Osama, Obama and we

ustadjejanab

Chief Minister (5k+ posts)
جب شیخ زید کے مرنے کی خبر میرے جیسے ایک سائیں کو ملی تو وہ بڑا حیران ہو کر بولا " یار یہ شیخ زید کیسے مر سکتا ھے، اس کا تو اپنا ہسپتال تھا "......آج اسامہ بھی مر گیا لیکن بہت سے لوگوں کو یقین نہیں آ رہا کہ کیا واقعی وہ مر سکتا ھے ...امریکا اور اس کے حواریوں نے اپنے پروپیگنڈے کے ذریعے جس طرح اسامہ کو مافوق الفطرت بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا تھا،،،، کم از کم میرا ذاتی خیال تھا کہ ٹارزن، عمرو عیار یا علی عمران کی طرح اسامہ بن لادن بھی کبھی نہیں مرے گا ، ،،، لیکن ایبٹ آباد کی ایک چھوٹی سی کالونی سے آنے والی خبروں نے میرے دماغ کی چولیں ھلا دی ھیں....نہ کوئی فون یا انٹرنیٹ کا نظام ،،،نہ سکیورٹی کا کوئی خاص انتظام ،،، دنیا کو سب سے زیادہ مطلوب شخصیت کا اپنے اہل خانہ، چند بکریوں اور سو ڈیڑھ سو مرغیوں کے ہمراہ اس عام سے گھر میں عام سے آدمیوں کی طرح رھنا،،دل نہیں مانتا ....اگر یہ درست ھے تو اس سے پہلے مشہور کیے گۓ افسانے چہ معنی،،،،،بتایا جاتا تھا کے انھیں اتنی سکیورٹی حاصل ھے جو بڑے بڑے حکمرانوں کے نصیب میں بھی نہیں ....لیکن پتا چلا کہ یہ کہانیاں بھی اتنی ھی معتبر اور سچی تھیں جتنی تین عورتیں ، تین کہانیاں ..................اسامہ کون تھے ، کیا اور کیسے تھے ،،،،،،یہ بحث بہت لمبی ھے .......لمبی بحث کرنے سے دماغ خرچ ھوتا ھے جو ڈاکٹر نے ھمیں سختی سے منع کیا ھے ............ ھم یہاں صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ جو اوباما صاحب چوتھی کے بچے کی طرح بھنگڑے ڈال رھے ہیں ،،اس کی وجہ کیا ھے ....کیا یہ واقعی کوئی کارنامہ ھے جس پر دنیا کی واحد سپر پاور کے کرتا دھرتا پھولے نہیں سما رھے ....اپنے لامحدود وسائل اور لاتعداد ذریع کے باوجود وہ 15 برس جس طرح ناکامی سے دو چار ہوتا رہا وہ اپنی مثال آپ ھے .....جہاں تک رھی بات اس آپریشن کی ،،، تو یقین کریں گوالمنڈی کا تھانیدار اپنے چار سپاہیوں کے ساتھہ یہ بے مثال کارنامہ بڑی آسانی سے انجام دے سکتا تھا......نہ اسامہ کوئی خلائی مخلوق تھا اور نہ آپ کوئی ہرکولیس ......لیکن آپ ٹھہرے جنگل کے اکلوتے شیر ،،،،،انڈے یا بچے یا دونوں اکھٹے دے دیں ،،،آپ کو کون روک سکتا ھے.........................جہاں تک تعلق ھے ھمارا،،،،،،ھمارا حال کسی بھٹہ مزدور جیسا ھے ،،،،،سو پیاز اور سو جوتے کھانا ہمارے نصیب میں لکھ دیا گیا ھے ......اپنے بھی خفا ہم سے ہیں ، بیگانے بھی نا خوش ....بے عزتی کروانا ھمارا محبوب مشغلہ ٹھہرا ......جب تک دو چار گالیاں نہ پڑیں ،،،زندگی پھیکی پھیکی سی لگتی ھے ...........ھمارے حکمرانوں کی بالغ النظری ،،دور اندیشی اور دانش مندانہ پالیسیوں کا ایسا ثمر ھمیں ملا ھے کہ چار دانگ عالم میں ھمارے چرچے ھو رهے ہیں ....ہزاروں جانوں اور اربوں روپے کا نقصان کروا لینے کے باوجود ھم معتوب کے معتوب ھی رھے.........چودھری کے کسی کمی کی طرح نظریں جھکاے جھڑکیں اس طرح سن رھے ھوتے ہیں جیسے کسی واعظ کی تقریر .....خاموش ایسے جیسے پیدائشی گونگے ......جی ہاں ایسے ھی ھوتا ھے ، غلام اور آقا کے رشتے میں غیرت مندی ، وقار اور عزت نفس جیسے لفظ ثانوی اھمیت رکھتے ہیں ،،،،،جب ھم نے یہ فیصلہ کر ھی لیا ھے کہ گدائی کا پیشہ ھمارے لئے سب سے موزوں ھے تو پھر کیسی انا اور کیسی توقیر .....مانگتے جائیں گے اور کھاتے جائیں گے ،،،کھانا ملے یا ٹھڈے .........................................امریکا کو مبارک ھو کہ اسے اس جدید دور میں ھم جیسے وفادار غلام نصیب ھوے.........................