سوشل میڈیا کی خبریں

جیو ہیڈ آفس کو اپنا سپریم کورٹ اور شاہزیب خانزادہ کو چیف جسٹس ڈیکلئیر کردیں!: سوشل میڈیا صارف ن لیگ کے حامی کورٹ رپورٹر عبدالقیوم صدیقی نے اپنے ٹویٹر پیغام میں سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد کم کرنے کا مشورہ دے دیا جس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ عبدالقیوم صدیقی نے اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا کہ: ملک کی معاشی صورتحال کے پیش نظر پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے ججوں کی تعداد کو کم کر کے 7 کرنے کا قانون پاس کرنا چاہیے۔ سینئر صحافی عمران افضل راجہ نے ردعمل میں ٹویٹر پیغام میں لکھا کہ: لگتا ہے یہ لوگ افطاری کے فوری بعد "مشروب خاص" کے زیراثر ہوتے ہیں۔ سات ججز بھی کیا کرنے ہیں صرف ایک ہی کو ہی رکھ لیتے ہیں؟ آپ کا Case Management System سے کمیشن لگا رہے گا اور مالک بھی خوش! سینئر صحافی ناصر جمال نے لکھا کہ: جس کی اپنی کابینہ کے اراکین کی تعداد 85 ہو، اسے معاشی حالات کے تناظر میں ججز کی کی تعداد کم کرنے کا مشورہ، ایک صحافی کے اخلاقی دیوالیہ پن کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ قیوم صدیقی اور مطیع اللہ جان سمیت سینکڑوں صحافیوں کے قلم اور ضمیر کا امتحان آیا تو یہ سب اعلیٰ نمبروں سے فیل ہوگئے! صحافی عمر دراز گوندل نے طنزیہ انداز میں لکھا کہ: جج 9 کم کر کے شہباز کابینہ میں 9 وزیروں کا اضافہ کردینا چاہیے! ایک سوشل میڈیا صارف عمران بخاری نے ردعمل میں لکھا کہ: اس کو جب روزہ لگتا ہے سپریم کورٹ پر ٹویٹ کر دیتا ہے ! تیری اس کیمپین سے سپریم کورٹ کو کونسا فرق پڑنا ہے تو بولتا رہے! فرزانہ امجد نے لکھا کہ: جس صحافی کو یہ بھی نا پتا ہو کہ آئین میں تبدیلی کے لئے دو تہائی کی صرورت ہوتی ہے جو کہ پی ڈی ایم کی حکومت کے پاس نہیں ہے! ایسے صحافیوں کو پکوڑے سموسوں کی ریڑھی لگا کر دی جائے ۔ اکبر نے لکھا کہ: پہلے ان کے مالکوں نے معیشت تباہ کی، پھر بجائے کے مالکوں پر معیشت تباہ کرنے پر تنقید کرتے الٹا لطیفے چھوڑنا شروع کردئیے! حرام کھا کر خون اس طرح سفید ہو جاتا ہے۔ اسفند یار نے لکھا کہ:حکومت کو چاہیے کہ اپنی کابینہ کے سائز میں کمی کرے اور میڈیا کو دی جانے والی فنڈنگ میں کمی کرے، بیوروکریٹس کی مفت بجلی اور ایندھن کاٹ دیں اور اور سی ای سی کے گھر کی تعمیر کے لیے 100 ملین خرچ کیے جا رہے ہیں، اس فنڈنگ میں کمی کرنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ جویریہ شاہ نے لکھا کہ: 85 چوروں والی کابینہ ٹیکس دہندگان کے پیسوں پر عیش کر رہی ہے! عبدالقیوم ججز کی تعداد کم کرنا چاہتے ہیں کیونکہ انہوں نے لفافہ قبول نہیں کیا! احمد بیگ نے لکھا کہ: اتنی جدوجہد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ سیدھا سیدھا جیو ہیڈ آفس کو اپنا سپریم کورٹ اور شاہزیب خانزادہ کو چیف جسٹس ڈیکلئیر کردیں! انوار الحق نے لکھا کہ: اتنے مالی حالات خراب ہیں تو اسمبلی بھی بند کرو! ویسے بھی ملک راولپنڈی چلاتا ہے! شہباز بدر نے لکھا کہ: بھائی ایک قانون بناکر سپریم کورٹ ختم ہی کیوں نہیں کردیتے ، باندر کے ہاتھ ماچس آگئی ہے کچھ نہ کچھ تو کرے گا!
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عثمان سعید بسرانے سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی ماضی کی ایک تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ آج کل یہ کہاں ہیں؟ تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے سابق سیکرٹری اطلاعات عثمان سعید بسرا نے رضا ربانی کی ماضی کی ایک ویڈیو شیئر کی جس میں وہ سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت کو پیٹرول کی قیمت میں 3 روپے اضافے پر آڑے ہاتھوں لےرہے تھے۔ عثمان سعید بسرا نے ان کا یہ کلپ چلاتے ہوئے طنزیہ انداز اپنایا اور کہا کہ مرحوم اسمبلی میں پیٹرول کی قیمت 3روپے بڑھنے پہ برویا کرتے تھے آنجہانی غریبوں کے غم میں ایون بالا کی راہداریوں میں بین ڈالتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مرحوم رجیم چینج کے حادثہ میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ صحافی و اینکر عامر متین نے عثمان سعید بسرا کی اس ٹویٹ کو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ سب سے بڑی مایوسی رضا ربانی سے ہے۔ہم نے ان کی پہلی سینیٹ کی تقریر سے ان کی عزت کی جب ہم انُکو جانتے بھی نہی تھے، یہ اصولوں کے لیے بی بی کے سامنے بھی کھڑے ہو جاتے تھے۔آنسو بہاتے تھے دستور کے لیے انہوں نے پارلیمنٹ میں دستور گلی بنائ۔ اینکر پرسن نے کہا کہ یہ جاتی ہوئ سینیٹ میں stop gap کے طور پر آئے تھے۔ مگر ہمیں لگا کہ اک انقلابی مل گیا۔انہوں نے بھی ہمیں مایوس نہی کیا۔ ہم نے ان کی شان میں اتنا ڈھول پیٹا کہ بی بی بھی متاثر ہو کر ان کو سینیٹ میں اور کچن کیبنٹ میں شامل کرلیا۔ انہوں نے کہا کہ عمر کے اس حصے میں انسان اپنی لیگیسی کےبارے میں سوچنا شروع کردیتا ہے کہ ماضی کی غلطیاں دھو کر کچھ ایسا کیا جائے کہ بعد میں اچھے الفاظ میں یاد رکھا جائے، میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اتنا بااصول، ایماندار اور انقلابی شخص کیسے مرگیا، وہ آج آئین کیلئے کیوں کھڑا نہیں ہورہا؟ عامر متین نے کہا کہ مگر پھر کیا ہوا سمجھ نہی آئی، یہ کیسے، کیوں بدلے۔ میں سمجھنا چاہتا ہوں، زرداری کے غلیظ جملے بھی برداشت کیے، کبھی ان کی کرپشن پر باہر تو چھوڑیں پارٹی میں بھی بات نہی کی، سب کچھ جانتے ہوئے کمپرومائز کرتے چلے گئے۔افسوس صد افسوس۔ عامر متین نے رضا ربانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دوست تم کہاں کھوگئے؟ کیا ہوا۔ کیوں ہوا۔ ہمیں جواب چاہیے۔ امید ہے آپ جیسے اصول پسند کے پاس اس مصلحت کا جواب ہو گا۔ میں صرف موجودہ آئینی بحران کی بات نہی کر رہا جس پر کافی آختلاف ہے۔ میں اس سے پہلے کے کمرومائزز کا بھی جواب چاہتا ہوں۔ کیوں۔ آخر کیوں؟
