کیا ایم کیو ایم کا قیام جماعت اسلامی کا کراچی میں زور توڑنے کے لیئے تھا؟
نیوٹن نے کہا تھا کہ ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے جو مقدار میں عمل کے بالکل برابر مگر مخالف سمت میں ہوتا ہے۔
یہاں یہ بات کلیئر کرتا چلوں کہ میرا یہ بیانیہ نہ تو ایم کیو ایم کی حمایت میں ہے اور نہ ہی جماعت اسلامی کی مخالفت میں۔
ایم کیو ایم کی بنیاد اس خلا کے ماحول میں ہوئی جو جاگیرداروں اور ملاؤں نے پیدا کیا تھا۔ جاگیردار مڈل کلاس کو انسان سمجھتا ہی نہیں تھا اور ملا اپنی کٹر مزہبی زہنیت دوسرے مسلمانوں پر تھوپنے میں مشغول تھا۔
اور آج بھی اسی کا چلن عام ہے۔ آپ اگر مولانا فضل الرحمان پر تنقید کریں تو اسلام خطرے میں۔ اور اگر جماعت اسلامی پر تنقید کریں تو آپ لبرل فاشسٹ۔ یہ لوگ اپنے آپ پر تنقید کو اسلام پر حملہ گردانتے ہیں۔ حالانکہ کہ ان دونوں جماعتوں پر ایک خاص مسلک کی چھاپ ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جماعت اسلامی کا سٹوڈنٹ ونگ اسلامی جمعت طلبہ نے تعلیمی اداروں میں تشدد اور بدمعاشی کی بنیاد رکھی۔ اور جہاں جہاں اس طلبہ تنظیم کا زور چلتا ہے یہ اپنی متشدد طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرتی ہے۔ اور اس کے لیئے کسی خاص ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔
آپ سبکو وہ واقعہ یاد ہوگا جب کپتان عمران خان پنجاب یونیورسٹی آئے تو جمیعت کے لونڈوں نے انکے ساتھ ذلت آمیز سلوک کیا اور انکو کچھ دیر کے لیئے یونیورسٹی میں نظر بند بھی رکھا۔ ان سے جب بھی اختلاف کیا جاتا ہے تو یہ آپ کو دائرہ اسلام سے باہر نکال دیتے ہیں۔ اور اگر آپ انکی پہنچ میں ہوں تو یہ گھسن مکا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہ وہ منافقت ہے جس کی وجہ سے عام پاکستانیوں کی اکثریت ان سے دور رہی۔
جب ایم کیو ایم کی تخلیق ہوئی تو اس وقت بھی ایسے ہی گھٹن زدہ حالات تھے اور ایک ڈکٹیٹر نے نوے کی دہائی میں اور پھر مشرف نے اپنے دور میں ان کو خوب بڑھنے کا موقع دیا۔ الطاف حسین کو قدرت نے ایک شاندار موقع دیا تھا کہ وہ مڈل کلاس کے نعرہ لگا کر سیاست میں داخل ہوتی اور پھر عام پاکستانیوں کی زندگیو ں میں تبدیلی لاتی مگر اس نعرے کو بنیاد بنا کرالطاف حسین نے اپنا اقتدار چند شہروں میں مستحکم کیا۔ اور بد قسمتی سے اس کے لیئے تشدد اور قتل و غارت کا اندھا استعمال کیا۔ اور جس رویے کے لیئے یہ جماعت اسلامی اور اسکی ذیلی تنظیم کو مطعون کرتے تھے۔
وہی رویہ خود اپنا لیا بلکہ اس سے بھی دو ہاتھ آگے۔
اور حالات یہاں تک پہنچے کہ ایم کیو ایم اور تشدد کی سیاست کے معانی ہم پلہ ہو گئے۔ الطاف حسین نے قدرت کا دیا گیا ایک بہت بڑا موقع گنوا دیا۔ اور اب اس جماعت کو اپنی بقا کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
آج بھی مڈل کلاس اور پڑھے لکھے طبقے کی نمائندگی کسی قومی جماعت میں نہیں۔ اور یہی وہ طبقہ ہے جو کسی بھی ملک کی ترقی میں ہر اول دستہ کا کردار ادا کرتا ہے۔
