلئے موجود ہیں میرے ساتھ میرے شوہر بھی ہیں، آپ نے دو دن گوجرانوالہ میں گزارے مگر نا آپ کے بھائی آپ کے ساتھ تھے نا شوہر اور والد تو آپ کےویسے ہی بیمار ہیں۔ ذرائع کے مطابق ہارون جاوید کو پی ٹی آئی کارکن ظل شاہ کیس کی تحقیقات کیلئے پولیس اور قانون نافذکرنے والے اداروں نے اپنی تحویل میں لیا ہے۔
گزشتہ روز پولیس کی حراست میں جاں بحق ہونے والے پی ٹی آئی کارکن کی پولیس وین میں ویڈیو بنانے والا ساتھی کاشف سامنے آگیا ہے۔ ٹویٹر پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فرخ حبیب نے کاشف کی ویڈیو شیئر کی اور کہا کہ یہ وہ شخص ہے جس نے کل قیدیوں کی گاڑی میں علی بلال عرف ظل شاہ کی ویڈیوبنائی تھی، کاشف نے حکومت کے تمام جھوٹے پراپیگنڈے کی ہوا نکال دی ہے، انہوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ قیدیوں کی وین میں بنائی گئی ویڈیو پرانی نہیں بلکہ کل کی ہے۔ ویڈیو میں پی ٹی آئی کارکن کاشف فیاض نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ 8 مارچ 2023 کو پی ٹی آئی کی ریلی تھی ، میں اور ظل شاہ کل ایک قیدیوں کی وین میں اکھٹے بند تھے، ابھی پتا چلا کہ پریزن وین میں بنائی گئی ویڈیو کو پولیس پرانا قرار دے رہی ہے۔ انہوں نے حلف دیتے ہوئے کہا کہ میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ آج سے قبل میں اور ظل شاہ نا پہلے کبھی ملے اور نا ہی کسی پولیس وین میں اکھٹے ہوئے، جو ویڈیو جاری کی گئی وہ میں نے خود بنائی، ظل شاہ میرے ساتھ ہی پولیس وین میں بند تھا اس کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ سینئرصحافی و تجزیہ کار حامد میر نے بھی اس معاملے پرٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ کاشف کا کہنا ہے کہ مرحوم ظل شاہ نے اس کے موبائل فون سے ہی اپنے والد کو گرفتاری کی اطلاع دی، اسی شخص نے ظل شاہ کے ساتھ ایک ویڈیو بنائی جو بعد میں سوشل میڈیا پر پھیل گئی، عمران خان نے بھی یہی ویڈیو شیئر کی تھی۔ حامد میر نے اپنی دوسری ٹویٹ میں ایک اور ویڈیو شیئر کی جس میں پولیس وین کی جالیوں سے ظل شاہ کو دیکھا جاسکتا ہے، حامد میر نے بھی اس کی تصدیق کی اور کہا کہ یہ ویڈیو پی این این کے رپورٹر نے بھیجی اور بتایا کہ کل شام اس پریزن وین کو مال روڈ پر مسجد کے سامنے نہر کے پل یہ ویڈیو بنائی گئی، اب جھوٹ اور سچ کا پتا صرف جوڈیشل کمیشن سے ہی لگایا جاسکتا ہے۔
پی پی رہنما اور وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی مکمل آزادی ہے جہاں حکومت اپنے اس عزم پر مکمل پختہ عزم کے ساتھ کھڑی ہے۔ حنا ربانی کھر نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ہماری پوری قوم اپنے دل میں انسانی حقوق کی حفاظت کا جذبہ لیے ہوئے ہے اور ہم اس کی حفاظت بھی کر رہے ہیں۔ ہمارا آئین بھی اسی پر کھڑا ہے اور اپنی پالیسیاں بناتے ہوئے بھی ہم اس کا خیال رکھتے ہیں۔ تاہم صحافی اور اہل علم لوگ ان کے اس بیان سے متفق نہیں ہیں۔ امتیاز گل نے اس پر کہا "کیا واقعی ایسا ہے؟ اے آر وائے پر لگی پابندی کا کیا؟ عمران خان کی تقریر پر لگی پابندی کا کیا؟ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف 76 کیس بنا دیئے گئے، منتخب میڈیا ہاؤسز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایمنسٹی نے بھی تم لوگوں کو ہوش کے ناخن لینے کا کہا، آپ کی ان باتوں پر کوئی یقین کرے گا؟ خاور گھمن نے کہا کہ اسی وجہ سے تو ہم پوری دنیا میں عزت کما رہے ہیں۔ عدیل راجہ نے کہا یہ بالکل جھوٹ ہے کیونکہ حکومت ملک کے سب سے مقبول چینل اے آر وائے کو نشانہ بنا رہی ہے۔ پہلے بھی اس چینل پر 2 بار پابندی لگائی گئی ہے اور ملک کے مقبول ترین صحافی ارشد شریف پر متعدد مقدمات بنائے گئے جبکہ اس کے قاتل آج تک قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔ شعیب خان نے کہا پاکستان میں ہر دن انسانی حقوق کی کھلے عام پامالی جاری ہے۔ جہاں عمران خان کی تقریر دکھانے پر پابندی ہے، اے آر وائے کو بند کر دیا گیا ہے۔ ایک پریس کانفرنس پر فواد چودھری کے خلاف مقدمات درج کرا دیے گئے ہیں۔ عام شہریوں کو ٹوئٹ کرنے پر سزا دی جاتی ہے۔ پُرامن احتجاجیوں کو مارا پیٹا جاتا ہے۔ یہ خاتون کھلا جھوٹ بول رہی ہے کیونکہ اعظم سواتی اور شہباز گل پر دوران حراست بدترین تشدد کیا گیا ہے۔
سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے منسلک ایک افواہ میڈیا پر زیر گردش تھی جس سے متعلق تجزیہ عادل شاہزیب نے دعویٰ کیا تھا کہ ثاقب نثار نے ان سے گفتگو میں اعتراف کیا کہ ان کا جنرل (ر) قمر باجوہ اور جنرل (ر) فیض سے رابطہ رہا ہے۔ تاہم ثاقب نثار نے ان دعوؤں کو افواہ قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ نجی چینل کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے عادل شاہزیب نے کہا کہ سابق چیف جسٹس نے ان سے بات چیت کے دوران کہا کہ ان کا واٹس ایپ ہیک ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ سابق چیف جسٹس نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کا جنرل فیض کے ساتھ ابھی تک کوئی رابطہ ہے جبکہ عمران خان سے رابطوں کے سوال پر انکار کیا۔ دوسری جانب صحافی زاہد گشکوری کا کہنا ہے کہ ثاقب نثار نے انہیں بتایا کہ دو ہفتے قبل عمران خان نے ثاقب نثار سے رابطہ کر کے انہیں اپنے خلاف درج مقدمات میں مدد کرنے کی درخواست کی ہے۔ اس پر ثاقب نثار سے ملاقات کرنیوالا صحافی وقاص اعوان سامنے آگیا جس کا کہنا تھا کہ اس کو کہتے ہیں سٹوری ہائی جیک کرنا سراسر جھوٹ ہے ثاقب نثار صاحب ملاقات میں دو رپورٹر موجود تھے، ایک میں اور شاکر اعوان۔ انہوں نے مزید کہا کہ تین گھنٹے کی ملاقات میں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی ثاقب نثار نے عادل شاہزیب سے ٹیلی فونک گفتگو کی مکمل تردید کی ہے ۔ رپورٹر کو کریڈٹ دینا سیکھیں نجم الحسن باجوہ کا کہنا تھا کہاینکر عادل شاہ زیب ثاقب نثار سے ہونے والی بات چیت کو مختلف رنگ رہے ہیں حالانکہ ثاقب نثار نے عمران خان کے خلاف کوئی بات نہیں کی تھی! کل ہماری ثاقب نثار سے بات ہوئی تو عادل شاہ زیب کا پوچھا تو وہ عادل شاہزیب کا نام تک نہیں جانتے تھے انھوں نے کہا ہاں کسی کا فون آیا تھا لیکن میں نے وہ بات نہیں کی ثاقب نثار نے سخت الفاظ استعمال کیے اور کہا اس کہو باز رہے !! جب کہ صحافی نبیل رشید کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ثاقب نثار سے دوبارہ بات کی ہے ان کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ یا جنرل فیض سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی۔ جو صاحب وہ بیان مجھ سے منسوب کر رہے ہیں وہ باز رہیں۔ سابق چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے صرف یہ کہا تھا کہ میں بے خوف آدمی ہوں کسی کا پریشر نہیں لیتا بلاخوف و خطر فیصلے کرتا ہوں۔