صحافی وسعت اللہ خان کے نام سےمریم اورنگزیب سے متعلق تحریر سوشل میڈیا پر زیرگردش۔۔ وسعت اللہ خان نے اسے جھوٹ قراردیدیا تفصیلات کے مطابق صحافی وسعت اللہ خان نے مریم اورنگزیب اور انکی والدہ طاہرہ اورنگزیب سے متعلق تحریر کی تردیدکی ہے ان کا کہنا تھا کہ مریم اورنگ زیب کے لئے میرے نام سے کوئی جعلی تحریر پھولی ہوئی لاش کی طرح سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر تیر رہی ہے۔ وسعت اللہ خان سے منسوب اس جعلی تحریر میں کہا گیا کہ مریم اورنگزیب کی والدہ طاہرہ اورنگزیب دراصل وہ میڈم طاہرہ ہیں جس نے مولانا سمیع الحق پر الزام لگایا تھا کہ وہ انکے مستقل گاہک ہیں جس پر مولانا سمیع الحق کو سینٹ رکنیت چھوڑنا پڑی۔ اس تحریر کے مطابق دراصل نوازشریف نے ہی میڈم طاہرہ کو مولانا سمیع الحق کے خلاف لانچ کیا تھا کیونکہ مولانا سمیع الحق شریعت بل لارہے تھے یادرہے کہ مریم اورنگزیب کی والدہ سے متعلق دعویٰ کیا جارہا ہے کہ وہ نرس تھیں اور بیگم کلثوم نواز کی خدمت پر مامور تھیں لیکن اسکی تصدیق نہیں ہوسکی۔ اسی طرح دعویٰ کیا گیا کہ مریم اورنگزیب سابق سینیٹرمشاہداللہ خان مرحوم کی بیٹی ہیں لیکن یہ خبر بھی جعلی نکلی جبکہ مشاہداللہ خان کے بیٹے سینیٹرافنان اللہ خان ہیں۔ مشاہداللہ خان کی موت پر سب نے سینیٹرافنان اللہ سے اظہارتعزیت کیا تھا۔
سیاسی محاذ آرائی عروج پر ہے جس کی وجہ سے دونوں فریقین کے حامیوں کی جانب سے بعض اوقات جعلی مواد اور خبریں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ گل بخاری جو ن لیگ اور پی پی کی بڑی حامی سمجھی جاتی ہیں اسکی طرف سے ایک ویڈیو شئیر کی گئی جس میں ایک خاتون مبینہ طور پر عمران خان کو گالیاں دے رہی ہے۔ ویڈیو شئیر کرتے ہوئے گل بخاری نے کہا کہ مریم کے ساتھ پلانٹڈ بدتمیزی کروانے والے کو اپنی ہی ورکر نے اوقات دکھا دی اور عمران خان کو سرعام گالیاں دے رہی ہے۔ ایک صارف نے جواباً ٹویٹ کیا کہ صحافی کی جانب سے بدنتیی دکھائی گئی اور پارٹی کو بدنام کرنے کے لیے ویڈیو کا کچھ حصہ پیش کیا گیا۔ صارف نے پوری ویڈیو شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ عمران خان کو 80 فیصد پاکستانی چاہتے ہیں جبکہ دوسری طرف مریم نواز اپنے ہی گڑھ میں ایک کامیاب کارنر میٹنگ تک نہیں کر سکتی ۔ گل بخاری کی ویڈیو کے جواب میں شئیر کی گئی ویڈیو میں خاتون عمران خان سے خوشگوارانداز میں بات کررہی ہے اور زمان پارک کے باہر پنجاب پولیس کی ظلم وبربریت کا احوال بتارہی ہے خاتون کے مطابق پولیس کے تین دستے کھڑے تھے اور میں ان سے کہہ رہی تھی کہ کیا ہم پاکستانی نہیں ہیں؟ یا آپ انڈین ہو یا ہم انڈین ہیں۔
لاہور کی سیشن عدالت میں عمران خان سے متعلق کیس میں حمید کمہار کا تذکرہ ہوتا رہا۔۔عمران خان کی عدم پیشی پر فاضل جج نے دلچسپ ریماکس دئیے فاضل جج نے کہا کہ عمران خان اور حمیدکمہار کے درمیان کوئی فرق نہیں، اگر عمران خان کو ریلیف ملے گا توحمید کمہار کو بھی وہی ریلیف ملے گا۔ حمید کمہار کون ہے؟ اسکا ایک پس منظر ہے، گزشتہ دنوں سابق فنانس سیکرٹری لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن فیصل توقیر سیال نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے نام ایک خط لکھا جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا جو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے نام تھا اور اس خط کی تحریر یوں تھی۔ خط میں کہا گیا کہ گذارش ہے کہ میرے ان پڑھ کلائنٹ حمید کمہار کا کیس لیفٹ اوور ہوا تو میں نے کال پر اسے بتایا کہ جج صاحب دو بجے عدالت کا وقت ختم ہونے کی وجہ سے چلے گئے ہیں۔ آپ کے کیس کی سماعت اب سوموار کوہوگی۔ کیونکہ ہفتہ اور اتوار کو چھٹی ہے۔ شام سات بجے حمید کمہار کا مجھے فون آیا، بولا وکیل صاحب آپ بڑے جھوٹے ہیں، میں اڈے پر چائے والی کی دوکان پر سائیکل روک کر ٹی وی دیکھ رہا ہوں، جج صاحب تو ابھی بھی عدالت میں بیٹھے ہیں اور کسی بڑے سیاستدان کا کیس سن رہے ہیں۔۔ میں نے حمید کمہار کو پیار سے سمجھا بجھا کر فون بند کردیا۔ بروز ہفتہ پھر حمید کمہار کا فون آیا کہ آج پھر عدالت لگی ہوئی ہے، جبکہ آپ کہتے ہیں کہ ہفتہ اتوار چھٹی ہوتی ہے۔ میں نے غصے سے فون بند کردیا۔ اتوار کو پھر عدالت لگی دیکھ کر حمید کمہار نے مجھے فون کیا اور کہا کہ آپ سیدھی بات کیوں نہیں بتاتے، مجھ سے جھوٹ کیوں بولتے ہو۔ میں نے اسے بتایا کہ سیاسی شخصیات کے کیسز کسی بھی وقت سنے جاسکتے ہیں، حمیدے تجھ میں اور سیاسی شخصیات میں بڑا فرق ہے۔ اگلی صبح مجھے حمید کمہار نے فون کیا اور بولا کہ مولوی درس دے رہا ہے کہ خطبہ حجتہ الوداع میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سب برابر ہیں، وہ بولا وکیل صاحب آپ جھوٹ بول رہے ہیں یا مولوی، سیدھی بات کیوں نہیں بتاتے۔۔ جنابِ چیف جسٹس صاحب حمید کمہار توہینِ عدالت کا مرتکب ہوا ہے اسے سخت سزا دی جائے تاکہ آئندہ حمید کمہار برابری کے اصول کی بات نہ کرسکے۔ صحافی ثاقب بشیر نے اس خط پر تبصرہ کیا کہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو یہ خط لکھنا ہی توہین عدالت ہے کیسے ایک "عام شہری" یہ دعوی کر سکتا ہے یا گلہ کر سکتا ہے کہ اس کو بھی "خاص لوگوں" جیسا سلوک ملے ۔۔ بلکہ عدالتوں کو چاہیے ایسے شہریوں کو جیل بھیجیں تاکہ آئندہ اپنے آپ کو " اشرافیہ " جیسا سوچ بھی نا سکے رانا بلال کا کہنا تھا کہ جس دن ملک کی عدالتیں 24 گھنٹے حمیدا کمہار کے لیے دستیاب ہوں گی تو سمجھ جائیں ملک میں "آئین اور قانون" کی حکمرانی ہے اور انصاف کی فراہمی بلاتفریق جاری ہے اسراراجپوت کا کہنا تھا کہ حمیدا کمہار اس میراثی سسٹم خلاف جہاد کر رہا ہے طارق متین کاکہنا تھا کہ جج صاحب کو چاہیے کہ وکیل صاحب سے حمید کمہار کا کیس پوچھیں ، حمید کمہار اور وکیل صاحب کا کال ڈیٹا نکلوائیں کہ دونوں کتنا سچ بول رہے ہیں جھوٹ ثابت ہو تو سزا دیں لیکن یہ بات درست ہے کہ مقدمے عدالتوں میں پڑے ہوئے ہیں اور لوگ ذلیل ہو رہے ہیں
