You surrendered , we are paying the price

Muslimonly

Senator (1k+ posts)
Jamaat e Islami Bangladesh and Shibir (Jamiat) activits suffer for supporting Pakistan army in 1971 war

31447_338266662942281_1904244238_n.png



بنگلہ دیش : انصاف کا قتل اور خانہ جنگی کا سامان
سلیم منصور خالد​




آج کا بنگلہ دیش سنگین صورتِ حال سے دوچار ہے۔ بھارت اور اس کے زیرسایہ عوامی لیگ کی حکومت، بنگلہ دیش کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ دیگر مظاہر کے علاوہ وزیراعظم حسینہ واجد کا ۲۱دسمبر کو دیا جانے والا یہ بیان بڑی اہمیت کا حامل ہے : ’’فوج، انتظامیہ اور عوام سے مَیں یہ کہتی ہوں کہ جو لوگ ’جنگی جرائم‘ کے ٹربیونل کو ناکام بنانا چاہتے ہیں، آپ آگے بڑھ کر انھیں عبرت کی مثال بنا دیں‘‘۔
کیا کوئی جمہوری حکومت: فوج اور انتظامیہ اور عوام کو اس اشتعال انگیز انداز سے اُبھارکر، اپنے ہی شہریوں پر حملہ آور ہونے کی دعوت دے سکتی ہے؟ لیکن سیکولر، جمہوری، ترقی پسند اور بھارت کے زیرسایہ قوت حاصل کرنے کی خواہش مند عوامی لیگی حکومت اسی راستے پر چل رہی ہے۔ انتقام کی آگ میں وہ اس سے بھی عبرت حاصل نہیں کر رہی کہ ایسی ہی غیرجمہوری، آمرانہ اور بھارت کی تابع مہمل ریاست بنانے کی خواہش میں ان کے والد شیخ مجیب الرحمن، ہم وطنوں کے ہاتھوں عبرت کا نشان بنے تھے۔
سوال یہ ہے کہ اس تلخ نوائی کا سبب کیا ہے؟ عوامی لیگی حکومت کی ہمالیائی ناکامیاں، بدعنوانی کا سیلاب اور اگلے سال عام انتخابات کا سر پر آنا سبب تو ہے ہی، لیکن فوری وجہ نام نہاد جنگی جرائم کے ٹربیونل (ICT) کی پے درپے ناکامی اور جگ ہنسائی ہے۔ ذرا چند ماہ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اس عجیب الخلقت ٹربیونل کے بارے میں یورپی یونین کی انسانی حقوق کی کمیٹی اور برطانیہ کے نمایاں قانون دانوں کی انجمن یہ کہہ چکے ہیں کہ: ’’بنگلہ دیش کا یہ ٹربیونل، عدل کے بین الاقوامی اور مسلّمہ تقاضوں سے یک سر عاری ہے‘‘۔ یہی بات ترکی اور امریکا کے وکلا کہہ چکے ہیں، بلکہ خود بھارت میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اسے مسترد کیا ہے۔
دوسری جانب بنگلہ دیش میں نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرمین میزان الرحمن نے ۱۵؍اگست ۲۰۱۲ء کو جوابی طور پر کہا: ’’جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل‘ آزادانہ اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق کام نہیں کر رہا، وہ بھیانک غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ پھر یہی صاحب ۱۳؍اکتوبر کو کہتے ہیں: ’’یہ ٹربیونل منفرد شان کا حامل ہے اور قومی پشت پناہی کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ ٹربیونل عالمی عدالت انصاف کے متبادل کی حیثیت سے کارِنمایاں انجام دے رہا ہے، تاہم قوم اس کی رفتارِکار سے مطمئن نہیں، کہ فوری نتائج سامنے نہیں آرہے‘‘۔ (ڈیلی اسٹار، ڈھاکہ)
