canadian
Chief Minister (5k+ posts)
نہیں میں نہیں پیوں گی۔۔۔۔’ارے پھرتم یہاں آئی کیوں ہو؟ چلوڈ انسنگ فلور پر چلتےہیں’۔پہلی بار سیٹرڈے نائٹ پارٹی میں آنے والی صنوبر کے منع کرنے کے باوجود اس کی کلاس فیلو اسے گھسیٹ کرساتھ لے ہی آئی۔
ڈانسنگ فلورپرمصروف صنوبراسکول کی ڈانس کلاسزمیں لی ہوئی تربیت اوراپنے شوق کی وجہ سےجلد ہی پوری پارٹی کی نظروں کامرکزبن گئی۔لڑکے اورلڑکیوں کی توجہ کامرکزبن کراسےکواچھالگ رہاتھاوہ اس طرح کاماحول اپنے گھرمیں بھی دیکھتی رہی تھی لہذایہ اس کےلئےاجنبی نہ تھا۔ڈانس فلورپرآئے ہوئے خاصی دیرہوچکی تھی اس کے سامنے4مختلف افرادڈانس کرنےآئے لیکن جلد ہی تھک کرسائیڈپرہو لئے لیکن وہ ابھی تک وہیں تھی۔قریب سے گزرتے ایک ویٹرنےاس کےطلب کرنےپرمشروب کاگلاس صنوبرکوتھمایاجسے وہ ایک ہی سانس میں پی گئی تاکہ ٹوٹ جانےوالے ردھم کوحاصل کرسکے۔
کسیلےسےمشروب کے حلق سے اترتےہی صنوبرکویوں لگاگویااس کےجسم میں نئی تونائی آگئی ہو۔وہ آج اپنےسیمسٹرریزلٹ ڈےکویادگاربنانےکی غرض سےپہلی بارکسی ایسی پارٹی کاحصہ بنی تھی جہاں ہرطرف نوجوان لڑکے اورلڑکیاں اپناسٹریس کم کرنےکی کوشش کررہے تھے۔
خاصی دیربعداپنی دوست ماہین کی آوازپرصنوبرڈانس فلورسے اتری اورلڑکھڑاتے قدموں ایک کونےمیں رکھےصوفے پرجابیٹھی۔یہاں شیشہ پینےکےچرس بھرےحقے رکھے تھےاس نے بھی باقی دوستوں کی دیکھادیکھی خودکوخفت سے بچانےکےلئےشیشہ پیناشروع کردیا۔اسے محسوس ہورہاتھاکہ مشروب اپنااثردکھارہاہےاوراس پرغنودگی طاری ہورہی ہے۔کراچی کی پوش آبادی ڈیفنس کے فیز5میں ہونےوالی یہ تقریب رات کے3بجے اپنےعروج پرپہنچ چکی تھی ۔بڑی تعدادمیں جوڑے ڈانسنگ فلورسے اترکرکونوں کھدروں میں چھپ چکے تھے۔اس کے سامنےمخصوص کاغذسے بنی ہوئی باراورپلیٹ لائی گئی جسے وہ ماہین کے کہنےپرنیم غنودگی کے عالم میں سگریٹ کی طرح پی گئی اورپھراسے ہوش نہ رہا۔
کراچی میں ہونےوالی ہفتہ وارپارٹی میں پہلی بارکوکین کامزاچکھنےوالی صنوبراکیلی نہیں بلکہ ان سرگرمیوں کے ایک آرگنائزر’سنی’کےمطابق ایسے لڑکےاورلڑکیاں ہرہفتے ان کی پارٹیزمیں آتے ہیں۔پہلی بارٹرینڈفالوکرنے،دوستی نبھانے،تنہائی دورکرنے،کسی خوشی سےمحظوظ ہونےکےلئےیہاں آنےوالوں کے ساتھ کچھ ناکچھ ایساہوجاتاہےکہ وہ پھراس کیفیت سے نکل نہیں سکتے۔