شاہزیب خانزادہ کے شو میں رانا ثناء اللہ نے کہا تھا کہ جب تک ووٹ کی طاقت سے عوام عمران خان کو مائنس نہیں کرے گی تب تک ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام نہیں آئے گا اس پر رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ووٹ کی طاقت تو عوام تب استعمال کرے گی جب آپ الیکشن ہونے دیں گے، آپ تو الیکشن ہی نہیں دیں گے۔کیونکہ آپ کو ڈر ہے کہ وہ ووٹ کی طاقت سے واپس آجائیں گے۔ اس پر راناثناء اللہ نے جواب دیا کہ الیکشن تو ہم آئین کے مطابق ہونے دیں گے،اسکی ڈکٹیشن کے مطابق نہیں ہونے دینگے۔ اس پر شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ الیکشن تو آئین کے مطابق 90 روز میں ہونا ہے جس پر راناثناء اللہ نے کہا کہ پھر عمران خان جو حرکتیں کررہا ہے پھر وہ نہ کرے جس پر خانزادہ نے سوال کیا کہ عمران خان کیا حرکتیں نہ کرے؟ بولنا چھوڑدے؟ جس پر راناثناء اللہ نے کہا ہاں ہاں بالکل۔۔ عمران خان جھوٹ بولنا چھوڑدے اور اپنے قتل کی ایف آئی آر درج کروانا چھوڑدے رانا ثناء اللہ کا یہ کلپ سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوا اور دلچسپ تبصروں کی زینت بنا، ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ جب رانا ثناء اللہ اپنے شاہزیب خانزادہ کو بھی مطمئن نہ کر پائے تو پھر حالات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا۔ ایک سوشل میڈیاصارف نے اسے بونگیاں قرار دیا تو پی ٹی آئی کے سابق وزیرعاطف خان نے راناثناء اللہ کی ذہنی صحت پر سوال اٹھائے۔
عمران خان کی سابق اہلیہ جمائمہ گولڈ اسمتھ نے ٹویٹر پربرطانیہ کی ایک شاہراہ پر چلتے ٹرک کی تصویر شیئر کی جس پر عمران خان کا پوسٹر آویزاں ہے جمائمہ گولڈاسمتھ نے بتایا کہ انہوں نے یہ تصویر یو کے میں بنائی،سوشل میڈیا صارفین نے اس تصویر پر ملا جلا رد عمل دیا ندا کے نام سے ایک ٹویٹر صارف نے تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ نوازشریف کی تصویر تو کبھی پاکستان میں بھی ایسے نہیں دیکھی اداکارہ شگفتہ اعجاز کے نام سے ایک اکاؤنٹ نے عمران خان تصویر کو شیئر کرتے ہوئےلکھا کہ کرکٹ کے ہیرو سے قوم کےمقبول ترین لیڈرتک کروڑوں پاکستانیوں کی امید موٹروے پر عمران خان کے ساتھ سفر کررہا ہوں،ٹویٹر صارف ہنا نےویڈیو شیئر کرتےہوئے اپنے لیڈرعمران خان سے محبت کا اظہارکیا ٹویٹر صارف وقار احمد نے عمران خان کی تصاویر شیئرکیں اور طنزاً لکھا پاکستان میں جب بھی ایساہی دیکھا ہے جمائمہ کی جانب سے شیئر کی گئی تصویر پر ذیشان نامی صارف نے ردعمل دیتے ہوئے نوازشریف کی تصاویر شیئر کیں اورلکھا کہ ایک موٹروے پر عمران خان کی معاوضہ دے کرٹرک تصویر لگتی ہے جبکہ پاکستان کی ہر موٹر وے اور ہائی ویز پر نوازشریف اور مسلم لیگ ن کا نام ہے۔۔
عمران خان کی رہائشگاہ زمان پارک پر 36 لاکھ روپے لگژری ٹیکس واجب الادا۔۔ٹیکس 7 دنوں کے اندر جمع نہ کروایا گیا تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کو خط ارسال کیا جائے گا: نوٹس ذرائع کے مطابق سابق وزیراعظم وچیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی لاہور میں رہائشگاہ زمان پارک کو پنجاب کے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی طرف سے لگژری ہائوس ٹیکس کا نوٹس بھجوایا گیا ہے۔ عمران خان کو لگژرری ہائوس ٹیکس کا نوٹس وصول کروانے آج محکمے کی کی طرف سے 2 رکنی ٹیم زمان پارک لاہور پہنچی تھی اور نوٹس وصول کروایا۔ محکمہ ایکسائز کے نوٹس کے مطابق عمران خان کے گھر زمان پارک پر 36 لاکھ روپے کا لگژری ہائوس ٹیکس واجب الادا ہے۔ نوٹس کے متن کے مطابق واجب الادا 36 لاکھ روپے ٹیکس محکمہ ایکسائز کے نوٹس کے 7 دنوں کے اندر جمع نہ کروائے گئے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کو خط ارسال کیا جائے گا۔ زمان پارک پر لگژری ٹیکس نوٹس بھیجنے کے بعد تحریک انصاف کے رہنماؤں اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے۔ سابق وفاقی وزیر فرخ حبیب نے ٹویٹر پیغام میں لکھا کہ: عمران خان کیخلاف انتقامی کاروائیوں میں اتنے اندھے اور کم ظرف ہوچکے ہیں کہ شوکت خانم مرحومہ کی وفات کے 28 سال بعد بھی انکے نام کا لگژری ٹیکس نوٹس نکال دیا ہے۔ آج بھی وہی غاصبانہ سوچ زندہ ہے جس نے فاطمہ جناح مرحومہ کے نام کا وفات کے بعد پانی کا بل نکال دیا تھا ! کوئی شرم کوئی حیا! پی ٹی آئی رہنما فوزیہ صدیقی نے ٹویٹر پیغام میں لکھا کہ: یہ وہی گندا کھیل جو فاطمہ جناح کے ساتھ کھیلا گیا تھا کہ ان پر بانی یا بجلی کے بل لگا کر بھیجے گئے تھے ہینڈلرز باز آجاؤ یہ 1953 نہیں ہے! محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے عمران خان کو نوٹس بھیج دیا ! محکمہ ایکسائز کی جانب سے لگژری ہاؤس ٹیکس کا نوٹس بھیجا گیا ۔ عمران خان پر 36 لاکھ روپے ٹیکس واجب الآدا ہیں ! محکمہ ایکسائز کی دو رکنی ٹیم نوٹس کی تعمیل کیلئے زمان پارک پہنچی۔ منزہ حسن نے لکھا کہ: اتنا گھٹیا اور کم ظرف مخالف تاریخ برصغیر میں شاید ہی کسی کو ملا ہو تُم لوگ بہت ہی گھٹیا اور گرے ہوئے ہو! عمران خان کے سوشل میڈیا کیلئے فوکل پرسن اظہر مشوانی نے لکھا کہ: امپورٹڈ حکومت اور ان کے ہینڈلرز روز نئی پستی کو چھو رہے ہیں! شوکت خانم صاحبہ کی وفات کے 28 سال ہو گئے ہیں اور آج ان کے نام کا ایکسائز کا نوٹس جاری کر دیا گیا! ایک صارف نے لکھا کہ: 60 کی دہائی میں فاطمہ جناح کو واٹر بورڈ کا بل بھجوایا! رجیم چینج آپریشن کے بعد شیریں مزاری کو 1972 میں ان کے والد کی جانب سے ملنے والی زمین کا نوٹس بھجوایا اور کیس بنایا!اب محترمہ شوکت خانم مرحوم صاحبہ کو لگژری گھر رکھنے پر ٹیکس کا نوٹس بھجوا دیا ہے ۔ کمپنی شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہے! ایک صارف نے جاتی عمرہ اور بلاول ہائوس کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ: اگر لاہور میں دوکنال کے زمان پارک پر 36 لاکھ لگژری ہاؤس ٹیکس کا نوٹس دیا ہے تو لاہور ہی میں13 ہزار 600 کنال (1700 ایکڑ) جاتی عمرہ (تصویر) محل پر کتنے ارب کا ٹیکس نوٹس جائے گا؟ اور لاہور بحریہ ٹاؤن میں 200 کنال (25 ایکڑ) کے بم پروف بلاول ہاؤس (تصویر) پر کتنا لگژری ہاؤس ٹیکس جائے گا؟ ایک صارف نے لکھا کہ: یہ تو چھوڑیں مزہ تو نامزدگی کاغذات میں ان کی قیمت دیکھ کر آتا ہے!