انسانی حقوق کے ان بنگلہ دیشی علَم برداروں کی بے چینی اگر ایک جانب دیدنی تھی تو دوسری جانب عوامی لیگ حکومت کا یہ پروگرام تھا کہ کسی نہ کسی طریقے سے ۱۶دسمبر ۲۰۱۲ء تک جماعت اسلامی کے دو تین رہنماؤں کے لیے سزاے موت کا اعلان حاصل کرلیا جائے۔ مگر صورت یہ بنی کہ حکومت کے وکلا اور خانہ ساز گواہوں کو جماعت اسلامی کے وکلاے صفائی کی جانب سے شدید قانونی دفاعی حکمت عملی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کے گواہ بھی منحرف ہورہے ہیں۔ خود ٹربیونل کے سربراہ جسٹس محمد نظام الحق اس اعتبار سے ایک متنازع شخصیت ہیں کہ اب سے ۲۰سال قبل جب وہ ابھی وکیل تھے، تو انھوں نے ’عوامی عدالت‘ لگاکر جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو سزاے موت دینے کا اعلان کیا تھا، مگر اب تو وہ ’ترقی‘ کر کے جج بن بیٹھے ہیں اور اعلیٰ عدالتی مسند پر تشریف فرما ہیں۔
لیکن ان کی ساری کاوش اور بدنیتی کا بھانڈا اس وقت بیچ چوراہے پھوٹا، جب انٹرنیٹ اسکایپ (skype) پر ان کی ۱۷گھنٹے کی گفتگو اور ۲۳۰برقی خطوط(ای میل) قوم کے سامنے آگئے۔ حادثہ یہ ہوا کہ جسٹس محمد نظام الحق نے بریسلز میں ایک بنگالی قانون دان محمد ضیاء الدین سے اس طویل گفتگو اور خط کتابت میں یہ بات بڑی ڈھٹائی سے کہی: ’’حسینہ واجد حکومت تو چاہتی ہے کہ میں جلد سے جلد فیصلہ دوں، اور اس خواہش میں یہ لوگ پاگل لگتے ہیں۔ تم ہی بتاؤ، جب استغاثہ نالائقوں پر مشتمل ہے، اور ان سے صحیح طریقے سے کیس پیش نہیں ہورہا، تو اس میں مَیں کیا کروں؟ مَیں انھیں کمرۂ عدالت میں ڈانٹتا ہوں، مگر ساتھ ہی پرائیویٹ چیمبر میں بلا کر کہتا ہوں، بھائی ناراض نہ ہوں، یہ سب ڈراما ہے تاکہ غیر جانب داری کا کچھ تو بھرم باقی رہے۔ پھر انھیں یہ بتانا پڑتا ہے کہ وہ کیا کہیں۔ اب تم ہی رہنمائی دو میں کس طرح معاملے کو انجام تک پہنچاؤں‘‘۔
یہ گفتگو ثبوتوں کے ساتھ اکانومسٹ لندن کے خصوصی نمایندے نے رسالے کو چھپنے کے لیے دی، تو اکانومسٹ نے فون کر کے جسٹس نظام صاحب سے پوچھا کہ ہمارے پاس یہ رپورٹ ہے، مگر وہ جواب میں کہنے لگے: ’’ایسا نہیں ہوسکتا، ہم تو عدالتی معاملات اپنی بیوی کے سامنے بھی زیربحث نہیں لاتے‘‘۔ لیکن اکانومسٹ نے ڈنکے کی چوٹ ڈرامے کا پول کھول دیا، اور دسمبر ۲۰۱۲ء کے ابتدائی شمارے میں خلافِ معمول رسالے کے مدیر نے اپنے ادارتی نوٹ کے ساتھ ساری کہانی شائع کردی جس نے بنگلہ دیش میں بالخصوص اور اہلِ دانش میں بالعموم تہلکہ مچادیا۔ اس پر جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے اپنے بیانات میں کہا: ’’ہم پہلے سے یہ کہتے آئے ہیں کہ یہ جج نہیں قاتل ہیں۔ یہ انصاف دینے والے نہیں انصاف کے قتل کرنے والے ہیں اور ان کی سرپرستی کرنے والی حکومت بھی انصاف اور انسانیت کی قاتل ہے‘‘۔ اس پر جسٹس محمدنظام الحق نے ۶دسمبر ۲۰۱۲ء کو حکم دیا کہ اکانومسٹ کے دو ارکان ان کے ٹربیونل کے سامنے پیش ہوکر توہین عدالت کا سامنا کریں۔ دوسری جانب بنگالی اخبار اماردیش (ہمارا وطن)، ڈھاکا نے وہ ساری بنگلہ گفتگو حرف بہ حرف شائع کردی۔ انجامِ کار جسٹس نظام الحق نے جو اس ڈرامے کا مرکزی کردار ہیں، ۱۱دسمبر ۲۰۱۲ء کو ٹربیونل کی سربراہی سے استعفا دے دیا۔
