Democracy and massive corruption in pakistan

drkjke

Chief Minister (5k+ posts)







کرپشن کا گند …

کالم نگار | احمد جمال نظامی


16 ستمبر 2013









سپریم کورٹ میں چیئرمین نیب تقرر کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ کرپشن کا خاتمہ حکومت کے ایجنڈے پر نہیں، وہ اس معاملے پر کلیئر ہوتی تو کئی لوگ جیل میں ہوتے۔ میگا سکینڈلز کی تحقیقات نہیں ہو رہیں۔ حکومت چیئرمین نیب جلد مقرر کرے یا نتائج بھگتنے کے لئے تیار ہو جائے۔ پاکستان میں غلام محمد کے گورنر جنرل بننے کے بعد سے آج تک ہماری تاریخ اور حال کرپشن کے واقعات میں اٹا پڑا ہے۔ نیب کا محکمہ بھی ہمیشہ سیاسی ہتھکنڈوں اور انتقام کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ گذشتہ چند سالوں سے جبکہ آزاد عدلیہ وطن عزیز میں کرپشن کے سکینڈلز پر قانونی و آئینی حرکت میں آ کر حکومتوں کو اپنا کردار ادا کرنے پر مجبور کر رہی ہیں تو ماضی اور حال دونوں کی حکومتوں کی طرف سے کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔ چیئرمین نیب بھی عدالتوں میں پیش ہونے کے باوجود کارروائی سے گریزاں رہے ہیں اور اب تو کوئی چیئرمین نیب ہی نہیں ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری کی حکومت کے پانچ سال فرینڈلی اپوزیشن نے پورے کروائے اور اب آصف علی زرداری نے نعرہ لگا دیا ہے کہ نواز شریف قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ گویا ایک دوسرے کو سہارا دے کر جمہوریت کے نام پر ہر سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرتے ہوئے اپوزیشن اور حکمرانی کا فرق مٹا دیا گیا ہے جو بلاشبہ جمہوریت کی اصل روح ہے۔ وطن عزیز میں کرپشن کی بازگشت کوئی نئی بات نہیں۔ مشرف دور میں خوب کرپشن ہوئی اور سب نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے صاحبزادے مونس الٰہی بینک آف پنجاب کرپشن سکینڈل کی زد میں آئے۔ سابقہ حکومت کے دور اقتدار کے دوران اس قدر کرپشن کی بازگشت سنائی دیتی رہی کہ 2010ء میں سیلاب متاثرین کے لئے غیر ملکی امداد کاروں کو بھی شبہ ہونے لگا کہ پاکستان کی موجودہ حکومت دنیا کی چند گنی چنی کرپٹ حکومتوں میں سے ایک ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ہر آنے والی رپورٹ ہمارے سر شرم سے جھکا دیتی ہے۔ ٹرانسپیرنسی کی آخری رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں کرپشن کے حوالے سے حالات مزید خراب ہیں۔ 2011ء میں پاکستان کرپشن کے حوالے سے دنیا میں 42ویں نمبر پر آتا تھا اور 2012ء میں 33ویں نمبر پر آگیا۔ پانچ سالوں کے دوران 12 ہزار 6 سو ارب کی بدعنوانی کی گئی۔ کرپشن کا ناگ اب بھی اپنا پھن پھیلائے کھڑا ہے کیونکہ اس کے قلع قمع کے لئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے۔ کرپشن کی بازگشت آج بھی متبادل پاور بورڈ سکینڈل اور نندی پور پاور پراجیکٹ کے حوالے سے سنائی جا رہی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ سابقہ حکومت کے کرپشن سکینڈلز پر موجودہ حکومت قانونی اور آئینی کارروائی عمل میں لانے سے گریزاں ہے اور خود حکومت پر میڈیا رپورٹس کے مطابق کرپشن کے دو سکینڈلز منظرعام پر آچکے ہیں۔ سابقہ حکومت کے دور میں ایفی ڈرین کیس، ریکوڈیک سکینڈل، اوگرا سکینڈل، این آئی سی ایل، رینٹل پاور پلانٹ کرپشن سکینڈل، فلڈ ٹیکس جو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے لگایا گیا اس کی مد میں 10بلین بدعنوانی کا سکینڈل، سیلاب فنڈمیں کرپشن کے خدشات کا سکینڈل اور حج سکینڈل کے علاوہ طرح طرح کے کرپشن سکینڈل پر موجودہ حکومت خاموش کیوں ہے۔ موجودہ حکمرانوں کو وہ نعرے اور وعدے کہاں گئے کہ ہم اقتدار میں آ کر بدعنوان اور کرپٹ حکمرانوں کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔ کہاں گئے وہ وعدے اور دعوے کہ اب جبکہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے منصف اعلیٰ چیخ و پکار کر رہے ہیں کہ چیئرمین نیب مقرر کیوں نہیں کیا جا رہا۔ کیا موجودہ حکومت کے وطیرے کے عین مطابق سابق چیئرمین نیب فصیح بخاری کے اس انکشاف کو تسلیم کر لیا جائے کہ ملک میں ہونے والی کرپشن میں پنجاب کا 65فیصد حصہ ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام آج بھی مختلف نام سے جاری ہے۔ گذشتہ سالوں میں اس پروگرام کے تحت کروڑوں روپے کے گھپلوں کا انکشاف ہوا تھا۔ نیب نے تحقیقات شروع کرتے ہوئے تین منی ٹرکوں کو بھی قبضے میں لیا تھا۔ کیا اس بارے میں تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانا حکمرانوں کا آئینی، قانونی اور مذہبی و اخلاقی فرض نہیں ہے۔ 2012ء میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دنیا کی مہنگی ترین سٹریٹ لائٹس لگوائی گئیں۔ ان سٹریٹ لائٹس کی مد میں 8بلین روپے خرچ کئے گئے اور ادائیگی پاؤنڈ میں کی گئی مگر حکومت تبدیل ہونے کے باوجود کوئی کارروائی سامنے نہیں آ رہی۔ ایفی ڈرین کیس، رینٹل پاور پلانٹ سکینڈل اور ہر طرح کی کرپشن اب بھی فائلوں میں بند پڑی ہے۔ ان فائلوں کا منہ کون کھولے گا۔ ای او بی آئی کی زمین کی خریداری میں 40بلین کی کرپشن کا سکینڈل، ٹریڈ ڈویلپمنٹ آف پاکستان ایف بی آر اور شعبہ تعلیم، قانون اور ہر شعبے میں کرپشن کے موجود سکینڈلز کا قلع قمع کس نے کرنا ہے۔ وہ جوش خطابت کہاں گیا جس کے تحت بڑے بڑے وعدے، دعوے کرتے ہوئے عوام کو پاکستان بدلنے کی نوید سنائی جاتی تھی۔ موجودہ حکومت جس صدرمملکت کو رخصت ہونے پر ان کے اعزاز میں عشائیہ دے چکی ہے اور جو موجودہ حکومت کا ہرممکن ساتھ دینے کا اعلان کر چکے ہیں وہ صدر ایوان صدر سے توپوں کی سلامی لے کر رخصت ہونے سے پہلے پانچ سالوں میں دنیا بھر سے ملنے والے 15کروڑ مالیت سے زائد کے تحفے جو سرکاری خزانے میں جمع کروانے ہوتے ہیں ان کو جمع کروانے کی بجائے اپنے ساتھ لے گئے۔ ان تحائف میں دبئی کے حکمران اور لیبیا کے کرنل قذافی مرحوم کی طرف سے تحفے میں دی گئیں تین بی ایم ڈبلیو اور مرسڈیز بھی شامل تھیں۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ ملک میں کرپشن کی وجہ سے فنڈز عوام کی فلاح و بہبود اور معیار زندگی کی بلندی کی بجائے خردبرد ہوتے رہے اور خود ڈائریکٹر سوئس بینک تسلیم کریں کہ پاکستانیوں کے 97بلین ڈالر سوئس بینک میں موجود ہیں اس انصاف کے تقاضے کیا ہیں کہ عوام ہر پل بھوک، ننگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ خودکشیوں کی شرح میں خوفناک حد تک اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ قومی خزانے سیاستدانوں اور حکمرانوں کی تجوریاں بھر رہے ہیں مگر ہر آنے والا حکمران ماضی کے حکمرانوں کو خوش دلی سے الوداع کر رہا ہے اور الوداع ہونے والے نئے آنے والوں کو مرحبا کہہ رہے ہیں کیونکہ اس حمام میں سب ننگے ہیں اور ان کے لئے سیاست اب سب سے بڑا کاروبار بن چکا ہے جس میں عوام ان کے لئے ایک ایسی کم تر مخلوق ہے جسے کچھ نہیں دیا جا رہا۔ عوام کی آخری امید سپریم کورٹ سے ہے۔
 

drkjke

Chief Minister (5k+ posts)
[h=1]’’ پاکستانی اثاثوں کی بے حرمتی‘‘ [/h]کالم نگار | نازیہ مصطفٰی




مین ہٹن نیویارک میں میڈیسن ایونیو امریکہ کے معروف سیاسی خاندان ’’روزویلیٹ‘‘ کا آبائی علاقہ ہے۔ اس علاقے میں 22 ستمبر1924ء کو ایک ہوٹل کا افتتاح ہوا، جس کانام امریکی صدر تھیوڈورروزویلیٹ کے نام پر ــ
’’روزویلٹ ہوٹل‘‘ رکھا گیا۔ اس ہوٹل کی بیس منازل، ایک ہزار پندرہ کمرے اور باون اعلیٰ پائے کے لگژری سوٹ ہیں۔ نیویارک کے قلب میں واقع یہ ہوٹل بجا طور پر یہاں قیام کیلئے ایک بہترین سرائے ہے۔ ستر کی دہائی میں لوئس کارپوریشن نے یہ ہوٹل پچپن ملین ڈالر میں خریدا اور کچھ عرصہ بعد آگے پال مل سٹین کو بیچ دیا۔ پال مل سٹین نے یہ ہوٹل تین ملین ڈالرسالانہ پرایک کنسورشیم کو لیز کردیا۔کنسورشیم نے خوب محنت کی اور منافع سے دو مزید ہوٹل بھی لیز کرالیے۔ لیز کی شرائط کے مطابق 1999ء میں اس کنسورشیم نے باقاعدہ عدالتی جنگ کے بعدیہ تینوں ہوٹل خرید لئے۔ سال 2005ء میں اس کنسورشیم نے اپنے اثاثے تقسیم کیے تو دیگر دو ہوٹل کنسورشیم کے ایک حصہ دار سعودی شہزادہ فیصل بن خالد بن عبدالعزیزنے اپنے پاس رکھ لیے، یوں ’’روزویلٹ ہوٹل‘‘ کی صورت میں ایک اہم اور خوبصورت اثاثہ اور امریکی تاریخی ورثہ کنسورشیم کے دوسرے حصہ دار کی ملکیت بن گیا۔ آپ کو خوشگوار حیرت ہوگی کہ کنسورشیم کا دوسرا حصہ دار کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان کافضائی اور اہم ترین ادارہ ’’پی آئی اے‘‘ تھا۔
آپ شاید سمجھ رہے ہوں کہ کہانی یہاں ختم ہوگئی، جی نہیں! کہانی تو یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ 2007ء میں اس ہوٹل کی مارکیٹ ویلیو ایک ارب امریکی ڈالر تھی، پاکستان کے بہت سے دوسرے اثاثوں کو باپ کا مال سمجھ کر بیچنے کے بعدمشرف دور کے بزرجمہروں کی’’ نظر التفات‘‘ آخر کار روزویلیٹ ہوٹل پر بھی پڑ گئی۔ شوکت عزیز کی حکومت نے اس ہوٹل کو بیچنے کا فیصلہ تو کرلیا، لیکن جس قیمت پر یہ ہوٹل بیچنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اسے سن کر سر پیٹنے کو جی کرتا ہے۔جی ہاں! جب اس ہوٹل کو بیچنے کا فیصلہ کیا گیا، اُس وقت نصف مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے اس ہوٹل کی مارکیٹ ویلیو ایک ارب ڈالر سے زیادہ تھی اور یہ ہوٹل سالانہ چھہتر لاکھ ڈالر منافع کما رہا تھا، بلکہ پی آئی اے کے خسارے کا بہت سا حصہ بھی اسی ہوٹل کے منافع سے پورا کیا جاتا تھا، اسکے باوجود شوکت عزیز کی حکومت نے اس ہوٹل کو صرف چالیس کروڑ ڈالر میں بیچنے کا تہیہ کرلیا۔ اس مقصد کیلئے اُس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے سابق ’’آجر‘‘ سٹی بنک کے ایک کنسورشیم کو ہوٹل کی فروخت کیلئے کنسل ٹینسی بھی دیدی گئی۔ اس کنسل ٹینسی کی مد میں پی آئی اے نے سٹی بنک کواکتالیس لاکھ ڈالر ادا کرنا تھے، چاہے ہوٹل بکے یا نہ بکے۔ شرائط کے مطابق ہوٹل بکنے کی صورت میں سٹی بنک کو قیمت فروخت کا ایک فیصد اضافی ملنا تھا۔آپ سوچ رہے ہونگے کہ جس ملک میں حکمرانوں نے کوڑیوں کے بھاؤ انتہائی قیمتی اثاثے بیچ ڈالے، وہاں چالیس کروڑ ڈالرتو ایک بڑی رقم تھی، لیکن آپ زیادہ خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوں، ٹیکسوں اوربنک کے ذمے واجب الادا رقوم کی کٹوتیوں کے بعد پی آئی اے کو صرف سوا بارہ کروڑ ڈالر ملنا تھے۔یعنی ایک سوکروڑڈالر کی چیز صرف بارہ کروڑ ڈالر میں بیچی جانی تھی۔ پی آئی اے میں جو لوگ معاملات سمجھتے تھے، انہوں نے اِس منصوبے کی مخالفت کی تو اُنہیں کہا گیا کہ ’’آپ پی آئی اے اور ہوٹل میں سے ایک کاروبارچلائیں ‘‘۔ حکومت نے یہ ہوٹل بیچ کر طیارے خریدنے کابہانہ تراشاتھا، یعنی حکومت ایک چلتے ہوئے کاروبار کو ختم کرکے ایک ایسے کاروبا رمیں رقم لگانا چاہتی تھی جو پہلے سے ہی گھاٹے میں جارہا تھا۔ پی آئی اے کے ان اثاثوں کی اہمیت سے واقف ادارے کے چند افسران نے ہوٹل بیچے بغیر نئے طیارے خریدنے کے دیگر آپشنز پیش کئے تو اُنہیں بھی مسترد کردیا گیا لیکن وہ تو بھلا ہو میڈیا اور عدلیہ کا کہ معاملہ سامنے آنے پرایس شور مچا کہ یہ ہوٹل شوکت عزیز کی دستبرد سے بچ گیا۔ کہانی یہاں بھی ختم نہیں ہوتی بلکہ پی آئی اے جیسے اہم ادارے کی اصل داستان حسرت تو گزشتہ پانچ برسوں کے دوران تحریر کی گئی، جب حکومتی پارٹی کی ایک اعلیٰ ترین شخصیت کی ایئر لائن کمپنی کو لانچ کرنے کیلئے پی آئی اے جیسے قومی ادارہ کو بتدریج تباہی کے راستے پر گامزن کردیا گیا۔ایسے میںنئے طیارے خریدے نہ گئے، پرانے طیارے مرمت اور اوور ہالنگ کو ترستے رہے، پروفیشنلز کو ایک ایک کرکے کھڈے لائن لگادیا گیا اور پی آئی اے کی لگامیں نان پروفیشنل افراد کے حوالے کردی گئیں۔پی آئی اے کے روٹس بھاری کمیشن کے عوض ٹھیکے پر چڑھادیے گئے اور اس پر بھی مستزاد یہ کہ ہزاروں کی تعداد میں نئے اور غیر پیشہ ور افراد کو پی آئی اے کی ڈوبتی ناؤ میں سوار کردیا گیا،کہانی یہاں بھی ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کہانی کا کلائمیکس شروع ہوتا ہے۔ادارہ کی بحالی کے نام پر پی آئی اے کے قیمتی اثاثوں کی نجکاری کرنے کی کوشش ایک عرصہ سے جاری ہے۔ 2011ء میں بھی روزویلیٹ ہوٹل بیچنے کی کوشش کی گئی، لیکن شومئی قسمت کہ یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔ آسمان انگشت بدنداں تھا کہ یہ کیا لوگ ہیں جو اصل قیمت کا دسواں حصہ وصول کرکے وہ کچھ بیچنے چاہتے ہیں، جنہیں اِس دور میں سو گنا خرچ کرنے کے بعدبھی دوبارہ نہیں بنایا جاسکتا۔ اتنے قیمتی اثاثے عشرِ عشیر میں بیچنے کا فیصلہ کرنیوالوں کی دماغی حالت چیک کرنے کیلئے یقینا کوئی میڈیکل بورڈبٹھانے کی بھی ضرورت نہیں ۔
قارئین محترم!!حکومت نے گزشتہ دنوں پی آئی اے کے چھبیس فیصد حصص کی نجکاری کی منظوری دی ہے لیکن خدشہ ہے کہ جن حصص کی نجکاری کی جائیگی، اُن میں پی آئی اے کی ملکیت نیویارک کا ’’روزویلیٹ ہوٹل‘‘ اور پیرس کا ’’سکرائب ہوٹل‘‘ بھی شامل ہیں۔ پی آئی اے کے روزویلیٹ ہوٹل کو تو ’’میڈی سن ایوینیو کی گرینڈ ڈیم ‘‘بھی کہا جاتا ہے، جس سے مراد’’ میڈی سن کی محترمہ‘‘ہے، لیکن سلام ہے سرکاری بزرجمہروں کو جو امریکہ کی اس محترمہ کوبیچنے کیلئے ایک مرتبہ پھر سربازار لانے پر تلے ہوئے ہیں، لیکن وہ یہ بھول گئے کہ اب امریکہ کی یہ ’’ محترمہ‘‘ پاکستان کی عزت بھی ہے۔ خدشہ تو یہ بھی ہے کہ یہ اگر ہوٹل نجکاری کی بھینٹ چڑھے تو اِن کا بھاؤ شوکت عزیز کے دور سے بھی کم لگے گا۔خاکم بدہن اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا یہ پاکستانی اثاثوں کی بے حرمتی نہیں ہوگی؟
 

Back
Top