Re: Namaz-e-Taraweeh..
[MENTION=15363]Malang009[/MENTION]
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بھائی آپ نے میری پوسٹ مکمل پڑھی ہوتی تو اتنی محنت کرنے کی ضرورت نا تھی..شاید آپ بات سمجھے نہیں یا جان بوجھ کر سمجھ نہیں رہے
میرے بھائی تراویح کی رکعت کی تعداد کے معاملے میں فقہا احناف اور اہل حدیث کے علما کے درمیان اختلاف کی نوعیت کچھ اس طرح ہے
پہلا موقف
فقہا احناف تراویح کے معاملے میں سنت ٨ رکعت کو مانتے ہیں اور ٢٠ رکعت والی وہ احادیث جس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے ٢٠ پڑھنے کا ذکر ہے کو ضعیف مانتے ہیں
علما اہل حدیث بھی ٨ رکعت تراویح کو سنت مانتے ہیں اور ٢٠ رکعت کی سنت والی احادیث کو ضعیف مانتے ہیں
یعنی اس معاملے میں حنفی اور اہل حدیث علما میں اتفاق ہے
دوسرا موقف
علما احناف کی اکثریت کا کہنا ہے کہ صحابہ بشمول حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ٢٠ رکعات پڑھا کرتے تھے اور اس پر صحابہ کا اجماع تھا
علما اہل حدیث کے نزدیک اس معاملے میں صحابہ کا اجماع نہیں تھا اور نا ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ ٢٠ پڑھا کرتے تھے
یعنی اس معاملے میں حنفی اور اہل حدیث علما میں اتفاق نہیں
میں نے حنفی علما کے اقوال پہلے موقف کے حق میں پیش کئے تھے ...کیوں کے اس معاملے میں ہمارا ان سے اتفاق ہے..مگر چونکہ آج کل کے نام نہاد متعصب علما اپنے پرانے علما کے خلاف جاتے ہووے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کے ٢٠ رکعت پر نا صرف صحابہ کا اجماع تھا بلکہ سنت بھی ٢٠ رکعت تھی، اور پھر اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے وہی ٢٠ رکعت والی حدیث پیش کرتے ہیں جسے گزرے ہووے بڑے بڑے حنفی علما ضعیف قرار دے چکے ہیں
جہاں تک دوسرے موقف کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں میں نے موطا امام مالک کی حدیث پیش کردی ہے جس کی صحت پر اتفاق ہے..اور دیگر دلائل بھی ہیں مگر انشاءللہ یہ ایک حدیث اس بات کو غلط ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کے حضرت عمر کا عمل ٢٠ رکعت تھا
اب آپکی پوسٹ کا جوب پیش خدمت ہے
کسی شخص کے موقف کو نامکمل پیش کرنا حد درجہ کی خیانت ہے ، اور یہاں آپ نے علامہ انور شاہ کاشمیریؒ کی پوری کتاب میں سے ایک عبارت نقل کی ہے جبکہ دیگر عبارات اسی موضوع سے متعلق چھوڑ دی ہیں صرف اسی وجہ سے کہ وہ آپکے مطلب کی نہیں تھیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب وانٹڈ صاحب علامہ انور شاہ کاشمیریؒ کی عبارت کا جواب اپنی پوسٹ نمبر انچاس میں دے چکے ہیں تو دوبارہ دوبارہ اسی بات کا شور مچا کر آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟؟؟
میرے بھائی میں نے نا مکمل بات پیش نہیں کی ہاں وہ بات پیش کی ہے جو پیش کرنا مقصود تھی یعنی پہلا موقف کا اثبات ...یعنی یہ کے وہ حدیث جس سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کا ٢٠ رکعت پڑھنا سنت ثابت ہوتا ہے وہ حدیث بلاتفاق ضعیف ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ...اور افسوس کے ساتھ کے اس بالاتفاق ضعیف حدیث کو کچھ نام نہاد علما بار بار پیش کر کے سنت ٢٠ ثابت کرنے پر مسر ہیں. باقی رہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل یعنی دوسرا موقف تو ظاہر ہے اس معاملے میں ہم انور شاہ کاشمیری سے متفق نہیں - اس معاملے میں ہمارا موقف وہ صحیح حدیث ہے جو میں موطا امام مالک کے حوالے سے پہلے بھی پیش کرچکا ہوں
جن علامہ انور شاہ کاشمیریؒ کی عبارت( جسکا جواب دیا جا چکا ہے ) کو لے کر آپ شور مچا رہے ہیں وہی علامہ انور شاہ کاشمیریؒ اسی کتاب میں علامہ ابن ہمامؒ کی بات کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں
وقال ابن الھمام ان ثمانیۃ رکعات سنۃ موکدۃ و ثنتی عشرۃ رکعۃ مستحبۃ وما قوال لھذا احد
علامہ ابن الھمامؒ فرماتے ہیں کہ آٹھ رکعات سنت موکدہ ہیں اور بارہ رکعات مستحب ہیں لیکن اس طرح کی بات ان کے علاوہ کسی نے بھی نہیں کہی۔
مزید اپنے دلائل دیتے ہوئے فرماتے ہیں
کہ حضرت عمرؓ کے اس عمل کو امت کی طرف سے تلقی بلقبول حاصل ہے ۔
یعنی جس عمل کو پوری امت کی طرف سے تلقی بلقبول حاصل ہو جائے اس پر کسی فردِ واحد کا تفرد تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
اور خود علامہ ابن ہمامؒ نے فتح القدیر مین لکھا ہے کہ کہ خلفاء الراشدین نے بیس رکعات پر مواظبت فرمائی ہے اور اصول ہے کہ جس پر وہ مواظبت فرمائیں وہ سنت ہے یعنی خود علامہ ابن ہمامؒ اسکو سنت مانتے ہیں ۔
اس پر میرے پاس مزید دلائل بھی ہیں اگر آپکو شوق ہوا تو ضرور پورا کروں گا ۔
میرے بھائی میرا مقصد تو پہلا موقف ثابت کرنا تھا کے ١١ رکعت کا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلّم ہونا صحیح حدیث سے ثابت ہے اور آپ کے علامہ ابن ہمام بھی اسکو تسلیم کرتے ہیں...٢٠ رکعت والی حدیث کو علامہ ابن حمام اور انور شاہ کاشمیری بھی ضعیف کہتے ہیں اور یہ دونوں باتیں آپ بھی تسلیم کر رہے ہیں.....مزید جہاں تک امت کے تلقی بلقبول کی بات ہے تو الحمدللہ ایسا کچھ نہیں صرف پروپگنڈہ ہے موطا امام مالک کی حدیث اس پر شاہد ہے
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آپکو شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کی بات سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ انہوں نے اس اثر کی کوئی سند ہی نقل نہیں کی ، اور خود آپکے اپنے بڑے مولانا ارشاد الحق اثری صاحب ایک اثر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ "امام ابن قدامہ نے اس اثر کی کوی سند ذکر نہیں کی ۔ لہذا بلا سند کوئی بات مقبول نہیں ۔
(توضیح الکلام جلد ایک صفحہ سترۃ)
عجیب بات تو یہ ہے کہ آپ حضرات کو جب علامہ ابن قدامہؒ کا بے سند نقل کیا ہوا اثر قبول نہیں تو پھر شیخ عبدالحق محدث دہلوی جن کا درجہ یقیناً علامہ ابن قدامہؒ سے کم ہے انکا بے سند اثر کیسے قبول ہو گیا ؟؟؟؟
نیز یہ کہ خود شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اپنے اس قول کو روی صیغہ تمریض سے ذکر کر کے اس کے ضعیف اور غیر معتبر ہونے کی طرف اشارہ کر دیا ۔جبکہ اسکے بالمقابل صحیح السند اثر سے ثابت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور میں لوگ چھتیس رکعات تراویح اور تین رکعات وتر پڑھا کرتے تھے ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ جلد دو صفحہ تین سو پچاسی )
اسی طرح ان سے یہ بھی منقول ہے کہ انہوں نے قاریوں کو چھتیس رکعات تراویح پڑھنے کا حکم دیا تھا (قیام الیل صفحہ ۹۲) بلکہ خود آپ کے بڑے علامہ محدث اعظم حافظ عبداللہ روپڑیؒ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں چھتیس رکعات پڑھی جاتی تھیں۔
بات پھر وہیں آگئی یعنی شیخ کی عبارت سے پہلا موقف ثابت ہوتا ہے ..حضرت عمر بن عبدالعزیز والی روایت اگر بلاسند انہوں نے پیش بھی کی ہے تو اسکا تعلق دوسرے موقف سے ہے...شیخ کی بات پھر پڑھ لیں
شیخ عبد الحق صاحب حنفی محدث دہلوی رحمہ اللہ فتح سرالمنان میں فرماتے ہیں
ولم یثبت روایۃ عشرین منہ صلی اللہ علیہ وسلم کما ھو المتعارف الان الا فی روایۃ ابن ابی شیبۃ وھو ضعیف وقد عارضہ حدیث عائشۃ وھو
حدیث صحیح جو بیس تراویح مشہور ومعروف ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اور جو ابن ابی شیبہ میں بیس کی روایت ہے وہ ضعیف ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث کے بھی مخالف ہے ( جس میں مع وتر گیارہ رکعت ثابت ہیں )ھ
علامہ عینیؒ کا یہ حوالہ مجھے توملا نہیں ، جہاں سے آپ نے کاپی پیسٹ کیا ہے ان صاحب کو فون کر کے پوچھ لیں کہ حضرت آپ کی کتاب سے حوالہ کاپی پیسٹ کیا ہے مل نہیں رہا ، یا تو مجھے سکین نکال دیں یا پھر کسی عرب سائٹ سے کوی ورڈ فائل کا صفحہ نمبر بتا دیں ۔ مہربانی ۔
انشاءللہ کوشش کرونگا...فلحال میں پاکستان میں نہیں..کوشش کرونگا جتنا جلد ہوسکے
علامہ زیلعی حنفیؒ نے حدیث کو نقل کیا ہے ، حدیث کو نقل کرنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اس حدیث سے رکعات کی تعداد وہی مانتے ہوں ، ہو سکتا ہے کہ انہوں نے آگے اسکے معارض حدیث پیش کر کے اپنا مسلک ثابت کیا ہو ۔ نامکمل حوالے کاپی پیسٹ کرنا بلکل بھی اچھی بات نہیں ۔
حدیث نقل کر کے علامہ زیلعی حنفیؒ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں آپ ہی بیان کردیجئے..وہی انشاءللہ پہلا موقف ثابت ہوگا اور کچھ نہیں
امام محمد نے ان احادیث کو نقل کیا اور یہ بھی لکھ دیا کہ ان سب حدیثوں پر ہمارا عمل ہے نام نہاد اہلحدیث کے منہ پر چانٹا مار دیا جو شور مچاتے پھرتے ہیں کہ حنفی حدیث کو نہیں مانتے ۔ الحمداللہ ۔۔۔۔ یہ احادیث تہجد کے بارے میں ہیں اور ہم بھی مانتے ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں ۔ اور یہ ہی مسئلہ ہے ۔ لہذا ثابت ہوا کہ اس حوالے سے عوام کو آپ دھوکہ دے رہے ہیں ۔ اور امام محمدؒ کے استاد محترم امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں لکھا ہے :۔
قال ابو حنیفہؒ یصلی عشرین رکعۃ کما ھوالسنۃ (مبسوط سرخسی جلد ۲ صفحہ ۱۴۴
)
آپ کا ایک اور جھوٹ پکڑا گیا...حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ١١ رکعت والی حدیث اگر تہجد سے متعلق ہے تو امام محمد نے تراویح کے باب میں کیوں نقل کی ہے؟؟؟؟، یہاں تو امام محمد دوسرے موقف میں بھی علما اہل حدیث کے ساتھ ہیں الحمدللہ اس لئے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کے امام محمد جو کے امام ابو حنیفہ کے دو اہم شاگردوں میں سے ایک ہیں کے نزدیک تراویح اور تہجد ایک ہیں اور وہ بھی ١١ رکعت ...اور تراویح اور تہجد انور شاہ کشمیری اور رشید احمد گنگوہی کے نزدیک بھی ایک ہیں
حنفی عالم مولانا انور شاہ کشمیری بیان فرماتے ہیں
ھ"عام طور پر علماء (احناف) یہ کہتے ہیں کہ تراویح اور صلوٰۃ اللیل دو مختلف النوع نمازیں ہیں ۔ لیکن میرے نزدیک مختار یہ ہے کہ یہ دونوں نمازیں ایک ہیں ۔
ان دونوں نمازوں کا متغائر النوع ہونا اس وقت ثابت ہوگا جب یہ ثابت ہو جائے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تراویح کے ساتھ ساتھ نمازِ تہجد بھی ادا فرمائی تھی ۔"ھ
بخاری کی شرح فیض الباری جلد ٢ صفحہ ٤٢٠
حنفی دیوبندی عالم مولانا رشید احمد گنگوہی بیان کرتے ہیں کہ
اہلِ علم پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ قیامِ رمضان (تراویح) اور قیام اللیل (تہجد) فی الواقع دونوں ایک ہی نماز ہے ۔۔۔۔۔ رمضان کی تہجد جو عین تراویح ہے دلیل قولی کی بنا پر سنتِ موکدہ ہی رہے گی ۔
لطائف قاسمیہ ، مکتوب سوم ، ص 13-17
ملا علی قاریؒ کا موقف پیش کرنے میں سخت خیانت سے کام لیا گیا ہے ۔ملا علی قاریؒ نے تو اسی کتاب میں یہ لکھا ہے :۔
اجمع الصحابۃ علی ان التراویح عشرون رکعۃ
صحابہ کا اس بات پر اجماع ہوا کہ تراویح بیس رکعات ہیں
(مرقاۃ المفاتیح، باب شھر رمضان الفصل الثالث جلد ۳ صفحہ ۳۷۲)
اسی طرح شرح النقایہ میں فرماتے ہیں
فصار اجماعاً لماروی البیھقی باسناد صحیح انھم کانوا یقومون علی عھد عمر بعشرین کعۃ وعلی عھد عثمان و علی
شرح النقایہ ، فصل فی الوتر والنوافل جلد ۱ صفحہ ۱۰۴)
میرے بھائی کوئی خیانت سے کام نہیں لیا جو ثابت کرنا مقصود تھا یعنی پہلا موقف وہ عبارت پیش کی ہے
علامہ ملا قاری حنفی رحمہ اللہ اپنی کتاب مرقاۃ شرح مشکوۃ میں فرماتے ہیں
ان التراویح فی الاصل احدیٰ عشرۃ رکعۃ فعلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم ترکہ لعذر
در اصل تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے گیارہ ہی رکعت ثابت ہے ۔ جن کو آپ نے پڑھا بعد میں عذر کی وجہ سے چھوڑ دیا۔
باقی ١١ کے سنت ہونے کے باوجود صحابہ کا اجماع ٢٠ پر تھا یا نہیں اس پر ہمارا اختلاف ہے جیسا کے پہلے بات ہوچکی
اسی طرح مولانا عبدالحئی الکھنوی کا موقف پیش کرنے میں بھی سخت خیانت سے کام لیا گیا ہے
علامہ عبدالحئی لکھنویؒ فرماتے ہیں
ان مجموع عشرین رکعۃ فی التراویح سنۃ موکدۃ؛ لانہ مماواظب علیہ الخلفاء وان لم یواظب علیہ النبی صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وسلم، وقد سبق ان سنۃ الخلافاء ایضاً لازم الاتباع وتارکھا اثم ، وان کان اثمہ دون اثم تارک السنۃ النبویۃ، فمن اکتفی علی ثمان رکعات یکون مسیا لترکہ سنۃ الخلافاء، ون شئت ترتیبہ علی سبیل القیاس فقل: عشرون رکعۃ فی التراویح مما واظب علیہ الخلافء الراشدون ، وکل ما واظب علیہ الخلفاءالراشدون فھو سنۃ موکدۃ، والتراویح عشرون رکعۃ سنۃ موکدۃ، ینتج عشرون رکعۃ فی التراویح سنۃ موکدۃ ثم تضمہ مع " ان کل سنۃ موکدۃ یاثم تارکھا"، فالعشرون رکعۃ یاثم تارکھا وقدمات ھذا القیاس قد ثبتنا ھا بالدلائل"
بیس رکھعات تراویح سنت موکدہ ہے، اس لئے کہ اس پر صحابہ کرام نے ، مواظبت کی ہے اگرچہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے مواظبت نہیں فرمائی اور پہلے بات گزر چکی ہے کہ خلفاء راشدین کی سنت بھی لازم الاتباع ہے اور اسے چھوڑنے والا گناہ گار ہے۔ اگرچہ سنت خلفاء کے چھوڑنے کا گناہ سنت نبویہ کے چھوڑنے کے گناہ سے کم ہے اور جو آٹھ رکعات تراویح پر اکتفاء کرتا ہے وہ خلفاء راشدین کی سنت کا تارک ہونے کی وجہ سے گناہ گار ہو گا "
(تحفۃ الاخیار صفحہ ۳۰۸)
سبحان اللہ میرے حوالے میں تو صرف اتنا ہے کے ١١ رکعت والی حدیث جو ابن حبان میں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے صحابہ کو ٨ رکعت تراویح اور ٣ وتر پڑھائی کو لکھنوی صاحب نے صحیح کہا ہے یعنی وہی پہلا موقف ..پھر پڑھلیں
مولانا عبد الحی حنفی لکھنؤی رحمہ اللہ تعلیق الممجد شرح مؤطا امام محمد میں فرماتے ہیں واخرج ابن حبان فی صحیحہ من حدیث جابر انہ صلی بھم ثمان رکعات ثم اوتر وھذا اصح
اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ کو علاوہ وتر آٹھ رکعتیں پڑھائیں۔ یہ حدیث بہت صحیح ہے۔
باقی صحابہ کا اجماع تھا یا نہیں اس میں ہمارا اختلاف ذکر ہوچکا
مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ کا جو حوالہ آپ نے نقل کیا ہے اسکو انگریزی میں کہتے ہیں آوٹ آف کانٹیکسٹ بات کو پیش کرنا ، دوسری بات یہ ہے کہ مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ یہاں تراویح کا آٹھ ہونا ثابت نہیں کر رہے بلکہ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ تراویح کو بدعت کوی بھی نہیں مانتا اسی لیے انہوں نے یہ الفاظ استعمال کیے آپ نے پوری عبارت بھی نقل نہیں کی شاید جہاں سے کاپی پیسٹ کی ہے وہاں آپکو اتنی ہی ملی
حضرت سہارنپوریؒ نے لکھا ہے کہ
سنت موکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو باتفاق ہے اگر خلاف ہے تو بارہ میں ہے
یعنی جو لوگ تراویح کو کم سے کم بھی سنت موکدہ مانتے ہیں وہ آٹھ کو مانتے ہیں یعنی انکے زمانے میں کوی بھی ایسا شخص نہ تھا جو یہ کہتا ہو کہ تراویح سنت موکدہ نہیں اور وہ اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔ اور اسی کتاب کے صفحہ آٹھ پر لکھا ہے کہ تراویح آٹھ سے زیادہ کو بدعت کہنا قول کسی عالم کا نہیں بلکہ سفہا کا ہے ۔ یعنی بیوقوفوں کا ۔ لہذا ثابت ہوا کہ آپ نے جہاں سے کاپی پیسٹ ماری ہے اس نے بھی خیانت کی تھی ۔
ایک اور جھوٹ ..انہوں نے ٨ رکعت کے سنت موکدہ ہونے پر اتفاق ذکر کیا ہے، .. نا کہ تراویح کے سنت موکدہ ہونے پر....اتفاق کا مطلب یہی ہوا کہ احناف بھی ٨ کو سنت موکدہ تسلیم کرتے ہیں..مگر افسوس آپ نہیں کرتے!!!!!...تراویح کے ٨ سے زیادہ کو بدعت کہنے پر تنقید سے اسکا کوئی تعلق نہیں...آپ خوامخواہ ان دونوں کو ملا کر اپنا راستہ نکال رہے ہیں...آپ کی عبارت کو اور سہارنپوری صاحب کی عبارت کو لال رنگ کردیا ہے...ان الفاظوں کو غور سے پڑھیں اور اپنے الفاظ سہارنپوری صاحب پر نا تھونپیں
مولانا عبدالشکور لکھنوی کی عبارت آپ نے نامکمل نقل کی ہے پہلے پوری تو نقل کریں ۔
جو کچھ مجھے ثابت کرنا ہے یعنی پہلا موقف وہ اس عبارت میں بخوبی موجود ہے یعنی ٢٠ رکعت والی حدیث ضعیف ہے اور ٨ رکعت مسنون ہے ..عالم آپ کے ہیں آپ پوری نقل کردیں
"اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم سے آٹھ رکعت تراویح مسنون ہے اور ایک ضعیف روایت میں ابن عباس سے بیس رکعت بھی ..."ھ (علم الفقہ ص ١٩٨ از عبدالشکور لکھنوی)
میرے خیال میں اب آپ بھی تسلیم کرلیں اپنے فقہا کی طرح کے سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلّم ٨ رکعت تراویح اور ٣ وتر یعنی ١١ ہے اور ٢٠ کی سنت والی روایت ضعیف ہے ..باقی رہا ٢٠ پر صحابہ کا اجماع تھا یا نہیں اس پر بھی انشاءللہ بات کرلینگے.
وما توفیق الا باللہ