خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

سیاسی

Threads
1.3K
Messages
11.6K
Threads
1.3K
Messages
11.6K

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
پنجاب کے تمام اسکولز میں اسمبلی میں درود شریف لازم قرار وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اسکولوں کیلئے اہم اعلان کردیا, پنجاب کے تمام اسکولوں میں اسمبلی کے دوران درودشریف پڑھنا لازمی کردیا گیا۔وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صوبے کے تمام اسکولوں میں اسمبلی کے دوران بچوں کو درود شریف پڑھانے کے احکامات جاری کردیئے۔ اسکولوں میں صبح کے اوقات میں اسمبلی کےدوران درود شریف پڑھنے کے حوالے سے مراسلے میں کہا گیا کہ اسمبلی میں قومی ترانہ سے قبل تلاوت قرآن پاک اور پھر درود شریف پڑھا جائے گا۔وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا ہے کہ رحمتہ اللعالمین حضرت محمدؐ کی خدمت میں درود شریف پیش کرنا ہر مسلمان کیلئے سعادت ہے۔ عثمان بزدار کا کہناہے کہ اسکولوں کی اسمبلی میں درود شریف پڑھنے سے نئی نسل اس فضیلت اور برکت سے فیضیاب ہوگی، بارگاہ رسالتؐ میں درود شریف پیش کرنے سے برکات نازل ہوتی ہیں۔ اس سے قبل پنجاب حکومت نے ماہ ربیع الاول پر عشرہ رحمت اللعالمین بھی منایا تھا, جس کے تحت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں محفل میلاد کا انعقاد کیا گیا تھا۔
نجی ٹی وی چینل سماء کو انٹرویو کے دوروان چیئرمین شوگر ملز ایسوسی ایشن ذکا اشرف نے اس خدشے کے اظہار کیا کہ پاکستان میں دوبارہ چینی کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت کی چینی دبئی کے راستے پاکستان آرہی ہے۔ محض بیگ تبدیل کرکے پاکستانیوں کو ہائی سلفر شوگر کھلائی جا رہی ہے اور اس حوالے سے ہم نے وزیراعظم عمران خان سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ذکا اشر نےشوگر انڈسٹری ختم کرکے کاٹن انڈسٹری کے فروغ کی سوچ کوغلط قرار دیا اور کہا کہ شوکت عزیز بھی شوگر، سیمنٹ اور کھاد انڈسٹری کو ختم کرنے کا ایجنڈا لے کر آئے تھے۔ مسابقتی کمیشن کا سخت رویہ شوگر انڈسٹری کو لے ڈوبے گا۔ ذکا اشرف نے کہا کہ چینی کا بحران دوبارہ پیدا ہوسکتا ہے تاہم وزیراعظم چینی کا بحران ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں لیکن ان کے ماتحت افراد کارکردگی دکھائیں گے تو بحران ختم ہوگا۔ شوگر انڈسٹری سے نرم رویہ رکھا جائے ورنہ انڈسٹری بند ہوجائے گی۔ شوگر انڈسٹری لوہا بیچ کر بھی 44 ارب روپے پورے نہیں کرسکتی۔ سٹے باز ہر انڈسٹری میں سٹہ لگاتے ہیں لیکن شوگر انڈسٹری کا سٹے بازوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور سٹے بازوں کو کھلی چھوٹ جبکہ کاروباری افراد کو پکڑا جاتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتہ صحافی و بلاگر مدثر نارو کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری عدالت پیش ہوئیں۔ معزز جج نے ریمارکس دیئے کہ لاپتہ افراد کی ذمہ داری وزیراعظم اور کابینہ پر آتی ہے، کیوں نہ ریاست کی بجائے معاوضے کی رقم وزیراعظم اور کابینہ ارکان ادا کریں؟ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزیر انسانی حقوق سے کہا کہ آپ کے اندر احساس ہے، لیکن ریاست میں احساس نظر نہیں آتا، لاپتہ افراد کے اہلخانہ سڑکوں پر رل رہے ہوتے ہیں، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ہر شہری کے بنیادی حقوق کا خیال کرے، ریاست کا ری ایکشن اس کیس میں افسوس ناک ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ریاست ماں کے جیسی ہے ، اس کو اسی طرح نظر آنا چاہیے، ماں کی طرح ان کو لیکر جائیں اس فیملی کو مطمئن کریں، اس کا بچہ بھی پیدا ہوا ہے ، اس کی بیوی بھی دنیا چھوڑ گئی، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ بچے اور اس کے والدین کو مطمئن کرے، وزیراعظم اور وفاقی کابینہ اس متاثرہ فیملی کو سنیں اور مطمئن کریں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیوں نا ایک قانون بنایا جائے کہ جو ذمہ دار ہے اس سے معاوضہ لیا جائے، اگر کوئی 2002 میں لاپتہ ہوا تو کیوں نا اس وقت کے ذمہ داروں کو جرمانے کیے جائیں، اس وقت کے چیف ایگزیکٹو کو ذمہ دار ٹھہرا کر اسے ازالے کی رقم ادا کرنے کا کیوں نا کہا جائے؟ کسی نہ کسی کو تو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہئے، ہماری آدھی زندگی غیر جمہوری حکومتوں میں گزری اور یہ انہی کا کیا کرایا ہے۔ عدالت نے کہا اب تو پولیس، منسٹری یہاں تک سے ہر ایک کو فری ہینڈ ملا ہوا ہے، اس میں صرف اسٹیٹ ایکٹر نہیں نان اسٹیٹ ایکٹر بھی آتے ہیں، تمام ایجنسیاں وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہیں، الزام درست ہو یا نا ہو ذمہ داری ریاست کی ہے کہ وہ متاثرہ فیملی کو مطمئن کرے، تین سال سے وہ در بدر پھر رہے ہیں، اس سلسلے کو رکنا چاہیے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وزیراعظم کے پاس لے کر جائیں، کابینہ ارکان سے ملاقات کرائیں، آپ کوشش کریں کہ یہ وزیراعظم سے ملاقات کے بعد مطمئن ہو کر واپس آئیں، عدالت نے حکومت کو 13 دسمبر تک مدثر نارو کی فیملی کو مطمئن کرنے کا حکم دیا اور سماعت ملتوی کر دی۔
