Nightcrawl
Chief Minister (5k+ posts)
Ik isn't corrupt that's all that matters he can save Pak from zardari nawaz but he should be careful about his actions before elections.
Aap ne is main ek se ziada baten ki hain. ek bat ye hai ke Huzoor SAW ki nubuwat ki " wo Nubawat bilkul mukamal hai. Dusri bat ye ke Mitza Sahib ka kalma tau uska jawab ye hai ke ham log Mirza Sahib ka kalma nahi parhte kalma wohi hai jo Hadhrat MUHAMMAD PBUH ka hai. Teesri bat jo aap ne is main ki wo Qadian main Quran nazil hone wali bat jo exact kitab main likhi hai wo yehan lagaen phir us per baat ho sakti hai.
Aap ne is main ek se ziada baten ki hain. ek bat ye hai ke Huzoor SAW ki nubuwat ki " wo Nubawat bilkul mukamal hai. Dusri bat ye ke Mitza Sahib ka kalma tau uska jawab ye hai ke ham log Mirza Sahib ka kalma nahi parhte kalma wohi hai jo Hadhrat MUHAMMAD PBUH ka hai. Teesri bat jo aap ne is main ki wo Qadian main Quran nazil hone wali bat jo exact kitab main likhi hai wo yehan lagaen phir us per baat ho sakti hai.
قرآن کی جن آیتوں سے نبوت کا سلسلہ جاری رہنے کو ثابت کرنے کی کوشش کرکے اپنی نبوت کا دعویٰ کیا لیکن ہر قسم کی نبوت کو صرف اپنی ذات پر ختم کرڈالاجس سے ان کے وہ تمام دلائل جو نبوت کا سلسلہ جاری رہنے کے سلسلہ میں پیش کئے ‘ خود بہ خود جھوٹ و فریب ثابت ہوجاتے ہیں ۔ چنانچہ فنا فی الرسول (فنا فی المرزا) کے مقام پر اپنے آپ کو فائز سمجھنے والوں میں سے بعض نے مثلاً مولوی یار محمد قادیانی ‘ احمد نور کابلی قادیانی ‘ عبداللطیف قادیانی ‘ چراغ دین جمونی قادیانی ‘ غلام محمد قادیانی ‘ عبداللہ تماپوری اور صدیق دیندار چن بسیشور۱؎قادیانی نے اپنی اپنی نبوت کا جب اعلان کیا اور دلائل وہی پیش کئے جو مرزا صاحب اپنے نبی ہونے کے سلسلہ میں پیش کئے تو قادیانیوں نے ان سب دعویدارانِ نبوت کو جھٹلایا۔
Plz do not post comments of Molvies ...these molvies also declared those who say Earth revolves around sun are anti Quran and Islam
Bring anything from Quran
واہٹ ویبسائٹ؟
مرزا کریک ڈاٹ ستھن؟
مجھے پتا تھا کہ آپ نے کاپی پیسٹ کردینا ہے۔ اس طرح کی کئی کتابیں میں پیسٹ کردوں گا۔ انباکس میں ایک سوال کرو اسکا جواب مل جائے گا۔
مرزا غلام احمد صاحب نے حکومت برطانیہ کی خوشامد و چاپلوسی کرنے میں قرآنی آیات تک کی تحریف کرڈالی ۔نوٹ ۱۰؎
نوٹ ۱۰؎ : وَمَا كَانَ اللہُ لِيُعَذِّبَہُمْ وَاَنْتَ فِيْہِمْ۰ۭ (الانفال : ۳۳) ’’ اللہ تعالیٰ کی شان نہیں کہ ان لوگوں کو عذاب دے جبکہ اے رسول تم ان میں زندہ موجود ہو ‘‘مرزا صاحب اس کا یہ مطلب بیان کئے ہیں کہ ’’خدا ایسا نہیں کہ اس گورنمنٹ کو کچھ تکلیف پہنچائے حالانکہ تو ( مرزا صاحب) ان کی عملداری میں رہتا ہے ۔‘‘ وہ اس گورنمنٹ کے اقبال و شوکت میں تیرے (مرزا غلام احمد صاحب ) وجود و دعا کا اثر ہے اور اس کی فتوحات تیرے (غلام احمد صاحب کے ) سبب سے ہے ‘‘ اور اس کی وجہ یہ بیان کی ’’جدھر تیرا (غلام احمد صاحب کا ) منہ ہے ادھر خدا کا منہ ہے ‘‘ اور دلیل میں فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ۰ۭ (بقرہ ۱۱۵) ’’پس تم جدھر بھی منہ (رخ) کروگے ادھر اللہ کا رخ ہے ۔‘‘ براہین احمدیہ صفحہ ۲۴۱ اور عریضہ بخدمت گورنمنٹ حاشیہ ۱۶۹۔
وَلِلہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ۰ۤ فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ۰ۭ اِنَّ اللہَ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۱۱۵ (بقرہ) ’’ اور مشرق و مغرب اللہ ہی کے ہیں جب بھی تم چاہو ‘ تمہارا رخ کسی بھی سمت ہو اپنے رب سے عرض کرنا چاہو تو وہ تمہارے حال پر متوجہ ہوگا۔ بے شک اللہ بڑی وسعت و علم والا ہے ۔‘‘ بگڑے ہوئے دین میں رسومات کی سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے ۔ تحویل ِ قبلہ پر شدید ترین مخالفت کی جانے لگی تو فرمایا گیا کہ مشرق و مغرب کی طرف منہ کرلینا کوئی اصلی و حقیقی نیکی نہیں۔ مشرق کی بجائے مغرب کی طرف منہ کرلینے سے اعمال برباد نہیں ہوتے ۔کیونکہ مشر ق و مغرب تو اللہ ہی کے ہیں ۔ سب سے اہم چیز اللہ کے حکم کی تعمیل کرکے ’’اللہ ‘‘ سے تعلق پیدا کرنا ہے ۔ خط کشیدہ لفظ ’’تولوا ‘‘ جمع کا صیغہ ہے جو غلام احمد صاحب کے جھوٹ کو ظاہر کرتا ہے ۔
