atensari
(50k+ posts) بابائے فورم
چیلنج: دلچسپ ٹرینڈ یا ذاتی معلومات تک رسائی؟ #MeAt20
کورونا وائرس کی وبا سے پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث دنیا بھر میں لوگ گھروں میں محدود ہیں اور ایسے میں سوشل میڈیا پر منفرد ٹرینڈز میں حصہ لینے سے اپنے آپ کو محظوظ کررہے ہیں۔
اس ٹویٹ کے آنے کے فوری بعد ہی ہزاروں صارفین نے اپنی تصاویر شئیر کرنا شروع کردی ہیں اور دنیا بھر میں معروف شخصیات سے لے کر ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس ٹرینڈ میں شرکت کی۔
پاکستان میں بھی سیاست دانوں سمیت مقامی میڈیا کے اینکر پرسنز اور گلوکاروں نے بھی اس ٹرینڈ میں حصہ لیا۔ گلوکار شہزاد رائے نے اپنی تصویر شئیر کی جس پر صارفین کا دلچسپ رد عمل سامنے آیا ہے۔
بیئا نامی ایک صارف نے شہزاد رائے کی ایک ہی تصویر چار مرتبہ لگائی اور لکھا کہ شہزاد رائے عمر کے 20، 40، 60 اور 80 برس میں بھی ظاہری طور پر ویسے ہی دکھیں گے جیسے کہ آج۔
پاکستان کی معروف صحافی اور اینکر عاصمہ شیرازی نے بھی اپنے کالج کے زمانے کی ایک تصویر شئیر کی اور یہ بھی ذکر کیا کہ وہ اس وقت طلبہ کونسل کی صدر تھیں۔
ایک جانب جہاں صارفین ان پرانی یادوں کو شئیر کر کے لطف اندوز ہورہے ہیں، وہیں چند صارفین نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ اس ٹرینڈ کے ذریعے ممکن ہے کہ صارفین کی ذاتی معلومات محفوظ نہ رہیں۔
'یہ سوشل میڈیا کمپنیز کے لیے جیسے سونے کی کان ہے'
بی بی سی نے یہ جاننے کے لیے کہ آیا یہ معصومانہ سا ٹرینڈ کیا واقعی سوشل میڈیا صارفین کی ذاتی معلومات کے لیے خطرہ ہے؟
اس حوالے سے ہم نے پاکستان میں ڈیجیٹل حقوق پر کام کرنے والے ادارے ڈیجیٹل رائیٹس فاؤنڈیشن کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر نگہت داد سےبات کی۔
ان کے مطابق لوگ گھروں میں محدود ہیں اور ان کے پاس ایسی سرگرمیاں نہیں، جن سے وہ اپنے آپ کو مصروف رکھ پائیں، جس کے باعث وہ ایسے ٹرینڈز میں حصہ لیتے ہیں۔
لوگوں میں ڈیجیٹل حقوق سے متعلق لا علمی کے حوالے سے نگہت داد کا کہنا تھا کہ 'اس قسم کی ذاتی معلومات سوشل میڈیا کمپنیز اور مختلف ایپس بنانے والوں کے لیے جیسے سونے کی کان کی ہے، جس سے انھیں مصنوئی ذہانت کی صلاحیت کو مزید مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔
ذاتی معلومات سے آخر سوشل میڈیا کمپنیز کو فائدہ کیسے؟
پاکستان میں ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی تنظیم 'بولو بھی' کے ڈائریکٹر اسامہ خلجی نے اس ٹرینڈ پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ 'سوشل میڈیا کمپنیز کا کاروباری ماڈل ہمارا ڈیٹا بیچنے کی بنیاد پر ہی چلتا ہے۔'
صارفین اپنی ذاتی معلومات انٹرنیٹ پر پبلک کا انتخاب کر کے شئیر کرتے ہیں تو یہ سب معلومات ان کاروباری اداروں کو بیچی جاتی ہیں جو بالخصوص انھی معلومات کی بنیاد پر اشیا بیچنے کے لیے بے تحاشا اشتہارات کا استعمال کرتی ہیں۔
اسامہ خلجی کے مطابق صارفین کی پسند نا پسند سے متعلق معلومات آرٹیفیشل انٹیلیجنس یا مصنوئی ذہانت کے ذریعے اکٹھی کی جاتی ہیں۔
'اس لیے حیرانی کی بات نہیں ہوتی کہ اگر آپ کے سامنے ان اشیا کے اشتہارات آتے ہیں، جن کی آپ کو یا تو ضرورت ہو یا آپ کو پسند ہوں'۔
چہرہ شناخت کرنے کی ٹیکنالوجی