صنوبرکواس کے والد 50ہزارروپے ماہانہ جیب خرچ دیتے ہیں اسی لئے وہ ان پارٹیزمیں2برسوں سےآنےکےباوجوداپنی’ضرورت’پوری کرنےکےلئےکسی کےآگے ہاتھ پھیلانےسے بچی ہوئی ہے۔ہاں کبھی کبھاریہ ضرورہوتاہےکہ اس کاکوئی دوست نشہ آوردوا،کوکین،چرس یاشراب خریدلیتاہے اوراس کی بچت ہو جاتی ہے۔لیکن سنی کاکہناہےکہ والدین کی جانب سےملنےوالی پاکٹ منی تک تومعاملہ چلتاہے لیکن جب وہ رقم ناکافی ہوجائے توپھرعادت پوری کرنےکونئے نوجوان ہوئے لڑکے،لڑکیاں ‘بہت کچھ ‘کرجاتے ہیں۔
“پوش علاقوں میں ہونےوالی متعددچوریوں،ڈاکوں اوراغواء کی وارداتوں کے پس پردہ انہی لڑکیوں اورلڑکوں کی فراہم کردہ اطلاعات ہوتی ہیں ۔یہ معلومات وہ دشمنی میں نہیں بلکہ اپنے نشے کی ضرورت پوری کرنےکےلئےرقم حاصل کرنےکی غرض سے جرائم پیشہ افراداورگروہوں کو فراہم کرتے ہیں۔حتی کہ خود اپنے ہی والدین،گھریاعزیزرشتہ داروں کے متعلق بھی بتادیتےہیں لیکن ایساکرتےوقت وہ یہ نہیں سوچ پاتے کہ نتیجہ کیا نکلنا ہے”کراچی ہی کی ایک اورآبادی گلشن اقبال سےخیابان راحت میں ہونےوالی پارٹی میں شریک فرازنے رقم حاصل کرنےکے طریقوں کےمتعلق نئے انکشافات کئے۔
ڈانس پارٹیزاورڈرگزاستعمال کرنےکےلئےمنعقد کی جانےوالی گیدرنگزکے ایک آرگنائزرنےاپنی شناخت خفیہ رکھنےکی شرط پردی نیوزٹرائب کوبتایا”XTC،تریاق،وہسکی،کوکین چونکہ امپورٹ کئے جاتے ہیں اسلئے یہ مہنگے پڑتے ہیں۔لہذاچرس تیزی سےایک کم قیمت نشے کے طورپرمقبول ہوئی ہے۔اسے حقے،سگریٹ سمیت متعددطریقوں سےاستعمال کیاجاسکنابھی نوجوانوں میں اس کےمقبول ہونےکی اصل وجہ ہے۔
مذکورہ آرگنائزرکاکہناہےکہ فضائی،سمندری اورزمینی راستوں سےآنےوالی منشیات میں جنسی میلان پیداکرنےوالی دوائیوں کے شامل ہونےنےان کی پارٹیزکے شرکاء بڑھادئے ہیں۔فیس بک اورٹویٹرکومخصوص کی ورڈزکےذریعے ایونٹس کے اعلان اورتشہیرکےلئےاستعمال کرنےوالے آرگنائزر نے دی نیوزٹرائب کوبتایاکہ سیاسی وابستگیاں رکھنےوالے مخصوص درآمدکنندگان کی فیلڈفورس بدلتی رہتی ہے۔تاہم اصل چہروں کے پیچھے موجود رہنے کے سبب پولیس اپناحصہ لینے سے آگے آنے پرتیارنہیں ہوتی جس سے ‘کاروبار’ تیزی سے ترقی کررہاہے۔انٹرنیٹ کےعام ہونےکےبعدفری کلاسیفائڈ ویب سائٹس بھی استعمال کی جاتی ہیں تاہم یہ عمومی پارٹیزکےبجائے ساحلی مقامات یافارم ہائوسزپرہونےوالی تقریبات کی تشہیرکابڑاذریعہ سمجھی جاتی ہیں۔