۱۴ اللہ تعالیٰ کے تمام پیغمبر اپنے فعل و عمل اور اعلان نبوت میں سچے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت کیلئے منتخب فرمایا تھا۔
مرزا غلام احمد صاحب اپنے دعویٔ نبوت میں قطعی جھوٹے تھے کیونکہ ان کو اللہ کی طرف سے نبی نہیں بنایا گیا بلکہ شیطانی جذبہ انا خیر منہ ( میں اس سے بہتر ہوں) کے تحت اپنے آپ کو نبی بنالیا۔
۱۵ اللہ کے تمام پیغمبر اہلِ باطل کے خلاف فکری و لسانی جہاد کئے ۔ اور ضرورت پڑنے پر مجبوراً قتال بھی کئے اور یہی تعلیم اپنی امتوں کو دیتے رہے ۔ چنانچہ جہاد کو دین اسلام میں سب سے بڑی عبادت قرار دیا گیا ہے ۔
مرزا صاحب نے اہل باطل بالخصوص حکومت برطانیہ کے خلاف جہاد کے حکم الٰہی کو منسوخ کرکے جہاد کرنے کو حرام قرار دے دیا ہے چنانچہ ان کی بیعت کے شرائط میں ایک اہم و بنیادی شرط ترک جہاد ہے ۔
۱۶ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو بھی نبی بنایا تو اس کی طرف یا تو راست وحی فرمایا یا پردہ کے پیچھے سے خطاب فرمایا یا فرشتہ کے ذریعہ وحی بھیجا ۔ (شوریٰ آیت ۵۲)
مرزا صاحب نے کثرت مکالمہ اور مخاطبت الٰہی کا نام نبوت رکھ لیا حالانکہ بہت سے دینی رہنمائوں نے بھی اپنے ملہم ہونے اور اللہ سے بات کرنے کی بات کہی ہے لیکن اپنے نبی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا ۔۔۔ نبی کریم ؐ کے بعد ہر دعویدار نبوت کو جھوٹا ہی قرار دیا اس لحاظ سے بھی مرزا صاحب اپنے دعویٔ نبوت میں جھوٹے ہیں۔
۱۷ اللہ کے جس پیغمبر پر بھی وحی الٰہی نازل ہوتی تھی تو پیغمبر اسی وحی کو عوام کے سامنے پیش کرکے دعوت دیتے تھے۔
مرزا صاحب انبیاء کے طریقہ کے خلاف عوام کے سامنے قرآنی آیات سے اپنی من مانی تفسیر کے ذریعہ اپنی نبوت کا دعویٰ کیا اگر واقعی وہ نبی ہوتے تو ان پر نازل شدہ وحی کو پیش کرتے ۔ اس لحاظ سے بھی دعویٰ نبوت جھوٹا ہے ۔
۱۸ اللہ کے تمام پیغمبر اللہ کی وحی کو عوام کے سامنے پیش کرتے تھے ۔
مرزا صاحب اپنے پر نازل شدہ وحی جس کا نام ’’کتاب المبین ‘‘ اور ’’تذکرہ ‘‘ رکھ لیا گیا ہے ‘ عوام کے سامنے پیش نہیں کیا بلکہ پوشیدہ رکھا ۔ جو ان کی فریب کاری کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
۱۹ اللہ کے نبی کی امت میں نبی کی وفات کے فوری بعد کوئی گروہ یا جماعت ایسی پیدا نہیں ہوئی جو اپنے نبی ہی کی نبوت کا انکار کرے ۔
قادیانیوں میں پانچ بڑے فرقے ہیں ۔ احمدی لاہوری ‘ دیندار ‘ حقیقت پسند ‘ تما پوری ‘ قادیانی۔ صرف قادیانی فرقہ ہی مرزا صاحب کو نبی مانتا ہے دوسرے ان کی نبوت کا انکار کرتے ہیں۔
۲۰ اللہ کے ہر پیغمبر نے انسانوں کو رب کے بندے بننے کی دعوت دی ہے ۔ چنانچہ نبی کریم ؐ کو بار بار داعیا الی اللہ ( اللہ کی طرف بلانے والا ) کہا گیا۔نوٹ ۱۱؎
مرزا غلام احمد صاحب کی پوری تعلیمات صرف اپنی شخصیت کے اطراف گھومتی ہے جو ان کے جھوٹے ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
نوٹ ۱۱؎ : مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّؤْتِيَہُ اللہُ الْكِتٰبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّۃَ ثُمَّ يَقُوْلَ لِلنَّاسِ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّيْ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰـنِيّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ۷۹ۙ وَلَا يَاْمُرَكُمْ اَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلٰۗىِٕكَۃَ وَالنَّبِيّٖنَ اَرْبَابًا۰ۭ اَيَاْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ اِذْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۸۰ۧ (آل عمران ) ’’کسی بشر کا یہ کام نہیں کہ اللہ تو اس کو کتاب و حکم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کے بجائے تم میرے بندے بن جائو ۔ بلکہ وہ تو یہی کہے گا کہ رب کے سچے بندے بنو ۔ جیسا کہ اس کتاب کی تعلیم کا بنیادی تقاضہ ہے جسے تم پڑھتے اور پڑھاتے ہو ۔ وہ تم سے ہرگز یہ نہ کہے گا کہ فرشتوں کو اور پیغمبروں کو اپنا حاجت روا مانو ۔ کیا ممکن ہے کہ ایک نبی تمہیں کفر کا حکم دے جبکہ تم اللہ کے مطیع و فرمانبردار ہو۔ ‘‘