اس خبر نے حسینہ واجد کو شدید صدمہ پہنچایا، لیکن شرمندگی کا کوئی احساس کرنے کے بجاے، انھوں نے پلٹ کر جماعت اسلامی اور بی این پی کے کارکنوں کو بے رحمانہ انداز سے ریاستی جبر کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
اس وقت بھی اگرچہ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے ۶ہزار سے زائد کارکن جیلوں میں بند ہیں لیکن حکومت نے ۱۷دسمبر کو سیاہ کاری کا وہ نشان بھی عبور کرلیا کہ جس کا آج تک پاکستان کی کسی بدترین حکومت نے بھی ارتکاب نہیں کیا تھا۔ اس روز سہ پہر کے وقت ڈھاکہ میں اسلامی جمعیت طالبات (اسلامی چھاتری شنگھستا) کے دفتر پر چھاپا مار کر، جمعیت طالبات کی ۲۰باپردہ کارکنوں اور ۵۵سالہ محترمہ ثروت جہاں (جن کے شوہر عبدالقادر گذشتہ ڈیڑھ سال سے مذکورہ ٹربیونل کے سامنے گرفتاری کے بعد مقدمے کا سامنا کررہے ہیں) کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا، اور الزام لگایا کہ: ’’جمعیت طالبات کے دفتر میں جہاد پر مبنی لٹریچر تھا‘‘۔حیرت کا مقام ہے کہ پاکستان میں کسی اخبار اور ٹیلی ویژن نیٹ ورک نے اس واقعے کا نوٹس تک نہیں لیا۔
دوسری طرف نظر دوڑائیں تو ڈھٹائی اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ مثالیں تو بہت سی ہیں، لیکن ۲۳دسمبر ۲۰۱۲ء کے اخبار ڈیلی اسٹار کی یہ رپورٹ کس درجہ شرم ناک مثال پیش کرتی ہے: ’’فورم فار سیکولر بنگلہ دیش اینڈ ٹرائل آف وار کریمنلز ۱۹۷۱ء کے صدر شہریار کبیر نے مطالبہ کیا ہے کہ: ان لوگوں کے خلاف عبرت ناک کارروائی کی جائے، جنھوں نے جسٹس نظام الحق کی گفتگو اسکایپ سے پکڑی (ڈاؤن لوڈ کی) ہے۔ اماردیش نے یہ گفتگو چھاپ کر جرمِ عظیم کیا ہے۔ ان تمام ذمہ داران کو سخت ترین سزا دی جائے‘‘۔
’ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے‘ بجاے اس کے کہ یہ لوگ شرمندگی سے اپنا منہ نوچتے اور ایک بے معنی مقدمے کے ڈرامے کی بساط لپیٹتے، وہ کہہ رہے ہیں کہ: ’’ہاں، ہمیں انصاف اور عدل سے بددیانتی کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہم جو چاہیں کریں، کوئی ہم سے پوچھ ہی نہیں سکتا‘‘۔ یاد رہے یہ شہریار کبیر ۲۰۱۲ء کے اوائل میں پاکستان آئے تھے، تاکہ پروفیسر غلام اعظم، مطیع الرحمن نظامی اور جماعت اسلامی کے دیگر رہنماؤں کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلا کر، یہاں کی سیکولر شخصیات کے بیان حاصل کریں۔ ان کا استقبال کرنے کے لیے عاصمہ جہانگیر اور اقبال حیدر گروپ کا نام نہاد ہیومن رائٹس کمیشن پیش پیش تھا۔ لیکن جب یہ امر سامنے آیا کہ شہریار کبیر تو بھارتی ایجنسی ’را‘ (RAW) کا بدنامِ زمانہ آلۂ کار ہے، تو یہ مہم دھیمے سُروں میں چلی گئی اور یہ صاحب لاہور، اسلام آباد آنے کے بجاے کراچی ہی سے رفوچکر ہوگئے۔