ڈانس پارٹیزکوعام قراردیتےہوئےکراچی ولاہورکی پوش آبادیوں کے70فیصدگھروں میں ہفتہ وارپارٹیزمنعقد ہونےکادعوی کرتے ہوئے آرگنائزر نے بتایا”منشیات استعمال کی جانےوالی پارٹیزمیں نئے لڑکوں اورلڑکیوں کواس کاشکارکرنےکےلئےکال گرلزکواستعمال کیاجاتاہے۔جواپنی ادائوں سے لڑکوں کوجنسی طورپربھڑکاکرنشے کاعادی بنادیتی ہیں۔ان کال گرلزکوباقاعدہ تربیت دی جاتی ہے کہ وہ خود چرس یاہیروئن بھری سگریٹ کاکش لگاکراس دھویں کو نوآموزلڑکوں کے منہ میں اگل دیں۔لڑکیوں کے ساتھ یہی کام ان کے بوائے فرینڈزیاکلاس فیلوزکرتےہیں”۔شرکاء کی 70فیصدسے زائد تعدادمالی وتعلیمی اعتبارسے بہترین سمجھے جانےوالے گھروں کے بچوں پرمشتمل ہوتی ہے۔
28جولائی کوکراچی میں واقع عبداللہ شاہ غازی کے مزارکےقریب سے گرفتارہونےوالی روسی خاتون کاحوالہ دیتے ہوئے مذکورہ آرگنائزرنےانکشاف کیاکہ متعدد’موبائل پارٹیز’بھی منعقد کی جاتی ہیں جو عموماغیرملکی ڈانسرزکے تحت منعقد ہوتی ہیں۔کراچی میں شمیم میمن،تبسم،گڈو،سنی،غلام محی الدین عرف ننھاکےکارندے،ماموں نامی فرد،قاسم اورسنی اپنے گھروں اوراڈوں پرباقاعدہ ایسی پارٹیزکاانعقادکرتےہیں۔ان افرادسمیت کراچی اورلاہورمیں اس کاروبارسے وابستہ افرادکے ایک اڈے پرکم ازکم 10لاکھ روپے کی منشیات فروخت ہوتی ہے۔جب کہ ایسے اڈوں کی درست تعدادسینکڑوں میں ہے۔اپنےخریداروں میں اضافے کےلئےیہ لوگ سرکاری ونجی یونیورسٹیوں اورکالجزکوخاص طورپرہدف بناتے ہیں۔کراچی یونیورسٹی میں چند برس
قبل ننھے دلال کی جانب سےکال گرلزکوسرگرم کرنےکاحوالہ دیتےہوئےذریعے نے بتایاکہ اس وقت بھی کراچی کی 4نجی جب کہ لاہورکی3نجی یونیورسٹیوں میں منشیات کے ریکٹس کام کررہے ہیں۔جب کہ متوسط گھرانوں کی ایسی لڑکیاں بھی کال گرلز بنالی جاتی ہیں جو اہل خانہ کی کفالت کے لئے ملازمت کرنےگھرسے نکلتی ہیں اورپھردن بھر ان مخصوص مراکزپرخدمات فراہم کرتی ہیں۔
کالجزاورجامعات کی جوطالبات یاطلبہ پارٹیزکے شرکاء کی جنسی ضروریات پوراکرنےکےلئے’ایونٹ آرگنائزرز’کےآلہ کاربنتے ہیں وہ عمومااپنی ضروریات پورا کرنے کے لئے غربت کی وجہ سے ایساکرتےہیں تاہم ان میں 10تا15فیصدلڑکے اورلڑکیاں جنسی ہیجان مٹانےکوبھی اس کاروبارکاحصہ بن جاتے ہیں۔شوقیہ اس عمل کاحصہ بننےوالوں کاتعلق کھاتے پیتے گھرانوں سے ہوتاہے۔
رمضان کامہینہ شروع ہونےسے ایک ہفتہ قبل ہونےوالے ایسی ہی ایک پارٹی میں شریک شازمہ کاکہناتھا”وہ یہاں تفریح کرنےآئی تھی لیکن دوستوں کی وجہ سےایسی عادی ہوئی ہےکہ اپنی نشے اورجسمانی وجنسی ضروریات پوراکرنےکےلئےیہاں آنااس کی ضرورت بن گیاہے۔پاکستان کے ایک نجی ٹیلی ویژن چینل میں شوقیہ کام کرنےوالی شازمہ کوپہلی باراس کے دوست نے ‘کس’کرتےہوئےکوکین کے دھویں سےروشناس کروایاتھا۔
