مفتاح اسماعیل نے کہا 18 ارب روزانہ سود دینے والی حکومت کیلئے 21 ارب دینا بڑی بات نہیں تھی: سینئر صحافی
سینئر صحافی وتجزیہ نگار ارشاد بھٹی نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات کے معاملہ ابھی تک حل طلب ہے اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ صاحب نے فرما دیا ہے کہ جتنا مرضی زور لگا لیں انتخابات 14 مئی کو نہیں ہوں گے جبکہ یہ بھی کہا کہ سٹیٹ بینک کے افسران نے 21 ارب روپے جاری کیے تو ان سے ریکوری کی جائے گی۔
سارا معاملہ الٹا ہے، ایک طرح سے ملک میں ادھوری پارلیمنٹ کا مارشل لاء لگا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ سیدھا سادھا معاملہ ہے کہ آئین کے مطابق صوبائی اسمبلیاں ٹوٹنے پر 90 دنوں میں انتخابات ہونے ہیں۔ الیکشن کمیشن، گورنر اور حکمران اتحاد کے اپنا اپنا کام نہ کرنے پر معاملہ عدالتوں میں گیا جس سے آئینی بحران پیدا ہوا اور پارلیمنٹ مارشل لاء لگا۔ پی ڈی ایم، نوازشریف، شہباز شریف، مریم نوازشریف، مولانا فضل الرحمن اور بلاول جیت رہے ہیں لیکن آئین ہار رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسی رسم ڈالی جا رہی ہے کہ آئندہ کوئی بھی جب بھی چاہے گا کوئی بھی کہانی سنا کر انتخابات ملتوی کر دے گا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ 5 رکنی بینچ کیخلاف بغیر کسی قانونی وآئینی حیثیت کے قرارداد قومی اسمبلی میں منظور کر لی گئی ۔
تین رکنی بینچ کے فیصلے کیخلاف قرارداد بغیر کسی قانونی وآئینی حیثیت کے پارلیمنٹ نے منظور کر لی۔ مفتاح اسماعیل نے کہا 18 ارب روزانہ سود دینے والی حکومت کیلئے 21 ارب دینا بڑی بات نہیں تھی نہ ہی پارلیمنٹ سے منظوری کی ضرورت تھی۔
ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلوں کے خلاف قراردادیں منظور کر لی گئیں اور آج پھر معاملہ وفاقی کابینہ نے پارلیمنٹ کو بھیج دیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں اور انتخابات کے علاوہ آئین وجمہوریت کو بھی مذاق بنا دیا گیا ہے۔
آج ذوالفقار علی بھٹو ہوتے تو وہ کہتے میرا تو جوڈیشل مرڈر ہو گیا لیکن جو آئین کا مرڈر میری پارٹی کر رہی ہے وہ کیا کر رہی ہے؟مفتی محمود ہوتے تو وہ مولانا فضل الرحمن سے پوچھے کہ میرے پیارے بیٹے آپ کیا کر رہے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن تو وہی کر رہی ہے جو ان کے بڑے ضیاء الحق کر رہے تھے کہ یہ آئین کیا ہے، چند صفحوں کی ایک دستاویز ہے جسے جب چاہوں پھاڑ کر پھینک دوں۔ حکومتی اتحاد کو ایک قرارداد منظور کرنی چاہیے کہ آئین بھی کوئی نہیں، سپریم کورٹ بھی کوئی نہیں ہے۔ انتخابات اس وقت ہوں گے جب ہم چاہیں گے چاہے وہ پانچ سال بعد ہوں۔