مسئلے کی سنگینی کو نمایاں کرنے کے لیے دیگر اُمور بھی پیش نظر رہنے چاہییں۔آنے والے عام انتخابات کے بارے میں ستمبر ۲۰۱۲ء کو ٹائمز آف انڈیا یہ خبر دے چکا ہے کہ: ’’حسینہ واجد کی نااہل اور بھارت نواز حکومت اگلے عام انتخابات میں بدترین شکست سے دوچار ہوگی‘‘۔ اس چیز نے بھی بھارتی حکمرانوں کی نیند حرام کر رکھی ہے۔ اسی لیے ۱۸دسمبر ۲۰۱۲ء کو ڈھاکہ میں بھارتی ہائی کمشنر نے خلافِ معمول یہ کہا: ’’ہماری حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ جنھوں نے ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش بننے کی حمایت نہیں کی تھی، ہماری حکومت ان کے ساتھ نہیں چل سکے گی۔ اس طرح دوطرفہ لین دین کے سارے معاہدے غیرمؤثر ہوجائیں گے‘‘۔ یاد رہے بنگلہ دیش کا بال بال بھارتی معاہدوں میں بندھا ہوا ہے۔ اس تناظر میں یہ بیان دراصل بلیک میلنگ کا حربہ اور جماعت اسلامی کی اس متوقع گرفت کو کمزور کرنے کا بھارتی ردعمل ہے کہ جس حقیقت کو وہ دیوار پر لکھا دیکھ رہے ہیں۔ ذہن میں رہے کہ ستمبر ۲۰۱۱ء کو بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے ڈھاکا جانے سے قبل بنگلہ دیش کے ایڈیٹروں کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا: ’’بنگلہ دیش ایک غیریقینی ملک ہے، جہاں کسی بھی وقت کوئی حکومت تبدیل ہوسکتی ہے، اور سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ وہاں پر جماعت اسلامی کو ۲۵فی صد لوگوں کی حمایت حاصل ہے، جو کوئی بھی ناپسندیدہ صورت حال پیدا کرسکتے ہیں‘‘۔
چونکہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش گذشتہ دو ماہ سے پورے ملک میں بڑے پیمانے پر کامیاب عوامی رابطے کی مہم چلا رہی ہے، جس میں کامیاب ہڑتالوں اور نوجوانوں کے زبردست مظاہروں نے حکومت کو ہلا دیا ہے۔ اسی لیے پولیس نے عوامی لیگ کے کارکنوں سے مل کر جماعت اور جمعیت کے کارکنوں کو نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا، گرفتار کیا بلکہ کھلے عام گولیاں مار کر شہید بھی کیا۔ اسی طرح خالدہ ضیا کی پارٹی بی این پی کے ساتھ جماعت اسلامی کا اتحاد عوام کو متحرک کرنے میں کامیابی حاصل کر رہا ہے، جس سے بوکھلا کر وزیراطلاعات حسن الحق نے کہا ہے: ’’بی این پی اور خالدہ ضیا براہِ راست جماعت اسلامی کا ساتھ دے رہی ہیں تاکہ جنگی جرائم کے مقدمے کو ناکام بنادیا جائے۔ ان کا یہ عمل جمہوریت کے لیے خطرہ ہے۔ بنگلہ دیش کے محب وطن اور ترقی پسند لوگ متحدہوکر مقدمے کو تکمیل تک پہنچائیں۔ اسی طرح بی این پی کو چاہیے کہ جماعت اسلامی کو اپنے اتحاد سے نکال باہر پھینکے‘‘۔ (ڈیلی اسٹار، ڈھاکہ، ۲۳دسمبر۲۰۱۲ء)
یہ ہے وہ خوف، جو بھارتی حکمرانوں اور ان کی طفیلی حسینہ واجد حکومت کو کھائے جا رہا ہے۔ اس لیے وہ جماعت اسلامی کی درجہ اوّل کی قیادت پروفیسر غلام اعظم، مطیع الرحمن نظامی، علی احسن مجاہد، علامہ دلاور حسین سعیدی، میرقاسم علی، قمرالزمان، عبدالقادر اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل صلاح الدین قادر (جو فضل القادرچودھری کے بیٹے ہیں) کو پھانسی گھاٹ میں پہنچانے اور ملک کو خانہ جنگی کی آگ میں دھکیلنے پر مائل ہے۔
 