۲۱ مریم ؑ کی پیدائش عام قانون طبعی کے تحت ہوئی ہے جس کو آل عمران آیت ۳۵ تا ۳۷ میں بیان کیا گیا ہے۔
مرزا صاحب خود مریم بن جاتے ہیں ۔
نوٹ ۱۲؎ : ’’سوچو کہ خدا جانتا تھا کہ اس نکتہ پر علم نہ ہونے سے یہ دلیل ضعیف ہوجائے گی اس لئے گو اس نے براہین احمدیہ کے تیسرے حصہ میں میرا نام مریم رکھا پھر جیسا کہ براہین احمدیہ سے ظاہر ہے کہ دو سال تک صفت مریم میں ‘ میں نے پرورش پائی اور پردے میں نشونما پاتا رہا ۔ ‘‘ ( کشتی نوح : صفحہ ۴۸)
۲۲ عیسیٰ ؑ کی پیدائش کا واقعہ آلِ عمران آیت ۴۵ تا ۵۱ اور سورہ مریم آیت ۱۶ تا ۳۶ میں بیان کیا گیا ہے جو قانون الٰہی کے بجائے قدرتِ الٰہی کے تحت ہے۔
مرزا صاحب کی عیسیٰ ؑ ابن مریم بننے کی تفصیل خود ان کی زبانی ملاحظ ہو۔
نوٹ ۱۳؎ : ’’مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخر کئی مہینوں کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں بذریعہ الہام جو سب سے آخر براہین احمدیہ کے حصہ چہارم میں درج ہے مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا۔ بس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا اور خدا نے براہین احمدیہ کے وقت اس سرِ خفی کی مجھے خبر نہ دی ‘‘۔ ( کشتی نوح صفحہ ۴۸)
۲۳ قیامت کے قریب عیسیٰ ؑ دوبارہ کسی کے بطن سے پیدا نہیں ہوں گے بلکہ آسمان سے نازل ہوں گے جس کا ذکر آل عمران ۴۶ ‘ النساء ۱۵۹ ‘ زخرف ۶۱ میں ہے ۔
مرزا صاحب اپنے آپ کو عیسیٰؑ ابن مریم ثابت کرنے کے لئے کبھی مرد سے عورت اور کبھی عورت سے مرد بننے کی خلا بازیاں ‘ استعارہ کے رنگ میں لگاتے ہیں جس سے نہ پیدا ہونے کی بات ثابت ہوتی ہے اور نہ نازل ہونے کی بات ثابت ہوتی ہے۔
اللہ کے تمام پیغمبر بگاڑ کی اصلاح کیلئے مبعوث کئے گئے ۔
مرزا صاحب اپنے جھوٹے دعویٔ نبوت کے ذریعہ بہت سے سادہ لوح مسلمانوں کو دوزخ کا ایندھن بنائے ہیں۔
مرزا صاحب کی تضاد بیانی
تضاد بیانی کی ایک معمولی سمجھ والے سے بھی توقع نہیں کی جاسکتی اور اگر وہ کسی غفلت و بھول کی بنا پر ہوجائے تو اس کی تلافی عذر کے ذریعہ ہوسکتی ہے لیکن جو تضاد بیانی عمداً بالخصوص اپنی بڑائی ثابت کرنے کے لئے کی جائے تو وہ سنگین گناہ ہے کیونکہ تضاد بیانی کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ بیان کردہ دو باتوں میں سے ایک بات یقینی جھوٹ ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ تضاد بیانی کرنے والا دراصل اپنے جھوٹے ہونے کا خود ثبوت فراہم کرتا ہے تو یہ اظہارِ حقیقت ہی ہوگا جو مرزا صاحب پر صد فیصد صادق آتا ہے۔
مرزا صاحب نے ابتدا تو پیری مریدی سے کی اور کشف و الہام کی آڑ لے کر کبھی محدث بنے ‘ کبھی امام زماں ‘ کبھی مجدّد ‘ کبھی مہدی اور کبھی مثیل مسیح ہونے کے دعوے کرتے چلے گئے جس کے لئے انھوں نے کئی باتیں مسلمہ عقائد کے خلاف کہیں اور لکھیں ۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اسلام کے مسلمہ عقائد کو بار بار دہرا کر یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ان کا بھی وہی عقیدہ ہے جو عام مسلمانوں کا ہے اور قرآن کو اللہ کا کلام اور نبی کریم ؐ کو آخری نبی مانتے ہیں اور ۱۹۰۱ ء میں اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کردیا تو ان کے مریدین و معتقدین ہی ان کی امّت بنے ۔ مرشد کے مرید ہوتے ہی نبی کو ماننے والے امّتی کہلاتے ہیں۔ مرزا صاحب کو نبی ماننے والے بھی فریب سے کام لے کر اپنے لئے امت کا لفظ استعمال نہیں کرتے بلکہ اپنے آپ کو ایک سلسلہ ‘ ایک جماعت ‘ ایک فرقہ ہی کہتے ہیں تاکہ مسلم عوام یہ سمجھتے رہیں کہ ایک نئے نبی کو مان کر بھی وہ امت محمدیہ ہی کے فرد رہتے ہیں۔
نوٹ ۱؎ : موصوف نے قادیان چھوڑ کر حیدرآباد دکن آصف نگر میں اپنا ڈیرہ جمایا جس کا نام’’خانقاہِ سرورِعالم ‘‘ رکھا گیاہے۔
جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قادیانیوں کا اولین و بنیادی عقیدہ مرزا صاحب کو خاتم النبیین ماننا ہے لیکن یہ اپنے عقائد کو پوشیدہ رکھنے کیلئے کس قدر جھوٹ و فریب سے کام لیتے ہیں ۔ ذیل کے واقعہ سے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ قادیانی پیشوا مرزا محمود سے ۱۹۵۳ ء میں پاکستان کی تحقیقاتی عدالت نے جب سوال کیا کہ ’’محمد ؐکے بعد کتنے سچے نبی گزرے ہیں ‘‘ تو جواب میں مرزا محمود نے کہا ’’ میں کسی کو نہیں جانتا مگر اس اعتبار سے کہ ہمارے نبی کریمؐ کی حدیث کے مطابق آپ کے امّت تک میں آپ کی عظمت و شان کا انعکاس ہوتا ہے ۔ سینکڑوں اور ہزاروں ہوچکے ہوں گے۔‘‘ اسی عدالت نے مرزا محمود سے جب یہ پوچھا ’’کہ آیا مرزا غلام احمد کی نبوت اور ان کے دوسرے کئی دعوؤں پر ایمان لانا جزو ایمان ہے ؟‘‘ تو صاف جواب دیا ’’مرزا صاحب کے کسی دعویٰ پر ایمان لانا جزوایمان نہیں ہے ۔‘‘ حالانکہ خود مرزا صاحب نے لکھا ہے ’’ خدائے تعالیٰ نے مجھ سے ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک وہ شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے ‘‘۔ جو شخص میری پیروی نہیں کرے گا اور میری بیعت میں داخل نہ ہوگا اور میرا مخالف رہے گا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے۔‘‘ (الہام مرزا صاحب ۔ مندرجہ تبلیغ رسالت جلد نہم ۲۷)
مرزا صاحب کی تضاد بیانی کے چند نمونے ملاحظہ ہوں
۱۔ قرآن کا محرف و مبدل ہونا محال ہے کیونکہ لاکھوں مسلمان اس کے حافظ ہیں ‘ ہزارہا اس کی تفسیریں ہیں ‘ پانچ وقت اس کی آیتیں نماز میں پڑھی جاتی ہیں … قرآن شریف کی تعلیم بھی انتہائی درجہ پر نازل ہوئی پس ان ہی معنوں سے شریعت فرقانی مختتم اور مکمل ٹھہری ۔ پہلی شریعتیں ناقص ہوئیں اور قرآن شریف کے لئے اب یہ ضرورت پیش نہیں کہ اس کے بعد اور کتاب بھی آئے چونکہ کمال کے بعد اور کوئی درجہ باقی نہیں ۔ ( براہین احمدیہ صفحہ ۹ اور صفحہ ۱۱۰)
’’وحی رسالت بجہت عدم ضرورت منقطع ہے۔ (براہین احمدیہ صفحہ ۱۵) پس ثابت ہوا کہ آنحضرت حقیقت میں خاتم الرسل ہیں۔‘‘
’’کیا تو نہیں جانتا کہ پروردگار رحیم و صاحب فضل نے ہمارے نبی ؐ کا بغیر کسی استثناء کے خاتم النبیین نام رکھا اور ہمارے نبی نے اہل طلب کے لئے اس کی تفسیر اپنے قول ’’لانبی بعدی ‘‘ میں واضح طور پر فرمادی اور اگر ہم اپنے نبی کریم ؐ کے بعد کسی نبی کا ظہور جائز قرار دیں تو گویا ہم بابِ وحی بند ہوجانے کے بعد اس کا کھلنا جائز قرار دیں گے اور یہ صحیح نہیں ہے۔
۱۔ ’’ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ جس دین میں نبوت کا سلسلہ نہ ہو وہ مردہ ہے ۔ یہودیوں ‘ عیسائیوں اور ہندوئوں کے دین کو ہم مردہ کہتے ہیں تو اسی لئے کہ ان میں اب کوئی نبی نہیں ہوتا ۔ اگر اسلام کا بھی یہی حال ہوتا تو پھر ہم بھی قصہ گو ٹھیرے ۔‘‘ (ارشاد مرزا غلام احمد مندرجہ اخبار بدر قادیان ۵؍ مارچ ۱۹۰۸ ء)
’’یہ کس قدر لغو اور باطل عقیدہ ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ بعد آنحضرت صلعم کے وحی الٰہیہ کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا … اور صرف قصوں کی پوجا کرو بس کیا ایسا مذہب کچھ مذہب ہوسکتا ہے جس میں براہ راست خدا کا کچھ بھی پتہ نہیں لگتا جو کچھ ہیں قصے ہیں …میں ایسے مذہب کا نام شیطانی مذہب رکھتا ہوں نہ کہ رحمانی … (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۱۸۳)
وحی اور الہام کے ایک ہی چیز ہونے پر کافی زور دے کر لکھا کہ اس کا دروازہ ہمیشہ کیلئے کھلا ہوا ہے ’’کیا سرمایہ خدا کا خرچ ہوگیا یا اس کے منہ پر مہر لگ گئی یا الہام بھیجنے سے عاجز ہوگیا ‘‘ اور رسالت کے متعلق کہا کہ ’’وہ ہر شخض کو مل نہیں سکتی بلکہ حسبِ قابلیت بعض افراد کو ملا کرتی ہے ۔
جیسا کہ مسلمانوں پر ظاہر ہے اور ہمارے رسول ؐ کے بعد نبی کیوں کر آسکتا ہے ۔ درآں حال یہ کہ آپ کی وفات کے بعد وحی منقطع ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر نبیوں کا خاتمہ فرمادیا ‘‘۔ (حمامۃ البشریٰ صفحہ ۳۴) ’’مجھے کب جائز ہے کہ میں نبوت کا دعویٰ کرکے اسلام سے خارج ہوجائوں اور کافروں کی جماعت سے جاملوں۔‘‘(حمامۃ البشریٰ صفحہ ۹۶)
اب سمجھنا چاہئے کہ گو اجمالی طور پر قرآن شریف اکمل و اتم کتاب ہے مگر ایک حصہ کثیرہ دین کا اور طریقہ عبادت وغیرہ کا مفصل اور مبسوط طور پر احادیث سے ہم نے لیا ہے۔ (ازالۃ الاوہام صفحہ ۵۵۶)