انگریزی روزنامہ ڈان کے مطابق جنوبی کوریا کے موبائل مینو فیکچرر سام سنگ نے بالآخر باقاعدہ طور پر پاکستان میں موبائل فون تیار کرنا شروع کردیئے ہیں۔ اس سے اس صنعت اور وزارت تجارت کو امید ہے کہ آئندہ مہینوں میں ملک کا درآمدی بل کم ہوجائے گا۔ یہ پیش رفت کمپنی کے اعلیٰ منیجرز کی سینیٹرز کے ساتھ ایک اجلاس میں سامنے آئی جنہوں نے پروڈکشن سائٹ کا دورہ کیا اور اس کا مقصد پاکستان میں موبائل فون مینوفیکچرنگ انڈسٹری کے لیے بڑھتے ہوئے نئے شعبے اور آنے والے چیلنجز کے بارے میں بریفنگ حاصل کرنا تھا۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کے چیئرمین فیصل سبزواری نے بتایا کہ سام سنگ نے باقاعدہ طور پر اپنی پیداوار شروع کردی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ کمپنی نے 4 ماہ کی قلیل مدت میں پیداوار بھی شروع کردی۔ فیصل سبزواری کے مطابق پروڈکشن یونٹ کا دورہ کیا گیا جو جدید خطوط پر استوار ہے اور ظاہر ہے کہ مقامی افرادی قوت، مقامی صنعت کی سپورٹ اور حکومت کی جانب سے فراہم کردہ سازگار ماحول اس کامیابی کا سبب بنا۔ لیکن پھر بھی مجھے یقین ہے کہ ہمیں صرف اسمبلنگ میں ترقی سے آگے بڑھ کر صنعت کو مقامی بنانے تک جانا چاہیے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے ابتدائی 10 ماہ کے دوران مقامی مینوفیکچرنگ پلانٹ سے موبائل فونز کی پیداوار دگنی ہو کر ایک کروڑ 88 لاکھ 70 ہزار کی سطح پر جا پہنچی جبکہ درآمد شدہ فونز کی تعداد 4 کروڑ 50 لاکھ تھی۔ پی ٹی اے کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں رواں مالی سال کے ابتدائی 4 ماہ (جولائی تا اکتوبر) کے دوران 64 کروڑ 46 لاکھ 70 ہزار ڈالرز مالیت کے فونز درآمد کیے گئے جس میں گزشتہ برس کے اسی عرصے کے 55 کروڑ 79 لاکھ 61 ہزار ڈالر کے مقابلے 15.54 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ پاکستان میں سام سنگ کے شراکت دار لکی گروپ کے چیف محمد علی ٹبہ نے کہا کہ ہمارا ڈھائی سے 3 لاکھ کی پروڈکشن کے ساتھ سالانہ 3ملین تک موبائل بنانے کا ارادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس کے لیے کسی روبوٹک مدد کے ساری پروڈکشن دستی طریقے سے کر رہے ہیں تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس سے انجنیئرنگ کے شعبے میں کرنی افرادی قوت کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔
وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داؤد کا کہنا ہے کہ نومبر میں پاکستانی برآمدات میں 33 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، اس ماہ 2 اعشاریہ 903 ارب ڈالر کی کل برآمدات رہیں جو گزشتہ سال نومبر میں 2اعشاریہ 174 ارب ڈالر تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نومبر میں حکومت کا پاکستانی برآمدات کا ہدف 2اعشاریہ 6 ارب ڈالر تھا، رواں مالی سال کے پہلے 5ماہ میں برآمدات میں 27 فیصد کا اضافہ ہوا۔ پانچ ماہ میں 12اعشاریہ 365 ارب ڈالر کی برآمدات رہیں جبکہ گزشتہ مالی سال اسی عرصہ میں 9اعشاریہ 747 ارب ڈالر تھیں۔ مشیر تجارت نے یہ بھی کہا کہ رواں مالی سال کے 5ماہ میں حکومت کا برآمدات کا ہدف 12 اعشاریہ 2 ارب ڈالر تھا۔ دوسری جانب عارف حبیب لمیٹڈ نے بتایا کہ رواں سال ایکسپورٹس 2 اعشاریہ 90 بلین رہیں جو کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 34فیصد زائد ہے اور اس مالی سال کے کسی بھی مہینے کے اعتبار سے 18فیصد کا اضافہ ہے۔ یاد رہے کہ رواں مالی سال کے گزشتہ 4 ماہ کے دوران ہر مہینے پاکستانی برآمدات میں پہلے کی نسبت اضافہ ہو رہا ہے۔
آسٹریلوی پارلیمنٹ کی ورکر برٹنی ہگنس کے جنسی زیادتی کا نشانہ بننے کے بعد شروع ہونے والی تحقیقات7ماہ بعد مکمل ہو گئیں۔ تحقیقات میں ہتہ چلا ہے کہ آسٹریلیا کی خواتین ارکان پارلیمنٹ شدید جنسی ہراسگی کا نشانہ بن رہی ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ ہر 3میں سے ایک رکن پارلیمنٹ کو جنسی ہراسگی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ خواتین ارکان پارلیمنٹ نے بتایا کہ مرد سیاست دان ان کے ہونٹوں کو چومنے، دھکا دینے، ہاتھ لگانے اور تھپکی دینے جیسی حرکات کر کے انہیں جنسی طور پر ہراساں کرتے ہیں۔ خبررساں ادارے کے مطابق یہ تحقیقات مسلسل 7ماہ تک مسلسل جاری رہی ہیں جن میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ آسٹریلیا کی پارلیمنٹ میں وسیع پیمانے پر خواتین ارکان پارلیمنٹ کو ہراسگی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اعلی سطح کی انکوائری رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ پارلیمنٹ میں غنڈہ گردی اور بڑے پیمانے پر جنس زدہ کلچر فروغ پا رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آسٹریلوی پارلیمنٹ کی ارکان اور عملے کے 1700 انٹرویو کیے جس میں انکشاف ہوا ہے کہ ہر 3 میں سے ایک رکن پارلیمنٹ کو جنسی طور پر ہراسانی کا سامنا رہا ہے۔ یاد رہے کہ یہ تحقیقات 2019 میں ایک رکن پارلیمنٹ کے دفتر میں کام کرنے والی خاتون کو ہراساں کرنے کے واقعے پر تحقیقات کے نتیجے میں شروع کی گئیں تھیں۔
مشہور پاکستانی اداکارہ وینا ملک نے ایک انٹریو کے دوران کہا کہ انہیں مریم نواز کو نانی اماں کہنے پر سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا، انہوں نے بتایا کہ کئی لوگوں کے ذریعے مجھے مریم نواز کے پیغام ملے کہ میں انہیں "نانی اماں" نہ کہا کروں۔ سماء نیوز کے مطابق اداکارہ نے کہا کہ مریم نواز نے میری کردار کشی کیلئے پوری ٹیم رکھی ہوئی ہے۔ میرا بھی دل کرتا ہے کہ لوگوں کو اچھے ناموں سے پکاروں، ان کا کہنا تھا کہ جب آپ پبلک آفس ہولڈ کریں تو پھر تنقید بھی برداشت کرنی پڑتی ہے اور اس کے لی دل جگر بڑا رکھنا پڑتا ہے۔ وینا ملک کا کہنا تھا کہ ایک زمانہ تھا جب گلی محلوں میں غنڈے موالی اور بدمعاش ہوا کرتے تھے اب وہ سب سوشل میڈیا پر آ گئے ہیں۔ مریم نواز کے سوشل میڈیا ٹرولز بھی مجھے اسی طرح گالیاں اور دھمکیاں دیتے ہیں۔ انہوں نے ایک پوری ٹیم رکھی ہے جو مجھے ٹرول کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی سیاست اور بلاول سے متعلق سوال پر اداکارہ نے کہا کہ چیئرمین پی پی میں بےنظیر کی جھلک نہیں ہے وہ تو صرف آصف زرداری کی شبیہ ہیں اور آصف زرداری کی فلم تو پہلے سے ہی پٹ چکی ہے۔ ان کے نزدیک بلاول کے وزیراعظم بننے کا کوئی چانس نہیں ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق منڈی بہاؤالدین کے ڈپٹی کمشنر طارق علی بسرا اور اسسٹنٹ کمشنر امتیاز بیگ کو سزا سنانے والے جج کو وکلا نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ جس پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راؤ عبدالجبار خان کی مدعیت میں ڈی سی اور اے سی کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سیشن جج پر عدالت میں تشدد کرانے کے الزام میں ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر، صدر اور جنرل سیکرٹری بار سمیت 10 افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ اعلیٰ حکام کے حکم پر ڈی پی او منڈی بہاؤالدین اور ڈی ایس پی صدر منڈی بہاؤالدین کو بھی معطل کر دیا گیا۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے واقعہ کا نوٹس لے لیا تو آئی جی پنجاب راؤ سردار کے حکم پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو تشدد کا نشانہ بنانے پر ڈی سی اور اے سی منڈی بہاؤالدین کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ سیشن جج نے مقدمے کی درخواست میں موقف اپنایا کہ ان کے کمرے میں وکیلوں نے گھس کر دھمکیاں دیں، وکلا نے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے خلاف کارروائی واپس لینے پر زور دیا، جب کہ انکار پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ معاملے کی ایف آئی آر اور چیمبر میں لے جا کر تشدد کا نشانہ بنانے کی فوٹیج پہلے ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج کو عدالت میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنانے والے افراد کے خلاف 11 دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ دوسری جانب پنجاب بار کونسل نے منڈی بہاؤالدین میں کنزیومر کورٹ کے جج سے وکلا کی بدتمیزی کا نوٹس لے لیا۔ پنجاب بار کونسل نے واقعے میں ملوث مقامی بار کے سیکرٹری سمیت دیگر وکلا کو شوکاز نوٹس جاری کیا۔ بار کونسل نے متعلقہ وکلا کو 6 دسمبر کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔ وائس چیرمین پنجاب بار کونسل فرحان شہزاد نے معاملے کانوٹس لیتے ہوئے کہا کہ متعلقہ وکلا شوکاز نوٹس کا جواب لیکر پنجاب بار آفس پیش ہوں۔