کیا واقعی صدرعارف علوی آرمی چیف کا پیغام لیکر عمران خان کے پاس گئے؟ کیا واقعی عمران خان نے آرمی چیف سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا؟ فوادچوہدری نے کامران خان کی خبر کی تردید کردی کامران خان کے دعوے پر فوادچوہدری کا ردعمل سامنے آگیا ہے، فوادچوہدری کا کہنا تھا کہ چیئرمین عمران خان نے کبھی آرمی چیف یا ان کے کسی نمائندے سے ملاقات کی کوئی درخواست نہیں کی اسی طرح صدر نے بھی شہباز شریف سے ملاقات کے لیے آرمی چیف کی کوئی تجویز لے کر چیئرمین پی ٹی آئی سے کبھی رابطہ نہیں کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں۔ واضح رہے کہ صحافی کامران خان نے انکشاف کیا تھا کہ جنرل عاصم منیر نے ملک کی چوٹی کی بزنس لیڈرشپ کے ساتھ کل شب ملاقات میں بتایا انہوں نے صدرعلوی کے زریعے عمران خان کو وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کا پیغام بھیجا تھا مگر خان صاحب نہ مانے انہوں نے مزید کہا کہ آرمی چیف کے مطابق عمران خان نے آرمی چیف سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا جس پر انہوں نے کہا کہ وہ سیاسی عمل میں مداخلت کے لئے تیار نہیں۔
اپنے ٹوئٹر پیغام میں شیری رحمان نے لکھا کہ آج پھر عدالت سماعت میں "مفرور خان" کو بلاتی رہے گی لیکن وہ پیش نہیں ہوئے۔ جس نے کہا تھا "میں گھر پہ نہیں، 7 تاریخ کو عدالت میں پیش ہوں گا" وہ آج پھر عدالتی نظام اور قانون کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔ یہی وہ ملک کی اشرافیہ اور مافیہ ہے جو خود کو قانون سے بالا سمجھتی ہے۔ ان کامزید کہنا تھا کہ عدالت کی جانب سے کسی بھی مجرم کو اتنی سہولیات اور مراعات نہیں ملتی جتنی "لاڈلے خان" کو مل رہی ہیں ۔ کون سے مجرم کیلئے عدالت پورا پورا دن انتظار کرتی ہے؟ ہمارے رہنمائوں کو پابندی سے عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا جاتا تھا۔ قانونی اور عدالتی اصول سب کیلئے ایک کیوں نہیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ توشہ خانہ کیس کی عوامی سماعت کا مطالبہ کرنے والے عمران خان عدالت میں سوالات کا جواب دینے سے کیوں انکار کر رہے؟ ساری عمر چور چور کی سیاست کرنے والے اپنی چوری کا جواب دینے سے کیوں بھاگ رہے؟ توشہ خانہ سے چوری نہیں کی تو عدالت میں تلاشی دینے سے کیوں ڈر رہے؟ شیری رحمان کے اس ٹویٹ پر چوہدری کا ردعمل بھی سامنے آیا اور شیری رحمان کو بین ڈالنے کی ایکسپرٹ ردالی قرار دیدیا۔ شیری رحمان کو جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے زمانے میں جب امیر لوگوں کے گھر کوئ مر جاتا تھا تو مخصوص خواتین کو بلایا جاتا تھا جن کا کام مرنے والے کے سرہانے پر بین ڈالنا تھا، بین ڈالنے کی ایکسپرٹ ان عورتوں کو ردائیاں کہا جاتا تھا آج کل اپنی سیاست کے سرہانے بین ڈالنے کیلئے ایک پورا گروپ رکھا ہوا ہے۔۔ حناربانی کھر کو بھی فوادچوہدری نے ردالی قرار دیدیا ابصاکومل کو جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ سب خود اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر ناچتے ہیں اور باتیں ایسے فرماتے یہیں جیسے پتہ نہیں کتنی بڑی انقلابی ہو۔۔۔ اپنا قد دیکھ کر بات کرنی چاہئیے جعلی لبرل ابصاکومل نے ٹویٹ کیا تھا کہ عمران خان صاحب کی امیدوں کا محور صرف اسٹیبلمنٹ ہی تھی ، ہے اور رہے گی۔ دیکھتے ہیں اس مستقل مزاجی سے فوج کو آواز دینے کا کوئی نتیجہ نکلے گا، یا مزید بند گلی میں دھکیلے جائیں گے۔
