ہمارے ہاں سوچنے سمجھنے کا زیادہ رجحان نہیں ہے، اس لئے جب بھی کوئی مسئلہ کھڑا ہوتا ہے اس کے فوری تدارک کے کیلئے ماردو، کاٹ دو، لٹکا دو جیسی صدائیں بلند ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور کوئی بھی مسئلے کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اب بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات زیادہ ہائی لائٹ ہونا شروع ہوئے ہیں تو سب نے مسئلے کا ایک ہی حل ڈھونڈا ہے کہ مجرم کو سرعام پھانسی پر لٹکادو، بس یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ کسی نے یہ غور کرنے کی کوشش نہیں کی کہ ہمارے ہاں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کیوں زیادہ ہیں، کیا وجہ ہے کہ زیادہ تر واقعات میں مولوی ہی ملوث ہوتے ہیں یا پھر زیادہ تر واقعات مدرسوں کے اندر پیش آتے ہیں۔
اس مسئلے کی ایک بڑی وجہ ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی جنسی گھٹن ہے۔ بھوک پیاس کی طرح جنسی فعل بھی انسان کی ضرورت ہے اور جب اسے اس ضرورت کو پورا کرنے سے روکا جاتا ہے، اسکے راستے میں بند باندھے جاتے ہیں، تو لامحالہ طور پر اس کے وہی نتائج نکلتے ہیں جو ہمارے معاشرے میں نظر آرہے ہیں۔ ہمارے یہاں جنسی ضرورت کو شادی کے ساتھ نتھی کردیا گیا ہے، اور شادی کے بغیر جنسی تعلق کو گناہ اور بہت ہی برا کام سمجھا جاتا ہے۔ جنسی ضرورت کو شادی کے ساتھ منسلک کرنے کی وجہ سے بے شمار مسائل پیدا ہوئے ہیں، جن میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب تک کسی کی شادی نہیں ہوجاتی تب تک وہ کھل کر اپنی جنسی ضرورت پوری نہیں کرسکتا۔ مدرسوں میں یہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات اس لئے زیادہ ہیں کیونکہ مولوی کو سب سے زیادہ جنسی گھٹن کے ماحول میں رکھا جاتا ہے، کالجز اور یونیورسٹیز میں تو پھر لڑکے لڑکیاں آپس میں بات چیت کرلیتے ہیں، ایک ساتھ بیٹھ لیتے ہیں، مگر مدرسوں میں تو مولوی کو عورت کی جھلک تک نہیں دکھتی، اس لئے مدرسوں میں لڑکے آپس میں ہی لگے رہتے ہیں اور چھوٹے بچے اکثر بڑے بچوں کے مفعول کے طور پر استعمال ہوتے رہتے ہیں، میڈیا پر آنے والے کیسز تو بہت ہی کم ہیں، مدرسوں میں بچوں کے ساتھ زیادتی تو ایک روٹین کی چیز ہے۔۔
تیرہ چودہ سال کی عمر میں بالغ ہونے والے لڑکے اور لڑکی کو جب شادی کیلئے دس پندرہ سال انتظار کرنا پڑتا ہے تو اس دوران وہ اپنی جنسی ضرورت کیسے پوری کریں؟ اور قبل از وقت شادی ہوجائے تو اس سے مزید مسائل جنم لیتے ہیں، کیونکہ شادی محض جنسی ضرورت پوری کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ بھرپور ذمے داری کا نام ہے۔ اگر پندرہ سولہ سال کی عمر میں لڑکے یا لڑکی کی شادی کردی جائے تو وہ اپنی تعلیم پر توجہ نہیں دے پاتے، اپنا کیرئیر نہیں بناپاتے اور شادی کے مسائل میں الجھ کر اپنی زندگی تباہ کرلیتے ہیں اور نوعمری کی بیشتر شادیوں میں نوبت جلد ہی طلاق تک پہنچ جاتی ہے اور بسا اوقات ان کا ایک آدھ بچہ ہوچکا ہوتا ہے جس کی وجہ سے پیدا ہونے والے بچے کی زندگی بھی تباہ ہوجاتی ہے۔۔
مغرب نے اس مسئلے کو سمجھ کر اس کا بہترین حل نکالا ہے کہ جنسی ضرورت کو شادی سے الگ کردیا ہے۔ شادی انسان تب کرے جب وہ پوری طرح معاشی، سماجی اور ذہنی طور پر خود کو اس پر تیار پائے۔ صرف جنسی ضرورت کیلئے شادی نہ کرے۔ اور جنسی ضرورت کیلئے شادی کو لازم و ملزوم سمجھنا ایک دقیانوسی اور فرسودہ سوچ ہے، ہمیں قدیم زمانوں کی اس بوسیدہ سوچ سے باہر آنا ہوگا۔ مغربی معاشروں کی ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ وہ جنسی فرسٹریشن سے باہر آچکے ہیں، اور ذہنی طور پر ریلیکس ہیں، جب انسان کا ذہن ریلیکس ہوتا ہے تب ہی وہ کوئی تخلیقی کام کرسکتا ہے، ہمارے یہاں جنسی حدودوقیود اس قدر زیادہ ہیں کہ ہر کسی کے ذہن پر عورت اور سیکس کا خیال ہی سوار رہتا ہے اور نتیجے میں پورا معاشرہ سڑاند کا شکار ہوچکا ہے۔
اس مسئلے کی ایک بڑی وجہ ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی جنسی گھٹن ہے۔ بھوک پیاس کی طرح جنسی فعل بھی انسان کی ضرورت ہے اور جب اسے اس ضرورت کو پورا کرنے سے روکا جاتا ہے، اسکے راستے میں بند باندھے جاتے ہیں، تو لامحالہ طور پر اس کے وہی نتائج نکلتے ہیں جو ہمارے معاشرے میں نظر آرہے ہیں۔ ہمارے یہاں جنسی ضرورت کو شادی کے ساتھ نتھی کردیا گیا ہے، اور شادی کے بغیر جنسی تعلق کو گناہ اور بہت ہی برا کام سمجھا جاتا ہے۔ جنسی ضرورت کو شادی کے ساتھ منسلک کرنے کی وجہ سے بے شمار مسائل پیدا ہوئے ہیں، جن میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب تک کسی کی شادی نہیں ہوجاتی تب تک وہ کھل کر اپنی جنسی ضرورت پوری نہیں کرسکتا۔ مدرسوں میں یہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات اس لئے زیادہ ہیں کیونکہ مولوی کو سب سے زیادہ جنسی گھٹن کے ماحول میں رکھا جاتا ہے، کالجز اور یونیورسٹیز میں تو پھر لڑکے لڑکیاں آپس میں بات چیت کرلیتے ہیں، ایک ساتھ بیٹھ لیتے ہیں، مگر مدرسوں میں تو مولوی کو عورت کی جھلک تک نہیں دکھتی، اس لئے مدرسوں میں لڑکے آپس میں ہی لگے رہتے ہیں اور چھوٹے بچے اکثر بڑے بچوں کے مفعول کے طور پر استعمال ہوتے رہتے ہیں، میڈیا پر آنے والے کیسز تو بہت ہی کم ہیں، مدرسوں میں بچوں کے ساتھ زیادتی تو ایک روٹین کی چیز ہے۔۔
تیرہ چودہ سال کی عمر میں بالغ ہونے والے لڑکے اور لڑکی کو جب شادی کیلئے دس پندرہ سال انتظار کرنا پڑتا ہے تو اس دوران وہ اپنی جنسی ضرورت کیسے پوری کریں؟ اور قبل از وقت شادی ہوجائے تو اس سے مزید مسائل جنم لیتے ہیں، کیونکہ شادی محض جنسی ضرورت پوری کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ بھرپور ذمے داری کا نام ہے۔ اگر پندرہ سولہ سال کی عمر میں لڑکے یا لڑکی کی شادی کردی جائے تو وہ اپنی تعلیم پر توجہ نہیں دے پاتے، اپنا کیرئیر نہیں بناپاتے اور شادی کے مسائل میں الجھ کر اپنی زندگی تباہ کرلیتے ہیں اور نوعمری کی بیشتر شادیوں میں نوبت جلد ہی طلاق تک پہنچ جاتی ہے اور بسا اوقات ان کا ایک آدھ بچہ ہوچکا ہوتا ہے جس کی وجہ سے پیدا ہونے والے بچے کی زندگی بھی تباہ ہوجاتی ہے۔۔
مغرب نے اس مسئلے کو سمجھ کر اس کا بہترین حل نکالا ہے کہ جنسی ضرورت کو شادی سے الگ کردیا ہے۔ شادی انسان تب کرے جب وہ پوری طرح معاشی، سماجی اور ذہنی طور پر خود کو اس پر تیار پائے۔ صرف جنسی ضرورت کیلئے شادی نہ کرے۔ اور جنسی ضرورت کیلئے شادی کو لازم و ملزوم سمجھنا ایک دقیانوسی اور فرسودہ سوچ ہے، ہمیں قدیم زمانوں کی اس بوسیدہ سوچ سے باہر آنا ہوگا۔ مغربی معاشروں کی ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ وہ جنسی فرسٹریشن سے باہر آچکے ہیں، اور ذہنی طور پر ریلیکس ہیں، جب انسان کا ذہن ریلیکس ہوتا ہے تب ہی وہ کوئی تخلیقی کام کرسکتا ہے، ہمارے یہاں جنسی حدودوقیود اس قدر زیادہ ہیں کہ ہر کسی کے ذہن پر عورت اور سیکس کا خیال ہی سوار رہتا ہے اور نتیجے میں پورا معاشرہ سڑاند کا شکار ہوچکا ہے۔