Fawad Digital Outreach Team US State Department
پاکستانی سياست ميں مخالفين پر "امريکی کٹھ پتلی" کا الزام عائد کرنا ايک روايتی عمل ہے۔ اس ضمن ميں امريکہ پر عمران خان کی سرپرستی کا دعوی ايک طے شدہ اور مخصوص سوچ اور تاثر کی غمازی ہے جس پر کافی کچھ کہا جا چکا ہے۔
اپنی بات کی وضاحت کے ليے ميں ايک رپورٹ کا اقتتباس پيش کر رہا ہوں جو سال 1999 ميں نواز شريف کی حکومت کے خاتمے کے بعد منظر عام پر آئ تھی۔ يہ رپورٹ صحافيوں کی ايک نجی عالمی تنظيم سی پی جے نے پاکستان ميں موجود عمومی تاثر کی بنياد پر صحافيوں سميت سول سوسائٹی کی راۓ عامہ پر تيار کی تھی۔ يہ بات خاصی دلچسپ ہے کہ اس وقت نواز شريف کو "امريکی کٹھ پتلی" قرار دے کر ان کے بارے ميں بھی انھی مخصوص منفی خيالات کا اظہار کيا جا رہا تھا۔
"نواز شريف کی جانب سے صحافت پر پابندی، اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے ليے انتہائ کوشش ہے۔ ان کی جانب سے حکومت کے ديگر اداروں کو پس پشت ڈال کر ہر قيمت پر وزير اعظم کے اختيارات ميں اضافے کی کوششوں نے انھيں پاکستان کی تاريخ کا طاقتور ترين ليڈر بنا ديا تھا۔ ليکن ان کی ان کوششوں کے سبب وہ ملکی اور غير ملکی سطح پر تنہا ہو گۓ۔ جولائ کے وسط ميں جب (مبينہ طور پر) امريکہ کے ايمہ پر انھوں نے کارگل سے اپنی افواج واپس بلوائيں تو ملکی سطح پر انھيں "امريکہ کی کٹھ پتلی" قرار دے کر شديد تنقيد کا سامنا کرنا پڑا"۔
http://cpj.org/reports/2000/02/pakistan07feb00br.php
اس تھريڈ ميں موجود خيالات پڑھنے سے يہ تاثر ملتا ہے کہ امريکی حکومت اپنی ہی کٹھ پتلی نواز شريف کے اثر کو کم کرنے کی کوشش کی ہے، جو ايک ايسی متضاد دليل ہے جو سازشی کہانيوں کے معيار پر بھی پوری نہيں اترتی۔
تخلياتی دنيا کی غير منطقی اور ايک ناقابل فہم کہانيوں سے ہٹ کر حقیقت کی دنيا ميں امريکی سميت غير ملکی سفارت کار عام طور پر ملک ميں حکومت اور اپوزيشن سميت تمام اہم قائدين سے ملاقاتيں کرتے ہيں۔ چاہے وہ عمران خان ہوں، مولانا فضل الرحمن، نواز شريف يا کوئ اور سياسی ليڈر يہ سفارت کاروں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ مختلف ملکی قائدين، راۓ عامہ سے متعلق اکابرين اور سول سوسائٹی کے ساتھ مسلسل ملاقاتوں کے ذريعے دو طرفہ امور پر خيالات اور نظريات سے ايک دوسرے کو آگاہ رکھيں۔ يہ معمول کی ملاقاتيں خفيہ نہيں بلکہ پہلے سے طے شدہ ايجنڈے کی بنياد پر ہوتی ہيں اس کے علاوہ پاکستانی سفارت کار بھی واشنگٹن ميں سفارت کاری کے اس مسلسل عمل کا حصہ ہوتے ہيں۔
دنيا کے ہر ملک کی حکومت اپنے مفادات اور علاقائ اور جغرافيائ تقاضوں کے تحت اپنی خارجہ پاليسی بناتی ہے اور حکومتی سفير مختلف ممالک میں بات چيت اور ڈائيلاگ کے ذريعے اسی خارجہ پاليسی کا اعادہ کرتے ہيں۔ امريکی سفارت کاروں کی پاکستانی سياست دانوں سے ملاقاتيں اسی تسلسل کا حصہ ہے۔ ليکن اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ امريکہ پاکستان کے انتظامی معاملات ميں دخل اندازی کر رہا ہے اور مختلف فيصلوں پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ پاکستان ميں ايک مضبوط حکومتی ڈھانچہ خود امريکہ کے مفاد ميں ہے۔ ليکن اس حتمی فيصلے کا اختیار پاکستان کی عوام کے ہاتھ ميں ہے کہ پاکستان کی قيادت کا حقدار اور اس رول کے ليے سب سے موزوں کون سا ليڈر ہے۔
فواد ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
[email protected]
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
Jasay keh tumharay naam say zahir hay keh tum paindo ho, tum baat bhee jahiloo ki tarah kar rahay ho, harit ki baat yeh hay keh jo apnay aap ko bara musalman kehta hay, means IK, woh jab England jata hay to apni usi yahoodi biwi kay ghar par rehta hay jis ko us nay talaq di hoi hay, Bachay apnay us kay yahoodan kay pass reh rahay hain, woh Hugh Grants kay sath gulcharay ura rahi hay, Imran ghair mahram aurooton mein uthta behthta hay, wah ji wah, bohat bara Musalman hay, Stay mein janay us nai kitni raqam banai hay,دین کے ٹھیکیدار تمھارے جسے نیم ملوں نے اس ملک کا بیڑا غرق کیا ہوا ہے اسی وجہ سے الله نے تم جیسوں پر زرداری مسلط کیا ہے اول تو عمران کی سابقہ بیوی مسلمان تھی تاہم اگر وہ یہودی بھی ہوتی تو کیا الله نے اہل کتاب سے شادی کی اجازت نہیں دی ؟تم جسے ملوں کو اگر گرین کارڈ کی حصولیت میں گھر سے رشتہ بھی دینا پڑے تو ضرور دو اور یہ کہ تم سلفی ہو یا مسلمان ذرا اپنا تعارف ہی کروا دو ؟
اور اگر کوئی اور لیڈر تمہارے پیمانے سے محب وطن ہے تو ہمیں بھی بتا دو ؟
Thank for your information mr.Salafi ! We really don,t now so much,,,,,,,,,,But still we love him..............He is not hungry,,not coward,,very sincere,,,,,,,,,,,,No one leader can reach in Pakistan,,,,,,,,so if all the above which u said still we love him.....We had experience of so called religious , and others but now we have to do some experience more ................must be Imran Khan.تمام ااحباب ضبط و تحمل سے حق اور سچ کو پرکھیں
الطاف حسین اور عمران خان کی سوچ ایک جیسی ہے
اس میں کوئی شک نہیں ۔
فرق صرف اتنا ہے کہ الطاف حسین پاکستان کا کھلا دشمن ہے اور
عمران خان سلو پوائژن کے طور پر حب الوطنی اور اسلام پسندی کا لبادہ اوڑھ کر شور مچارہا ہے
پاکستان میں کوئی مخلص رہنما کھل کر امریکہ کے خلاف نفرت کا اظہار کرسکتا
اگر کوئی ایسی کوشش کرے تو دوسرے ہی روز امریکی سفیراس کے پیچ کسنے پہنچ جاتی یا جاتا ہے ۔
ایسے حالات میں یہ صاحب کھلے عام امریکہ کے خلاف ڈائلوگ بازی کرتے نظر آتے ہیں
اور امریکہ کے خلاف وہ وہ باتیں کرتے ہیں شاید یہ امریکہ کے سب سے بڑے دشمن ہیں،۔
لیکن امریکہ اورنیٹو کی سپلائی لائن منقطع کرنے کی باتیں کرنے والے عمران خان
اہل ِ پاکستان کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں ۔
امریکیوں نے اس کے ہاتھ میں لکھا لکھایا اسکرپٹ تھما دیا ہے اور اسے یہ بتا یا گیا ہے کہ چل بیٹا
یہ بولتا جا اور اگلی باری تیری ، کیونکہ امریکہ جانتا ہے کہ یہ قوم کسی بھی ایسی سیاستدان کو کبھی قبول نہیں
کرے گی جو دوبارہ انہیں روشن خیالی، لبرل ازم اور امریکہ سپر پاورکا نعرہ لگا کر
اور سب سے پہلے پاکستان کی خود غرضانہ بات کرکے بیوقوف بنانا چاہے گا۔
اسی لئے حب الوطنی اور اسلام پسندی کے لبادے میں یہ نیا کھلاڑی میدان میں لایا گیا ہے ۔
لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی حمایت یافتہ سیستدانوں اور نظام حکومت یعنی نام نہاد جمہوریت
کا دور اب اسی طرح ختم ہونے کے قریب ہے جیسے کبھی دنیا بھر میں چھائی ہوئی روسی مملکت اور اس کا نظامِ دہیریت یعنی کمیونزم مسلمانوں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوچکا۔
ان شاء اللہ
میرے خیال میں پاکستانی قوم کو یہودیوں کے اس داماد سے محتاط رہنا چاہیئے
تمام ااحباب ضبط و تحمل سے حق اور سچ کو پرکھیں
الطاف حسین اور عمران خان کی سوچ ایک جیسی ہے
اس میں کوئی شک نہیں ۔
فرق صرف اتنا ہے کہ الطاف حسین پاکستان کا کھلا دشمن ہے اور
عمران خان سلو پوائژن کے طور پر حب الوطنی اور اسلام پسندی کا لبادہ اوڑھ کر شور مچارہا ہے
پاکستان میں کوئی مخلص رہنما کھل کر امریکہ کے خلاف نفرت کا اظہار کرسکتا
اگر کوئی ایسی کوشش کرے تو دوسرے ہی روز امریکی سفیراس کے پیچ کسنے پہنچ جاتی یا جاتا ہے ۔
ایسے حالات میں یہ صاحب کھلے عام امریکہ کے خلاف ڈائلوگ بازی کرتے نظر آتے ہیں
اور امریکہ کے خلاف وہ وہ باتیں کرتے ہیں شاید یہ امریکہ کے سب سے بڑے دشمن ہیں،۔
لیکن امریکہ اورنیٹو کی سپلائی لائن منقطع کرنے کی باتیں کرنے والے عمران خان
اہل ِ پاکستان کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں ۔
امریکیوں نے اس کے ہاتھ میں لکھا لکھایا اسکرپٹ تھما دیا ہے اور اسے یہ بتا یا گیا ہے کہ چل بیٹا
یہ بولتا جا اور اگلی باری تیری ، کیونکہ امریکہ جانتا ہے کہ یہ قوم کسی بھی ایسی سیاستدان کو کبھی قبول نہیں
کرے گی جو دوبارہ انہیں روشن خیالی، لبرل ازم اور امریکہ سپر پاورکا نعرہ لگا کر
اور سب سے پہلے پاکستان کی خود غرضانہ بات کرکے بیوقوف بنانا چاہے گا۔
اسی لئے حب الوطنی اور اسلام پسندی کے لبادے میں یہ نیا کھلاڑی میدان میں لایا گیا ہے ۔
لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی حمایت یافتہ سیستدانوں اور نظام حکومت یعنی نام نہاد جمہوریت
کا دور اب اسی طرح ختم ہونے کے قریب ہے جیسے کبھی دنیا بھر میں چھائی ہوئی روسی مملکت اور اس کا نظامِ دہیریت یعنی کمیونزم مسلمانوں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوچکا۔
ان شاء اللہ
میرے خیال میں پاکستانی قوم کو یہودیوں کے اس داماد سے محتاط رہنا چاہیئے
Aik fikra likha aap nay aur woh bhi galat. Aap ki kia baat karain.I am 100% agree with u.
I viewed all your posts. I think you are on some agenda. You are not here to learn or teach anything. Anyway, apnay Nawaz Shareef ko kehna,"ab nahi"تمام ااحباب ضبط و تحمل سے حق اور سچ کو پرکھیں
الطاف حسین اور عمران خان کی سوچ ایک جیسی ہے
اس میں کوئی شک نہیں ۔
فرق صرف اتنا ہے کہ الطاف حسین پاکستان کا کھلا دشمن ہے اور
عمران خان سلو پوائژن کے طور پر حب الوطنی اور اسلام پسندی کا لبادہ اوڑھ کر شور مچارہا ہے
پاکستان میں کوئی مخلص رہنما کھل کر امریکہ کے خلاف نفرت کا اظہار کرسکتا
اگر کوئی ایسی کوشش کرے تو دوسرے ہی روز امریکی سفیراس کے پیچ کسنے پہنچ جاتی یا جاتا ہے ۔
ایسے حالات میں یہ صاحب کھلے عام امریکہ کے خلاف ڈائلوگ بازی کرتے نظر آتے ہیں
اور امریکہ کے خلاف وہ وہ باتیں کرتے ہیں شاید یہ امریکہ کے سب سے بڑے دشمن ہیں،۔
لیکن امریکہ اورنیٹو کی سپلائی لائن منقطع کرنے کی باتیں کرنے والے عمران خان
اہل ِ پاکستان کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں ۔
امریکیوں نے اس کے ہاتھ میں لکھا لکھایا اسکرپٹ تھما دیا ہے اور اسے یہ بتا یا گیا ہے کہ چل بیٹا
یہ بولتا جا اور اگلی باری تیری ، کیونکہ امریکہ جانتا ہے کہ یہ قوم کسی بھی ایسی سیاستدان کو کبھی قبول نہیں
کرے گی جو دوبارہ انہیں روشن خیالی، لبرل ازم اور امریکہ سپر پاورکا نعرہ لگا کر
اور سب سے پہلے پاکستان کی خود غرضانہ بات کرکے بیوقوف بنانا چاہے گا۔
اسی لئے حب الوطنی اور اسلام پسندی کے لبادے میں یہ نیا کھلاڑی میدان میں لایا گیا ہے ۔
لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی حمایت یافتہ سیستدانوں اور نظام حکومت یعنی نام نہاد جمہوریت
کا دور اب اسی طرح ختم ہونے کے قریب ہے جیسے کبھی دنیا بھر میں چھائی ہوئی روسی مملکت اور اس کا نظامِ دہیریت یعنی کمیونزم مسلمانوں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوچکا۔
ان شاء اللہ
میرے خیال میں پاکستانی قوم کو یہودیوں کے اس داماد سے محتاط رہنا چاہیئے
Fawad Digital Outreach Team US State Department
پاکستانی سياست ميں مخالفين پر "امريکی کٹھ پتلی" کا الزام عائد کرنا ايک روايتی عمل ہے۔ اس ضمن ميں امريکہ پر عمران خان کی سرپرستی کا دعوی ايک طے شدہ اور مخصوص سوچ اور تاثر کی غمازی ہے جس پر کافی کچھ کہا جا چکا ہے۔
اپنی بات کی وضاحت کے ليے ميں ايک رپورٹ کا اقتتباس پيش کر رہا ہوں جو سال 1999 ميں نواز شريف کی حکومت کے خاتمے کے بعد منظر عام پر آئ تھی۔ يہ رپورٹ صحافيوں کی ايک نجی عالمی تنظيم سی پی جے نے پاکستان ميں موجود عمومی تاثر کی بنياد پر صحافيوں سميت سول سوسائٹی کی راۓ عامہ پر تيار کی تھی۔ يہ بات خاصی دلچسپ ہے کہ اس وقت نواز شريف کو "امريکی کٹھ پتلی" قرار دے کر ان کے بارے ميں بھی انھی مخصوص منفی خيالات کا اظہار کيا جا رہا تھا۔
"نواز شريف کی جانب سے صحافت پر پابندی، اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے ليے انتہائ کوشش ہے۔ ان کی جانب سے حکومت کے ديگر اداروں کو پس پشت ڈال کر ہر قيمت پر وزير اعظم کے اختيارات ميں اضافے کی کوششوں نے انھيں پاکستان کی تاريخ کا طاقتور ترين ليڈر بنا ديا تھا۔ ليکن ان کی ان کوششوں کے سبب وہ ملکی اور غير ملکی سطح پر تنہا ہو گۓ۔ جولائ کے وسط ميں جب (مبينہ طور پر) امريکہ کے ايمہ پر انھوں نے کارگل سے اپنی افواج واپس بلوائيں تو ملکی سطح پر انھيں "امريکہ کی کٹھ پتلی" قرار دے کر شديد تنقيد کا سامنا کرنا پڑا"۔
http://cpj.org/reports/2000/02/pakistan07feb00br.php
اس تھريڈ ميں موجود خيالات پڑھنے سے يہ تاثر ملتا ہے کہ امريکی حکومت اپنی ہی کٹھ پتلی نواز شريف کے اثر کو کم کرنے کی کوشش کی ہے، جو ايک ايسی متضاد دليل ہے جو سازشی کہانيوں کے معيار پر بھی پوری نہيں اترتی۔
تخلياتی دنيا کی غير منطقی اور ايک ناقابل فہم کہانيوں سے ہٹ کر حقیقت کی دنيا ميں امريکی سميت غير ملکی سفارت کار عام طور پر ملک ميں حکومت اور اپوزيشن سميت تمام اہم قائدين سے ملاقاتيں کرتے ہيں۔ چاہے وہ عمران خان ہوں، مولانا فضل الرحمن، نواز شريف يا کوئ اور سياسی ليڈر يہ سفارت کاروں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ مختلف ملکی قائدين، راۓ عامہ سے متعلق اکابرين اور سول سوسائٹی کے ساتھ مسلسل ملاقاتوں کے ذريعے دو طرفہ امور پر خيالات اور نظريات سے ايک دوسرے کو آگاہ رکھيں۔ يہ معمول کی ملاقاتيں خفيہ نہيں بلکہ پہلے سے طے شدہ ايجنڈے کی بنياد پر ہوتی ہيں اس کے علاوہ پاکستانی سفارت کار بھی واشنگٹن ميں سفارت کاری کے اس مسلسل عمل کا حصہ ہوتے ہيں۔
دنيا کے ہر ملک کی حکومت اپنے مفادات اور علاقائ اور جغرافيائ تقاضوں کے تحت اپنی خارجہ پاليسی بناتی ہے اور حکومتی سفير مختلف ممالک میں بات چيت اور ڈائيلاگ کے ذريعے اسی خارجہ پاليسی کا اعادہ کرتے ہيں۔ امريکی سفارت کاروں کی پاکستانی سياست دانوں سے ملاقاتيں اسی تسلسل کا حصہ ہے۔ ليکن اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ امريکہ پاکستان کے انتظامی معاملات ميں دخل اندازی کر رہا ہے اور مختلف فيصلوں پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ پاکستان ميں ايک مضبوط حکومتی ڈھانچہ خود امريکہ کے مفاد ميں ہے۔ ليکن اس حتمی فيصلے کا اختیار پاکستان کی عوام کے ہاتھ ميں ہے کہ پاکستان کی قيادت کا حقدار اور اس رول کے ليے سب سے موزوں کون سا ليڈر ہے۔
فواد ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
[email protected]
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
Fawad Digital Outreach Team US State Department
پاکستانی سياست ميں مخالفين پر "امريکی کٹھ پتلی" کا الزام عائد کرنا ايک روايتی عمل ہے۔ اس ضمن ميں امريکہ پر عمران خان کی سرپرستی کا دعوی ايک طے شدہ اور مخصوص سوچ اور تاثر کی غمازی ہے جس پر کافی کچھ کہا جا چکا ہے۔
۔
فواد ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
[email protected]
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
© Copyrights 2008 - 2025 Siasat.pk - All Rights Reserved. Privacy Policy | Disclaimer|