نیوٹن نے کہا تھا کہ ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے جو مقدار میں عمل کے بالکل برابر مگر مخالف سمت میں ہوتا ہے۔
یہاں یہ بات کلیئر کرتا چلوں کہ میرا یہ بیانیہ نہ تو ایم کیو ایم کی حمایت میں ہے اور نہ ہی جماعت اسلامی کی مخالفت میں۔
ایم کیو ایم کی بنیاد اس خلا کے ماحول میں ہوئی جو جاگیرداروں اور ملاؤں نے پیدا کیا تھا۔ جاگیردار مڈل کلاس کو انسان سمجھتا ہی نہیں تھا اور ملا اپنی کٹر مزہبی زہنیت دوسرے مسلمانوں پر تھوپنے میں مشغول تھا۔
اور آج بھی اسی کا چلن عام ہے۔ آپ اگر مولانا فضل الرحمان پر تنقید کریں تو اسلام خطرے میں۔ اور اگر جماعت اسلامی پر تنقید کریں تو آپ لبرل فاشسٹ۔ یہ لوگ اپنے آپ پر تنقید کو اسلام پر حملہ گردانتے ہیں۔ حالانکہ کہ ان دونوں جماعتوں پر ایک خاص مسلک کی چھاپ ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جماعت اسلامی کا سٹوڈنٹ ونگ اسلامی جمعت طلبہ نے تعلیمی اداروں میں تشدد اور بدمعاشی کی بنیاد رکھی۔ اور جہاں جہاں اس طلبہ تنظیم کا زور چلتا ہے یہ اپنی متشدد طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرتی ہے۔ اور اس کے لیئے کسی خاص ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔
آپ سبکو وہ واقعہ یاد ہوگا جب کپتان عمران خان پنجاب یونیورسٹی آئے تو جمیعت کے لونڈوں نے انکے ساتھ ذلت آمیز سلوک کیا اور انکو کچھ دیر کے لیئے یونیورسٹی میں نظر بند بھی رکھا۔ ان سے جب بھی اختلاف کیا جاتا ہے تو یہ آپ کو دائرہ اسلام سے باہر نکال دیتے ہیں۔ اور اگر آپ انکی پہنچ میں ہوں تو یہ گھسن مکا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہ وہ منافقت ہے جس کی وجہ سے عام پاکستانیوں کی اکثریت ان سے دور رہی۔
جب ایم کیو ایم کی تخلیق ہوئی تو اس وقت بھی ایسے ہی گھٹن زدہ حالات تھے اور ایک ڈکٹیٹر نے نوے کی دہائی میں اور پھر مشرف نے اپنے دور میں ان کو خوب بڑھنے کا موقع دیا۔ الطاف حسین کو قدرت نے ایک شاندار موقع دیا تھا کہ وہ مڈل کلاس کے نعرہ لگا کر سیاست میں داخل ہوتی اور پھر عام پاکستانیوں کی زندگیو ں میں تبدیلی لاتی مگر اس نعرے کو بنیاد بنا کرالطاف حسین نے اپنا اقتدار چند شہروں میں مستحکم کیا۔ اور بد قسمتی سے اس کے لیئے تشدد اور قتل و غارت کا اندھا استعمال کیا۔ اور جس رویے کے لیئے یہ جماعت اسلامی اور اسکی ذیلی تنظیم کو مطعون کرتے تھے۔
وہی رویہ خود اپنا لیا بلکہ اس سے بھی دو ہاتھ آگے۔
اور حالات یہاں تک پہنچے کہ ایم کیو ایم اور تشدد کی سیاست کے معانی ہم پلہ ہو گئے۔ الطاف حسین نے قدرت کا دیا گیا ایک بہت بڑا موقع گنوا دیا۔ اور اب اس جماعت کو اپنی بقا کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
آج بھی مڈل کلاس اور پڑھے لکھے طبقے کی نمائندگی کسی قومی جماعت میں نہیں۔ اور یہی وہ طبقہ ہے جو کسی بھی ملک کی ترقی میں ہر اول دستہ کا کردار ادا کرتا ہے۔