عمران خان کا خصوصی پیغام غریدہ فاروقی تک پہنچ گیا، غریدہ فاروقی عمران خان کی تہہ دل سے شکرگزار غریدہ فاروقی نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ عمران خان صاحب کا خصوصی پیغام آج بذریعہ فواد چوہدری موصول ہوا کہ غریدہ فاروقی و دیگر صحافیوں کیخلاف سوشل میڈیا ہراسمنٹ /ٹارگٹنگ میں قطعاً تحریک انصافنہ تو کبھی شامل تھی نہ آئندہ کبھی ہو گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان نے ایسے واقعات کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور کڑی ہدایت کی ہے کہ تحریک انصاف سے وابستہ کوئی بھی ایسی کسی سرگرمی میں ملوث نہیں ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان صاحب کا یہ اقدام یقیناً قابلِ تحسین ہے؛ شکریہ خان صاحب۔۔ آپ ایک بڑے لیڈر ہیں اور آپ سے ایسے ہی احساسِ ذمہ داری اور اپنے فالوورز کی رہنمائی کی امید رہے گی۔ واضح رہے کہ غریدہ فاروقی سمیت کئی خواتین صحافیوں کاالزام ہے کہ تحریک انصاف کے سپورٹرز انہیں ہراساں کرتے ہیں،
معروف ٹی وی اینکر و وی لاگر عمران ریاض نے انکشاف کیا کہ لاہور ہائیکورٹ میں گزشتہ روز جب عمران خان کی ضمانت کے دستاویز جمع کرانے کی غرض سے لیجائے گئے تو سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں نے اند رہی نہیں جانے دیا۔ تفصیلات کے مطابق اس حوالے سے شاکر محمود اعوان نے ایک ویڈیو بھی ثبوت کے طور پر لگائی جس میں پولیس اہلکاروں کو دروازہ بند کیے کھڑا ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس پر ردعمل دیتے ہوئے عمران ریاض نے لکھا کے جیت انصاف کی ہی ہوتی ہے۔ اس پر ردعمل دیتے ہوئے سوشل میڈیا صارفین نے کہا کہ ثابت شدہ چوروں کی ضمانتیں منظور کرنے کیلئے عدالتیں اتوار کو کھلتی رہی ہیں۔ ایک اور صارف نے کہا ان حرکتوں سے ہم کیا اخذ کریں؟ معاملات کس طرف لے کر جارہے ہیں؟ ان حرکتوں سے پتہ چلتا ہے کہ ملک پر کچھ لوگ اپنا ناجائیز قبضہ جمانا چاہتے ہیں۔ عدالتوں نے شریف مافیا کو گھر بیٹھے ضمانتیں دیں اور عمران خان کو جان بوجھ کر ممکنہ حملے کیطرف دھکیل رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ نیت خراب ہے۔ اسلام الدین ساجد نے کہا کہ اگر یہ لاڈلی کا کیس ہوتا تو؟ ایک اور صارف کا کہنا تھا کہ یہی ہائیکورٹ تھی جو کچھ عرصہ پہلے اتوار کے روز کھل گئی تھی اور چیف جسٹس نے بقلم خود حمزہ ککڑی کے غیر موجودگی میں اس کی ضمانت منظور کی تھی نیب کیس میں۔ ندیم اصغر نے کہا یہ بیچارے جج حکم کے بغیر کیسے دکان کھول سکتے ہیں۔ رات 12 بجے دکان کھلوانے والے دن کو عدالت بند بھی کر سکتے ہیں۔ عبدالباسط نے کہا ضمانت اِس ملک میں صرف اسحاق ڈار اور سلمان شہباز کا حق ہے۔