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 2 جونیئر ججز کو سپریم کورٹ لانے کے لیے ووٹ دینے پر قوم سے معافی مانگ لی۔ اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ مانتا ہوں میں نے ووٹ دیا مجھے یہ ووٹ نہیں دیناچاہیے تھا، مجھے اصول کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیےتھا۔میں بطور بار کونسل اور نمائندہ قانون کبھی اس کے حق میں نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ پوری قوم سے معذرت خواہ ہوں اس وقت کھڑے ہونے کا وقت تھا، حکومت کو بھی کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ مطیع اللہ جان نے اعظم نذیر تارڑ کی معافی مسترد کردی اور کہا کہ اصول پر استعفی دیا نہیں اور لاہور عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں اسٹیبلشمنٹ کیخلاف نعرے لگنے پر ڈنڈے کے سائے میں استعفی دے دیا۔ مطیع اللہ جان نے مزید کہا کہ جب ڈنڈا ریٹائر ہو گیا تو استعفی واپس لیکر کر واپس آ گئے، اب شھباز شریف صاحب کو جونئیر ججوں کی تقرری پر معافی مانگنی چاہئیے۔ اس سے قبل فوادچوہدری نے رردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ پوری دنیا میں ججوں کی تعیناتیاں میرٹ پر ہوتی ہیں یہاں نئی منطق ہے کہ کوئ قابل ہے یا نہیں سینئر ہے تو لگا دو۔۔میرٹ کے خلاف تعیناتیاں تباہ کن ہیں پوری دنیا میں بہترین لوگ سپریم کورٹ میں لگائے جاتے ہیں، اس وقت پاکستان کے بہترین جج سپریم کورٹ میں ہیں۔
نگراں صوبائی وزیر کھیل اور مشہور کرکٹر وہاب ریاض کو نگراں وزیراعلی پنجاب کا مائیک سیدھا کرنا مہنگا پڑگیا، سوشل میڈیا صارفین کا سخت ردعمل سامنے آگیا۔ تفصیلات کے مطابق ایک تقریب میں نگراں وزیراعلی پنجاب محسن نقوی کی تقریر کےدوران قریب موجود نگراں وزیر کھیل اور مشہور کرکٹر وہاب ریاض نےآگے بڑھ کر ان کا مائیک درست کیا، کیمرے کی آنکھ نے یہ منظر ہمیشہ کیلئے قید کرلیا ، یہ تصویر سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوئی جس کے بعد صارفین نے وہاب ریاض کو کھری کھری سنادیں۔ سوشل میڈیا صارفین نے وہاب ریاض کی اس حرکت پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ حرکت چاپلوسی کے زمرے میں آتی ہے، وکیل اور اینکر پرسن بیرسٹر احتشام الدین نامی ایک ٹویٹر اکاؤنٹ سے بھی یہ تصویر شیئر کی گئی اور کہا گیا کہ جب حق اور باطل کا فیصلہ ہو رہا تھا تو اس وقت وہاب ریاض باطل کا مائیک ٹھیک کر رہا تھا۔ کراچی والی نے کہا کہ یہ وہاب ریاض کی کل ملا کے اوقات بنتی ہے۔ سید شاہ میر بولے کہ جس نے اپنے ہی ملک کےلوگوں پر ظلم کےپہاڑ توڑے وہاب ریاض اس کا مائیک ٹھیک کررہا ہے، اس دور میں کیسےکیسے لوگ ایکسپوز ہوگئے ہیں۔ ملک شاہین نے اس تصویر پر شاعرانہ انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ "بے ضمیری جب حد سے بڑھتی ہے تو چاپلوس کر دیتی ہے" 'ڈھٹائی جب عادت بن جائے تو بندے کو چھٹا ہوا کارتوس کر دیتی ہے' سوشل میڈیا صارفین نے وہاب ریاض کو ایک عہدےکیلئے اتنا گر جانے کا طعنہ دیا تو کسی نے کہا کہ ان کی اوقات اتنی ہی ہوتی ہے ہم لوگ خواہ مخواہ ان کو سر چڑھالیتے ہیں، ایک صارف نے کہا کہ کرکٹرز زیادہ تر کم پڑھے لکھے ہوتے ہیں، عمران خان جیسے پڑھے لکھے اور خوددار کرکٹرز کم ہی ہوتے ہیں، کسی صارف نے وہاب ریاض کی اس حرکت کو غلامی قرار دیا۔
وزیراعظم ایگریکلچر، یوتھ لون سکیم ، ای بائیکس ورکشے دینے کی سمری منظور اقتصادی رابطہ کمیٹی اجلاس میں عوام کو 20 ہزار میٹرک ٹن چینی 95 روپے فی کلو کی قیمت پر دینے کے منصوبے کی بھی توثیق کر دی گئی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیرصدارت کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں وزارت صنعت وپیداوار کی طرف سے ایگرکلچر لون سکیم ویوتھ بزنس کے تحت عوام کو ای بائیکس اور رکشے فراہم کرنے کی سمری پیش کی گئی جسے منظور کر لیا گیا۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں پی ایس ایم پنجاب زون کی طرف سے عوام کو ماہ رمضان المبارک سے عیدالفطر کے دوران 20 ہزار میٹرک ٹن چینی 95 روپے فی کلو کی قیمت پر دینے کے منصوبے کی بھی توثیق کر دی گئی۔ پنجاب حکومت کی طرف سے 95 روپے فی کلو کے حساب سے چینی خرید کر عوام کو ضلعی سطح پر فروخت کیا جائے گا، شوگر ملز ایسوسی ایشن کی طرف سے منظوری بھی دی گئی ہے۔ علاوہ ازیں وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کیے گئے اعلامیہ کے مطابق وزارت صنعت وپیداوار کی ای رکشہ اور بائیکس سکیم کے لیے ملک بھر کے نوجوانوں کو ٹیئر ون کیٹگری کے تحت 5 لاکھ روپے تک کا بلاسود قرضہ 3 سال کیلئے دیا جائے گا۔ ای بائیکس اور رکشہ کیلئے قرضہ وزیراعظم کے یوتھ بزنس اینڈ ایگریکلچرل لون سکیم کے تحت دیا جائے گا۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی اجلاس میں کسٹم سٹیشن انگور اڈا کو افغانستان اور سنٹرل ایشیا کو برآمدات کیلئے ایکسپورٹ لینڈ بنانے کی منظوری کے علاوہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کارپوریشن لمیٹڈ کیلئے 15 ارب 60 کروڑ روپےقرض کیلئے گارنٹی بڑھانے کی منظوری بھی دی گئی۔ قرض کیلئے گارنٹی کی حد اب 263 ارب 23 کروڑ روپے ہو گئی ہے جو اس سے پہلے 247 ارب 63 کروڑ روپے تھی۔ اجلاس میں وزارت قومی صحت کیلئے 14 کروڑ 25 لاکھ روپے کی گرانٹ، وزارت ہائوسنگ کیلئے 26 کروڑ 11 لاکھ روپے کی ضمنی گرانٹ، وزارت خارجہ کیلئے بجلی بل واجبات کی ادائیگی کرنے کیلئے 2 کروڑ 20 لاکھ روپے کی گرانٹ منظور کرنے کے ساتھ وزارت ہائوسنگ کے رہائشی منصوبوں (سپریم کورٹ کی عمارت وججز کی رہائشگاہوں) کی تزئین وآرائش ومرمت کیلئے 25 کروڑ پے کی گرانٹ منظور کر لی گئی ہے۔
شہید صحافی ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ عباسی اور سینئر صحافی وتجزیہ کار رؤف کلاسرہ ٹویٹر پر آمنے سامنے آ گئے۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے سوال کیا کہ رؤف کلاسرا ارشد شریف کے بڑے دوست بنتے تھے، انہوں نے ارشد شریف کیلئے کتنے شوز کئے؟ کتنی آواز اٹھائی، اس پر رؤف کلاسرا سامنے آگئے اور سوال کرنیوالے سوشل میڈیاصارف پر کیس کرنیکااعلان کردیا۔ جس پر شہید صحافی ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق نے ٹویٹر پیغام میں لکھا کہ: کلاسرہ صاحب ! میں نے اور ارشد نے آپ کو بڑے بھائی کا درجہ دیا، جہاں تک مجھے یاد ہے آپ نے تو مجھ سےتعزیت تک نہیں کی اور اگر اپنے مرحوم دوست کےلیےکچھ آرٹیکل لکھے تو کیا بطور صحافی یادوست وہ آپ کا فرض نہیں تھا اور ارشد اپنے ٹویٹس کی وجہ سے قتل نہیں ہوا وہ اپنی تحقیقاتی صحافت کی وجہ سے قتل ہوا ہے۔ اس پر رؤف کلاسرا نے ارشد شریف کی اہلیہ کو طویل وضاحت دی اور کہا کہ میں آپ سے سرعام بحث نہیں کرنا چاہتا لیکن بات نہں کروں گا تو آپ کا اور دیگر کا پراپگنڈہ میرے خلاف مزید تیز ہوگا۔ آپ ارشد کی وائف ہیں۔میرے لیے بہن کی طرح ہیں۔آپ کو جواب دیا جاسکتا ہے لیکن ضروری نہیں ہوتا ہر جگہ خود کو سچا ثابت کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرا ایک ہی قصور ہے جس کی معافی نہیں مل رہی کہ میں نے بڑے بھائی کی طرح ارشد شریف کی جان بچانےکی بھرپور کوشش کی۔ ناکام رہا۔ میری کوشش تھی ارشد کےپانچ بچے یتیم نہ ہوں۔ہماری بنہیں بیوہ نہ ہوں۔لیکن قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔ میں نے اس وقت اپنے کالمز اور شوز کے سکرین شاٹس لگائے جب مجھ پر گند اچھالا گیا کہ اپ نے ارشد شریف پر کبھی شو نہییں کیے یا جنازے تک میں نہیں گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپ نے میرے سب کالمز پڑھے، میرے ٹوئیٹس دیکھے، میرے ٹی وی شوز دیکھے جو ارشد پر کیے۔ اپ نے کبھی ایک ٹوئیٹ کیا کہ رئوف خلاف غلط پراپنگنڈہ ہورہا ہے؟الٹا آپ کی ساری ہمدردیاں اس گینگ ساتھ شامل رہیں جو مجھ پر یہ الزام لگا رہا تھا کہ رئوف نے ارشد کے قتل پر کچھ نہیں بولا۔ میں چپ رہا کہ آپ کا درجہ بہنوں والا ہے۔ آپ کے اس ٹوئیٹ کا مقصد بھی اس گینگ کی ہمت بڑھانا ہے جسے میرے پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے۔ کلاسرا کا مزید کہنا تھا کہ اگر میں آپ کا سہاگ بچا رہا تھا تو کیا غلط کررہا تھا؟ کیا دوست کا کام دوستوں کو موت کے منہ میں جانے سے روکنا نہیں ہوتا ؟ ارشد کے ایک اور گھر سے میری بیوی کو سخت گلہ کیا گیا کہ ارشد کے اتنے سارے قریبی دوست تھے۔کس نے ارشد کو روکنے یا سمجھانے کی کوشش نہ کی؟ میری بیوی نے جواب دیا رؤف نے بہت کوشش کی اور کسی کالم میں لکھ بھی دیا تو اج تک گالیاں کھا رہا ہے کہ ارشد کو کیوں ٹھنڈا کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپ کو یہ میری سب کوششیں بھی دوسروں کی طرح غلط لگتی ہیں تو میں معذرت خواہ ہوں۔ اب احساس ہورہا کہ دوست وہ ہوتا ہے جو دوست کو موت کے منہ میں جاتے دیکھ کر دھکا دے کر پھر اس کی لاش پر ماتم کرنا شروع کر دے جو اج کل ارشد کے کچھ نام نہاد دوست کررہے ہیں۔ باقی بہت ساری باتیں ہیں جو میں یہاں کہنا مناسب نہیں سجھتا کیونکہ آپ نہ انہیں سمجھیں گی نہ اپ کو سمجھایا جاسکتا ہے۔آپ میری بہن ہیں اور رہیں گی۔ خوش رہیں۔ رؤف کلاسرا نے مزید کہا کہ میری تو خواہش اور کوشش تھی ارشد اپنے پانچ بچوں کے لیے زندہ رہتا۔ میرے دو بچوں کے لیے زندہ رہتا جو اس کے ہاتھوں میں پلے بڑھے۔ آپ کے لیے زندہ رہتا۔ ہم دوستوں کے لیے زندہ رہتا۔ آپ کو شہید چاہئے تھا لیکن ہمیں زندہ ، کھیلتا کودتا، ہنستا مسکراتا ارشد چاہئے تھا۔ لیکن قسمت کو منظور نہ تھا۔ انکا مزید کہنا تھاکہ شاید ارشد کو دوست کی طرح روکنے کی میری ان کوششوں پر آپ کو مجھ پر غصہ ہے۔ میرا اپنا نفیساتی مسلہ تھا کہ میرے والد فوت ہوئے تو میں صرف دس سال کا تھا۔ مجھے ان عذاب اور تکلیفوں کا احساس تھا جو ہماری بیوہ ماں کو چھ بچوں کو پالنے میں بھگتنی پڑیں۔ شاید ہماری دوسری بہن سمیعہ ارشد اور ان کے پانچ بچے میری اس بات میں چھپے دکھ کو سمجھ سکیں گے— جنہوں نے میری بیوی سے گلہ کیا کہ دوستوں نے کیوں نہ روکا۔ اس پر جویریہ صدیق نے جواب دیا کہ میرے ساتھ آپ کا کالم ایک ہی صفحے پر شائع ہوتا ہے آپ نے مجھ سے بھابھی اور کولیگ ہونے کے باوجود تعزیت نہیں کی آپ نے مجھ پر منفی مہم کا جھوٹا الزام لگادیا۔ مجھے بے اولاد ہونے کا طعنہ دے رہے ہیں۔ بس میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتی ہوں۔
گل بخاری ان دنوں بیرون ملک مقیم ہیں جبکہ انکے شوہر علی نادر پاکستان میں ہی ہیں۔اطلاعات کے مطابق علی نادر نے کسی صوفیہ چشتی نامی لڑکی سے دوستی کرلی اور وہ علی نادر کے ساتھ اس گھر میں رہنا شروع ہوگئی ہیں جو دراصل گل بخاری کی ملکیت ہے۔ معروف صحافی گل بخاری کا ایک ٹویٹ سامنے آیا جس میں وہ اپنے شوہر سے مخاطب تھیں اور کہنا تھا کہ تم نے اس سے جنسی فعل کرنے کیلئے میرے گھر کو استعمال کیا۔میرا گھر؟ تم نے اسکی میرے گھر میں میزبانی کی؟ دن اور رات وہ میرے گھر میں رہی کیونکہ میں جلاوطن تھی۔ ایک اور ٹویٹ گل بخاری نے کیا لیکن اسے بھی ڈیلیٹ کردیا جس میں اس نے کہا کہ گھر تباہ کرنیوالی صوفیہ چشتی، میرے شوہر سے کہہ رہی ہے کہ مجھے چھوڑ دے.. کیا افسوسناک شخصیت ہے اگرچہ گل بخاری نے تو یہ ٹویٹ ڈیلٰٹ کردیا لیکن گل بخاری سوشل میڈیا پر چھائی رہیں اور سوشل میڈیا صارفین معنی خیزتبصرے کرتے رہے۔ گل بخاری کے مطابق اس نے ٹویٹس سوشل پریشر پر ڈیلیٹ کئے ہیں۔ گل بخاری نے مزید ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ میرے کمرے میں ہاتھی گھس آیا ہے۔۔ گل بخاری جسے ہاتھی کہتی رہیں اسکا نام صوفیہ چشتی ہے۔ اس پر پی ٹی آئی سپورٹرز کا کہنا تھا کہ یاد کریں ماضی میں آپ عمران خان اور انکی اہلیہ سے متعلق کیسی زبان استعمال کرتی تھیں، آپ نے کن گھٹیاناموں سے عمران خان کی اہلیہ کو پکارا، اس پر تہمتیں لگائیں، طلاق کی جھوٹی افواہیں پھیلائیں اور اب آپ اس حال میں ہیں۔
اگر اپنے مرحوم دوست کیلئے آپ نے کچھ آرٹیکل لکھے تو کیا بطور صحافی یادوست وہ آپ کا فرض نہیں تھا: اہلیہ شہید ارشد شریف شہید صحافی ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ عباسی اور سینئر صحافی وتجزیہ کار رؤف کلاسرہ ٹویٹر پر آمنے سامنے آ گئے۔ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب ایک ٹویٹر صارف فیاض شاہ نے اپنے شہید صحافی ارشد شریف اور رئوف کلاسرا کی تصویر شیئر کرتے ہوئے اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا کہ: رؤف کلاسرا کا شمار ارشد شریف کے قریبی دوستوں میں ہوتا تھا، اچھا دوست بچھڑ جائے تو زندگی اندھیر ہو جاتی ہے۔ میں اپنی معلومات کے لیے پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ کلاسرہ صاحب نے ارشد شریف کو انصاف دلوانے کے لیے آج تک کتنے ٹی وی پروگرامز اور وی لاگ کیے؟ آخری بار انہوں نے ارشد شریف کے لیے ٹویٹ کب کی تھی؟ جب پورا پاکستان چیف جسٹس اور یونائیٹڈ نیشنز کو خط لکھ رہا تھا کیا کلاسرا صاحب نے بھی اس میں حصہ لیا؟ سینئر صحافی رئوف کلاسرا نے فیاض شاہ کے ٹویٹر پیغام کے جواب میں لکھا کہ: میں نے بیسویں پروگرامز کیے، کالمز لکھے، اس کی جان بچانے کی پوری کوشش کی۔ ثبوت میں نے ٹوئیٹس کیے ہیں! آپ نے میرے خلاف ٹوئٹس کرنے سے پہلے ریسرچ نہیں کی۔مجھے اپروچ نہیں کیا، ہزاروں لاکھوں لوگوں کے ذہن میں میرے خلاف نفرت بھری، اس پر آپ کے خلاف FIA/عدالت میں مقدمہ کرا رہا ہوں۔ رؤف کلاسرا کے جواب پر شہید صحافی ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق نے ٹویٹر پیغام میں لکھا کہ: کلاسرہ صاحب ! میں نے اور ارشد نے آپ کو بڑے بھائی کا درجہ دیا، جہاں تک مجھے یاد ہے آپ نے تو مجھ سےتعزیت تک نہیں کی اور اگر اپنے مرحوم دوست کےلیےکچھ آرٹیکل لکھے تو کیا بطور صحافی یادوست وہ آپ کا فرض نہیں تھا اور ارشد اپنے ٹویٹس کی وجہ سے قتل نہیں ہوا وہ اپنی تحقیقاتی صحافت کی وجہ سے قتل ہوا ہے۔ جویریہ صدیق نے مزید لکھا کہ میرے ساتھ آپ کا کالم ایک ہی صفحے پر شائع ہوتا ہے آپ نے مجھ سے بھابھی اور کولیگ ہونے کے باوجود تعزیت نہیں کی۔ آپ نے مجھ پر منفی مہم کا جھوٹا الزام لگادیا۔ مجھے بے اولاد ہونے کا طعنہ دے رہے ہیں۔ بس میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتی ہوں۔ رؤف کلاسرا کے ٹویٹر پیغام پر سوشل میڈیا صارفین نے بھی غصے کا اظہار کیا اور انہیں کم ظرف قرار دے دیا۔ صحافی عمران افضل راجہ نے فیاض شاہ پر مقدمہ درج کروانے کی دھمکی پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ: اتنا بڑا طوفان اٹھا رہا تھا کالمز میں مگر ارشد شریف شہید کی فیملی سے تعزیت تک نہیں کی ؟ ایک بار بھی ان کے گھر تک نہیں گیا ؟؟ کیا ہم نہیں جانتے یہ کن لوگوں کے ڈر اور ریکی کی وجہ سے نہیں گیا ؟ ہم سب اصلیت جانتے ہیں مگر خاموش تھے۔ آج فیاض شاہ نے پول کھول دی ۔ میاں علی اشفاق ایڈووکیٹ نے لکھا کہ: اس میں ایف آئی آے کہاں سے آگیا؟ اتنے سے سوال پر ایف آئی اے نے کس قانون کے تحت مقدمہ درج کرنا ہے؟ لوگوں کی توقعات کی عین مطابق محض سوال پوچھنا کسی کے خلاف نفرت بھرنے کے مترادف کیسے ہوا؟ یہ کسی صورت بھی کسی قانون کی کوئی خلاف ورزی نہیں۔ سالار سلطانزئی نے لکھا کہ: ہمیں مقدمات کی عادت ہے اب کلاسرا صاحب! صبح شام لوگوں کے خلاف پروگرام کرتے ہو، آپ سے کوئی سوال پوچھے تو توہین کے پرچے! اتنی چھوئی موئی طبیعت ہےتودبئی جا کر بیٹھ جائو آپ بھی کسی شیخ کی حفاظت میں۔ کچھ طاقت ملے تو اس کا اس طرح استعمال کم ظرفی ہے! کرو کیسز ہم اپنےبھائی کےساتھ کھڑےہونگے۔ صبا زاہد نے لکھا کہ: ہمارے بھائی فیاض نے صرف پوچھا ہے آپ سے کلاسرا صاحب ! سوال کا جواب مقدمہ نہیں ہوتا۔ تفصیل دیں وی لاگز کی! بدمعاشوں والا رویہ ایک صحافی کو زیب نہیں دیتا ۔ ایک عام پاکستانی سے اتنا خوف، اس کی آواز پر لوگوں کے دل مخالف ہوں گے؟ عوام اندھے نہیں ہیں، سب پر مقدمہ کریں گے؟
عدت میں نکاح کے کیس میں بشریٰ بی بی اور عمران خان کے نکاح خواں مفتی سعید نے عدالت میں بیان قلمبند کرادیا۔عمران خان اور بشری بی بی کے نکاح خواں مفتی سعید کچہری پہنچے اور عدالت کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کرادیا۔مفتی سعید کا کہنا تھا کہ عمران خان کا نکاح غیرشرعی اور غیرقانونی تھا۔ مفتی سعید کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان نے دوبارہ نکاح کی وجہ بتائی کہ طلاق نومبر نکاح یکم جنوری اس لئے ضروری تھا کہ وزیراعظم بننے کی پیش گوئی تھی کہ 2018 کے پہلے دن بشری بی بی سے شادی کروں گا تو وزیراعظم بن جاوں گا " ۔ بعد میں جب مجھے معلوم ہوا تو میں نے دوبارہ نکاح پڑھوایا۔ مفتی سعید کے حوالے سے صحافی ماجدنظامی نے دلچسپ انکشاف کئے ہیں۔ اپنے ٹوئٹرتھریڈ میں انکا کہنا تھا کہ ۔۔۔ عمران خان کے نکاح خواں مفتی سعید نے 27 سال پہلے بھی 1996 میں 'آپریشن خلافت' کی ناکامی کے بعد فوجی عدالت کے سامنے بیان دیا تھا۔ جرح کے دوران اپنی صفائی میں ایک اہم واقعہ بھی بیان کیا جو شاید اس وقت اہم نہ تھا۔ وہ تھا جنرل قمر جاوید باجوہ کے سسر جنرل اعجاز امجد کا دوبارہ نکاح۔ فوجی عدالت میں مفتی سعید نے کہا کہ ''میجر جنرل اعجاز امجد، لیفٹیننٹ جنرل غلام محمد ملک کے حوالہ سے میرے پاس آئے تھے۔ میجر جنرل اعجاز امجد کا کیس پروموشن کے لیے پیش ہونے والا تھا۔ میجر جنرل اعجاز امجد کے قادیانی ہونے کی وجہ سے انکی شخصیت کے بارے میں شبہات پائے جاتے تھے۔ جنرل اعجاز امجد کا اصرار تھا کہ انکی اہلیہ قادیانی ہیں جبکہ وہ خود مسلمان ہیں۔ چند ملاقاتوں کے بعد میں نے انکو مشورہ دیا کہ انکی بیوی کو مسلمان ہو جانا چاہیے۔ یہ طے پایا تھا کہ انکا نکاح دوبارہ پڑھا دیا جائے۔ لیفٹیننٹ جنرل غلام محمد ملک، میجر جنرل ترمذی، کرنل امجد اسکے گواہ تھے'' مفتی سعید خان کے مکمل بیان و جرح کا اردو ترجمہ بریگیڈئیر مستنصر بااللہ کی کتاب "آپریشن خلافت 1995'' میں شائع کیا گیا۔ یہ کتاب بریگیڈئیر مستنصر بااللہ کے بہاولپور جیل میں تفصیلی انٹرویو پر مشتمل ہے۔ جس میں فوجی عدالت میں ہونے والے اہم بیانات کو بھی شامل کیا گیا۔ اس حوالے سے صحافی ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ مفتی سعید آج سے 27 قبل بھی دوبارہ نکاح پڑھا چکے بیان بھی فوجی عدالت کے سامنے دے چکے ۔۔ مفتی سعید بھی عادی نظر آتے ہیں ۔
عمران خان کے نکاح کیس میں پھرتیاں۔۔ کیس کی سماعت 28 اپریل کو ہونا تھی، درخواست گزار محمد حنیف نے آج ہی جلد سماعت کی استدعا کی اور آج ہی منظور کرلی گئی جس کے بعد مفتی سعید کا بیان ریکارڈ کروایا گیا۔۔ عمران خان کا نکاح پڑھانیوالے مفتی سعید عمرہ پر تھے اور انہوں نے 28 اپریل کو واپس آنا تھا لیکن مفتی جلدی سعیدواپس آگئے اور عدالت کو بیان بھی ریکارڈ کروادیا مفتی سعید نے آخری عشرہ مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ میں عبادات میں گزارنا تھا اور انہوں نے درخواست گزار مفتی حنیف کے ذریعے عدالت کو بتایا بھی تھا کہ وہ 28 اپریل کو عید کے بعد واپس آئیں گے مگر انکا اچانک واپس آنا، سماعت 28 کی بجائے فوری ہونا اور اسی روز بیان ریکارڈ ہونا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ واضح رہے کہ مفتی سعید پر الزام ہے کہ وہ بینظیر کی حکومت الٹنے کی سازش “ آپریشن خلافت “ میں کچھ جرنیلوں کے ساتھی تھے ، مفتی سعید اسٹیبلشمنٹ کے انتہائی قریب سمجھے جاتے ہیں، انکے بارے میں یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ انہوں نے جنرل باجوہ کے سسر کادوبارہ نکاح پڑھایا تھا۔ عمران خان کا کیس لڑنیوالے وکیل انتظار پنجوتہ نے لکھا کہ مفتی سعید کیس سوائے میڈیا ٹرائل کے کچھ بھی نہیں قانونی لحاظ سے اس کہانی میں کچھ ایسا نہیں کہ عدالت اس میں الزام علیہان کو سمن جاری کر سکے جو الزام لگایا جا رہا اگر سچ بھی مان لیا جائے تو بھی یہ جرم نہیں محض بے قاعدگی ہے لہذا مفتی صاحب اس جھوٹے بیان سے بہتر تھا اپنا عمرہ ہی مکمل کر لیتے ایڈوکیٹ علی اعجاز بٹر کا کہنا تھا کہ یہ ہے وہ مفتی سعید جواپناعمرہ ادھورا چھوڑکراسلام آباد کچہری بیان ریکارڈ کروانے پہنچ گیاہےمگرحقیقت یہ ہےکہ ہمیں بہت کم ظرف اور کمینےدشمن ملے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مریم نواز کےایک بچی کےحوالےسے باتیں ہوتیں ہیں۔ہم بھی کیا ٹیسٹ کروائیں ؟کیا ہم بھی مریم نواز کے خلاف استغاثہ دائرکریں ؟ لیکن عمران خان کا ظرف دیکھیں ہمیں ہمیشہ کہا کہ ہم اس حد تک نہیں گرسکتے۔