شازمہ کاکہناتھاکہ وہ اگرکسی دوست کویہاں لاناچاہے تواپنی ذمہ داری پراسے لےکرآئے گی۔والدین کوعلم ہونےسےبچانےسمیت پولیس و دیگر اداروں کودوررکھنےکےلئےاجنبیوں کویہاں آنےکی اجازت نہیں ہوتی۔لیکن اس کے باوجودسیکورٹی کویقینی بنانےکےلئےپارٹیزآرگنائزرزنے بائونسرزرکھےہوتے ہیں۔ہٹے کٹے ریسلرزٹائپ یہ لوگ ‘ٹیڑھوں’ یا ‘آئوٹ’ ہو جانے والوں کوسیدھاکرنے کاکام کرتے ہیں۔
شازمہ سے سرگوشیوں میں ہونےوالی گفتگوسن کرقریب آنےوالے لڑکے نے اپنانام بتائے بغیرگفتگوکاحصہ بنتےہوئے کہاکہ نشے کے عادی افرادنےجنسی ضروریات پوراکرنےکواب لیسبئنزاورگیزکی باقاعدہ ایسوسی ایشنزبنالی ہیں جن میں کراچی کے علاوہ،لاہور،اسلام آبادسمیت متعددشہروں سےلوگ شامل ہوئے ہیں۔اگرچہ ان کی تعدادانتہائی محدود ہے لیکن اداکاروں،اداکارائوں خصوصا الیکٹرانک میڈیاسے وابستہ چند اہم ناموں کے اس گیدرنگ کاحصہ بن جانےکےبعدان میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔
ماہرتعلیم اوراسلام آبادکانونٹ اسکول سےوابستہ رہنےوالی عاتکہ سلطان کاکہناہےکہ نوجوانوں خصوصاٹینزمیں منشیات کے بڑھتےہوئےاستعمال کی بنیادی وجہ والدین ہیں۔گھروں میں ہونےوالی کاروباری اورسماجی تقریبات میں نشہ آوراشیاء کابڑھتاہوااستعمال بچوں کواسے ایک معمول کاکام سمجھنےکاموقع دیتاہے۔چونکہ والدین کی اکثریت بچوں کو وقت نہیں دیتی اس لئےتنہائی دورکرنےکویہ بچے انٹرنیٹ سمیت الیکٹرانک میڈیاپرذیادہ وقت گزارتےہیں جہاں سےمنشیات کےاستعمال کوبطورفیشن اختیارکرنےکی متعددترغیبیں دی جارہی ہوتی ہیں۔تعلیمی اداروں یا دوستوں کی گیدرنگزمیں بھی مختلف قسم کی منشیات بآسانی دستیاب ہوتی ہے اس لئےیہ جلد ہی ان کاشکارہوجاتے ہیں۔ٹینزاوریوتھ کی پارٹیزمیں نشےکے بڑھتےہوئے استعمال سے ان افرادکی تعدادبڑھ رہی ہےجودوسروں کی دیکھادیکھی اسےاختیارکررہےہیں۔
نتائج کے متعلق ایک بین الاقوامی این جی اوسے وابستہ ماہر تعلیم کاکہناتھاکہ “اخلاقیات سے دوری،طبیعت میں جارحیت آجانا،جرائم کی جانب مائل ہوجانا نسبتاخوفناک نتائج ہیں جو مستقبل پربری طرح اثراندازہوں گے”۔نشے کے عادی ہوجانےکےبعداپنی ضرورت پوراکرنےکےلئےایسے لڑکے اور لڑکیاں بآسانی جرائم پیشہ گروہوں کاآلہ کار بن جاتے ہیں۔
نیوزفیچرمیں درج کئے گئے لڑکوں اورلڑکیوں کےنام اورمقامات کوتبدیل کرکے فرضی نام بیان کئےگئےہیں۔
Via,TheNewsTribe
ڈانسنگ فلورپرمصروف صنوبراسکول کی ڈانس کلاسزمیں لی ہوئی تربیت اوراپنے شوق کی وجہ سےجلد ہی پوری پارٹی کی نظروں کامرکزبن گئی۔لڑکے اورلڑکیوں کی توجہ کامرکزبن کراسےکواچھالگ رہاتھاوہ اس طرح کاماحول اپنے گھرمیں بھی دیکھتی رہی تھی لہذایہ اس کےلئےاجنبی نہ تھا۔ڈانس فلورپرآئے ہوئے خاصی دیرہوچکی تھی اس کے سامنے4مختلف افرادڈانس کرنےآئے لیکن جلد ہی تھک کرسائیڈپرہو لئے لیکن وہ ابھی تک وہیں تھی۔قریب سے گزرتے ایک ویٹرنےاس کےطلب کرنےپرمشروب کاگلاس صنوبرکوتھمایاجسے وہ ایک ہی سانس میں پی گئی تاکہ ٹوٹ جانےوالے ردھم کوحاصل کرسکے۔
کسیلےسےمشروب کے حلق سے اترتےہی صنوبرکویوں لگاگویااس کےجسم میں نئی تونائی آگئی ہو۔وہ آج اپنےسیمسٹرریزلٹ ڈےکویادگاربنانےکی غرض سےپہلی بارکسی ایسی پارٹی کاحصہ بنی تھی جہاں ہرطرف نوجوان لڑکے اورلڑکیاں اپناسٹریس کم کرنےکی کوشش کررہے تھے۔
خاصی دیربعداپنی دوست ماہین کی آوازپرصنوبرڈانس فلورسے اتری اورلڑکھڑاتے قدموں ایک کونےمیں رکھےصوفے پرجابیٹھی۔یہاں شیشہ پینےکےچرس بھرےحقے رکھے تھےاس نے بھی باقی دوستوں کی دیکھادیکھی خودکوخفت سے بچانےکےلئےشیشہ پیناشروع کردیا۔اسے محسوس ہورہاتھاکہ مشروب اپنااثردکھارہاہےاوراس پرغنودگی طاری ہورہی ہے۔کراچی کی پوش آبادی ڈیفنس کے فیز5میں ہونےوالی یہ تقریب رات کے3بجے اپنےعروج پرپہنچ چکی تھی ۔بڑی تعدادمیں جوڑے ڈانسنگ فلورسے اترکرکونوں کھدروں میں چھپ چکے تھے۔اس کے سامنےمخصوص کاغذسے بنی ہوئی باراورپلیٹ لائی گئی جسے وہ ماہین کے کہنےپرنیم غنودگی کے عالم میں سگریٹ کی طرح پی گئی اورپھراسے ہوش نہ رہا۔
کراچی میں ہونےوالی ہفتہ وارپارٹی میں پہلی بارکوکین کامزاچکھنےوالی صنوبراکیلی نہیں بلکہ ان سرگرمیوں کے ایک آرگنائزر’سنی’کےمطابق ایسے لڑکےاورلڑکیاں ہرہفتے ان کی پارٹیزمیں آتے ہیں۔پہلی بارٹرینڈفالوکرنے،دوستی نبھانے،تنہائی دورکرنے،کسی خوشی سےمحظوظ ہونےکےلئےیہاں آنےوالوں کے ساتھ کچھ ناکچھ ایساہوجاتاہےکہ وہ پھراس کیفیت سے نکل نہیں سکتے۔
صنوبرکواس کے والد 50ہزارروپے ماہانہ جیب خرچ دیتے ہیں اسی لئے وہ ان پارٹیزمیں2برسوں سےآنےکےباوجوداپنی’ضرورت’پوری کرنےکےلئےکسی کےآگے ہاتھ پھیلانےسے بچی ہوئی ہے۔ہاں کبھی کبھاریہ ضرورہوتاہےکہ اس کاکوئی دوست نشہ آوردوا،کوکین،چرس یاشراب خریدلیتاہے اوراس کی بچت ہو جاتی ہے۔لیکن سنی کاکہناہےکہ والدین کی جانب سےملنےوالی پاکٹ منی تک تومعاملہ چلتاہے لیکن جب وہ رقم ناکافی ہوجائے توپھرعادت پوری کرنےکونئے نوجوان ہوئے لڑکے،لڑکیاں ‘بہت کچھ ‘کرجاتے ہیں۔