کئی روز سے کچھ صحافی اور لیگی رہنما یہ خبریں پھیلارہے تھے کہ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو گرفتار کرلیا گیا ہے لیکن یہ خبر اس وقت جھوٹ ثابت ہوئی جب جنرل فیض اچانک منظر عام پر آگئے کہا جارہا ہے کہ یہ تصاویر ایک شادی کی تقریب کی ہیں، جنرل فیض حمید امیر تنظیم الاخوان حضرت مولانا عبدالقدیر اعوان کے بیٹے شہید اللہ اعوان کی تقریبِ ولیمہ میں شریک تھے یادرہے کہ کچھ روز قبل یہ خبر پھیلائی گئی کہ فیض حمید کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور وہ گھر پر نظربند ہیں۔ یہ خبر چند صحافیوں سمیت ن لیگی رہنما ناصربٹ نے پھیلائی تھی جن کا دعویٰ تھا کہ پی ٹی آئی کے سہولتکار جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو ہاؤس اریسٹ کرلیا گیا ہے۔ صحافی عمران شفقت نے کہا تھا کہ فیض حمید کی گرفتاری کے فیصلے کی خبر بھی جھوٹ نہیں. فیض نیٹ ورک کے بریگیڈیئر، کرنل سمیت کئی لوگ گرفتار ہیں، جو ابھی تک فیض حمید کے احکامات پر عمل کررہے تھے ایسی ہی خبر صحافی اسدطور نے بھی پھیلائی تھی، یادرہے کہ اسد طور اور عمران شفقت ن لیگ کے انتہائی قریب سمجھے جاتے ہیں۔
گزشتہ روز اسلام آباد پولیس عمران خان کو گرفتار کرنے کیلئے زمان پارک آئی لیکن عمران خان کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔عمران خان کی متوقع گرفتاری کی خبر سن کر پی ٹی آئی کارکنوں کی بڑی تعداد زمان پارک جمع ہوگئی اور کل سارا دن عمران خان کو میڈیاکوریج ملتی رہی۔ عمران خان کی گرفتاری کے ایشو پر ن لیگی رہنما بھی پیش پیش رہے، مریم نواز سمیت لیگی رہنماعمران خان کو گیدڑ ہونے کا طعنہ دیتے رہے۔ کبھی کہتے رہے کہ عمران خان بیڈروم کے نیچے چھپ گئے، کوئی کہتا رہا کہ عمران خان واش روم میں چھپ گئے، بات صرف یہاں تک نہیں رکی بلکہ کموڈ، فلش ، کوکین، چرس تک آگئی کل سارا دن عطاء تارڑ پیش پیش رہے، انہوں نے دھڑا دھڑ ٹویٹ کئے، پریس کانفرنسز کیں اور عمران خان پر ذاتی حملے کرتے رہے۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ کنفرم اطلاعات ہیں کہ آج عمران خان نے گرفتاری کے خوف سے خود کو کمرے میں بند کر کے اندر سے کُنڈی لگا لی، اُسکے بعد بھی تسلی نہیں ہوئی تو اِس نے خود کو واش روم میں بند کر لیا۔ عطاء تارڑ کے اس ٹویٹ پر عامرمتین نے جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ایسی بات کرکے اپنی شان میں کمی کی ہے۔ سیاسی مخالفت کریں مگر ذاتی دشمنی نہ بنائیں۔ آپ سیاسی کارکن سے زیادہ ایک حقارت زدہ زہنی مریض لگ رہے ہیں۔ اتنا آگے نہ جائیں کہ کل کو یہ گرہیں دانتوں سے کھولنی پڑیں۔ ہم برے وقت میں بھی آپ کے ساتھ ہوں گے مگر غرور نہ کریں۔احتیاط برتیں انہوں نے مزید کہا کہ آپ کے دادا خوش قسمت تھے کہ تاریخ میں ان کی سیاست پر سوال ہیں۔سب کو ان کے کردار کا پتا ہے۔ مگر اپنی شائستگی کی وجہ سے کوئ ان کو گالی نہیں دیتا۔ آپ شائستگی کی لکیر سے آگے جا رہے ہیں۔ اپنے رشتہ دار اعتزاز سے ہی کوئی سیاسی آداب سیکھ کیں۔ انہوں نے ڈٹ کر مخالفت کی مگر انکے شدید مخالف بھی انکا نام احترام سے لیتے ہیں۔ تارڑ کو جواب دیتے ہوئے انکا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے آپ سے بہت زیادہ سیاسی مخالفت کی، بطور جج فیصلے کر کے مالی فوائد لیے مگر بدتمیزی نہیں کی۔آپ روز بدتمیزی کرتے ہیں۔آقاوں کو خوش کرنے کا یہ طریقہ ہے تو آپ اپنے خاندان کی عزت میں کوئ اضافہ نہی کر رہے عامرمتین نے مزید کہا کہ شرم آتی ہے کہ اتنا پڑھا لکھا وکیل ہونے کے باوجود فیاض چوہان، شیخ رشید بھی آپ کے مقابلے میں بہتر زبان استعمال کرتے ہیں۔ میں یہ باتیں افسوس میں کر رہا ہوں۔ آپکے خاندان کے لوگوں سے شناسائ ہے۔ کچھ کالج فیلو بھی ہیں۔ وہ بھی آپ کی بدزبانی پر اتنے ہی شرمندہ ہیں