حال کے نیچری جن کے دلوں میں کچھ بھی عظمت قال اللہ و قال الرسول کی باقی نہیں رہی یہ بے اصل خیال پیش کرتے ہیں کہ جو مسیح ابن مریم کی آنے کی خبریں صحاح میں موجود ہیں یہ تمام خبریں ہی غلط ہیں شائد ان کا ایسی باتوں سے مطلب یہ ہے کہ اس عاجز کے اس دعویٰ کی تحقیر کرکے کسی طرح اس کو باطل ٹھیرایا جائے۔ ( ایضاً صفحہ ۵۵۶)
یہ امر پوشیدہ نہیں کہ مسیح ابن مریم کے آنے کی پیشن گوئی ایک اول درجہ کی پیشن گوئی ہے جس کو سب نے بالاتفاق قبول کیا ہے تواتر کا اول درجہ اس کو حاصل ہے ۔ (ایضاً ۵۵۷)
غرض یہ بات کہ مسیح جسمِ خاکی کے ساتھ آسمان پر چڑھ گیا اور اسی جسم کے ساتھ اترے گا نہایت لغو اور بے اصل بات ہے۔ صحابہ کا ہرگز اس پر اجماع نہیں ۔ بھلا اگر ہے تو کم سے کم تین یا چار سو صحابہ کا نام لیجئے جو اس بارے میں اپنی شہادت ادا کرگئے ورنہ ایک یا دو آدمی کا نام اجماع رکھنا سخت بددیانتی ہے۔ (ازالۃ الاوہام صفحہ ۳۰۳)
چنانچہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ ’’کسی مرے ہوئے کو اللہ نے زندہ کیا ہی نہیں ۔ ‘‘اور کسی کو آسمان پر زندہ اٹھا لئے جانے کا بھی انکار کیا اور نبی کریم ؐ کے معراج میں آسمان پر جانے کی بھی تکذیب کی اور دنیوی جسم کے ساتھ حشر کا بھی انکار کردیا۔
مسلمانوں اور قادیانیوں میں فرق و اختلاف
۱ مسلمان اللہ تعالیٰ کو سُبحان ( ہر نقص و عیب و کمزوری سے پاک ) سمجھتے ہیں۔
قادیانیوں کا خدا مباشرت و مجامعت بھی کرتا ہے ۔ ( اسلامی قربانی صفحہ ۳۴)
۲ مسلمان رسولوں کو معصوم مانتے ہیں ۔
مرزا غلام احمد صاحب ٹانک وائن کے پینے والے اور مخالفین کو گالیاں دینے والے ہیں ۔ (خطوط امام بنام محمد حسین قریشی صفحہ ۔۵ منقول از سودائے مرزا ۳۹؎ و الہام اتھم ۲۱؎
۳ مسلمان کا ایمان ہے کہ نبی کریم ؐ خاتم الانبیاء ہیں۔
قادیانی غلام احمد صاحب کو خاتم الانبیاء سمجھتے ہیں۔ ( حقیقت الوحی صفحہ ۳۹۱)
۴ مسلمان نبی کریم ؐ کے بعد ہر دعویدار نبوت کو جھوٹا ہی سمجھتے ہیں۔
قادیانی سلسلہ نبوت جاری رہنے کے اپنے خود ساختہ عقیدہ کے تحت ہر دعویدار نبی کو سچا نبی ماننے کی بات کہتے ہے لیکن حقیقت میں مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو خاتم الانبیاء سمجھتے ہیں ۔ ( ایضاً صفحہ ۳۹۱)
۵ نبی کریم ؐ پر جو وحی نازل ہوئی ہے اس کو مسلمان اللہ کی کتاب مانتے ہیں ۔
مرزا صاحب کے الہامات کے مجموعہ کا نام کتاب المبین یا تذکرہ ہے ۔ ( الفضل قادیان مورخہ ۱۵؍ فروری ۱۹۱۹ ء)
۶ مسلمانوں کا کلمہ لا الٰہ الَّا اللہ محمد رسول اللہ ہے ۔
قادیانیوں کا کلمہ لا الٰہ الا اللہ احمد جری اللہ ہے۔ (المہدی ۴۴؎)
۷ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّ ضِعَ لِنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبَارَکاً ۔(آل عمران۱۹۶) ’’انسانوں کے لئے سب سے پہلا گھر جو مقرر کیا گیا جو بیچ مکہ کے ہے اور برکت والا ہے۔‘‘ مکہ میں جو بیت اللہ ہے وہی سب سے پہلا اور قدیم گھر ہے جو زمین میں انسانوں کے لئے بنایا گیا اور مسلمان اسی کو بیت اللہ مانتے ہیں اور اسی کا حج کرتے ہیں۔
قادیانیوں کا بیت اللہ قادیان ہے چنانچہ مکہ ‘ مدینہ قادیان ہی کے نام قرار دیئے گئے ہیں۔ (در ثمین صفحہ ۵۲)
قادیانیوں کا حج قادیان کے سالانہ جلسہ میں حاضری کا نام ہے (برکات خلافت مجموعہ تقاریر مرزا محمود پسر غلام احمد قادیانی)
۸ مسلمانوں کے لئے جہاد فرض عین ہے ۔
قادیانیوں کے لئے جہاد حرام ہے۔ (تبلیغ رسالت جلد نہم ۳۵‘ ۳۶)
نزول کتاب و بعثت انبیاء کا مقصد
پیغمبر کی بعثت اور کتاب کے نزول کا مقصد بندوں کے لئے سامان ہدایت فراہم کرنا ہے ۔ کتاب کے نزول کیلئے پیغمبر کی ضرورت اس لئے ہے کہ وہ کلام الٰہی سے منشا و مراد الٰہی کو بتائے اور احکام الٰہی پر عمل کرکے نمونہ بندگی انسان کے سامنے رکھ دے تاکہ بندے اختلاف و انتشار سے بچ سکیں اور حشر کے دن سامان ہدایت کی عدم فراہمی کا عذر بھی پیش نہ کرسکیں۔
بعثت انبیاء کا قانون الٰہی