“پوش علاقوں میں ہونےوالی متعددچوریوں،ڈاکوں اوراغواء کی وارداتوں کے پس پردہ انہی لڑکیوں اورلڑکوں کی فراہم کردہ اطلاعات ہوتی ہیں ۔یہ معلومات وہ دشمنی میں نہیں بلکہ اپنے نشے کی ضرورت پوری کرنےکےلئےرقم حاصل کرنےکی غرض سے جرائم پیشہ افراداورگروہوں کو فراہم کرتے ہیں۔حتی کہ خود اپنے ہی والدین،گھریاعزیزرشتہ داروں کے متعلق بھی بتادیتےہیں لیکن ایساکرتےوقت وہ یہ نہیں سوچ پاتے کہ نتیجہ کیا نکلنا ہے”کراچی ہی کی ایک اورآبادی گلشن اقبال سےخیابان راحت میں ہونےوالی پارٹی میں شریک فرازنے رقم حاصل کرنےکے طریقوں کےمتعلق نئے انکشافات کئے۔
ڈانس پارٹیزاورڈرگزاستعمال کرنےکےلئےمنعقد کی جانےوالی گیدرنگزکے ایک آرگنائزرنےاپنی شناخت خفیہ رکھنےکی شرط پردی نیوزٹرائب کوبتایا”XTC،تریاق،وہسکی،کوکین چونکہ امپورٹ کئے جاتے ہیں اسلئے یہ مہنگے پڑتے ہیں۔لہذاچرس تیزی سےایک کم قیمت نشے کے طورپرمقبول ہوئی ہے۔اسے حقے،سگریٹ سمیت متعددطریقوں سےاستعمال کیاجاسکنابھی نوجوانوں میں اس کےمقبول ہونےکی اصل وجہ ہے۔
مذکورہ آرگنائزرکاکہناہےکہ فضائی،سمندری اورزمینی راستوں سےآنےوالی منشیات میں جنسی میلان پیداکرنےوالی دوائیوں کے شامل ہونےنےان کی پارٹیزکے شرکاء بڑھادئے ہیں۔فیس بک اورٹویٹرکومخصوص کی ورڈزکےذریعے ایونٹس کے اعلان اورتشہیرکےلئےاستعمال کرنےوالے آرگنائزر نے دی نیوزٹرائب کوبتایاکہ سیاسی وابستگیاں رکھنےوالے مخصوص درآمدکنندگان کی فیلڈفورس بدلتی رہتی ہے۔تاہم اصل چہروں کے پیچھے موجود رہنے کے سبب پولیس اپناحصہ لینے سے آگے آنے پرتیارنہیں ہوتی جس سے ‘کاروبار’ تیزی سے ترقی کررہاہے۔انٹرنیٹ کےعام ہونےکےبعدفری کلاسیفائڈ ویب سائٹس بھی استعمال کی جاتی ہیں تاہم یہ عمومی پارٹیزکےبجائے ساحلی مقامات یافارم ہائوسزپرہونےوالی تقریبات کی تشہیرکابڑاذریعہ سمجھی جاتی ہیں۔