عمران خان کے وارنٹ گرفتاری اور گرفتاری میں ناکامی پر مریم نواز کا ردعمل سامنے آگیا ہے۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں مریم نواز کا کہنا تھا کہ شیر بے گناہ بھی ہو تو بیٹی کا ہاتھ تھام کر لندن سے پاکستان آکر گرفتاری دیتا ہے اور گیڈر چور ہو تو گرفتاری سے ڈر کے دوسروں کی بیٹیوں کو ڈھال بنا کر چھپ جاتا ہے۔ عمران خان کو للکارتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ باہر نکلو بزدل آدمی ان کا مزید کہنا تھا کہ لیڈر اور گیڈر کا فرق جان گئی قوم اس موقع پر مریم نواز نے ہیش ٹیگ #عمران_گھبرانا_نہیں شئیر کیا اور گیدڑ والی ایک تصویر بھی شئیر کی جس پر لکھا ہوا تھا کہ لیڈر نہیں گیدڑ
وزیراعظم کے بیٹے سلیمان شہباز کی پیشی پر پھول لانے والے کارکن کا ہاتھ جھٹک دیا اور گارڈزنے بھی دھکے دیکر اسے دور کردیا۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم کے بیٹے سلیمان شہباز کی پیشی پر پھول لانے والے کارکن کو دھکے پڑگئے۔ کارکن نے سلیمان شہباز کو پھولوں کا گلدستہ پیش کیا تو سلیمان شہباز نے ہاتھ جھٹک دیا اور گارڈزنے بھی دھکے دیکر اسے دورکردیا۔ لیگی کارکن کا کہنا تھا کہ سلیمان شہباز کے لئے گلدستہ لایا ہوں ، ان کا کام ہے کہ وہ وصول کریں ، وزیراعظم کی گاڑی روکتا ہوں، وہ بھی سلیوٹ کرتے ہیں۔اس واقعہ کی حمزہ شہباز سے شکایت کروں گا، وزیراعظم نوٹس لیں۔ ابوذر فرقان کا کہنا تھا کہ یہ سُلیمان شہباز ہیں فرعونیت کے آخری درجے تک پہنچ چُکے ہیں یہ لوگ صحافی علینہ شگری نے سوال کیا کہ سلیمان شہباز کا تکبر ایک طرف ویسے پھول کس خوشی میں پیش کیے جارہے تھے؟ یہ بھی سیاسی غلامی اور بیمار ذہنیت کی عکاس ہے! عائشہ خان نے تبصرہ کیا کہ سلیمان شہباز نے گُلدستہ تو کیا لینا تھا اُلٹا دھکے بھی مارے۔ اب بات سوشل میڈیا پر پھیل گئی تو اسی بندے کو بُلا کے ڈرامہ کیا جائیگا۔ بریانی کی پلیٹ پر ووٹ دینے والوں کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔ موڈی سرکار نے تبصرہ کیا کہ آج ایک حکمران کے صاحبزادے اور ایک کارکن کی ویڈیو دیکھی نہیں معلوم حقیقت کیا ہے تاہم عوام کو سمجھنا چاہئے کے ان لیڈروں کو اتنا بھی سر پر نا چڑھائیں کے یہ خود کو ہم سے بالاتر سمجھیں ووٹ دیدیں سال مین ایک آدھی بار جلسہ اٹینڈ کرلیں اور کبھی عوامی مسئلہ ہو تو احتجاج بس اتنا کافی ہے عمادشاہ کا کہنا تھا کہ کرپشن کیس میں پیشی اور فرعونیت دیکھیں زرا سلمان شہباز کی صحافی محمداشفاق نے سلمان شہباز کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ میرا ذاتی خیال ہے اس سلمان شہباز کا کوئی قصور نہیں یہ سکیورٹی کے ناقص انتظامات ہیں خدا نخواستہ ایسے کوئی حادثہ بھی ہوسکتا ہے شاہد اس لیے سلمان شہباز تیزی سے آگے نکل گئے ہارون عباس نے کہا کہ یہی انا پرستی فرعونیت کارکنوں کو مسلم لیگ ن سے دور لے جارہی ہے.مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کو اس طرف توجہ دینی چاہیے ورنہ اسمبلی کا الیکشن تو دور کونسلر کے الیکشن کی ٹکٹ لینے والا کوئی نہیں ہوگا. جس پر مزمل اسلم نےکہا کہ وزیر اعظم کی گاڑی اور عملہ بیٹے کی ڈیوٹی پر مامور

Back
Top