کسی قوم یا ملک میں پیغمبر مبعوث نہ کیا گیا ہو اور اس تک کسی اور قوم یا ملک سے ہدایت الٰہی نہ پہنچ سکی ہو تو نبی مبعوث کرکے کتاب نازل کی جاتی ہے یا کتاب تو نازل ہوئی تھی لیکن انسانوں نے اپنے خیالات اورمو شگافیوں سے اس کو بدل دیا ہو یا نبوی تعلیم و اسوہ اس قدر بگڑ چکا ہو کہ اس کی اصلی صورت و شکل معلوم کرنا جب ممکن نہ رہا تو نبی مبعوث کیا گیا ہے ۔ جیسے بنی اسرائیل یا کافروں نے کتاب ِ الٰہی کو گم کردیا تو نبی مبعوث کیا گیا جو امّت کے لئے کتاب از سر نو مدون کئے۔ جیسے بنی اسرائیل یا کسی نبی کی مدد کے لئے ایک اور نبی مبعوث کیا گیا جیسے موسیٰ ؑ کی مدد کے لئے ہارون ؑ اور یحییٰ ؑ و عیسیٰ ؑ ۔
نزول کتاب و بعثت نبی کا ایک اور اہم و بنیادی مقصد انسانوں کے لئے ایک برادری (امۃ واحدہ ) بننے کا سامان فراہم کرنا ہے ۔ چنانچہ جب بھی کوئی کتاب نازل ہوئی یا نبی مبعوث ہوئے تو مُصَدِّقَ لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ ’’ تصدیق کرنے والا اس کا جو کچھ ان کے پاس پہلے سے ہے ‘‘ کے اعلان کے ساتھ ہوئے ہیں۔ یہ اعلان قرآن میں بار بار دہرایا گیا ہے ۔ اسی لئے اللہ کے تمام پیغمبروں اور تمام کتابوں کو ماننا مسلمانوں کے ایمان کی ایک اہم شرط ہے ۔ اور اللہ کی کسی بھی کتاب یا کسی بھی پیغمبر کا انکار کرنا گویا تمام کتب و تمام پیغمبروں کا انکار کرنا قرار دیا گیا ہے ۔ اس لحاظ سے نبی کو ماننے اور نہ ماننے کا معاملہ نہایت ہی اہم و بنیادی معاملہ ہے جو بے حد نازک ہونے کے ساتھ ساتھ شدید نتائج کا حامل ہے ۔ چنانچہ اللہ کے نبی کو ماننے والا مومن ( اگر اس میں برائیاں نہ ہوں تو ) جنتی ۔ اور انکار کرنے والا کافر چاہے اس میں کتنی ہی دوسری خوبیاں کیوں نہ ہوں دوزخی ۔ اسی طرح جھوٹے نبی کو ماننے والا کافر و دوزخی چاہے وہ کتنا ہی پارسا کیوں نہ ہو اور جھوٹے نبی کا انکار کرنے والامومن اگر فرمانبردار ہو تو جنتی ۔ جس سے ثابت ہوا کہ سچے جھوٹے نبی کو ماننے کا معاملہ انسانوں کی ابدی زندگی کا معاملہ ہے ۔ اس کی اسی اہمیت کی بنا پر ہر نبی اپنے بعد آنے والے نبی کی خوشخبری اپنی اپنی امتوں کو دیئے ہیں۔ چنانچہ آخری نبی کی بعثت سے متعلق موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑکی دی ہوئی خوشخبریاں توریت و انجیل کے محرف ہوجانے کے باوجود اب بھی موجود ہیں۔ اور عیسیٰ ؑاپنی امّت کو آخری نبی کی خوشخبری دیئے ہیں۔ وہ قرآن میں ہے ۔ وَاِذْ قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ يٰبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرٰىۃِ وَمُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِي اسْمُہٗٓ اَحْمَدُ۰ۭ (الصف ۔ ۶) ’’ اور جب عیسیٰ ؑ ابن مریم نے بنی اسرائیل سے کہا اے بنی اسرائیل بلا شبہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں مجھ سے پہلے توریت آچکی ہے اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور میرے بعد صرف ایک ہی رسول آنے والے ہیں جن کا نام احمد ہوگا میں ان کی بشارت دینے والا ہوں ۔‘‘ ملحوظ رہے کہ عیسیٰ ؑ کی اس بشارت میں سابقہ پیغمبروں کی تصدیق اور آنے والے پیغمبر کی خوشخبری موجود ہے ۔ اس قانون کی رو سے قرآن کے بعد کوئی اور کتاب نازل اور نبی کریم ؐ کے بعد کوئی اور نبی کو مبعوث کرنا ہوتا تو اس کا ذکر قرآن میں ہونا ضروری تھا ۔ اور نبی کریم ؐ کے ارشادات میں بھی ضرور اس قسم کی پیشین گوئی ہوتی ۔ حقیقت واقعہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حفاظت کا وعدہ فرما کر قرآن کو آخری کتاب قرار دے دیا ۔ اور نبی کریم ؐ کو ’’رحمت للعٰلمین ‘‘ اور ’’ خاتم النبیین ‘‘ کا خطاب نہیں بلکہ لقب دے کر اپنی بعثت انبیاء کی سنت کو منسوخ فرمادیا۔ اور نبی کریم ؐ نے اپنے ارشادات ’’لانبی بعدی‘‘ کے علاوہ دیگر ارشادات کے ذریعہ یہ صراحت و وضاحت فرمادی ہے کہ میرے بعد ہر دعویدار نبوت چاہے وہ ظلی ہو یا بروزی ‘ امتی ہو یا غیر امتی یقیناً جھوٹا و فریبی ہے ۔ جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ نزول کتب و بعثت انبیاء کے ذریعہ تمام انسانوں میں اتحاد و اتفاق (عقیدہ و عمل کی یکسانیت ) پیدا کرکے ایک برادری بننے کا سامان فراہم کرنا ہے ۔ چنانچہ دینِِ اسلام کی ایک اہم و بنیادی دعوت بھی یہی ہے کہ دنیا کے تمام انسانوں کی نسل و اصل ایک ‘ ان کی ضروریات و خواہشات بھی ایک اور ان کا پیدا کرنے اور پالنے والا بھی ایک ہی ہے جس کا لازمی تقاضہ یہی ہے کہ دنیا کے تمام انسانوں کے لئے طریقہ بندگی و زندگی بھی ایک ہی ہو نا چاہئے جو رب العالمین کا مجوّزہ ہونا چاہئے ۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام پوری انسانیت کا دین بنتا جارہا ہے جس کی رفتار کبھی سست تو کبھی تیز ہوجاتی ہے ۔ العلیم ‘ الحکیم ‘ رئوف و رحیم ‘ سبحان ‘ رب العالمین کی ہر گز ہرگز یہ شان نہیں کہ بلا وجہ وبلا ضرورت نبی کو مبعوث کرکے نہ صرف بندوں کو ایمان و کفر کی کڑی آزمائش میں ڈالے بلکہ ان تمام امکانات کو بھی ڈائنامیٹ کردے جو آخری کتاب اور آخری نبی کے ذریعہ انسانوں کو ایک امت و برادری بننے کے لئے پیدا ہوچکے ہیں۔
غور کیجئے قرآن کا آخری کتاب ہونا اور محمد مصطفی ؐ کا آخری نبی ہونا اللہ کی کس قدر زبردست رحمت و نعمت ہے جس کی بدولت ہی دنیا کے تمام مسلمان ایک دائمی و عالمگیر برادری بنے ہیں اور بنتے جارہے ہیں ۔ دشمنانِ اسلام ‘ دین اسلام کی اسی آفاقیت میں رخنہ ڈالنے ( یصدون عن سبیل اللہ ) ( اللہ کے راستے سے روکتے ہیں ) کی غرض سے رہ رہ کر اپنی سی کوشش کرتے رہے ہیں ۔ مرزا صاحب کا دعویٔ نبوت بھی اسی مقصد ( یصدون عن سبیل اللہ )کے حصول کی ایک کوشش ہے ۔ مرزا صاحب اپنے خود ساختہ اصول اور اپنے کشف و الہام کی بنیاد پر اپنی نبوت کا دعویٰ کیا ہے ۔ حالانکہ یہ بنیادیں ان کے دعوے کی دلیل نہیں بن سکتیں ان کا دعویٰ ایسا ہی ہے جیسے زید ‘ بکر سے مطالبہ کرے کہ تم نے جو قرض مجھ سے لیا ہے وہ واپس کردو کیونکہ یہ بات مجھ پر منکشف ہوئی ہے یا یہ کہے کہ مجھے الہام کے ذریعہ یہ معلوم ہوا ہے کہ تمہارے ذمہ میری اتنی رقم واجب الادا ہے ۔ اسی لئے انھوں نے قرآن و حدیث کے خلاف اپنے الہام و کشف کی آڑ میں ان کی من مانی تفسیر کرڈالی جو ہزاروں صفحات پر مشتمل ہے ۔ ان کے جھوٹ و فریب کو بتانے کے لئے بھی ہزاروں صفحات درکار ہوں گے جن کا پڑھنا عوام کے لئے ممکن بھی نہیں اس لئے سہولت و آسانی کے لئے مرزا صاحب کے وہ عقائد جو وہ اللہ تعالیٰ کے متعلق رکھتے تھے ‘ ان کے چند نمونے پیش ہیں۔
۱۔ اللہ تعالیٰ نے مرزا صاحب سے کہا ’’ میں نماز پڑھوں گا ‘ روزہ رکھوں گا ‘ جاگتا ہوں اور سوتا ہوں ۔ (الہامات مرزا صاحب ۔ البشریٰ جلد دوم صفحہ ۷۹)
۲۔ تو مجھ سے بمنزلہ میرے فرزند کے ہے ۔ ( حقیقت الوحی ۔ صفحہ ۸۶)
۳۔ تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں ‘ تیرا ظہور میرا ظہور ہے ۔ ( مکاشفات مرزا صاحب ۔ صفحہ ۶۵)
۴۔ میں تیری حفاظت کروں گا خدا تیرے اندر اتر آیا تو مجھ میں اور تمام مخلوقات میں واسطہ ہے ۔ (کتاب البریہ صفحہ ۷۵)
۵۔ مسیح موعود ( مرزا صاحب ) ایک موقع پر اپنی یہ حالت ظاہر فرمائی کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے رجولیت کی قوت کا اظہار فرمایا ۔ ( اصلاحی قربانی صفحہ ۱۳۴ قاضی یار محمد قادیانی )
۶۔ مرزا صاحب نے کہا ’’ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خدا ہوں ۔ میں نے یقین کرلیا کہ میں وہی ہوں (آئینہ کمالات اسلام ۵۶۴ مصنفہ مرزا صاحب )
غور کیجئے کہ مرزا صاحب نے اللہ تعالیٰ کے ارشادات لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ (شوریٰ ۔ ۱۱) ’’نہیں ہے اس طرح کا سا کوئی‘‘ اَللّٰہُ الصَّمَدٌ ’’اللہ ہر ایک سے بے نیاز ہے‘‘ لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ ہُوَالْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ۰ۭ (المائدہ ۔ ۷۲)’’ یقیناً کفر کیا ان لوگوں نے جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عین مسیح ابن مریم ہے۔ ‘‘ لَمْ يَلِدْ۰ۥۙ وَلَمْ يُوْلَدْ۳ۙ وَلَمْ يَكُنْ لَّہٗ كُفُوًا اَحَدٌ۴ۧ (اخلاص )’’نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ اسے کسی نے جنا اور جس کے جوڑ کا کوئی نہیں‘‘ اَنّٰى يَكُوْنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ۰ۭ (الانعام : ۱۰۱ )’’ اللہ کو اولاد کیونکر ہوسکتی ہے جب کہ اس کی کوئی بیوی ہے ہی نہیں‘‘ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يَصِفُوْنَ (الانعام : ۱۰۰)’’ وہ پاک اور برتر ہے ان تمام باتوں سے جو اس کی شان کے خلاف لوگ بیان کرتے ہیں ‘‘ کا کس طرح مذاق اڑایا ہے۔ جس کا اللہ رب العزت سے بے خوفی کا یہ عالم ہو تو اس کو ’’انا النبی ‘‘( میں نبی ہوں ) کہنے سے کیا چیز روک سکتی ہے۔
انسان کے دل و دماغ میں جب دنیا رچ بس جاتی ہے تو وہ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ (سورہ التین ۔۵)’’پستی کی حالت سے بھی زیادہ پست تر‘‘سے بھی آگے بڑھ کراپنے رب کا باغی و سرکش بننے میں شیطان کو بھی مات کردیتا ہے۔
مرزا غلام احمد احب کی تصانیف کی روشنی میں اگر یہ کہا جائے کہ وہ اللہ کے وجود ہی کو نہیں مانتے تھے تو یہ ایک حقیقت واقعہ کا اظہار ہی ہوگا۔ جس کا ایک کھلا ثبوت ان کا حشر سے انکار ہے۔کے مطابق برسر باطل ‘ کذاب و دجال ہونا ایک ایسا حقیقت واقعہ بن چکا ہے جس کا انکار ممکن نہیں ۔ جب پیر و مرشد ہی برسر باطل ‘ کذاب و دجال تھے تو پھر ان کے متبعین کیسے برحق ہوسکتے ہیں ۔ آپ کے مباہلہ کو قابل اعتنا سمجھنا آزمودہ را آزمودن جہل است ‘ ہی نہیں بلکہ گمراہی ہے ۔ آپ کا چیلنج مباہلہ ۔ ’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ‘‘ کے مترادف ہے ۔
مجھے پتا تھا کہ آپ نے کاپی پیسٹ کردینا ہے۔ اس طرح کی کئی کتابیں میں پیسٹ کردوں گا۔ انباکس میں ایک سوال کرو اسکا جواب مل جائے گا۔
Kia nazar ka chasma out dated ho gia hai, tujhe nazar nahi ata kis ki shakal hai?
TOU AAP BEMAAR HO KAR MEDICINE LAINA DR PASS NA JAYAI KARAYہر وہ عمل، ہر وہ جذبہ (امید ڈر عاجزی انکساری محبت) جو صرف الله کے لئے ہونی چاہیے وہی عاجزی انکساری اور محبت مخلوق کے لئے روا رکھنا شرک ہوگا
جس طرح الله سے امید ہونی چاہیے اسی طرح اگر آپ مخلوق سے امید رکھینگے تو وہ شرک ہوگا
جس طرح الله کے سامنے عاجزی اور انکساری ہونی چاہیے ویسی مخلوق کے سامنے روا رکھیں گیے تو وہ شرک ہوگا
ہمیں نہیں معلوم عمران خان کے دل میں کیا تھا
یا جو لوگ قبر کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں انکی نیت کیا ہوتی ہے
مگر کم سے کم درجے میں یہ ہے کہ چومنا تو حرام ہے اور آگے اسکی منزل شرک ہے
باقی الله حساب لینے والا ہے
کوئی عمران خان پر فتوی نہیں لگا رہا
مگر ایک عمل کی قباحت کا ذکر ہونا لازم ہے
الله سب کو شرک جیسے قبیح گناہ سے محفوظ رکھے
بڑے بڑے کانوں کی وجہ سے پہچانے نہیں جا رہے ورنہ فوٹو تو تمہاری ہی ہے۔
البتہ بڑے ہو کر بدل گئے ہو تو پتا نہیں لیکن بچپن میں تو تم ایسے ہی تھے، اگے واللہ عالم۔
![]()
:D:D:D
مرزا کریک ستھن نے اپنی چوولوں کا دفاع کرنے کیلئے واقعتا یہی ویبسائٹ بنا رکھی ہے۔۔۔کریک ستھن ڈاٹ بٹن پریس ڈاٹ چول نامہ
Macbeth likhne se kisi ka taleem yafta hona sabit nahi hota. Taab tu bilkul nahi jaab batain bachon wali hoon. Just for your information, this website, if you check the dates of the articles, was created long before I joined on this forum.
Waise aik bhi Qadiani aaj taak jawab nahi dee saka. Aus ko chor, recently aik Lahori SSP London me chootion pe hai, aus ko aik half Qadiani (Wife is Qadiani) mere ghar le aya. Aus ne apne mobile ke camera per meri website ke articles ki pictures li. The quotes from Mirza's book I have used in my articles, he took pictures of them. He said he would come back, months gone, he has never came back, didn't phone me.
I also said to him that I challenge him and his Qadiani jamat, including Mirza Masroor to take me to a court in the UK and challenge me on the material i have used. I said, forget about "Scholarly and Islamic" arguments. I will prove it without a shadow of a doubt from Mirza's own books that he was a liar. That Zafarullah Khan was a lying deceptive crook, that the whole Jamat is fooling its followers using lies.
I am British, live in London, he know my address. What is stopping them!! Think Stupid, think.
© Copyrights 2008 - 2025 Siasat.pk - All Rights Reserved. Privacy Policy | Disclaimer|