ڈانس پارٹیزکوعام قراردیتےہوئےکراچی ولاہورکی پوش آبادیوں کے70فیصدگھروں میں ہفتہ وارپارٹیزمنعقد ہونےکادعوی کرتے ہوئے آرگنائزر نے بتایا”منشیات استعمال کی جانےوالی پارٹیزمیں نئے لڑکوں اورلڑکیوں کواس کاشکارکرنےکےلئےکال گرلزکواستعمال کیاجاتاہے۔جواپنی ادائوں سے لڑکوں کوجنسی طورپربھڑکاکرنشے کاعادی بنادیتی ہیں۔ان کال گرلزکوباقاعدہ تربیت دی جاتی ہے کہ وہ خود چرس یاہیروئن بھری سگریٹ کاکش لگاکراس دھویں کو نوآموزلڑکوں کے منہ میں اگل دیں۔لڑکیوں کے ساتھ یہی کام ان کے بوائے فرینڈزیاکلاس فیلوزکرتےہیں”۔شرکاء کی 70فیصدسے زائد تعدادمالی وتعلیمی اعتبارسے بہترین سمجھے جانےوالے گھروں کے بچوں پرمشتمل ہوتی ہے۔
28جولائی کوکراچی میں واقع عبداللہ شاہ غازی کے مزارکےقریب سے گرفتارہونےوالی روسی خاتون کاحوالہ دیتے ہوئے مذکورہ آرگنائزرنےانکشاف کیاکہ متعدد’موبائل پارٹیز’بھی منعقد کی جاتی ہیں جو عموماغیرملکی ڈانسرزکے تحت منعقد ہوتی ہیں۔کراچی میں شمیم میمن،تبسم،گڈو،سنی،غلام محی الدین عرف ننھاکےکارندے،ماموں نامی فرد،قاسم اورسنی اپنے گھروں اوراڈوں پرباقاعدہ ایسی پارٹیزکاانعقادکرتےہیں۔ان افرادسمیت کراچی اورلاہورمیں اس کاروبارسے وابستہ افرادکے ایک اڈے پرکم ازکم 10لاکھ روپے کی منشیات فروخت ہوتی ہے۔جب کہ ایسے اڈوں کی درست تعدادسینکڑوں میں ہے۔اپنےخریداروں میں اضافے کےلئےیہ لوگ سرکاری ونجی یونیورسٹیوں اورکالجزکوخاص طورپرہدف بناتے ہیں۔کراچی یونیورسٹی میں چند برس
قبل ننھے دلال کی جانب سےکال گرلزکوسرگرم کرنےکاحوالہ دیتےہوئےذریعے نے بتایاکہ اس وقت بھی کراچی کی 4نجی جب کہ لاہورکی3نجی یونیورسٹیوں میں منشیات کے ریکٹس کام کررہے ہیں۔جب کہ متوسط گھرانوں کی ایسی لڑکیاں بھی کال گرلز بنالی جاتی ہیں جو اہل خانہ کی کفالت کے لئے ملازمت کرنےگھرسے نکلتی ہیں اورپھردن بھر ان مخصوص مراکزپرخدمات فراہم کرتی ہیں۔
کالجزاورجامعات کی جوطالبات یاطلبہ پارٹیزکے شرکاء کی جنسی ضروریات پوراکرنےکےلئے’ایونٹ آرگنائزرز’کےآلہ کاربنتے ہیں وہ عمومااپنی ضروریات پورا کرنے کے لئے غربت کی وجہ سے ایساکرتےہیں تاہم ان میں 10تا15فیصدلڑکے اورلڑکیاں جنسی ہیجان مٹانےکوبھی اس کاروبارکاحصہ بن جاتے ہیں۔شوقیہ اس عمل کاحصہ بننےوالوں کاتعلق کھاتے پیتے گھرانوں سے ہوتاہے۔
رمضان کامہینہ شروع ہونےسے ایک ہفتہ قبل ہونےوالے ایسی ہی ایک پارٹی میں شریک شازمہ کاکہناتھا”وہ یہاں تفریح کرنےآئی تھی لیکن دوستوں کی وجہ سےایسی عادی ہوئی ہےکہ اپنی نشے اورجسمانی وجنسی ضروریات پوراکرنےکےلئےیہاں آنااس کی ضرورت بن گیاہے۔پاکستان کے ایک نجی ٹیلی ویژن چینل میں شوقیہ کام کرنےوالی شازمہ کوپہلی باراس کے دوست نے ‘کس’کرتےہوئےکوکین کے دھویں سےروشناس کروایاتھا۔
