ہائیکورٹ کے 6 ججوں کے خط پر سابق جج شوکت صدیقی کا ردعمل

justi1h1i1h311.jpg

ہائیکورٹ کے 6 ججوں کا سپریم جوڈیشل کونسل کو خط، سابق جج شوکت صدیقی نے لب کھول لئے

اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کہتے ہیں ججز کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکنھے کی سمجھ نہیں آئی,نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کو چیف جسٹس سپریم کورٹ کو خط لکھنا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہاکہ ہائیکورٹ کے ججوں نے اپنے خط میں مداخلت کا لکھا ہے مگر خط کا حوالہ نہیں دیا۔شوکت عزیز صدیقی نے کہاکہ میں نے اکیلے جنگ لڑی تھی آج حمایت میں 6 ججز بھی شامل ہو گئے۔
https://twitter.com/x/status/1772851793703407851
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے سرخرو کیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ کر کہا گیا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے عدالتی معاملات میں مداخلت کی جا رہی ہے، اس لیے جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔

شوکت صدیقی نے نومبر 2018 میں راولپنڈی بار سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ آئی ایس آئی کے اہلکار نہ صرف عدالتی معاملات پر اثرانداز ہوتے ہیں بلکہ اپنی پسند کے بینچ بنوا کر اپنی مرضی کے فیصلے لیتے ہیں,شوکت صدیقی کے ان الزامات پر فوجی ترجمان نے تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

وزارت دفاع نے ایک شکایت سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کی جس کی بنیاد پر ان کو عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی گئی تھی اور اکتوبر 2018 میں اس وقت کے صدر مملکت عارف علوی نے شوکت صدیقی کو برطرف کر دیا تھا, چند روز قبل سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے ان کی مراعات بحال کر دی ہیں۔

سپریم کورٹ نے شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن رضوی اور جسٹس عرفان سعادت پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے شوکت صدیقی کی آئینی درخواستوں پر سماعت 23 جنوری 2024 کو مکمل کی تھی,عدالت نے اب کیس کا 22 صفحات کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا جو چیف جسٹس پاکستان نے تحریر کیا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری فیصلے میں کہا گیا ہےکہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کو غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے جب کہ 11 اکتوبر 2018 کو وزیراعظم کی سفارش پر صدر نے ان کی برطرفی کا نوٹیفکیشن جاری کیا اسے بھی کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہےکہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بحال نہیں کیا جاسکتا، انہیں ریٹائرڈ جج تصور کیا جائے، وہ بطور جج اسلام آباد ہائیکورٹ ریٹائرڈ اور تمام مراعات وپینشن کے حقدارہوں گے، انہیں پینشن سمیت تمام مراعات ملیں گی۔