مریم نواز شریف کی جانب سے بی ایم ڈبلیو کی ملکیت سے انکار کیا گیا ہے جبکہ بی ایم ڈبلیو کا ریکارڈ نہ صرف پاناما لیکس کی تحقیقات کیلئے قائم کردہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں موجود ہے بلکہ مریم نواز کے ٹیکس گوشواروں میں بھی ریکارڈ موجود ہے۔ سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق مریم نواز کو یو اے ای کے شاہی خاندان نے بی ایم ڈبلیو کار تحفہ میں دی تھی، جسے انہوں نے بعد میں فروخت کردیا اور اس سے حاصل ہونے والی رقم سے ان کے اثاثوں میں اضافہ ہوا۔ گزشتہ روز وائرل ہونیوالے کلپس میں مریم نواز بی ایم ڈبلیو گاڑی سے انکار کرتی رہیں، منصور علی خان نے مریم نواز سے سوال پوچھا کہ یواے ای کے شاہی خاندان کی بی ایم ڈبلیو گاڑی آپ نے توشہ خانہ سے لی جس پر مریم نواز نے کہا کہ میرے پاس کبھی بی ایم ڈبلیو کار نہیں تھی۔ہوسکتا ہے کہ یہ میری فیملی میں کسی کے پاس ہو۔ اس پر پی ٹی آئی رہنما مزمل اسلم نے ٹویٹ کرتے ہوئے طنز کیا کہ لندن میں کوئی پراپرٹی کے بعد میرے پاس کوئی بی ایم ڈبلیو نہیں مزمل اسلم کے اس ٹویٹ پر سلمان شہباز کا ردعمل میں دیکھنے کو ملا، مریم نواز انکار کررہی تھیں ک انکے پاس کوئی بی ایم ڈبلیو گاڑی نہیں ہے لیکن سلیمان شہباز نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں بتادیا کہ مریم نواز کے پاس کیوی کلر کی بی ایم ڈبلیو کار تھی۔ سلیمان شہباز کو یہ ٹویٹ کرنا مہنگا پڑگیا اور ن لیگی کارکن نہ صرف سلیمان شہباز کو تنقید کرتے رہے بلکہ بعض تو گالم گلوچ پر اترآئے۔ایک نے کہا کہ تیرے جیسوں کی موجودگی میں دشمنوں کی کیا ضرورت ھے، آپ ہی کافی ہو پارٹی کی جڑیں کاٹنے کیلئے۔ کسی نے فیملی اختلافات کا شاخسانہ قرار دیا تو کسی نے کچھ روز پہلے مریم نواز کے ٹویٹ کا بدلہ قرار دیا فیصل آفریدی نے تبصرہ کیا کہ ابا کو نااہل کرنے کا بدلہ لیا ہی سلیمان شہباز نے۔۔ یعنی کچھ روز پہلے مریم نواز نے کہا تھاہوجائے(شہبازشریف کی)نااہلی۔ ہم نے پہلے بھی نااہلیاں بھگتی ہیں، مریم نواز نے نوازشریف کی نااہلی کا بھی حوالہ دیا۔ مومن مختار کا کہناتھا کہ اپنا بغض ختم کر لو مریم نواز سے۔۔ مریم نواز اس وقت پاکستان میں کڑوروں لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بن چکی ہیں۔۔۔ داؤد خٹک نے لکھا کہ جب گھرمیں دشمن موجودہوں توباہرکےدشمن سےکیسےمقابلہ ہوگا؟ یہ وہی سلیمان شہباز ہےنا جس نےمریم نواز کیخلاف باقاعدہ پروگرامزکروائےباجوہ کاپیغام رساں بھی تھاویسےمریم نواز کےبغض میں مرجاوگےیہ دیکھ کےکہ وہ عوام میں اتنی مقبول کیوں ہےجبکہ خودکونسلرکی سیٹ بھی نہیں جیت سکتے خرم شہبازوڑائچ نے لکھا کہ یہ لوگ تو کھل کر سامنے آ گے اس نواز کے بغض میں جس کے بغیر یہ تینوں باپ بیٹے کونسلر تک نہ بن سکیں شاید صابرمحمودہاشمی نے لکھا کہ ماشا اللہ اتنا کماتے ہو پیسہ بھی کافی ہے کبھی ٹائم نکال کر کسی اچھے نیوروسرجن سے چیک اپ کروا لیں تاکہ اگر دماغ میں کوئی کیڑا ہے یا ذہنی توازن درست نہیں ہے تو اس کا علاج کروایا جا سکے ۔کیونکہ آپ اکثر بونگیاں ہی مارتے ہو عبدالمنان خان نے سلمان شہباز کو مشورہ دیا کہ بھائی ایک مشورہ دیتا ہوں یہ جانتے ہوۓ کہ آپ نے مانگا نہیں لیکن یہاں میرے لیے فرض ہے۔ مشورہ یہ ہے کہ مریم نواز صاحبہ سے اپنا بغض ختم کرلیں یہ آپ کیلئے بہتر ہوگا کیونکہ مریم نواز کے وہ حاسدین بھی آج تاریخ کے کوڑے دان میں ہیں جو وقت کے فرعون تھے آپ تو ویسے ہی کسی کھاتے میں نہیں بٹ صاحبہ نے ردعمل دیا کہہ چھوٹے میاں صاحب کو چاہیے اپنے اس نکمے بھونکے کوڈو کو لگام ڈالیں یہ انکی نسل کا لگتا ہی نہیں پہلے شاہد خاقان عباسی اور اب مریم کا مذاق خود دونوں بھائی کچھ کرنے جوگے نہیں اور باتیں اُس کزن کو جو صنفِ آہن بنی ہوئی ہر محاذ پہ جنگ لڑ رہی ہے اپنا ساڑ فیملی واٹس ایپ گروپ میں نکالا کرو کچھ دوستوں کا خیال تھا کہ حمزہ شہباز کی جگہ سلمان شہباز کا سیاست میں ہونا زیادہ موثر ہوتا لیکن مسلسل چولیں مار کر سلمان نے سب دوستوں کو غلط ثابت کیا ہے۔ روبینہ نے لکھا کہ پنجاب کی ثقافت میں "شریکوں" کو اعلیٰ مقام ایویں ہی نہیں حاصل ہوا
ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز کے منصور علی خان کو دیئے گئے ایک انٹرویو کا لیکڈ کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہورہا ہے جس میں توشہ خانہ کے تحائف سے متعلق گفتگو کی گئی ہے۔ صحافی عدیل راجا نے مریم نواز کے ایک انٹرویو کا کلپ شیئر کیا جس میں وہ منصور علی خان کے توشہ خانہ سے متعلق سوال کا جواب دہ رہی پہں۔عدیل راجا نے وڈیو کے کیپشن میں لکھا کہ مریم نواز کا منصور علی خان کے انٹرویو کا وہ کلپ جو شاید ایڈیٹ کیا گیا یا چل نہ سکا۔ اس کلپ میں منصور علی خان نے مریم نواز سے سوال پوچھا کہ یواے ای کے شاہی خاندان کی بی ایم ڈبلیو گاڑی آپ نے توشہ خانہ سے لی جس پر مریم نواز نے کہا کہ میرے پاس کبھی بی ایم ڈبلیو کار نہیں تھی۔ منصور علی خان نے انہیں بتایا کہ آپ کے 2009 ۔ 2010 کےٹیکس ریٹرینز میں درج ہے کہ گاری آپ کے نام پر پے جس پر مریم نواز نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ شاید فیملی میں کسی کے پاس وہ گاڑی ہو۔منصور علی خان نے مریم نواز سے کہا آپ نے وہ گاڑی 2013 میں 2 کروڑ روپے میں فروخت کردی تھی جس پر مریم کا جواب تھا کہ میرے پاس اس کی کوئی تفصیلات موجود نہیں ہیں۔ دوران سوالات مریم نواز بار بار پوچھتی رہی کہ کیا اس ریکارڈ ہورہا ہے؟ جس پر انہیں اثبات میں جواب دیا گیا تو انہوں نے کہا کہ کیمرا بند کردیں۔ مریم نواز یہ کلپ شئیر نہ کرنے کی درخواست کرتی رہیں اور اسکو کاٹو کا کہتی رہیں جس پر سوشل میڈیا پر مریم نواز کا مذاق بنا گیااور سوشل میڈیاصارفین نے دلچسپ تبصرے کئے اور میمز شئیر کیں۔#اس_کو_کاٹو سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ موسیٰ ورک کا کہنا تھا کہ جیسے ہی اپنے تحائف اور خاندانی مالی معاملات پر سوال ہوا تو کرپشن کے پیسوں پر پلی بگڑی خاتون نے ریکارڈنگ رکوا دی۔ اور "آزاد" صحافی نے حکم کی تعمیل کی۔ پھر اگلا سوال پوچھنے کی "گستاخی" سے قبل بھی باقاعدہ اجازت لی۔ فکس میچ اگر یہ تو ہوتا کیا ہے؟ شہربانو نے بھارتی فلم نائیک کا ایک کلپ شئیر کیا جس میں امریش پوری سخت سوال پر کہتے ہیں کہ کیمرہ بند کرو۔۔ شہربانو نے تبصرہ کیا کہ بند کرو کیمرا "اس کو کاٹو " عالیہ حمزہ نے تبصرہ کیا کہ مجھےنہیں پتہ گاڑی کون سےگاڑی تحفےکہاں سےآئے کون لایا کہاں گئےہم نہیں جانتے لیکن خان سوشل میڈیاپرXYZکی طرف سےکی گئی تنقیدکابھی جواب دے توشہ خانہ سےخریدی گی گھڑی کابھی جواب دے فل ٹاس نے فلم نائیک کے پانڈو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فلم نائیک کے انٹرویو کی مریم اورنگزیب مسرت جمشید چیمہ نے طنز کیا کہ پہلے سوال میری مرضی کا ہو ورنہ #اس_کو_کاٹو دراصل یہ وہ لیول پلینگ فیلڈ ہے جو پی ٹی آئی کی مین آف دی میچ ہر جلسی، ہر انٹرویو میں چیخ، چیخ، گڑ گڑا کر مانگتی ہے۔ یاد رہے اسکے باپ نے بھی ہمیشہ جم خانہ میں کرکٹ میچ سے لیکر طلعت جیسے صحافی کو انٹرویو پہلے سے فکس کر کے ہی دیا ہے۔ صدیق جان اوراظہرمشوانی بھی پیچھے نہ رہے۔ وجاہت اقبال نے سہیل احمدعزیزی کا پرانا کلپ شئیر کیا جس میں وہ میرا بنی ہوئی ہوتی ہیں اور کہتی ہیں کہ تینوں یاد نئیں ریندا میں کی کی کھادا اے، نہ مینوں یاد ریندااے کہ میں کی کی کھادا اے تے کیدا کیدا کھادا اے صارم حسین نے تبصرہ کیا کہ یہ کاٹو، وہ کاٹو #اس_کو_کاٹو، اُس کو کاٹو کرتے کرتے مریم نواز بہت جلد پارٹی کو ہی پاکستان سے کاٹ ڈالنے والی ہیں دیگر سوشل میڈیاصارفین نے دلچسپ تبصرے کئے اور میمز شئیر کیں
مشہور صحافی و اینکر اقرار الحسن کے متضاد بیانات اور ٹویٹس کے معاملے پر سوشل میڈیا صارفین نے انہیں آئینہ دکھادیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق اقرار االحسن مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر کافی متحرک نظر آتے ہیں، تاہم کچھ عرصے سے ان کے بیانات اور رائے میں واضح طور پر فرق دیکھا گیا ہے، یہ فرق ایسا ہے کہ کوئی بھی اسے باآسانی نوٹ کرسکتا ہے، اقرار الحسن کچھ عرصے سے ایک ہی دن میں کبھی ایک جماعت کی مخالفت اوردوسری جماعت کی حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ کچھ دیر بعد وہ حمایت والی جماعت کی مخالفت میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے دو روز قبل ایک ہی دن میں ایک پی ٹی آئی مخالف اور دوسری پی ٹی آئی حمایت میں ٹویٹ کرکے اپنے مداحوں کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔ پہلی ٹویٹ انہوں نے پی ٹی آئی مخالف کی اور کہا کہ ایک ایسی پارٹی ہے جو کبھی آرمی چیف کو ابو کہتی تھی پھر اس ابو نے اپنا غیر آئینی ہاتھ اولاد کے سر سے اُٹھا لیا، پھر اولاد نے ابو کے ساتھ جو کیا وہ دنیا نے دیکھا، اب وہ پارٹی چیف جسٹس کو ابو کہہ رہی ہے۔ صرف آدھے گھنٹے بعد انہوں نے دوسری ٹویٹ کی اورعمران خان کی تعریف کرتے ہوئے لندن میں مقیم میاں نواز شریف کا نام لیے بغیر کرڈالا۔ اقرار الحسن کی ان متضاد ٹویٹس پر اداکار و میزبان نور الحسن بھی پریشان ہوگئے انہوں نے15مارچ اور 26 مارچ کو پی ٹی آئی جلسوں سے متعلق یکسر مختلف ٹویٹس کا سکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے کہا کہ اقرارالحسن اگر فلسطین میں ہوتے تو ایک روزمیں 6 ٹویٹس کرتے جن میں سے 3 فلسطین کے حق میں ہوتیں اور 3 اسرائیل کے حق میں۔ اقرار الحسن نے نور الحسن کا نام لیے بنا کہا افسوس اُن دوستوں پر ہے جو ایک جھوٹے شخص سے اظہارِ یکجہتی میں مزید جھوٹ پھیلا رہے ہیں۔ کچھ اکاؤنٹس اس ٹوئیٹ کا صرف پہلا حصہ ٹوئیٹ کر کے بددیانت صحافیوں کے فالوور ہونے کا حق ادا کر رہے ہیں۔ مکمل ٹوئیٹ یہ تھی۔ رباب حیات نامی صارف نے بھی اقرار الحسن کی دو ٹویٹس شیئر کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے ٹویٹس ثابت کرتے ہیں کہ آپ کو کسی اچھے نفسیاتی ڈاکٹر کی ضرورت ہے، جب بھی کوئی غلطی کرے گا اس پر تنقید کی جائے گی وہ کوئی بھی ہو، آپ صحافی بھائیوں کیلئے معاملات کو بیلنس رکھنا ضروری ہے ، ہمارے لیے ایسا کرنا ضروری نہیں۔ عاصف ایمان نامی صارف نے بھی اقرار الحسن کی ٹویٹس شیئر کرتے ہوئے کہا کہ توجہ کی بھوک انسان کو حد سے گرادیتی ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی پارلیمنٹ آمد پر سینئر صحافی و تجزیہ کار بھی سوالات اٹھانے لگے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ایک ایسے موقع پر جب حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان شدید کشیدگی کے بادل چھائے ہوئے ہیں ، سپریم کورٹ کے اندر بھی مبینہ تقسیم کی باتیں زبان زد عام ہیں ، سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پارلیمنٹ میں آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی سے متعلق اجلاس میں پہنچ گئے اور جناب وزیراعظم شہباز شریف، سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کی ساتھ والی نشست پر براجمان رہے ۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی موجودگی پر سیاسی تقاریر بھی ہوئیں، جس میں عدلیہ پر تنقید بھی شامل رہی، تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خطاب کے دوران ان سیاسی باتوں سے متفق نا ہونے کا اعلان بھی کردیا۔ اس پیش رفت پر غیر جانبدار حلقے اور سینئر صحافی و تجزیہ کار شدید حیران و پریشان دکھائی دے رہے ہیں، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیوں کیا۔ سینئر صحافی واینکر پرسن مہر بخاری نے آصف علی زرداری کی تقریر کے دوران سرجھکائے بیٹھے قاضی فائز عیسیٰ کی تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ کیا ساری ذہانت اور تدبیریں ختم ہو گئی ہے؟ جب جسٹس فائز عیسیٰ نے آئین کے 50 سال پورے ہونے پر اس مضحکہ خیز خصوصی دعوت کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا وہ تو کیا سوچ رہے تھے؟ مہر بخاری نے مزید کہا کہ یقیناً جشن منانے کے اور بھی بہتر طریقے ہوسکتے تھے، سپریم کورٹ کے لیے ایک نازک اور متنازعہ وقت میں اس سے بدتر آپٹکس کیا ہو سکتی ہے؟ مہر بخاری نے ٹویٹ کو شیئر کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار و اینکر پرسن کامران خان نے کہا کہ یہ بیشک عقل سے بالا تر فیصلہ ہےیا کچھ ایسے معاملات ہیں جن کا ہمیں علم نہیں ہے۔ کامران خان نےمزید کہاکہ سپریم کورٹ پہلے کچھ کم متنازعہ تھی کہ جسٹس فائز عیسی نے آج اس جلسے میں شرکت کرنے کا فیصلہ کیا اور زرداری صاحب کے کندھے سے کندھا جوڑ کر گھنٹوں عمران خان مخالف اور عدلیہ مخالف تقاریر سنیں۔ ارشاد بھٹی نے کہا وہ کہنا یہ تھا کہ وہ جو ہم خیال بنچز،ہم خیال ججز کےبیانئیےبنا رہے ہیں،وہ جنہیں ہم خیال ججز،ہم خیال بنچز ہر سازش کرتےنظر آتے ہیں ان سب کو آج کیسا لگا جب سپریم کورٹ کے اگلے چیف جسٹس قومی اسمبلی میں حکومتی بنچوں پر بیٹھے نظرآ ئےاور وہ بھی اُن لمحوں میں جب حکومت بمقابلہ سپریم کورٹ ماحول ہے۔ ماہر قانون انتظار حسین نے کہاآئین کی پچاس سالہ تقریب کے موقع پر یہ تصویر آئین کے چہرے پر ایک زوردار تھپڑ ہے کہ جس آئین نے عدلیہ مقننہ اور انتظامیہ کی حدیں مقرر کیں صرف اس لیے کہ یہ وفاق کی اکائیوں کو جوڑ کے رکھے اور تمام ادارے اپنی حد میں رہ کر ایک دوسرے پر نظر بھی رکھ سکیں اور آئین کا تشخص برقرار رہے لیکن آج سپریم کورٹ کے حکم کو ناماننے کے لیے بلائے گئے اجلاس کا نام پچاس سالہ جشن رکھا گیا ہے۔ جہاں اسی سپریم کورٹ کا ایک جج ایویں دل پشوری کرنے آیا ہوا اور سازش یہ رچی جا رہی کہ سپریم کورٹ کے آئینی اختیارات کو کسی بھی طرح محدود کیا جا سکے۔

Back
Top