Meme
Minister (2k+ posts)
خدا کا اپنی مخلوق کے تئیں رویہ کیا ہونا چاہئے اس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہوئے یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ آپ کا تصورِِ خدا کیا ہے۔ اگر تو آپ کا خدا کا تصور یہ ہے کہ خدا وہ ہے جس نے یہ ساری کائنات بنائی ہے، اربوں کھربوں سیارے، ستارے، گلیکسیز بنائی ہیں، لائف کو اس نے ڈیزائن کیا ہے اور وہ ٹائم اور سپیس سے ماورا ہے تو پھر خدا کا چھوٹی سی زمین پر موجود چھوٹے سے انسان کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں ٹانگ اڑانا قطعی غیر منطقی ہے، وہ بھی اس صورت میں جب اس نے لائف کو ایک پروگرام کے تحت ڈیزائن کردیا ہے اور وہ اس حساب سے خود ہی ایوالو ہوتی رہتی ہے۔
ہاں اگر آپ کا خدا کے بارے میں تصور یہ ہے کہ خدا ایک بزرگ کی طرح ہر وقت زمین کے اوپر دوربین تان کر بیٹھا رہتا ہے اور پوری کائنات کو چھوڑ کر اس کو صرف زمین کے معاملات سے ہی لینا دینا ہے اور وہ اس وقت بھی اپنا فرشتہ بھیج دیتا ہے جب صحابہ کچھ زیادہ دیر اس کے پیغمبر کے گھر میں بیٹھ جاتے ہیں، وہ تب بھی فرشتہ بھیج دیتا ہے جب اس کے پیغمبر کی اپنی بیویوں سے ان بن ہوجاتی ہے، وہ تب بی فرشتہ بھیج دیتا ہے جب اس کے پیغمبر کی ایک بیوی پر تہمت لگ جاتی ہے، وغیرہ وغیرہ تو پھر تو آپ بالکل درست کہہ رہے ہیں، ایسے خدا کو پھر ایسے ہی اپنے ماننے والوں کو ہدایات دینی چاہئیں جیسے وہ قرآن میں دیتا ہے۔۔
آپ کا سوال از کراں تا کراں کائنات کی پھیلی ہوئی وسعتوں سے متعلق ہے۔
کہ اتنی بڑی کائنات میں خدا کو کیا پڑی ہے کہ بندوں کے داخلی معاملات کو توجہ دے۔
تو عرض ہے کہ پہلے بات یہ ہے کہ ساری کائنات خدا کے لئے ایسے ہی جیسے انسان کا اپنی ہتھیلی دیکھنا ۔
یعنی وہ اس لئے کرتا ہے کیونکہ اس پہ دشوار نہیں۔
دوسرا یہ کہ اتنی وسیع وعریض کائنات کے مالک کا بندوں کے نجی معاملات میں دخل دینا معیوب معلوم ہوتا ہے تو عرض ہے کہ ایک خاص امتحان چل رہا ہے جو بنی نوع انسان نے خود چنا ہے۔
اس سے پیشتر جنوں نے چنا تھا۔
وہی جس کا ذکر
إنا عرضنا الأمانة والی آیت میں ہے۔
رہ گئی بات فرشتوں کی، تو کائنات کا نظم ونسق خدا فرشتوں کے ذریعے ہی چلا رہا ہے۔
ماں کے پیٹ میں طفل کی روح لانے سے روح قبض کرنے تک سارا انتظام و انصرام فرشتوں کے سپرد ہے۔
خضر علیہ السلام وغیرہم جیسی اللہ جانے اور کتنے ذمہ داران ہیں جو علم لدنی کی بنیاد پہ کام کرتے ہیں۔
خضر علیہ السلام کے ہاتھوں بچے کا قتل جس کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ اس کے ہاتھوں شر کا ظہور ہونا تھا اس بات کا غماز ہے کہ خدا ایک خاص پیمانے پہ
maintain
رکھتا ہے کہ کتنا اور کون سا
evil
کا ظہور بندوں کے ہاتھوں
allow
کرنا ہے۔
کہ اتنی بڑی کائنات میں خدا کو کیا پڑی ہے کہ بندوں کے داخلی معاملات کو توجہ دے۔
تو عرض ہے کہ پہلے بات یہ ہے کہ ساری کائنات خدا کے لئے ایسے ہی جیسے انسان کا اپنی ہتھیلی دیکھنا ۔
یعنی وہ اس لئے کرتا ہے کیونکہ اس پہ دشوار نہیں۔
دوسرا یہ کہ اتنی وسیع وعریض کائنات کے مالک کا بندوں کے نجی معاملات میں دخل دینا معیوب معلوم ہوتا ہے تو عرض ہے کہ ایک خاص امتحان چل رہا ہے جو بنی نوع انسان نے خود چنا ہے۔
اس سے پیشتر جنوں نے چنا تھا۔
وہی جس کا ذکر
إنا عرضنا الأمانة والی آیت میں ہے۔
رہ گئی بات فرشتوں کی، تو کائنات کا نظم ونسق خدا فرشتوں کے ذریعے ہی چلا رہا ہے۔
ماں کے پیٹ میں طفل کی روح لانے سے روح قبض کرنے تک سارا انتظام و انصرام فرشتوں کے سپرد ہے۔
خضر علیہ السلام وغیرہم جیسی اللہ جانے اور کتنے ذمہ داران ہیں جو علم لدنی کی بنیاد پہ کام کرتے ہیں۔
خضر علیہ السلام کے ہاتھوں بچے کا قتل جس کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ اس کے ہاتھوں شر کا ظہور ہونا تھا اس بات کا غماز ہے کہ خدا ایک خاص پیمانے پہ
maintain
رکھتا ہے کہ کتنا اور کون سا
evil
کا ظہور بندوں کے ہاتھوں
allow
کرنا ہے۔