Last edited:

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
یھاں مارشل لا نہی لگتا اس لیے اس جماعت کو بڑی تکلیف ہے
 

muntazir

Chief Minister (5k+ posts)

Muslimonly

Senator (1k+ posts)
http://urdu.thenewstribe.com/featured/2013/02/19/bangladeshs-parliament-moves-to-ban-jamaat-e-islami/





بنگلادیش: پاکستان کی حامی جماعت کیخلاف قانون سازی



ڈھاکا: بنگلا دیش کی پارلیمان نے جنگی جرائم سے متعلق قوانین میں ایسی ترامیم کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت 1971ءمیں پاکستان ٹوٹنے سے بچانے کے لیے بھارت کے خلاف جنگ لڑنے والی تنظیم جماعت اسلامی کے خلاف بھی مقدمہ چلایا جاسکے گا۔

مقامی میڈیا کے مطابق اس فیصلے کے خلاف عوام کی بڑی تعداد سراپا احتجاج ہے۔

ملکی پارلیمان سے منظور کی جانے والی ان ترامیم کو جماعت اسلامی پر پابندی کی طرف ایک اہم قدم قرار دیا جارہا ہے۔

جیسے ہی ان ترامیم کی خبر عام ہوئی ڈھاکا میں عوام کی ایک بڑی تعداد نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا۔


ان کا مطالبہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اسلامی پارٹی جماعت اسلامی پر پابندی لگانے سے باز رہا جائے۔

بنگلادیش کے وزیر قانون شفیق احمد نے فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ہے کہ اس نئے قانون کے تحت جماعت اسلامی کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ خصوصی جنگی عدالت میں ہونے والی اس کارروائی کے نتیجے میں اگر وہ مجرم قرار پائی گئی تو اسے سیاست میں حصہ لینے سے روک دیا جائے گا۔ قبل ازیں صرف افراد کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمے چلائے جاسکتے تھے۔

نائب وزیر قانون قمر الاسلام نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی پر پابندی عائد کرنے کی طرف یہ ایک قدم ہے۔ یہ نئی پیشرفت ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب ایک روز قبل سیکولر خیالات کی مالک وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے عندیہ دیا تھا کہ وہ جماعت اسلامی پر پابندی کی حمایت کریں گی۔

موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کے والد شیخ مجیب الرحمن نےجماعت اسلامی پر جزوی طور پر پابندی عائد کی تھی۔ اس اسلامی سیاسی پارٹی پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ بنگلا دیش کے قیام کے حق میں نہیں تھی اور اس نے ملکی سلامتی کے لیے بھارت کے خلاف پاکستان کی مدد کی تھی۔

تاہم 1975ء میں بنگلا دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن کے قتل کے بعد فوجی حکومت نے اس پابندی کو ہٹا دیا تھا۔

حسینہ واجد کی قیادت میں بنگلادیش کی سیکولر حکومت جنگی جرائم میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے خلاف ایک خصوصی ٹربینول میں مقدمے چلا رہی ہے۔ ابھی حال ہی میں اس عدالت نے جماعت اسلامی کے دو سابق رہنماؤں کو سزائیں سنائی ہیں۔

یاد رہے کہ امریکی روزنامہ نیویارک ٹائمز نے اس جنگی ٹریبونل کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا تھا کہ بنگلادیش میں انصاف تماشہ بن گیا ہے ،یہ ٹربیونل مخالفین سے انتقام لینے کے لیے بنایا گیا ہے۔

دوسری طرف جماعت اسلامی اور بی این پی کا کہنا ہے کہ ان کے ممبران پر عائد تمام تر الزامات بے بنیاد ہیں اور سیاسی مقاصد کے لیے گھڑے گئے ہیں۔

اسی طرح انسانی حقوق کے کئی بین الاقوامی ادارے بھی ڈھاکا حکومت کی طرف سے جنگی جرائم کے لیے بنائے گئے ٹربینول کی شفافیت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

 
Last edited:

Mir Jaffer

Senator (1k+ posts)
Bangladesh doing well to avoid growing extremism. Control JI approach for prosperous future of Bangladesh otherwise Bangladesh will be like Pakistan where Mullahs will slaughter innocent Pakistan. Long Live Secularism, down with JI Mullahcracy.
 

hans

Banned
Bangladesh should see Pakistan, and its current trends. Give JI there rights and see how your Country slips into Hell.

Ban JI for life. If you wish to save your Country.
 

Mullah Omar

Minister (2k+ posts)
Secular apostates want this to happen in Pakistan too so about time we start taking secular threat seriously in Pakistan and take action against these apostates.
 

QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)
Bangladesh should see Pakistan, and its current trends. Give JI there rights and see how your Country slips into Hell.

Ban JI for life. If you wish to save your Country.

آپ کی بات سے تھوڑا سا اختلاف کرنا چاہوں گا

جماعت اسلامی پر پابندی نہیں لگاؤ
بلکہ دین اسلام پر پابندی ہونا چاہیے
ہر وہ شخص جو داڑھی رکھے ، ٹوپی پہنے ھوئے نظر آئے اسے مار دو
اسلام اور اس کا نام لینے والے ہی حقیقی دہشت گرد ہیں
یہ لوگ قوم کو پیچھے کی طرف لے جانا چاہتے ہیں
یہ بنیاد پرست اور رجعت پسند ہیں
ملک کو پر امن اور ترقی پسند بنانا ہو تو ایسا ہی کرنا ہوگا