سکھوں کے مذہبی مقام کرتارپور صاحب کے احاطے میں فوٹو شوٹ کروانے والی ماڈل صالحہ امتیاز نے معافی مانگ لی,صالحہ امتیاز نے انسٹاگرام پر اپنا معافی نامہ جاری کردیا۔ صالحہ امتیاز نے لکھا کہ انسٹاگرام پر ایک تصویر پوسٹ کی جو کسی شوٹ یا کسی چیز کا حصہ بھی نہیں تھی، میں صرف تاریخ کے بارے میں جاننے اور سکھ برادری کے بارے میں جاننے کے لیے کرتار پور گئی تھی۔ صالحہ نے مزید لکھا کہ یہ فوٹو شوٹ کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے نہیں کیا گیا تھا اگر میں نے کسی کو تکلیف دی ہے یا وہ سوچتے ہیں کہ میں نے وہاں کی ثقافت کا احترام نہیں کیا تو میں معافی چاہتی ہوں۔ CW2nv1uonQz ماڈل نے کہا کہ انہوں نے صرف لوگوں کو تصویریں کھینچتے دیکھا اور میں نے وہاں بہت سی سکھوں کی تصویریں بھی کھینچیں,میں سکھ کلچر کا بہت احترام کرتی ہوں اور میں تمام سکھ برادری سے معافی چاہتی ہوں۔ ماڈل نے مزید بتایا کہ یہ تصاویر صرف یادگار کے طور پر لی تھیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں, مستقبل میں، میں ہمیشہ ان چیزوں کے بارے میں محتاط رہوں گی اور ایسی حرکتوں سے پرہیز کروں گی۔اُصالحہ امتیاز نےمداحوں سے اپیل کی وہ اس پوسٹ کو شیئر کریں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ وہ فوٹو شوٹ جان بوجھ کر نہیں کیا گیا تھا۔ خاتون ماڈل صالحہ امتیاز کی تصاویر سامنے آنے پر سکھ برادری نے ناراضی کا اظہار کیا گیا تھا,اب صالحہ امتیاز نے اپنے اقدام پر معافی مانگ لی ہے۔
سوشل میڈیا پر بحرین پولیس میں بھرتیوں سے متعلق ایک اشتہار دیکھ کر سینکڑوں امیدوار راولپنڈی پہنچ گئے، مگر وہاں جاکر پتا چلا کہ اشتہار جعلی ہے۔ نجی خبررساں ادارے ایکسپریس نیوز کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر سے سینکڑوں کی تعداد میں نوجوان سوشل میڈیا پر ایک اشتہار دیکھ کر نوکری کی تلاش میں راولپنڈی کے علاقے راول روڈ پر بھرتیوں کے انٹری ٹیسٹ کے مقام کیلئے بتائی گئی عمارت کے باہر پہنچ گئے۔ صورتحال اس وقت خراب ہوئی جب نوجوانوں کو اس نیم سرکاری عمارت کے باہر ایک بینر نظر آیا جس پر لکھا گیا تھا کہ سوشل میڈیا پر بحرین پولیس میں بھرتیوں کیلئے دیا گیا اشتہار جعلی ہے اور ایسی کوئی بھرتی کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے، حقیقت جان کر سینکڑوں کی تعداد میں جمع ہونے والے امیدوار مشتعل ہوگئے اور انہوں نے احتجاج شروع کردیا۔ مظاہرین نے احتجاج کے دوران نیم سرکاری عمارت کا گھیراؤ کرلیا اور عمارت کے بیرونی حصے میں توڑ پھوڑ شروع کردی جس سے عمارت کا استقبالیہ متاثر ہوا اور بلڈنگ میں موجود عملہ محصور ہوگیا، مظاہرین نے راول روڈ سے ملحقہ تمام سڑکوں کو بھی بلا ک کردیا ۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچی اور مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کرنے لگی مگر مظاہرین کی پیش قدمی نہ رکی ، صورتحال کو بگڑتا دیکھ کر پولیس نے مزید نفری طلب کی، ہوائی فائرنگ مظاہرین کو منتشر کیا۔
کراچی میں غیرقانونی عمارتوں کیلئے سندھ حکومت کا بڑا اعلان,تحفظ کی یقین دہانی نسلہ ٹاور سمیت کراچی میں کئی ایسی عمارتیں ہیں جن کے مکین نقصان کا سامنا کررہے ہیں,جس پر سندھ حکومت نے خلاف ضابطہ رہائشی تعمیرات کو قانونی تحفظ دینے کا فیصلے کا اعلان کردیا سندھ حکومت کا کہناہے کہ آرڈیننس کے ذریعے غیر قانونی عمارت اور رہائشی منصوبوں کو ريگولرائزڈ کیا جائے گا, لیکن اس میں ملوث بلڈرز پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ صوبائی کابینہ کی منظوری کے بعد آرڈیننس گورنر کو بھیجا جائے گا جبکہ ريٹائرڈ جج کي سربراہی ميں ايک کميشن تشکيل ديا جائے گا جو غیر قانونی رہائشی منصوبوں کوريگولرائزڈ کرنے کا فیصلہ کرے گا۔ دوسری جانب صوبائی وزير اطلاعات سعيد غنی کہتے ہیں کہ پنجاب ميں ايسا آرڈيننس لايا جاسکتا ہے تو باقی صوبوں ميں کيوں نہيں لایا جاسکتا۔سعید غنی نے کہا کہ پنجاب حکومت نے 6 ہزار سوسائٹيوں کوريگولرائزڈ کرنے کے لیے آرڈيننس جاری کیا تو پھر یہی پيمانہ ديگرصوبوں کے لیے کيوں نہيں ہے ہوسکتا۔ سعید غنی نے ساتھ ہی کہا کہ سرکاری زمين پربسنے والی پرانی آبادی کوريگولرکرنے کی اجازت ہونی چاہيے,متاثرين کي تعداد لاکھوں ميں ہو تو انہیں بے گھر ہونے سے بچانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ وزیر اطلاعات سندھ سعید غنی نے کہاہے کہ نسلہ ٹاور کے معاملے میں قانون کی نہیں انسانی ہمدردی کی ضرورت ہے اور کنسٹرکشن میں کہیں نہ کہیں خلاف ورزی ہوجاتی ہے اس لیے سندھ حکومت چاہتی ہے کہ سرکاری زمین پر بنے گھروں کو ریگولر کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔عمران خان کے بنی گالا کے گھر کو بھی ریگولر کیا گیا۔ سعید غنی کا کہنا تھا کہ کراچی گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشتگردی کا شکار رہا ہے لیکن اب امن و امان کی صورتحال بہتر ہے، 2002 سے 2018 تک کراچی میں پیپلز پارٹی اور مضبوط ہوگئی ہے، کراچی میں لوگ پیپلز پارٹی سے مطمئن ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے اجلاس میں وزارت اطلاعات نے سال 2013 سے لے کر 2018 اور سال 2018 سے نومبر 2021 تک میڈیا گروپس کو دیے گئے سرکاری اشتہارات کی تفصیلات پیش کردیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے اپنی حکومت کے پہلے تین سالوں کے دوران پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو جاری کیے گئے اشتہارات پر 3.67 بلین روپے خرچ کئے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے سامنے پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق یہ رقم پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کی جانب سے خرچ کی گئی رقم کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔ ن لیگ نے اپنے پہلے چار سال دور اقتدار میں (2013 سے 2017) میں اشتہارات پر 15.74 بلین روپے خرچ کئے۔ رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی حکومت کے زیادہ تر اشتہارات رواں سال کے دوران جاری کیے گئے ہیں۔ جنگ اور جیو گروپ کو 1.88 بلین روپے اور اے آر وائی نیوز کو 150 ملین مالیت کے اشتہارات دیئے گئے۔ ایکسپریس گروپ کو 992 ملین روپے، جبکہ دنیا گروپ کو 560 ملین مالیت کے سرکاری اشتہارات موصول ہوئے۔ اجلاس کے دوران چیئرمین سینیٹ کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے ماضی میں اشتہارات کی غیر منصفانہ تقسیم پر پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے حکام سے سوال کیا۔ پی آئی ڈی کے نمائندے نے بتایا کہ اشتہارات ٹی وی کی ریٹنگ اور اخبارات کی سرکولیشن کی بنیاد پر دیے گئے۔ جس پر پوچھا گیا کہ اے آر وائی اور دیگر چینلز کی بھی 2013 سے 2018 کے درمیان اچھی ریٹنگ تھی، پھر انہیں کم اشتہارات کیوں دیے گئے؟ سینیٹر فیصل جاوید نے مزید استفسار کیا کہ اشتہارات پر پی آئی ڈی کی رپورٹ میں ریٹنگ کا کالم کیوں غائب ہے۔ چیئرمین نے سوال کیا کہ انٹرٹینمنٹ چینلز کو اشتہارات کیوں نہیں دیے جارہے؟ سرکاری اشتہارات کو تفریحی چینلز اور اسپورٹس چینلز کے لیے بھی کھولا جانا چاہیے، سینیٹر فیصل جاوید نے ان چینلز کی ریٹنگ کی تفصیلات بھی طلب کیں جنہیں مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں کم اشتہارات دیے گئے تھے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق تین بڑی ریاستوں تلنگانہ، آندھرا پردیش اور کرناٹک کی 80 فیصد خواتین نے شوہروں کے اپنی بیویوں پر ہاتھ اُٹھانے کے حق میں ووٹ دیا جب کہ دیگر ریاستوں میں بھی 50 فیصد سے زائد خواتین شوہروں کے تشدد کے حق میں ہیں۔ تفصیلات کے مطابق تلنگانہ اور آندھرا پردیش کی 80، 80 فیصد جب کہ کرناٹک کی 77 فیصد خواتین نے سروے کے دوران کہا کہ ان کے شوہر کا ان پر ہاتھ اٹھانا جائز ہے۔ ان خواتین نے اپنے اوپر ہاتھ اٹھانا شوہر کا حق قرار دیا۔ اس سوال کے جواب کو بھارتی خواتین نے آپشن کے طور پر چُنا ہے۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے میں پورے بھارت کی تقریباً سبھی ریاستوں میں خواتین سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ ’’آپ کے خیال میں شوہر کا اپنی بیوی پر تشدد کرنا درست ہے؟ جواب ہاں یا نہ میں دینا تھا۔ سوال کے ساتھ ممکنہ حالات جیسے شوہر کو بیوی کی وفا پر شک، سسرال والوں کی بے عزتی کرنا، شوہر کے ساتھ بحث، جنسی تعلق قائم کرنے سے انکار اور اسی طرح کے کچھ دیگر آپشن شامل کیے گئے تھے۔ این ایچ ایف ایس (نیشنل فیملی ہیلتھ سروے) کے مطابق 18 میں سے 14 ریاستوں کی 50 فیصد سے زائد خواتین مردوں کو مخصوص حالات میں اپنی بیویوں کو مارنے کو درست قرار دیتی ہیں جب کہ بہت ہی کم خواتین نے اس عمل کو غیر معقول قرار دیا۔ تلنگانہ، کرناٹک اور آندھرا پردیش کے علاوہ منی پور میں 66 فیصد، کیرالہ میں 52، جموں و کشمیر میں 49، مہاراشٹر میں 44 اور مغربی بنگال میں 42 فیصد خواتین نے مردوں کے تشدد کو درست کہا۔ اس صورتحال پر بھارتی ادارے این ایچ ایف ایس کا کہنا ہے کہ کوئی بھی وجہ شوہروں کو بیویوں پر تشدد کا جواز فراہم نہیں کرتی۔ یہ خلاف قانون بھی ہے اور ہمارے سماج کی روایات کے برعکس بھی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثارکی مبینہ آڈیوٹیپ کی تحقیقات کے لیےکمیشن بنانے کی درخواست پر سماعت سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے آڈیو لیک معاملے پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ آڈیو ٹیپ بالکل ٹھیک ہے تو اس کا اصل کلپ کہاں اور کس کے پاس ہے؟ جیو نیوز کے مطابق جسٹس اطہر من اللہ نے یہ ریمارکس سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو ٹیپ کے معاملے پر تحقیقاتی کمیشن بنانے کیلئے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے دیئے۔ یہ درخواست سندھ ہائیکورٹ بار کے صدر صلاح الدین احمد اور ممبر جوڈیشل کمیشن سید حیدرامام رضوی نے دائر کی ہے۔ جس پر عدالت نے کہا کہ ایسے تو کوئی بھی کلپس لا کر کہنا شروع ہو جائے گا کہ اس پر تحقیقات کریں۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ ہمیں بتایا جائے کہ یہ درخواست قابل سماعت کس طرح ہے؟ کس کیخلاف رٹ دائر کی گئی؟ یہ آڈیو کلپ موجودہ چیف جسٹس سے متعلق ہے؟ جس کا جواب دیتے ہوئے درخواست گزار کا کہنا تھا کہ یہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو ٹیپ سے متعلق ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہم ایسی سوسائٹی میں رہ رہے ہیں جہاں کسی ریگولیشن کے بغیر سوشل میڈیا چل رہا ہے۔ درخواست گزار نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ہی یہ آڈیو ٹیپ وائرل ہوئی اور اس پر ہی بحث ہو رہی ہے۔ یہی بات تکلیف دہ ہے۔ عدالت نے کہا کہ آپ کس کس بات کی انکوائری کرائیں گے؟ یہاں تو ہر روز کچھ نہ کچھ چل رہا ہوتا ہے۔ اس درخواست کے قابل سماعت ہونے پر پہلے اٹارنی جنرل کو پری ایڈمیشن نوٹس جاری کیا جائے گا۔ عدلیہ صرف حقائق کو قانون کے مطابق دیکھتی ہے۔ صلاح الدین احمد ایڈووکیٹ نے عدالت کے روبرو بات کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملےپر قرارداد پاکستان بار کونسل نے منظور کی، اگر اسلام آباد ہائیکورٹ کو مناب لگے تو ان کو بھی نوٹس کر دیا جائے۔ معزز چیف جسٹس نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کچھ آڈیو کلپس سے آپ کو رنج ہے۔ قانون اور آئین کی حکمرانی کیلئے آپ کا عدالت احترام کرتی ہے۔ چیف جسٹس کی آڈیو ٹیپ کو ریکارڈ کرنے کی صلاحیت کس کے پاس ہے؟ جیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کیا وہ اسے منظر عام پر لے کر آئے یا امریکا میں بیٹھا ہوا کوئی شخص؟ مبینہ آڈیو ٹیپ معاملے کا تعلق زیر التوا اپیلوں والے مقدمے سے ہے، لیکن جن کے مقدمات سے متعلق یہ مبینہ ٹیپ ہے انہوں نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی کہ اسے عدالت کے سامنے لایا جائے۔ چیف جسٹس ہائی کورٹ نے مزید کہا کہ آڈیو ٹیپ کس نے ریلیز کی اور کیسے ریلیز کی؟ کیا ہم ان کے ہاتھ میں کھیلیں جنہوں نے یہ کیا ہے؟ معزز چیف جسٹس نے کہا کہ میرے متعلق کہا جاتا ہے کہ کوئی فلیٹ لے لیا، کیا اس کی انکوائری کرنے بیٹھ جائیں گے؟ عدالت نے اٹارنی جنرل کو پری ایڈمشن نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت آئندہ ہفتے کیلئے ملتوی کردی۔
نجی ٹی وی چینل کے پروگرام جرگہ میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ بالکل نواز شریف بیمار تھے مگر اتنے بیمار نہیں تھے کہ عمران خان انہیں این آر او دے دیں۔ پروگرام کے میزبان سلیم صافی نے کہا کہ آڈیو آنے کے بعد نواز شریف کو بجا سزا ہوئی یا انکے ساتھ ظلم ہوا؟ جس پر خورشید شاہ نے جواب دیا کہ بے گناہی کی سزا دی گئی ہے، عمران خان نے نواز شریف کو خود باہر بھیجا پھر بعد میں ڈرامہ کیا میں نے اسے سیڑھی سے اوپر جاتے دیکھا ، عمران خان نے خود این آر او دیا نواز شریف کو انہوں نے اس لیے بھیجا کہ کہیں وہ ان پر نہ پڑ جائے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اس کمیٹی میں اپنے اسپتال کے ڈاکٹروں کو شامل کیا جنہوں نے کہا کہ یہ واقعی بیمار ہے اسے باہر بھیجیں تو پھر انہوں نے خود این آر او پر دستخط کر کے بھیجا۔ خورشید شاہ نے کہا کہ نواز شریف کو غلط سزا دی گئی ہے کیونکہ عدالتوں کو مینیج کیا گیا ہے۔ سابق اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ چیف جسٹس ریٹائرڈ ثاقب نثار کہہ رہے ہیں کہ ان سے منسوب آڈیو کلپ جھوٹا ہے، اگر وہ جھوٹا ہے تو بہت اچھا ہے لیکن اگر وہ سچ ہے تو بہت ہی برا ہوا ہے۔ اگر وہ سچے ہیں تو آڈیو کو چیلنج کر کے 10ارب کا ہرجانے کا دعویٰ دائر کر دیں۔ سلیم صافی نے پوچھا کہ پیپلز پارٹی والے بتاتے تھے نواز شریف چور ہیں اب کہتے ہیں بے گناہ ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ اس پر خورشید شاہ نے کہا کہ اس طرح تو سیاست میں بہت کچھ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان بھی کہتے تھے کہ ڈالر مہنگا ہو یا مہنگائی ہو جائے تو اس کا مطلب ہے کہ وزیراعظم چور ہے، اب سب کچھ پہلے کی نسبت کئی کئی گنا مہنگا ہو گیا اب کون چور ہے؟ یہ کہتے تھے کہ روانہ 12 ارب کی چوری ہو رہی ہے اگر مہنگائی کے حساب سے دیکھا جائے تو پھر اب تو 25 ارب کی چوری ہو رہی ہے۔
وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا ہے کہ کورونا کا نیا ویرینٹ (اومی کرون) انتہائی خطرناک ہے، یہ جیسے دنیا میں پھیل رہا ہے، پاکستان میں آئے گا، اس کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے مگر اسے روک نہیں سکتے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کے دوران اسد عمر کا کہنا تھا کہ کورونا کی نئی قسم سے متعلق این سی اوسی نے کچھ فیصلے کیے ہیں، یہ کورونا وائرس کی انتہائی خطرناک قسم ہے جو دنیا بھر میں پھیل رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پانچ کروڑ پاکستانیوں کی ویکسی نیشن مکمل ہوچکی ہے جبکہ تقریباً تین کروڑ لوگوں کو ویکسین کی ایک خوراک لگی ہے۔ ہائی رسک ایریا میں ٹیسٹنگ کی استعداد بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے، کورونا کی نئی قسم کے خلاف ویکسی نیشن ہی بچاؤ کا مؤثر ذریعہ ہے۔ سربراہ این سی او سی نے کہا کہ ایسے لوگوں کو ویکسین بوسٹر لگایا جائے گا جن کو کورونا کا زیادہ خطرہ ہے۔ نئے ویرئینٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات جاری ہیں، این سی او سی میں تمام فیصلے مستقبل کو سامنے رکھ کر کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ باہر سے آنے والوں کیلئے مزید اقدامات کرنے جارہے ہیں، پاکستان میں ویکسینیشن کے باعث کئی ہفتوں سے کورونا کی شرح کم رہی، کورونا ٹیسٹنگ میں تیزی لانے اور مؤثر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسد عمر نے کہا کہ جن تین کروڑ پاکستانیوں نے ایک ڈوز لگوا لی ہے وہ آج ہی دوسری ڈوز لگوائیں، اگلے دو سے تین دن میں ویکسینیشن کی بڑی کمپین شروع کررہے ہیں۔
کورونا اخراجات سے متعلق آڈیٹرجنرل کی رپورٹ میں وزیراعظم کی جانب سے دئیے گئے کورونا پیکج میں 40 ارب روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ سماء نیوز کے مطابق آڈٹ حکام کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کے دوران وفات پانے والے 140 افراد کے بینک اکاؤنٹس سے فراڈ (جعلی بائیو میٹرک) کے ذریعے 16 لاکھ روپے سے زائد کی رقم نکلوائی گئی ہے۔ جعل سازوں نے وفات پانے والوں کے نام پر 16لاکھ 80 ہزار روپے کی کورونا امداد وصول کرلی۔ بی آئی ایس پی حکام کا کہنا ہے کہ پانچ کیسز تحقیقات کیلئے ایف آئی اے کو بھجوا دیئے۔ دو کیسز کا سراغ نہيں مل سکا جبکہ ديگر پر جواب کا انتظار ہے، رپورٹ میں جعلسازی سے رقم وصول کرنے والوں سے ریکوری کی سفارش کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اشیاء کی خریداری میں قوانین کی خلاف ورزی اور مالی بدانتظامی پائی گئی۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 25 ارب روپے کی بے ضابطگیاں، یوٹیلٹی اسٹورز پر غیرمعیاری آٹے کی خریداری سمیت 5.2 ارب روپے کی بےضابطگیاں ہوئیں، جب کہ این ڈی ایم اے میں 4.8 ارب روپے کے اخراجات میں قوانین کی خلاف ورزی ہوئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا وبا کے دوران خریدی گئی اشیا کی ترسیل میں اداروں نے تاخیر کی اور حکومتی گارنٹیز کے بغیر سپلائرز کو پیشگی ادائیگیاں کی گئیں۔ کیش کی فراہمی کے دوران نادرا کے سسٹم میں بھی خرابیاں پائی گئیں۔ سرکاری ملازمین،بیمہ شدہ افراد اور ای او بی آئی پینشنرز میں رقوم کی تقسیم میں خامیوں کا انکشاف بھی سامنے آیا۔ چین سے سامان کی خریداری میں پیپرا رولز کی خلاف ورزی کی گئی اور ریسورس مینجمنٹ سسٹم کی خریداری میں 4 کروڑ 25 لاکھ روپے کی بے ضابطگی ہوئی، ان تمام معاہدوں کی تفصیلات نیب کو فراہم نہیں کی گئیں۔ احساس کیش پروگرام میں 13 لاکھ 20 ہزار لوگوں کو فنڈز سے محروم رکھا گیا۔ یوٹیلٹی اسٹورز کے لیے فراہم کی گئی 50 ارب روپے کی سبسڈی میں سے 80 فیصد فنڈز جاری نہیں ہوئے۔ بجلی کے 100 ارب روپے کے ریلیف پیکج میں سے صرف 15 ارب روپے جاری ہوئے۔ حکومت کی جانب سے اعلان کی جانے والی 50 ارب کی سبسڈی تاحال جاری ہی نہیں ہوئی اور چین سے 40 لاکھ ڈالر کی امداد کی فراہمی میں تاخیر کی گئی۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ کورونا وبا کے پیش نظر مہنگے وینٹیلیٹرز کی خریداری کرنے پر 9 لاکھ 94 ہزار ڈالر کا نقصان ہوا۔ اسی طرح وینٹیلیٹرز کی خریداری میں چین کی کمپنی کو 7 لاکھ ڈالر اضافی دیے گئے۔ کمپنی سے 80 وینٹیلیٹرز کی خریداری 12 لاکھ 77 ہزار ڈالر میں کی گئی جبکہ ادائیگی 19 لاکھ 77 ہزار ڈالر کی گئی۔
رواں ماہ کے آغاز پر 3 نومبر کو چینی کی ایکس مل قیمت پاکستانی تاریخ کی بلند ترین سطح پر گئی اور یہ مل مالکان کی جانب سے 140 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کی گئی، نتیجے کے طور پر شہری 150 سے 160 روپے فی کلو میں بھی خریدنے پر مجبور تھے۔ لیکن اب چینی کی ایکس مل قیمت میں 55 روپے تک کی کمی ہو چکی ہے مگر اس کے باوجود بھی انتظامیہ پرچون سطح پر چینی کی قیمت قابو کرنے میں ناکام ہے اور ابھی تک یہ 105 سے 110 روپے کے درمیان ہی فروخت کی جا رہی ہے۔ اب حالانکہ پاکستان میں چینی کے کم سے کم ایکس ملز ریٹ 85 روپے 50 پیسے فی کلو تک ہو گئے ہیں جو لوئر سندھ کی شوگر ملوں کے ہیں۔ اپر سندھ کی شوگر ملوں کے ایکس ملز ریٹ اتوار 28 نومبر کو 86 روپے فی کلو رہے۔ جب کہ جنوبی پنجاب کی شوگر ملوں کے کلوزنگ ایکس ملز ریٹ 86 روپے پچاس پیسے فی کلو ریکارڈ کیے گئے۔ اسی طرح سنٹرل پنجاب کی شوگر ملوں کے ایکس ملز ریٹ کی کلوزنگ 87 روپے فی کلو پر ہوئی۔ خیبر پختونخوا کی شوگر ملوں کے کلوزنگ ایکس ملز ریٹ اتوار کو 87 روپے 25 پیسے تک رہے۔ یاد رہے کہ جب چینی کے ریٹ بڑھ رہے تھے تو پرچون فروش اسی دن پرچون ریٹ بڑھا دیتے تھے اور ضلعی انتظامیہ مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہوتی رہی لیکن اب جبکہ پچیس روز میں چینی کے ریٹس میں 55روپے تک کمی ہو گئی ہے مگر ہول سیلرز اور رٹیلرز مہنگی خریدی گئی چینی آج تک مہنگی صارفین کو مہنگی ہی دے رہے ہیں۔ روزنامہ جنگ کے مطابق اتوار کو دھمیال روڈ راولپنڈی میں پانچ پانچ کلو چینی فروخت کرنے والے دکاندار 550روپے میں پانچ کلو چینی گھریلو صارفین کو فراہم کرتے رہے۔ پنجاب شوگر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے سینئر ایگزیکٹو ممبر ماجد ملک کے مطابق چینی کے ایکس ملز ریٹ زیادہ سے زیادہ 86/87روپے کلو ہیں، اس حساب سے پرچون میں چینی زیادہ سے زیادہ 96سے 98روپے کلو ضلعی انتظامیہ کو فروخت کرانی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ شوگر ملز مالکان ڈیلرز کو 25پیسے کلو اور ڈیلرز ہول سیلرز کو 35پیسے کلو مارجن اور ڈیڑھ روپے کلو ٹرکوں وغیرہ کے بار برداری لوڈنگ ان لوڈنگ کے اخراجات ملا کر دیتے ہیں۔ ایکس ملز ریٹ سے لیکر گلی محلے کے دکاندار تک چینی آٹھ سے دس روپے تمام اخراجات ملا کر پرچون خریداری کو ملنا ضروری ہے۔ کچھ دن پہلے تک چینی کی قیمت میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔
ملک ریاض مشکل میں آگئے، کرپشن ثابت ہونے پر برطانیہ کا دس سالہ ویزہ منسوخ کردیا گیا،لندن ہائیکورٹ نے کرپشن کیس میں فیصلہ سنادیا، جس کے تحت ملک ریاض اور ان کے بیٹے علی ریاض کے خلاف لندن ہائی کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ عدالت نے یہ ثآبت ہونے پر کہ ملک ریاض نے کرپشن اور جعل سازی سے پیسہ کمایا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ برطانیہ میں جعل ساز کو رہنے کی اجازت نہیں ہے، اسلئے عدالت کسی کرپٹ آدمی کو برطانیہ میں رہنے کا استحقاق نہیں دے سکتی اس لیے ملک ریاض اور ان کے بیٹے علی ریاض کا ویزہ 10 سال کے لیے منسوخ کیا جاتا ہے۔ برطانوی امیگریشن عدالت نے ملک ریاض اور ان کے بیٹے کی ملٹی پل ویزا بحالی کی اپیل بھی مسترد کر دی، کرپشن اور کمرشل بے ضابطگی کے الزامات پر رائل کورٹ آف لندن کی جج نے پراپرٹی ٹائیکون اور ان کے بیٹے کی اپیل کو مسترد کیا۔ ملک ریاض اور اس کے بیٹے علی ریاض کے خلاف عدالت نے برطانوی ہوم آفس کا فیصلہ برقرار رکھا، جس میں کہا کیا گیا کہ درخواست گزار ایشیا کا پراپرٹی ٹائیکون ہے،درخواست گزار اور ان کا بیٹا بحریہ ٹاؤن نامی کمپنی چلا رہے ہیں،ان کی کمپنی پر کرپشن اور کمرشل بے ضابطگیوں میں ملوث رہی ہے۔ ملک ریاض اور ان کے بیٹے احمد علی ریاض کا 10سال کا ملٹی پل ویزہ برطانوی ھوم آفس نے منسوخ کر رکھا ہے، ملک ریاض اور ان کے بیٹے کی پہلی اپیل17نومبر 2020کو خارج ہوئی تھی جبکہ عدالت نے 10 سال کا ملٹی پل برطانوی ویزا بحال کرنے کی دوسری اپیل بھی خارج کرکے ویزہ منسوخ کردیا ہے۔ تریسٹھ سالہ ملک ریاض ایک ٹھیکے دار کے گھر پیدا ہوئے اور والد کے کاروبار میں خسارے کے بعد میٹرک پاس ملک ریاض حسین کو کلرک بننا پڑا، بعد میں فوج میں ایک نچلے درجے کے ٹھیکے دار کی حثیت سے کاروبار کیا،اور اب ان کے ترقی کا سفر جاری ہے۔
عدالت میں ثبوت کی اہمیت ہے،اعتزاز احسن کا شریف فیملی کے ریلیف پر تبصرہ نجی ٹی وی جی این این کے پروگرام خبر ہے میں اعتزاز احسن نے شریف خاندان کے حوالے سے تہلکہ خیز انکشافات کردیئے، میزبان نےاعتزاز احسن سے سوال کئے کہ کیا شریف فیملی کو عدالت سے ریلیف مل سکتا ہے ؟ جواب میں اعتزاز احسن نے کہا کہ کالم لکھے جائیں، سرخیاں لگ جائیں قانون کی نگاہ میں اس کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ قانون کی نظر میں ایسے کسی بھی بیان حلفی یا آڈیو ٹیپ کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اہمیت اس وقت ہے جب یہ مدعی بنیں،عدالت میں پیش ہوکر حلف نامہ پیش کریں،اور عدالت میں ان دستاویزات پر جرح ہو۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ جب سابق چیف جج گلگت بلتستان عدالت میں پیش نہیں ہوتے وہاں بیان نہیں دیتے، اس پر جرح نہیں ہوتی، کسی بھی بیان حلفی کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے،جرح کے بعد بھی متضاد بیان دیئے جائیں،پورا ایک عدالتی کارروائی ہوتی ہے، جب اہمیت ہوتی ہے۔ میزبان نے اعزاز احسن سے سوال کیا کہ کیا ن لیگ یہ سب عدالتوں کو دباؤ میں ڈالنے کیلئے کررہی ہے یا یوں ہی؟ارشد ملک اور دیگر ٹیپ ن لیگ آج ہی پیش کرے عدالت میں نواز شریف کل ہی بری ہوجائے گا،یہ لوگ ثبوت نہیں پیش کرتے۔