اسامہ کے مطابق اس ٹرینڈ کا سب سے زیادہ فائدہ ان اداروں اور ایپس بنانے والوں کو ہوگا، جو چہرہ شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی یا فیشل ریکگنشن کا استعمال کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ گذشتہ برسوں میں ایسی مختلف ایپس سامنے آئیں تھیں، جن کے ذریعے وہ لوگ جو اس میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ وہ بڑھاپے میں ظاہری طور پر کیسے لگیں گے انھیں ان کی ہی ایک جوانی کی تصویر کی مدد سے وہ تصویری خاکہ تیار کر کے دیا جاتا تھا۔
اسامہ خلجی کے مطابق اس طرز کی ایپس کو 'ان تصاویر تک رسائی سے بے حد فائدہ ہوگا۔'
رضامندی اور باخبر رضامندی میں فرق
جیسی طرز کے ٹرینڈز میں حصہ لینے والے افراد کا عمومی طور پر یہ موقف ہوتا ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر ان تصاویر کو عوام کے ساتھ شئیر کررہے ہیں۔ #MeAt20
البتہ اس حوالے سے اسامہ خلجی کا کہنا تھا کہ 'رضامندی اور باخبر رضامندی میں فرق ہوتا ہے یہ درست ہے کہ لوگ اپنی مرضی سے یہ تصاویر شئیر کررہے ہیں مگر کیا وہ جانتے ہیں کہ ان کی یہ ذاتی معلومات آگے کن اداروں کو کن مقاصد کے لیے فراہم کی جارہی ہیں؟'
اسامہ کے مطابق ان تمام تصاویر تک رسائی سے ان کمپنیز کے پاس اس شخص کی ایک مکمل پروفائل تیار ہونا شروع ہوجاتی ہے اور نگرانی کرنے کے مقاصد کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہے۔
معلومات پبلک کرنے کے نتائج سے آگاہی
کورونا وائرس کی وبا کے باعث مختلف ممالک میں سکیورٹی کے لیے لاک ڈاؤن کے بعد سے سی سی ٹی وی کیمروں کا استعمال بھی بڑھ گیا ہے۔
ڈیجیٹل رائیٹس فاؤنڈیشن کی بانی نگھت داد کے مطابق 'صارفین کو اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ وہ جو بھی ذاتی معلومات پبلک کریں گے، وہ معلومات ہمیشہ کے لیے انٹرنیٹ پر موجود رہیں گی۔'
نگہت داد اور اسامہ خلجی دونوں نے ہی اس بات پر اتفاق کیا کہ ملک میں ذاتی معلومات کو سوشل میڈیا پیجز پر پبلک کرنے کے نتائج کے حوالے سے آگاہی پھیلانی چاہیے۔
سورس
کورونا وائرس کی وبا سے پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث دنیا بھر میں لوگ گھروں میں محدود ہیں اور ایسے میں سوشل میڈیا پر منفرد ٹرینڈز میں حصہ لینے سے اپنے آپ کو محظوظ کررہے ہیں۔
اس ٹویٹ کے آنے کے فوری بعد ہی ہزاروں صارفین نے اپنی تصاویر شئیر کرنا شروع کردی ہیں اور دنیا بھر میں معروف شخصیات سے لے کر ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس ٹرینڈ میں شرکت کی۔
پاکستان میں بھی سیاست دانوں سمیت مقامی میڈیا کے اینکر پرسنز اور گلوکاروں نے بھی اس ٹرینڈ میں حصہ لیا۔ گلوکار شہزاد رائے نے اپنی تصویر شئیر کی جس پر صارفین کا دلچسپ رد عمل سامنے آیا ہے۔
بیئا نامی ایک صارف نے شہزاد رائے کی ایک ہی تصویر چار مرتبہ لگائی اور لکھا کہ شہزاد رائے عمر کے 20، 40، 60 اور 80 برس میں بھی ظاہری طور پر ویسے ہی دکھیں گے جیسے کہ آج۔
پاکستان کی معروف صحافی اور اینکر عاصمہ شیرازی نے بھی اپنے کالج کے زمانے کی ایک تصویر شئیر کی اور یہ بھی ذکر کیا کہ وہ اس وقت طلبہ کونسل کی صدر تھیں۔
ایک جانب جہاں صارفین ان پرانی یادوں کو شئیر کر کے لطف اندوز ہورہے ہیں، وہیں چند صارفین نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ اس ٹرینڈ کے ذریعے ممکن ہے کہ صارفین کی ذاتی معلومات محفوظ نہ رہیں۔
'یہ سوشل میڈیا کمپنیز کے لیے جیسے سونے کی کان ہے'
بی بی سی نے یہ جاننے کے لیے کہ آیا یہ معصومانہ سا ٹرینڈ کیا واقعی سوشل میڈیا صارفین کی ذاتی معلومات کے لیے خطرہ ہے؟
اس حوالے سے ہم نے پاکستان میں ڈیجیٹل حقوق پر کام کرنے والے ادارے ڈیجیٹل رائیٹس فاؤنڈیشن کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر نگہت داد سےبات کی۔
ان کے مطابق لوگ گھروں میں محدود ہیں اور ان کے پاس ایسی سرگرمیاں نہیں، جن سے وہ اپنے آپ کو مصروف رکھ پائیں، جس کے باعث وہ ایسے ٹرینڈز میں حصہ لیتے ہیں۔
لوگوں میں ڈیجیٹل حقوق سے متعلق لا علمی کے حوالے سے نگہت داد کا کہنا تھا کہ 'اس قسم کی ذاتی معلومات سوشل میڈیا کمپنیز اور مختلف ایپس بنانے والوں کے لیے جیسے سونے کی کان کی ہے، جس سے انھیں مصنوئی ذہانت کی صلاحیت کو مزید مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔
ذاتی معلومات سے آخر سوشل میڈیا کمپنیز کو فائدہ کیسے؟
پاکستان میں ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی تنظیم 'بولو بھی' کے ڈائریکٹر اسامہ خلجی نے اس ٹرینڈ پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ 'سوشل میڈیا کمپنیز کا کاروباری ماڈل ہمارا ڈیٹا بیچنے کی بنیاد پر ہی چلتا ہے۔'
صارفین اپنی ذاتی معلومات انٹرنیٹ پر پبلک کا انتخاب کر کے شئیر کرتے ہیں تو یہ سب معلومات ان کاروباری اداروں کو بیچی جاتی ہیں جو بالخصوص انھی معلومات کی بنیاد پر اشیا بیچنے کے لیے بے تحاشا اشتہارات کا استعمال کرتی ہیں۔
اسامہ خلجی کے مطابق صارفین کی پسند نا پسند سے متعلق معلومات آرٹیفیشل انٹیلیجنس یا مصنوئی ذہانت کے ذریعے اکٹھی کی جاتی ہیں۔
'اس لیے حیرانی کی بات نہیں ہوتی کہ اگر آپ کے سامنے ان اشیا کے اشتہارات آتے ہیں، جن کی آپ کو یا تو ضرورت ہو یا آپ کو پسند ہوں'۔
چہرہ شناخت کرنے کی ٹیکنالوجی
اسامہ کے مطابق اس ٹرینڈ کا سب سے زیادہ فائدہ ان اداروں اور ایپس بنانے والوں کو ہوگا، جو چہرہ شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی یا فیشل ریکگنشن کا استعمال کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ گذشتہ برسوں میں ایسی مختلف ایپس سامنے آئیں تھیں، جن کے ذریعے وہ لوگ جو اس میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ وہ بڑھاپے میں ظاہری طور پر کیسے لگیں گے انھیں ان کی ہی ایک جوانی کی تصویر کی مدد سے وہ تصویری خاکہ تیار کر کے دیا جاتا تھا۔
اسامہ خلجی کے مطابق اس طرز کی ایپس کو 'ان تصاویر تک رسائی سے بے حد فائدہ ہوگا۔'
رضامندی اور باخبر رضامندی میں فرق
جیسی طرز کے ٹرینڈز میں حصہ لینے والے افراد کا عمومی طور پر یہ موقف ہوتا ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر ان تصاویر کو عوام کے ساتھ شئیر کررہے ہیں۔ #MeAt20
البتہ اس حوالے سے اسامہ خلجی کا کہنا تھا کہ 'رضامندی اور باخبر رضامندی میں فرق ہوتا ہے یہ درست ہے کہ لوگ اپنی مرضی سے یہ تصاویر شئیر کررہے ہیں مگر کیا وہ جانتے ہیں کہ ان کی یہ ذاتی معلومات آگے کن اداروں کو کن مقاصد کے لیے فراہم کی جارہی ہیں؟'
اسامہ کے مطابق ان تمام تصاویر تک رسائی سے ان کمپنیز کے پاس اس شخص کی ایک مکمل پروفائل تیار ہونا شروع ہوجاتی ہے اور نگرانی کرنے کے مقاصد کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہے۔
معلومات پبلک کرنے کے نتائج سے آگاہی
کورونا وائرس کی وبا کے باعث مختلف ممالک میں سکیورٹی کے لیے لاک ڈاؤن کے بعد سے سی سی ٹی وی کیمروں کا استعمال بھی بڑھ گیا ہے۔
ڈیجیٹل رائیٹس فاؤنڈیشن کی بانی نگھت داد کے مطابق 'صارفین کو اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ وہ جو بھی ذاتی معلومات پبلک کریں گے، وہ معلومات ہمیشہ کے لیے انٹرنیٹ پر موجود رہیں گی۔'
نگہت داد اور اسامہ خلجی دونوں نے ہی اس بات پر اتفاق کیا کہ ملک میں ذاتی معلومات کو سوشل میڈیا پیجز پر پبلک کرنے کے نتائج کے حوالے سے آگاہی پھیلانی چاہیے۔
سورس