شازمہ کاکہناتھاکہ وہ اگرکسی دوست کویہاں لاناچاہے تواپنی ذمہ داری پراسے لےکرآئے گی۔والدین کوعلم ہونےسےبچانےسمیت پولیس و دیگر اداروں کودوررکھنےکےلئےاجنبیوں کویہاں آنےکی اجازت نہیں ہوتی۔لیکن اس کے باوجودسیکورٹی کویقینی بنانےکےلئےپارٹیزآرگنائزرزنے بائونسرزرکھےہوتے ہیں۔ہٹے کٹے ریسلرزٹائپ یہ لوگ ‘ٹیڑھوں’ یا ‘آئوٹ’ ہو جانے والوں کوسیدھاکرنے کاکام کرتے ہیں۔
شازمہ سے سرگوشیوں میں ہونےوالی گفتگوسن کرقریب آنےوالے لڑکے نے اپنانام بتائے بغیرگفتگوکاحصہ بنتےہوئے کہاکہ نشے کے عادی افرادنےجنسی ضروریات پوراکرنےکواب لیسبئنزاورگیزکی باقاعدہ ایسوسی ایشنزبنالی ہیں جن میں کراچی کے علاوہ،لاہور،اسلام آبادسمیت متعددشہروں سےلوگ شامل ہوئے ہیں۔اگرچہ ان کی تعدادانتہائی محدود ہے لیکن اداکاروں،اداکارائوں خصوصا الیکٹرانک میڈیاسے وابستہ چند اہم ناموں کے اس گیدرنگ کاحصہ بن جانےکےبعدان میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔
ماہرتعلیم اوراسلام آبادکانونٹ اسکول سےوابستہ رہنےوالی عاتکہ سلطان کاکہناہےکہ نوجوانوں خصوصاٹینزمیں منشیات کے بڑھتےہوئےاستعمال کی بنیادی وجہ والدین ہیں۔گھروں میں ہونےوالی کاروباری اورسماجی تقریبات میں نشہ آوراشیاء کابڑھتاہوااستعمال بچوں کواسے ایک معمول کاکام سمجھنےکاموقع دیتاہے۔چونکہ والدین کی اکثریت بچوں کو وقت نہیں دیتی اس لئےتنہائی دورکرنےکویہ بچے انٹرنیٹ سمیت الیکٹرانک میڈیاپرذیادہ وقت گزارتےہیں جہاں سےمنشیات کےاستعمال کوبطورفیشن اختیارکرنےکی متعددترغیبیں دی جارہی ہوتی ہیں۔تعلیمی اداروں یا دوستوں کی گیدرنگزمیں بھی مختلف قسم کی منشیات بآسانی دستیاب ہوتی ہے اس لئےیہ جلد ہی ان کاشکارہوجاتے ہیں۔ٹینزاوریوتھ کی پارٹیزمیں نشےکے بڑھتےہوئے استعمال سے ان افرادکی تعدادبڑھ رہی ہےجودوسروں کی دیکھادیکھی اسےاختیارکررہےہیں۔
نتائج کے متعلق ایک بین الاقوامی این جی اوسے وابستہ ماہر تعلیم کاکہناتھاکہ “اخلاقیات سے دوری،طبیعت میں جارحیت آجانا،جرائم کی جانب مائل ہوجانا نسبتاخوفناک نتائج ہیں جو مستقبل پربری طرح اثراندازہوں گے”۔نشے کے عادی ہوجانےکےبعداپنی ضرورت پوراکرنےکےلئےایسے لڑکے اور لڑکیاں بآسانی جرائم پیشہ گروہوں کاآلہ کار بن جاتے ہیں۔
نیوزفیچرمیں درج کئے گئے لڑکوں اورلڑکیوں کےنام اورمقامات کوتبدیل کرکے فرضی نام بیان کئےگئےہیں۔
Via,TheNewsTribe
Last edited by a moderator: