میں اِس بحث میں دیر سے شامل ہوا لیکن دوستوں کو نئے سِرے سے دعوتِ خیال ہے۔
کل روس بِکھرتا دیکھا تھا، اب امریکہ ٹوٹتا دیکھیں گے کی وال چاکنگ کرنے والے خواب فروشوں اور اِن نعروں سے سے زور پکڑنے والوں کی خدمت میں ایک سوال۔
روُس ٹوٹا تھا! مان لیتے ہیں کیا افغانستان سلامت ہے؟
میرا خیال ہے کہ افغانستان کے جِتنے ٹوٹے وہ کر گیا شاید تاریخ نے کم مُلکوں کو یوں بِکھرتے دیکھا ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔ مشرق سے مغرب تا حدِ نظرافغانستان کی کرچیاں بکھری ہیں۔
وہ کیسے؟
یورپ کے ناکارہ ترین مُلکوں سے لیکر امریکہ کینیڈا تک کونسا مُلک ہے جہاں افغانستان کے ٹُکڑے نہیں بِکھرے۔
میں نے دُنیا کے جِتنے ممالک میں سفر کیا وہاں افغانیوں کو مہاجر پایا، بے چارگی میں اقوامِ متحدہ کے دفاتر کے باہر فجر کی نماز سے پہلے قطاروں میں بچوں، ضعیف والدین اور کمسن و جواں عفت مآب بیٹیوں کیساتھ خُشک حلق کیساتھ تھوک نگلتے دست بہ دُعا درخواستیں تھامے وصوُلی و قبوُلی کے منتظر۔ کُفار سے بھیک کا سوالی، پناہ کا مُلتجی دیکھا۔ ذرا سا کھُردرا ہاتھ لگنے سے رو دینے والے اور معمولی گرد سے میلے ہو جانیوالے سُرخ سفید گُلاب کے پھولوں ایسے بچوں کو پاکستان ایسے غریب مُلک میں بھیک مانگتے اور سبزی منڈی سے گلے سڑے پھل کھاتے دیکھا۔ وہ جِن کے آگے پیچھے بھلے وقتوں میں نوکر پھِرتے تھے اُنہیں نوکروں کیطرح اپنے سامنے سے برتن اُٹھاتے، جوتے چمکاتے دیکھا۔
یہ دردناک کہانی پاکستان کی کِسی دیوار پہ نہیں لِکھی جاتی، کِسی جلسہ گاہ کے باہر پیمفلٹ میں نہیں مِلتی، کِسی اخبار کے جزباتی قارئین کی تسکین کا سامان نہیں بنتی تو چھپتی بھی نہیں، کِسی خاکی جرنیل کی فتح کا ارمان نہیں کہ یہ سب بتلا کر، دِکھا کر تو فتح کا نشہ ہِرن ہوتا ہے۔
ہاں اگر آپ مُلک سے مُراد کوئی جُغرافیائی اکائی لیتے ہیں تو افغانستان سلامت ہے لیکن اُسکا بھی کوئی در سلامت ہے نہ دیوار باقی، مکان نہ مکین۔ جو افغان وہاں موجود ہیں اُن میں سے ایک بڑی اکثریت وہاں رہ نہیں رہی بلکہ رہ گئی ہے ۔ ۔ دوبارہ پڑھیں، "رہ نہیں رہی بلکہ رہ گئی ہے"۔
تلخ نوائی پر معذرت کے ساتھ لگے ہاتھوں ایک پردہ اور ہٹا دوں۔ ہم جِن کا اپنا مُلک ٹوٹے چالیس سال ہو چلے کِس روس ٹوٹنے پر شاداں ہیں؟ جِس کی شہہ رگ ہندوستان کے قبضے میں ہے اور جان بدمعاش اشرافیہ کے پنجے میں وہ بھی پرائی شادی میں عبدللہ دیوانے بنے پھِرتے ہیں، جھُلستے افغانستان کی تمازت سے ہاتھ سینکتے ہیں۔
خُدارا! غریب بستوں کی وال چاکنگ سے تاریخ پڑھنے اور کرائے پر جوان دینے والے جذبات کے خوانچہ فروشوں کی ہاہا کار سے نِکل کر کبھی خود کو ایک افغانی کی جگہ کھڑا کر کے دیکھیئے جِسکا آدھا کنبہ روس نگل گیا۔ بھاگ کر جان تو بچا لی لیکن قسمت اچھے دِنوں کیطرح پیچھے ہی رہ گئی کہ بیٹی ایران میں پھنس گئی، ماں افغانستان میں، بچہ اسلام آباد کے کِسی رستوران پر نازک ہاتھوں سے برتن مانجتا ہے اور خود جرمنی میں اِن سب کا انتظار کرتا بوڑھا رو رو کر لہولہان سا دِل ہارنے کو ہے۔ خوبصورت آنگن جِس میں یہ خاندان آباد تھے اب ماضی کی راکھ میں مدفوُن۔ بچھڑے کب ملیں، مِلے بھی تو کیسے یہ کہانیاں کہے سُنے بغیر سینوں کی قبروں میں رہ جائیں گی کہ ہمیں روس ٹوٹنے کی خوشی اِتنی چڑھی کہ کِرچی کِرچی ہوتے گھروندے دیکھے نہ سمیٹے۔
آخر میں چند باتیں جِن کا جواب لازم نہیں مگر سوچنا لازم ہے:۔
دُنیا کے طوُل و عرض میں کوئی ڈھنگ کا کافر مُلک ایسا ہے جہاں مسلمان افغان مہاجر نہ ہوئے ہوں اور پست زندگی گُزارنے پر مجبور نہ ہوں؟
اگر ایسا ہے تو کیا اپنے شہریوں کے بغیر افغانستان کو سلامت سمجھا جا سکتا ہے جہاں قبروں کی تعداد زندوں سے زیادہ اور اپاہجوں کی تعداد بظاہر سلامت نظر آنے والوں کے برابر ہے۔ اعداد و شُمار کرتے وقت خیال رہے کہ بعض قبروں میں لاش ایک اور کنبہ پورا دفن ہوتا ہے۔
آج اگر امریکہ چند ہزار تابوت لیکر چلا جائے تو پیچھے ان گِنت معذوروں کے سہارے لاکھوں افغانوں کی قبروں پر کھڑے ہو کر ہم شادیانے بجا کر اعلان کر سکتے ہیں کہ ہم نے فتح پا لی؟
کیا فتح ایسی ہوتی ہے؟
جہاں نہ کوئی سکول نہ کالج، سڑک نہ ہسپتال، مکین نہ مکان، کاربار نہ دُکان سلامت ہو۔ کیا ہماری انا کی پرستش کو یہ جُملہ کافی ہے کہ آخر امریکہ چلا گیا۔
حضور! باہر سے آنے والے جلد یا بدیر سب چلے جاتے ہیں۔ برطانیہ ہمارے ہاں سے نکالا گیا اور ہم سپین سے۔ کیا یہ سچ نہیں؟