Pakistani1947
Chief Minister (5k+ posts)
OK, Alright so Engineer Ali Mirza had a different opinion from other about why Muhammad Bin Qasim attacked Sind, he may be 100% wrong describing this historical event but he did not do any SHIRK or Gustakh-e-Rasool pbuh in his opinion, whereas, how about those who are following Babas as great scholars who made their mureed read Kalima "Chishti Rasool Allah" (Astughfirullah) and "Ashraf Rasool Allah" (Astughfirullah) .for those shias who are in favour of this joker just because it helps their cause, read this:
راجہ داہر کے پرستاروں نے جہاں محمد بن قاسم کے ہاتھوں اس کی ذلت ناک شکست کا دن یوم سوگ کے طور پر منایا وہاں بعض ملحدین اور قوم پرستوں کے ایک حصے نے یہ شرلی بھی چھوڑی کہ راجہ داہر نے اپنی حکومت میں سادات کو پناہ دی ہوئی تھی۔ جس کی پاداش میں حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کے ذریعے اس پر حملہ کیا۔ اس طرح راجہ داہر کو سادات کا محسن قرار دیا گیا اور اس کے قصیدے گائے گئے- بدقسمتی ایک مخصوص فرقے سے تعلق رکھنے والے بعض جاہل سید زادوں نے بھی یہ ڈھول پیٹنے میں حصہ ڈالا،
یہ سوچے بغیر کہ اس بے سروپا بیان سے خاندان رسالت کی کس درجہ توہین ہوتی ہے کہ وہ سادات جو حمیت دینی میں اپنی مثال آپ تھے، کس طرح ایک ایسےمتعصب ہندو حکمران کے دسترخوان سے ٹکڑے چن رہے تھے، جس نے اپنی حقیقی بہن سے شادی کر رکھی تھی۔ استغفراللہ، العیاذ باللہ!
آئیے! اس دعوے کو حقائق کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔
خاندان رسالت کے افراد کوئی گمنام لوگ نہ تھے بلکہ اپنے وقت کی برگزیدہ، مقدس، محترم اور مشہور ترین شخصیات تھے جن کے قصے معاصر تواریخ اور تذکروں میں جا بجا ملتے ہیں۔ انہیں امت میں مرجع کی حیثیت حاصل تھی۔ یہ ممکن نہ تھا کہ ان کا کوئی فرد یا افراد صرف مدینہ سے ہی نہیں بلکہ عرب سے نکل کر ہندوستان چلے جائیں اور عرب اور اسلامی کتب اور روایات میں ان کا کوئی ذکر ہی نہ ملے، اور وہ جس سرزمین میں جاکر آباد ہوں وہاں کے لٹریچر، تاریخ اور روایات میں بھی ان کا کوئی ذکر نہ ملے۔ ساڑھے تیرہ سو سال کے بعد ملحدین پر “وحی” ہو کہ راجہ داہر تو سادات کا محسن تھا-
فتح سندھ کا واقعہ 93 ہجری میں یعنی واقعہ کربلا کے 37 سال بعد پیش آیا۔ سادات میں حضرت امام حسین کے صاحبزادے حضرت امام زین العابدین (جو کربلا میں بیمار ہونے کے باعث شریک جنگ نہ ہو سکے تھے) حیات تھے۔ آپ نے فتح سندھ کے دو سال بعد شہادت پائی۔ ان کے صاحبزادگان
امام محمد الباقر
زید
عبداللہ
علی الاصغر
عمر الاشرف
اور حضرت امام حسن کے صاحبزادگان
عبداللہ
حسن المثنی
محمد الاصغر
موجود تھے
یہ کل سادات تھے جو اس فتح سندھ کے وقت مدینہ منورہ میں موجود تھے۔
یہ ملحدین بتائیں کہ ان کے علاوہ روئے زمین پر اور کون سید تھا جو راجہ داہر کے دسترخوان کے نوالے توڑ رہا تھا؟
ان بے غیرت اور کذاب جعلسازوں کو خاندان نبوت کی عزت پر ہاتھ ڈالنے اور جھوٹی کہانی گھڑنے میں زرا شرم نہ آئی۔


Now, tell me why it is permitted to print these Gutakhana Books in Pakistan.
Last edited: