ISLAMABAD, December 18 (NNI): The inquiry report of a judicial commission, which investigated 2014 gun attack on journalist and anchorperson Hamid Mir in Karachi, leaked on Sunday.
There was complete failure on the part of all the law enforcing agencies in the performance of their duty to properly investigate the case, the commission report states on page 37.
Leak of the 41-page report came a day after Interior Minister Chaudhry Nisar Ali Khan questioned the release of what he termed a one-sided inquiry commission report on the August 8 terrorist attacks in Quetta and vowed to confront its contents at all forums, including parliament and the Supreme Court.
On federal governments request, then Chief Justice of Pakistan, Justice Tassaduq Hussain Jillani, had formed the three-member judicial commission to probe the attack in which Hamid Mir was injured.
The inquiry commission comprised of Justice Anwar Zaheer Jamali (president), Justice Ejaz Afzal Khan (member) and Justice Iqbal Hameedur Rehman (member).
The government had also announced a reward of Rs10 million for anyone who came forward to provide information that could lead to the capture of the attackers.
The last such commission was constituted by the PPP government in June 2011 to investigate the murder of journalist Saleem Shahzad.
source
صحافی حامد میر پر 19اپریل2014کو کراچی میں ہونے والے قاتلانہ حملہ کی جوڈیشل انکوائری کرنے والے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں آئی ایس آئی کے ملوث ہونے کے الزامات کومفروضہ قرار دیاہے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان اور جسٹس اقبال حمید الرحمن پر مشتمل تین رکنی کمیشن نے 41صفحات پرمشتمل رپورٹ دی جس میں کہاگیاکہ خفیہ ادارے پرملوث ہونےکاالزام صرف شک وشبہ اور مفروضہ پر مبنی تھا جس کی نوعیت سنی سنائی شہادت جیسی تھی۔انکوائری کمیشن نے تحقیقات میں نو ماہ لگائے تھے۔
کمیشن کی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ بظاہر کچھ صحافیوں اور آئی ایس آئی میں رسہ کشی جاری تھی اور میڈیاسے وابستہ کچھ افراد نے کمیشن کو بتایاکہ خفیہ ادارہ ان کی رپورٹنگ سے ناخوش تھا۔رپورٹ میں کہاگیاکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے واقعہ کی تفتیش میں مکمل ناکام رہے۔
کمیشن کی بند کمرے میں سماعت کے دوران سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائی گئی جس میں نظر آتا ہے کہ دو افراد کراچی ایئرپورٹ پر حامدمیر کے پہنچنے کے وقت مشکوک
انداز میں نظر آرہے ہیں لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرموں تک نہیں پہنچ سکے۔
صرف نظر نہیں کرسکتے۔
قومی سلامتی کے حساس معاملے سے متعلق رپورٹ کے کئی معاملات پرایجنسیوں کی جانب سے تشویش ظاہر کی جاتی ہے جن کی بنیاد آئین کے آرٹیکل 5اور
آرٹیکل10(7)ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اظہار رائے کی آزادی کا حق کئی معقول پابندیوں کےس اتھ ہوتاہے جو ملکی وحدت،سلامتی اوردفاع،دوست ممالک سے خٓرجہ تعلقات اور امن وامان کو متاثر نہ کرے۔
بریکنگ نیوز کی دوڑ نے بھی چیزوں کو زیادہ خراب کیاہے اور کئی جھوٹ دیدہ دلیری سے بولے جاتے ہیں جس سے سچ چھپ جاتا ہے۔ کمیشن نے سوال اٹھایا ہے کہ
ہے آیامیڈیا ادارے لوگوں کو اطلاعات فراہم کررہے ہیں یا معاشرے میں خوف پھیلا رہے ہیں۔ کمیشن نے کہاکہ یہ صورتحال تشویشناک ہے۔
کمیشن نے کہاہے کہ تمام فریقین کو چاہئے کہ اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرتے ہوئے محتاط رہیں کیونکہ غیر ذمہ دارانہ رویوں،افعال اور ردعمل سے پہنچنے والا
نقصان ناقابل تلافی ہوتاہے۔کمیشن نے کہاکہ صحافی اوران کے اہلخانہ سکیورٹی خدشات اورتشدداوربعض اوقات پراسرارانداز میں ہلاکتوں میں خفیہ ہاتھ ہونے کی شکیت کرتے ہیں۔کمیشن نے کہاہے کہ اس طرح کے واقعات آئین کے آرٹیکل4،5،10اے،19 اور 19اے کی صریحاً خلاف ورزی ہیں۔
ان کے علاوہ اس کمیشن میں جسٹس اعجاز افضل خان اور جسٹس اقبال حمیدالرحمان شامل تھے۔
عام کی گئی ہے۔ حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات میں مدد کرنے پر دس لاکھ روپے کے انعام کا بھی اعلان کیا تھا لیکن بظاہر اس کا بھی کوئی فائد نہیں ہوا تھا۔حامد میر پر حملہ کراچی کے ہوائی اڈے سے اپنے دفتر جاتے ہوئے نامعلوم افراد نے کیا تھا جس میں انھیں کئی گولیاں لگیں لیکن وہ بال بال بچ گئے تھے۔ اس حملے کے نتیجے میں صحافتی تنظیموں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں نے حکومت سے تحقیقات اور ملوث افراد کو سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا، حامد میر کے بھائی عامر میر نے حملے کے فورا بعد آئی ایس آئی پر الزام عائد کیا تھا۔ سماء